کہتے ہیں آج کل کی جنگیں بندوق سے نہیں، بٹن سے جیتی جا سکتی ہیں۔ اور کبھی وہ بٹن کسی ایٹمی میز پر ہوسکتا ہے یا پھرکسی پہاڑی چشمے کے دہانے پر بنے ڈیم کے سپل وے کھولنے اور بند کرنے لیے ہوسکتا ہے۔ کبھی وہ خنجر کسی جنرل کی تلوار ہو سکتا ہے اور کبھی پانی کو روکنے والی ایک وال ہوسکتی ہے۔ اور جنوبی ایشیا میں اگر کوئی دشمن اس نکتے کو سمجھ چکا ہے، تو وہ بھارت ہے۔
پہلگام حملے کی گونج ابھی سرد نہیں ہوئی تھی کہ دہلی نے تاریخ کے اس معاہدے کو روندنے کی ٹھان لی جسے خود اس نے اقوامِ متحدہ کے فورم پر "جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کی ضمانت" کہا تھا, یعنی سندھ طاس معاہدہ۔ یہ وہی معاہدہ ہے جسے 1960ء میں پاکستان اور بھارت نے عالمی ضامنوں کی ثالثی سے طے کیا۔ تین مشرقی دریا بھارت کے حصے میں آئے (بیاس، ستلج، راوی)، اور تین مغربی دریا (جہلم، چناب، سندھ) پاکستان کے لیے مختص ہوئے۔
مگر آج بھارت نہ صرف اس معاہدے کو یکطرفہ ختم کرنے کا اعلان کر چکا ہے بلکہ جہلم، چناب اور سندھ کے دہانوں پر بند باندھنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یہ کوئی خیالی قیاس نہیں، بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ اور خود بھارتی میڈیا اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔ بی بی سی، الجزیرہ، دی ہندو اور رائٹرز کی حالیہ رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ بھارت میں آبی جارحیت اب قومی سلامتی کا ہتھیار بن چکی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کر سکتا ہے؟
بین الاقوامی قانون، خصوصاً ویانا کنونشن آن لا آف ٹریٹیز (1969)، کسی بھی ملک کو یکطرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کا اختیار نہیں دیتا، جب تک کہ فریقِ ثانی کی جانب سے بنیادی خلاف ورزی نہ ہو۔ بھارت کی جانب سے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر معاہدہ توڑنا دراصل عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بھارت کے ممتاز ماہر قانون، پروفیسر اُپندر بخشی اور وینا داس اس کو قانونی لحاظ سے کمزور قرار دے چکے ہیں۔
مگر بھارت صرف قانون کے زور پر نہیں چلتا۔ یہ ملک تاریخ میں بارہا ثابت کر چکا ہے کہ وہ قوانین کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے جب سامنے پاکستان ہو۔ اور اب وہ ایک ایسی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں گولیاں نہیں، قطرہ قطرہ پانی خون بن کر بہے گا۔
پاکستان کے پاس ان دریاؤں کے منبع پر کوئی اختیار نہیں۔ بیاس، ستلج اور راوی پر بھارت پہلے ہی قابض ہے، جہاں سے محض برائے نام پانی پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ مگر جو تین دریا ہمارے لیے بچے, جہلم، چناب، اور سندھ, ان پر بھارت نے پچھلے دس برسوں میں 60 سے زائد چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے ہیں۔ ان میں سے کئی پر بین الاقوامی عدالتیں پاکستان کے حق میں فیصلہ دے چکی ہیں، مگر فیصلے کاغذوں میں دفن ہیں، جیسے انصاف کی لاش کسی بیوروکریٹ کی میز پر سڑتی ہو۔
اور اب سوال صرف یہ نہیں کہ بھارت پانی روکے گا یا نہیں, بلکہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس متبادل کیا ہے؟
