ہوم << سالارِ کاررواں ہے میرِ حجازؐ اپنا- سید عابد علی بخاری

سالارِ کاررواں ہے میرِ حجازؐ اپنا- سید عابد علی بخاری

دنیائے آب وگل کا وجود محبت کا ہی رہین منت ہے۔عشق دراصل وسیع، ہمہ گیر اور لا متناہی انسانی جذبوںکی پرواز کا نام ہے اور یہ بقا کی طرف ایک سفر ہے۔عشق وہ والہانہ جذبہ ہے جو انسان کو دیگرزندہ اشیاء سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ جذبہ بناوٹ، عیاری، امیداور لالچ سے ماورا ہوتاہے۔

یہ جذبہ انسان کو ایک جست میں بلندی اور آفاقیت تک لے جاتاہے۔ اس قوت سے یقین میں پختگی آتی ہے۔ اور اسی جذبہ کے تحت ایمان بل الغیب پر یقین آجاتا ہے۔عشق سراپا عمل بنا دیتا ہے۔ عشق چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔اضطراب کیش بنا دیتا ہے۔ مراد کو پانے کے لیے بے قرار کر دیتا ہے۔ عشق کی برکت سے انفس وآفاق عاشق کے زیرنگیں ہوتے ہیں اور وہ جن و ملائکہ کو صید زبوں سمجھنے لگتا ہے۔عشق سے ہی زندگی کو آب وتاب ملتی ہے اور اسی سے زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔ اقبال کے عشق رسول ؐ کو الفاظ کا جامع پہناتے ہوئے الفاظ ساتھ نبھانا چھوڑ دیتے ہیں ۔

اس قدر وسیع اور زر خیز موضوع کو ایک مختصر تحریر میں سمونا یقیناً ایک مشکل کام ہے ۔اقبال کے عشقِ رسول ﷺ کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ اقبال عشق سے مراد کیا لیتے تھے ؟
نکلسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں یہ لفظ عشق نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کرلینے اور جزو ِحیات بنا کر اپنا لینے کا نام ہے ۔ ‘‘ اس عشق کی بدولت زندگی ارتقا کی کسی منزل پر قیام نہیں کرتی ۔ اقبال کے نزدیک انسان عشق کی انتہا چاہتا ہے ‘ لیکن یہ اس کی سادگی ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ عشق کی ماہیت ہی یہی ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہ ہو ۔

علامہ اقبال صرف شاعر نہیں تھے وہ ایک مفکر اور بلند پایہ فلسفی بھی تھے۔ شاعر بھی ایسے نہیں، جن کے ہاں رومان پروری اور نام نہاد عشق وعاشقی کا عنصر اس درجہ غالب ہو کہ ا ن کا ذہن زمینی حقائق سے منھ موڑ لے۔ اقبال ایسے شاعر تھے جن کے ہاں ادب وسیع تر اسلامی اور سماجی مقاصد کی تکمیل کا مستحکم ذریعہ تھا ۔اقبال کے نزدیک عشق ہی آداب خود آگا ہی سکھاتا ہے۔عشق اور محبت کی قلمرو کی کوئی انتہا نہیں۔ اگر خدا کو اپنا جلوئہ جہاں آراء دیکھنا منظور نہ ہوتا تو یہ حسین اور رنگ برنگی دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی۔ کیا انسان اور کیا حیوان سبھی محبت اور عشق کی مقدس زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ روئے ارضی کا ذرہ ذرہ عشق ومحبت کا منبع اور مرکز ہے۔

اگر عشق ومحبت کے پاکیزہ عناصر سے روئے ارضی خالی ہوجائے تو دنیاتاریکی اور ظلمات کی گہوارہ بن جائے۔ اور سطح ارضی حیوانیت اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق کے کئی مدارج ہیں۔علامہ اقبال انسانی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے عظیم الشان اور محیر العقول واقعات کو عشق کا کرشمہ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔

صدق ِخلیل بھی ہے عشق، صبر ِحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں، بدرو حنین بھی ہے عشق

اقبال ؒ کی سیرت کا سب سے ممتاز پہلو نبی رحمت ؐ سے والہانہ محبت تھی ۔ یہ موضوع اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میںجا بجا نظر آتا ہے ۔ یہ جذبہ عشق و مستی اقبال کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا ۔اقبال کو نبی رحمت ؐ سے جو والہانہ عشق ہے اس کا اظہار اس کی اردو اور فارسی کے ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ اقبال کی انفرادیت ہے کہ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرم ؐ کو ایک نئے اسلوب اور نئے آہنگ کے ساتھ اختیار کیا۔وہ اپنی شاعری کو فیضان رسولؐ قرار دیتے ہیں ۔

یہاں اقبال کی چند فارسی اشعار کا مختصر خلاصہ پیش ہے۔ یہ وہ خوبصورت علمی ورثہ ہے جس سے ہمارے موجودہ نسل محروم رہ گئی ہے۔ ایسا دل نشین ورثہ کہ الفاظ روح میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔ایک پکار ہے جو دعا کی شکل میں ہونٹوں پر بے قرار ہو جاتی ہے۔ دل میں درد کی ایسی چبھن سی محسوس ہوتی ہے کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ان کی فارسی شاعری کا خلاصہ بطور نمونہ یہاں شامل کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

