2025 کا آغاز پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے غور طلب رہا۔ کہیں ترقیاتی اعلانات نے امید دلائی، تو کہیں پرانی بدعنوانیوں نے نئی صورت میں سر اٹھایا۔ سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا پاکستان واقعی ترقی کی راہ پر گامزن ہے یا یہ ترقی صرف ایک خاص دائرے تک محدود ہو چکی ہے؟ عوام کو جو دکھایا جا رہا ہے، وہ کیا حقیقت ہے یا صرف "برانڈنگ" کا نام ہے؟
پنجاب اس وقت انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایئر پنجاب کے قیام کا اعلان، جو پاکستان کی پہلی صوبائی ایئرلائن کے طور پر متعارف ہو رہی ہے، یقیناً ایک منفرد قدم ہے۔ چار طیارے لیز پر لینے کا منصوبہ طے پا چکا ہے اور اگلے آٹھ سے بارہ ماہ میں اس کا آغاز متوقع ہے۔ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان بلٹ ٹرین منصوبہ، جو دو گھنٹے بیس منٹ میں فاصلہ طے کرے گی، بھی اس ترقیاتی دوڑ کی ایک واضح مثال ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، بہاول نگر جیسے پسماندہ علاقے میں ایئرپورٹ کی منظوری دینا بھی اس بات کا عندیہ ہے کہ کمزور علاقوں کو مرکز میں لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہاں یہ بات بھی ہے کہ بہاولپور کا ایئرپورٹ دو سالوں سے کیوں بند ہے؟
خیبر پختونخوا میں بھی کچھ اچھی خبریں سامنے آئی ہیں۔ سکی کناری ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی تکمیل سے توانائی کے شعبے کو سہارا ملے گا اور "دستک" جیسی ایپلیکیشن ڈیجیٹل گورننس میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ لیکن یہ ساری پیش رفت اس وقت دھندلا جاتی ہے جب 14 ارب روپے کے مالیاتی اسکینڈل جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہ اسکینڈل، جسے باؤنس چیک اسکینڈل کے نام سے جانا گیا، نہ صرف کے پی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ پورے سسٹم پر ایک دھبہ ہے۔ فرضی اخبارات، کیش کرائے گئے چیکس، اور کسی قسم کی رجسٹری نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی بہت سے نظامی خلا باقی ہیں جنہیں پُر کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
ادھر سندھ سے بھی کچھ حالیہ خبریں توجہ کا مرکز بنی ہیں۔ کراچی میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر واٹر بورڈ کے خلاف عوامی احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ 2025 کے آغاز میں ہی شہری علاقوں میں شدید پانی کی قلت نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ شہری یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت کا فرضی انفراسٹرکچر اور اربوں کے ترقیاتی منصوبے آخر کس کام کے جب بنیادی ضروریات جیسے پانی، بجلی اور صفائی تک میسر نہ ہوں۔
بلوچستان کی صورتحال بدستور سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ رواں برس کے ابتدائی مہینوں میں کوئٹہ اور گردونواح میں سڑکوں اور اسپتالوں کی حالت زار پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی گئی۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ انہیں بھی وہی حقوق اور سہولیات دی جائیں جو دیگر صوبوں کے عوام کو حاصل ہیں۔ کئی علاقوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث کئی جانیں ضائع ہوئیں، جس پر نہ تو کوئی واضح حکومتی ردِعمل آیا اور نہ ہی اصلاحی اقدامات کی کوئی جھلک دکھائی دی۔
یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کی ترقی اگر کسی ایک خطے یا طبقے تک محدود رہی تو یہ دیرپا نہ ہو سکے گی۔ ایک طرف ٹرینیں اُڑ رہی ہیں، ایئرلائنز بن رہی ہیں، تو دوسری جانب شہری پانی، صحت اور شفافیت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ترقی وہی ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے، ورنہ یہ صرف کاغذی دعوے اور اشتہاری مہمات سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ تضاد ہی دراصل سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب ایک جانب اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے ہوں اور دوسری طرف بدعنوانی کے تحت اربوں روپے کی خردبرد ہو رہی ہو، تو سوچنا ہوگا کہ یہ کیسی ترقی ہے؟ کیا ہم حقیقتاً ترقی کر رہے ہیں یا صرف ترقی کا دکھاوا کیا جا رہا ہے؟
ایک پائیدار، شفاف اور مربوط ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر صوبہ، ہر ضلع، اور ہر فرد کو برابری کی بنیاد پر مواقع دیے جائیں۔ جب تک یہ توازن قائم نہیں ہوتا، پاکستان کی ترقی صرف ایک خوش فہمی ہی رہے گی۔
تبصرہ لکھیے