سینیٹر پروفیسر ساجد میر رحمہ اللہ کیساتھ سب کی یادیں ہیں ۔ ایک ادارے میں پندرہ سال ان کی سرپرستی رہی تو بہت سے ایسے لمحات جو اب یادیں بن رہے ہیں ۔ پیغام ٹی وی ورکنگ اور جماعت کے سوشل میڈیا کے حوالے سے میٹنگز و رہنمائی ، لیکن سب سے بڑھ کر وہ لمحات کہ جب ان کے ہمراہ کرنے کی سعادت ملی ۔
کتنی خوش نصیبی کہ آپ ایک ایسی شخصیت کے واحد ساتھی ہوں جن کے ساتھ گزرنے والا ایک ایک لمحہ زندگی بھر کی سعات بن جائے ۔ یہ سفر کچھ ایسا مبارک کہ جب امام الحرمین الشریفین آپ کے میزبان ہوں ۔ پیغام ٹی وی کی حرمین الشریفین کے آڈیٹوریم میں منعقد ہونیوالی اس تقریب میں شرکت کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ جب سب مہمانان گرامی کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تو امام الحرم خود اٹھے۔ الشیخ السدیس خود اٹھ اٹھ کر مہمانوں کے پلیٹوں میں چاول اورگوشت وغیرہ ڈالتے رہے، کہ کچھ کھانا میری طرف سے بھی۔اس دورے میں سینیٹر پروفیسر ساجد میررحمہ اللہ جناب حافظ سلمان اعظم صدر اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے مہمان تھے ۔
پروفیسر ساجد میررحمہ اللہ کسی ہوٹل میں قیام کی بجائے ان کے گھر میں ٹھہرے ۔ انہیں واپسی کی جلدی تھی کیونکہ تراویح پڑھانی تھی ۔ اسی دن سعودیہ میں رمضان المبارک کا اعلان ہو گیا تو امیر محترم نے خواہش کا اظہار کیا کہ طائف جانا ہے ۔وہ میقات سے احرام کرکے رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ سلمان اعظم بھائی کا شکریہ کہ مجھے بھی یہ سعادت حاصل کرنے کا موقع دیا ۔
امیر محترم کے ساتھ طائف کا یہ سفر انتہائی یادگار رہا۔ اس دوران امیر محترم کی دعائیں اور نصیحت آموز باتیں سننے کا موقعہ ملا ۔ خوشگوار لہجے میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہوتی رہی۔ رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا تھا اور طائف کی طرف سے میقات پر بہت زیادہ رش تھا۔امیر محترم اور میں نے احرام باندھے ۔ واپسی پر امیر محترم نے کہا کہ سنا ہے یہاں کی خوبانی کافی مزیدار ہوتی ہے ۔ وہ لیکر کھائی ۔ مکہ مکرمہ پہنچے ، امیر محترم اور میں مسجد الحرام پہنچے ۔ اب مجھے وہ سعادت بھرے لمحے نصیب تھے ۔ جو مجھے تو یاد رہنے ہی تھے لیکن امیر محترم نے بھی ہمیشہ یاد رکھے ۔ یکدم رمضان المبارک کا رش ، اسی دوران واش روم استعمال کرنے کے لئے باہر آنا پڑا اور واپسی پر راستے بند ۔
