ہوم << عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ - ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ - ڈاکٹرمحمد مشتاق احمد

عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔ اس عذر خواہی پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

عدت سے مراد
حسن صاحب ابتدا میں فرماتے ہیں :
”شریعت کی اصطلاح میں ’عدت‘ سے مراد وہ مدت ہے،جس میں بیوی شوہر کی طرف سے طلاق یا اُس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔“
حسن صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا کریں کہ آگے کی بحث میں وہ اسے بھول جاتے ہیں۔

عدت کا سبب، علت یا حکمت؟
اس درست بات سے آغاز کے فوراً بعد حسن صاحب ایک غلط دعوی کر بیٹھتے ہیں اور اس قطعیت کے ساتھ کرتے ہیں کہ پڑھنے والا، اگر عقل استعمال نہ کرے، تو فوراً ہی اس پر ایمان لے آئے۔ فرماتے ہیں: ” یہ مدت اِس لیے مقرر کی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے اور بچے کے نسب کا معاملہ مشتبہ نہ رہے۔“
یہ بات اگرچہ قطعیت کے ساتھ کہی گئی ہے، لیکن یہ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ عدت”صرف“ اس لیے نہیں مقرر کی گئی، بلکہ اس کے مقرر کرنے میں کئی اور حکمتیں بھی ہیں۔

دوسری اہم اصولی غلطی یہ ہے کہ حسن صاحب نے ”سبب“، ”علت“ اور ”حکمت“ کے درمیان فروق کو نظر انداز کیا ہے۔ خیر، اگر وہ اور ان کے استاذ گرامی ”سنت“، ”حدیث“ اور دیگر اصطلاحات کو اپنی مرضی کا مفہوم پہنا سکتے ہیں، تو ان اصطلاحات کو بھی تختۂ مشق بنانے سے انھیں کون روک سکتا ہے؟ پھر بھی ان کی خدمت میں اتنا تو عرض کرسکتے ہیں کہ علت کسی منصوص امر کے حکم کو غیر منصوص امر تک توسیع دینے کےلیے ہوتی ہے، نہ کہ کسی منصوص امر کے حکم کو معطل کرنے کےلیے۔ یہ بنیادی اصول وہ سمجھ لیں، تو آگے کی بحث میں ان کی غلطی خود ہی ان پر واضح ہوجائے گی۔

بہرحال استبراء رحم کو عدت کا سبب قرار دینے کےلیے دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ غیر مدخولہ مطلقہ کےلیے کوئی عدت نہیں ہے اور حاملہ کی عدت وضعِ حمل پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بیوہ، خواہ غیر مدخولہ ہو، اس کی عدت چار ماہ دس دن ہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ غامدی صاحب غیر مدخولہ مطلقہ پر قیاس کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ غیر مدخولہ بیوہ کےلیے بھی عدت نہیں ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

”مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے، اِس لیے جو مستثنیات طلاق کے حکم میں بیان ہوئے ہیں، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اُسی طرح ملحوظ ہوں گے۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہو گی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی۔ روایتوں میں ہے کہ ایک حاملہ عورت، سبیعہ نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔“ (البیان،ج1، ص252)۔

تاہم یہ قیاس باطل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوہ کی عدت کے متعلق سورۃ البقرۃ کی آیت عام ہے، اور عام قطعی الدلالہ ہے جسے قیاس سے، جو کہ ظنی دلیل ہے، محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو غامدی صاحب کے نزدیک پورا قرآن ہی قطعی الدلالہ ہے، لیکن یہاں قطعی الدلالہ آیت کو قیاس کے ذریعے محدود کرتے ہوئے وہ اپنا ہی اصول توڑ دیتے ہیں۔ خیر، ان کی مرضی۔

