پاکستان میں پانی کی تقسیم ایک حساس اور اہم مسئلہ ہے، جو نہ صرف معیشت بلکہ وفاقی اکائیوں کے درمیان تعلقات پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ حالیہ برسوں میں دریائے سندھ پر نئی نہروں کی تعمیر جیسے منصوبے، خاص طور پر "کالاباغ ڈیم" یا "غیر قانونی نہری راستے" جیسے منصوبوں نے سندھ کی عوام میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔ سندھ کی عوام کا ماننا ہے کہ ان نہروں کے ذریعے سندھ کے حصے کے پانی کو دوسرے صوبوں کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے، جو کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے اور آئینی مساوات کی خلاف ورزی ہے۔
سندھ ایک زرعی صوبہ ہے جس کی معیشت کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ جب پانی کی قلت ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان سندھ کے کسانوں، زمین داروں، اور عام دیہی آبادی کو ہوتا ہے۔ سندھ کی عوام اور سیاسی قیادت کا کہنا ہے کہ نئی نہروں کی تعمیر سے پہلے صوبوں کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان منصوبوں سے سندھ کے نچلے علاقوں میں پانی کی دستیابی مزید کم ہو جائے گی، جس سے زراعت، پینے کا پانی، اور دریائی نظامِ حیات سب متاثر ہوں گے۔
ماضی میں بھی سندھ نے کئی بار شور اُٹھایا کہ جب بھی دریائے سندھ پر اپر انڈس میں کوئی نیا منصوبہ بنایا جاتا ہے، تو اس کی مشاورت میں سندھ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ سندھ کے مختلف سیاسی، قوم پرست اور سماجی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبے مرکز یا دیگر بڑے صوبوں کی بالادستی کی علامت ہیں اور ان سے صوبائی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
دوسری طرف حکومتی مؤقف یہ ہے کہ ملک میں پانی کی شدید کمی کے پیش نظر پانی کو ذخیرہ کرنے اور نئے نہری نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ فصلوں کی پیداوار بڑھے، اور پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے۔ لیکن مسئلہ صرف وسائل کا نہیں، اعتماد کا بھی ہے۔ اگر ماضی میں سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں ملا، تو آئندہ کیسے یقین کیا جائے کہ نئی نہریں اس کے مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی؟
یہی وجہ ہے کہ سندھ کے شہریوں اور دیہی عوام دونوں میں اس مسئلے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ آئے روز سوشل میڈیا، جلسے جلوس، اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے یہ آواز بلند کی جا رہی ہے کہ سندھ کے پانی پر کسی اور کو اختیار نہ دیا جائے۔ سندھ اسمبلی میں بھی اس حوالے سے قراردادیں منظور ہو چکی ہیں کہ جب تک تمام فریقین متفق نہ ہوں، کوئی نیا منصوبہ قابلِ قبول نہیں۔
پانی کے مسائل پر قومی ہم آہنگی اور بین الصوبائی مشاورت کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اگر اعتماد کی فضا بحال نہ کی گئی اور سندھ کے تحفظات کو دور نہ کیا گیا، تو یہ مسئلہ نہ صرف آبی بحران بلکہ قومی اتحاد کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ پائیدار حل وہی ہوگا جو سب کو ساتھ لے کر چلے، انصاف پر مبنی ہو، اور مستقبل کی ضروریات کے ساتھ ساتھ ماضی کی غلطیوں کا بھی ازالہ کرے۔
تبصرہ لکھیے