Blog

  • “اسلام بیزاروں کا نیا وار” : شہزاداسلم مرزا

    “اسلام بیزاروں کا نیا وار” : شہزاداسلم مرزا

    اول و آخر سب کچھ اسلام کو ماننے کے آفاقی تصور پر بار بار حملے جاری ہیں کہ
    کسی طرح عام مسلمان اسلام کے علاوہ بھی کسی نظام کی جانب متوجہ ہو۔ آج کل ایک
    نئی سوچ کو خوشنما بنا کر اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے خدانخواستہ
    کسی نئے مذہب کا ظہور ہوا ہے۔ “انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے” اس فقرے میں ہی
    تمام مذاہب سے بغاوت موجود ہے کہ جیسے تمام مذاہب انسانیت کو خدانخواستہ کچھ
    نہیں دے سکے اس لئے اب سب سے کنارہ کشی اختیار کرکے انسانیت کو ہی مذہب مان
    لیا جائے۔ یہ تناظر خود چغلی کھا رہا ہے کہ یہ کسی ملحد کے ذہن کی پیداوار ہے۔
    ایدھی صاحب اسکالر یا تعلیم یافتہ نہیں تھے اور نہ کوئی مذہبی شخصیت تھے بس
    ایک عام سادہ سا درویش بندہ تھا جس نے مظلوم عوام کی خدمت کو ہی اوڑنا بچھونا
    بنا لیا، ان سے جب نماز، روزہ یا حج وغیرہ جیسی عبادات کی پابندی کے متعلق بار
    بار سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کسی لمحے کہہ دیا کہ میرا سب کچھ انسانیت ہی
    ہے بس اتنا کہنا تھا کہ خصوصا اسلام بیزاروں کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو
    انہوں نے اس فقرے کو فورا اچک لیا اور انسانیت انسانیت کی گردان شروع کر
    دی۔حالانکہ اس طبقے کا اپنا عمل کسی بھی لحاظ سے مہذب انسانی معیارات کے مطابق
    نہین ہوتا۔ شراب پینا انسان کو انسانیت کے مقام سے گراتا ہے، زنا کرنا انسانیت
    کے شرف کے خلاف ہے، بوڑھے والدین کو اولڈہاؤسز چھوڑ دینا انسانیت کی توہین ہے،
    اخلاقی و معاشرتی حدود کی پامالی انسانوں کو حیوان بناتی ہیں اور سب سے بڑھ کر
    انسانیت کو تمام نعمتوں سے مالامال کرنے والے رب کا انکار یا اس کے نظام کو رد
    کرنا انسانوں کو بےحس بنا دیتا ہے۔
    ویسے تو تمام مذاہب کی بنیاد ہی انسانیت کی بہتری پر ہے پر اسلام کا تو سارا
    دعوی ہی یہی ہے کہ جب انسانیت اپنی پستی کی انتہاء پر تھی تو اس کے مقابل
    اسلام کا ظہور ہوا۔ جب بیٹیوں کو زندہ جلایا جاتا تھا، عورتوں کے کوئی حقوق
    نہیں تھے، انسانوں کی خرید و فروخت جانوروں سے سستے داموں ہوتی تھی اور سب سے
    بڑھ کر محکوم انسانوں کی زندگی کو کوئی تحفظ حاصل نہ تھا تب اسلام نے اس
    جاہلانہ طرز زندگی کے مقابل عادلانہ اور باعزت نظام متعارف کروایا۔ والدین کے
    حقوق، بہن بھائیوں، بیوی شوہر کے حقوق، بچوں کے حقوق کے علاوہ ہمسائے اور
    ملازمین کے حقوق تک کون باعزت مقام سے محروم رہ گیا۔
    انسانیت کو جتنا تحفظ مذہب کے حصار میں ہے باہر ہرگز نہیں کیونکہ ثابت ہو چکا
    کہ دنیا جیسے جیسے مذاہب کا دامن چھوڑتی جا رہی ہے انسان اتنا ہی غیر محفوظ
    اور انسانیت تذلیل زدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو امن و سلامتی چاہئے تو
    اسے مذہب کی طرف لوٹنا ہو گا ورنہ اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام نے تو
    انسان کو دو وقت کے کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
    ایدھی صاحب کی وفات کے بعد انہیں مذہب کے حوالے سے متنازع بنانے والے ایدھی
    صاحب کے دوست تو یقینا نہیں مگر اس آڑ میں ان کا اصل ہدف اسلام ہے اور ان
    سازشوں سے ہمارے نوجوان کو ہردم آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

  • آزادی کی قیمت۔۔۔ برہان وانی اور ہم  –  مبشر ایاز

    آزادی کی قیمت۔۔۔ برہان وانی اور ہم – مبشر ایاز

    انسانوں کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں آزادی کی کیا حیثیت ہے، اس کا جواب افریقہ کے نسل در نسل پیدائشی غلاموں سے پوچھیں یا عراق و شام، افغانستان میں سنگلاخ پہاڑوں پر حق آزادی کے لیے بے سروساماں ان سرفروشوں سے معلوم کریں۔

    لیکن آزاد فضائوں میں سانسیں لینے والے قوم کے ان ٹھیکیداروں کو کیا معلوم کہ ہمارےبڑوں نے اس آزادی کی خاطر 10 لاکھ لوگوں کی گردنیں اتروائیں۔ لاکھوں مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئیں۔۔۔ ہائے افسوس! یہ کیا جانیں شہدا کی قدر، انہیں کیا پتا جنگ آزادی کیا ہوتی ہے۔۔۔ یہ بزعم خود دانشور انہیں دہشت گرد کہہ کر سورج پر تھوکنے کی کوشش میں دراصل اپنا ہی منہ گند سے بھرتے ہیں۔۔۔

    دین اسلام آزاد اور اپنے ماننے والوں کو آزادی کے حصول کے لیے ہی اکساتا ہے، یہی وجہ ہے مسلمان نامی یہ اُمت کبھی بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر آمادہ نہ ہوئی، بلکہ ہمیشہ اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق غاصب دشمنوں کے خلاف قلم زبان اور ہتھیار سے جہاد کا علم بلند کیے رکھا۔۔۔

    دین اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں یا کسی مظلوم قوم کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے جو بھی مارا گیا، اسے اس دین میں شہید کے شاندار لقب سے نوازا گیا اور اسے زندہ کہا گیا۔۔۔

    آج کی جدید دنیا میں بھی یہ کوئی ظلم یا زیادتی نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کسی علاقہ کے مکینوں پر کسی دوسری قوم کی طرف سے ناجائز غاصبانہ قبضہ کے خلاف کی جانے والی لڑائی کو جدوجہد آزادی اوراس بنیادی انسانی حق کے حصول کے لیے اجازت دی گئی ہے۔۔۔ مگر قربان جائیں ان عقل سے عاری دانشوروں پر جو سیاہ وسفید میں فرق نہیں کرسکتے۔ یہ تعصب میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ دنیا میں کوئی مسلمان اپنے بنیادی حق کی خاطر مارا جائے تو ان کے نزدیک دہشت گرد ٹھہرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کے قاتل کو نوبل پرائز دینے پر عش عش کررہے ہوتے ہیں۔۔۔

    تحریک آزادی کشمیر گزشتہ 69 سال سے جاری ہے، جس میں ہزاروں مجاہدین حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ شہدا کے خون سے لبریز اس متبرک تحریک میں ایک شاندار اضافہ ستمبر 1994ء میں پلوامہ کے علاقے ترال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے برہان وانی جو 15 سال کی عمر میں اس وقت شامل ہوا جب راستے میں جاتے اس کے بھائی مظفر وانی کو غاصب بھارتی فوجیوں نے شدید زخمی کردیا۔۔۔

    برہانی وانی جدید ٹیکنالوجی کے حامل ایسےمجاہد جو عسکری کاروائیوں میں اپنے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی شاندار مدلل گفتگو اور دلکش تصاویر کے لحاظ سے کشمیری نوجوانوں میں بہت مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ وانی کے اسی میڈیا ورک کا نتیجہ تھا کہ ہزاروں کشمیری نوجوان غاصب بھارتی فوجیوں کے خلاف کشمیر کے برفانی پہاڑوں کا رخ کرچکے ہیں، اس لہر سے تنگ بھارتی فوج نے برہان وانی کے سر کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی، جو گزشتہ دنوں ہندو فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔۔۔

    برھان وانی کی شہادت کی خبرمقبوضہ وادی کشمیرمیں آگ کی سی تیزی سے پھیلی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر اس عظیم مجاہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔۔۔ برہان وانی کی شہادت نے کشمیری عوام کے اندر جزبہ شہادت اور حصول آزادی کی تحریک کے لیے نئی روح پھونک دی اور کشمیریوں کے اندر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوکر غاصب قوت کو للکارنے کی جرات پیدا کردی۔۔۔

    کشمیری نوجوان ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں غلامی کا شکنجہ توڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے جدوجہد آزادی کشمیر کے اندر ایک نئی تیزی اور ولولہ دیکھنے کو ملا ہے۔۔۔ لیکن افسوس کہ پاکستانی میڈیا اور حکمرانوں کی طرف سے اس پر وہ ردِعمل سامنے نہیں آیا جس کا یہ ایشو حق دار تھا۔

    اس کے باوجود مقبوضہ وادی کشمیر کے عوام جدوجہد آزادی کے لیے مکمل پُرعزم ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ پاکستانی عوام ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت تو جاری رکھے ہیں، لیکن بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ان محاذوں پر شاید اب تعاون کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ اب جو کچھ کرنا ہے، کشمیری عوام کو کسی بیرونی امداد کی توقع کے بغیر ازخود ہی کرنا ہے۔

  • قصہ میری کالم نگاری اور فاتح کتاب کا …  سینئر صحافی ہارون الرشید کی باتیں  –  عامر خاکوانی

    قصہ میری کالم نگاری اور فاتح کتاب کا … سینئر صحافی ہارون الرشید کی باتیں – عامر خاکوانی