نیز یہاں غامدی صاحب نے حدیث کا حوالہ جس انداز میں دیا ہے، اس سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں غیر مدخولہ بیوہ کے عدت نہ ہونے کی بات کی گئی ہے، حالانکہ اس میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ کیا اسے تلبیس کہاجاسکتا ہے؟ غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کی سادہ فکری یہ ہے کہ وہ عدت کا بس ایک ہی مقصد فرض کیے ہوئے ہیں اور اسی کو عدت کا سبب یا علت مان بیٹھتے ہیں، حالانکہ اگر یہی عدت کا واحد مقصد ہوتا تو یہ مقصد ایک دفعہ حیض آنے سے بھی پورا ہوسکتا تھا اور اس صورت میں تین دفعہ حیض آنے تک انتظار کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی۔

پھر وہ عدت کا یہ مقصد کیسے بھول گئے کہ اس cooling off کی مدت میں فریقین اپنے اپنے موقف پر ٹھنڈے دل سے نظرِ ثانی کرکے اگر رجوع کرنا چاہیں، تو کرسکیں گے؟ عدت کے بہت سارے مقاصد اور حکمتوں میں ایک یہ ہے کہ میاں بیوی کو واپس ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع مل جائے۔ کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ طلاق دے چکنےیا لے چکنے، کے بعد دونوں ہی کو پشیمانی ہوتی ہے اور دونوں اپنی راے تبدیل کرلیتے ہیں۔ اسی لیے عدتِ وفات کے برعکس طلاق رجعی کی عدت میں عورت کےلیے بناؤ سنگھار کو پسند کیا گیا ہے تاکہ رجوع کے امکانات بڑھ جائیں۔

حمل ٹسٹ کے ذریعے عدت کے خاتمے کا فتوی دے کر غامدی صاحب اور ان کے متبعین بہ ظاہر عورتوں کے ساتھ ہمدردی جتانا چاہتے ہیں لیکن ان کی نظر غالباً اس پہلو پر نہیں گئی کہ عدت کے دوران میں عورت کی رہائش اور اس کے اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر ہی ہوتی ہے (اور یہی امر بعض اوقات فریقین کے درمیان رجوع کا باعث بن جاتا ہے)۔ اگر کسی بے حمیت شوہر کو غامدی صاحب کے فتوی کی خبر مل گئی، تو وہ طلاق دینے کے ساتھ ہی عورت کا حمل ٹسٹ کروا کر اس سے فوراً جان چھڑا لے گا۔خاندانوں کو باہم جوڑے رکھنا اور گھروں کو بکھرنے سے روکنا بھی تو شریعت کے مقاصد میں سے ہے۔ پتہ نہیں ان مقاصد کی طرف ہمارے ان متجددین کی نظر کیوں نہیں جاتی؟

پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی، تو ثریا تک کھڑی کی گئی دیوار بھی ٹیڑھی ہی ہوگی۔ استبراء رحم کو عدت کا سبب قرار دینے کے بعد یہ سوال تو اپنی جگہ قائم تھا کہ مطلقہ کو تین حیض تک کیوں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ ایک حیض سے بھی حمل نہ ہونے کا علم ہوسکتا تھا۔ پھر اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک دفعہ خون آنے کے بعد بھی حمل کا امکان ہوسکتا تھا (اگرچہ یہ محض عقلی گھوڑا ہی ہے)، تو کیا دوسرا حیض اس مقصد کےلیے کافی نہیں تھا کہ تیسرے حیض تک بھی انتظار کرنا لازم کردیا گیا؟

پھر بیوہ کی عدت تو اس سے بھی لمبی ہوگئی، تو عقلی گھوڑے کو چابک رسید کرتے ہوئے حسن صاحب نے پوری قطعیت کے ساتھ ایک اور دعوی کیا:
”یہ اضافہ اِس لیے ہوا ہے کہ مطلقہ کو تو ایسے طہر میں طلا ق دینے کی ہدایت ہے، جس میں زن و شو کا تعلق قائم نہ ہوا ہو، مگرشوہر کی وفات کی صورت میں چونکہ یہ ضابطہ بنانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا احتیاطاً بیوہ کی عدت مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن زیادہ مقرر کی ہے۔“

