کم علمی، انکساری اور تواضع کی آڑ میں تکبر کی جو چادر اوڑھی جاتی ہے وہ مجھے بہت بری لگتی ہے، آدمی کو جو کہنا ہے وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہے، بلاوجہ خود کو حقیر نہ سمجھے، اس طرح کے معاملات میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب شہ ظفر کی طرح کراہ کر منکسر المزاج رونا کچھ یوں روتے ہیں-
خاکساری کیلئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش سنگ در جاناں نہ بنایا ہوتا
ایک طرف کم علمی کا اعتراف دوسری طرف یہ طعنہ کہ ن م راشد کی شاعری تم نہیں سمجھ سکتے، تکبر کی یہ شکل سب سے زیادہ بھونڈی ہوتی ہے، ن م راشد کی شاعری ہی کیا ن م راشد ہی ہمیں سمجھ میں نہیں آئے، اتنا کنفیوژ انسان کہ پیدا ہوا مسلمان لیکن جب مرنے لگا تو وصیت کر گیا کہ میری لاش جلا دینا، رہی ان کی مادر پدر آزاد شاعری تو عطاءاللہ شاہ بخاری کہا کرتے تھے کہ مرزا قادیانی کی نبوت اور آزاد شاعری دونوں میری سمجھ میں نہیں آتیں اب آپ کہیں گے کہ عطاءاللہ شاہ بخاری کوئی نقاد تو تھے نہیں، نہ رہے ہوں ہمیں کیا فرق پڑتا ہے جب آپ ن م راشد کو شاعر تسلیم کر سکتے ہیں تو عطاءاللہ شاہ بخاری کو نقاد کیوں نہیں تسلیم کر سکتے؟
اب آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف- محمد دین جوہر کو معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی بات کو "مبنی بر بصیرت" سمجھنے اور "صداقت" کہنے سے پہلے ہزار بار اس کا پس منظر اور پیش منظر سمجھ لینا چاہیے، ہر وہ بات جو بظاہر آپ کے حق میں ہو اسے سن کر خوش نہیں ہونا چاہیئے بلکہ سوچنا چاہیے کہ کہنے والے نے ایسا کیوں کہا؟ اطہر فاروقی نے "خوش خبری" سنائی کہ "اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے" محمد دین جوہر جیسے سادہ لوح بلیوں اچھل پڑے کہ ارے واہ! اب تو بھارت میں بھی اردو مشرف بہ اسلام ہو رہی ہے لیکن یہ بات اطہر فاروقی نے ہندوتو کے علمبرداروں کو خوش کرنے کیلئے کہی ہے تو وہی ہم نے کہا ہے کہ تم اتنے بڑے حق گو ہو تو ذرا ملک، ہندی اور بالی ووڈ کے بارے میں بھی کچھ کہو-
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
اتنی سی بات محمد دین جوہر کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ "بصیرت و صداقت" کے علمبردار بن بیٹھے، بڑا شاعر یقیناً زبان کے مزاج کو بدل کر رکھ دیتا ہے اور مذاہب کا اثر بھی زبانوں پر ہوتا ہے لیکن کسی بھی زبان کو کلی طور پر مذہبی نہیں بنانا چاہئے، سید سلیمان ندوی جیسا ماہر لسانیات بھی مسلم لیگ کے چکر میں اس نکتے کو نہیں سمجھ سکا، ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے ندوی صاحب کے خلاف نعرے کیوں لگائے تھے؟ اسی لئے نا کہ انہوں نے بنگالیوں پر اردو تھوپنے کی کوشش کی تھی، زبان آپ کسی پر تھوپ نہیں سکتے چاہے وہ آپ کا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو، اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن کیا پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان اپنی زبان چھوڑ سکتے ہیں اور کیوں چھوڑیں؟
اگر اردو بولنے والا اردو نہیں چھوڑ سکتا تو ایک بنگالی سے آپ کیوں توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنی زبان چھوڑ دے؟ محمد دین جوہر مسلم لیگی ہیں اس لئے تمام تر علمیت کے باوجود وہ یہ نکتہ نہیں سمجھ سکے کہ زبانوں کو مشرف بہ اسلام کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے، اردو کو مشرف بہ اسلام کرنے کا سہرا سب سے پہلے انگریز بہادر نے کیا اس لئے کہ "لڑاؤ اور حکومت کرو" کا دائرہ صرف سیاست کے میدان تک محدود نہیں تھا، زندگی کے ہر میدان میں ہندوستانیوں کو آپس میں لڑایا گیا پھر محمد دین جوہر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اردو کو اردو نام بھی انگریزوں نے ہی دیا ہے وگر نا اس سے پہلے یہ ہندوی یا ہندی کہلاتی تھی .