    پہلی قسط پڑھیں
    دوسری قسط پڑھیں


    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n کالم نگاری
    میں نے پہلا کالم 1970ء میں لکھا۔ ان دنوں وفاق میں رپورٹر تھا۔ بسنت کے موقع پر چھ بچے چھتوں سے گر کر زخمی ہوئے۔ میں انہیں دیکھنے گیا۔ واپس آ کر خبر لکھنی شروع کی تو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ تو کالم لکھ دیا ہے۔ وہ کالم جمیل اطہر صاحب نے چھاپ دیا۔ مولانا مودودی جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوئے تو میں نے دوسراکالم لکھا۔ ان دنوں چھ ،آٹھ مہینے کے بعد ایسے کسی انسپائرنگ واقعہ پر میں کالم لکھ دیتا۔ مدتوں سمجھتا رہا کہ میں فطری رائٹر نہیں ہوں۔ کسی واقع سے انسپائریشن کے بغیر میرے لئے لکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ 2001ء کے بعد آہستہ آہستہ اور پھر 2006ء میں یقین ہو گیا کہ اچھے برے سے قطع نظر، میں لکھ بہرحال سکتا ہوں۔ میں نے طویل عرصے تک بڑے بڑے کرب میں لکھا۔ مجھ میں شدت احساس بہت ہے۔ کئی بار لکھتے ہوئے میرے اوپر رقت طاری ہو جاتی۔ کالم کے فارمیٹ اور الفاظ کے مناسب ہونے کی بھی بڑی فکر رہتی ہے۔ میرے خیال میں کالم کا فارمیٹ پرفیکٹ ہونا چاہئے… کسی اچھے سلے سوٹ کی طرح۔
    munno bhai
    میں مدتوں منو بھائی سے متاثر رہا کہ وہ فارمیٹ سے انحراف نہیں کرتے۔ پہلے میں بڑے ہیجان اور دباؤ میں لکھا کرتا تھا۔ پروفیسر احمد رفیق سے ملنے کے بعد انکشاف ہوا کہ ہیجان اچھی چیز نہیں۔ بندے کونارمل لکھنا چاہئے۔ پروفیسر سے ملنے کے بعد احساس کی شدت تو باقی ہے مگر اس کی اذیت کم ہو گئی ۔آج کل تو بعض اوقات چالیس منٹ میں کالم لکھنا پڑ جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں کالم لکھ لیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تو وہ بڑے حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ ڈیڈلائن کا دباؤ آپ پر ہو تو آپ بھی اتنی دیر میں لکھ لیں گے۔ عالی رضوی میرے استادوں میں سے ہیں۔ ان سے سیکھا کہ کبھی ادنیٰ لفظ نہیں لکھنا چاہئے،اسی طرح بازار کی زبان اور بول چال کی زبان میں کیا فرق ہے؟میں نے ہمیشہ کالم لکھتے وقت یہ سوچا کہ میری ماں اسے پڑھ سکے۔ ایک آدھ بار ہی ایسا ہو گا کہ اپنا لکھا پڑھ کر شرمندگی ہوئی ۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے۔ ایک اخبار میں مہینوں میرے کالم نہیں چھپے مگر تنخواہ ملتی رہی۔
    fateh
    میں نے فاتح کیوں لکھی؟
    جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی کتاب ’’فاتح‘‘ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ دراصل ان دنوں میں اخبار نویسی سے اکتا گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ مغربی رائٹروں کی طرح چند سال کتابیں لکھ کر کماؤں۔ وہاں تو رائٹر کئی ملین ڈالر کما لیتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ چلو مناسب گزار اوقات ہو جائے۔ اختر عبدالرحمن پر کتاب لکھنے کا بنیادی تھیم یہ تھا کہ ایک یتیم بچے کو ٹریبیوٹ پیش کیا جائے جس نے اچھی تربیت اور محنت سے ترقی کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کیں۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ پوری کتاب ٹریبیوٹ میں لکھ دی۔ اگر جنرل مرحوم کی زندگی کے کمزور حصوں پر لکھ دیتا تو خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ یہ قطعاً غلط ہے کہ ہمایوں اختر یا ان کے بھائیوں نے مجھے یہ کتاب لکھنے کے پیسے دیئے۔ وہ تو اس کتاب کے لئے راضی ہی نہیں تھے۔ میں نے انہیں اس پر قائل کیا۔ جب میں نے کتاب لکھی تو یہ خیال تھا کہ ہزار دو ہزار بک جائے گی۔ ویسے میرا ہدف چار ہزار کا تھا کہ اس طرح 90 ہزار کے قریب رائلٹی مل جائے گی۔ ان دنوں سینئر اخبار نویس کی تنخواہ بھی سات آٹھ ہزار تھی۔ میں نے سوچا رائلٹی سے ایک سال گزار لوں گا۔ پھرکسی اور کتاب کا سوچا جائے گا۔ اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’’فاتح‘‘ ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہو گی۔ میں نے اختر عبدالرحمن کے بیٹوں سے وعدہ کیا کہ کتاب کی نصف رائلٹی انہیں دوں گا۔ میرا ان سے معاہدہ ہوا کہ وہ مجھے ریسرچ کی خاطر کئے جانے والے سفر وغیرہ کا خرچ دیں گے اور چونکہ میں نوکری چھوڑ کر اس پر کام کر رہا تھا اس لئے انہوں نے بارہ ہزار روپے مہینہ دینے کی پیش کش بھی کی ۔بعد میں اس کتاب نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ چند مہینوں میں 35 ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ مجھے پانچ لاکھ رائلٹی ملی۔ میں نے غازی خان کو نصف رائلٹی دی مگر اس نے انکار کر دیا۔ میں نے بحث کی مگر ناکام رہا۔ غالباً پیسے کی محبت بھی غالب آ گئی ہو گی۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے دل سے خوشی نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ان بھائیوں سے دور ہی رہوں، اس پر عمل پیرا رہا۔ مجھے خاموش مجاہد ترجمہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کر دیا۔ فاتح برصغیر کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس پر معروف لبرل جریدے نیوز لائن نے تین صفحے کا تفصیلی تبصرہ شائع کیا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ کبھی ممکن ہوا تو اسے دوبارہ لکھوںگا۔ اسی بار اس میں جنرل اختر کے کمزور حصے بھی شائع کروں گا تاکہ عدم توازن ختم ہو جائے۔ ویسے اس پر Regret نہیں کرتا۔ غلطی سے سبق سیکھنا چاہئے، جو میں نے سیکھا ہے۔ یہاں پر لوگ آمروں کے قصے لکھتے اور اس پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ میں نے تو ایک مرحوم جنرل پر کتاب لکھی۔

    شخصیات جن کے اثرات پڑےameen ahsan islahi
    مولانا امین احسن اصلاحی ہارون صاحب کے ماموں کے دوست تھے ۔ہارون الرشید ان کے علم وفضل کے بڑے معترف ہیں ۔وہ کہتے ہیں ،’’مولانا اصلاحی کا ٹیلنٹ ،حسن تحریر،اور پوٹینشل مولانا مودودی سے زیادہ تھا۔ ان کے اساتذہ بھی مولانا مودودی کے اساتذہ سے بہتر تھے ۔ بدقسمتی سے اصلاحی صاحب میں خودپسندی بہت تھی ۔اسلام میں تصوف کی روایت کا وہ بالکل ادراک نہ کر سکے ۔اپنے اساتذہ خصوصاً حمید الدین فراہی کے اسیر رہے۔ یہی حال جاوید احمد غامدی کا ہے ۔ غامدی صاحب بڑے اچھے اور نیک طینت انسان ہیں ۔وہ بڑے خوش ذوق، اظہار پر قدرت رکھنے والے صاحب مطالعہ دانش ور ہیں ۔ ان کے مالی معاملات بڑے شفاف رہے، مگر وہ بھی اصلاحی صاحب کی طرح اپنے مکتب فکر کے اسیر ہوگئے ۔ پھر خبط عظمت بھی بہت ہے ۔

    اپنی تمام زندگی سیاست اور سیاست دانوں پر لکھنے والے ہارون صاحب کی نظر میں کوئی سیاستدان جچا نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قائداعظم کے بعد کوئی جچ بھی کیسے سکتا ہے ۔ان کے خیال میں،’’ بھٹو صاحب عظیم نیشنلسٹ ،بے پناہ ذہین شخص تھے ،مگر ان میں خبط عظمت بہت تھا ۔ان کو تاریخ کے دوام میں زندہ رہنے کا شوق تھا ،حالانکہ یہ سوچ ہی غلط ہے ۔‘‘جنرل ضیا الحق کا سیاسی فہم انہیں نارسا لگتا ہے ،جنہیں افغان جہاد کے مضمرات کا اندازہ ہی نہ ہوسکا ۔ویسے ہارون صاحب کے خیال میں جنرل ضیا ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود اخلاقی اعتبارسے بھٹو سے بہتر تھے ،ان کے دامن پر بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا دھبہ نہ ہوتا تو ان کا امیج اور بھی بہتر ہوتا۔ سیاست دانوںمیں وہ شیرباز مزاری کی اصول پسندی کے مداح ہیں،جنہوں نے ہارون صاحب کو یہ سکھایا کہ کوئی شخص مکمل طور پر غلط یا درست نہیں ہوتا ،اس لئے ایشو ٹو ایشو رائے دینی چاہیے۔

    ہارون الرشید کہتے ہیں کہ وہ ایک زمانے تک کالم شام کو لکھ لیتے ،پھر نصف شب کے قریب اسے دوبارہ پڑھتے اور بسا اوقات اسے دوبارہ لکھتے ۔ اب تو وہ قلم برداشتہ بھی لکھ لیتے ہیں، مگر ان کے خیال میں ایک بار لکھ کر اس پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے۔ وہ بڑے رشک سے زہیر بن ابی سلمہ کا ذکر کرتے ہیں ،جو ان کے خیال میں عربی کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ زہیر اپنی نظم ایک سال تک کسی کو نہیں دکھاتے تھے ۔ میر انیس ایک ماہ تک ایسا کرتے ، جبکہ مشتاق یوسفی لکھ کر گویا تحریر کو پال میں ڈال دیتے ہیں ،مگر اخبار میں ڈیڈ لائن کا دبائو ہارون صاحب کو ایسا نہیں کرنے دیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت ملے تو یہی کوشش کرتا ہوں کہ حسن بیان اور مضبوط دلائل کے ساتھ پرتاثیر کالم لکھا جائے ۔

  • بیانیے کی جنگ اور مذہبی نوجوان … ہوئے تم دوست جس کے  –  محمد حسین کھرل

    بیانیے کی جنگ اور مذہبی نوجوان … ہوئے تم دوست جس کے – محمد حسین کھرل

    ارض پاک پر ایک دفعہ پھر سے معرکہ فکر و نظر بپا ہے۔ بیانیے کی جنگ زوروں پر ہے۔ عجب تو مگر یہ ہے کہ کل جولوگ ‘کیمونزم’ کے لیے سینہ سپر تھے،انہی لوگوں میں سے ایک طبقہ آج پھراسلام پسندوں کے خلاف ‘سیکولرازم’ کے لیے صف آرا ہے۔ ایک خالص فکری جنگ میں 180ڈگری کی اس قلابازی کو عجوبہ ہی کہیے گا یا کہ چڑھتے سورج کی طرف طبائع کا میلان۔

    بہرحال 80ء کی دہائی میں اسلام پسندوں نے کیمونسٹوں کے خلاف جو فکری معرکہ سر کیا، یہ معرکہ اس معرکہ کی بہ نسبت اسلام پسندوں کے لیے اپنے اندر کہیں زیادہ شدت رکھتا ہے۔ کیونکہ اب کہ معتدل اسلام پسندوں کو چومکھی لڑنا ہے۔ ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں جن کے ہاں مستحب فرض ہے، مباح حرام اور گنجائش کا نام بزدلی۔ خود خواہ ہزارہا بداعمالیوں میں مبتلا ہوں۔ مگرسماج کے لیے جن کی لغت میں ”رخصت“ نام کا کوئی لفظ موجود نہیں۔ ‘عزیمت و اخلاص ‘کے یہ پیکر جانے نہ جانے میں سیکولرازم کے باقاعدہ ہر اول کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی سماج میں اہل مذہب کی انتہا پسندی ہی سیکولرازم کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہے۔ کہ سیکولرازم نام ہی مذہب بیزاری کی اس تحریک کا ہے جو انتہا پسندی کے ردعمل میں معرض وجود میں آئی۔
    ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