مشکل حالات تھے لیکن امیر محترم بلند حوصلہ ۔عمرہ مکمل ہوا حجام کے پاس گئے تو اس نے امیر محترم کو تو بزرگی کے باعث جلد فارغ کر دیا جبکہ میری باری لیٹ تھی۔ میری کوشش تھی اور درخواست بھی کہ آپ کی فلائیٹ ہے آپ جلد چلے جائیں لیکن انتظار کرتے رہے بلکہ مسکراتے ہوئے جملہ تھا کہ اب اکھٹے ہی جائیں گے ۔ خیر انتہائی رش کے باوجود ٹیکسی لیکر سلمان بھائی کے گھر پہنچے ۔ ائیر پورٹ سے لیٹ ہوئے لیکن آخر کار کافی تگ و دو کے بعد فلائیٹ مل گئی ۔ اگلے دن پاکستان میں پہلی تراویح کی امامت کی ۔ بعدازاں کئی مواقع پر اس عمرے کا تذکرہ فرماتے ۔ دفتر میں کئی میٹنگز کے دوران کھانا آجاتا ۔ سب کو دعوت دیتے ۔ ہر کوئی ہچکچاتا ۔ تو مجھے فرماتے کہ تم تو کھا لو تم میرے عمرے کے ساتھی ہو۔ خیر یہ ان کی ذرہ نوازی تھی اور میری زندگی کی ایک یادگار ۔
جب بیرون یا اندرون ملک دورے سے تشریف لاتے تو آتے ہی سب سے پہلا فریضہ یہ ادا کرتے کہ پیغام ٹی وی اور جماعت کے اکاونٹس والوں کو بلاتے ۔ میں بھی کئی مرتبہ گیا ۔ امانتیں پہنچانے کے لئے۔ الگ الگ کرکے رکھی ہوتیں ۔ پرچیاں لکھ کر۔ ایک ایک نکالتے ، یہ پیغام ٹی وی کے لئے فلاں نے دئیے ہیں اور یہ جماعت کے لئے ۔ سب سے پہلے یہ ذمہ داری ادا کرکے پھر پرسکون ہوکر باقی حال احوال پوچھتے ۔ امانتیں پہنچا کر ، پھر ایک مسکراہٹ ہوتی اور سب کے لئے بہت سی اپنائیت بھری باتیں ۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک بار امیر مرکزیہ پروفیسر ساجد میر کی سینٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کے دفتر میں خوشی کا سماں تھا ۔ جماعتی سوشل میڈیا ذمہ داریوں کے باعث مجھے بھی ان خوشگوار لمحات میں وہاں موجودگی موقعہ ملا ۔
اتنے میں امیر محترم نے ناظم دفتر کو بلا کر چند ہدایات دیں ۔ پروفیسر صاحب کے یہ چند الفاظ انتہائی حیرت انگیز تھے ، خصوصا میرے لئے ۔امیر محترم ناظم دفتر کو انتخابی اخراجات کے گوشواروں کے کاغذات جمع کرانے سے متعلق ہدایات دے رہے تھے ۔ یہ ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے ۔انہوں نے جو اخراجات بتائے وہ چند کاغذات کی فوٹو کاپی ، فون کالز اور الیکشن کمیشن آنے جانے کے لئے خرچ ہونیوالے فیول کے متعلق تھے۔ ذرا تصور کریں کہ جب ملک میں سینٹ الیکشن کے لئے کروڑوں خرچ کرنے کے تذکرے میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوں۔
اس وقت بلوچستان میں حکمران جماعت کا ایک ٹکٹ ہولڈر کسی سیٹھ کے مقابلے میں ہار چکا تھا ۔ اور ایک سینیٹر اپنے اخراجات چند سو ظاہر کر رہا ہوتو آپ کو حیران ہونا چاہیے کہ نہیں ۔ ایک حیرت مجھے اس وقت بھی ہوئی کہ جب سینٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد وہ پنجاب اسمبلی سے باہر آئے۔ ڈرائیور نے اطلاع دی کہ گاڑی ایک ایسی جگہ پارک ہے کہ جہاں سے نکلنا انتہائی مشکل۔ تو وہ اپنی گاڑی کا انتظار کرنے کی بجائے ایک کارکن کی گاڑی میں وہاں سے روانہ ہوئے۔ یہ گاڑی ان درجنوں گاڑیوں کے قافلوں سے گزری جو منتخب سینیٹرز کو جلوس کی شکل میں واپس لیجانے کے لئے وہاں موجود تھے۔