حضورؐ ! آپ کا ظہور زندگی کا شباب ہے اور آپ کا جلوہ زندگی کے خواب کی تعبیر ہے۔آ پکی بارگاہ کی وجہ سے زمین ارجمند ہوئی ہے اور آسمان آپ کے روضہ کی چھت کو بوسہ دے کر بلند ہے۔مسلمان نبی کی نبوت کے راز سے بیگانہ ہوچکا ہے اور کعبہ دوبارہ بْت خانہ کی مانند ہوگیا ہے۔ہر ایک مسلمان اپنی بغل میں لات و منات،عزّیٰ اور ہبل کا بْت رکھتا ہے۔ہمارا شیخ برہمن سے زیادہ کافر نظر آتا ہے کیونکہ اس کا سر سومنات بن گیا ہے۔مسلمان مْردہ ہوگیا ہے اور میں نے اسے آب حیات کا پتہ دیا ہے اور اسے قرآن کے اسرار سے آگاہ کیا ہے۔میں نے اپنی شاعری کی شمع سے محفل کو روشن کردیا ہے اور اپنی قوم کو زندگی کے راز کا درس دیا ہے۔ ‘‘

’’میرے دل میں جو گرمی اور بے تابی ہے آپ کے سوز غم کی بدولت ہے۔میرے نالے آپ ہی کی توجہ کا فیضان ہے۔مجھے جو سوز عطا ہوا ہے وہ آپ ہی کا فیضان ہے۔میرے انگوروں کی بیل میں جو شراب ابل رہی ہے وہ آپ ہی کے زمزم سے نکلی ہے۔میری درویشی سے مملکت کسری و جمشید بھی شرماتی ہے کیوں کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ آپ ہی کے اسرار کا محرم ہے۔دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور عشق کی دولت آپ کی سینہ مبارک سے حاصل ہوتی ہے۔اس عشق میں سرور اس شراب کہن سے پیدا ہوتاہے جو آپ نے کشید فرمائی اور پلائی۔مجھے جبرئیل کی بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ جبرئیل بھی آئینہ ء رسالت کے ایک جوہر کا نام ہے۔‘‘

’’ساری دنیا کو لادینی نے دگرگوں کر دیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ دنیا والے روح کو بھی جسم کے آثار میں شمار کرنے لگے ہیں۔جو فقر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو بخشا تھا اس سے ہماری بے حس روحوں میں سوز وحرکت پیدا فرما دیجیے۔میں فقیر ہوں اور جو کچھ طلب کرتا ہوں آپ ہی سے طلب کرتا ہوں۔میں گھاس کا ایک تنکا ہوں ،اس کی ایک پتی سے پہاڑ جیسا سنگین اور مستحکم دل تراش دیجیے۔دانشمندوں اور فلسفیوں کی کتاب نے مجھے درد سر اور پریشاں خیالی کے سوا کچھ نہ دیا اس لیے کہ میں آپ کی نگاہوں سے فیض یافتہ ہوں۔اس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملی پر جو مضر اثرات مرتب ہوئے محتاجِ بیان نہیں ہیں۔ ‘‘

علامہ اقبال بسا اوقات فرط جذبات سے مغلوب ہو کر وہ اپنی اور مسلمانان عالم کی بے بسی وبے کسی کی فریاد براہ راست رحمت للعالمین کے حضور کرنے لگتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اقبال نبی رحمتؐ کے روبرو تشریف فرما ہیں اور اقبال ان سے دستگیری اور فریاد رسی کی التجاء کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری

اقبال کو سر زمین حجاز سے اس قدر لگائو تھا کہ پوری زندگی شہر رسول ؐ کی زیارت کے لیے تڑپتے رہے ۔ اسی جذبہ شوق نے ان سے غیر معمولی نظمیں کہلوائیں ۔ ارمغانِ حجاز تو مکمل طور پر ان ہی جذبات کی تفسیر نظر آتی ہے ۔سفر یورپ نے انھیں مسلمان کردیا اور ان کی فکر اور تخیل نے حب نبوی سے لبریز وہ نعتیہ مضامین رقم کیے کہ اس کی ہر سطر کیا ہر لفظ سے محبت، عشق، عقیدت اور ذوق وشوق کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ سفر یورپ کے بعد کی شاعری کا اسلوب اور لہجہ پہلے سے یکسر مختلف تھا۔ ان کے تخیلات کا طائر ہمیشہ مکہ او رمدینہ کی فضائوں میں ہی محو پرواز رہتا تھا۔ اقبال کسی ایسی ہوا کے انتظار میں تھے جو انھیں مکہ او رمدینہ کی مقدس وادیوں کی غبار تک پہنچادے اروہ وہیں کی کنکریلی اور پتھریلی خاک کا پیوند بن جائیں۔ وہ کہتے ہیں:
یہی عشق رسول ؐ ہی تھا کہ جس نے یورپ کی فضائوں میں بھی انہیں تہذیبِ یورپ کی چکا چوند سے بچائے رکھا۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوئہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف

اقبال نے نعتِ رسول مقبول ؐ کے روایتی طریقے کو نہیں اپنایا لیکن تماثیل اور استعاروں کے ذریعے ایسے واقعات کو شعری روپ پہنایا کہ جس سے پڑھنے والے کا ذہن معطر ہو جاتا ہے ۔ نظم ’’ بلال ‘‘ میں قلم اقبال کا ہے لیکن زبان بلال ؓ کی محسوس ہوتی ہے اور جہاں زباں بلال ؓ کی ہوگی وہاں عشق رسول ؐکی شمع فروزاں ہوگی ۔ عشق رسول ؐ ان کے رگ وپے میں اس طرح موجزن نظر آتا ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ مروجہ نعتیہ اسالیب نہ رکھنے کے باوجود کمال درجے کی نعت محسوس ہوتے ہیں ۔ اقبال کے ذہن میں عشق و مستی کا اوّل اور آخری محور ایک ہی تھا اور وہ محور ہے نبی کریم ؐکی ذات مبارک۔ وہ کہتے ہیں:

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں ‘ وہی اول و ہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسینٰ وہی طہٰ

