ہوم << سندھ طاس معاہدہ اور پاک بھارت تعلقات -حفیظہ بانو

سندھ طاس معاہدہ اور پاک بھارت تعلقات -حفیظہ بانو

سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تاریخی آبی معاہدہ ہے، جو 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ کے نظام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، اور ستلج )بھارت کو دیے گئے جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، اور چناب) پاکستان کے حصے میں آئے۔ یہ معاہدہ پانی کی منصفانہ تقسیم اور دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کے حل کا ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

ابتدائی طور پر یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اعتماد کی ایک مثال سمجھا گیا۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے پانی کی اہمیت ناقابلِ تردید ہے، اور یہی وجہ ہے کہ مغربی دریاؤں کے پانی پر اس کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ بھارت نے معاہدے کی شرائط کے تحت ان دریاؤں پر کوئی بڑا ڈیم یا ذخیرہ تعمیر نہ کرنے کا وعدہ کیا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے بعض منصوبوں جیسے بگلیہار ڈیم، کشن گنگا، اور رتلے ڈیم پر تحفظات ابھرے۔

پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت کی یہ سرگرمیاں معاہدے کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں کیونکہ ان سے نہ صرف پاکستان کے پانی کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں بلکہ مستقبل میں زرعی معیشت اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ بھارت، اس کے برعکس، ان منصوبوں کو تکنیکی بنیادوں پر جائز قرار دیتا ہے۔
یہ معاہدہ جہاں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے، وہیں یہ کشیدگی کا باعث بھی بن چکا ہے۔ خاص طور پر لائن آف کنٹرول پر کشیدگی یا دہشت گردی کے کسی واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کی بات کی جاتی ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک پریشانی کا سبب بنتی ہے۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدہ دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدات میں شمار ہوتا ہے، مگر بدلتے ہوئے سیاسی حالات، موسمیاتی تبدیلی اور آبی وسائل کی بڑھتی ہوئی قلت نے اس معاہدے کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس تناظر میں دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی چیلنجز، تکنیکی اختلافات اور سیاسی تناؤ کو ایک طرف رکھ کر اس معاہدے کی اصل روح کو زندہ رکھیں ۔ یعنی پانی کو تنازع نہیں، تعاون کا ذریعہ بنایا جائے۔

سندھ طاس معاہدہ محض ایک آبی معاہدہ نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن، پائیدار ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد بن سکتا ہے، اگر اسے سنجیدگی سے اور نیک نیتی کے ساتھ نافذ کیا جائے۔

Comments

Avatar photo

حفیظہ بانو

حفیظہ بانو پی ایچ ڈی سکالر ہیں۔ مطالعہ سے شغف اور لکھنے کا شوق ہے۔ سندھ کے مقامی اخبارات کے ساتھ روزنامہ جنگ کے صفحہ نوجوان کےلیے لکھتی رہی ہیں

Click here to post a comment