ہوم << سلطان عبدالحمید اور ضیاء گوکلیپ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

سلطان عبدالحمید اور ضیاء گوکلیپ - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

آج استنبول میں ہمارا تیسرا دن تھا. سارا دن استنبول کے فاتح ڈسڑکٹ کی سیر میں گزرا ، جس کے ہر ہر کونے میں تاریخ رقم ہے ، جس کی گلیاں تاریخی مقامات اور یادگاروں سے اٹی پڑی ہیں . ہر قدم پر آپ کو ایک تاریخی یادگار نظر آئے گی ۔ ہر گلی ہر کونے میں تاریخی مقامات آپ کے منتظر نظر آتے ہیں. سارا دن ان مقامات کو کھنگالنے میں گزر گیا. اونچی نیچی گلیاں ، تنگ اور کشادہ ناہموار راستے ، چھوٹی پہاڑیوں کے نشیب و فراز ، چھوٹی اور بڑی سٹرکیں، عسکری قلعے اور امراء کی حویلیاں ، اونچے نیچے ، بڑے اور چھوٹے ، نئے اور پرانے مکان ، خوشحال اور زوال پزیر محلے ، چھوٹی اور بڑی مساجد نئے اور پرانے ، چھوٹے اور بڑے مقبرے غرض فاتح ڈسڑکٹ کی کون سی ایسی جگہ تھی جہاں ہم نہ گئے. زیادہ تر ہم نے مقبروں اور مساجد کی سیر کی.

استنبول میں بے شمار مقبرے ہیں اور ہر مقبرے کے ساتھ ایک مسجد ہے . اسے اگر مقبروں اور مساجد کا شہر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا . حضرت ابو ایوب انصاری سے لے کر آخری تیس سلا طین عثمانیہ کے مقبرے، شہزادوں شہزادیوں اور ملکاؤں کی قبریں، وزیرِاعظموں سپہ سالاروں اور عمال سلطنت کے مقبرے . غرض یہ مقبرے اور یہ قبریں ہر طرف بکھری پڑی ہیں، لیکن سب کے سب بہترین حالت میں ہیں. مجال ہے جو آپ کو کہیں کسی جگہ کوئی گندگی، کوئی توڑ پھوڑ یا شکستگی کی کوئی علامت نظر آجائے. ترک اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرنا خوب جانتے ہیں اور اس میں ان کا کوئی ثانی نہیں.

ہماری یہ سیر پیدل تھی . سارا دن چل چل کر پاؤں درد کرنے لگے تھے. مجھے نہیں یاد کہ میں نے آج کتنے مقبروں پر حاضری دی، کتنی بار دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے، کتنی مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھی. اسی میں سارا دن گزر گیا .آخرکار سورج نے بھی ہار مان لی اور ڈھلنے لگا . شام کے سائے لمبے ہونے لگے، تو ہم بھی مسجد سلیمانیہ کی سیر سے فارغ ہو کر واپس ہوٹل کی طرف چل پڑے کہ راستے میں گرینڈ بازار آگیا ، جسے دیکھتے ہی ہماری بیگم اور زینیہ جو چند لمحے پہلے شدید تھکاوٹ کی شکایت کر رہی تھیں، ایک دم سے تازہ دم اور چاقچوبند نظر آنے لگیں,اور بازار میں گھس گئیں. بلال ان کے ساتھ ہو لیا کہ اسے اپنے دوستوں کے لیے تحائف خریدنا تھے، لیکن میں اور حمزہ، دونوں باپ بیٹا پیدل ہی ہوٹل کی طرف واپس چل پڑے جو زیادہ دور نہیں تھا۔ دن کی گرمی شام کی خنکی میں بدلنے لگی تھی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، تھکاوٹ کے باوجود استنبول کی سڑکوں کی سیر بھلی لگ رہی تھی، قسطنطین کے مینار سے ہم نیلی مسجد Blue Mosque کی جانب مڑے، شہر کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی، سیاحوں کا ایک ہجوم تھا جو ہر طرف نظر آتا تھا، خوبصورت شام کا خوبصورت موسم اور دلکش منظر ، ہر ہرجگہ پر دامن کھینچ لیتا تھا۔