اقبال کے نزدیک بیداری ملت اور کامرانی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ اسوئہ رسول ؐ کی مکمل پیروی میں مضمر ہے ۔ امت مسلمہ کے عروج کا راز رسول ِرحمت ؐ کے اسوئہ سے عملی وابستگی میںپوشیدہ ہے ۔ دراصل اقبال اس راز سے شناسا ہو گئے تھے کہ محبت رسول ؐ وہ دولت عطا کرتی ہے ۔ اوائل عمر سے لے کر عمر کے آخری لمحوں تک ان کا دل اس دولت سے منور رہا ۔ وہ کامیابی اور کامرانی کے لیے اور دہر کی تاریکی کے لیے ایک ہی روشنی بتاتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے

اقبال نبی رحمت ﷺ کو اپنے کارواں کا سالار قرار دیتے ہوئے ان کی تقلید کو اولیت دیتے ہیں ۔ اپنی مشہور نظم ’’ترانہ ملی‘‘ میں لکھتے ہیں۔

سالار کاروا ں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

جب کبھی محبوب کبریاؐ کا ذکر لبوں کی زینت بنتا آنکھیں نم ہو جاتیں اور دیدہ تر کے ساتھ دل سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔ آواز کانپنا شروع ہو جاتی اور جذبات پر رقت طاری ہو جاتی ۔ ان کے اشعار اور خطوط اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ عشق رسول ؐ کو اپنے لیے راہ نجات تصور کرتے تھے۔3ستمبر1917ء کو مولانا غلام قادر کے نام ایک خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ’’ میرا مقصد شاعری نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوںمیں احساس ملیہ پید اکرنا ہے جو قرون اولیٰ کا خاصہ تھا۔ کیا عجب نبی کریم ؐ کو میری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات بن جائے۔‘‘

’روزگار فقیر ‘‘ میں سید وحید الدین لکھتے ہیں۔
’’ اقبال کی شاعری کا خلاصہ جو ہر اور لب لباب عشق رسول اور اطاعت رسول ہے۔ ان کا دل عشق رسول نے گداز کر رکھا تھا زندگی کے آخری زمانے میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بند جاتی۔ آواز بھرا جاتی تھی اور وہ کئی کئی منٹ سکوت اختیار کر لیتے تھے۔ تاکہ اپنے جذبات پر قابو پا سکیں۔‘‘

ان کی بڑی خواہش تھی کہ حج کی سعادت حاصل کریں اور روضہ رسول ؐ پر حاضری دیں لیکن یہ حسرت پوری نہیںہو رہی تھی ۔ 2ستمبر1937ء کی بات ہے۔ان دنوں آپ شدید علیل تھے۔ آپ کو مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کا خط موصول ہوا جس میں انہوںنے تذکرہ کیاتھا کہ وہ حج پر روانہ ہو رہے ہیں ۔ اقبال نے انہیں جواب لکھا

’’ الحمدﷲ کہ آپ خیریت سے ہیں اور حج کی تیاریوں میں مصروف ۔ کاش کہ میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا لیکن افسوس کہ جدائی کے ایام ابھی کچھ باقی معلوم ہو رہے ہیں ۔ میں تو اس قابل نہیں کہ حضورؐ کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جا سکوں ۔ امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہ فرمائیں گے۔ ‘‘

گہری بصیرت رکھنے اور فلسفے میںکمال حاصل کرنے کے باوجود عشق رسول ؐ کے فلسفے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرات نہ کی ۔
تازہ میر ے ضمیر میں معرکہ کہن ہواعشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب

اقبال امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ان کی مذہبی وسماجی مشکلات کے حل کی کلید ذات نبوی اور اسوئہ رسول میں پوشیدہ ہے۔ ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہمیں اس لیے دے مارا کہ ہم نے اپنے اسلاف کی میراث گنوادی۔ علامہ اقبال عظمت رفتہ کی بازیابی اور دنیا کے منظرنامے پر اپنی موجودگی کے لیے حضور ﷺکے اسوئہ حسنہ کی اتباع کو لازمی قدر قرار دیتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس دنیا کی تخلیق کی اصل وجہ ذات نبی ہے کیونکہ آپ ہی کی وجہ سے اس دنیا میں اصل خالق یعنی اللہ کی ذات کی پہچان ، صحیح معنوں میں ممکن ہوئی۔ آپ ہی تھے جنہوں نے خدا تعالٰیٰ کی حقیقت کے بار ے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کے راز آشکار کئے۔

اقبال کی شاعری کا محور اصل میں عشق رسول ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا قیامت کے دن میرے اعمال نامہ کو نگاہ مصطفیؐ کے سامنے پیش کرکے مجھے رسوا مت کرنا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ اس عظیم ذات کے سامنے میری خطائیں جب آشکار ہوں گی اور اگر کہیں ناگزیر ہو جائے تو اسے آپؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز ِمحشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ ِمصطفیٰ ؐپنہاں بگیر

جاوید نامہ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔’’جاوید نامہ ‘‘علامہ اقبال کی زندگی کا وہ شاہکار ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی کا حاصل قرار دیا ہے ۔اس میں آسمانوں کی سیر کا حال بیان کیا گیا ہے ۔یہ مثنوی کے اسلوب پر لکھی گئی۔مثنوی عربی زبان کا لفظ ہے۔مثنوی مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔اس کے تقریباً دو ہزار اشعار ہیں۔

