ہوم << جب مجھے اغواء کیا گیا - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کی دلچسپ یادیں،انتظامی تجربات و مشاہدات

جب مجھے اغواء کیا گیا - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم کی دلچسپ یادیں،انتظامی تجربات و مشاہدات

یہ واقعہ اس عنوان کے مروج لفظی مِصداق تو شاید نہ ہو،البتہ معنوی مصداق ضرور ہے،مگر اتنا خوفناک اور حیرتناک بھی نہیں جتنا کچے اور پکے کے ڈاکوؤں سے توقع کی جاسکتی ہے۔۔ایک مہذب اغواء کہا جاسکتا ہے۔ اس واقعے کے بیان اور دیگر واقعات کے افشاء کا مقصد محض واقعہ یا منظر نگاری نہیں۔ان میں بین السطور پڑھنے اور سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے،اہل نظر و فہم کے لیے۔ کسی بھی بڑے اور انتظامی عہدے پر فائز افسر کی ظاہری شان و شوکت کے پیچھے کیا کیا اور کیسے کیسے دباؤ اور ناخوشگوار حالات ہوتے ہیں، ان کا ظاہر سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی بیانِِ کُلّی ممکن ہے۔

صاحبو !
یہ 2013 کے قومی انتخابات کا مرحلہ تھا۔نگران حکومت نے تمام۔key posts پر فائز افسروں کو تبدیل کردیا تاکہ انتخابات پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔نجانے گورنمنٹ کی نظر مجھ ناچیز پر کیسے پڑی کہ ایک بڑے کالج کی پرنسپل شپ کے ساتھ بیک وقت ڈویژنل ڈائریکٹر کالجز اور چیئرمین تعلیمی بورڈ کے لیئے بھی میرے ہی ناتواں کندھے اسے نظر آئے۔ شاید ڈویژن کے سب سے بڑے کالج کے اور سینیئر ترین پرنسپل ہونے کی وجہ سے ۔ بہرحال جو بھی تھا۔۔ میرا ایمان ہے کہ خدا کی مصلحت،حکمت اور نعمت تھی میرے لیئے۔میں ںے اسے نہ اپنا استحقاق سمجھا،نہ اہلیت و صلاحیت کا باعث قرار دیا ۔بلکہ میرے لیئے یہ compensation تھی قدرت کی طرف سے اس صبر اور ثبات کی ،جو پرنسپل بننے سے پہلے جی سی یونیورسٹی میں اڑھائی سال کی طویل آزمائش کے دوران میرے امتحان کی صورت میں سامنے آیا ۔

چیئرمین بورڈ بہت بڑی علمی پوسٹ نہیں۔سالہا سال سے لگے بندھے طریقے کے مطابق ہرسال تین چار بار ایک ہی غیر تعمیری(non creative activity ) سرگرمی یا ایکٹیویٹی کی مانیٹرنگ اور رننگ کا بور ترین کام ہے ۔ میرے لیے اس عہدے کی مراعات میں کشش تو تھی،مگر شان و شوکت میں خاص دلچسپی نہ تھی۔کہ میں پرنسپل شپ کے منصب کو عزت و وقار اور تعمیری کام اور ذہنی بالیدگی و آسودگی کا موجب سمجھتا تھا،اگرچہ اس میں وہ " ٹہور" اور جائز مالی مفادات نہ تھے۔ لوگ ان مناصب کے حصول کے لیئے بہت تگ و دو کرتے،بہت خوار ہوتے،بہت سفارشیں اور سیاسی دباؤ استعمال کرتے،بہت سے علاقائی اور مخصوص حوالے بروئے کار لاتے،انٹرویوز کی بہت سی چھلنیوں سے گذرتے۔اور کسی بھی غلطی پر کان پکڑ کر نکال دیے جاتے۔ مجھے میرے پروردگار نے بیک وقت یہ تینوں رنگ اور ان کے ڈھنگ دکھا دیئے،بغیر کسی درخواست،خواہش اور سفارش کے۔۔شائد فیصل آباد ڈویژن کی تاریخ میں ایسا کبھی نہ ہوا ہو۔ ہر انسان کا سوچنے کا اپنا انداز ہے۔۔میں اسےکسی ظاہری علامت و اہلیت کے باوجود سراسر اللہ کی عطائے بے بہا سمجھتا ہوں۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

