ہوم << بندہ ء مزدور کی اوقات - حریم شفیق

بندہ ء مزدور کی اوقات - حریم شفیق

ٹریفک کے بے ہنگم شور نے اس کے دردسر میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔اسکول کے چھٹی کے اوقات میں ٹریفک جام ہونا اور ہر طرف سے پیں۔۔۔پاں۔۔۔پوں کی آوازیں سننا گویا اس کی روٹین کا حصہ بن چکا تھا۔

بچوں کو اسکول سے پک کرنے کی ذمہ داری اس نے جوش میں آ کر لے تو لی مگر اب ہوش ٹھکانے آ رہے تھے. اور شوہر نامدار کی قدر بھی کہ کس طرح آفس کی زمہ داری کے ساتھ بچوں کو پک اینڈ ڈراپ دیتے اور پھر دوبارہ جاب پہ جاتے.

بھئی ان کا ہی حوصلہ تھا اور اوپر سے یہ ٹریفک دماغ گھما دینے کے لیے کافی تھی۔اس نے دکھتی پیشانی کو ہاتھوں سے مسلا ،سر سیٹ کی پشت سے لگا کر گویا خود کو آرم دینے کی کوشش کی۔کیونکہ گاڑیوں کی لمبی قطار کا ابھی ہلنے کا موڈ نہیں تھا. اس کی نگاہیں گلاس ونڈ سے باہر جائزہ لے رہی تھیں کہ سڑک کے کنارے بریانی کا چھوٹا سا کیبن نظر آیا اور وہ بریانی ایک بوڑھی عورت بیچ رہی تھی ۔

اتنی سخت گرمی ۔۔۔۔اور وہ اماں بڑھاپے کے اس دور میں نہ جانے کس مجبوری کے تحت گھر سے باہر اس کڑی محنت پہ مجبور تھی؟کچھ ہی فاصلے پر ایک ضعیف بابا جی کندھے پہ کدال ڈالے مزدوری ملنے کی آس پہ بیٹھے تھے؟؟سڑک کی دوسری جانب ایک خاتون جن سے ٹھیک سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا کھلونوں کی ریڑھی گھسیٹتی دکھائی دیں؟وہ کچھ لمحوں کے لیے اپنی پچھلی سوچ پہ نادم ہوئی ۔

وہ تو اپنی گاڑی میں تھی بچوں کو اسکول سے لینا کچھ اتنی بڑی زمہ داری نہ لگ رہی تھی. اب اسے یہ سب لوگ بھی تو تھے کہ نہ جانے کس طرح زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے تھے جو عمر اب ان کے آرام کی تھی. وہ سڑکوں پہ موسم کی سختیاں جھیل رہے تھے ؟دکھ کی ایک لہر اس کے اندر سے اٹھی کہ کاش ہمارے ملک میں ان مزدوروں کے لیے کچھ تو آسانی کا سامان ہوتا۔

اچانک ایک شور نے اس کو سوچوں کی وادی سے نکالا ۔یہ کیا چند اقتدار کی وردیاں پہنے پولیس والے بریانی والے کیبن کو دھکے سے گرانے کی کوشش کر رہے تھے ۔بوڑھے بابا جی کو بھی ڈانٹ رہے تھے کہ آٹھ جاؤ سڑک خالی کرو اور وہ اماں اس کی ریڑھی الٹ دی؟مگر کیوں؟؟

پولیس والا اب ان مزدوروں کو گالیاں دے رہا تھا.
"خالی کرو سڑک ساری جگہ گھیری ہوئی ہے. منسٹر صاحب کی گاڑی گزرنی ہے یہاں سے نکلو دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"

وہ حیران ہوئی کہ منسٹر صاحب کی گاڑی گزارنے کا ان بیچاروں کی روزی روٹی سے کیا تعلق ؟انھیں گزرنا ہے گزر جائیں یہ کیوں یہاں سے چلے جائیں؟کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ؟کیا یہ سڑک منسٹر صاحب نے اپنے نام بک کروا لی ہے؟

اسے یاد آیا کہ آج تو مزدوروں کا عالمی دن ہے جس میں ان مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ دو صدیوں سے جاری ہے مگر ابھی تک

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

ٹریفک چل پڑی اور وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی ۔بچوں کو کھانا کھلا کر سلا دیا اور خود کچھ خبریں دیکھنے کے لیے ٹی وی آن کیا ۔

منسٹر صاحب کی تقریر چل رہی تھی :
"کسی بھی معیشت کی ترقی میں مزدور اہم کردار ادا کرتے ہیں افسوس کہ اس طبقے کی قدر نہیں کی جاتی ۔ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے ۔میں مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر مزدوروں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔"

اس کی نگاہوں میں چند گھنٹے پہلے کا منظر گھوم گیا۔
"دفع ہو جاؤ سڑک بھری ہوئی ہے منسٹر صاحب کی گاڑی گزرنی ہے۔۔۔"

منافقت کی انتہا دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا ۔منسٹر صاحب مزدوروں کی شان میں بہت خوبصورت جذبات چند جملوں کی شکل میں پیش کر کے چل دیے اور رہے ان مزدوروں کے حقوق کے تحفظات تو کل بھی مزدور ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور آج بھی حالات جوں کے توں ہیں ۔

عالمی یوم مزدور آج بھی منایا گیا مگر ایوانوں میں محض تقریروں کی حد تک ،چند ریلیوں کی صورت میں اور بریانی بیچنے والی اماں، کدال والے بابا جی اور ریڑھی پہ کھلونے بیچنے والی اماں کی مجبوریوں کا نہ تو نوٹس ہی لیا گیا بلکہ ان سے ان کا روزگار بھی چھیننے کی کوشش کی گئی۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالمی یوم مزدور کیا اپنی اصل روح کے ساتھ منایا جاتا ہے ؟؟

Comments

Click here to post a comment