اب پوچھنے والا یہ کیوں نہ پوچھے کہ یہی مقصد چار ماہ نو دن، چار ماہ پانچ دن، یا چار ماہ سے بھی تو حاصل ہوسکتا تھا، پھر چار ماہ دس دن ہی کیوں؟ یہ سوال محض زچ کرنے کےلیے نہیں ہے، بلکہ اس سے اس بات کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ منصوص حکم کو جوں کا توں ماننا لازم ہے، یہ امر تعبدی (matter of ritual obedience)ہے ۔ سبب، علت اور حکمت کی بات اس منصوص حکم کو غیر منصوص امر تک لے جانے یا نہ لے جانے کےلیے ہوتی ہے۔ یہ غامدی صاحب اور ان کے متبعین کی بنیادی اصولی غلطی ہے۔

ابدی شریعت یا غامدی صاحب کا فہم شریعت؟
عدت کے بارے میں غامدی صاحب کے فہمِ قرآن کو عینِ قرآن قرار دیتے ہوئے حسن صاحب فرماتے ہیں:
”عدت کے بارے میں یہ قرآنِ مجید کے احکام ہیں۔ اِن کی نوعیت اللہ کی ابدی شریعت کی ہے، جس کی تعمیل لازم ہے۔ اِن سے انحراف احکام الہٰی کی خلاف ورزی کے مترادف ہےاور عنداللہ مستوجب سزا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اِن کی پابندی کرنی چاہیے اور اِن سے روگردانی کی راہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔“

ان اقوالِ زرّیں کے فوراً بعد حسن صاحب ایک شاندار دعوی پیش کرتے ہیں:
”اِن کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہے کہ اِن کی خلاف ورزی کے معاملات میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے۔“

یہاں ایک لمحے کےلیے رک کر پوچھیے کہ اگر ایسا ہی ہے، تو پھر آپ کون ہوتے ہیں ان امور میں اپنی راے دینے والے جن میں ”شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے“؟ کیا ایسے امور میں احکام بیان کرکے آپ شریعت سازی کے مرتکب نہیں ہورہے؟ جب شریعت خاموش ہے، تو آپ بھی خاموش کیوں نہیں رہتے؟ اس سے آگے حسن صاحب نے سوالات کی ایک فہرست قائم کی ہے۔ پہلے وہ سوالات ملاحظہ کریں، پھر ہم اس پر تبصرہ کریں گے۔ فرماتے ہیں:

”جب کہ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بعض اوقات غفلت اورکم علمی کے باعث یا غصے، اشتعال اور ردِ عمل میں آ کر حدودِ الہٰی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور عدت کے دوران میں نکاح کا اقدام کر لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی پر مبنی ایسے نکاح کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ کیا ایسےنکاح کوکالعدم قرار دیا جائے گا؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر عدت کی تکمیل کی کیا صورت ہو گی؟ حمل کی صورت میں بچے کے نسب کا کیسے تعین ہو گا؟ نگہداشت کے معاملات کس کی ذمہ داری ہوں گے؟ کیا ایسے نکاح کو جائز قرار دیا جائے گا؟ اِس صورت میں خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کیا کوئی سزا مقرر کی جائے گی؟ اگر عورت حاملہ ہو گی تو اُس کے حمل کو سابقہ شوہر سےمنسوب سمجھا جائے گا یا نئے شوہر سے؟“

ان سارے سوالات کا ایک سیدھا سادہ جواب تو اوپر ذکر کیا گیا: کہ جب آپ کے نزدیک ان امور میں شریعت خاموش ہے، تو پھر آپ بھی خاموش ہوجائیے اور لوگوں کو ان سوالات سے اپنی مرضی کے مطابق نمٹنے دیں۔ جب آپ کے نزدیک شریعت خاموش ہی ہے، تو وہ نہ آپ سے، نہ ہی کسی اور سے کوئی تقاضا کررہی ہے۔ اور اگر آپ ادھر ادھر سے استدلال کرکے کوئی حکم بیان کرنے کےلیے کسی طرح گنجائش پیدا کر ہی لیتے ہیں، تو اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ شریعت خاموش نہیں ہے اور آپ کا پہلا مفروضہ غلط تھا۔ جہاں شریعت خاموش ہو، وہاں ”اصولی رہنمائی“؟