یہ کتاب پہلی بار 1932ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے ۔یہ کتاب دراصل علامہ اقبال کا آسمانوں کا خیالی سفر نامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومی انہیں مختلف سیاروں اور افلاک کی سیر کرواتے ہیں۔ اس سفر میں وہ مختلف مشاہیر اور لوگوں سے ملتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں اور ان سے ان کے خیالات کے بارے میں جانتے ہیں۔علامہ اقبال کی اردو مثنویوں میں ’’ ساقی نامہ ‘‘ سب سے مشہور مثنوی ہے ۔ جاوید نامہ فارسی کی مثنوی ہے اور جب اقبال نے یہ تحریر کی اس وقت فارسی زبان سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی تھی لیکن اب فارسی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اور بچے اس عظیم شہکار اورعلم کے ایک بڑے ذخیرے سے محروم رہ گئے ہیں۔

یہاں جاوید نامہ کی خوبصورت اور دل پذیر کہانی انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تا کہ آج کے نوجوان کو اس کے مرکزی خیال کا اندازہ ہو سکے۔اس کتاب میںابلیس ،ابوجہل ،افلاطون،اقبال،امیر کبیر سید علی ہمدانی، اہرمن،بھرتری ہری ،ٹالسٹائی،ٹیپو سلطان، جمال الدین افغانی، جہاں دوست (وشوامتر)، رومی، زرتشت، زروان، سعید حلیم پاشا، شرف النساء بیگم، غالب، غنی کاشمیری، فرعون، قرۃالعین طاہرہ، گوتم بدھ، لارڈ کچنر، منصور حلاج،مہدی سوڈانی، میر جعفر،میر صادق،نادر شاہ اور نٹشے کا تذکرہ ملتا ہے۔

کتاب انتہائی خوبصورت اور پْر درد مناجات سے شروع ہوتی ہے ۔یہاں اقبال بحیثیتِ مجموعی نوعِ انسانی کی ازلی تنہائی کا ذکر کرتے ہیں وہیں انسان کو اس کی عظمت بھی یاد دلاتے ہیں ۔ مناجات کا اختتام اس دعا پر کرتے ہیں کہ’’ یا رب نوجوانوں کے لیے میرا یہ کلام آسان کر دے۔‘‘ مناجات کے بعد اقبال روزِ اول کا ایک منظر دکھاتے ہیں جب اس زمین کی تخلیق ہوئی تھی، اْس وقت آسمان زمین کو طعنہ دیتا ہے کہ ایک پست چیز وجود میں آتی ہے۔ زمین جب اس طعنے سے ملول ہوتی ہے تو اْسے آسمان کی دوسری طرف سے صدا آتی ہے کہ تو کیوں ملول ہوتی ہے تْو تو انسان کا مسکن بنے گی سو تیرا مقام بہت بلند ہے یعنی یہاں بھی بنیادی طور پر اقبال انسان کی عظمت ہی دکھا رہے ہیں۔

اسکے بعد علامہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن وہ بہت اداس ہوتے ہیں اور شام کے وقت سمندر کے کنارے چلے جاتے ہیں جہاں اسی اداسی میں مولانا رومی کی ایک غزل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ غزل ختم کرتے ہیں تو ان پر ایک پہاڑ کی اوٹ سے رومی کی روح آشکار ہوتی ہے۔جس سے وہ بات چیت کرتے ہیں اور وہ روح ان پر معراج کی حقیقت آشکار کرتی ہے۔ پھر رومی کی روح ان کو افلاک کے سفر پر اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

مولانا روم کی راہنمائی میں علامہ اقبال چاند ‘ عطارد‘ زہرہ ‘ مریخ ‘ زحل اور جنت الفردوس سے گزرتے ہوئے خدا کے حضور پہنچتے ہیں ۔اقبال چاند پر پہنچے تو ان کے محسوسات نے بہت عجیب مناظر دیکھے۔ وہ کہتے ہیں ’’ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے چنانچہ میں آگے بڑھتا رہا جب میں زمین سے اوپر اٹھاتو ہر شے جو مجھے اوپر دکھائی دے رہی تھی اب نیچے نظر آ رہی تھی ۔ یہ کائنات خدا کی ہے لہٰذا ہمیں اسے محبت کی نظر سے دیکھنا چاہیے ۔ چاند پر مکمل خاموشی تھی ۔ رومی نے بتایا کہ یہ ہماری پہلی منزل ہے ۔ چاند کی سطح پر کئی آتش فشاں تھے مگر نہ وہاں ہوا تھی نہ کوئی آواز سنائی دیتی تھی ۔ چاند کے ارد گرد چھائے بادل کبھی برستے نہ تھے اور اس سیارے پر کہیں زندگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔ میں آگے بڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔

شاید یہ اس پر اسرار فضا کا اثر تھا۔ آخر کار جب مجھے یوں لگا کہ شائد میں شک پر بھی شک کر وں گا تو ایک نئی روشنی میرے ذہن میں نمودار ہوئی ۔ عجیب منظر تھا ۔ میرے بالکل سامنے تاریک غار میں روشنی سے بھری ایک وادی نظر آئی ۔ ہماری زمین پر روشنی کے گرد اندھیرے کا کنارہ ہوتا ہے مگر یہ روشنی ایسی تھی کہ جس کا کوئی کنارہ نہ تھا۔ یہاں تک کہ سایہ بھی یہاں روشن نظر آتاتھا میں نے وادی کا جائزہ لینا شروع کیا ۔ یہاں درخت بہت اونچے تھے۔ اور ہر طرف پھیلے ہوئے تھے جیسے وہاں کے پتھروں نے روشنی کے چراغ جلا رکھے ہوں ۔

