ہوم << میزبان خاتون کا دکھ کون سمجھے گا؟ - خنساء طاہر کمبوہ

میزبان خاتون کا دکھ کون سمجھے گا؟ - خنساء طاہر کمبوہ

گرمیوں کا موسم آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک خوبصورت اور قابلِ ستائش مہم نظر آتی ہے۔چھتوں پر پرندوں کے لیے پانی اور دانے کا انتظام کریں۔ تصاویر، ویڈیوز اور دل کو چھو لینے والے جملے ہر طرف گردش کرنے لگتے ہیں، اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ معاشرے میں احساس اور ہمدردی کا جذبہ ابھی باقی ہے۔

یہ عمل صرف پرندوں کی پیاس بجھانے یا ان کے لیے خوراک رکھنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک نرم دلی، رحم، اور خالص انسانیت کی علامت ہے۔ آخر پرندے بھی اللہ کی مخلوق ہیں، اور ان کا خیال رکھنا ہماری دینی، اخلاقی اور انسانی اقدار کا حصہ ہے. لیکن اللہ رب العزت نے ہر مخلوق کے رزق کی ذمہ داری خود لی ہے۔ پرندوں کی بھوک اور پیاس بھی اس کے نظامِ رحمت کا ایک پہلو ہے، لیکن اللہ نے ہمیں ایک ذریعہ بنایا ہے، ایک وسیلہ کہ ہم اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان مخلوقات کا سہارا بنیں۔ سو، ہمیں ضرور اپنی استطاعت کے مطابق ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ لیکن یہاں موسم گرما میں ایک کرنے کا کام ایسا ہے جو اکثر نظرانداز ہو جاتا ہےاور وہ ہے انسانوں کے حقوق اور ان کے آرام کا خیال۔

معاشرے کی حقیقی خوبصورتی صرف اس میں نہیں کہ ہم کمزور آوازوں پر کان دھریں، بلکہ اس میں بھی ہے کہ ہم ان آوازوں کو بھی سنیں جو چیخ نہیں سکتیں، جو دب کر رہ جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ایک اہم آواز ہے: "آرام کرتی خاتون "

گرمیوں کے دن ویسے ہی جسمانی اور ذہنی طور پر تھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ جب درجہ حرارت چالیس سے اوپر ہو، ہوا بند ہو، اور سورج آگ برسا رہا ہو، تو ایسے میں دوپہر کا وقت نیند، سکون اور جسمانی بحالی کا وقت بن جاتا ہے۔ زیادہ تر گھروں میں یہ وقت آرام کے لیے مخصوص ہوتا ہے، خاص طور پر ان خواتین کے لیے جو صبح سے کاموں میں جُتی ہوتی ہیں۔ ان کے لیے ایک گھنٹے کی نیند قیمتی خزانہ ہوتی ہے۔

ایسے میں اگر کوئی مہمان بنا اطلاع دیے یا وقت کا خیال کیے بغیر آ جائے، تو وہ مہمان، جو رحمت ہونا چاہیے، زحمت بن جاتا ہے۔ مہمان کی آمد پر جو کچھ ہوتا ہے،فوراً نیند سے اٹھنا، چائے کا انتظام کرنا، گھر کو سمیٹنا اور پھر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجانا۔۔یہ سب کوئی آسان کام نہیں۔ ان سب کی تکلیف کسی کو نظر نہیں آتی، اور اکثر میزبان عورت بس یہ سب خاموشی سے جھیلتی رہتی ہے۔

میں خود ایک ایسی فیملی سے تعلق رکھتی ہوں جہاں مہمان سارا سال کچھ اس طرح آتے ہیں جیسے ہر روز عید ہو۔ گرمی، تھکن اور نیند کے درمیان جب اچانک گھنٹی بجتی ہے تو دل پر کیا گزرتی ہے، وہ صرف وہی جان سکتا ہے جو ہر بار نیند اور آرام کو قربان کر کے "خوش اخلاق میزبان" بننے کا فرض ادا کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر مجھے شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم موسم کی شدت میں پرندوں کے لیے تو بہت سوچ رہے ہیں، لیکن انسانوں کے آرام و سکون کا کیا؟ کیا اُن کا حق نہیں کہ ان کے وقت، آرام اور جسمانی حالت کا خیال رکھا جائے؟

ہمیں سیکھنا ہوگا کہ مہمان ضرور بنیں، مگر باوقار طریقے سے۔ عزت اور خلوص صرف جانے یا آنے سے نہیں بلکہ وقت کے انتخاب، میزبان کی حالت سمجھنے، اور ذاتی حدوں کا احترام کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ غیر متوقع آمد پر مہمان نوازی بعض اوقات مہمان کے لیے یادگار لمحہ تو بن جاتی ہے، مگر میزبان کے لیے ایک اندرونی تھکن، کرب اور بوجھ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

لہٰذا، جتنا ہم پرندوں کے لیے فکر مند ہوتے ہیں، اتنا ہی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہمیں انسانوں کے سکون، ان کے وقت، اور ان کی ذاتی زندگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنی سوشل مہمات میں صرف مظلوم، خاموش مخلوقات کو شامل نہیں کرنا بلکہ ان لوگوں کو بھی جگہ دینی چاہیے جو اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے، مگر ہمارے طرزِعمل سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔

انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا جائے، وہیں انسانوں کے لیے احترام، احساس اور ان کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ پرندوں کا احساس دانہ پانی دے کر کریں، اور انسانوں کا خیال ان کی نجی زندگی اور آرام کا احترام کرتے ہوئے رکھیں۔ کوشش کریں کہ کسی کے کمفرٹ زون میں خلل نہ ڈالیں۔ یہی وہ توازن ہے جو ایک مہذب معاشرے کو جنم دیتا ہے۔۔

Comments

Click here to post a comment

  • ماشاءاللہ
    لکھنے کا انداز بہت پیارا ۔۔۔ اور کیا خوبصورتی سے عکاسی کی آپ نے معاشرے کی ✨

  • بہت اعلی ۔ ماشاءاللہ ♥️🌷
    عام طور پر ان معاشرتی قدروں پر نہیں لکھا جاتا ہے۔ آپ نے اچھوتا موضوع چنا اور حق ادا کیا ۔ 😍