اس سوال کا جواب سنگین ہے، تلخ ہے، اور اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے اربابِ اختیار کے پاس اس کا کوئی واضح، مستقل، سائنسی یا سفارتی جواب نہیں۔ نہ ہم نے اپنے آبی ذخائر بنائے، نہ متبادل حکمت عملی۔ ہم ہر سال اربوں کی نہری پانی کی چوری دیکھتے ہیں، لاکھوں ایکڑ زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے، سندھ کے ڈیلٹا پر سمندر چڑھ آیا ہے، اور ہمارے لیڈر اقوامِ متحدہ میں آبدیدہ تقریریں کر کے تھک چکے ہیں۔
لیکن شاید وقت آ گیا ہے کہ پاکستان آنکھوں سے نہیں، پیاس سے سوچے۔ اور جب بات پانی کی ہو، تو ہمارے لیے ایک اور نام زندہ ہوتا ہے,چین۔
جی ہاں، وہی چین جو پاکستان کا آہنی دوست کہلاتا ہے۔ وہی چین جو سی پیک کی صورت میں گوادر تک آ چکا ہے۔ اور وہی چین جو خود بھی بھارت سے پانی کی ایک جنگ میں الجھا ہوا ہے۔
عالمی ماہرین کے مطابق، چین کے تبت میں بہنے والے چار بڑے دریا بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم دریا براہمپترا ہے، جس سے بھارت کے 35 ملین لوگ جُڑے ہیں۔ چین اگر اس ایک دریا پر بند باندھ دے، تو بھارت کا شمال مشرق بنجر ہو جائے گا۔ اور یہ کوئی خواب نہیں, چین اس پر دنیا کا سب سے بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بیجنگ کے تھنک ٹینکس اور عسکری ادارے اسے ایک "اسٹریٹیجک ہائیڈرولوجیکل وار ہیڈ" سمجھتے ہیں, یعنی پانی کے راستے دشمن کو کچلنے کا ہتھیار۔
اور یہی وجہ ہے کہ جب پہلگام حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف آبی جنگ کا آغاز کیا، تو چین نے ایک معنی خیز بیان دیا:
"ہم پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو جائز اور اہم سمجھتے ہیں، اور مکمل حمایت کرتے ہیں۔"
یہ بیان صرف سفارتی نرمی نہیں، ایک اشارہ ہے۔ ایک دھمکی ہے۔ ایک انتباہ ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کو پانی سے ترسانے کی کوشش کی، تو چین براہمپترا پر وال لگا سکتا ہے۔ اور ایک بار اگر ایسا ہوا، تو بھارت کی زراعت، صنعت، اور شہری زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔ بھارتی تھنک ٹینک ORF اور IDSA کی رپورٹس خود اعتراف کرتی ہیں کہ بھارت، چین کے آبی منصوبوں سے شدید خوفزدہ ہے۔
مگر سوال یہ ہے: کیا چین ہمارے لیے بھارت سے ٹکرا جائے گا؟
یہ سوال اتنا ہی حساس ہے جتنا ہماری دعاؤں کا دار و مدار۔ چین، دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، مگر اس کی پالیسی ہمیشہ مفاداتی رہی ہے، نظریاتی نہیں۔ اگر بیجنگ کو یقین ہو کہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا اسے اسٹریٹیجک فوائد دے گا، تو وہ اس جنگ میں خاموش شراکت دار بنے گا, مگر بصورتِ دیگر ہمیں صرف اخلاقی حمایت کے بیانات ملیں گے، جیسے کشمیر کے حق میں ملتے رہے۔
لہٰذا پاکستان کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یہ جنگ صرف چین کے رحم و کرم پر نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ جنگ ہماری اپنی تیاری، ہماری اپنی ریاستی بصیرت، اور ہماری اپنی غیرت سے جیتی جائے گی۔
ہمارے پاس اب وقت نہیں کہ ہم کالاباغ ڈیم پر سیاست کریں۔ نہری پانی کی چوری پر صوبائی انا کے بت پوجیں۔ ہمیں ہر صورت, فوری اور مستقل, آبی تحفظ کا نظام بنانا ہوگا۔ نئے ڈیمز، بہتر نہری تقسیم، جدید آبی ٹیکنالوجی، اور سفارتی سطح پر عالمی حمایت, یہ چار ستون ہیں اس جنگ کے۔