ان میں سے ایک درخت کے نیچے ایک ہندو سادھو بیٹھے ہوئے تھے جن کے بارے میں رومی نے کہا کہ ان کا نام ’’ وشوامتر ‘‘ ہے جس کا مطلب سنسکرت میں ہے ’’ سب کا دوست ‘‘ میں نے وشوامتر کو دیکھا۔ ان کے جسم پر مختصر سا لباس تھا اور ایک سفید سانپ ان کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ وہ مراقبے میں تھے۔میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ انہوںنے آنکھیں کھول دیں اور ہم دونوں کو دیکھا۔ شاید وہ رومی کو پہلے جانتے تھے۔ رومی نے ان سے میرا تعارف ایک مسافر‘ فلسفی اور شاعر کے طورپر کروا یا ۔ وشوا متر نے سوال کیا ۔

’’ تم خدا کا وجود کس طرح ثابت کر تے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا ۔’’ اس کا وجود ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔وہ تو ہر جگہ نظر آتا ہے ‘‘۔ وشوا متر میرے جواب سے بہت خوش ہوئے اور اپنی حکمت کے راز مجھ سے کہنے لگے۔
’’ اگر تمہیں کسی میں برائی نظر آئے تو سمجھو تمہارے دیکھنے میں کوئی قصور ہے اور سورج کو کہیں اندھیرا دکھائی نہیں دیتا۔ جو خدا کو نہیں مانتا وہ گویا زندہ ہی نہیں ہے ۔ توپھر ایسے شخص سے بحث و تکرار کا کیا فائدہ ۔ ایک سچا مومن اپنے اندر کی خرابیوں سے لڑتاہے اور انہیں اس طرح شکار کرتا ہے جس طرح چیتا بڑی چستی کے ساتھ ہرن پر جھپٹے۔‘‘ وشوا متر نے کہا کہ ’ ’ ایک دفعہ میں نے پھول سے پوچھا کہ تم تاریک مٹی میں سے خوشبو کیسے اخذ کر لیتے ہو ؟

پھول نے مجھ سے کہا کہ تم خاموش بجلی میں سے کھڑک کیسے سن لیتے ہو حالانکہ ہمیں تو گرجنے کی آواز سنائی نہیں دیتی اور ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ایک خاموش چیز جو آسمان پر چمکتی ہے اس میں سے تمہیں آواز کیسے سنائی دیتی ہے ۔ شائد یہ ہم دونوں کی زندگی کے انداز میں فرق کی بات ہے ۔ تم وہ اخذ کرتے ہو جو ظاہر ہے ہم وہ اخذ کرتے ہیں جو ظاہر نہیں۔‘‘

وہ کچھ اور کہیں گے لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دوبارہ مراقبے میں چلے گئے ہیں ۔ وہ روشنی جس سے کچھ دیر پہلے تک وادی بھری ہوئی تھی پھر اچانک غائب ہو گئی ۔ یوں مجھے اس روشنی کا راز معلوم ہوا۔ وہ دراصل وشوا متر سے آ رہی تھی اب وہ ضرور ان کے اندر جگمگا رہی ہوگی کیونکہ انہوںنے اپنی توجہ بیرونی دنیا سے ہٹا کر اپنے اندر مرکوز کر لی ہے ۔ وشوامتر سے باتیں کر کے وہ چاند کی ایک وادی کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادیِ طواسین کا نام دے رکھا تھا۔طواسین، دراصل طاسین کی جمع ہے، اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے۔ منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جبکہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے۔ وادیِ طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرتشت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات بیان کی ہیں۔

حرمِ کعبہ کا ایک منظر اقبال نے دکھایا ہے کہ یہاں ابوجہل کی روح نوحہ کرتی ہے۔اقبال نے یہاں اس انسانی اور نفسیاتی نکتے سے کام لیا ہے کہ آپ کا دشمن آپؐ پر جو الزام لگائے گا اور جو آپ ؐکے نقائص بیان کرے گا وہ دراصل آپؐ کی خوبیاں ہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ علامہ کیا فرماتے ہیں۔یہاں ابوجہل کی روح نوحہ بیان کیا گیا ہے۔ ابوجہل کی روح کہتی ہے۔

’’ہمارا سینہ محمدؐ کی وجہ سے داغ داغ ہے۔ اسکے دم سے کعبہ کا چراغ بجھ گیا۔اْس نے قیصر و کسریٰ (بادشاہوں) کی بربادی کی باتیں کیں، وہ نوجوانوں کو ہمارے ہاتھوں میں سے اچک کر لے گیا۔وہ جادوگر ہے اور اس کے کلام کے اندر جادوگری ہے، یہ دو حرف لاالہ (کوئی معبود نہیں) تو خود کافری ہے کہ ہر کسی کا انکار کیا جا رہا ہے۔جب اس نے ہمارے آباء و اجداد کے دین کی بساط الٹ دی تو ہمارے خداؤں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کی ضرب سے لات و منات پاش پاش ہو گئے۔ اے کائنات اس سے انتقام لے۔اس نے غائب سے دل لگایا ہے اور جو حاضر ہیں (بْت) ان سے ناطہ توڑا، اسکے جادو نے حاضر کے نقش کو توڑ دیا۔غائب پر نگاہ مرکوز رکھنا (دل لگانا) خطا ہے، جو نظر ہی نہیں آتا وہ کہاں ہے (اس کا کیا وجود جو نظر ہی نہ آئے)۔غائب کے سامنے سجدہ کرنا تو اندھا پن ہے، یہ نیا دین اندھا پن ہے اور اندھا پن (حاضر کو نہ دیکھ پانا) تو دوری ہے، فراق ہے۔‘‘

’’بے جہات خدا کے سامنے جھکنا، بندے کو یہ (ایسی) نماز کوئی ذوق عطا نہیں کرتی، اس شعر میں اقبال نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے اسی نماز میں ذوق ہے جس میں بندہ خدا کو سامنے دیکھے یعنی مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے۔اس کا مذہب ملک و نسب کو کاٹتا ہے، یعنی مساوات کا درس دیتا ہے، وہ قریش اور عرب کی فضیلت کا منکر ہے۔اسکی نگاہ میں اعلٰی اور ادنٰی سب برابر ہیں، وہ اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھا۔اس نے عرب کے آزاد بندوں کی قدر نہیں جانی، اس نے افریقہ کے بد صورتوں (اور غلاموں) سے موافقت پیدا کر لی۔

اس نے سرخ رنگ والوں (عربوں) کو سیاہ رنگ والوں (حبشیوں) کے ساتھ ملا دیا، اس نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی۔یہ مساوات اور بھائی چارے کی باتیں عجمی ہیں، میں خوب جانتا ہوں کہ سلمان فارسی مزدکی ہے۔ مزدک پانچویں صدی عیسوی کے آخر اور چھٹی صدی کے قبل کا ایک ایرانی مصلح تھا جس نے مساوات کی بات کی، ایرانی بادشاہ صباد نے اسکے نظریات قبول بھی کر لیے لیکن بعد میں اس نے اپنے بیٹے اور ولی عہد خسرو نوشیرواں کے ہاتھوں مزدک اور اسکے لاکھوں معتقدین کا قتلِ عام کروا دیا۔

ابو جہل یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ سلمان فارسی بھی مزدکی ہیں اور انہوں ہی نے ہی حضرت محمد ؐ کو مساوات کی باتیں سکھائی ہیں وگرنہ عرب میں ان باتوں کا کیا کام۔عبداللہ کے بیٹے ؐنے اسی (سلمان) کا فریب کھایا ہے اور عرب پر (مساوات) کی جنگ مسلط کر دی ہے۔ہاشم کا خاندان اپنے آپ (اپنی فضیلت) سے ہی دور ہو گیا ہے، دو رکعت کی نماز نے انکی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے۔عجمیوں کو عدنانیوں (قریش کے جدِ امجد عدنان) سے کیا نسبت ہو سکتی ہے، گونگا کہاں اور سبحانی کی گفتار کہاں۔ (سبحاں زمان اسلام کا ایک نامور اور شعلہ بیاں خطیب و مقرر تھا، فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور بعد میں امیر معاویہ کے مصاحبین مین شامل ہو کر خطیب العرب کا خطاب پایا)۔عرب کے خاص لوگوں کی آنکھ اندھی ہو گئی ہے، اے زْہیر اپنی قبر سے اٹھ کھڑا ہو۔

(زہیر عرب کا نامور شاعر جو اسلام کے خلاف شعر کہہ کر عربیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا)۔اے زہیر تو صحرا عرب میں ہمارا رہبر ہے، تو جبرائیل کی نوا یعنی قرآن کا جادو (اپنی شاعری سے) توڑ دے۔پھر بیان کر اے کالے پتھر (حجر اسود در کعبہ) پھر بیان کر، محمد ؐ کے ہاتھوں جو کچھ ہم نے دیکھا (ہم ہر جو گزری وہ اتنی دردناک کہانی ہے کہ) پھر بیان کر۔اے ہبل (قریش کا مشہور بت و معبود) اے بندوں کے عذر قبول کرنے والے، اپنے گھر (کعبہ) کو ان بے دینوں سے واپس لے لے۔ان کے بھیڑوں کے گلے کو بھیڑیوں کے حوالے کر، انکی کھجوروں کو درختوں پر ہی تلخ کر دے۔

ان پر صحرا کی ہوا کو صرصر (تند و تیز و گرم طوفانی ہوا) بنا کر بھیج، تا کہ وہ اس طرح گر جائیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے۔اے لات و منات اس منزل (کعبہ) سے مت جاؤ، اگر اس منزل سے چلے بھی جاؤ تو ہمارے (عرب و قریش) کے دلوں سے مت جاؤ۔اے وہ کہ تمھارا ہماری آنکھوں کے اندر گھر ہے، اگر تم نے جدا ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مہلت تو دو، کچھ دیر تو ٹھہرو۔انہی اشعار کے ساتھچاند کا سفر مکمل ہوا تو اقبال عطارد پر پہنچے۔

اقبال کہتے ہیں کہ مجھے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حقیقت ہے ۔ ہم خلا میں سفر کر رہے تھے اور اب عطارد کے قریب پہنچ چکے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا سیارہ تھا جو بادل سے پیدا ہوا تھا ۔ یہاں صحرا‘ پہاڑ اور جنگل تو تھے لیکن ابھی انسان کی دست برد سے بچے ہوئے تھے اور اسی لیے یہاں فطرت میں تبدیلی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔مجھے یہاں زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ۔ میںنے رومی سے کہا ۔ یہاں آبادی کا نام ونشان نہیں پھر یہ ٓاذان کی صدا کہاں سے آ رہی ہے ؟‘‘

رومی نے کہا کہ یہ پاک روحوں کا مقام ہے ۔ ماضی کے اولیا اور بزرگ یہاں رہتے ہیں ۔ جیسے فضیل ‘ ابو سعید ‘ جنید اور بایزید‘ پھر رومی نے کہا کہ ہمیں جلدی چلنا چاہیے تا کہ اس وقت کی نماز میں شامل ہونے کا موقع مل جائے ۔ ہم دونوں تیزی سے آگے بڑھے تو دیکھا ایک ترک ایک افغانی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ رومی نے جیسے ہی انہیں دیکھا ان کا چہرہ اشتیاق سے دمکنے لگا ۔

انہوں نے مجھ سے کہا :’’موجودہ دور نے ان سے بہتر انسان پیدا نہیں کیے ۔ رومی مزید کہتے ہیں’’سیدوں کے سید مولانا جمال الدین افغانی کہ جن کی باتوں سے پتھر اور مٹی بھی جاندار ہو گئے، اورترکوں کے سالار دردمند حلیم کہ جن کی فکر ان کے مرتبے کی طرح بلند ہے۔‘‘عظیم مبلغ جمال الدین افغانی اور ترک مصلح سعید حلیم پاشا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنا صحیح معنوں میں عبادت ہے ۔ ورنہ اب نماز تو صرف جنت کے حصول کے لیے مزدوری بن کر رہ گئی ہے ۔‘‘

سید جمال الدین افغانی کی امامت میں رومی و اقبال دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔افغانی سورئہ نجم کی قرات کر رہے تھے جو اس ماحول میں بڑی حسب حال معلوم ہوتی تھی ۔ میںنے محسوس کیا کہ قرآن کے اصلی معنی میرے دل میں اب ظاہر ہو رہے ہیں ۔ جیسے ہی انہوںنے نماز ختم کی میں آگے بڑھا اور ان کے ہاتھوں کو بوسا دیا ۔ پھر رومی نے ان دونوں سے میرا تعارف ’’ زندہ رود ‘‘ کے طور کروایا ۔ زندہ رود فارسی میں تند و تیزندی کو کہتے ہیں اور چونکہ رومی کا خیال ہے کہ میں ہمیشہ تلاش میں رہتا ہوں اور میری زندگی ایسے ہی ہے جیسے تندو تیز ندی اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو تورٹی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہے ۔اس لیے انہوںنے مذاق سے مجھے زندہ رود کا نام دیا تھا۔ افغانی نے مجھ سے کہا کہ میں دنیا کے موجودہ حالات بتائوں جہاں سے میں آیا ہوں ۔

مجھے بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑا کہ’’ مسلمان اپنے عظیم ورثے کو بھول کر مغربی افکار و تصورات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ وہ عالم گیر ملت اسلامیہ کی ایک عظیم وحدت بننے کے بجائے اپنی قومیتی شناخت سے وفاداریاں نبھا رہے ہیں اور اب اشتراکیت نے ان کی رہی سہی قوت بھی چھین لی ہے ۔ اشتراکیت وہ نظریہ ہے جو روس نے 1917ء کے انقلاب کے بعد اپنایا ہوا ہے ۔ اگر چہ اس کا مقصد استحصال کا خاتمہ ہے مگر یہ دہریت کی تعلیم بھی دیتا ہے‘‘ ۔

’’ مغرب کس قدر چالاک ہے ۔‘‘ افغانی نے اظہار خیال کیا:

’’وہ اپنے علاقے میں قومیت کے پھل کا مزہ چکھ چکے ہیں اور مرکزیت کے بارے میں غور کر رہے ہیں ۔ جب کہ تمہیں وہ ابھی تک اپنی روح کی بجائے اپنی قومیت سے وفاداری نبھانے کا درس دے رہے ہیں ۔ اشتراکیت کا فلسفہ دینے والا مفکر کارل مارکس بلا شبہ ایک ذہین آدمی تھا اور اس کے افکار کسی حد تک متاثر کن ہیں مگر بد قسمتی سے اس کا قلب مومن اور دماغ کافر تھا۔ اس کے فلسفہ پیٹ کی مساوات پر مبنی ہے جب کہ انسانیت کی اصل شان تو روح کی مساوات میں ہے ۔ مغرب نے بہت عرصہ سے روحانیت کو چھوڑ کر مادیت پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔‘‘

’’ مصطفی کمال پاشا کو ہی دیکھ لو ۔‘‘ سعید حلیم پاشا بھی گفتگو میں شامل ہو گئے ۔

’’وہ بھی یہی غلطی دہرا رہا ہے ۔ وہ نئے تصورات اپنا رہا مگر تمام پرانی اقدار سے دور جا رہا ہے ۔ یہ تو اس طرح ہے کہ جس طرح کوئی بچے کو نہلاتے ہوئے پانی کے ساتھ ساتھ بچے کو بھی بہاد ے ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے میرے دوست کہ قرآن کی آیات میں بہت سے ایسے جہاں پوشیدہ ہیں جو ابھی تک تخلیق نہیں کیے گئے اگر تم دین سے بیزار ہو چکے ہو اور ایک نئی دنیا کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں بہت دور نہیں جاناپڑے گا ۔ قرآن کی آیات سے ایک نیا جہاں ڈھونڈو اور اسے تخلیق کرو ۔قرآن کی جو تعلیمات ہیں اس دور میں ضرور رکھنی چاہیں ۔‘‘

افغانی نے عالمانہ شان کے ساتھ اضافہ کیا ۔
’’اول یہ کہ انسان زمین پر خدا کا نائب ہے ۔ دوم یہ کہ اطاعت کے قابل صرف اﷲ تعالیٰ کی حکومت اور اس کا آئین ہے نہ کہ زمینی آمروں کا بنایا ہوا آئین ۔ سوم یہ کہ سب کچھ اﷲ ہی کا ہے اور مالداروں کو اﷲ کی طرف سے امانت دی گئی ہے تا کہ وہ اسے دوسروں کی بھلائی کے لیے خرچ کریں ۔ چہارم یہ کہ حکمت خیر کثیر ہے ۔‘‘

اقبال کہتے ہیں:
’’ افغانی نے ان چار نکات کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی اور جیسے جیسے وہ سمجھاتے جا رہے تھے مجھے اپنے اندر ایک فہم کی نئی روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔ بے شک میں اﷲ کی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھ رہا ہوں ۔ جب وہ وضاحت کر چکے تو میں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے مولوی اس کی تعلیم کیوں نہیں دیتے ‘ ‘؟

سعید نے ناگواری سے کہا ک
ہ’’ وہ قرآن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔خدا کے نام پر فساد کروانا ہی ان کا مذہب ہے دراصل وہ یہی کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔‘‘

