ہوم << مذہبی (نوجوان) طبقے میں الحاد - ڈاکٹر حسیب احمد خان

مذہبی (نوجوان) طبقے میں الحاد - ڈاکٹر حسیب احمد خان

یہ عنوان انتہائی عجیب اور تکلیف دہ ہے مگر کیا کیجیے، وہ الحاد کہ جو ایک دور میں مغرب تک محدود تھا مغرب سے نکل کر استعماری کاندھوں پر سوار مشرق میں آیا پہلے اس نے تجدد پسندی کا جال ڈالا کہیں پر اس نے نیچری طبقے کو پیدا کیا تو کہیں پر انکار حدیث کی آواز لگی اور بتدریج ہمارے معاشروں میں سیکولرزم نے پیر پھیلائے اس کے ساتھ ساتھ لبرل اپروچ نمودار ہوئی.

پھر لبرلزم کے ساتھ فیمینزم ، ہیومنزم اور دیگر لامذہبی افکار و نظریات نے اپنی جگہ بنائی بعد ازاں دور تشکیک آیا اور دور تشکیک کے آخر میں الحاد و دہریت کا اژدہا منہ کھولے اس ضعیف امت کے وجود کو نگلنے کیلیے تیار تھا۔مگر یہ تو کبھی گمان میں بھی نہیں تھا کہ مذہبی طبقے میں الحاد جڑ پکڑ لے گا ہمارے مدارس سے ملحدوں کو کمک مل جائے گی ہر گزرتے روز کہیں سے کسی کی کال آتی ہے کہ فلاں مذہبی ادارے سے منسلک دہریت کی طرف چلے گئے ، فلاں طالب علم سیکولر ہوگیا ، فلاں صاحب الحاد سے متاثر ہوگئے اور ایسےدل جلا دینے والے اخبار ہر اس شخص کو موصول ہو رہے ہیں کہ جو اس شعبہ میں کسی نہ کسی درجے میں کام کررہا ہے۔

گزشتہ دنوں ایسی ہی کچھ خبریں شیخ یاسر ندیم الواجدی صاحب سے سننے کو ملیں. شیخ صاحب رد الحاد کے شعبے کا ایک بڑا نام ہیں ، پھر اسی طرح کی بات ابو بکر قدوسی صاحب نے بیان فرمائی، شیخ اہل حدیث مکتب فکر کی ایک بڑی شخصیت ہیں۔غور کرنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ہم اپنی اس تحریر میں اختصار کے ساتھ ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو مذہبی طبقے میں تشکیک ، الحاد اور دہریت کی ترویج کا سبب بن رہی ہیں۔ ایک زمانے میں الحاد و دہریت کا دائرہ اثر ادبی حلقوں اور یونیورسٹی کالج تک محدود تھا مگر ایسا کیا ہوا کہ یہ ہمارے گھروں اور ہمارے قلعوں تک آگیا۔

اگر یہ کہا جائے کہ مذہبی نوجوان خاص کر مذہبی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان کو الحاد کی جانب سوشل میڈیا نے دھکیلا ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ جی ہاں سوشل میڈیا اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ، مذہبی طبقے کو سوشل میڈٰیا سے متعارف ہوئے دس ایک سال گزرے ہیں اور اسی دس ایک سال کے دورانیے میں الحاد و دہریت نے اپنے پیر پھیلائے ہیں۔سوشل میڈیا پر آنے والے مذہبی طبقے کو الحاد و دہریت نے کیسے جکڑ لیا . اگر اس بات پر غور کیا جائے تو دو بنیادی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔
1.اول اندرونی کمزوری
2.دوم بیرونی عوامل

اندرونی کمزوری سے کیا مراد ہے ؟
یہ ایک انتہائی مشکل عنوان ہے اپنی کمزوری کو پہچان لینا اور اس کے تدارک کی کوشش کرنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی اس حوالے سے تنبیہ کرے تو ہم رد عمل کا شکار ہو کر اس تنبیہ کرنے والے کے مخالف ہو جاتے ہیں لیکن اس کا نقصان خود ہمیں ہی ہوتا ہے۔