یہ تو انگریز بہادر کا کمال ہے کہ اس نے فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کو ٹاسک دیا کہ تم ہندی ہندوؤں کیلئے خاص کر دو اور اردو مسلمانوں کیلئے یوں برصغیر میں پہلی بار زبانوں کو بھی مذہب کا غلاف پہنا دیا گیا، تقسیم صرف ملک کا نہیں ہوا اتنی چیزوں کا ہوا کہ ہم شمار بھی نہیں کر سکتے، ہند اسلامی تہذیب بھی تقسیم کا شکار ہوئی، اس تہذیب کی ابتداء 1906 یا 1940 سے نہیں ہوتی اس دن سے ہوتی ہے جب پہلی بار کسی مسلمان نے اس دھرتی پر قدم رکھا تھا، روا روی میں کوئی بات کہہ دینا آسان ہے .
لیکن اردو کو آج بھی مشرف بہ اسلام کرنے میں اتنی الجھنیں ہیں کہ غالب کا مصرعہ یاد آ جاتا ہے کہ "کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک" ہندی زبان میں اگر اسلامی علوم پر کتابوں کے انبار لگا دیئے جائیں تو کیا جوہر صاحب ہندی کو بھی مسلمان مان لیں گے، مسلمان داعی ہے اور داعی نہ کسی زبان کو اپنا سمجھتا ہے نہ پرایا وہ بس یہ دیکھتا ہے کہ مدعو کون سی زبان سمجھ رہا ہے بس اسی زبان کو وہ اپنا بنا لیتا ہے، صوفیاء ماہر لسانیات نہیں تھے نہ پروفیسر تھے لیکن وہ بھی اس نکتے کو سمجھتے تھے، نہیں سمجھ رہے ہیں تو محمد دین جوہر صاحب-
آزادی کے بعد تقسیم کا زخم سہنے کے بعد بھی ہندوستان میں اردو بس قومی زبان ہوتے ہوتے رہ گئی، 80 کی دہائی تک حکومت یوپی کے کام کاج اردو ہی میں ہوا کرتے تھے، 90 کی دہائی تک اردو نے بالی وڈ پر راج کیا ہے، ہندوستانی عدالتوں میں اب بھی اردو لفظیات کا استعمال دھڑلے سے ہو رہا ہے بس رسم الخط ہندی ہے تو کیا اب بھی جوہر صاحب اردو کو مسلمان سمجھیں گے؟
جوہر صاحب کہہ رہے ہیں کہ میں اطہر فاروقی کو نہیں جانتا، کسی کو نہ جاننا عیب نہیں ہوتا ہے لیکن سر سید کا محمد دین جوہر جیسا مداح اگر اطہر فاروقی کو نہیں جانتا تو پھر انہیں سر سید کی مداحی سے توبہ کر لینا چاہئے یہاں ہم کم علمی کا طعنہ جوہر صاحب کو نہیں دیں گے سر دست ہم اطہر فاروقی کا تعارف پیش کر رہے ہیں-
اطہر صاحب سکندرآباد کے ہیں ادھر فاروقی نہیں ہوتے لیکن وہ پھر بھی فاروقی ہیں جب وہ عملی زندگی میں آئے تو نثار احمد فاروقی اور شمس الرحمن فاروقی کا ڈنکا بج رہا تھا شاید اسی لئے اطہر صاحب بھی فاروقی ہو گئے، شنید ہے کہ اطہر صاحب ڈاکٹر بھی ہیں اب یہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی والے ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کی پی ایچ ڈی گرانٹ ہوئی تھی کہ نہیں ہم تو بس کسی کے نام میں ڈاکٹر کا سابقہ دیکھتے ہیں تو ادب سے ہاتھ باندھ کر نگاہ جھکا کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب ڈاکٹروں سے کیا الجھنا، اطہر صاحب خود کو آکسن بھی بتلاتے ہیں بات بس اتنی سی ہے کہ ایک سیاست داں نے انہیں تین مہینے کیلئے برطانیہ بھیج دیا تھا تو وہ آکسن ہو گئے.
