ہوم << دہلی انتخابات کے نتائج پر بہت سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے! ابوالاعلی سید سبحانی

دہلی انتخابات کے نتائج پر بہت سنجیدگی سے بات ہونی چاہیے! ابوالاعلی سید سبحانی

عام آدمی پارٹی کی ناکامی صرف چند افراد کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ یہ ناکامی دہلی میں فاشزم کے خلاف کھڑے ہر اس فرد کی ناکامی ہے، جو نفرت کے اس ماحول میں ایک متبادل سیاست کا خواب رکھتا تھا۔

عام آدمی پارٹی کی اس ناکامی پر کوئی بھی سنجیدہ فرد خوش نہیں ہوگا، یوگیندر یادو نے درست کہا کہ اس ناکامی سے ہر اس فرد کو دھچکا لگا ہے جو ملک کے سیکولر دستور اور سیکولر سیاست پر یقین رکھتا ہے۔

عام آدمی پارٹی کی ناکامی کی وجوہات پر بات ہونی چاہیے اور کھل کر بات ہونی چاہیے۔

میرے خیال سے عام آدمی پارٹی کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اس کا ان اصولوں سے ہٹ جانا تھا، جن اصولوں کی بنیاد پر یہ پارٹی وجود میں آئی تھی۔

یہ پارٹی 2013 میں جن اصولوں اور نعروں کے ساتھ وجود میں آئی تھی، پارٹی کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ وہی اصول اور نعرے تھے۔ ایک متبادل سیاست، کرپشن سے آزاد سیاست، سماج کے ہر فرد کو ساتھ لے کر چلنے والی سیاست، عام آدمی کی نمائندگی کرنے والی سیاست، اور عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے والی سیاست۔

2014 کے پارلیمنٹ انتخابات میں بی جے پی کی زبردست کامیابی نے عام آدمی پارٹی کے سامنے اس کے اپنے اصولوں اور نعروں کی معنویت پر سوال کھڑے کردیے تھے۔ کیجریوال کا اس وقت سب سے بڑا امتحان یہ تھا کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں اور نعروں پر آگے بڑھے گا یا بی جے پی کے بیانیہ (Narrative ) کا شکار ہوجائے گا۔

میرا ماننا ہے کہ 2015 کے انتخابات کے بعد ہی کیجریوال نے عام آدمی پارٹی کے بنیادی اصولوں اور نعروں کے ساتھ سمجھوتہ کرنا شروع کردیا تھا، اس بات کو دلتوں نے بھی محسوس کیا اور مسلمانوں نے بھی۔

جس دن عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے ذریعہ راجیندر گوتم پر لگائے گئے ہندو دھرم کی مخالفت کے الزام کے نتیجے میں راجیندر گوتم کو اپنی کیبنٹ سے نکال دیا تھا، اسی دن اس نے اپنی سیاست کو کافی کمزور کرلیا تھا، دلت ووٹرس اسی وقت اس سے بددل ہو گئے تھے، اور کیجریوال کے خلاف یہ بیانیہ فروغ پانے لگا تھا کہ وہ اونچی ذات کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

جامعہ موومنٹ، دہلی فسادات اور پھر کورونا مہاماری وغیرہ مواقع پر خود کیجریوال کی جانب سے جو غیرمحتاط رویہ اور غیرمحتاط بیانات سامنے آئے اس نے مسلم سماج کے اندر اس کے سلسلہ میں کافی تحفظات پیدا کردیے تھے، اس کے اثرات گزشتہ دنوں میونسپلٹی کے الیکشن میں صاف طور پر محسوس کیے گئے، اور اس الیکشن کے دوران بھی اس کے خلاف ردعمل کو کسی نہ کسی حد تک محسوس کیا گیا۔

عام آدمی پارٹی کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی کا جو ایجنڈا ہے وہ اسی پر سوٹ کرتا ہے، اس ایجنڈے پر لوگوں کو ووٹنگ کرنا ہوگی تو وہ راست بی جے پی کو کریں گے۔

عام آدمی پارٹی کو یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ صرف فری سیواؤں اور صرف ویلفیئر پالیسیوں سے آپ الیکشن نہیں جیت سکتے، آپ کو سماج میں موجود سیاست کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متبادل بیانیہ دینا ہوگا، ایک متبادل سیاست کھڑی کرنی ہوگی، اور اپنی افادیت اور معنویت ثابت کرنی ہوگی۔

عام آدمی پارٹی کو ایک بڑا نقصان ان الزامات سے بھی پہنچا جو آخری چند ماہ میں شراب گھوٹالے کے نام پر پارٹی کی سنٹرل لیڈرشپ پر لگے۔ اور جن کے چلتے خود کیجریوال کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ عام آدمی پارٹی نے پورا پنجاب الیکشن شراب اور نشے کے خلاف لڑ کر جیتا تھا، اور پھر اسی کے ٹھیکے میں پھنسے اور پھر اسی کو لے کر ان کے خلاف کرپشن چارجز بھی لگے۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کی کرپشن کے خلاف جو امیج بنی ہوئی تھی وہ بری طرح ڈمیج ہوئی۔

عام آدمی پارٹی کو پہلے دن سے جو غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، اور جو تقریباً بارہ سال تک رہی، اس کے بعد اچانک ایسی خطرناک شکست یقیناً پارٹی لیڈرشپ پر ایک آفت سے کم نہیں ہے۔

لیکن بہرحال یہ وقت مایوسی کا نہیں ہے، یہ غوروفکر اور تجزیے کا وقت ہے۔ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر سوچنے کا وقت ہے۔

پارٹی کو چاہیے کہ آنے والے وقت میں اپنی سیاست، اپنے سیاسی بیانیے، اپنی سیاسی اپروچ، اور اپنی سیاسی پوزیشن پر خوب خوب غوروفکر کرے۔ اور ایک نئی طاقت اور ایک نئے حوصلے کے ساتھ دوبارہ میدان میں قدم رکھے۔

یقیناً دہلی کے سیکولر ووٹرس کے لیے بھی، اور بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے لیے بھی، عام آدمی پارٹی اپنے آپ میں ایک امید اور ایک روشنی ہے، فاشزم کے خلاف، نفرت کی سیاست کے خلاف، اور عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف۔