    تبھی کہتے ہیں کہ اخلاص بھی وہی کارآمد ہوتا ہے جس کا استعمال حالات کو بنظر غائر دیکھنے والی عقل کے ساتھ ہو۔ سید عطااللہ شاہ بخاری ؒ پان کاشوق فرماتے تھے۔ ایک دفعہ دوران سفر بس میں پیک دان انڈیلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آپ پیک دان باہر انڈیلنا چاہ ہی رہے تھے کہ ساتھ والی نشست پر بیٹھے خادم نے عرض کی، کہ حضور اس خادم کو خدمت کا موقع عنایت کیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ اے بندہ خدا میں کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا ہوں، میں پیک دان باہر انڈیل دیتا ہوں۔ تو تکلیف کیوں کرتا ہے ؟ مگر وہ مجسمہ اخلاص تھا کہ مصر رہا۔ چنانچہ آپ نے پیک دان اس کے حوالے کر دیا۔ اب سر تا پا جذبہ خدمت سے سرشار خادم نے ہاتھ شاہ صاحب کے اوپر سےلپکا کر کھڑکی سے باہر جس طرف کو بس جارہی تھی اسی طرف کو جو پیک دان اچھالا تو پیک دان میں موجود سارا گند ہوا کے دباؤ کے ساتھ واپس سیدھا شاہ صاحب کے اوپر آرہا۔ یہاں شاہ صاحب نے اس خادم کو مخاطب کرتے ہوے ایک جملہ کہا، کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے عقل کی جگہ بھی اخلاص ہی بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام بھی ایسے ہی ‘مخلصین’ میں گھرا ہوا ہے۔

    وہ مخلصین چاہیں تو لوگوں کی عقیدتوں کے تار کچھ یوں ہلائیں کہ نو عمر بچے اپنے ہاتھ کاٹ کےتھال میں سجاکر، ان کے روبرو پیش کردیں۔ چاہیں توممولوں کو شہبازوں سے ٹکرا دیں۔ لوگوں کی محبتوں کے محور و مراکز کا ذکر یوں چھیڑیں کہ لوگ اپنے مسلکی مخالفین کو واجب القتل جانیں۔ امت جس اختلاف کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور سے برداشت کرتی چلی آ رہی ہے، یہ مخلصین چاہیں تو اسی اختلاف کی بنیاد پر کشتوں کے پشتے لگوا دیں۔ ملک کو آگ و خون میں نہلا دیں۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ مقتولین شہید اور ان کے قاتل ‘غازی ‘ ٹھرلیں۔

    اس فکری جنگ کا سب سے بڑا میدان چونکہ سوشل میڈیا کا میدان ہے، اس لیے طرفین سے قلمی ”شاہ پاروں“کے ایسے ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، کہ اخلاقی قدریں جن پر ماتم کناں نظر آتی ہیں۔ لبرلز سے تو اس کا شکوہ بھی کیا کیجیے گا، کہ مکالمہ کی بات کریں گے، دعوےدار تو ہمیشہ دلیل کی زبان میں بات کرنے کے ہوں گے۔ مگر کوسوں دور کہیں کسی کی منڈیر پر اگر کوئی کوا بھی مر جائے تو اس کے کوسنے مذہب پسندوں کو دیں گے۔ ان کی بات کی تان ملا، ملائیت پر ٹوٹے گی۔ گویا مذہب پسندوں سے نفرت ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہو جیسے۔ ان کی درست دلیل کو بھی تسلیم کرکے نہیں دیں گے۔ اس سب کے باوجود د وسعت ظرفی کےدعوے داربھی۔

    دکھ تو ان مذہبی نوجوانوں پر ہے جنہیں دعویٰ رہبری ہے۔ مگر سنجیدگی ہے کہ انہیں جیسے زیبا ہی نہیں۔ کاش انہیں کوئی سمجھا پاتا کہ اسلام کا مقدمہ اتنا کمزور ہے اور نہ ہی اسلام پسندوں کا۔ جو آپ کی ایسی قلمی جولانیوں کا محتاج ہو، جو اسلام ہی کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ تسلیم کہ آپ نے مناظرانہ طبیعت پائی ہے۔ مگر یاد رکھیے کہ چوکوں اور چوراہوں پر مناظرے بیتے دور کا قصہ ہوئے۔ نئے دور میں پنپنے کی یہ باتیں نہیں۔ مکالمہ ہی نہیں خواہ مباحثہ بھی کیجیے، بادل نخواستہ ہی سہی مگر چل سکتا ہے۔ لیکن مخاطب کا نام لے کر اس کی عزت نفس سے کھلواڑ، تحقیر و تذلیل پر مبنی طرز نگارش اور سوقیانہ اندازتخاطب آپ کے مقدمے کی قبولیت میں رکاوٹ تو ہو سکتا ہے معاون و مدد ہرگز نہیں۔

  • ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا ایک دلچسپ انٹرویو

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا ایک دلچسپ انٹرویو

    فیس بک نے ہمارے ہاں کئی بہت عمدہ لکھاری متعارف کرائے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی ریڈر شپ اور فین شپ آج ہزاروں میں ہوچکی ہے۔ لوگ ان کی تحریریں پڑھتے اور رائے بناتے ہیں۔ ان لکھاریوں میں سے چند ایک وہ ہیں جنہوں نے مین سٹریم میڈیا سے لکھنے کا آغاز کیا اور خود کو منوایا، تاہم بعد میں یہ فیس بک کی طرف متوجہ ہوئے اور یہاں نئی ریڈرشپ کو متاثر کیا۔ ان میں کالم نگار، اینکر آصف محمود ، رعایت اللہ فاروقی اور بعض دوسرے احباب شامل ہیں۔ کچھ لکھاری ایسے ہیں جن کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر ان کے اندر لکھنے کی خداداد صلاحیت اور شوق انہیں فیس بک بلاگنگ کی طرف لےآیا اور انہوں نے اپنا حلقہ مداحین پیدا کرلیا۔ جیو ٹی وی سے وابستہ مبشر زیدی، سو الفاظ پر مشتمل کہانی کا ٹرینڈ انہوں نے ہی شروع کیا، اے آر وائی سے وابستہ فیض اللہ خان، ایکسپریس کے عمیر محمود اور کچھ دوسرے لوگ ان میں شامل ہیں۔ لکھاریوں کا ایک حلقہ ایسا ہے جس نے فیس بک ہی سے لکھنے کا آغاز کیا اور کمال سرعت سے انہوں نے خود کو منوالیا۔ قاری حنیف ڈار، حنیف سمانا، حافظ صفوان، ثاقب ملک، انعام رانا، ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، عدنان خان کاکڑ، وسی بابا، غلام اصغر ساجد وغیرہ ان میں سرفہرست ہیں۔ لکھاریوں کا ایک حلقہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل افراد سے ابھرا۔ انہوں نے بھی اپنی مفید پوسٹوں کے ذریعے اپنی خاص جگہ بنائی۔ شاد مردانوی، سمیع اللہ سعدی، حمزہ صیاد، بخت برشوری اور بہت سے دوسرے لوگ ان میں شامل ہیں۔ مفتی محمد زاہد، مولانا عمار خان ناصر، عاصم بخشی، سید متین شاہ، زاہد مغل، محمد دین جوہر، ادریس آزاد، عزیز ابن الحسن جیسے اہل علم بھی یہاں موجود ہیں، جن کی علمی تحریروں سے بہت سوں کو استفادے کا موقع ملا۔ فیس بک کی دنیا نے فاصلے مٹادیے اور پڑھنے والے ان مختلف حلقوں کے اہل قلم سے ایک خاص قسم کا اپنائیت اور محبت کا تعلق محسوس کرتے ہیں۔ کوئی ملاقات ہوئے بغیر بھی ایک ان دیکھا رشتہ قائم ہوچکا۔اس تعلق خاطر اور اپنائیت کی وجہ سے ہی پڑھنے والے ان لکھاری حضرات کی شخصیت اور فکری سٹرکچر کے بارے میں کچھ مزید جاننا چاہتے ہیں۔ ’’دلیل‘‘ کے پلیٹ فارم سے فیس بک کی ان معروف ادبی، علمی شخصیات کے انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ احباب کو انٹرویو دینے کی فراخدلی پرآمادہ کرلیں۔ طریقہ کار یہ ہوگا کہ جس شخصیت کا انٹرویو کرنا مقصود ہوگا، اس کے نام کا ایک ہفتہ پہلے اعلان کیا جائے گا، جو کوئی ان سے سوالات کرنا چاہے، وہ ہمیں سوالات بذریعہ ای میل بھیج یا عامر خاکوانی کو فیس بک پر ان باکس کرسکتا ہے۔ یہ سوالات انٹرویو دینے والی شخصیت کو بھیج دئیے جائیں گے۔ اپنی سہولت کے مطابق وہ جواب دے دیں گے۔ پھر اسے ترتیب دے کر دلیل پر شائع کردیا جائے گا۔
    اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا انٹرویو شائع کیا جارہا ہے۔ یہ انٹرویو تونسہ سے تعلق رکھنے والے معروف بلاگر صادق عباس صاحب نے ڈاکٹر عاصم سے بنفس نفیس کیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم نے ازراہ تلطف اس انٹرویو کو دلیل کے اس نئے سلسلے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں۔ لیجئے انٹرویو سے لطف اندوز ہوں۔ سوال کے نیچے بھیجنے والے کا نام ہے، کہیں کہیں یہ نام رہ بھی گیا ہے، مگر اس سے انٹرویو کی دلچسپی، روانی اور افادیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ (ادارہ دلیل )


    سوال: اردو کی ترویج و اشاعت میں فیس بک کو ایک ذریعہ مانتے ہیں؟
    جواب: اردو کو نقصان پہنچنے والی چیزوں کو وارننگ کے طور پر یاد رکھنا چاہیے، مثلاً انگریزی زبان بولنے اور لکھنے کی حوصلہ افزائی کا کلچر، اردو کے حوالہ سے سرکاری سطح پر ڈھلمل پالیسی اور بچوں اور نوجوانوں کے لیے انگریزی کتابوں اور جرائد کی آسانی سے دستیابی جب کہ اردو جرائد کے قارئین کی تعداد میں جمود۔
    اردو کو کوئی براہ راست خطرہ، فی الحال تو نہیں ہے لیکن بالواسطہ بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اس کو۔ خطرہ نہیں ہے اور جی ہاں میرا ماننا ہے کہ فیس بک نے اردو کو بہت سپورٹ کیا ہے کیونکہ آہستہ آہستہ فیس بک پر مکالمے کی زبان اردو ہی بن چکی ہے۔

    سوال : پاکستان میں سوشل میڈیا کا مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہاں عرب بہار کی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی انقلاب آنے کے چانسز ہیں؟
    2:پاکستانی معاشرے میں لبرل اور مذہبیت سوچ کی تفریق کو مجموعی طور پر کیسے دیکھتے ہیں؟
    3:ممتاز قادری شہید کی پھانسی کے بعد مذہبی طبقے میں اتحاد کی جو لہر پیدا ہوئی، اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
    (تفہیم احمد تونسہ شریف)
    جواب: پاکستان اور عرب دنیا میں بنیادی فرق ہے۔ پاکستان میں کچا پکا جمہوری تجربہ ہے، مکالمہ اور مذاکرات کے الفاظ یہاں اجنبی نہیں اور نہ ہی سمجھوتہ، اتفاق رائے اور معاہدہ کوئی اچنبھا نہیں۔ چناچہ یہاں فرسٹریشن لیول وہ نہیں جہاں قومیت کی بنیاد پر عرصہ دراز تک ڈکٹیٹرشپ رہی ہے۔ پھر پاکستان کا میڈیا تھوڑا بہت آزاد رہا ہے اس لیے وہاں والی صورتحال یہاں نہیں ہوسکتی، ہاں البتہ پاکستانی سوشل میڈیا میں چونکہ اصلاحی پوٹینشل ہے تو یہ انقلاب کی بجائے اصلاح کی طرف لائے گا…. پاکستان میں جب بھی گڑ بڑ ہوئی تو معاشی مسئلہ کی وجہ سے ہوگی، سیاسی وجہ سے نہیں۔ اس کا مطمح نظر سیاسی تبدیلی کے لیے نہیں ہوگا،یہاں تو محرک معاشی تبدیلی ہوگی عرب بہار کا جوہر سیاسی تھا …
    نمبر 2: اگر یہ کشمکش کسی جگہ ختم ہو جائے گی تو وہ یہ دنیا نہیں ہوگی اس دنیا میں یہ کشمکش ہمیشہ رہے گی…. اس میں بس یہ غلطی رہ جاتی ہے کہ نظریاتی بحث غالب آجاتی ہے، اصل کشمکش عمل کے میدان میں ہے۔
    نمبر3: اتحاد کہاں پیدا ہوا ؟ ممتاز قادری کے کاز کو کوئی مسلمان غلط نہیں کہتا، بس یہاں اپنا مفاد حاوی ہے…… اگر یہاں کوئی اتحاد ہوسکتا ہے تو وہ خدا اور رسول کے نام پر ہوسکتا ہے… یہ تو ایک جذبہ ترحم تھا اور جذبہ ترحم وقتی ہوا کرتا ہے، جیسے سیلاب آئے تو قوم اکٹھی ہوتی ہے اور پھر سب ختم….
    اس لیے ہمیشہ اصولوں پر فیصلہ ہوتا ہے۔

    سوال: بعض اوقات زندگی میں کچھ ایسے تلخ واقعات و حادثات رونما ہوجاتے ہیں کہ وقت کا مرہم بھی ان تلخیوں کو بھلانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو یاد رہ گیا ہو تو… پلیز شیئر کریں۔
    (نوید احمد)

    جواب: میرا نہیں خیال کہ میرے پاس کوئی ایسی بات یا حادثہ ہے، جس پر شکوہ کروں یا بات کروں۔ بس والد صاحب کا انتقال بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس کے علاوہ کوئی واقعہ جو سوہان روح بن جائے ایسا کچھ نہیں ہوا، الحمدللہ۔
    سوال: ”راولپنڈی“ اور ”اسلام آباد“ میں ہمیشہ سے فاصلہ بنا رہا اور نتیجتاً ہم بحیثیت ریاست کسی سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کے ”شریف برانڈ“ کا مستقبل آپ کیا دیکھتے ہیں؟
    آزاد کشمیر میں قائداعظم کی کشمیر پالیسی کے خلاف غیر ریاستی جماعتوں کا قیام مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جماعتوں کے قیام کو جواز مہیا کررہا ہے۔ کیا پاکستانی سیاستدان قضیہ کشمیر سے ہی نا بلد ہیں یا کشمیر کی قیمت پر آلو پیاز کی تجارت ان کی اولین ترجیح ہے؟
    (زبیر عباسی ،باغ آزاد کشمیر)

    جواب: آل انڈیا مسلم لیگ کی کم و بیش تمام مرکزی قیادت ان صوبوں سے تھی جو پاکستان میں شامل نہ ہوسکے۔ وہ یہاں خود کو اجنبی محسوس کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ ان کے عدم تحفظ نے انتظامی معاملات کے حوالہ سے بیوروکریسی اور فوج پر ان کا انحصار بڑھانا شروع کردیا، یہاں تک کہ سیاسی معاملات کو بھی انتظامی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انتہا یہ ہوئی کہ ایک بیوروکریٹ گورنر جنرل بن گئے اور فوج کے کمانڈر ان چیف کابینہ کا حصہ بن گئے۔ جب ان سب نے دیکھا کہ اصل میں تو حکومت ہم چلارہے ہیں تو پھر وہ آگے بڑھ کر حکومت پر براہِ راست قابض ہوگئے۔ سیاستدانوں سے غلطی یہ ہوئی کہ آج تک وہ اپنے اندر ایسا اخلاقی وصف نہ پیدا کرسکے جو آئینی دفعات سے آگے بڑھ کر ان کے حق حکمرانی کا ضامن بن سکے۔
    بس یہی راولپنڈی اور اسلام آباد کی چپقلش ہے۔ دونوں اپنے تئیں ٹھیک کرلیں تو یہ چپقلش بہت جلد قصہ پارینہ ہو جائے۔

    سوال: آپ نے کبھی کسی سے عشق کیا؟
    مبین امجد
    جواب: کئی بار۔۔۔۔ اور ہر دفعہ پکا، سچا اور آخری عشق ہی ہؤا! ?عشق ختم ہونے کے دو تیر بہدف نسخے ہیں :
    اول، ”ان“ سے شادی نہ ہوپائے۔
    دوم، ان سے شادی نہ ہوجائے۔
    ویسے میری شادی ارینج میرج ہے۔

    سوال: چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ چپکائے رکھنے کا راز کیا ہے؟
    جواب: جب اچھے دوستوں کا تذکرہ ہو اور اچھے دوستوں سے ملاقات رہتی ہو تو مسکراہٹ خود بخود آہی جاتی ہے۔

    سوال: فیس بک کے چند اچھے دوستوں کا نام بتانا پسند کریں گے؟
    جواب: بہت سے دوست ملے، نام نہیں عرض کر سکوں گا کہ انسان ہوں کوئی نام بھول گیا تو دل آزاری ہوگی۔
    لطف کی بات یہ ہے کہ فیس بک مجھے کبھی کوئی خاص چیز نہیں لگتی تھی، اگر خاکوانی صاحب نہ کہتے تو اس جانب نہ آتا…. ایک موقع پر جب اٹھاسی فرینڈ ہوئے تو لگا جیسے دنیا فتح ہوگئی ہے۔ ?

    سوال:  اخبار کونسا پسند ہے؟
    جواب: ڈان، دنیا، واشنگٹن پوسٹ۔
    (یہ الگ بات ہے انٹرویو لیتے وقت جنگ سامنے تھا)

    کوئی ایک پسندیدہ کالم نگار بتائیں جسے پڑھنا چاہیے؟
    یوری ایونیری (اسرائیل) (Uri Avnery)
    یہ شخص عدل اور اعتدال کے مینار پر کھڑا ہے۔ یہ پہلے اسراٰئیل کی پارلیمنٹ کا ممبر تھا۔ اس نے فلسطینیوں کے حقوق پر اتنا لکھا ہے کہ مسلمانوں نے بھی اتنا نہ لکھا ہوگا…. اس کو ضرور دیکھیں اور پڑھیں۔

    سوال: نظام تعلیم کی بہتری میں عوام کا کیا کردار ممکن ہے؟
    (ریاض علی خٹک)

    جواب: آپ لوگوں کو، بچوں کو سوچنا سکھائیں، انفارمیشن دیں اور ان پر عمل کرنا سکھائیں… خالی تعلیم کوئی چیز نہیں تربیت بھی ساتھ ضروری ہے۔ ہرمسئلہ میں کہا جاتا ہے تعلیم کی بڑی ضرورت ہے حالانکہ دیکھا جائے تو ملک میں فساد کرنے والے کون ہیں؟ یہی تعلیم والے ہیں۔ جاہل بیچارہ تو ایندھن بنتا ہے۔

    سوال : موجودہ ملکی قوانین پہ عمل درآمد اور مجموعی معاشرتی رویوں کی بنا پر آپ پاکستان کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟ ایک سیکولر ملک یا کٹر اسلامک؟
    (عبد الحسیب حیدر)

    جواب: یہ سوال بحث برائے بحث ہے ,, ہم کہاں کھڑے ہیں ,, یہ ہے اصل سوال… آپ خود کی طرف دیکھیں؛ آپ قانون پسند ہیں یا نہیں؟ آپ قانون پر عمل پیرا ہیں یانہیں؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔ پاکستانی معاشرہ قانون شکنی پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ملک اسلامی ہو یا سیکولر تب بھی یہی کچھ ہونا ہے….
    یاد رکھیں! معاشرے قانون پر نہیں، اقدار پر چلتے ہیں اور ہمارے ہاں اقدار مفقود ہیں۔ قانون ہے تو اس پر عمل نہیں کیونکہ ترجیح موجود نہیں….. حضرت عمر بن عبدالعزیز مثالی حکمران تھے، مگر تین سال میں زہر دے کر فارغ کردئیے گئے، کیونکہ معاشرہ…..

    سوال: اچھا لکھاری بننے کے تین رہنما اصول؟
    اور آپ کو کس صوبہ کے لکھاری زیادہ پسند ہیں؟
    موجودہ دور میں نوجوانوں کو کس موضوع پر زیادہ لکھنا چاہیے؟
    (محمد شفقت)
    جواب: پہلے سوال میں تین باتیں ہیں؛ نمبر ایک مطالعہ اچھا ہو، مطالعہ سے انفارمیشن اور بتانے کا طریقہ پتا چلتا ہے۔ نمبر دو، پر خود لکھنا اور جس رائیٹر کو پسند کرتے ہیں، اس سے کمپیئر کرنا اور نمبر تین زیادہ لکھنا، اس سے لکھنے کا بہاؤ تیز ہوجائے گا….
    اور میں صوبے نہیں دیکھتا، میرے لیے ترجیح یہ ملک ہے اس لیے میں اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔
    جہاں تک تیسرا سوال ہے تو کہوں گا اپنی ترجیحات پر کیونکہ وہ سب سے زیادہ صحت مند مکالمہ کی صورت ہے۔

    سوال: آپ اپنی تجزیاتی نگاہ سے دینی مدارس کے فضلا کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گے کہ وہ معاشرے میں بہتر اور مثبت انداز میں اپنا اثر نفوذ پیدا کرسکیں؟
    عملی میدانوں میں قدم رکھنے سے پہلے تعلیمی مراحل سے گزرتے نوجوان کے لیے سوشل میڈیا پر موجود رہنا ضروری ہے یا اس سے گریز؟
    کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں دینی تحریکات سوائے چند کے، عموماً کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟
    ایک زمانے میں سوشل ازم کا طوفان تھا، آج کل دینی حلقے کن خطرات سے دوچار ہیں؟
    (راشد حسین قاسم، خانیوالی ثم کراچوی)

    جواب:
    نمبر 1: میری ایک رائے ہے اگر دینی مدارس اس پر عمل کریں تو سب کی دوڑیں لگ جائیں۔ دینی مدارس میں چیزوں کا تجزیہ اور تحقیق کا ایک خاص ذوق پیدا کیا جاتا ہے، جیسے اسماءالرجال کا فن وغیرہ۔ اگریہ علوم حاضرہ میں بھی سنجیدگی اختیار کرلیں تو ان کو کون پیچھے رکھ سکتا ہے؟ ان لوگوں میں تحقیق کا خاص ذوق ہوتا ہے۔ اگر مروجہ علوم میں بھی تحقیق کی مہمیز لگادی جائے تو بہت آگے جائیں گے۔
    نمبر 2: اس میں دو باتیں ہیں؛ پہلی تو یہ کہ سوشل میڈیا سے آپ کو نئے خیالات ملتے ہیں، جاری رجحانات سے آگاہی ملتی ہے۔دوسرا یہ کہ اس وقت آپ کو ڈسپلن کا خاص خیال رکھنا چاہیے، جیسے خواتین کے انبکس میں آنا جانا…. اگر یہ صورت نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔
    نمبر3: اس وجہ سے کہ بیشتردینی تحریکات نہیں ہوتیں مسالکی تحاریک ہوتی ہیں…. دینی تحریک میں ہمہ گیریت ہوتی ہے جیسے ختم نبوت تحریک۔ اس تحریک نے اپنا مقصد حاصل بھی کیا۔
    نمبر4: اس وقت سوشلزم کا کوئی طوفان نہیں، اس وقت کوئی طوفان ہے تو وہ سیکولرزم کا اور بےلگام سرمایہ داریت کا۔

    سوال1: آج کل کا نوجوان جب مطالعہ شروع کرتا ہے تو آوارہ خوانی میں پڑجاتا ہے۔ ایسی کون سی بنیادی کتابیں ہیں جو نوجوانوں کے کردار اور ان کے وجود کو معاشرے کے لیے کارآمد بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں؟ جیسے آپ نے مجھے رچرڈ نکسن کی کتاب ”لیڈرز“ پڑھنے کا مشورہ دیا تھا۔
    2:آپ جیسا دانشور بننے کے لیے کیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے؟
    (ماجد عارفی ساہیوال)

    جواب: دانش کا سورس ایک ہی ہے اور وہ ہے خدا کی کتاب، الٹی میٹ سورس- اس لیے مجھے چھوڑیں، اس طرف دیکھیں۔ مجھے دیکھا تو پاپڑ ہی بیلنے پڑیں گے ?
    باقی زندگی خود زبردست استاد ہے۔ ہر آدمی میری نظر میں دانشور ہے اور اس صلاحیت کے ساتھ وہ پیدا کیا گیا ہے۔
    نمبر2: دیکھیں! انگریز نے آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔ اس کے پیچھے ایک فن کارفرما تھا وہ تھا اس کا ذوق ( انسانی تاریخ اور مختلف اقوام کے عادات و اطوار)۔ اس نے اپنے اس ذوق کی بدولت انسان کو سٹڈی کرکے ان کو مغلوب کیا، مار پیٹ سے نہیں …..آپ کامن ویلتھ گیم کو دیکھ لیں سبھی ممالک اس کی غلامی کررہے ہیں اور اس پر خوشی بھی محسوس کر رہے ہیں، تو معلوم یہ ہوا کہ وہ انسان کو رجھا لیتے ہیں اس لیے سوانح حیات جو ملے وہ ضرور پڑھیں۔

    سوال: جس طرح سے یوتھ ایکٹو ہو رہی ہے، کیا لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں سوسائٹی میں کون سی پازیٹو چینج متوقع ہیں؟
    (عبدالغفار چینہ)

    جواب: یوتھ جذبہ اور حمیت کا مطلب غصہ اور بد تہذیبی نہ سمجھ لیں تو انہیں آگے برھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ورنہ ہر 15 سال بعد ایک ایسا جوش و جذبہ کا دور آجاتا ہے جس میں لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے۔ ایک نظر ان ادوار پر بھی کہ پھر کیوں کچھ نہ ہوا؟

    سوال: کامیاب انسان بننے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟

    جواب: کامیابی کے لیے دو باتیں ضروری ہیں؛ اللہ تعالیٰ کی مدد اور محنت۔ محنت کا کھاتہ کم یا زیادہ ہوسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔

    سوال: آخر میں قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟؟؟؟

    جواب: دین میں صرف مسلمان بن کر رہیں اور ملک میں صرف پاکستانی۔۔۔ بہت سی مشکلوں سے خود بھی بچ جائیں اور یہ دونوں بھی۔۔

    اپنے بارے میں مختصر سے تعارف جس میں نام تعلیم اور موجودہ پیشہ ہم قارئین جاننا چاہیں گے؟

    میری پیدائش 30 جون 1968ء کو لاہور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں ڈویژنل پبلک سکول سے حاصل کی۔ ایف ایس سی کیڈٹ کالج حسن ابدال سے پاس کی اور ایم بی بی ایس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے مکمل کیا۔ میڈیکل شعبہ کو کبھی ذریعہ روزگار نہیں بنایا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد سے منسلک ہوں۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے بھی کیا۔

    سوال: آپ کے والد صاحب کیا کرتے تھے اور آپ کی زندگی پر ان کا کتنا اثر ہے؟

    جواب: میرے والد کا تعلق یزمان ضلع بہاولپور سے آگے ایک گاؤں سے تھا۔ وہ اپنی فیملی میں واحد پڑھے لکھے فرد تھے۔ انہوں نے لاہور انجینئرنگ یونیورسٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی اور پھر اسکالر شپ پر ایڈنبرا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ کیرئیر کا بیشتر حصہ انہوں نے PCSIR Laboratories میں گزارا ۔ ایسے محنتی انسان کا میری زندگی پر اثر ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ وہ میرے والد ہی نہیں، دوست اور رہنما بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ آمین۔

    سوال: آپ کی شادی لو میرج ہے یا ارینج میرج اور بچے کتنے ہیں؟
    جواب: ارینج میرج۔ 19 سال ہوگئے۔ ایک بیٹی سے نوازا اللہ تعالیٰ نے۔ ماشاء اللہ 3 سال کی ہے وہ ۔

    سوال: بچپن شرارتی تھا یا معصوم؟
    جواب: میرا خیال ہے میں معصوم تھا جبکہ باقیوں کا خیال اس کے قطعی برعکس ہے ?
    مار دھاڑ کبھی نہیں کی اور نہ ہی میرے ساتھ ہوئی ۔۔۔ بس شغل میلے والا کام تھا۔

    سوال: کھانے میں کیا پسند ہے؟ اور کس پھل پر زیادہ ہاتھ صاف کرتے ہیں؟
    جواب: اچھا جو بھی بنا ہو، سب پسند ہے۔ ویسے مسورکی دال اور چاول پسند ہیں اور پھلوں میں آم اچھا لگتا ہے۔ اگر اچھا ہو تو اس کے علاوہ شیریں چیز جو بھی ہو، صبر کے علاوہ !

    سوال: کس مسلک کو فالو کرتے ہیں؟
    جواب: میں مسلمان ہونے میں فخر محسوس کرتا ہوں۔ میرے لیے سورس قرآن وسنت ہے اور اس کے بعد اچھی گفتگو۔ مدلل گفتگو، جس کی بنیاد مندرجہ بالا 2 پر ہو… میرے لیے بس یہی کافی ہے۔

    سوال: آپ پر قادیانی اور اہل تشیع ہونے کا الزام لگتا ہے، اس میں کس حد تک صداقت ہے؟
    جواب: قادیانی والی بات کہنا تو صریحاً ظلم اور زیادتی ہے اور جہاں تک بات اہل تشیع میں سے ہونے کی ہے تو میرے والدین اور خاندان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں۔ سب سنی ہیں، میں بھی سنی مسلمان ہوں۔
    قرآن نے فرقہ واریت کو کفر قرار دیا ہے میں اس لیے ہرمسلک والے کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آتا ہوں اور شاید اسی وجہ سے شاید دوست کچھ مختلف گمان کرتے رہتے ہیں… دیکھیں، ہم مسلک کی وفاداری کو خدا کی وفاداری پر برتری نہیں دے سکتے، یہ نکتہ سمجھ لیں تو ان مسائل سے باہر آ جائیں گے۔

    سوال : موسیقی کیسی پسند ہے؟
    موسیقی روح کی غذا ہے یا نہیں؟ آپ اس بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟

    جواب: وہ موسیقی جس کا ردھم اچھا ہو، شاعری اچھی ہو، اور جہاں تک موسیقی روح کی غذا ہے یا نہیں اس بارے عرض ہے کہ یہ روح کی غذا ان معنوں میں نہیں جس روح کا ہمیں دین پتا دیتا ہے۔ اس سے مراد دراصل انسان کو دیگر حیوانات سے ممیز کرنے والی صفت ہے یعنی حس لطیف۔
    اچھی موسیقی اچھے ذوق کا پتا دیتی ہے اور اچھا ذوق اچھے شعور کا۔

    سوال : پسندیدہ ناول ؟؟
    جواب: فکشن مجھے خاص پسند نہیں البتہ ایک زمانے میں مشہور پاپولر فکشن رائٹر سڈنی شیلڈن کاناول if tomorrow comes پڑھا،جواس وقت اچھا لگا تھا، میں نان فکشن پڑھتا ہوں۔

    سوال: آپ مشکل اردو لکھنے کے قائل نہیں ہیں؟
    جواب: میں کوشش بھی کروں تو مشکل زبان نہیں لکھ سکتا کیونکہ میری تربیت ایک لکھاری کے طور نہیں ہوئی۔ میں تو حادثاتی رائٹر ہوں جو سماج میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ میری بنیاد دین اور ملک سے لگاؤ ہے۔

    سوال: فیس بک پر کبھی کسی کو بلاک کیا؟
    جواب: جی بالکل کیا۔ ایک صاحب تھے، وہ خاص سرکاری ایجنڈے پر تھے انہیں بلاک کیا۔ اسی طرح سے نائیجیریا والی ’’نیک بیبیاں‘‘ اور دس کروڑ کے انعام والوں کو۔

  • اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے،  جم اور  – ظفر عمران

    اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے، جم اور – ظفر عمران

    ظفر عمران سوال ہی مقصود ہے، تو ایک سوال یہ بھی ہے، کہ کسی کو کیا حق حاصل ہے، کہ وہ ‘ریاست’ بنائے۔ خدا کی زمین ہے، جس کا جی چاہے، جہاں مرضی آئے، جائے۔ لیکن کیا ہے کہ خدا کے بندے، خدا کی بھی نہیں سنتے۔ ادھر طورخم پہ گیٹ بنانے کا جھگڑا اٹھا، تو ایک پاکستانی پختون نے کہا، ہم مذہب تو بدل سکتے ہیں، قومیت نہیں۔ ہم افغان ہیں، لہٰذا تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ جب کہ سینتالیس کے بٹوارے میں پنجابی، کشمیری، اور بنگالی کٹ کر، ادھر ادھر ہوا۔ ریاست کی حد بندی کی گئی، لیکن یہ دوسری کہانی ہے۔

    وہاں یورپ میں، جب عدالتیں فیصلہ سناتی ہیں، کہ کس کو حجاب کرنا ہے، کس کو حجاب اتارنا ہے، تو یہاں حجاب کے حامی، یورپ کے گن گانے والوں کے لتے لیتے ہیں؛ یورپ کے شیدائی (ایک میں بھی ہوں) وہاں کی عدالتوں کی وکالت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسا دیس، ویسا بھیس۔ روم میں رہنا ہے، تو وہی کرو جو رومی کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جرمنی کے وزیر انصاف ہیکو ماس نے اعلان کیا کہ حکومت ایک سے زیادہ شادیاں، اور نابالغ بچوں کی شادیاں تسلیم نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے ایک سے زائد شادی کا قانون مسلمانوں ہی پہ لاگو ہوگا۔ جرمنی مذہبی ریاست نہیں، لیکن کسی کے مذہب کی اجازت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ صاف لفظوں میں شہری کے مذہبی معاملے میں مداخلت کر رہی ہے۔ گویا ہر غیر مذہبی ریاست بھی سیکولر نہیں ہوتی۔

    دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ریاست، قادیانی کو کافر قرار دیتی ہے، تو روم میں رہنا ہے، تو رومی بن جائو، کہنے والے پکارتے ہیں، ریاست کو حق حاصل نہیں، کہ وہ کسی کے مذہب کا فیصلہ یا مذہبی معاملے میں مداخلت کرے۔

    یوٹوپیائی اسلامی ریاست ہی کی طرح، سیکولر ریاست بھی خیالی ریاست ہے۔ کسی بھی ریاست کے شہریوں کا ایک، یا کئی ایک نظریے ہوتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے، جو مختلف نظریات کے حامل شہریوں کے درمیان نزاعی کیفیت نہ پیدا ہونے دے۔ ایسے اقدامات کرے، جو شہریوں کی فلاح کا باعث ہو؛ حکومتیں ایسا کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہیں، یہی فرق ہے، زوال پذیر، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے بیچ میں۔ ریاست کہتی ہے، میرا مذہب ہے۔۔۔ ریاست کہتی ہے، میرا کوئی مذہب نہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں کیا فرق پڑتا ہے، جب ریاست شہری ہی سے لاتعلق ہوجائے؟ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہندستان سیکولر ازم کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے؛ وہاں جو کچھ ہوتا ہے، کیا وہی سیکولر ازم ہے؟ میں نہیں سمجھتا ایسا ہے۔ اسلامی ریاست کہلوانے والا پاکستان کتنا اسلامی ہے، یہ آپ ہی بتایئے۔

    ایسی ریاستیں جو افکار پہ پہرے لگا دیتی ہیں، یا سکڑ جاتی ہیں، یا دم توڑ دیتی ہیں۔ انسان جب بے بسی محسوس کرتا ہے، تو وہ اپنی بے بسی کے اسباب تلاش کرتا ہے؛ یوں بھوک، افلاس، چادر اور چار دیواری سے محرومی، ذلت، جبر کے شکار شہری کو، پنڈت ہو، یا نیتا؛ ہر کوئی اپنی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ نعرے سونپ دیتا ہے۔ جسے جو نعرہ پسند آے، وہ اسی کی گردان کیے چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ نعرے دشنام سے بدل لیے جاتے ہیں۔ حق یہ ہے، کہ شہری کو انصاف ملے، تحفظ کا احساس ہو، بھوک ننگ کا سامنا نہ کرنا پڑے، سوال کی آزادی دے، تو اس کے لیے وہی آئڈئیل ریاست ہے۔ ریاست کافر ہو، یا مسلمان؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

  • دور جدید میں میڈیا پر چلنے والے اشتہارات پر کچھ رائے زنی : حنظلہ عماد

    دور جدید میں میڈیا پر چلنے والے اشتہارات پر کچھ رائے زنی : حنظلہ عماد

    انسان سماجی حیوان ہے۔اس کو زندگی گزارنے کے لیے اردگرد کے انسانوں پرانحصارکرنا پڑتاہے۔ تنہا زندگی گزارنا اس کے لیے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ کئی اعتبار سے ناممکن بھی ہے۔ قدیم دور میں جب انسان جنگلوں اورغاروں میں رہا ،اس وقت بھی اسے اپنے گرد کچھ انسانوں کی ضرورت رہی۔یہ سب ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور یوں زندگی کا پہیہ چلتاتھا۔ پھرانسان نے متمدن ہونا شروع کیا توپیشے بنتے چلے گئے اور مختلف انسان مختلف پیشوں کو اختیار کرتے چلے گئے۔ کسی نے کپڑے بنے اور کسی نے خوراک اگائی ،کسی نے دفاع کے لیے ہتھیار بنائے اورکسی نے رہائش کے لیے گھر تعمیر کرنے شروع کیے۔ پہیے کی ایجاد سے قبل ہی جب زندگی کا پہیہ یوں رواں دواں ہوناشروع ہوا توانسانوں کا انحصار ایک دوسرے پر بڑھ گیا۔

    ایک انسان اپنے لیے سب کچھ تنہانہ کرسکتاتھا۔ صرف ایک یاد وکاموں کے لیے اسے کسی نہ کسی دوسرے انسان کی مددکی ضرورت پڑتی تھی۔ وہ خوراک اگر خود اگاتا تھاتوپہننے کے لیے کپڑے اسے کسی اورسے لینے پڑتے تھے اورگھربنانے کے لیے کسی اور سے مدد لینا پڑتی تھی۔ یوں بارٹرسسٹم کارواج بنااور لوگوں نے ادلے بدلے میں چیزیں دیناشروع کیں۔ جس کے پاس اناج تھا،اس نے اناج کے بدلے کپڑے لے لیے،جس کے پاس ہتھیار تھا،اس نے ہتھیارکے بدلے رہائش کاسامان لے لیا۔ یوں زندگی کاپہیہ کچھ اچھے انداز میں چلنے گا۔

    اس سارے دورمیں انسان کی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں اور یوں بہت سے نئے پیشے بھی وجود میں آتے چلے گئے۔

    بازار اورمارکیٹیں وجودمیں آناشروع ہوگئیں کہ جہاں سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء فراہم ہونے لگیں۔ آبادیاں بڑھیں تو ایک پیشے کو ایک سے زیادہ لوگوں نے اختیار کرناشروع کردیااوریوں مسابقت کی فضاقائم ہونے لگی۔ایک دوسرے سے مقابلہ ہونے لگا اور اشیائے ضرورت کے خریداروں کواپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نت نئے حربے اختیارہونے لگے۔ انسان آگے بڑھتا گیا۔ کاغذی کرنسی وجودمیں آئی اور بہت سے نئے انداز تجارت بھی سامنے آئے۔ تجارت کو بڑھاوا دینے کے حربے بھی ایجادہونے لگے اور اس کومارکیٹنگ کانام دیا گیا۔ایسے ایسے جملوں سے خریداروں کو متوجہ کیا گیاکہ جو خریدار کوکھینچ کروہاں لے آئیں۔ اپنی بنائی گئی اشیاء کے بارے میں ایسے ایسے دعوے کیے جانے لگے کہ عقل دنگ رہ گئی۔اسی دوڑ میں جب انسان مادیت پرستی میں الجھا تو اس کے سدا کے دشمن ابلیس نے بھی کاری وار کیا۔ اس نے لالچ،جھوٹ اوربہت خطرناک طریقہ کوفروغ دلوایا۔ مارکیٹنگ کے نام پرپہلے پہل صرف لالچ کومدنظررکھاگیا کہ انسان فطری طورپر حریص واقع ہواہے۔ اس کی اسی کمزوری کوپیش نظررکھتے ہوئے اسے استعمال کیاگیا۔اپنی صناعی کو بیچنے کے لیے اس کی بنیادی کمزوریوں کوہواد ی گئی۔

    بدصورت کو خوبصورت بنانے کے دعوے اورکمزور کو طاقتور بنانے کے طریقے،غریب کو امیر کرنے کا نسخہ اور امیر کو ہفت اقلیم دلوانے کے نسخہ ہائے کیمیا سامنے آنے لگے۔یوں بات صرف لالچ اورطمع تک محدود نہ رہی بلکہ اس میں جھوٹ بھی شامل ہوگیا اورجھوٹ بھی ایساجسے غلو کی انتہائی بلندترین صورت قرار دیاگیا۔ اس کی کچھ مثالیں آج کے دورمیں آپ کے سامنے ہیں۔ موجودہ دور میں بہت سی کمپنیوں کے اشہارات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں ۔ ان کے دعوؤں کواگرپرکھا جائے تووہ اس قدر بلند و بانگ ہیں کہ حقیقت سے کہیں دورجانکلتے ہیں۔غلو کا اس قدر عالم محض خریدارکواپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے۔ مثال کے طورپر آج انسان کو خوبصورت بنانے کے لیے رنگا رنگ صناع اپنی صناعی کوپیش کرتے ہیں اور دعوے کچھ یوں کہ اگرآپ کارنگ کالا ہے تووہ انتہائی سفید ہوجائے گا۔بال کمزورہیں تووہ اس قدر مضبوط ہوں گے کہ رسیاں ان کے سامنے کمزور پڑ جائیں گی۔ لباس بنانے والے یوں گویا ہوتے ہیں کہ اس قدرخوبصورت لباس آپ کودیں گے کہ سب کی توجہ آپ کی طرف ہو جائے گی۔

    انسان کی فطری کمزوری ہے کہ اسے چاہاجانااور لوگوں کااس کی طرف متوجہ ہونابہت پسندہے۔اس کی اسی کمزوری کویہ کمپنیاں اختیارکرتی ہیں اور پیٹ کاایندھن کمانے کے چکرمیں محرم وغیرمحرم کی تمیزبھی کہیںپیچھے رہ جاتی ہے۔ کھلے عام صنف مخالف کومتوجہ کرنے کے حربے بتائے جاتے ہیں۔ یوں اللہ اوراس کے رسول کی بنائی گئی وعیدوں کے مستحق ٹھہرانے کاپورا انتظام کیاجاتا ہے کہ جوغیرمحرم کواپنی طرف مائل کرنے والے ہیں یا کرنے والیاں ہیں۔یوں سرعام فحاشی وعریانی کو فروغ ملتا ہے اور ابلیس لعین اپنے اس مقصدمیں خوب کامیاب ہوتاہے۔اگران اشتہارات اورتمام ترغیب دلانے والی کمپنیوں کی بات سے ہٹ کر تھوڑاسوچاجائے توایک بات واضح سمجھ آتی ہے کہ یہ صرف انسان کی فطری کمزوری کے لالچ کواستعمال کرتے ہیں اوریوں اسے ترغیب دلاتے ہیں۔اسی ترغیب دلانے پریہ لوگ اس قدرآگے بڑھ گئے کہ ہرطرح کی تمیزبھول بیٹھے۔

    مذہبی واخلاقی حدود سے اس قدردورجانکلے کہ اب واپسی کاراستہ مسدود ہوچکاہے۔حالانکہ درحقیقت کسی انسان کو اگرکسی چیزکی ضرورت ہے تووہ خود اس کوتلاش بھی کرے گا اور خریدے گا کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہے لیکن ان اشتہارات نے نہ صرف اسراف کو بہت زیادہ فروغ دیاہے بلکہ بہت سی ناجائز خواہشات کو بھی جنم دیاہے۔ جب یہ ناجائز خواہشات جنم لیتی ہیں پھر ان کو پوراکرنے کے لیے بالعموم طریقے بھی ناجائز ہی اختیار کیے جاتے ہیں۔یوں معاشرے میں چوری،ڈکیتی، راہزنی کوفروغ ملتاہے اور معاشرہ بدامنی کا شکار ہوتاہے۔ایک فرد اگر گھرسے نکلتاہے ،اس کے سامنے کسی ایسی چیز کا اشتہارآتاہے جو اس کے دل کو موہ لیتاہے۔اس کا دل اسے حاصل کرنے کومچلتاہے ۔وہ پہلے اسے حاصل کرنے کی جائز طریقے سے کوشش کرتاہے۔ اگر کامیاب نہ ہو توشیطان اسے نت نئے ناجائز طریقے سکھلاتاہے۔ وہ لالچ میں اس قدر اندھاہوچکاہوتاہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھول جاتاہے اوریوں ہرممکن طریقے سے اس چیز کو حاصل کرنے یاباالفاظ دیگر ہتھیانے کی کوشش کرتاہے۔یہ بات حقیقت سے کسی طورپربھی دورنہیں ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ایسے اشتہارات بنتے ہیںجو انسان کوواقعتاً اس قدر مجبور کر دیتے ہیں اور اسے پیش کردہ چیز اپنی حقیقی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔
    فکرانگیزبات یہ ہے کہ معاملہ صرف ان اخلاقی برائیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان اشتہارات کی آڑ میں ابلیس اپنے حقیقی مقصدکوبھی پورا کررہا ہے۔ بہت سے ایسے نعرے اور پیغامات زبان زد عام ہیں کہ جن کے معانی شیطان کے پیغام کو عام کرتے ہیں لیکن ہم مادیت پرستی میں اس قدرگم ہیں کہ اس بات پربالکل توجہ نہیں کرتے کہ اس نعرے کا معنی کیاہے اوراس کے اثرات ہمارے معاشرے یاہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں پر کیا ہوں گے۔بظاہربے ضرر دکھنے والوں میں کیامعنی پوشیدہ ہیں آپ خود اس کاجائزہ لے سکتے ہیں۔

    معاشرے میں اس وقت ایک مشہور کولڈڈرنک کا نعرہ ہے ”من کی مان” بظاہریہ سادہ ساجملہ ہے لیکن اگر اس کے معانی پرغورکریں تویہ اسلام کے احکامات سے بالکل متضادہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مومن نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی مانند ہوتاہے۔وہ من کی نہیں مانتا،بلکہ اللہ اوراس کے رسولeکی مانتا ہے۔اگر ہر انسان من کی مانے تویہ دنیافساد کامرکزبن جائے۔

    اسی طرح ایک اورنعرہ ”کھالے،پی لے،جی لے زندگی”بظاہر سادہ لیکن زندگی کامقصد اس میں کیابتایا گیاکہ محض کھاؤپیؤاور موج اڑاؤ۔
    الغرض اشر ف المخلوقات کے عہدے سے ہٹ جاؤ اور جانوروں کی سی زندگی گزارو۔اسلام نے انسان کی زندگی کامقصد بتایاہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے،اس کے دین کے لیے کوشش کرے لیکن آج زبان زدعام ایسے بہت سارے پیغامات ہمیں لاشعوری انداز میں کس طرف لے جاتے ہیں۔ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا۔

    یہ ان اشتہارات کاسب سے خطرناک پہلو ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے اور بالخصوص مسلم معاشرے کو درپیش ہے۔آج مغرب کی اخلاقی صورتحال کی تباہی کا ایک بڑاسبب اس طرح کے اشتہارات ہیں۔ مسلم معاشرے بھی اگراسی روش پر چلتے رہے تویہ تباہی ان کا بھی مقدر بن سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ارباب اقتدار واہل فکرودانش اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور اشتہارات کے نام پریوں ذہن سازی کوبند کروایا جائے۔ اشتہارات بنانے والی کمپنیوں کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیاجائے اور انہیں یوں معاشرے میں فحاشی و بے حیائی پھیلانے کی ہرگزاجازت نہ دی جائے۔بظاہر یہ معاملہ معمولی نظرآتاہے لیکن اگراس پرتوجہ نہ دی گئی تو وہ وقت دورنہیں کہ جب ہمارا معاشرہ اخلاقی تباہی کے دہانے پرپہنچ جائے اورہم بھی اہل یورپ کی مانند واپسی کی راہیں تلاش کرتے رہیں۔اللہ ہمارے معاشرے کو ان اثرات سے محفوظ رکھے اورہمیں اسلام کاداعی بنائے۔آمین

  • ایدھی صاحب کی وفات اور رد عمل کے چند افسوسناک پہلو  : سمیع اللہ سعدی

    ایدھی صاحب کی وفات اور رد عمل کے چند افسوسناک پہلو : سمیع اللہ سعدی

    ایدھی صاحب بھی راہی عدم ہوگئے ،دوسروں کو کفن پہنانے والا خود کفن میں ملبوس ہوگیا ،لا وارث میتوں کو دفنانے والا دوسروں کے ہاتھوں لحد کا مکین ہوگیا ،ایدھی صاحب تقریبا نصف صدی مسکینوں ،یتیموں ،بیواوں ،بے آسرا بچوں اور غریب خاندانوں کی کفالت کر کے آخر کار اس دربار میں پہنچ گئے ،جہاں ایک ذرہ کے برابر نیکی ضائع نہیں ہوتی ،اور ہر مستحق کو اس کا پوارا پورا حق ملتا ہے ،امید ہے اللہ تعالی بے کسوں کے لئے خود کو ماوی و ملجا بنانے والے کو بھی پورا پورا بدلہ دیں گے ۔ایدھی صاحب کی وفات اور اس پر رد عمل کے ضمن میں کچھ پہلو سامنے آئے ہیں ،جس سے جہاں وطن عزیز میں جاری سیکولرزم کی تحریک کے چندگوشے مزید نکھر کر سامنے آئے ،وہاں اس پورے سانحے میں مذہبی قوتوں کے لئے بھی سوچنے اور غور کرنے کا بڑاپیغام ہویدا ہوا ہے ،بشرطیکہ دینی طبقہ اسے سنجیدگی سے لینے پر آمادہ ہو ۔
    1۔ایدھی صاحب کی وفات ہوتے ہی کم وہ بیش ملک کے جملہ طبقات نے بلا تفریق مذہب و نسل افسوس کا اظہار کیا ،اس سانحے کو قومی سانحہ قرار دیا اور خدمت خلق کے حوالے سے ایدھی صاحب کے جانے سے جو مہیب خلا پیدا ہوا ہے ،اس پر حسرت آمیز تاثرات کا اطہار کیا ،سیاسی جماعتوں نے اس سانحے پر تعزیتی پیغامات جاری کئے ،حکومت نے ایدھی صاحب کو سرکاری عہدیدار کا درجہ دیا ،مذہبی جماعتوں نے ایدھی صاحب کی خمدمات کو خراج تحسین پیش کیا ،اور عوام نے سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر اپنے اپنے انداز میں ایدھی صاحب کا مرثیہ پڑھا،وطن عزیز کی کوئی قابل ذکر سیاسی ،مذہبی ،سماجی اور فکری شخصیت کا نام نہیں لیا جاسکتا ،جس نے ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس کا ااظہار نہ کیا ہو اور ایدھی صاحب کی وسیع خدمات کا اعتراف نہ کیا ہو ۔
    2۔ملک و و قوم کے اس متفقہ موقف کو الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے چند ناعاقبت اندیش سیکولرز نے متنازعہ بنانے کی مہم کا کا آغاز کیا ،جس سے جہاں ایدھی صاحب کی شخصیت مجروح ہوئی وہاں اس طبقے کی قومی خیر خواہی کا پردہ بھی بری طرح چاک ہوا ،اور ایدھی صاحب کی وفات ہوتے ہی مولوی ،ملا ،مذہبی ،مفتی ،فتوی اور مذہب کے خلاف ایک لمبا سلسلہ شروع کیا اور ایدھی صاحب کی زندگی میں ان کے افکار سے اختلاف کے بعض آڈیو ویڈیو کلپز اور چند تحریریں پے در پے میڈیا پر پیش کرنے لگے ،افسوس ناک تعجب کی بات ہے کہ کسی کی زندگی میں اس سے اختلاف اس کی موت پر اچھالنے کی کیا ضرورت ہے؟دنیا کی کونسی ایسی شخصیت گزری ہے ،جس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ؟لیکن اختلاف کے باوجود اس کی موت پر افسوس اور اس کی خدمات کا اعتراف مخالفین بھی کرتے ہیں ،پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہونے کے باجود قد آور شخصیات کی وفات پر ایک دوسرے سے بھر پور تعزیت کرتے ہیں ،پاکستان کی کسی قابل ذکر مذہبی شخصیت کا نام لیا جاسکتا ہے ،جس نے ایدھی صاحب کی خدمت خلق کا اعتراف نہ کیا ہو،اور ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کیا ہے؟اس المناک موقع پر ایدھی صاحب سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف مہم جوئی کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں ،اہل فکر پر مخفی نہیں ۔
    3۔سوشل میڈیا پر ایک خاص ٹرینڈ یہ چلا کہ جس جس نے بھی ایدھی صاحب کی وفات کا مرثیہ لکھا ،وہاں مولوی و ملا کو ضرور گالی دی ،مولوی و ملا پر تنقید ضرور کی ،یوں ایدھی صاحب کا مرثیہ مولوی و ملا کے خلاف چارج شیٹ بن گیا؟سوال یہ ہے کہ ایدھی صاحب پر افسوس کے ساتھ مولوی و ملا کی مخالفت کیوں نتھی کی گئی؟فیس بک پر میرے پانچ ہزار کے قریب فرینڈ ہیں ،جن میں غالب اکثریت دینی طبقے کی ہے ،سب نے اس سانحے پر افسوس کا اظہا رکیا ،لیکن پھر بھی جس سیکولر کی تحریر پڑھی ،اس میں مولوی و ملا پر تنقید شامل تھی ،کہ مولوی و ملا نے ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس نہ کیا ،اور ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا ؟ ،میں حیرت میں مبتلا ہوں ،کہ وہ مولوی و ملا کس سیارے میں رہتے ہیں ،جس نے ایدھی صاحب کی وفات پر خؤشی ظاہر کی؟کیا کسی کی زندگی میں اس کے افکار سےا ختلاف اس کی موت پر خوشی کا معنی رکھتا ہے؟کیا کسی کی فکر سے اختلاف اس کی دیگر خدمات کی نفی کے مترادف ہے؟
    4۔کسی فکر سے وابستگی اور عوامی خدمات کے دائرے بالکل الگ الگ ہیں ،فکر سے وابستگی انسان کو کسی خاص طبقےسے جوڑتی ہے ،اور اس دنیا میں کوئی انسان نیوٹرل نہیں ہے ،کوئی نہ کوئی فکری جہت رکھتا ہے ،لیکن فلاحی و رفاہی کام عمومی طو رپر فکری دنیا سے باالاتر ہوتے ہیں ،ایدھی صاحب چونکہ اصلا رفاہی و فلاحی میدان کےآدمی تھے ،اس لئے ان کی خدمات کا دائرہ ہر طبقہ فکر کے لوگ تھے ،لیکن ہمیں افسوس ہے کہ بنیادی فرق کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے سیکولرز حضرات نے یہاں بھی اپنے فکری نظریے ہیومن ازم کا پرچار کیا اور انساسیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں کا نعرہ لگا کر ایدھی صاحب کو ہیومن ازم کا پیروکار باور کرنے کی سعی مذموم کی ،سوگ والے موقع پر اپنی فکر کا بے جا پرچار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سیکولر دوست ا س وسعت نظری اور برداشت سے بہت دور ہیں ،جن کا وہ ہر تحریر میں حوالہ دیتے ہیں ۔بالفرض اگر ایدھی صاحب واقعی ہیومن ازم کے علمردار بھی ہوتے ،اور مذہب کے قائل نہ ہوتے ،تب بھی اس موقع پر اس کا پرچار ایدھی صاحب کی خدمات کو محدود تر کرنے کی کوشش ہے ،جبک ایدھی صاحب کی خدمات کا دائرہ مذہبی لوگوں کو بھی محیط تھا ۔ایدھی صاحب نے فلاحی و رفاہی اصولوں کے عین مطابق فکری وابستگی سے بالا تر ہو کر بے کسوں کی خدمت کی ،کاش ہمارے سیکولر دوست بھی اس موقع پر اسی وسعت نظری کا ثبوت دیتے ۔
    5۔ایدھی صاحب کی وفات پر پوری قوم مسلکی و فکری وابستگی سے بالا تر ہو کر جس المناک کیفیت میں ایدھی صاحب کا سوگ منایا،ادیدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ،اس میں دینی طبقے کے لئے ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے کہ کسی کو گرویدہ کرنے کا راستہ پیٹ سے ہوکر جاتا ہے ۔ہمارا مذہبی طبقہ فلاحی و رفاہی کاموں کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے رہا ،جس طرح اس کی ضرورت ہے ،خآص طور پر ہماری مذہبی جماعتیں ،اس حوالے سے بالکل کسی وژن اور ہدف سے تہی دامن ہیں ۔کاش وہ بھی اس راز کو جان لیں ،کہ دکھی انسانیت کی خدمت ہی وہ طاقتور ہتھیا ر ہے جس سے اپنے دشمن کو بھی زیر کیا جاسکتا ہے ۔

  • ایدھی صاحب!  –  مولانا محمد شفیع چترالی

    ایدھی صاحب! – مولانا محمد شفیع چترالی

    ایدھی صاحب ایک معنی میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ایدھی ہوم سہراب گوٹھ ہمارے مدرسے کے ساتھ بالکل متصل واقع ہے۔ہم نے کراچی سے دوہزار کلومیٹر دور چترال کے پہاڑوں میں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی ایدھی صاحب کے نام اور کام کے بارے میں سن رکھا تھا اور ریڈیو پر ان کا ایک انٹرویو بھی سناتھا جس میں ان کا تعارف ’’مولانا عبد الستار ایدھی‘‘ کے نام سے کرایا گیا تھا اور ہمارے ذہن میں ایک بزرگ عالم دین کا خاکہ تشکیل پاگیا تھا۔کراچی آئے تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ایدھی صاحب کبھی کبھار ہمارے مدرسے کی مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ سے ملتے بھی ہیں۔

    پہلی بار ایدھی صاحب کو دیکھا اور ہاتھ ملایا تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شخصیت ہیں جن کا نام اتنا زیادہ مشہور و معروف ہے۔ان کے لباس،چال ڈھال اور گفتگو میں ایتنی سادگی تھی کہ کسی مجذوب دیوانے کا گمان ہوتا تھا۔معلوم ہوا کہ ایدھی صاحب دینی تعلیم تو درکنار عصری تعلیم سے بھی نابلد ہیںاور ان کے بعض خیالات کی وجہ سے دینی حلقوں میں انہیں دہریہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے ایدھی صاحب کو متعدد بار علماء کے سامنے دست بستہ پایا اور کئی شہید علماء کے جنازے کے ساتھ ساتھ افسردہ افسردہ چلتے دیکھا ۔بیچ میں صرف ایک دیوار کا فاصلہ ہونے کے باوجود کبھی ہمارے مدرسے اور ایدھی سینٹر کے درمیان کسی بھی معاملے پر کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوئی۔ کئی دفعہ ایمرجنسی میں مدرسے کا ڈاکٹر دستیاب نہ ہونے پر ہم طلبہ ایدھی سینٹر میں موجود ڈاکٹر کے پاس جاتے ۔

    بعد میں ایدھی صاحب نے ایدھی ہوم کے اندر مسجد بنوائی اور ان کا ہمارے مدرسے میں آنا کم ہوا لیکن ہم نے ہمیشہ انہیں اسی حلیے میں عام رضاکاروں کی طرح کام کرتے دیکھا۔وہ ایدھی ایمبولینس کی اگلی سیٹ پر بیٹھے دکھائی دیتے اور ایدھی سرد خانے میں میتوں کے غسل کے موقع پر بھی موجود رہتے۔سنا ہے کہ انہوں نے 60ہزار سے زائد میتوں کو خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا۔ جہاں تک ہم نے دیکھا ہے، ایدھی سرد خانے میں مسلمان میتوں کے غسل اور تکفین و تجہیز میں مکمل اسلامی طریقے کا لحاظ رکھا جاتا ہے اورمیت کی تکریم کی جاتی ہے۔

    نام و نمود اور پروٹوکول کے وہ قائل نہیں تھے۔ ان کی یہی ادا کراچی کے عوام کو پسند تھی اور اسی وجہ سے لوگ ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے تھے کیونکہ لوگوں کو پتا تھا کہ یہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں ،اپنی ذات کے لیے نہیں کر رہے۔ایدھی صاحب نے ہمیشہ انسانیت کی بات کی اور انسانیت کی بے لوث خدمت کے حوالے سے پوری دنیا میں نام کمایا۔انسانیت آج انہیں ان کی خدمات کا صلہ زبردست خراج تحسین پیش کرکے ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

    نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے، اگر ایدھی صاحب نے یہ سب کام اللہ کی رضا کی خاطر ایمان اور عقیدے کی بنیاد پر کیا ہے تو میرے خیال میں ان کی نیکیوں کا کھاتا بہت سے دوسروں کے مقابلے میں یقینا بہت بڑا ہوگا۔جہاں تک ان کے بعض متنازع خیالات اور بیانات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ایدھی صاحب ایک ناخواندہ انسان تھے۔ان کی ایسی باتوں کو جو بہت دفعہ میڈیا کے تیر طرار نمایندے محض سرخیاں بنانے کے لیے ان سے کہلوانے کی کوشش کرتے تھے، علم و دانش کی کسوٹی پر ہرکھنے کی بجائے ان کی کم علمی اور ناواقفیت پر ہی محمول کرنا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی سنجیدہ عالم یا مفتی نے ایدھی صاحب کی کسی بات پر ان کے خلاف کوئی سخت فتوی نہیں دیا۔

    ایدھی صاحب کی شخصیت کا اصل حوالہ ان کی سماجی خدمات ہیں ،اس حوالے سے ان کے کردار کا انکار سچائی سے انکار ہوگا۔ کراچی میں رہنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے ایدھی صاحب کی رفاہی خدمات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ ایدھی صاحب کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں انسانیت کے بے لوث خادم کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس پر ہر پاکستانی فخر کرسکتا ہے اور ایدھی صاحب کا یہ اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔

    لیکن یہ بات یہیں تک ہی ٹھیک ہے۔ اس سے ہٹ کر ایدھی صاحب کو کوئی فرشتہ، بہت بڑا مفکر،مسیحا یا نجات دہندہ قرار دینا بھی سراسر مبالغہ ہے۔ ہمیں ہر حال میں اعتدال میں رہنا چاہیے۔ ہمارے ہاں مشکل یہ ہوگئی ہے کہ ہم چیزوں کو بلیک اینڈ وہائٹ میں ہی دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ہم کسی کو ماننے پر آتے ہیں تو تمام عیوب سے پاک سمجھنے لگتے ہیں اور کسی کی مخالفت پر آئیں تو اس کی ہر اچھائی کو بھی برائی بناکر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ حلقے ایدھی صاحب کی وفات کے بعد ان کو شیطان کا بھائی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،اور کچھ مخصوص طبقات صرف مولویوں کی مخالفت پر مبنی ایدھی صاحب کے ایک دو جملوں کو لے کر اپنا لبر ل ازم کا لچ تلنے میں مصروف ہیں۔اس طرح کے رویے ہمیں جادہ اعتدال سے دور لے کر جارہے ہیں اور ہم ایک منتشر قوم بنتے جارہے ہیں۔

  • سیکولر دوستوں کا دو غلاپن، دو واقعات  –  عبیداللہ عابد

    سیکولر دوستوں کا دو غلاپن، دو واقعات – عبیداللہ عابد

    ہمارے ایک صحافی دوست ہیں۔ شرمیلا فاروقی کے سسرالی ٹی وی چینل میںایک پروگرام بھی کرتے ہیں۔ سیکولر خیالات کے حامل ہیں۔ اس باب میں کسی قسم کی نرمی کے قائل نہیں۔ ساری عمر کہتے رہے کہ صحافی کو غیرجانبدار ہو نا چاہیے، لیکن پیپلزپارٹی سے اپنا عشق چھپاتے نہیں ہیں، حتیٰ کہ تجزیہ کاری میں بھی نہیں۔ عرصہ پہلے ٹوئٹر کی وساطت سے براہ راست تعلق قائم ہوا۔ ایک دوسرے کی ٹویٹس پر تبصرے، تعریف اور تنقید سب کچھ چلتا رہا۔ میں ان کے تحمل و برداشت کا قائل ہونے لگا۔

    چند ہفتے قبل خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے مولانا سمیع الحق کے دارالعلوم حقانیہ کو 30 کروڑ کی امداد دی گئی تو اس صحافی دوست نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے دہشت گرد پیدا کرنے والی فیکٹری کو امداد دی ہے۔

    ان کی ٹویٹ دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اسی مدرسہ کی مدد سے افغانستان میں طالبان نامی گروہ قائم کیا گیا تھا اور اس کا سربراہ ملامحمد عمر کو بنایا گیا، جناب حامد میر کو ملاعمر سے ملاقات کے لیے بے نظیر بھٹو ہی نے تیار کیا تھا اور ان کی تعریف وتوصیف میں جوکچھ کہا تھا، وہ حامد میر سے پوچھ لیجیے۔ مجھے یاد آیا کہ بے نظیر بھٹو ہی کے وزیرداخلہ نصیراللہ بابر کہا کرتے تھے کہ طالبان میرے بیٹے ہیں۔۔۔۔ ان کے ایسے تمام بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔

    میں نے اس سیکولرصحافی دوست سے محض یہی پوچھنے کی جسارت کی کہ پچھلا پورا دورِ حکومت پیپلزپارٹی کا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے دارالعلوم حقانیہ پر کیمیائی بارش نہ کی؟؟؟ کیونکہ سیکولرز اور لبرلز اکثر کہا کرتے ہیں کہ ان ’’دہشت گردوں‘‘ پر کیمیائی بارش کرکے انھیں بھسم کردینا چاہیے۔

    میرے یہ دوست خاموش ہوگئے۔ پھر عید کی چھٹیوں پر گھر چلا گیا۔ میری عادت اچھی ہے یا بری، بہرحال میں گھروالوں کے ساتھ ہوں تو میڈیا اور سوشل میڈیا سے مکمل لاتعلق رہتاہوں۔ چھٹیوں سے واپسی پر میں نے ٹوئٹر اوپن کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف نے مجھ سے اپنی ٹویٹس دیکھنے کی سہولت چھین لی ہے یعنی بلاک کردیا ہے۔ اس پر بے ساختہ میرے چہرے پر مسکراہٹ چھاگئی۔

    مجھے یاد آیا کہ یہ ’’ سیکولردوست‘‘ کہا کرتے تھے کہ معاشرے میں شدید عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ ایک دوسرے کی اختلافی رائے کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔ وہ اس کی ذمہ داری مذہبی طبقہ پر ڈالا کرتے تھے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اگرمذہبی طبقہ کا کوئی فرد تحمل کا مظاہرہ نہ کرے تو وہ قابل گردن زنی لیکن سیکولرز کو سو خون بھی معاف۔۔۔

    کسی نے لکھا تھا کہ کھجلی آپ کو ہو تو الرجی لیکن وہی کھجلی مجھے ہو تو خارش (کتے اور ٹومی والی بات اس لیے نہیں لکھ رہا کہ وہ بہت پامال ہوچکی ہے)۔

    ہمارے ایک دوسرے سیکولرصحافی دوست ( اتفاق سے وہ بھی پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں) ایک بڑے اخبار کے چیف رپورٹر بھی ہیں، اکثر سینہ تان کر کہا کرتے ہیں کہ میرے پاس کسی مذہبی جماعت کی خبر آتی ہے تو آنکھیں بند کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتاہوں۔۔۔