کرشمہ دامنِ دل می کشَد کہ جا اینجاست

رستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس رک کر ہم نے آئس کریم کھائی ۔ ترکی کی یہ چپکو آئس کریم بھی اپنی مثال آپ ہے اور اسے کھانے سے پہلے آپ کو آئس کریم والے سے ایک باقاعدہ جنگ جیتنا پڑتی ہے۔ آئس کریم کھاتے ہوئے ہماری نظر اچانک سٹرک کے دوسری طرف ایک مقبرے پر پڑی ۔ وہ سلطان عبدالحمید دوم کا مقبرہ تھا جس کے ساتھ ملحقہ ایک مسجد بھی تھی۔ ہم نے مسجد میں عصر کی نماز پڑھی اور مقبرے کے احاطے میں داخل ہو گئے۔ یہ ایک بڑا قبرستان تھا، بے شمار قبروں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا ۔ جنگل جیسی بھول بھلیوں اورقبروں کے درمیان بنے ٹیڑھے میڑھے رستوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک ہشت پہلو عمارت کے سامنے جا کھڑے ہوئے جس کے اندر سلطان عبدالحمید ثانی دفن تھا۔ وہ سلطان جو سلطنت عثمانیہ کا آخری طاقتور اور بااختیار سلطان تھا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کی آخری امید تھا، جس نے ترکوں کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ خلافت اسلامیہ کو مٹانے کی غرض سے آنے والے ہر طوفان کے سامنے تینتیس سال تک کھڑا رہا لیکن آخر کار اہل مغرب اور یہودیوں کی بڑھتی ریشہ دوانیوں ، محلاتی اور اندرونی سازشوں کے سامنے ہار گیا۔ یہ وہ دور تھا جب یہودی اپنے سرمائے اور دولت کی بدولت دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکے تھے اور دنیا کی معشیت کے خدا بن چکے تھے ، لیکن کیونکہ ان کے وطن اور خوابوں کی تعبیر کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ خلافت اسلامیہ اور سلطنت عثمانیہ تھی جو اپنی تمام تر کمزوریوں اور زوال کے باوجود کوہ گراں تھی، وہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ اس پر حملہ آور تھے۔ انہوں نے سلطان کو ہر طرح سے مجبور کیا، ڈرایا دھمکایا لالچ دیا کہ وہ کسی طرح فلسطین ان کے حوالے کر دے ، لیکن سلطان نے ان کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔

کوہن اسرائیل ایک صہیونی مصنف ہے، اس نے اپنی کتاب Theodor Herzl , founder of political Zionism میں لکھا ہے کہ ”تھیوڈور ہرتزل دو بار استنبول گیا۔ پہلی مرتبہ 15 جون 1896ء کو اور دوسری مرتبہ پانچ سال بعد 17مئی 1901ء کو۔ پہلی مرتبہ اس کی ملاقات سلطان عبدالحمید دوم سے نہ ہو سکی، وہ وزیر اعظم سے مل کر واپس آگیا۔ دوسری مرتبہ وہ سلطان سے ملنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن سلطان نے بڑی حقارت سے یہودیوں کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔ اب ہرتزل اور اس کے ساتھیوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارا نہ تھا کہ سلطان کو ہٹا کر اپنے مقصد کو حاصل کرتے “۔