حالیہ سینیٹ الیکشن میں میرے لئے ایک اور اعزاز نصیب ہوا ۔ اس بار انتخابات سے متعلق تمام کاغذات مجھے بطور گزیٹڈ آفیسر تصدیق کرنے کا موقع ملا ۔ جب ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہونا تھا تو کئی رہنما ساتھ تھے ۔ چند دستاویزات پر سائن ہونے تھے ۔ ریٹرننگ آفیسر نے اپنے سامنے صرف ایک کرسی رکھی تھی جس پر امیر محترم بیٹھے تھے ۔ جب مجھے سائن کرنے کا کہا گیا تو ٹیبل پر جھک کر کرنے لگا ۔ کافی زیادہ کاغذات تھے۔ لیکن اچانک امیر محترم کرسی سے اٹھے مجھے کہا کہ تم بیٹھ کر آرام سے سائن کر دو۔ سب کھڑے تھے لیکن مجھے بٹھا دیا ۔ جو وہاں سب چھوٹا بھی تھا اور سب سے جونئیر ۔ خیر یہ مرحلہ بخیریت انجام پہنچا تو باقاعدہ شکریہ ادا کیا ۔ میں تو صرف اتنا کہہ سکا کہ امیر محترم یہ تو ایک زندگی کا اعزاز ملا ہے ۔ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی اور اپنائیت ۔ سادگی اور بس۔
مسلم لیگ کے سینیٹر پرویز رشید نے ایک بار مدارس کے خلا ف بیان دے دیا ۔ یہ بات امیر محترم تک پہنچ گئی ۔ بہت اہم مواقع پر فون کرتے اور کتنے سادہ الفاظ " ساجد میر بول رہا ہوں" ۔ نمبر محفوظ نہ ہو تو شائد یقین تک نہ آئے کہ اتنی سادگی سے بات کرنے والی کون " عظیم شخصیت " ہے ۔ مجھے خبر کا پوچھا اور پھر جملہ بولا ۔ " میری طرف سے اس کی شدید مذمت کرو ۔ اور جتنے مرضی سخت الفاظ میری طرف سے لکھ دو"۔ یہ ان کا اعتماد تھا ۔ ظاہر ہے یہ بیانات میڈیا اور ہر جگہ جاتے ۔
جرات و بہادری اور بے باکی کے تو کئی واقعات ہیں ۔ گزشتہ دور حکومت میں وزیر اعلی شہباز شریف نے "حقوق نسواں ایکٹ" کے نام سے ایک ایسی قانون سازی کی کوشش کی جس پر دینی جماعتوں کو اعتراض تھا ۔ شہباز شریف نے دینی رہنماوں اور علماء کرام کو میٹنگ کے لئے مدعو کیا ۔ جب سب علماء نے کافی سخت موقف اختیار کیا تو شہباز شریف نے پروفیسر ساجد میر صاحب کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھا اور کہا کہ آپ تو ہمارا ساتھ دیں ۔ امیر محترم نے واضح طور پر کہا کہ اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں بلکہ علماء کرام کے ساتھ کھڑا ہوں ۔ جنرل باجوہ کے متعلق بیان تو عالمی شہرت رکھتا ہے ۔
اعلی ترین سطح پر دو بڑے افسران سینٹ آفس میں آئے ۔ ماحول یہ کہ پورے پارلیمنٹ لاجز کو جیسے خالی کرا لیا ہو ۔ وہ آ رہے تھے جن کے نام سے لوف ڈر جاتے ہیں ۔ اپنے ڈرائیو کو بس اتنا کہا کہ ادویات اور کچھ کپڑے رکھ لینا شائد وہیں سے ان کے ساتھ جانا پڑ جائے ۔ انہوں نے وضاحت دی اور مطالبہ تھا کہ بس یہ بتا دیں کہ بیان کس کی بریفنگ پر دیا ہے ۔ پوری جرات سے ایک ایسے بزرگ عالم دین کی خاطر سارا پریشر اپنے اوپر لیا کہ جو اپنی جماعت اور مسلک کے بھی نہیں تھے ۔ جنرل مشرف کے خلاف واحد ووٹ تو عالمی شہرت اختیار کر گیا ۔
سیاسی مصروفیت شائد ان کی زندگی کا معمولی سا حصہ تھا ۔ ان کی زندگی تو جیسے قرآن پاک کی تلاوت کے لئے وقف ہو ۔ تراویح سب سے بڑی مصروفیت ۔ ان کاجملہ ہم ہر رمضان المبارک میں سنتے جب کوئی کسی تقریب جلسے یا میٹنگ کے لئے کہتا حتی کہ سینٹ ۔ فرمایا کرتے کہ میرے پاس رمضان المبارک میں صرف دو چیزوں کے لئے وقت ہے " قرآن اور پیغام " ۔ ہر سال ان کے ساتھ ایک رات کی ٹرانسمیشن ہوتی جو کہ اگلے سال تک کے لئے یادگار بن جاتی ۔ چیئرمین پیغام ٹی وی ڈاکٹر حافظ عبدالکریم بھی شریک ہوتے اور گویا یہ ایک یادگار رات بن جاتی ۔ سب کو فکر ہوتی کہ گھنٹوں پر مشتمل اس ٹرانسمیشن میں تھک گئے ہوں گے ۔
لیکن وہ آدھی رات کو جب ٹرانسمیشن مکمل ہوتی تو چیف آپریٹنگ آفیسر حافظ ندیم احمد کا شکریہ ادا کر رہے ہوتے اور پھر پوری ٹیم کا ۔ مسکراتے چہرے کیساتھ گروپ فوٹو ہوتی ۔ ان کی زندگی عبادت گزاری ، مطالعے ، تبلیغ اور جماعت کے لئے دن رات انتھک محنت کا نام ہے۔ سب برداشت کرنا ، تلخ اور غیر اخلاقی باتوں کو بھی ۔ کچھ کے بارے تو بس اتنا کہتے کہ ان کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے ۔ قیامت کے دن ان سے بدلے میں نیکیاں لیں گے ، زندگی میں کوئی جواب نہیں ، کوئی ایک تلخ جملہ نہیں ۔
وفا نبھانا ، قدر کرنا اور ساتھ دینا تو کوئی ان سے سیکھے ۔ ہم نے کئی مرتبہ ہدایات سنیں کس کارکن ، کس عالم دین ، کسی مرحوم ، کسی پرانے ساتھی کے بچوں تک تحائف اور نقدی پہنچانی ہے ۔ حتی کہ کئی لوگ جو بجلی کے بل تک کا کہہ دیتے اور وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ۔ سیالکوٹ میں آبائی زمین جو اب شہر کے بیچ ہے ۔ اربوں کی پراپرٹی اور اسی طرح خاندانی درجنوں ملکیتی دکانیں ۔ لیکن یہ سب وقف ہے ، ڈسپنسری کے لئے ، روزانہ کے دسترخوان ، مسجد کے اخراجات اور کئی گھرانوں کی امداد کے لئے ۔
پندرہ برس کی رہنمائی ہے اور بہت سی یادیں ۔ ان کے لئے گواہی دینے والے لاکھوں ہیں ۔ ان کے ساتھی ۔ ہم تو بس ان یادوں میں جی رہے ہیں جو ایک عظیم شخصیت سے جڑی ہیں ۔عوام الناس سے ان کی محبت کیسی تھی ، اس کا اظہار تو وہ پورے شہر میں پھیلا جنازہ تھا جن آہوں ، سسکیوں میں انہیں رخصت کیا گیا ۔ جن کی عبادت گزاری ، نیکی ، تقوی اور ایمانداری کی گواہی بزرگ شیوخ ، علمائے کرام دے رہے ہوں ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو " اس عہد میر میں جیتے رہے" اور یہی ہماری زندگی کا اعزاز ہے ۔
تبصرہ لکھیے