خیر, سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور چین کی خاموش بالا دستی کا تذکرہ ایک بگڑتے ہوئے طوفان کی تمہید تھی، مگر اصل داستان تو اب شروع ہوتی ہے, جہاں پانی صرف کھیتوں کو نہیں، سفارت کاری، جغرافیہ، عالمی معیشت اور قومی سلامتی کے دھارے کو بھی اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ اب سوال محض یہ نہیں رہا کہ بھارت کیا کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان کیا سوچ رہا ہے؟ چین کس موڑ پر کھڑا ہے؟ اور دنیا کی آنکھ کب کھلے گی؟ آئیے، اب اس کہانی کے اگلے باب میں قدم رکھتے ہیں, جہاں قطرہ قطرہ پانی، قطرہ قطرہ سازش، اور قطرہ قطرہ بقا کی جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
پہلے ہم نے جانا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو پامال کر کے پاکستان کو پانی کے میدان میں شکست دینے کی سازش کر چکا ہے، اور چین اس جنگ کا ایک "خاموش مگر مہلک" کردار بن کر ابھرا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے؟ اور کیا عالمی برادری اس آبی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟
یاد رکھیے، پانی وہ ہتھیار ہے جس کے استعمال کے بعد نہ عالمی میڈیا واویلا مچاتا ہے، نہ اقوامِ متحدہ میں قراردادیں آتی ہیں۔ کوئی "ہائیڈرو جنوسائیڈ" کی اصطلاح ایجاد نہیں ہوئی، کیونکہ مرنے والے خاموشی سے اپنی زمینیں بیچتے ہیں، ہجرت کرتے ہیں، یا پھر اپنے بچوں کے لیے دودھ کے بجائے آنکھوں کا پانی بہاتے ہیں۔
یہ خاموش ہ ولوکاس ٹ ہے — جو جنوبی ایشیا کے مسلمان کا مقدر بنایا جا رہا ہے۔
اب آئیے، ذرا عالمی منظرنامہ دیکھتے ہیں:
تبت, وہ علاقہ جو کبھی "ایشیا کی چھت" کہلاتا تھا, آج چین کے پاس ہے، اور وہاں سے نکلنے والے دریا بھارت، نیپال، بھوٹان، میانمار، بنگلہ دیش اور ویتنام تک زندگی بانٹتے ہیں۔ یہ وہ اسٹریٹیجک برتری ہے جو چین کو جنوبی ایشیا میں ایک آبی شہنشاہ بنا چکی ہے۔۔
اب اگر بھارت پاکستان کو پانی سے ترسانے کی کوشش کرے، تو چین صرف ایک وال بند کر کے بھارت کے شمال مشرقی علاقوں, آسام، میگھالیہ، منی پور، ناگا لینڈ, کو خشک کر سکتا ہے۔ ان علاقوں میں بھارت کی جڑیں کمزور ہیں، علیحدگی پسند تحریکیں پہلے ہی فعال ہیں۔ پانی کی قلت ان تحریکوں کو نیا جنون دے گی, اور یہی وہ نکتہ ہے جو پاکستان کو اپنی سفارت میں استعمال کرنا چاہیے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ ایک "اسٹریٹیجک واٹر سیکورٹی پیکٹ" پر کام کرے۔ ایک ایسا معاہدہ جس کے تحت اگر بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرے، تو چین بھارت کے خلاف اپنے دریا بند کرے, یا کم از کم عالمی فورمز پر کھل کر پاکستان کا موقف لے۔
اور چین کو یہ اعتماد تب ملے گا جب پاکستان خود اپنی داخلی آبی صلاحیت میں سنجیدہ ہو گا۔ کیونکہ کوئی ملک، کسی پیاسے کے لیے بند نہیں باندھتا, جب تک پیاسا خود اپنی پیاس کی اہمیت نہ سمجھے۔
1960ء میں جب سندھ طاس معاہدہ ہوا تو ورلڈ بینک اس کا ضامن بنا۔ مگر آج جب بھارت اس معاہدے کی دھجیاں اڑا رہا ہے، وہی ورلڈ بینک خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ اقوامِ متحدہ بھی "تنازعہ دو طرفہ ہے" کہہ کر ہاتھ جھاڑ چکی ہے۔
اب سوال یہ ہے: اگر کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کا مؤقف یہ ہے کہ "بات چیت سے حل ہو"، اور پانی کے معاملے پر وہ کہتی ہے "دو طرفہ مسئلہ ہے"، تو پھر ظلم کے خلاف آواز کس فورم پر بلند کی جائے؟
یاد رکھیے عالمی ادارے صرف اسی کی سنتے ہیں جس کے پاس سرمایہ ہو، اتحادی ہوں، یا عوامی دباؤ۔ اور بدقسمتی سے پاکستان تینوں محاذوں پر کمزور ہے۔ ہماری اشرافیہ کو نہ عوامی پریشر کا احساس ہے، نہ قومی مفاد کا وژن، نہ سفارت کا ہنر۔ وہی روایتی طرزِ عمل: ایک خط لکھو، ایک قرارداد پاس کرو، اور پھر اگلے الیکشن کا سوچو۔
اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ، او آئی سی، شنگھائی تعاون تنظیم، اور اسلامی ترقیاتی بینک سمیت ہر فورم پر ایک بھرپور "ہائیڈرولوجیکل ایمرجنسی" کا اعلان کرے۔ ہمیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ بھارت صرف ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کر رہا بلکہ ایک خطے کے ماحولیاتی توازن سے کھیل رہا ہے۔
یہ بات زیادہ تر پاکستانیوں کو نہیں معلوم کہ پاکستان کو دریا صرف بھارت سے نہیں، افغانستان سے بھی آتے ہیں۔ کابل، کنڑ، اور دیگر دریا پاکستان کے مغربی علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ بھارت پچھلے 10 سالوں سے افغانستان میں ڈیم بنانے کے منصوبے دے رہا ہے, مقصد صرف ایک: پاکستان کو دونوں طرف سے پانی کی قلت میں جھونکنا۔
پاکستان کو چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ آبی معاہدے کرے، ان کے ساتھ مشترکہ ڈیمز بنائے، اور عالمی اداروں کو اس میں شامل کرے تاکہ بھارت کا کردار محدود ہو۔
یہ وہ سفارت ہے جسے آبی جحاد کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کیونکہ جب کوئی قوم بندوق سے نہیں، پانی سے مارنے پر اتر آئے، تو اس کے خلاف ردعمل صرف مظلومیت کی تصویر بن کر نہیں، حکمت، حمیت، اور ہمت سے آنا چاہیے۔
آج پاکستان میں اگر ایک مسئلہ سب سے کمزور سیاسی ترجیح بنا ہوا ہے تو وہ پانی ہے۔ ڈیم بنانا، پانی کے ذخائر محفوظ کرنا، زراعت کو جدید بنانا، اور نہری پانی کی چوری روکنا, ان سب پر نہ کوئی سنجیدہ قانون سازی ہوتی ہے، نہ کوئی قومی پالیسی۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے منشور میں "واٹر سیکیورٹی" بنیادی نکتہ ہو۔ ہر بجٹ میں ڈیمز کو ترجیح دی جائے۔ اور ہر اسکول میں بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ پانی بچانا صرف اخلاقی فرض نہیں، قومی بقا کا سوال ہے۔
پاکستان کے ہرے کھیت، ہمارے کسانوں کے ہاتھ، ہماری ماں کی ہانڈی، ہمارے مسجد کے وضو، ہمارے سپاہی کی پیاس, یہ سب پانی سے جڑے ہیں۔ اور پانی صرف ایک قدرتی عطا نہیں, یہ اللہ کی طرف سے دی گئی ایک "امانت" ہے، جس کا تحفظ ہماری قومی، دینی، اور انسانی ذمہ داری ہے۔
بھارت اگر اس امانت کو ہتھیار بنا رہا ہے، تو ہمیں اس کے خلاف علم، عمل، اور حکمت کا قلعہ بنانا ہو گا۔ چین ہمارے ساتھ تب کھڑا ہو گا جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔ دنیا تب سنے گی جب ہم خود کو سنبھالیں گے۔ اور تاریخ تب بدلے گی جب ہم اپنی قوم کو یہ باور کرا دیں کہ
"یہ پانی کا مسئلہ نہیں، یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔"
اور یاد رکھیے یہ جنگ صرف بندوق سے نہیں جیتی جائے گی, یہ جنگ پانی کے قطرے قطرے کے لیے خون کے آخری قطرے تک غیرت و حمیت سے مزین آبی جحاد سے جیتی جائے گی۔
تبصرہ لکھیے