تھیوڈور ہرتزل کو اسرائیل کا روحانی بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس نے الدولة اليهودية ، Der Judenstaat کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔ اس کتاب کا پہلا نام Address to the Rothschilds تھا۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1896 ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اس نے الگ صہیونی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ لیکن اس کے شائع ہونے سے پہلے ہی 1892ء کو ویانا میں ہونے والی یہودیوں کی عالمی کانفرنس میں وہ الگ یہودی ریاست کا تصور پیش کر چکا تھا، جسے بہت سراہا گیا تھا، اور اسے ایک قابل عمل منصوبہ سمجھ کر اس پر کام بھی شروع کردیا گیا تھا ۔ جس کے مطابق وہ دو بار یہ پیشکش لے کر استنبول گیا کہ اگر سلطان عبدالحمید دوم یہودیوں کو فلسطین میں رہنے کے لیے ایک خطہ زمین عطا کر دے تو یہودی سلطنت عثمانیہ کا سارا قرضہ اداکر دیں گے، بلکہ انھوں نے اس کے عوض سلطان کو سونے میں تولنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن سلطان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فلسطین اس کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اس کے پاس مسلمانوں کی امانت ہے، جس پر یہودیوں نے مایوس ہو کر اسے راستے سے ہٹانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔

درحقیقت سلطنت عثمانیہ اور خلافت اسی دن اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی، جس دن اکتیس مارچ 1909ء کو قسطنطنیہ میں اسلام پرستوں اور کمال پاشا کی سیکولر جماعت اور یہودیوں کی لے پالک CUP اور ینگ ترک تحریک کے درمیان جنگ میں اسلام پسند عناصر ہار گئے تھے، اور سی یو پی اور ینگ ترک اپنے مربی برطانیہ اور فری میسن کی مدد سے جیت گئے۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سلطان اور خلافت کے خلاف اس بغاوت میں برطانیہ کے ترکی میں سفیر نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا تھا اور باغیوں کو ہر طرح کی مالی، فوجی اور قانونی مدد فراہم کی تھی۔ رونلڈ گریگر سنی Ronald Gregor SUNY نے اپنی کتاب میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ یہ انقلاب نہیں ایک فوجی بغاوت تھی، جس کا سہرا برطانیہ کے سر ہے، اور اس کا واحد مقصد خلافت اور سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ تھا تاکہ فلسطین کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے۔

1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد مسلمانوں اور یہودیوں کو سپین سے نکالا گیا تو اس وقت ترکی میں آٹھویں عثمانی سلطان بایزید ثانی کی حکومت تھی، جو سلطان محمد فاتح کا بیٹا تھا، اس نے ترک بحریہ کو ان کی مدد کے لیے بھیجا، اور ہزاروں کی تعداد میں اندلسی مسلمان اور یہودی ترکی میں آ کر آباد ہوگئے۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ یہودی مضبوط سے مضبوط ہوتے چلے گئے۔ 1750ء تک ان کا اثر ورسوخ اور زہر ترکی کی فوج اور دیگر شعبوں میں پوری طرح سرایت کر چکا تھا، وہ ترکی کی معشیت پر حاوی ہو چکے تھے۔ ان کی ذیلی تنظیموں فری میسن اور الموناتی نے مکمل طور عثمانی فوج اور عمال سلطنت کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا ۔ ان کی ہر مِمکن کوشش تھی کہ کسی طرح سلطان عبدالحمید کو فلسطین کا سودا کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن جب سلطان عبدالحمید نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کیا تو اس کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کی گئی۔ ینگ ترک کے نام سے ایک تنظیم کو منظم کیا گیا جو بظاہر تو لبرل اور جمہوریت پسند نوجوانوں پر مشتمل تھی، لیکن درحقیقت اس کی باگ دوڑ فری میسن کے ہاتھ میں تھی۔ سلطان کا داماد احمد نامی، کمال پاشا سلطان کا بھائی مراد خامس، بھانجا شہزادہ صباح الدین اور ابراہیم ٹیمو اس کے سرکردہ راہنما تھے۔ سی یو پی (CUP ) Committe Of Union and Progress بھی اسی تنظیم کا ایک حصہ تھی جو خفیہ طور پر زیر زمین رہ کر سلطان کا تختہ الٹنے کے لیے کوشاں تھی۔