حسن صاحب نے آگے دلچسپ دعوی کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ان سوالات کے متعلق، جن پر شریعت خاموش ہے، ”مسلمانوں کے علما اور محققین اپنے علم و فہم کے مطابق دین کی اصولی رہنمائی میں آرا پیش کرتے ہیں۔“

سوال یہ ہے کہ جب شریعت خاموش ہے جو یہ اصولی رہنمائی کہاں سے آتی ہے؟ اور اگر یہ اصولی رہنمائی شریعت سے ہی آتی ہے، تو پھر شریعت خاموش کیسے ہے؟ اگلا سوال یہ ہے کہ یہ ”اصولی رہنمائی“ شریعت سے، جو کہ خاموش ہے، اخذ کیسے کی جاتی ہے؟ ان سوالات کا جواب دیے بغیر حسن صاحب، اپنے استاذِ گرامی کی طرح، پوری قطعیت کے ساتھ ایسا دعوی کرتے ہیں جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوتی، لیکن وہ اسے ایک مسلّمہ حقیقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنیے:

” لوگ اُن میں سے جن پر مطمئن ہوں، اُنھیں اپنی صواب دید سے اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومتیں بھی اُن میں سے بعض کا انتخاب کر کے اُنھیں ملکی قانون کی صورت دے دیتی ہیں۔ شریعت کے کسی اطلاقی مسئلے میں اگر قرآن و سنت خاموش ہوں تو دین کے منشا تک پہنچنے کے لیے یہی طریقہ مسلم ہے۔“

کوئی ان سے پوچھے کہ”یہی طریقہ“ کن کے ہاں ”مسلّم“ ہے اس صورت میں جس میں بقول آپ کے”قرآن و سنت خاموش ہوں“؟

یہی نہیں، وہ تو آگے بڑھ کر ایک اور بھی دعوی کرتے ہیں کہ:
” اِسی کو اصطلاح میں اجتہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ “
کوئی پوچھے کہ یہ آپ کس کی اصطلاح کی بات کررہے ہیں؟ المورد کی؟ یا غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ کی؟ آپ ایک اور بے بنیاد دعوی کرتے ہیں، اور وہ بھی پوری قطعیت کے ساتھ، کہ:

”ہمارے جلیل القدر فقہا کا بیش تر کام اِسی دائرے سے متعلق ہے۔“
اگر ان سے مراد المورد، دانش سرا یا جی سی آئی ایل کے سکالر ہیں، تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن فقہاے امت کے کام کے متعلق یہ دعوی بالکل ایسا ہے جیسے کسی نے کوّے کو دیکھ کر کہا کہ وہ کبوتر جارہا ہے، تو دوسرے نے کہا کہ نہ آپ کوّے کو جانتے ہیں اور نہ ہی کبوتر کو پہنچانتے ہیں۔

احناف کی راے سمجھنے میں ایک اور ٹھوکر
غامدی صاحب اور حسن صاحب نے عدت میں نکاح کے مسئلے پر احناف کا موقف بالکل غلط پیش کیا تھا، اور اس پر ہم نے تنقید کی تھی۔ اب اس تنقید سے حسن صاحب نے احناف کے موقف کے متعلق اپنی ایک غلطی کی تو تصحیح کرلی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

”مذکورہ مسئلے میں فقہاے احناف کی اجتہادی راے یہ ہے کہ عدت کے دوران میں کیے گئے نکاح کے بعد اگر زن و شو کا تعلق قائم نہ ہو تو نکاح کو باطل سمجھا جائے گا گویا نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔“