یہاں علامہ مشرق اور مغرب کے خیالات اور ان کے فلسفوں کے متعلق سعید حلیم پاشا کی زبانی اپنی ملاقات کو آگے بڑھاتے ہیں اور اپنے ان خیالات کو دہراتے ہیں جو انکی شاعری کے آخری دور میں جا بجا موجود ہیں، جن میں مغرب اور مشرق کے تقابل کے ساتھ ساتھ علم اور عشق پر بحث ہے۔ اس حصے میں مصطفیٰ کمال اتاترک کا ذکر بھی آیا ہے اور جس کے متعلق اقبال اس کتاب کی تصنیف تک اپنا یہ نتیجہ نکال چکے تھے کہ اس نے کوئی نیا نظام نہیں دیا بلکہ مغرب کی ہی پرانی چیزیں ہیں۔ سعید حلیم پاشا کچھ یوں آغاز کرتے ہیں:

"مغرب والوں کے لیے دانش و حکمت ہی زندگی کا ساز و سامان ہے جبکہ مشرق والوں کیلیے کائنات کا راز عشق ہے۔اور یہ کہ عقل عشق کی وجہ سے حق شناس بن جاتی ہے اور عشق کا کام عقل کی مدد سے مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جاتا ہے، عشق جب عقل کے ساتھ ہم پہلو ہو جاتا ہے تو وہ ایک نیا ہی عالم پیدا کر دیتا ہے، لہذا اے مسلمان اْٹھ اور ایک نیا جہان بنا، عشق کو عقل کے ساتھ ملا دے۔"

یہاں اقبال عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسکا عشق کے ساتھ اتحاد چاہتے ہیں تا کہ ایک جہانِ تازہ پیداہو کیونکہ فرنگیوں کا شعلہ نم خوردہ ہو چکا ہے، انکی آنکھ تو دیکھتی ہے لیکن دل مردہ ہے۔ وہ اپنی ہی تلوار سے زخم کھائے ہوئے ہیں اور اپنے ہی شکار کی طرح بسمل پڑے ہیں۔علامہ کے مغرب کے متعلق ان خیالات کو پہلی جنگ عظیم کے تناظر اور اس وقت کے یورپ کے سیاسی حالات اور انکی روشنی میں دوسری جنگ عظیم کی بیش بینی کے طور پر دیکھنا چاہیئے۔

مزید فرماتے ہیں کہ مغرب کی انگور کی بیل سے سوز و ساز و مستی تلنہ کر انکے افلاک میں کوئی اور یعنی نیا زمانہ نہیں ہے۔ اے مشرق والے، زندگی کا سوز و ساز تیرے جذبے کی آگ سے ہے، نیا جہان پیدا کرنا تیرا ہی کام ہے۔سعید حلیم پاشا کی زبانی علامہ، مصطفیٰ کمال اتاترک کے متعلق فرماتے ہیں۔اسکے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا، اسکے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔یہاں سے گفتگو کا رْخ مصطفیٰ کمال اتاترک کی طرف مْڑ جاتا ہے اور سعید حلیم پاشا کہتے ہیں کہ گو مصطفیٰ کمال نے تجدد یعنی تجدید کا راگ الاپا ہے اور اس نے کہا کہ (اسلامی اقدار و روایات) کے ہر نقشِ کہن کو مٹا دینا چاہیئے لیکن کعبہ میں اگر افرنگ کے نئے لات و منات آ بھی جائیں تو اس سے کعبہ کا رختِ حیات نیا نہیں ہو جاتا.

لہذا اس نے ترکی کو جدید بنانے کیلیے جو کچھ بھی کیا ہے اور جو راگ بھی الاپا ہے اس میں کوئی نیا آہنگ اور سْر نہیں ہے بلکہ اْسکی ہر نئی چیز میں وہی پرانی افرنگی باتیں ہیں۔ اْس کے سینے میں کوئی نیا سانس نہیں تھا اور اسکے ضمیر میں کوئی نیا جہان نہیں تھا۔یہاں سے گفتگو اس نہج پر پہنچتی ہے کہ پھر نیا جہان کیسے پیدا کیا جائے تو علامہ فرماتے ہیں کہ کائنات میں جو طرفگی یا عجائبات یا جدیدیت ہے وہ زندگی کی تقویم کی اندھا دھند پیروی میں نہیں ہے بلکہ ایک زندہ دل زمانوں اور اقدار کی تخلیق کرتا ہے، اور (اندھی) تقلید سے جان بے حضور ہو جاتی ہے۔

رومی پر بھی افغانی کے بصیرت افروز بیان نے بڑا گہرا اثر ڈالا ۔اقبال کہتے ہیں کہ میںنے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ۔ پھر انہوںنے میری طرف دیکھا اور کہا کہ’’ اپنی شاعری سنائو کہ روح کو تڑپا دے اور جستجو کی امنگ بڑھا دے ۔ ‘‘میں اپنی اس عزت افزائی پر بے حد مسرود ہوا اور اپنی ایک نظم کا یہ حصہ سنایا۔ جس کا ترجمہ ہے کہ

’’ باغ میں چلنے والی ہوا کی طرح وہ پھول بھی گرم سفر ہے جنہیں لوگ ایک جگہ ٹھہرا ہوا سمجھے ہیں ۔ نئی معانی جو ہم تلاش کرتے ہیں مگر وہ ملتے نہیں وہ ملیں بھی کیسے کہ مسجد ‘درس گاہیں اور میخانے سب بنجر ہیں اپنے آپ سے ایک حرف سیکھ لو اور پھر اسی میں جل جائو کہ اس خانقاہ میں موسیٰ ؑ کا سوز رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