31 مارچ 1909 ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے سلطان عبدالحمید کا تختہ الٹ کو اسے معزول کر نے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد پہلے تو سلطان کو خاندان سمیت سالونیکا میں جلاوطن کیا گیا۔ سالنویکا اس وقت سلطنت عثمانیہ کا ایک یورپی شہر تھا جہاں یہودیوں کی اکثریت تھی۔ یہ وہی یہودی تھے جنھیں چند صدیاں پہلے سلطان بایزید ثانی نے پناہ دی تھی۔ کمال پاشا کا بچپن بھی اسی شہر میں گزرا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اسی دوران فری میسن کا ممبر بنا تھا۔ یہاں سلطان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ اسے اپنی اور اپنے خاندان کی گذر اوقات کے لیے بڑھئی کا پیشہ اپنانا پڑا۔ اسے جس مکان میں قید رکھا گیا تھا وہ ایک اصطبل سے ملحقہ تھا۔ 1912ء میں جب سالونیکا پر یونان نے قبضہ کرلیا تو سلطان کو قسطنطنیہ واپس لا کر ایک مکان میں نظر بند کر دیا گیا، جہاں آخر کار وہ دس فروری 1918ء کو پچھتر سال کی عمر میں کسمپرسی کی حالت میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے 31 اگست 1876ء سے 27 اپریل 1909ء تک33 سال حکومت کی۔ ان کے انتقال کے بعد 1924 ء میں ان کے خاندان کو جلاوطن کر دیا گیا ۔

1955ء میں ان کی بیٹی شہزادی حمیدہ عائشہ سلطان نے اپنی یاداشتوں کو ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا جس کا نام ”میرے بابا سلطان عبدالحمید“ Babam Sultan Abdulhamidہے، جس میں انہوں نے اپنے خاندان اور سلطان پر روا رکھے جانے والے ظلم وستم کا ذکر کیا ہے۔
حمیدہ لکھتی ہیں ”جب ہم سالونیکا پہنچے تو بندرگاہ سے ہمیں پیدل شہر لایا گیا، سارے شہر کی گلیوں میں پھرایا گیا، شہر کے لوگ سٹرک کے دونوں طرف کھڑے ہمارا تماشا دیکھتے رہے، کسی نے پتھر مارا، کسی نے گالی دی، اکثر آوازے کس رہے تھے، لگتا تھا جیسے یہ ترکی نہیں کسی دشمن ملک کا شہر ہو۔“ ایک اور جگہ انہوں نے لکھا کہ ” بابا بازار سے لکڑی خرید کر لاتے، سارا دن بڑھئی کا کام کرتے، ان کی بنائی چیزیں بہت خوبصورت ہوتیں اور بازار میں بہت مہنگے داموں بکتیں۔ یہودی نیلامی میں انھیں بڑے ذوق شوق سے خریدتے، فخر سے اپنے گھروں میں سجاتے اور اپنے عزیز و اقارب کو تحفے کے طور پر بھجتے، لیکن بابا کو اس کی اتنی کم قیمت ادا کی جاتی کہ بمشکل ہم ایک وقت کی روٹی کھا سکتے۔ گرمیاں تو جیسے تیسے گزر جاتیں لیکن سردیوں میں نہ ہمارے پاس گرم بستر ہوتے اور نہ گرم کپڑے، یہاں تک کہ یورپ کی سخت سردی میں آگ جلانے کے لیے لکڑی بھی مشکل سے میسر آتی۔ ہمارے پاس چارپائیاں نہیں تھیں، ہم ٹھنڈی زمین پر سو جاتے، لیکن بابا کے لیے وہ دو میز جوڑ کر بستر تیار کرتے جن پر وہ دن کے وقت وہ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔“