ے یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے، محمد علی جوہر ہوتے تو خوش ہو کر اطہر صاحب کو "کامریڈ" کا مدیر بنا دیتے اس لئے کہ وہ سچے مچے آکسن تھے، اطہر صاحب ایک اردو ادارے کے ذمے دار ہیں لیکن لکھتے انگریزی میں ہیں اور سوچتے بھی انگریزی میں ہیں مطلب وہ اردو والوں کی خبر انگریزی میں لیتے ہیں اب جوہر صاحب ذرا قریب آ جایئں، کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں اس لئے کہ اب انہیں جھٹکا لگنے والا ہے-
جوہر صاحب کو خوب معلوم ہوگا کہ سر سید کی ایک کتاب کا نام آثار الصنادید ہے، 1857 کی جنگ آزادی سے پہلے سر سید نے دلی کی عمارتوں پر یہ کتاب لکھی تھی، اسی کتاب پر تقریظ لکھنے کیلئے سر سید نے غالب کو زحمت دیا تھا اور پھر بوڑھے غالب نے نوجوان سید احمد کو جو مشورہ دیا تھا جوہر صاحب اس سے بھی واقف ہوں گے، ہمارے یہاں خلیق انجم نے اس کا محقق اڈیشن شائع کیا تھا اور اڈیشن میں تحقیق کے نام پر جو گل کھلائے گئے تھے اس پر تحقیق کے طلباء آج بھی سر دھنتے ہیں، شاہ اسماعیل اور میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تذکرے میں خلیق انجم نے جو حاشیے چڑھائے ہیں انہیں پڑھ کر سر سید کا ناریل بہت جلدی چٹخ جاتا اس لئے کہ سر سید لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے.
فوراً طبیعت صاف کر کے رکھ دیا کرتے تھے تو قبلہ جوہر صاحب! اطہر فاروقی نے نسخۂ حفیظ الدین ڈھونڈ نکالا اور اس کی بنیاد پر یہ بے بنیاد دعویٰ کر دیا کہ سر سید نے سرقہ کیا ہے، آثار الصنادید جو کچھ بھی ہے وہ بس نسخۂ حفیظ الدین کا چربہ ہے اس تحقیق انیق پر اطہر فاروقی نے داد کم پائی لیکن بیداد ان کے حصے میں خوب آیا اب تو یہاں تک سنا ہے کہ انہوں نے ایک عدد توبہ نامہ پیش کر کے اپنی جان چھڑا لی ہے، مجھے یقین ہے کہ جوہر صاحب اب اطہر فاروقی کو جان گئے ہوں گے اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا، ذاتی طور پر ہم اطہر فاروقی کے شکر گزار ہیں اس لئے کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے یہ تحریک پیش کی کہ "یوم اردو" علامہ اقبال کی پیدائش کے موقعے پر نہیں بلکہ مولانا آزاد کی پیدائش کے موقعے پر منانی چاہیے، ہم اطہر فاروقی کی پر زور انداز میں تائید کرتے ہیں-
جوہر صاحب کی زبان رنگین ہے ہماری سادہ لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہم سادہ لوح نہیں ہیں، جوہر صاحب کو ہمارے تعاقب میں دلیل بھی نہیں نظر آیا اس پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں بس اقبال کی زبان میں اتنا ہی کہیں گے کہ
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل نور نہیں
(یہ تعاقب بھی ممبئی لوکل اور میٹرو میں لکھا گیا، لہجہ جان بوجھ کر مربیانہ رکھا گیا ہے جب بزرگ بچوں کو طعنہ دینے لگیں تو پھر ہم ہی بزرگی کا فرض نبھاتے ہیں)
تبصرہ لکھیے