صاحبو!
چیئرمین کا چارج لینے میں غالباً یکم اگست 2013 کو جھنگ روڈ پر واقع بورڈ آفس کے مرکزی دروازے پر پہنچا،تو گارڈز نے نئے چیئرمین کی آمد کا جان کر سیٹیاں بجا کر تقریبا نصف کلومیٹر دور بورڈ کی عمارت کے افسروں اور اہلکاروں کو خبردار کر دیا۔میں یہ منظر دیکھ کر زیرِلب ہلکا سا مسکرا دیا اور سیٹیوں کے اس استعمال کی حکمتوں اور پس پردہ نزاکتوں کا اندازہ ہوگیا۔ کم از تین کنال پر مشتمل چیئرمین آفس ، جس میں سائڈ روم،میٹنگ ہال جو بالکل خالی اور غیر مستعمل تھا،متصل آفس میں پرسنل سیکرٹری،پی اے ،کلرک اور دیگر معاون عملہ۔ میں اگر مستقل چیئرمین ہوتا یا ڈائریکٹر آفس کی بے سروسامانی اور پرنسپل آفس کی مالی و افرادی ویرانی نہ دیکھ چکا ہوتا، تو اس شان و شوکت پر ضرور پھسل جاتا ۔ پہلے روز جب میں چمکتی دمکتی سرکاری گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اگلی سیٹ پر ایک بندوق بردار سیکیورٹی گارڈ میری "حفاظت" کے لیے آبیٹھا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ یہ کس لیے؟ مجھے تو سوائے اپنے کسی سے کیا خطرہ ہوسکتا تھا،اور پھر وہ بیچارہ نحیف و نزار،کمزور سا وجود میری کیا حفاظت کر پائے گا۔
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِٔ افلاک میں ہے خوار و زبُوں

وہ گارڈ اتنی نازک اور مخدوش صحت کا مالک تھا کہ مجھے اس کی حفاظت اور جسمانی طاقت کا انتظام کرنا پڑتا ،اگر میں مستقل چیئرمین بنتا۔ خدا کا شکر ہے کہ سیاستدانوں ،اعلیٰ افسروں اور ماتحت ملازموں کی یونین بازی کے علاوہ مختلف مفادات کے آرزومندوں کی بے جا نوکری، چاکری اور تابعداری کے مستقل شرور و آفات سے محفوظ رہا۔یقیناً جائز مالی مفادات اور شان و شوکت سے بھی محروم ہونا پڑا۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے اتی ہو پرواز میں کوتاہی
میں اس بےچارے گارڈ کو گاڑی سے اتار کر آئندہ کبھی زحمت نہ کرنے کی گذارش کردی۔

صاحبو۔۔!
ہم پرنسپل تو بنے ہی تھے،اور ڈائریکٹر بھی ،اب "چیئرمین "بھی بن گئےتھے۔گویا ایک نہیں، دو نہیں، تین کشتیوں کے سوار تھے۔ عنوان میں مذکور و مشار الیہ واقعہ کہیے یا معاملہ، تب پیش آیا ،جب الیکشن میں ہارنے والے سمندری کے ایک شخص نے جیتنے والے ایم پی اے کے خلاف فیصل آباد بورڈ سے جاری شدہ انٹر میڈیٹ کی سند کے جعلی ہونے کا کیس کردیا۔اگرچہ یہ کیس کئی سال پرانا تھا اور اس وقت کے چیئرمین صاحب نے "بوجوہ" ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ سند اصلی اور درست ہے۔ اب نئے انتخابات میں پھر یہ قضیہ اٹھا تو سپریم کورٹ سے ہوتا ہوا یہ "مُردہ "میرے گلے آپڑا ۔اب مجھے نئے سرے سے بطور حاضر چیئرمین اس کے بارے "فیصلہ" کرنا تھا.اس پس منظر میں کہ ایم پی اے بھی تگڑا تھا،حقیقت واصلیت بھی ناخوشگوار تھی اور میں بھی کمزور اور عارضی چیئرمین تھا،اوپر سے بزدل اور ڈرپوک بھی ۔ ( برتفنّن طبع عرض ہے کہ۔۔۔۔ مشتاق یوسفی نے عاجزی و انکساری کے اتنی بار اظہار سے منع کیا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں) اور ایم پی اے صاحب بھی کئی بار بنفسِ نفیس اپنی شاندار مسکراہٹ،تابعداری،عاجزی اور ہمراہ تشریف لانے والے اسلحہ بردار مشٹنڈوں کی تیل میں تر بتر خوفناک مونچھوں اور قہر آلود نگاہوں کے حصار میں چیئرمین آفس میں "شرفِ زیارت "بخش چکے تھے۔۔

کہتے ہیں کسی گاؤں کا کوئی سوکھا سڑا،کمزور سا چوہا اپنے ہٹے کٹے شہری دوست چوہے سے ملنے اس کے ٹھکانے شہر میں ایک شاندار محل میں آیا۔اس کی صحت اور موٹے تازے وجود اور محل کے شاندار کچن تک رسائی اور قسم قسم کی قیمتی خوراکوں پر ریجھنے سے بہت متأثر ہوا،مگر ہر وقت کی چھترول اور لترول دیکھ کر واپس دُم دباکر گاؤں کی کُٹیا میں میسر چند پرسکون دانوں اور سوکھی روٹی کے ٹکڑوں پر ہی قناعت کرگیا۔۔حالانکہ گلشن میں علاج تنگی داماں بہت تھا . اس شان و شوکت کے ساتھ "یہ" دیکھ کر میں بھی دُم دبا کر بھاگ ہی جاتا۔۔اگر دُم ہوتی۔ لیکن صاحبو۔۔۔جو لکھا تھا وہ تو ہونا ہی تھا۔۔ تقدیر کا لکھا نہیں۔۔طاقت و سیاست کا لکھا۔۔
اس کے لیے مجھے لاہور" پہنچایا" گیا،اور سہولت کار بنا خود میرے دفتر۔۔ بورڈ۔۔کا۔۔۔۔

مجھے یقین تو نہیں،شک سا ہے،جو غلط بھی ہوسکتا ہے کہ بورڈ کے کنٹرولر امتحانات جن کے ایک بھائی سینیئر بیورو کریٹ تھے، اس معاملے میں کوئی کردار ادا کر رہے تھے۔ میں نے اس کیس کی فائل منگوائی اور بھاری بھرکم دیگ( فائل) کے کچھ دانے بغور چیک کیے،اور تقریباً تمام ہی کاغذات پر "طائرانہ" نظر ڈالی اور کچھ کو "غائرانہ" دیکھا،اور بورڈ کے متعلقہ افسروں سے کچھ "غائبانہ " معلومات حاصل کیں اور کچھ "حاضرانہ" صورت حال کا جائزہ لیا ۔ میں اس ساری محنت کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے, کہ سند fake ہے۔۔مگر اس حقیقت کے اظہار کی نہ معروضی حالات میں ہمت ہے، نہ گنجائش ۔ اور خاص طور پر ان حالات میں کہ میں کمزور بھی تھا اور عارضی بھی۔ کمزور جسمانی اور ایمانی،دونوں اعتبار سے۔۔

پھر میں تصور میں لایا ایک منظر۔۔ ایک جانب ایم پی اے صاحب کے ہٹے کٹے گارڈز اور دوسری طرف چیئرمین صاحب کا سرکاری گارڈ نما ہڈیوں کا ڈھانچہ ۔۔ چلیں یہ تو اسباب دنیا ہیں۔اصل تو قوت اللہ کی نصرت و حفاظت کی ہے۔۔۔جو یقیناً خفیہ ہوتی ہے۔اور ہم ٹھہرے ظاہری مؤمن ۔۔ میرا ابتدائی فیصلہ یہ تھا کہ میں گول مول اور غیر واضح مؤقف اختیار کروں۔اور ذمے داری سابق مستقل چیئرمین صاحب پر ڈال دوں۔اور خود کو غیر مستقل بتا کر آئندہ مستقل چیئرمین تک فیصلے کو مؤخر کرنے کا" متقیانہ" ( لغوی مفہوم لیا جائے)راستہ نکال کر اپنی گردن تو بچا لوں ۔ شاید ایسا ہی کچھ لکھ کر جواب دے دیا گیا۔

ظاہر ہے سیاسی اور حکومتی مقتدرہ کو یہ جواب ناقابل قبول تھا،اس لیے" مبینہ " طور ( کیا منافقانہ اور بزدلانہ اصطلاح ہے) پر طاقت کے ایک بڑے انتظامی اور سیاسی مرکز سے،بورڈز کی ریگولیٹنگ اتھارٹی سے رابطہ کیا گیا۔جہاں سے مجھے براہ راست تو نہیں،حسب قاعدہ دفتری عملے کے ذریعے لاہور وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ متعلقہ ریکارڈ لے کر میں اور جناب کنٹرولر صاحب لاہور پہنچے۔۔ہمیں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے ایک ڈپٹی سیکرٹری کے پاس پہنچایا گیا ۔وہاں کچھ خاص بات تو نہ ہوئی ۔بس یوں لگا کہ ہم" گھیرے" میں نہ سہی، "نگرانی" میں ضرور ہیں اور جائے فرار بھی کوئی نہیں ۔۔اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دو گھنٹے کے خاموش انتظار کے بعد ہمیں لاہور بورڈ کے دفتر بھیج دیا گیا۔۔شاید بلکہ کسی حد تک یقیناً ،ہمارے آگے پیچھے کوئی گاڑی بھی تھی جو ہمیں گھیرے ہوئی تھی ۔مگر مجھے اس کا احساسِ تو ہوا،مگر ادراک لاہور بورڈ کی عمارت میں داخلے کے بعد ہوا۔

وہاں میں دو تین بار پہلے بھی جاچکا تھا،مختلف میٹنگز کے لیے۔تاہم آج کا منظر اور اردگرد کے حالات کچھ مختلف تھے۔کچھ ایسے افراد دائیں بائیں موجود تھے،جو بورڈ کے نہیں لگتے تھے۔تاہم ہم سے جسمانی طور پر فاصلے پر تھے۔اور گفتگو کا بھی کوئی موقع نہیں ملا۔۔ نہ ضرورت تھی۔ جناب چیئرمین لاہور بورڈ سے ملاقات میں یہ موضوع ڈسکس ہوا،جس کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔میرے کان تب کھڑے ہوئے اور غیر محسوس "گھیرے" کا تب یقین ہوا جب رات خاصی ہوگئی۔شائد کوئی دستاویز تیار ہو رہی تھی اور اس پر حکام بالا اور ایم پی اے صاحب سے مذاکرات اور باہمی اتفاق جاری تھا۔اس عمارت میں مجھے ایم پی اے صاحب تو نظر نہیں آئے۔یقیناً وہ وزیراعلی سیکرٹریٹ میں ہوں گے۔