اپنے آخری خط میں سلطان عبدالحمید نے بڑی تفصیل سے ان حالات کا ذکر کیا ہے جو ان کی معزولی اور تاحیات قید کا سبب بنے۔ یہ خط انھوں نے اپنے مرشد شیخ محمود آفندی کو لکھا تھا اور آج تک میوزیم میں محفوظ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”میں اپنا یہ خط زمانے کے شیخ محمود آفندی ابو الشامات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور ان کے مبارک ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے نیک دعاؤں کی امید کے ساتھ۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کا کوئی وطن نہیں، کوئی گھر نہیں، کوئی سر چھپانے کا ٹھکانہ نہیں۔ جلاوطنی میں ہمارے خاندان کی تاریخ سوائے المناک اموات کے اور کچھ نہیں۔ اس مقدمے کے بعد میں آپ اور آپ جیسے اصحاب علم و فضل کے سامنے ایک اہم مقدمہ پیش کر رہا ہوں کہ یہ تاریخ کے ذمہ ایک امانت رہے۔
خلافت اسلامیہ سے مجھے ہٹانے کے پیچھے “جمعیت اتحاد نوجوان ترک” کے سرداروں کی طرف سے دھمکیوں کا مسلسل آنا تھا، جس نے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان اتحادیوں نے شدت کے ساتھ اصرار کیا کہ میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دوں۔ ان کے اصرار اور دباؤ کے باوجود میں نے ایسا کرنے سے قطعاً انکار کر دیا۔ آخر میں انھوں نے مجھے ڈیڑھ سو ملین انگریزی سونے کے لیروں کی پیشکش کی۔ میں نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر تم مجھے پوری زمین کے بقدر سونا بھی دو گے تو بھی میں تمہاری بات نہیں مانوں گا۔ میں نے امت محمدی کی تیس سال سے زائد عرصہ خدمت کی ہے۔ میں اپنے آباؤاجداد کے نامہ اعمال کو سیاہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میں تمھاری پیشکش کو ہرگز قبول نہیں کر سکتا۔ میرے اس قطعی انکار پر انھوں نے مجھے خلافت سے الگ کرنے پر اتفاق کرلیا جس کے بعد انھوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ وہ مجھے سالونیکا شہر بھیج رہے ہیں جسے میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً قبول کرلیا۔
میں اللّٰہ کی تعریف کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ میرا دامن ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کے ملک کے قیام کی ذلت و رسوائی سے داغدار نہیں، اور میں نے اپنے آباؤ اجداد کی قبروں کا سودا نہیں کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے اس کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی لیکن میں اس کے لیے تیار ہوں۔ میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں اپنے رب کے سامنے اپنے رسول محمد ﷺ کے حضور اور اپنے آباؤ اجداد کے سامنے سرخرو اٹھایا جاؤں گا۔
اسی کے ساتھ میں اپنا خط ختم کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
۲۲ ستمبر ۱۳۲۹ھ
خادم المسلمین عبدالحمید “

بڑے عرصے کے بعد دولت عثمانیہ کو ایک قابل، اہل اور درد دل رکھنے والا حکمران ملا تھا۔ اس نے اپنے بزرگوں کی کوتاہیوں اور لغزشوں کا ازالہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی، ریاست کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ استنبول سے مدینہ تک ریلوے بچھائی، یونیورسٹیاں قائم کیں، معشیت ٹھیک کرنے کے لیے درست اقدام اٹھائے۔ 1908ء تک سلطنت عثمانیہ کا 90 فیصد قرضہ ادا ہو چکا تھا۔ لیکن اس کا دور حکومت ایک انتہائی مشکل اور نازک دور تھا جو اقتصادی اور سیاسی انتشار، اندرونی و بیرونی ریشہ دوانیوں اور معاشی خلفشار کی بدولت اور خاص طور پر یہودی عزائم کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کی بقاء کی جنگ کا دور تھا اور یہ جنگ بدقسمتی سے سلطان ہار گیا۔

ہم سلطان عبدالحمید ثانی کے مقبرے کے سامنے کھڑے تھے، لیکن مقبرہ بند تھا، اندر مرمت کا کا م چل رہا تھا۔ ہم نے کھڑکی کی جالیوں سے اندر جھانکا تو سامنے ایک بڑی قبر پر ایک بہت بڑا عمامہ نصب تھا۔ یہ سلطان عبدالحمید کی قبر تھی۔ ہم نے دل کھول کر اسے دیکھا اور پھر فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ فاتحہ پڑھ کر ہم جونہی واپسی کے لیے مڑے تو ایک عجیب منظر نظر آیا۔ حمزہ تو اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف بےیقینی سے دیکھا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ضیاء گوکلیپ Ziya Gökalp کی قبر تھی۔ وہ ضیاء جو سلطان عبدالحمید کا سب سے بڑا مخالف تھا۔ اسے جدید ترکی کا بانی اور ترکی کا قومی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ سلطان عبدالحمید اور ضیاء گوکلیپ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ضیاء گوکلیپ خلافت اور الوحدة الإسلامیہ کا شدید مخالف تھا۔ وہ سیکولرازم اور جمہوریت کا علمبردار تھا۔ اس کی ساری زندگی اور تمام شاعری سیکولرازم اور جدید ترکی کے خدوخال بنانے میں صرف ہوئی۔ اس نے سلطان کے خلاف بغاوت اور سی یو پی کی کامیابی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس کا پورا نام محمد ضیاء تھا لیکن سی یو پی کی کامیابی اور سلطان عبدالحمید کی معزولی کے بعد اس نے اپنے نام کے ساتھ گوکلیپ کا اضافہ کرلیا جس کا مطلب ہے خلائی ہیرو۔ وہ سلطان عبدالحمید ثانی کے رستے کی سب سے بڑی دیوار تھا۔
دونوں ایک دوسرے کے ناموں سے بھی نفرت کرتے تھے، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے۔ شاید حافظ شیرازی نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا ”ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابکجُا“، یعنی دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن نیرنگی دوراں کے کھیل تو دیکھیے کہ آج شہر خاموشاں میں دونوں ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے دفن ہیں۔ تقدیر بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے۔ اس کے کھیل اتنے نرالے بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

میں نے گوکلیپ کے بارے میں سن رکھا تھا، لیکن حمزہ گوکلیپ اور اس کی شاعری سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے بڑی تفصیل سے مجھے گوکلیپ کے بارے میں بتایا۔
ضیاء گوکلیپ اقبال کا ہم عصر تھا اور یہ دونوں قومی شاعر بھی ہیں۔ ضیاء گوکلیپ ترکی اور اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں، لیکن یہ دونوں اپنی بنیادی فکر و شاعری میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر ایک وطنیت سیکولرازم کا پیروکار ہے تو دوسرا الوحدة الإسلامیہ یعنی Pan Islamism کا علمبردار۔ اگر گوکلیپ مذہب سے بیزاری کا درس دیتا ہے تو مذہب اقبال کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں میں بہت سی چیزیں مشترک بھی ہیں۔ دونوں اپنی اقوام کو خودی، طاقت اور جدیدیت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر اقبال نے کہا تھا ”ے جرم ضیعفی کی سزا مرگ مفاجات “، تو ضیاء گوکلیپ بھی کم وبیش وہی بات کرتا نظر آتا ہے "In the International world the weak find no sympathy; power alone deserves respect " ”دنیا میں کمزور کو ہمدرد نہیں ملتا۔ عزت طاقت کو ہی ملتی ہے۔ “

ہم نے اس گوکلیپ کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھی، جس کے نزدیک یہ ایک انتہائی فضول اور بیکار رسم تھی۔ جو اپنی زندگی میں قرآن و حدیث اور مذہب سے جڑی ہر چیز کو قدامت پسندی اور دورجاہلیت کی علامت سمجھتا تھا۔ یقیناً ہماری فاتحہ خوانی سے اسے اپنی قبر میں خوشگوار ہوا کے جھونکے محسوس ہوئے ہوں گے۔ بقول صائب تبریزی

هر سُخن گوشی و هر مَی ساغری دارد جدا
شربتِ سیمُرغ نتْوان در گُلویِ مور ریخت

ہر سُخن اِک جدا اور علیحدہٰ کان، اور ہر شراب اِک جُدا ساغر رکھتی ہے۔
عنقا (سیمرغ )کے شربت کو چیونٹی کے گلے میں نہیں اُنڈیلا جا سکتا۔

( نیز یہ مضمون حمزہ سربلند کے ایک انگلش آرٹیکل کا اقتباس ہے جو اس نے Istanbul Diary کے نام سے لکھا تھا)