اس بات کا غامدی صاحب اور حسن صاحب کی وڈیو میں پیش کیےگئے موقف سے موازنہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے وڈیو میں بالکل غلط بات کی تھی، لیکن مجال ہے کہ یہاں حسن صاحب مان لیں کہ ان سے سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی۔ خیر، ہمیں ان سے غلطی کا اعتراف کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ برسوں سے ہم ان کو، اور عشروں سے ان کے استاذِ گرامی کو، دیکھتے آئے ہیں کہ وہ ایسی غلطی کا کبھی بھی اعتراف نہیں کرتے خواہ رجوع وغیرہ کے متعلق وہ کتنا ہی شاعرانہ وعظ پیش کرتے رہیں۔

اسے چھوڑیے اور آگے دیکھیے کہ انھوں نے اگلے جملے میں پھر احناف کا موقف غلط پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
زن و شو کا تعلق قائم ہو گیا ہو تو نکاح باطل نہیں، بلکہ فاسد قرار پائے گا۔یعنی نکاح کو منعقد مان کر علیحدگی کرا دی جائے گی۔ نہیں، حضور۔ نکاح کو منعقد مان لیا، تو پھر تو بات ہی ختم ہوگئی۔ پھر احناف تفریق کو واجب کیوں قرار دیتے ہیں؟ باطل اور فاسد کا فرق واضح کرنے میں ہم نے جو محنت کی تھی، لگتا ہے کہ وہ ساری محنت ضائع ہو گئی۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ آگے حسن صاحب اپنے استادِ مکرم کا موقف پیش کرتے ہوئے درج ذیل وعظ دیتے ہیں:

”عدت کے دوران میں نکاح کرنا اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا یہ صریح گناہ ہے اور اِس کا مرتکب قیامت میں جواب دہ ہو گا۔ چنانچہ اِس کا ارتکاب کرنے والوں کو نادم ہونا چاہیے اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ معاشرے کو ایسی روایات قائم کرنی چاہییں،جو لوگوں میں اِس طرح کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ مقصد یہ ہے کہ شرعی قانون کی حرمت کسی حال میں پامال نہ ہو۔ اُس کی شان پوری طرح قائم رہے اور لوگوں کو احساس ہو کہ ایسی خلاف ورزی کوئی معمولی بات نہیں ، بلکہ صریح جرم ہے۔“ لیکن اس کے بعد اس وعظ کو درج ذیل الفاظ کے ذریعےصفر سے ضرب دے دیتے ہیں:

”جہاں تک اِس نکاح کے قانونی پہلو کا تعلق ہے تو اِسے منعقد سمجھنا چاہیے۔“
یہاں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جسے وہ ”شریعت کا اطلاقی پہلو“ کہہ کر وہاں اپنے تئیں ”اجتہاد“ کررہے ہیں، اس کے ذریعے وہ قرآن کے الفاظ ”یتربصن بأنفسھنّ“ کو یکسر بے معنی اور غیر مؤثر کردیتے ہیں۔ یہ ہے ان کے اصول قطعی الدلالہ کی حقیقت!

اس فکری قلابازی کی وہ بہت دلچسپ توجیہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
”اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گزرے ہوئے وقت میں کیا گیا ایک عملی اقدام ہے،جو امرِ واقعی کی صورت میں سامنے آتاہے۔ نہ اِسے لوٹایا جا سکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے۔“
سوال یہ ہے کہ ایک ناجائز کام ہوا ہے، تو اسے ناجائز قرار دے کر قانوناً کالعدم کیوں قرار نہیں دیا جاسکتا اور سے ختم کیوں نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص اس مرحلے پر جبکہ ابھی ”زن و شو کا تعلق“ قائم بھی نہیں کیا گیا؟

بہرحال، چونکہ انھوں نے ایک یکسر غلط مفروضہ قائم کیا ہے، اس لیے آگے اس پر مزید ردّا چڑھا تے ہوئے قرار دیتے ہیں:
”ایسے نکاح کے نتیجے میں نزاعات کا پیدا ہو جانا بالکل بدیہی ہے۔ اِن میں بہتر یہ ہے کہ اگر خلاف ورزی کا معاملہ خاندانوں میں محدود ہے تو اُسے خاندانی سطح ہی پر حل کرنا چاہیے۔ عدالت میں لے جانے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کی حیثیتِ عرفی مجروح ہونے سے محفوظ رہے۔“