1 .مقصدیت کا فقدان
مذہبی اداروں کے طلباء سے تعلق اور ان اداروں میں محاضرات کی ترتیب مجھے انتہائی محبوب رہی ہے میری نگاہ میں یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے دین کو کسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھا ہوا ہے اس میدان میں اس طبقے کی قربانیاں بے شمار ہیں دور استعمار سے لے کر آج تک ہر ہر میدان میں کہیں پر تحریک ریشمی رومال کی شکل میں ، کہیں تبلیغ کے راستے سے کہیں عقائد باطلہ کے رد کے میدان میں کہیں ختم نبوت ﷺ کی محنت میں مذہبی طقبے نے ہمیشہ صف اول میں جاکر اپنی جانوں کو قربانی کیلیے پیش کیا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ ہم میں مقصدیت کا یہ فقدان کیسے پیدا ہوا؟مختلف دینی اداروں میں دور جدید کے لامذہبی افکار کے حوالے سے محاضرات پیش کرتے ہوئے میں نے متعدد نوجوان علماء سے یہ سوال کیا کہ مستقبل میں آپ کو کیا بننا ہے۔ اور آپ کو حیرت ہوگی کہ کسی کو یوٹیوبر بننا تھا ، کسی کو کالم نگار بننا تھا ، کسی کو صحافی بننا تھا ، کوئی میڈٰیا پر آنا چاہتا تھا کسی کو فلسفی کسی کو ادیب کسی کو مفکر و مدبر بننا تھا مگر افسوس! سوائے معدودے چند کسی کو متکلم ، کسی کو فقیہ ، کسی کو محدث ، کسی کو محقق ، کسی کو مفسر ، کسی کو مورخ ، کسی کو داعی ، کسی کو متصوف نہیں بننا تھا۔ ہم اپنے نوجوانوں کو علوم تو ضرور سکھا رہے ہیں مگر مقصدیت نہیں سکھا رہے۔

2.روحانیت کا فقدان
کسی زمانے میں ہر مدرسہ کسی نہ کسی بزرگ شخصیت سے منسلک تھا اور یہ ضروری نہیں کہ تصوف کے دائرے سے ہی منسلک ہو بلکہ ہر ادارے میں کچھ ایسے بڑے شیوخ ہوا کرتے تھے کہ جن کی صحبت میں رہ کر روحانی بالیدگی حاصل ہوا کرتی تھی اور انسان باطنی حوالوں سے ترقی کرتا تھا پھر بتدریج ایسی شخصیات دنیا سے جاتی چلی گئیں اور ان کے ساتھ روحانیت بھی جاتی رہی اور اس کی جگہ مادیت نے اپنے پیر پھیلانے شروع کردیے۔

3.دینی تعلیم کا ارزاں ہو جانا
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ عالم بننا ہر کسی کی دسترس میں ہوگیا اور معیار قائم نہ رہا ، ہر سال ہزاروں علماء فارغ ہوتے ہیں اور معاشرے میں ان کی کھپت نہیں ہوتی اب وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ریاست اپنے اسلامی آئین کے باوجود بحیثیت مجموعی مذہبی نہیں نہ ہی معاشرہ بحیثیت مجموعی مذہبی ہے تو وہ مقام جو علماء کو ملنا چاہیے تھا آخر وہ کیسے حاصل ہو پاتا!نوجوان علماء کی ایک بڑی تعداد اس مخمصے میں ہوتی ہے کہ معاش کہاں سے حاصل کریں گے معاشرے میں ہمارا کیا مقام ہوگا ہمیں کہاں پر جگہ ملے گی چونکہ مقابلہ انتہائی سخت ہے اسلیے بہت کم لوگوں کو جگہ مل پاتی ہے اور زیادہ صلاحیت والے یا پھر زیادہ تعلقات والے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

اب ہم جائزہ لیں گے بیرونی عوامل کا .... بیرونی عوامل میں سب سے پہلے سوشل میڈیا ہے یہاں پر میں ایک اجمالی خاکہ پیش کرتا ہوں تاکہ صورتحال واضح ہو سکے۔ سوشل میڈیا خاص کر فیس بک کبھی میری دلچسپی کا میدان نہیں رہا اس جانب مجھے ایک عالم دین نے متوجہ کیا سوشل میڈیا سے باہر ادبی اور مذہبی ہر دو حلقوں میں میری بیٹھک تھی ان عالم کے متوجہ کرنے پر میں اس کوچے میں آیا اور مقصود ادبی حلقوں سے اٹھنے والی تحریک کے الحاد کا سامنا کرنا تھا۔

چونکہ میرا میدان شعر و ادب رہا ہے اسلیے سوشل میڈیا پر ان حلقوں تک آسانی سے رسائی ہوگئی. اس دور میں چند اور احباب بھی اس حوالے سے کام کررہے تھے تو ان کے ساتھ مل کر کام شروع کیا ، مختلف گروپس میں ملحدوں اور دہریوں سے مکالمے و مناظرے ہوئے اور مذہب کا مقدمہ پیش کرنے کی سعادت ملی۔یہاں پر مجھے یہ ادراک ہوا کہ سوشل میڈیا پر الحاد و دہریت کو باقاعدہ اور منظم طریقے سے پھیلایا جا رہا ہے اور اس کا ٹارگیٹ مسلم نوجوان ہے یہی وہ دور تھا کہ جب مذہبی طبقے خاص کر مدارس سے نکلنے والے نوجوان علماء کی سوشل میڈیا تک رسائی ہوئی اور براہ راست ان کا واسطہ ایک تشکیکی ذہن اور مغربی فکر سے پڑا .

ان کی اب تک کی تعلیم مذہبی دائروں میں فرق باطل کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے تھی لیکن الحاد و دہریت ان کیلیے ایک نئی چیز تھی اپنی مذہبی تعلیم کی بنیاد پر انہیں یہ مغالطہ ہوا کہ اس میدان میں بھی وہ کامیابی سے اپنے جھنڈے گاڑ دیں گے مگر
اَے بَسا آرْزُو کہ خاک شُدَہ
خود ان کا ایمان خطرے میں پڑ گیا اور ملحدوں سے مباحثہ کرتے کرتے وہ خود تشکیک کا شکار ہونے لگے۔

سوشل میڈیا آپ کو کیسے گھیرتا ہے اور الحاد کی طرف لے جاتا ہے؟
اس کے مختلف دائرے ہیں سوشل میڈیا پر الحادی دوکانیں مختلف عنوانات کے تحت کھلی ہوئی تھیں کہیں پر ادب کا عنوان تھا تو کہیں کالم نگاری و صحافت کی ترغیب تھی کہیں پر فلسفی بننے کا شوق اور کہیں پر کوئی مالی مفاد یا پھر صرف شہرت کی طلب۔یہ دنیا ہمارے نوجون علماء کیلیے ایک نئی دنیا تھی مدرسے کی بند دیواروں سے نکل کر اچانک آپ کے سامنے دولت و شہرت کے دروازے کھول دیے جائیں تو آپ پر اس کیا کیا نہیں اثر ہوگا!

سوشل میڈیا پر نوجوان علماء کو باقاعدہ ٹارگیٹ کیا گیا خاص کر ادب کی آڑ میں کہیں پر سیمینارز ہوئے کہیں کانفرنسوں کی ترتیب بنی شہرت کے ساتھ ساتھ مخلوط محافل صنف مخالف سے تعلق بننے کی اشتہاء و ترغیب ایک گروہ نے باقاعدہ با صلاحیت نوجوان علماء سے دوستیاں لگائیں ان کے ساتھ بیٹھکیں ہوئیں کہیں چائے کے ہوٹلوں پر تو کہیں یونیورسٹیوں کی غلام گرشوں میں کہیں پر ملکی و بیرونی ٹوورز کروائے گئے بتدریج اس محنت کو آگے بڑھایا گیا اور آہستہ آہستہ ذہن سازی کرکے ہمارے گھروں اور ہمارے اداروں میں نقب لگائی گئی۔

سوشل میڈیا کا دشت ویران اور شہرت کا سراب
سوشل میڈیا پر دو بڑے فتنے ہیں پہلا شہرت کے بازار حسن تک با آسانی رسائی اور دوسرا اظہار کی بے راہ رو آزادی۔
آپ کی دوستی فہرست میں گھر بیٹھے اچانک پانچ ہزار لوگوں کے شامل ہونے کی گنجائش بن جائے ، بہت سے لوگ آپ کو فالو کرنے والے ہوں ، کوئی آپ کو شیخ بنائے کوئی مرشد بنائے تعریف کی بے جا افراط کسی بھی انسان کو پٹٹری سے اتارنے کیلیے کافی ہوا کرتی ہے پھر مختلف چھوٹے اخباروں اور ویب سائٹوں تک رسائی ملی اس کے بعد بتدریج ٹک ٹاک آیا یوٹیوبر بننے کا خبط سوار ہوا تو کون تھا کہ اپنا دامن جلتی اس ہوئی آگ سے بچا پاتا۔

دوسرا فتنہ تھا اظہار کی بے راہ رو آزدی
جو چاہو بولو
جیسے چاہو بولو
جس کو چاہو بولو
جہاں چاہو بولو
جب چاہو بولو

ایسے میں سب سے پہلے ادب گیا
ابتدائی درجے میں اکابرین کا ادب گیا
پھر تاریخی شخصیات کا ادب گیا
پھر دینی تعبیرات اور شعائر کا ادب گیا
پھر مذہبی رسومات کا ادب گیا
پھر اسلامی کے بنیادی مصادر کا ادب گیا
اور آخر میں الحاد نے دلوں کو اپنے قبضے میں لے لیا
افسوس صد افسوس

اسی طرح مدرسے سے متنفر نوجوانوں کی ایک پود سامنے آئی .ابتداء میں میں گمنام آئی ڈیوں سے یا قلمی ناموں سے ان لوگوں نے مدارس ، علماء اور پھر اسلام کا ہی مذاق اڑانا شروع کردیا. یہ بدترین قسم کے ٹرول بن کر ابھرے. کسی کی عزت کسی کا احترام کسی کی وقعت ان کے سامنے کچھ نہ تھی.ایسے آوارہ گردوں کو ملحدوں کے ہرکاروں نے گھیرا ، ان کے ساتھ دوستیاں لگائیں ، ان سے ملاقاتیں کیں ، انہیں دلاسے دیے اور ایک عجیچ طوفان بدتمیزی کھڑا ہوگیا۔

لیکن یہ ایک عبوری دور تھا اس کے بعد یہ نوجوان کھل کر سامنے آنے لگے انہوں اس بات کی فکر نہ رہی کہ کوئی انہیں پہچان لے گا آہستہ آہستہ لباس بدلے ڈاڑھیاں صاف ہوئیں پھر افکار بدلے اطور بدلے اور آخر کار دل کی دنیا ہی بدل کر رہ گئی۔ ایک طبقہ کہ جو کچھ سنجیدہ تھا اسے ظاہری علمیت کے جھانسے میں کچھ فلسفہ زادوں نے متاثر کیا اور فلسفیانہ اوہام و افکار ان پر کچھ اس طرح مسلط ہوئے کہ معتزلہ جدید کی ایک پوری جماعت ابھر کر سامنے آگئی۔یہ داستان بہت طویل ہے اور اس کا بیان انتہائی دلدوز اور غم انگیز ہے. تو اب کیا ، کیا جائے ؟اپنی اصل کی جانب پلٹنے کی تحریک چلائی جائے ہم کون ہیں ، ہم کس لیے دین کا علم حاصل کررہے ہیں ، ہمیں کیا کرنا ہے!

سوشل میڈیا ہمارا گھر نہیں ہے ، یہ دوستیاں لگانے کی جگہ نہیں ہے ، یہ دعوت کا میدان ہے ، اظہار کی حدود متعین کیجیے ، اپنے نفس کو تنبیہ کیجیے اور اس میدان سے باہر کسی دینی جماعت اور ہیت کا حصہ بنیں. اور اگر ممکن ہو تو اہل اللہ سے ربط قائم رکھیں، اپنے عقیدے ، اپنے علوم اور اپنے روایتی ورثے کی اہمیت کا ادراک کریں. اس میں مہارت حاصل کریں اور خاص طور پر سوشل میڈیا کی آوارہ محافل دور رہیں ، اور اس میڈیم پر ہمیشہ اجنبی بن کر رہیں کہ اجنبیت میں ہی خیر ہے۔

حدیث رسول ﷺ ہے،
بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَاَ‘ فَطُوْبَی لِلْغُرَبَائِی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسلام کے آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے۔“

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment