1981ء میں ہم نویں جماعت میں آگئے۔ آٹھویں اور نویں جماعت میں بنیادی فرق یہ تھا کہ پہلی سے آٹھویں تک تو ہم اپنے سارے امتحان اپنے ہی اسکول میں اپنے ہی اساتذہ کی زیرِ نگرانی دیتے آئے تھے، جبکہ اب ہمارے امتحان سیکنڈری بورڈ کے تحت ہونے تھے اور اپنے اسکول میں نہیں بلکہ کسی اور اسکول میں جاکر دینے تھے۔
کہاں؟ جہاں سینٹر پڑے گا۔ یہ لفظ "سینٹر" ہر طالبِ علم کیلئے خاصا خوفناک ہوتا تھا، خصوصاً پڑھنے میں کمزور اور نقل چور لڑکوں کیلئے۔
خدا جانے کہاں سینٹر پڑے گا؟
کتنی سختی ہوگی؟
پیپر کتنا مشکل آئے گا؟
”پھرّے“ لے جانے اور نقل مارنے کا موقع ملے گا یا نہیں؟
پنجاب میں جس چیز کو ”بُوٹی“ کہتے ہیں، کراچی میں اس کیلئے پھرّے کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔
ہمارا شمار پڑھاکُو اور تیز لڑکوں میں ہوتا تھا۔ میری ہر سبجیکٹ کی کاپیوں میں نوٹس اور سوالات وجوابات بہت صفائی اور عمدگی کے ساتھ لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ جیسے جیسے نویں جماعت کے امتحان قریب آتے گئے، میری کاپیاں اور میرے نوٹس میرے ہم جماعت لڑکوں کیلئے اہم ہوتے چلے گئے۔ میری کاپیاں میرے اکثر کلاس فیلو مجھ سے اپنا کام مکمل کرنے کے بہانے لے کرجاتے تھے، لیکن وہ اسے لکھ کر کاپی کرنے کے بجائے اس کی مائیکر کاپیاں کروا لیتے تھے۔ کوچنگ سینٹرز کے تیار کردہ گیس پیپرز کی مدد سے منتخب سوالات کے جوابات کی مائیکرو فوٹو اسٹیٹ کاپیاں.
جنہیں لڑکے اپنی آستینوں اور جرابوں میں چھپا کر کمرہ امتحان میں لے جاتے تھے اور پیپر دیتے وقت ان پر سے نقل مارتے تھے۔ یعنی میری کاپیاں امتحان میں نقل کرنے کیلئے پھرّے بنانے میں استعمال ہو رہی تھیں، لیکن مجھے اس کی کانوں کان خبر نہیں تھی۔ پھر ایک دن یہ بھی ہوا کہ نویں جماعت میں سال کے آخر میں جب بورڈ کے امتحان قریب تھے تو اچانک میری سال بھر کی محنت سے تیار کردہ، ڈایاگرام سے مزیّن کاپیاں چوری ہوگئیں۔ میرے تو سر پر پہاڑ ہی گر پڑا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
میں نے ایک دو دن تو کلاس میں خوب واویلا کیا اور رونا دھونا مچایا، لیکن چور نہ ملا تو پھر صبر کے ساتھ اپنے چند کلاس فیلوز کی مدد سے وہ کاپیاں نئے سرے سے تیار کرنے میں جت گیا۔ امتحان سے چند دن قبل میں اپنے سارے نوٹس نئے سرے سے مکمل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس وقت مجھے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ امتحانات کے بالکل قریب کاپیاں چوری ہونے کا یہ سانحہ میرے لئے کس قدر فائدہ مند تھا، کیونکہ نوٹس مکمل کرنے کے دوران میری سارے مضامین کی خودبخود بھرپور تیاری ہوچکی تھی۔
ہمارے اسکول کا امتحانی سینٹر ملیر کے مشہور جامعہ ملیہ پائلٹ سیکنڈری اسکول میں پڑا تھا۔ پہلا پیپر بائیولوجی کا تھا۔ امتحان کا وقت صبح نو بجے سے دوپہر بارہ بجے تک تین گھنٹے تھا۔ سب کے دل بُری طرح دھڑک رہے تھے اور زبانیں جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کے وِرد میں مشغول تھیں۔ پیپر مقرر وقت پر شروع ہوگیا۔ امتحانی پرچہ ہاتھ میں آتے ہی سب کی سٹی گم ہوگئی۔ میں نے پرچے کا جائزہ لیا تو خوشی ہوئی کہ اس میں سے تقریباً سارے سوال مجھے آتے تھے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ بیس سوال تو معروضی یا MCQs تھے، جن میں سے 18 کا جواب مجھے معلوم تھا۔ میں نے فوراً ہی اپنا پرچہ حل کرنا شروع کردیا۔
میں جس وقت تیزی سے لکھ رہا تھا، اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ کمرہ امتحان میں موجود دو نگراں اساتذہ میں سے ایک نوجوان سا ٹیچر بار بار میرے قریب آتا اور غور سے میری کاپی کو دیکھتا۔ میں چونکہ نقل نہیں کر رہا تھا اس لئے بالکل پریشان نہیں ہوا اور بے فکری سے لکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہی ٹیچر میرے پاس آیا اور مجھے ایک کتاب ہاتھ میں دے کر سرگوشی میں بولا :
”یہ بائیولوجی کی شرح ہے۔ یہ لے کر واش روم جاؤ اور اس میں سے سارے سوالوں کے جواب نکال کر لے آؤ۔ خود اپنا پرچہ بھی حل کرو اور مجھے بھی دو تاکہ میں دوسروں کو نقل کرواؤں۔ جلدی سے جاؤ۔“
”لیکن کیوں سر؟ …“ میں اچنبھے سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”ابے کیسا لڑکا ہے تُو؟ …“ وہ جھلا کر بولا۔ ”میں تمہیں خود نقل کی اجازت دے رہا ہوں اور تم ہو کہ آگے سے سوال کر رہے ہو؟ … “
”لیکن سر مجھے تو سارے سوال آتے ہیں، میں کیوں نقل کروں؟“ میں بولا۔
”تو پھر دوسروں کو نقل کرواؤ“
اس نے کلاس کے باقی لڑکوں کی طرف اشارہ کیا جو مجھے ملتجیانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
”یہ نہیں ہوسکتا سر …“ میں ”سماج کی دیوار“ بن کر کھڑا ہوگیا۔ ”میں تو صرف اپنا پیپر کروں گا، کسی کو نقل نہیں کراؤں گا“
”ابے یہ صرف تیرا نہیں، پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ پورے سندھ میں نقل ہو رہی ہے۔ سب نقل مار کر پاس ہو جاتے ہیں اور ہم کراچی والے اپنی ایمانداری میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سمجھا کرو بات کو۔“
”سوری سر“ میں بولا۔ ”میں صرف اپنا پرچہ حل کروں گا“
ٹیچر نے مجھے غصے سے گھورا، پھر مجھ سے پیچھے کسی اور لڑکے کی طرف چلا گیا۔ کچھ دیر کھسر پھسر کی آوازیں آئیں اور پھر ایک لڑکا اپنی شرٹ کے اندر بائیولوجی کی شرح چھپاتا ہوا باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد واپس آیا تو ٹیچر تیزی سے اس کی طرف لپکا اور پھر میرے اردگرد تیز تیز سرگوشیاں ہونے لگیں۔
علم و ادب کا شہر کراچی اپنے نئے روپ کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔
میں نے تو اسی انداز میں اپنے سارے پرچے دیئے اور بورڈ کا امتحان اے گریڈ میں پاس کر لیا۔
تبصرہ لکھیے