رات کہیں دس بجے کے قریب شائد ( احتیاط کے لیے "شاید" لکھا ہے، تاکہ "بوقت ضرورت" کام آئے۔) کوئی مسودہ تیار ہوا۔اس وقت ہمہ جہت تھکاوٹ اور سارے دن کے غیر محسوس اشارے اپنا کام دکھا چکے تھے۔۔ اور اتنی ہمت تھی،نہ ضرورت اور شائد نہ ہی اجازت کہ اس مسودے پر مزید غور فکر کیا جاتا . مجھے واہمہ سا ہے،یقین ہے، نہ صحیح صحیح یاد،کہ کیا دستاویز تھی،اس میں کیا لکھا تھا، میرا اندازہ ہے کہ اس پر بطور چیئرمین میرے دستخط درکار تھے۔ اگر مجھے وہ دستاویز پڑھائی گئی تھی تو یقیناً میں نے "برضا و رغبت " دستخط کیے ہوں گے۔اور اگر میں اس سے متفق نہ بھی تھا،تو بھی اردگرد کے غیر محسوس ماحول میں خطرات کی بُو سونگھ کر میں نے"بہ ضا و رغبت" دسخط کر ہی دیے ہوں گے،تب ہی تو جان چھوٹی تھی۔ اور میرے ایک طاقتور ایم پی اے کو نااہل کراکے کون سا سیاسی و اخلاقی اور قانونی انقلاب آ جانا تھا،البتہ میں اس گناہ بے لذت میں ضرور مارا جانا تھا۔

اب یہ" رض او رغبت" کس کی تھی۔۔؟
پردے ہی میں رہنے دیجیے۔۔ کہ مجھے نہیں معلوم کہ پس پردہ کون تھا،اور میں تب بھی جاننا نہیں چاہتا تھا،نہ ہی آج ۔کیونکہ حکومت و اقتدار کے ایوانوں کا یہ،بلکہ" یہی" "معمول" ہے اسی لیے تو کہتے ہیں : "رُموز مصلحتِِ ملک خّسروان دانند" یعنی ملک کی بہتری کے راز" بادشاہ" ہی بہتر جانتے ہیں۔ رات گیارہ بجے کے لگ بھگ لاہور بورڈ کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے بورڈ کے ایک انتہائی اعلیٰ افسر کی ایک پیشکش نے مجھے خوفزدہ تو نہیں کیا،البتہ میری چھٹی حس اور غیر محسوس "گھیرے" کی تصدیق کردی۔ اس نے کہا کہ "اگر آپ ضروری سمجھیں تو کچھ گارڈز ایک گاڑی میں آپ کے ہمراہ بھیج دیے جائیں، جو آپ کو فیصل آباد چھوڑ آئیں"

اس یقینی یاد اور جملے نے میرے لیے آج تقربا بارہ سال بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل کردیا ہے کہ میں نے ایم پی صاحب کے حق میں تیار دستاویز پر دستخط کیے تھے یا ان کے خلاف ؟
اگر ان کے حق میں ہوتے تو یقیناً ایسا کوئی خطرہ راستے کا کیسے ہوسکتا تھا،جس کے لیے حفاظتی اسکواڈ کی ضرورت پڑتی؟
اور اگر ان کے خلاف تھا تو لاہور سے تو کہیں زیادہ سمندری ، فیصل آباد سے قریب تھا،بلکہ میرا کالج بھی سمندری روڈ پر ہی واقع تھا،اور کسی بھی ناپسندیدہ کارروائی کے لیے زیادہ موزوں تھا ،اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اس فیصلے کے سیاسی اثرات کیا مرتب ہوئے۔ایم۔ پی اے صاحب کی ڈگری برقرار رہی یا منسوخ ہوگئی۔اور ان کی ممبری کا کیا ہوا؟ یقیناً بورڈ کے ریکارڈ میں سب موجود اور اس کے افسروں کو یاد ہوگا نتیجہ۔ میں چھوٹا سا آدمی اپنی معمولی سی جان کے لیے گارڈوں کے اسکواڈ اور اس پر اُٹھنے والے سفری اخراجات کو کیسے افورڈ کرسکتا تھا! سو ان کی پیشکش شکریہ کے ساتھ قبول کرنے سے معذرت کرلی۔اور کنٹرولر صاحب کی معیت میں نصف شب کے بہت بعد فیصل آباد پہنچ گیا۔ الحمدللہ

(پس نوشت: ایک باخبر پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ان کی سند منسوخ اور انتخاب کالعدم قرار پایا تھا)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment