پروفیسر ساجد میر صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں، یعنی اس ساجد میر کو جو دراصل ان کی طبع تھی اور ذوق تھا اور جو ان کی اصل شخصیت تھی۔ باقی سب، جتنے لوگ بھی پروفیسر صاحب کو جانتے ہیں، وہ ان کو دور سے جانتے ہیں، ان کی شخصیت میں قرون اولیٰ کے لوگوں کی سی چھب تھی،سادہ اور نفیس انتہا کے تھے، باذوق تھے.
اردو ادب اور شاعری سے گہرا شغف تھا، شعر کا یا اردو کے کسی بھی لفظ کا غلط تلفظ برداشت نہ کر سکتے تھے، یہ چیز شائد ان کے ہاں موروثی بھی تھی اور ماحول سے بھی ملی تھی، اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیض ناصرف آپ کے محلے کے تھے بلکہ آپ کے دادا ابراہیم میر سیالکوٹی کے کتب خانے سے متاثر اور مستفید بھی ہوئے تھے، انھوں نے شروع میں قرآن بھی آپ کے دادا سے پڑھا تھا، بلکہ حفظ کرتے رہے تھے۔
ابراہیم میر سیالکوٹی کے کتب خانے کا تذکرہ فیض احمد فیض پی ٹی وی پر اپنے ایک انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں، علامہ اقبال بھی آپ کے دادا کے علم و فضل سے متاثر بھی تھے اور اس حوالے ان کے مداح بھی تھے، یہ جملہ وہاں کافی مشہور ہوا،جب اقبال نے ابراہیم میر سیالکوٹی سے کہا کہ ابراہیم آپ ان صفوں پر بیٹھ کر ہم سے اچھے رہ گئے ہیں، اصل جملہ پنجابی میں یوں تھا، ابراہیم توں ایناں پھوڑیاں تے بہہ کے ساڈے نالوں چنگا رہ گیا ایں۔
قرآن سے محبت کی آپ ایک اچھوتی مثال تھے، والدہ کو دیکھا نہیں تھا، وہ پہلے ہی داغ مفارقت دے گئی تھیں، جب آپ صرف دو اڑھائی ماہ کے تھے۔ کسی نے غالبا بڑی بہن صاحبہ نے بتایا کہ والدہ کی خواہش تھی اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کی، آٹھویں کے بعد ارادہ کیا تو دادا نے عجیب لہجے میں فرمایا ، حفظ تو اللہ کروا ہی دے گا، تم سکول کی جدید تعلیم پر توجہ دو، دل میں لیکن والدہ کی خواہش پوری کرنے کی تمنا سلگتی رہی اور خود سے یاد کرنا شروع کر دیا، ایک ماموں حکیم بھی تھے اور بڑے پختہ حافظ بھی، جن کے لبوں پر دائم قرآن رہتا، سورتیں یاد کرکے انھیں سنا دیا کرتے.
یوں کچھ انٹر کے بعد، کچھ بی اے کے بعد اور کچھ پروفیسربننے کے بعد سٹاف روم میں بیٹھ کے آہستہ آہستہ مکمل قرآن یاد کرلیا اور زندگی میں کبھی تراویح میں قرآن سنانے سے ناغہ نہیں کیا، سوائے چند ایک بار کے جب بیرون ملک سفروغیرہ کی وجہ سے کوئی سبیل نہ بن سکی۔سیاست،جماعت کی قیادت یا دیگر مصروفیات کبھی اس راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں، یوں بھی ہوتا کہ رمضان کے دن ہیں،سینٹ کا کوئی اجلاس ہے اور یہاں ان کی مسجد میں لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں کہ میر صاحب اسلام آباد سے پہنچیں گے تو آج کی تراویح پڑھائیں گے۔
خاندانی جائیداد بڑی وسیع اور قیمتی تھی، کافی ساری تو عید گاہ وغیرہ کے لیے وقف کر دی۔ بیگم بھی صاحب علم تھیں۔ مقبول ناول نگار عمیرہ احمد نے ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ سیالکوٹ کالج میں عمیرہ احمد کی میر صاحب کی بیگم استاد رہیں۔ انھوں نے بڑے اچھے الفاظ میں اپنی استاد کا تذکرہ کیا۔
گفتگو ایسی جامع ، ہمہ جہت اور شائستہ کرتے کہ سننے والا اش اش کر اٹھتا، عملا مذہبی آدمی تھے مگر طبعا اردو ادب کے ذوق سے حظ وافر پایا تھا۔ تکلفات کے عادی نہ تھے، آخری عمر تک بے تکلف کفایت شعاری اور سادگی سے جیتے رہے، ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ کے سنگ جانے والے کسی صاحب نے آپ کے کمرے کا جو نقشہ کھینچا، اسے ڈھونڈ کے پڑھ لینا چاہیے اور وہ سو فی صد درست ہے۔ اجداد سے جو پراپرٹی ملی، اس میں کچھ اضافہ نہ کیا،بلکہ کچھ زیادہ فائدہ بھی نہ اٹھایا، حالانکہ وہ کمرشل ویلیو کی زمین ہے۔ اور وہاں بہت قیمتی دکانیں ہیں۔ اسراف کو کبھی پسند نہ فرماتے،دفتر میں اضافی لائٹ جلنے تک کا نوٹس لے لیتے۔
اللہ نے جرات ایسی دے رکھی تھی کہ بڑے سے بڑے لوگ بھی آپ کی ہیبت سے مؤدب رہنے پر مجبور ہو جاتے۔ مشرف کے خلاف پاکستان کی تاریخ کا اکلوتا ووٹ آپ ہی کا تھا ، بی بی سی نے اس پر سٹوری کر رکھی ہے۔ مشرف نے پھر ایجنسیز کو پیچھے لگایا مگر وہ کوئی ایسی چیز نہ ڈھونڈ سکے، جس پر گرفت کی جا سکتی۔ کم گو تھے مگر لفظ برتنے کا سلیقہ رکھتے تھے،بڑے سے بڑے معاملے کو چند لفظوں میں نمٹا دیتے۔میرا آپ سے تعلق ادبی نوعیت کا تھا، ہمیشہ محبت سے اورمسکراتے ہوئے پیش آتے، میں بے تکلف آپ کے دفتر میں چلا جاتا،آپ میں تواضع کا عجب مادہ تھا، پیغام ٹی وی کے پیٹرن انچیف تھے، سینٹر تھے، ائمہ حرم آپ کو اپنے عربی کلچر کے مطابق والد بزرگوار کہہ کے پکارتے، مشرف کو للکار چکے تھے، مگر جب کام ہوتا تو دفتر میں طلب کرنے کے بجائے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں خود تشریف لے آتے، لکھنے پڑھنے کی کوئی بات ذمے لگا دیتے .
دور ہوتے تو خود فون کرتے، کام کہنے کا اپنا ہی انداز تھا، تسیں پہلے وی ہمیشہ شفقت فرماندے او۔۔ تے اج اک ہور شفقت تسیں کرنی اے۔۔ آدمی کو سمجھ میں نہ آتا کہ ایسی عزت افزائی پر دو فٹ اوپر اچھلے یا شرم سے چند قدم زمین میں گڑھ جائے۔ ہمیشہ لطیف اور پرسکون رہتے،ایک ایسے سمندر کے مانند جسے اپنے تلاطم سنبھال لینے کا ملکہ حاصل ہوگیا ہو۔ اچھے شعر پر داد دیتے، ایک پروگرام کی کمپئرنگ کے بعد فرمانے لگے، شعر اچھے پڑھے، مجھے بھی لکھ کے دینا۔یہ جدید شعرا میں سے میں نے چنے تھے، قدیم شعرا تو ویسے ہی ان کی نگاہ میں بھی تھے اور حافظے میں بھی تھے۔
طبیعت میں عجب طرح کا توازن تھا، مزاح، شائستگی، روحانیت ،علمیت سیاست، تواضع اور اپنا ہی ایک وقار اور خود داری۔۔اہل حدیث جماعت کے امیر تھے مگر شدت بالکل نہ تھی۔ میں نے انھیں کبھی گھبرائے ہوئے نہیں دیکھا، جن دنوں ایجنسیز ان سے ملنا چاہتی تھیں، اور جب ایک کروفر والا خاکی یوں آیا کہ پارلیمنٹ کے لاجز خالی ہو چکے تھے، اندر میر صاحب تھے، یا ان کے ڈرائیور ۔۔ وہ آئے تو نہ اٹھے اور نہ جھکے، چشم دید شخص بتاتے ہیں کہ مصافحے میں بمشکل چند انگلیوں سے آنے والے کا ہاتھ چھوا۔ ان کی اس معاملے میں بے نیازی دیکھنی ہو تو اعزاز سید کے ساتھ انٹرویو دیکھنا چاہئے۔ ذہین بچپن سے ہی بہت تھے، ان کی سی وی دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کے اعزازات ہیں۔
کتابیں لکھیں،پچھلے دنوں عیسائی سے مسلمان ہونے والے عبدالوارث صاحب، جو اب خود ایک ادارہ بنا چکے ہیں، بتا رہے تھے کہ مجھے جس کتاب نے عیسائی سے مسلمان کیا، وہ پروفیسر صاحب کی کتاب ہے۔ پیغام ٹی وی کو اپنی آزاد پالیسی پر چلنے دیا، کبھی یہ نہ کہا کہ اس میں مسلک کا نام، مسلک کی چھاپ یا مسلک کی بات ہونی چاہیے۔ان کی اپنی گفتگو بھی پالیسی کے تحت کٹ جاتی تو کبھی پلٹ کے نہ پوچھتے۔ پیغام ٹی وی اور اس کے ورکرز سے دلی محبت کرتے۔ پیغام ٹی وی کو کبھی کسی وقت یا ضرورت سے انکار نہ کرتے۔ ایسی تحسین فرماتے کہ ورکرز کا دل شاد ہو اٹھتا۔ ٹیم پر بے انتہا اعتماد فرماتے۔
سچ کہتا ہوں، وہ اس عہد کے آدمی نہ تھے۔ ایک بار فرمایا ،جنت میں جانا تو سبھی چاہتے ہیں، میں اس لیے بھی جانا چاہتا ہوں کہ اپنی والدہ کا چہرہ دیکھ سکوں، وہ گود جو اس تپتی عمر میں میسر نہ آ سکی،اس کا لطف اور راحت پا سکوں۔ لیجیے، وہ اپنی والدہ کی طرف اور لاکھوں ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے مالک کی طرف چل دئیے۔ اللہ ان سے رحم کا معاملہ فرمائے۔ ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کی ذہن میں کہکشاں آباد ہے،ہو سکتا ہے کبھی لکھ ڈالوں۔ دفتری کام سے جب کبھی سیالکوٹ جانا ہوتا تو اک راحت و لطف سے سفر کٹتا، لیجیے اب کے سیالکوٹ بھی خالی خالی سا ہوگیا.
آج بھی نکلنا ہے،لیکن یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ ان کیلئے جائیں گےاوروہ نہ ہوں گے، نہ وہ مسکراہٹ، نہ وہ تراشیدہ جملے نہ وہ پرمغز گفتگو ،نہ میرے شرارتی جملے اور نہ ان کی مشفقانہ اور ماہرانہ داد۔ کیا حیرت نہیں کہ جس شخص سے آپ کا نہ جماعتی تعلق ہے اور نہ خون کا کوئی رشتہ،اس کے جانے سے آپ کو یوں لگتا ہے، جیسے جسم کا کچھ حصہ چلا گیا، جیسے دل کا اک ٹکڑا نہ رہا، جیسے کچھ زندگی کہیں گم ہوگئی۔
تبصرہ لکھیے