یعنی بات ہو کیا رہی تھی اور اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے! یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈاکٹر کے پاس گلے کی خراش کے علاج کےلیے جائیں اور وہ آپ کی گاڑی کا انجن آئل وقت پر تبدیل کرنے کےلیے آپ کو نصیحت کرنے لگے۔ بھائی ڈاکٹر صاحب،آپ ڈاکٹر ہی کا کام کریں، مکینک کا کام مکینک کو کرنے دیں۔ ہمارے مکینک، معذرت، دانشور آگے مزید دانشوری کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”اِس مقصد کے لیے خاندان کے بزرگ اور معتبر افراد اپنا کردار ادا کریں اور علما و فقہا کی آرا میں سے جس پر اطمینان ہو، اُسے اختیار کر لیں۔ اِس موقع پر ضروری ہے کہ مسئلے کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے۔ یعنی یہ دیکھنا چاہیے کہ عدت کے دوران میں نکاح کرنے والی کی عمر کیا ہے، عدت مکمل ہونے میں کتنا عرصہ باقی تھا کہ نکاح کر لیا گیا، کیا سابقہ شوہر کے گھر میں عدت گزارنے میں کوئی مشکل تو درپیش نہیں تھی، پھر معاملہ جب فیصلے کے لیے آیا ہے تو نکاح کو کتنا عرصہ بیت گیا ہے، اِس دوران میں زن و شو کا تعلق قائم ہوا ہے یا نہیں ہوا، اگر پہلے شوہر سے اولاد ہے تو اُس کی کیا نوعیت ہے، منکوحہ کو خلاف ورزی کی سنگینی کا کتنا احساس ہے؟ یہ اور اِس طرح کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور دین و شریعت اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔“

مکرّر عرض ہے کہ قانونی حکم کےلیے یہ سارے امور قطعی طور پر غیر متعلق ہیں۔ یہ بھی دیکھیے کہ یہ غیر ضروری اور غیر متعلق سوالات اٹھاتے ہوئے حسن صاحب بھول جاتے ہیں کہ جسے وہ سابق شوہر کہہ رہے ہیں، ابھی وہ ”سابق“ ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کا حق باقی ہے اور عدت کا ایک مقصد اس کے حق کی حفاظت بھی ہے۔ بہرحال یک رخا پن اور سطحیت اس مکتبِ فکر کی خصوصیات میں ہیں اور یہاں بھی انھی خصوصیات کی کارفرمائی واضح طورپر نظر آتی ہے۔

دانشوری کے مزید موتی بکھیرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:
”اِس کے برعکس اگر کوئی فریق معاملے کو عدالت میں لے گیا ہے تو پھر تمام تر اختیار عدالت کے پاس چلا جائے گا۔ اِس موقع پر عدالت ملکی قانون کو دیکھے گی۔ اگر کسی فقہی راے کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل ہے تو پھر عدالت کو اُسی کے مطابق فیصلہ دینا ہو گا۔ لیکن اگر وہ کسی فقہ کی پابند نہیں ہے تو تمام حالات کا جائزہ لے کر خود بھی کوئی فیصلہ کر سکتی ہے یا اپنی صواب دید سے کسی فقہی راے کو بھی نافذ کر سکتی ہے۔“

حسن صاحب کو کوئی بتائے کہ پاکستان میں اس موضوع پر کوئی ”قانون“ موجود نہیں ہے اور جو قانون ہے اس میں بس اتنا لکھا ہوا ہے کہ شریعت پر فیصلہ ہوگا، لیکن شریعت کے متعلق تو آپ پہلے ہی پوری قطعیت کے ساتھ فرما چکے ہیں کہ وہ خاموش ہے! پھر عدالت اس خاموشی کو کیسے توڑے؟ انگریزی محاورے کے مطابق: back to square one

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment