آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب و آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا جھگڑا اور تفرقہ بازی ہے .
ورنہ عددی کثرت اور مال واسباب سے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی کثرت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے , دور جدید کے فتنہ پرور لبرل اور سیکولر ذہن کے حامل افراد عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے معاملے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں , جس سے مسلمانوں میں نفرت , فرقہ واریت اور جھگڑے پروان چڑھ رہے ہیں .
جبکہ اسلام ایک بھائی چارے محبت اور اخوت کا دین ہے جو پورے عالم کیلئے محبت کا پیغام لے کے آیا ,
ارشاد باری تعالیٰ ہے .
” بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ” الحجرات : ۱۰ .
اس آیت میں نفرتوں کے تمام بت توڑ دیے گئے . جس کے بعد اسلام نے صرف مساوات کی بنیاد پر بہترین معاشرہ تشکیل دیا .
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان گروہوں , فرقوں اور مسلکوں میں بٹتے گئے .
” اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگر اس کے بعد کے ان کے پاس علم آ گیا آپس کی ضد کی وجہ سے ” الشوری:ٰ ۱۶
آج ہم اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں کہ کسطرح لوگ ایک دوسرے کی ضد کی بنا پر مسلکوں میں بٹ رہے ہیں اور علم کا غلط استمال کر رہے ہیں یعنی ایک دوسرے کی تذلیل عروج پہ ہے اور اسے اصلاح کا نام دیا جاتا ہے.
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
” لا تغلو فی دینکم ” .
ترجمہ : اور دین میں غلو نہ کرو : النساء : ۱۷۷.
اصل میں موجودہ دور میں غلو فرقہ بازی کا سبب ہے , اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہیں .
فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنے حاملین کو مخطی یعنی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گناہ گار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا جیسے اہل باطل سے رکھا جاتا ہے آج کے دور میں غلو کی واضع مثالیں ہیں , بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اسطرح دیتے ہیں جیسے غیر مسلم کو دی جاتی ہے .
اسی طرح ایک دوسرے پر فتوے لگانا بھی نامناسب فعل ہے جو کہ آج کل ایک ٹرینڈ بن گیا ہے , جو کہ جھگڑوں اور فسادات کی اصل وجہ ہے جبکہ نبی اکرم ص. نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے .
” میں اس شخص کو پہلے جنت کی بشارت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے ”
سنن ابی داؤد , فی “حسن” الاخلاق عن ابی امامته
اب اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا کسی کو کافر کہنا ٹھیک ہوگا ؟
جو اپنے مسلک کے نارے لگاتا پھرے وہ ٹھیک ہوگا ؟
مجھے فخر ہے میں اہلسنت ہوں , مجھے فخر ہے میں بریلوی ہو مجھے فخر ہے میں اہلحدیث ہوں , مجھے فخر ہے میرا تعلق فلاں مسلک سے ہے یہ کہاں کا دین ہے؟
مزہ تو تب ہے جب بندہ کہے مجھے فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔
مگر ہر کوئی اپنے مولوی کی بات پہ ڈٹ گیا , جیسا کہ اقبال نے کہا.
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا,
کہاں سے آئے صدا لاالاالہ اللہ.
کسی مولوی یا امیر کے کہنے پہ آپس میں نفرتیں پال لینا یہ کہاں کا دین ہے .
جس دن ہم خود قرآن وحدیث سے رجوع کریں گے اس دن نہ تو ہمارا کوئی مسلک ہوگا نہ فرقہ اور ہر جگہ محبت و اخوت ہوگی.
” تم آپس میں چمٹ جاؤ اللہ کی رسی سے اور فرقے میں نہ پڑو ” ال عمران :۱۰۳.
تو ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں آپس میں پیار سے رہیں دین اسلام کو اس کے تقاضوں کے مطابق پہنچائیں اس کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں اور پھر یہی کوشش ایک متحد امت بنائے گی . ان شاء اللہ
Category: اختلافی نوٹ
-
میں اس مسلک سے ہوں. محمد کاشف
-
جوائنٹ فیملی سسٹم اور ہمارے لکھاری – محمد عرفان ندیم
آپ یہ مثالیں دیکھیں:
کسی انسان کی جان لینا گناہ ہے لہذا سزائے موت بھی گناہ ہے،
انسانی اعضاکو کاٹنا جرم ہے سرجن انسانی اعضا کاٹتا ہے لہذا وہ بھی مجرم ہے۔یہ ہے خلاصہ اس تحریرکا جو چند دن پہلے حیا حریم کے نام سے دلیل کے پلیٹ فارم پر شائع ہوئی ہے۔ محترمہ حیا حریم نے بڑی جسارت کرتے ہوئے ہمارے مروجہ خاندانی نظام کو ہندوانہ نظام سے تعبیر کیا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلائل و شواہد پیش کرتیں، انہوں نے قاری حنیف ڈار کی تحریر کا اقتباس پیش کرتے ہوئے اسے حوالے کے طور پر پیش کیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا بڑا موقف پیش کرتے ہوئے اور اتنی بڑی جسارت کرتے ہوئے انہوں نے کوئی ٹھوس حوالہ کیوں پیش نہیں کیا، حوالے سے مراد ضروری نہیں تھا کہ اصول اربعہ سے ہی کوئی دلیل پیش کی جاتی بلکہ تاریخی حوالہ بھی پیش کر دیتیں توشاید ان کی تحریر کا کوئی مطلب سمجھ میں آ جاتا، فیا للعجب۔
اس تحریر کو مختلف پہلوؤں کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے اس تحریر میں موجود منطقی مغالطوں کی نشان دہی کی ضرورت ہے کہ محترمہ نے کس طرح کمال مہارت یا کمال جہالت سے اپنے غلط موقف کو صحیح بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ محترمہ اپنا مقدمہ قائم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہمارے مروجہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھائی کو سب کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے اور ایسا ہندومت میں ہوتا ہے لہذا ہمارا خاندانی سسٹم بھی ہندوانہ ہے اور ہمار ے ستر فیصد گھرانے اس سسٹم کی آگ میں جل رہے ہیں. سب سے پہلے میں محترمہ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے ستر فیصد کا جو حوالہ دیا ہے آپ کی اس ریسرچ کا ماخذ کیا ہے؟ کیا آپ وہ ماخذ قارئین کے ساتھ شیئر کرنا پسند کریں گی؟ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تووہ اس سے بہت دور ہے۔ محترمہ نے ستر فیصد گھرانوں کو دلیل بنا کے پیش کیا ہے اور یہ دلیل سراسر غلط ہے، ایسی دلیل کو unrepresentative sample کہتے ہیں، اس دلیل میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ آپ پورے ملک سے اپنی مرضی کا مواد منتخب کریں اور اسے نمائندہ بنا کر پیش کر دیں. یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ شہر کے چند کاروباری افراد کا ڈیٹا جمع کر یں اور نتیجہ پیش کر دیں کہ اس شہر میں لوگوں کی آمدنی بہت زیادہ ہے۔ حیا حریم نے بھی یہی کیا ہے کہ اپنی مرضی کا مواد منتخب کر کے اور اپنے حلقے اور جاننے والے گھروں کو مد نظر رکھ کر اسے سب مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر پیش کر دیا کہ خاندانی نظام میں تو ہوتا ہی یہی ہے۔
حیا حریم نے اپنی تحریر کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے کہ مجبوری صرف سڑک پر بھیک مانگنا نہیں ہوتی۔ اور اپنی اس بات کو خاندانی نظام کے خلاف بطور دلیل پیش کیا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ کو ئی دلیل نہیں اور اگر بالفرض ہم اس بات کو دلیل مان لیں تو ایسی دلیل کو appeal to emotion کہتے ہیں یعنی آپ مخاطب کو علمی وعقلی دلیل پیش کرنے کے بجائے اس کے جذبات سے اپیل کریں، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ کہتا ہے کہ ابو میرے تمام دوست بریک ٹائم روزانہ چاکلیٹ کھاتے ہیں اور میں ان کا منہ دیکھتا رہتا ہوں لہذا مجھے بھی آپ چاکلیٹ دینے آیا کریں، مذکورہ دلیل میں جذبات سے اپیل کیا گیا ہے حالانکہ اس دلیل کا مقدمے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
حیا حریم نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا مروجہ خاندانی سسٹم اس لیے ٹھیک نہیں اور ہندوانہ ہے کہ اس میں وراثت ٹھیک طرح تقسیم نہیں ہوتی اور اس میں عدل وانصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ، یہ دو الگ الگ باتیں ہیں جنہیں آپس میں گڈ مڈ کر دیا گیا ہے ، بات جوائنٹ فیملی کی ہو رہی تھی اور اصل مقدمہ یہ تھا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ٹھیک ہے یا نہیں ، ہندوانہ ہے یا اسلامی لیکن محترمہ نے اصل مقدمے کو تقسیم وراثت اور عدل وانصاف کی بحث میں الجھا دیا ہے ایسی دلیل کو red herring کہتے ہیں ، اس میں ہوتا یہ ہے کہ مخالف آپ کو اصل مقدمے کی بجائے غیر ضروری بحثوں میں الجھا دیتا ہے اور اصل مقدمہ پس منظر میں چلا جاتا ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے استاد کہے کہ کل میں نے آپ سے یہ سبق سننا ہے اور آگے سے اسٹوڈنٹ کہنا شروع کر دیں سر یہ سبق کیا ہوتا ہے اور سنا کیسے جاتا ہے ۔ مذکورہ دلیل میں حیا حریم نے اصل مقدمے کی بجائے بات کو غیر ضروری مباحث میں الجھا دیا ہے حالانکہ کسی کو اس بات سے انکار نہیں کہ تقسیم وراثت میں عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے۔
محترمہ نے اس سے بھی بڑی جسارت یہ کی کہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے غلط مقدمہ قائم کیا اور پھر خود ہی اس سے نتیجہ اخذ کر لیا۔ کہتی ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھائی کو سب کی خاطر قربانی دینی پڑتی ہے، بیوی کے نفقے اور اولاد کے پیسے فیملی پر خرچ کرنے پڑتے ہیں اور پھر اس مقدمے سے خود ہی نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہندوانہ ہے ایسی دلیل کو fallacy of irrelevance کہتے ہیں کہ آپ مقدمے کے ایسے قضیے اور دلائل پیش کریں جو نتیجے سے غیر متعلق ہوں اور انہیں زبردستی اس نتیجے کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ مخالف کو خاموش کروایا جاسکے۔ حیا حریم نے جو مقدمہ قائم کیا ہے وہ نتیجے سے ہی غیر متعلق ہے، مقدمہ تو یہ ہے کہ بڑے بھائی کو فیملی کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے اس سے کسی کو اختلا ف نہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ ہو گیا کہ یہ سسٹم ہندوانہ ہے ۔یہ دلیل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ تمہیں بھوک لگی ہے ، باہر سردی ہے لہذا کرکٹ کھیلنے چلتے ہیں ۔ یہ ہے اس ساری سوچ اوذہنیت کا خلاصہ جو محترمہ نے اپنی مختصر سی تحریر میں پیش کی ہے ۔
منطقی مغالطوں کی نشاندہی کے بعد ہم اس تحریر کے دوسرے پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں کہ مروجہ خاندانی نظام اسلام کے اصول معاشرت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔ مذکورہ تحریر میں سارا زور اس بات پر صرف کیا گیا ہے کہ چونکہ بڑے بھائی کو فیملی کے لیے سب سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور ایسا ہندو گھرانوں میں ہوتا ہے لہذا جیسے تیسے بھی ہو اس سسٹم کو ہندوانہ قرار دیا جائے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے ، مہذب اور سلجھے ہوئے خاندانوں میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا جو محترمہ نے منظر کشی کی ہے ، بڑا بھائی عموما والد کے ساتھ مل کر گھر اور کارو بار کو سنبھالتا ہے پھر جیسے جیسے چھوٹے بھائی جوان ہوتے جاتے ہیں وہ والد اور بھائی کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں ، یہ ہے اصل تصویر جو اس وقت ہمارے معاشرے میںر ائج ہے ۔ رہی یہ بات کہ بڑے بھائی اور بھابی کو سب سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر چھوٹے بھائیوں میں سے کوئی بڑا ہوتا تو اسے بھی یہ سب کرنا پڑتا ، اب یہ اللہ کی مرضی کہ اس نے بڑے بھائی کو پہلے دنیا میں بھیج دیا اور چھوٹے کو بعد میں ۔ دوسری بات یہ کے اگر بڑے بھائی کو دوسروں سے ذیادہ محنت کرنی پڑتی ہے تو اس کے عوض وہ بہت سارے فوائد بھی سمیٹ رہا ہوتا ہے ، مثلا بڑے بھائی کی اولاد جوائنٹ فیملی میں ہی پل کر جوان ہو جاتی ہے اور اسے الگ سے بچوں کے اخراجا ت برداشت نہیں کرنے پڑتے ۔ عموما بڑا بھائی کمانے کے لیے گھر سے دور جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی بیوی اور بچے جوائنٹ فیملی میں مطمئن اور محفوظ رہتے ہیں ، ذرا تصور کریں اگر بڑا بھائی ملک سے باہر ہو اور بیوی کو اکیلے گھر میں رہنا پڑے تو اس کے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ؟ مزید برآں بڑے بھائی کو جو عزت و احترام ملتا ہے وہ چھوٹوں کے حصے میں کم ہی آتا ہے ،بڑے بھائی کی اولاد کو جو پیار محبت ملتا ہے وہ چھوٹوں کی اولاد کو نہیں ملتا۔ یہ وہ فوائد و ثمرات ہیں جو بڑے بھائی اور بھابھی کو جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے مل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔
محترمہ کے بقول ہندو معاشروں میں بڑا بیٹا قربانی کا بکرا بنتا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے لہذا ہمارا خاندانی نظام ہندوانہ ہے ، میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا صرف مشابہت کی بنیاد پر کسی نظام پر اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے ؟ کیا کسی نظام کو غیر اسلامی ڈکلیئر کرنے کے لیئے ٹھوس دلائل اور شواہد درکا ر نہیں ہوتے ؟ کل کو اگر کوئی اٹھ کر کہتا ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا مسلم معاشروں میں استعمال کیاجاتا ہے اور یہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے او ر ان معاشروں میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا مسلم معاشرے بھی غیر مسلم معاشرے ہیں تو ایسی صورتحال میں ہم کہاں جائیں گے اور یہ روش ہمیں کہاں لے جائے گی۔ ہر پیش آمدہ حکم اور ہر نئی روایت کی دلیل خلفائے راشدین کے طرز عمل اور ان کے معاشرے سے ڈھونڈنا کوئی عقل مندی نہیں کیونکہ سنت الہیہ یہ ہے کہ وہ احکام کے نزول میں ایک مجموعی ضابطہ حیات بیان کرکے جزئیات اور فروعیات کو انسانی عقلوں پر قیاس کر کے ان سے پہلو تہی کر لیتی ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام غیر مسلموں اور دشمنوں کے ساتھ تو حسن سلوک کا حکم دے لیکن ایک گھر کے اندر رہنے والے دو سگے بھائیوں کو اس حکم کا مخاطب نہ ٹھہرائے ، اسلام چالیس گھروں تک ہمسائیگی کے آداب تو سکھائے لیکن دو بھائیوں کو جوائنٹ فیملی میں رہنا نہ سکھائے ۔ نبی اکرم کی ساری زندگی حسن سلوک اور خوش اخلاقی کا بہترین نمونہ ہے لیکن اس کے باوجود محترمہ کو ایک گھر میں حسن سلوک کے ساتھ اکٹھے رہنے والے بھائی اچھے نہیں لگتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ جیسے ہی شادی ہو بڑا بھائی اپنی گھر والی کو لے کر الگ ہو جائے باقی والدین جانیں اور ان کے بچے ۔محترمہ نے اگر دین اسلام کے حکامات ، ان کی تعبیر و تشریح اور مقاصد شریعت کوٹھیک طرح سمجھا ہوتا تو وہ کبھی بھی یہ بے تکی تحریر لکھنے کی جسارت نہ کرتیں ۔کاش یہ سطحی تحریر لکھنے سے پہلے محترمہ سوچ لیتی کہ معاشرتی اقدارو روایات بھی کوئی چیز ہوتی ہیں، ہمارے مشرقی معاشروں میں جوائنٹ فیملی سسٹم کو آج بھی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ وہ عورت جو شادی کے فورا بعد بھائیوں کو آپس میں لڑوا دے اور گھر سے الگ ہو جائے وہ آج بھی معاشرے میں مطعون ٹھہرتی ہے ۔ اس سسٹم میں موجود غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح کی بات تو کی جا سکتی تھی لیکن سرے سے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دے دینا بہت بڑی جسارت تھی۔
آخر میں، میں سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے بھی بات کرنا چاہوں گا، کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا جن جرائم اور زیادتیوں کے خلاف میدان میں آیا تھا، آج وہ خود ان جرائم میں ملوث ہو چکا ہے۔ میں سوشل میڈیا کا ایک خاموش قاری ہوں اور چیزوں کو دیکھتا اور ان کا تجزیہ کرتا رہتا ہوں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا بھی شہرت اور ریٹنگ کے چکر میں اپنے اصل میدان سے بہت دور نکل گیا ہے اور ریٹنگ کی بھوک میں ہر طرح کی اخلاقیات سے آزاد ہو گیا ہے۔ محض ریٹنگ بڑھانے کے لیے سنسنی خیزی پھیلائی جاتی ہے۔ آپ مذکورہ تحریر کو دیکھ لیں، محض سنسنی خیز عنوان کی وجہ سے اسے اتنی ریٹنگ ملی ورنہ آپ دل تھام کر بتائیے کہ موضوع کی مناسبت سے تحریر کے ساتھ انصاف کیا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی مکمل تحریر نہیں تھی بلکہ محض چند بکھری ہوئی باتیں تھی اور اس میں بھی آدھی تحریر قاری حنیف ڈار کی تھی جسے اقتباس کی صورت میں اصل تحریر کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ تحریر کی ابتدائی سطریں شعر کے انداز میں لکھی گئی تھیں جسے بعد میں نثر کے پیرائے میں ڈھال دیا گیا تھا۔ اتنے اہم اور نازک موضوع کو بلا کسی ٹھوس دلائل و شواہد کے پیش کر دینا اور صدیوں سے رائج ایک نظام کو بیک جنبش غیر اسلامی قرا ر دے دینا اور اس پر مستزاد کہ سینئر قلم کاروں کا اس تحریر کو شیئر کرنا یہ سب سوشل میڈیا کی ’’برکات‘‘ ہی تو ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا کے طفیل کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے اصحاب فکر و نظر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لکھنے کے شوقین نئے لکھاری ہر اچھے برے موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی ان سرگرمیوں سے اسلام، ملک اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کچے ذہن ، محدود مطالعے اور مشہور ہونے کے شوق نے نئے لکھا ریوں کوحقیقت سے بہت دور کر دیا ہے۔ اب بھی اگر ہم نے سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے کو ئی ضابطہ اخلاق وضع نہ کیا تو یہ روش ہمیں بہت دور لے جائے گی اور ہماری آنے والی نسلوں میں ایسے لکھاری اور دانشور پیدا ہوں گے جو صدیوں سے رائج اقدار و روایات کو بغیر کسی ٹھوس دلیل اور شواہد کے غیر اسلامی اور غیر مذہبی قرار دے دیں گے ۔
-
الیاس گھمن کا مسئلہ اور شرعی تقاضے. قاضی حارث
<
ol>
وہ دو لوگ تھے اور دیوار پھاند کے صحن میں داخل ہوئے تھے، عبادت کرنے والے کا گھبرا جانا فطری تھا۔
یہ پہر اس نے عبادت کیلئے مخصوص کر رکھا تھا اور آنے جانے والوں کو اس بات کا علم بھی تھا۔
پھر یوں بھی کہ آنے والوں نے عمومی راستہ اختیار کرنے کی بجائے دیوار پھاند کر داخل ہونا پسند کیا تھا۔
آنے والوں نے جب اسکے چہرے پر پریشانی دیکھی تو کہا:
پریشان مت ہو! ہم دو فریق ہیں ، آپس میں لڑ بیٹھے ہیں۔ تم حکمران ہو، ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔
ایک نے کہا: یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک دنبی ہے۔ یہ میری دنبی ہتھیا کر اپنی سو دنبیاں مکمل کرنا چاہتا ہے۔
فیصلہ کرنے والا فورا بولا: ایک دنبی ہتھانے کی کوشش کرکے تو تم نے بہت ظلم کیا ہے اپنے بھائی پر اور اکثر شراکت میں ایک بندہ دوسرے پر ظلم کر جاتا ہے۔
پھر اچانک فیصلہ کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو سجدے میں گر پڑا اور معافی مانگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حکمران حضرت داؤد علیہ السلام تھے اور یہ واقعہ قران میں سورہ ص میں ذکر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سے غلطی کیا ہوئی کہ انہوں نے فورا سجدے میں گر کر معافی مانگی؟
مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ دیوار پھلانگنے والے دراصل فرشتے تھے جو حضرت داؤد علیہ السلام کے عدل کی آزمائش کیلیئے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ یہاں حضرت داؤد سے لغزش یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے دوسرے فریق کا مقدمہ سنے بغیر فیصلہ جاری کردیا تھا جس پر اللہ کی طرف سے تنبیہ ہوئی اور انہوں نے فورا سجدے میں گر کر معافی مانگی۔
یہ سارا قصہ امت کیلیئے ایک سبق ہے کہ جب بھی کوئی رائے قائم کی جائے تو دونوں فریق کی بات سن کر قائم کی جائے۔
نہ میں مفتی ریحان کو جانتا ہوں اور نہ ہی کبھی الیاس گھمن کو سننے کا اتفاق ہوا۔
لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مفتی ریحان کی طرف سے ایک اندھی خبر پر “آمنا و صدقنا” کہہ کر میں کوئی بدگمانی یا رائے قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ الیاس گھمن کی طرف سے کوئی صفائی یا اقرار سامنے نہ آجائے۔
شریعت میں اس کی مثال یوں سمجھئے کہ:
خدانخواستہ ایک شخص نے کسی خاتون پر زنا کا الزام لگایا تو عدالت اسے گواہ پیش کرنے کو کہے گی۔ اگر وہ شخص گواہ پیش نہ کرسکا تو خاتون
کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اگر خاتون نے عدالت میں صحت الزام کا انکار کردیا تو باوجود اس شخص کے الزام سچ ہونے کے خود اس شخص کو حد قذف یعنی زنا کے الزام کے ستر کوڑے کھانے پڑینگے۔
اس کے بعد معاملہ اللہ کی عدالت کی طرف چھوڑ دیا جائے گا وہاں اصل فیصلہ ہوگا اور جھوٹا عذاب سہے گا۔
چنانچہ دونوں طرف کی رائے اور صفائی سنے بغیر میرے لیئے کسی بھی شخص کے زانی ہونے کا گمان رکھنا ممکن نہیں کیونکہ اس طرح تو میں بھی حد قذف کا مستحق ٹھہر سکتا ہوں الا یہ کہ فاعل خود اس فعل شنیع کا اقرار کرلے۔
نہ ہی میں الیاس گھمن کا حامی ہوں اور نہ ہی مفتی ریحان کی کبھی شکل دیکھی ہے لیکن ایک بات جانتا ہوں:
“آدمی کے جھوٹا ہونے کیلیئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے آگے بیان کردے۔”
حدیث۔
از
قاضی محمد حارث -
کشمیر اور بلوچستان کے تقابلی جائزے پر ایک رائے – عبدالحکیم اسماعیل
گزشتہ دنوں دلیل پر محترم رعایت اللہ فاروقی صاحب کا ایک کالم ”کشمیر اور بلوچستان، ایک تقابلی جائزہ“ کے عنوان سے نظر سے گزرا۔ مذکورہ کالم میں جس طرح فاروقی صاحب کے زوردار اور قدرے کانٹے دار قلم سے توقع کی جاتی ہے، بہت ہی جاندار تعابیر، استعارات اور تضادات سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن جاندار مضامین کی خوبصورتی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوسکتا کہ ان کے بعض حصوں سے اختلاف نہ کیا جائے۔ فاروقی صاحب کے نقطہ نظر سے کشمیر اور بلوچستان کے تقابلی جائزہ کو پڑھ کر یوں محسوس ہوا کہ صوبہ بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں کا واحد مسئلہ ’بھتہ خور سردار‘ ہیں۔ نیز آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو بلوچ عوام میں کوئی پذیرائی نہیں ملی ہے۔
چونکہ بلوچستان میں صرف ’بھتہ خور‘ سرداروں کو ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، ان کی مبینہ جارحیت، اغوانما گرفتاریاں اور ماورائے عدالت قتل کے جرائم سے بھی دانستہ طور پر چشم پوشی کی گئی ہے بلکہ یکسر اس کا انکار ہوا ہے؛ موصوف سوال اٹھاتے ہیں کہ ”آپ مجھے بتائیں کہ پاک فوج نے کتنے بلوچ نہتے شہری مارے ہیں؟ اور آپ مجھے بتائیں کہ بلوچستان کے کس شہر یا قصبے میں عام شہریوں نے نکل کر پاکستان سے آزادی کی بات کی ہے؟“ فاروقی صاحب سے استدعا ہے کہ کسی کی محبت میں اتنے آگے نہ جائیں کہ مظلوم کو چھوڑکر ظالم کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔ اگر بلوچ اداروں کے اعداد و شمار میں کوئی شک ہو تو پنجاب میں بیٹھی انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ”پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق“ سے پوچھ لیں۔ ان پر بھی بھروسہ نہیں تو”مسٹر گوگل“ ہی کی چھان بین کی زحمت کریں، ان شاءاللہ تشفی بخش معلومات دستاویزات کے ساتھ ملیں گی۔
جہاں تک ’تین حرام خور نوابوں کو بھتہ نہ دینے‘ کا مسئلہ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان کے تمام اضلاع میں قدرتی ذخائر نکالنے پر کام ہو رہا ہے اور وہاں کے سردار بھتہ لیتے رہے ہیں؟ کیا چاغی کے سیندک اور ریکوڈک کے پروجیکٹس کی راہ میں کوئی مقامی بااثر شخصیت کھڑی ہو کر رکاوٹ بنی؟ رکاوٹ تو کجا کہ ان کے اکثر مزدور مقامی لوگ ہیں اور غیرملکی انجینئرز خوشی سے اپنا کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ البتہ جن قبائل کی زمینوں میں یہ پروجیکٹس موجود ہیں وہاں کے عمائدین کو کچھ نہ کچھ ٹیکس مل رہا ہے جو یقینا ‘کروڑوں‘ روپے سے کم ہوگا۔
ایسے سرداروں اور وڈیروں سے کوئی شکوہ نہیں، ان کے بعض رویوں کو صحیح سمجھنا بھی غلطی ہے۔ شکوہ تو ارباب اختیار سے ہے جو دانستہ طورپر ایک بڑی برادری کی پسماندگی کا باعث بنتے چلے آرہے ہیں. کیا معدودے چند سرداروں کی ’بھتہ خوری‘ کی وجہ سے ایک بڑے صوبے کو پسماندگی کی دلدل میں رکھنا چاہیے؟ ظاہر سی بات ہے محترم فاروقی صاحب بھی اس پر رضامند نہیں ہوں گے اور اپنے بلوچ بھائیوں کو خوشحال دیکھ کر انھیں دکھ نہیں ہوگا۔
اگر بلوچستان میں علیحدگی پسندی ایک دھوکہ ہے، پھر اس صوبے کے طول و عرض میں اتنے بڑے پیمانے پر سکیورٹی اہلکار کیوں تعینات ہیں؟ پنجگور، آواران اور ان جیسے شہروں میں جہاں سرداری سسٹم کا سکہ نہیں چلتا، پاکستانی جھنڈا کیوں ناپید ہے؟ چودہ اگست کو کیوں صرف فوجی بیرکوں میں یوم آزادی کا جشن منایا جاتا ہے؟ سکولوں میں ”آزاد بلوچستان“ کا جھنڈا لگانے والے آسمان سے آنے والے فرشتہ تو نہیں؟ فاروقی صاحب آپ مانیں یا نہ مانیں، ریاست سے نفرت بلوچستان کے متعدد اضلاع میں نوشتہ دیوار ہے۔ اس کا انکار صرف بے خبر شخص کرسکتاہے یا پھر تعصب سے بھرا کوئی ’اعتدال پسند لکھاری‘۔
رعایت اللہ فاروقی صاحب اگر چاہیں تو کسی وقت بلوچستان کے بلوچ علاقوں کا دورہ کریں، پھر انہیں معلوم ہوگا کہ ’آزادی‘ کا نعرہ لگانے والوں کی اکثریت سرداروں کے بھی باغی ہے۔ محترم فاروقی صاحب اگر نواب اکبرخان بگٹی کے قتل پر اتنے خوش ہیں، سابق فوجی صدر (پرویز مشرف) کی جان چھڑانے کے لیے کیوں محنت نہیں کرتے، کیا پاکستانی عدلیہ نے بگٹی قتل کیس میں مشرف کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے؟
جہاں تک صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں بلوچ ارکان کی موجودگی کا تعلق ہے، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ضروری طور پر یہ حضرات و خواتین بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے اسلام آباد و لاہور میں بیٹھے حکام کی پالیسیوں سے پورری طرح متفق نہیں ہیں۔ بلکہ الٹا شدید شکوے کا اظہار بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ بلوچ عوام کی کتنی فیصد آبادی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے کچھ لیڈروں کو مراعات حاصل کرنے کا موقع دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے ووٹ ڈالنے والے بھی اپنی خستہ حالی و کسمپرسی کے ذمہ دار وفاق کو سمجھتے ہیں۔
ابھی سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ براہمداغ بگٹی پاکستانی آئین کو ماننے کے لیے تیار تھے لیکن کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی مصالحت اور قیام امن کے ایسے بہت سارے مواقع گنوائے جا رہے ہیں۔
کاش بلوچستان سے باہر بیٹھے حضرات و خواتین کو معلوم ہو کہ یہ زرخیز علاقہ کسی کا دشمن نہیں؛ یہ صرف اپنا جائز حق مانگتا ہے۔ ان سے بندوق کی نوک پر بات نہ کی جائے۔ کاش میرے ہم زبان بھائی بھی سمجھ لیتے کہ پراکسی وارز میں اس اقلیم کو مزید تباہیوں سے دوچار کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
حرفِ آخر
عام لکھاری جب قلم اٹھاتے ہیں تو اتنی ’بہادری‘ سے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایک عالم دین لکھاری جو مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید جیسی انصاف پسند اور معتدل مزاج شخصیت کی شاگردی پر نازاں و فاخر ہے، ان سے بجا توقع کی جاسکتی ہے کہ اتنا آگے نہ چلیں کہ مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کریں اور بلوچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے آنکھیں بند رکھیں۔ پاکستان کی سالمیت کا احترام کرتے ہیں، اپنے جائز حقوق کا مطالبہ اس سالمیت کی نفی نہیں ہے. -
قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہے – ثقلین مشتاق
دلیل ڈاٹ پی کے پر ایک تحریر کے مطالعہ کا اتفاق ہوا۔ فاضل دوست نے بہت ہی عمدہ انداز سے ایم کیوایم قائد کی دھرتی ماں سے بےوفائی، ٹارگٹ کلنگ اور چائنا کٹنگ کے کارناموں کومحض الزام قرار دے کر مسترد کرنے کے ساتھ متحدہ کو پاک دامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور کراچی کی عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا۔ اپنی رائے کو تقویت دینے کے لیے مندرجہ ذیل چند سوالات کیے۔
1۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو لوگ متحدہ کو ووٹ کیوں دیتے ہیں ؟
2۔ اگر متحدہ پر الزامات درست ہیں تو مہاجروں کے دل کی دھڑکن ایم کیوایم ہی کیوں ہے، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی اس کی جگہ کیوں نہیں لے سکیں؟میں تو صرف اتنا عرض کروں گا کہ پہلے کراچی میں الیکشن تھوڑی ہوتا تھا، سلیکشن ہوتی تھی۔ لوگوں کے پولنگ اسٹیشن پر جانے سے پہلے ہی اُن کے ووٹ کاسٹ ہوچکے ہوتے تھے۔ حیرانگی کی بات یہ ہوتی تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کا امیدوار حلقے میں کُل ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا تھا۔ لوگوں کو ڈرا کر ووٹ لینا تو اور بات، اُن سے ان کے شناختی کارڈ ہی چھین لیے جاتے تھے اور جو بےچارے بات نہیں مانتے تھے اُنھیں نشانہ عبرت بنا دیا جاتا۔ نجانے کتنے ہی اُن معصوم لوگوں کی بوری بند لاشیں سمندر کنارے سے ملیں جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ قاٖٖئد تحریک کی تقریر سُننے کے لیے جلسہ گاہ نہ پہنچئے۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ متحدہ کو ووٹ دیتے تھے۔ اس خوف کا اب خاتمہ ہوا ہے تو 127-PS کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ پہلے سلیکشن ہوتی تھی۔ اور یہ بات کہنا قبل از وقت ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کو مہاجروں نے مسترد کر دیا۔ حال ہی میں مصطفی کمال نے کامیاب جلسے کیے ہیں۔
عوام دوستی اور حُب الوطنی میں متحدہ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں قائد تحریک کا خطاب ہو یا 22 اگست کا واقعہ یا پھر امریکہ اور ساؤتھ افریقہ میں الطاف حسین کا بیان، حُب الوطنی کے اعلی نمونے ہیں۔ کچھ لوگ سوچیں گے کہ متحدہ اور الطاف کا اب کوئی تعلق نہیں تو پھر متحدہ پر یہ الزامات لگانا درست نہیں، اُن حضرات کے لیے عرض ہے کہ یہ واقعات جب ہوئے تب تو الطاف اور متحدہ ایک تھے۔ متحدہ اور الطاف ہمیشہ سے ایک ہی چیز کے دو نام رہے ہیں۔ وہ سیکٹر اور یونین انچارج تو اب بھی متحدہ کا حصہ ہیں جو اینٹی سٹیٹ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ تو پھر کیسے دونوں کو الگ سمجھا جائے؟ اگر کوئی دوسرا متحدہ کو ٹارگٹ کلنگ اور کراچی کی بدامنی کا ذمہ دار قرار دے تو اور بات ہے۔ لیکن جب متحدہ کا اپنا صولت مرزا ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور وسیم اختر 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے کا اعتراف کریں تو پھر کسی دوسرے سے کیسا گلہ اور کیسا شکوہ ؟
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو مگر مجھے یاد ہے مصطفی عزیزآبادی کا وہ ٹویٹ جس میں موصوف نے پی ایس پی پر امجد صابری کے قتل کا الزام لگایا لیکن مصطفی صاحب کی اپنی پارٹی کے سیکٹر انچارج نے مرحوم صابری صاحب کے قتل کا اعتراف کرلیا۔ لوگوں کو قتل کر کے اپنی مدعیت میں قتل کا مقدمہ بھی درج کروا دو، قربان جاؤں ایسی سیاست پر۔
بڑے معصوم ہیں تیرے شہر کے لوگ
قتل کرکے پوچھتے ہیں یہ جنازہ کس کا ہےاور اب رہی بات کراچی کی محرومیوں کی تو اس شہر کو مفلوج کرنے کی ذمہ دار متحدہ خود ہے۔ فیکٹریوں کو نذر آتش کیا جائے، دن بھر محنت مزدوری کرنے والوں کو زندہ جلا دیا جائے، رکشے اور ریڑھی والوں سے اُن کی آمدن سے زیادہ بھتہ لیا جائے، اپنی سیاست چمکانے کے لیے کراچی میں لسانیت کا خوب پرچار کیا جائے اور نوجوان کو قلم دینے کے بجائے راہزنی، ٹارگٹ کلنگ، چائنا کٹنگ اور بھتہ خوری کےگُر سے آشنا کروایا جائے تو یہ شہر مفلوج نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ اگر یہ تمام کارنامے سرانجام دینے کے بعد متحدہ پاکدامنی، حُب الوطنی اور عوام دوستی کے سرٹیفکیٹ کی حق دار ہے تو پھر لیاری گینگ، ٹی ٹی پی اور داعش سے زیادتی کیوں کی جارہی ہے، ان کو بھی پاکدامنی ، حُب الوطنی اور عوام دوستی کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اور اُن پر پابندی بھی ختم کی جائے۔
-
کیا کفر و ضلالت مبنی بر ”دلالت“ ہے؟ محمد تہامی بشر علوی
احباب گمرہی کا رشتہ ”دلالت“ سے جوڑ بیٹھے. کہا گیا کہ جہاں دلالت قطعی ہوگی اس کا انکار کفر ہوگا، اور جہاں ظنی ہوگی وہاں حکم بتدریج کم ہوتا جائےگا. مکتب فراہی چوں کہ دلالت کو قطعی مانتا ہے، اب یا تو اس قطعی مفہوم کے منکرین کو کافر کہے یا مان جائے کہ کلام کی دلالت ہر جگہ قطعی نہیں ہے. پھر مثال چپکائی گئی کہ
[pullquote]”لا مطاع و لا معبود الااللہ“ [/pullquote]کا مفہوم قطعی مدلول کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا ماننا لازم اور انکار کفر ہے. جبکہ
[pullquote]”لا موجود الا اللہ[/pullquote]“ کا مفہوم ظنی مدلول کی حیثیت کا حامل ہے، اس کا انکار کفر نہیں.
دیکھیے،
یہ عرض کیا گیا تھا کہ دلالت کی یہ تقسیم اصلا اسی تناظرمیں کی گئی ہے، سردست اس پر کلام مقصود نہیں، اتنا ذہن میں رہے کہ یہاں ”نفس کلام“ کا مقام و مرتبہ کا تعین اصلا موضوع بحث نہیں. اس نکتہ پر دماغ کھپانا مستحب جانتے ہوئے آگے بڑھیے کہ
قرآن مجید میں الشمس، القمر، الخمر، وغیرہ الفاظ اپنا قطعی مدلول رکھتے ہیں، ان کے قطعی مدلول تک فہم انسانی کی رسائی اجتماعی طور پر ہو چکی.
اب بالفرض کوئی کہے کہ
”میں سرے سے سورج کو ہی نہیں مانتا، میرے نزدیک خمر اپنا وجود ہی نہیں رکھتی، یا میں القمر کے مدلول کو تسلیم نہیں کرتا.“
تو اس کی تکفیر کا حوصلہ شاید ہی کوئی کر پائے.قرآنی الفاظ کے قطعی مدلولات سے ہٹ جائیے، قرآنی آیات کا انتخاب کیجیے، میں مثال کے طور پر یہ آیت آپ کے تدبر کی خاطر پیش کیے دیتا ہوں، آپ چاہیں تو مثالیں بڑھا بھی سکتے ہیں.
[pullquote]”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر“[/pullquote]یعنی سورج و چاند اپنی گردش میں ایک دوسرے سے ٹکرا نہیں سکتے.
اس قطعی مدلول کا کوئی شخص فرض کیجیے انکار کر ڈالے اور کہہ اٹھے کہ سورج چاند سے ٹکرا سکتا ہے تو کہیے کون اس کو کافر کہنے کی جسارت کر پائے گا؟برمحل یاد آیا، سنتے جائیے کہ ”امی“ کا قطعی معنی اب بھی ظاہر و باہر ہے. اہل عشق اس لفظ میں معاذاللہ تنقیص رسالت کی بو پا کر اس قطعی معنی کو قبول کرنے کو قطعی طور پر آمادہ نہ ہوئے. ان کا عشق رسالت رسول سے ”لکھنا پڑھنا“ جاننا منوا کر رہا. ”عشاق“ آج بھی رسول کو ”لکھنا پڑھنا“ جانتا مانتے اور ”امی“ کی ”عشق چاہی“ تاویل کر کے رہتے ہیں. یہی نہیں رسول سے ”لکھنے پڑھنے“ کی نفی کو گستاخی جانتے ہیں. گزرے زمانوں میں جب یہ کہا گیا کہ رسول خدا لکھنا پڑھنا جانتے تھے، امت کے ایک فقیہ سے رہا نہ گیا، ان کا یہ فتوی صادر ہو کر رہا کہ ”رسول اللہ کو پڑھا لکھا ماننا، نص قطعی (النبی الامی) کا انکار اور کفر ہے.“ حوالہ اطمینان مزید کے لیے پھر تلاش کرکے سامنے رکھنے کی کوشش کی جائے گی. آگاہ رہیے کہ کفرو ضلالت کا ناتا محض دلالت سے جوڑنا ہمارے نزدیک کسی طرح درست نہیں.
دل چاہتا ہے کہ ہم پہلے ہدایت پانے کا ڈھب خود سیکھ کر خدا کے بندوں کو سکھا لیں، کہ ہم مکلف اسی کے ہیں. پھر جو جو اس ہدایت کو نہ جان یا مان سکے ان پر حکم لگانے کی بھی ٹھانتے ہیں. یقینا ہدایت و ضلالت کے پیمانے ہم اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں بوقت ضرورت احباب کو آشنا کر کے رہیں گے، ابھی اتنا جانیے کہ وہ پیمانے محض ”دلالت“ کے سوا ہیں.
مکرر عرض ہے کہ دلالت کی بحث کا اصل سیاق دریافت کرنے پر ذہنی مشقت گوارا کی جائے. ورنہ دماغوں کو مسائل نظری میں الجھ جانے سے کوئی مائی کا لعل روک سکا نہ روک سکے گا.
-
باچا خان محب وطن تھے یا غدار؟
خان عبدالغفار خان کون تھے؟ یہ جاننے کے لیے ان کے خطبات پڑھنا ضروری ہے۔ سینئر صحافی ضیاشاہد نے دلیل پر شائع ہونے والے سلسلہ وار مضامین میں کہا ہے کہ باچا خان غدار تھے۔ قارئین کرام یہ خطبات پڑھیں اور باچاخان کے بارے میں جانیں کہ وہ غدار تھے یا ایک محب وطن۔ (فیاض الدین)
خان عبدالغفار خان پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
صدر کو مبارکباد۔ تقریر کرنے سے پہلے میں پاکستان کے اس معزز ایوان کے سامنے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد پاکستان کی اس حکومت کو گرانا نہیں ہے اور نہ اس پر تنقید کرنی ہے ۔ حکومت اور غیر سرکاری لوگوں نے میرے خلاف غلط فہمی پھیلائی ہے اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اور میرے لوگ (خدائی خدمتگار) پاکستان کے دشمن ہیں ہم اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں، میں بحث نہیں کرنا چاہتا ہوں، اس حوالے سے میں نے اس پر اپنے صوبے میں کافی کچھ کہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اب بھی لوگوں کو شک ہے کہ میں پاکستان کا دشمن ہوں یا دوست۔ لیکن ایسا بولنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بھی مجھے موقع ملا ہے میں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ درحقیقت میں انڈیا کے تقسیم کے خلاف تھا اور انڈیا میں ثابت ہو چکا ہے۔ بچے بوڑھے جوان بہت لوگوں کو تباہ وبرباد کیا گیا۔ یہ میری مخلصانہ رائے تھی کہ انڈیا کو تقسیم نہ کیا جائے لیکن اب جو بن گیا ہے تو مسئلہ ختم ہوا۔ میں نے کئی تقریریں برصغیر کی تقسیم کے خلاف کیں مگر کسی نے ایک نہیں سنی۔ ہم نے سرحد میں مسلم لیگ سے کہا کہ آپ اپنی حکومت جاری رکھیں لیکن حکومت نے پٹھانوں کے ساتھ جو کیا اسے بہت مشکل سے برادشت کیا گیا۔ لوگ میرے پاس آتے تھے کہ آپ کا مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ کیونکہ اس طرح کی فضا کو ہم برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم تو وہ ہیں جس نے دنیا کی عظیم طاقت کا مقابلہ کیا جو ہمیں لوٹنا چاہتے تھے۔ میں لوگوں سے کہتا تھا کہ یہ اپنی حکومت ہے۔ وہ انگریز تو پرائے لوگ تھے۔ حکومت کو میں یہ بتاتا جاؤں کہ میں تعمیری بندہ ہوں، تباہی مچانے والا نہیں ہوں۔ میں ایک عملی بندہ ہوں، اگر میری ساری زندگی کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے لوگوں اور وطن کے فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے، خدائی خدمتگار ایک سماجی تحریک تھی، سیاسی نہیں تھی۔میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان درست کام کرے گی، ملک کی ترقی چاہے گی خدائی خدمتگار ان کے ساتھ ہوگی، میں دوبارہ یہ بات واضح کر دوں کہ میں پاکستان میں تباہی مچانا نہیں چاہتا، میں ایک تعمیری بندہ ہوں۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ میں اور میرے لوگ کسی بھی تباہی مچانے والے کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اگر واقعی آپ تعمیری کام کرنا چاہتے ہیں، باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ بات میں اس معزز ایوان کے سامنے صاف کہہ دوں۔ ساتھ مہینوں سے میں پاکستان حکومت کی ایڈمنسٹریشن کو دیکھ رہا ہوں لیکن مجھے انگریزوں اور ان کی ایڈمنسٹریشن میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ میں غلط ہو سکتا ہوں مگر یہ رائے عام ہے۔ میں اکیلا بندہ نہیں ہوں جو یہ کہہ رہا ہوں۔ جائیں اور ایک غریب سے پوچھیں پھر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ میں ٹھیک بول رہا ہوں کہ غلط۔ یہ ہو سکتا ہے کہ غریبوں کی آواز کو قوت سے دبایا جائے مگر یاد رکھیں کہ یہ قوت زیادہ دیر تک نہیں رہنے والی۔ اس قوت سے صرف آپ وقتی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کی آوازوں کو دبائیں گے تو ان کے دل میں آپ کے لیے نفرت پیدا ہو جائے گی۔ میں آپ کو یہ بتا دوں کہ انگریزوں کے دور سے زیادہ کرپشن آج ہو رہی ہے۔ آپ میرے بارے میں جو بھی رائے قائم رکھیں مگر میری تقریر کا مقصد تباہی لانا نہیں ہے۔ مہربانی کر کے حقائق کی طرف آئیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اگر آپ اسے پاکستان کے لیے مفید پائیں تو لے لیں ورنہ اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیں ۔
ہم انگریزوں کو کیوں نکالنا چاہتے تھے اس لیے کہ ہم اپنے وطن پر خود حکومت کریں، اب جب ہم نے انگریزوں سے اپنا وطن لے لیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ انگریزوں کو بلایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہی پرانی حکمت عملی دیکھتے آرہے ہیں، وہی پرانی حکمت عملی چاہے صوبہ سرحد میں ہو یا قبائلی علاقوں میں۔ ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔
مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائی لوگوں نے اپنے صوبے کے لوگوں کو گورنر بنایا بلکہ عورتوں کو بھی گورنر بنایا لیکن کیا پنجاب اور بنگال میں مسلمان نہیں ہیں جنہیں گورنر بنایا جاتا؟ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ انگریزوں کو ہمارے سروں پر سوار کیا گیا ہے. کیا یہ اسلامی برادری ہے؟ کیا ہم اسے بھائی چارہ کہیں؟ یہ اسلامی پاکستان ہے۔ یہ ایڈمنسٹریشن میں نہ خرابی ہے بلکہ یہ وہی آرڈیننسس ہے جو مجھے سخت خفا کر دیتی ہے، اگر کوئی غیر یہاں آیا ہے تو وہ ہمارے فائدے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ اپنے مقصد سے آیا مگر مجھے انگریزوں سے اب کوئی گلہ نہیں۔ گلہ مجھے پاکستانی حکومت سے ہے کیونکہ پاکستانی حکومت چلانے والے ہمارے بھائی ہیں اور یہ ہماری حکومت ہے۔ ہمیں اب انگریزوں کی پرانی چالوں کو خیرباد کہنا چاہیے۔ اگر ہم اسی پرانی حکمت عملیوں پر عمل کریں گے تو میں آپ کو یہ واضح کر دوں کہ یہ پاکستان جو بہت مشکلات کے بعد ملا ہے، ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
-
ابوالاعلی کو ”تحقیق“ پسند ہے – حاشر ابن ارشاد
کہانی ہو کہ افسانہ، مضمون ہو یا خاکہ، تنقید سے کچھ بھی مبرا نہیں مگر تنقید بےسروپا لفظوں کو صفحے پر کھینچنے کا نام نہیں ہے۔ نقاد کے کندھوں پر معیار، اسلوب اور نکتہ آفرینی کا بوجھ ہوتا ہے۔ ہر جملہ دلیل نہیں ہوتا اور ہر دعوی سچ نہیں بنتا جب تک کہ منطق اور حوالوں کی بھٹی سے کندن ہو کرنہ نکلے۔
لینہ میری شریک حیات ہیں۔ میں انہیں اپنی 4/3 بہتر کہتا ہوں کہ صرف نصف بہتر کہنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کچھ دن پہلے ان کا افسانچہ ”خواجہ سرا کا مرنے کے بعد اپنی ماں کو خط“ چھپا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے الفاظ ضمیر کی وہ دستک بن گئے جنہوں نے کتنے ہی دلوں پر پڑے قفل کھول ڈالے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اخبار کی اشاعت بھی سینکڑوں اور ہزاروں میں فخریہ گنی جاتی ہے اس کو لاکھوں لوگوں نے پڑھ ڈالا۔ بات پڑھنے تک نہیں رہی، دو صفحات پر لکھے اس نوحے نے آنسووں میں بھیگی ایسی نئی صبح کو جنم دیا جس نے ہر بیدار کے لیے زندگی کو دیکھنے کے زاویے بدل ڈالے۔
جہاں تحسین ہو وہاں تنقید خود چلی آتی ہے مگر تنقید کے ترکش سے اس پر بس ایک ہی تیر چلا اور میری ناقص رائے میں تیر چلا بھی اندھیرے میں اور اتنا بےڈھنگا کہ شک ہوا کہ تیرانداز نے اپنے دروناچاریہ کو انگوٹھے پہلے بھینٹ کیےاور کمان اٹھانا بعد میں سیکھا۔ دلیل ڈاٹ پی کے پر اشاعت کے بعد جناب عامر خاکوانی نے اس تنقیدی جائزے کو اپنی فیس بک وال سے ”انتہائی اہم“ کی سرخی کے تحت شیئر کیا۔ ابوالاعلی صدیقی صاحب کے اس مضمون کا ایک بہتر عنوان ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا“ ہو سکتا تھا، مگر انہوں نے اس کا نام ”افسانے کی حقیقت“ رکھنا مناسب خیال کیا۔ یہ نام بذات خود اس کی ”دلیل“ ہے کہ ان کی سخن فہمی کس مقام پر فائز ہے۔
لینہ سے پوچھا کہ وہ اس کا جواب لکھنا پسند کریں گی تو وہ ”ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے“ کی تصویر بن گئیں۔ کرنے کو تو شاید یہی مناسب تھا مگر ہم نے ویسے زندگی میں اور کون سے مناسب کام کیے ہیں جو اب چپکے بیٹھے رہتے۔ یہی سوچ کر کچھ اس بارے آپ سے بانٹ لیتے ہیں۔
آغاز مضمون میں حضور نے کہا کہ سوشل میڈیا پر لکھنا وہ انتہائی مشکل سمجھتے ہیں۔ ان کی تحریر کو پڑھنے کے بعد اس جملے سے اس خادم کو بھی کما حقہ اتفاق ہے۔ سچائی کا کوئی مول نہیں۔ اس مشکل کا حل انہوں نےیوں نکالا کہ سب سے پہلے انہوں نے غامدی مکتبہ فکر کو باڑھ پر رکھ لیا ۔ فرماتے ہیں ”غامدی طبقہ فکر پاپولر بیانیے کے مطابق اپنے خیالات کو پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور ایک ایسی ہی نئی کوشش”خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط“ کے نام سے ایک افسانہ ہے۔ معاملہ یہ ہےکہ اصل زندگی میں حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔“
جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے اس پر چنداں اعتراض نہیں کہ ابوالاعلی صاحب غامدی طبقہ فکر کو پاپولر بیانیے کا نقیب سمجھیں مگر انہوں نے کس طرح اس افسانے کا تعلق فکر غامدی سے جوڑا ہے، اس راز سے پردہ وہ ہی اٹھائیں تو اٹھائیں، ہم تو بس سر ہی دھن سکتے ہیں۔ اس لیے اس سازشی مفروضے کو یہاں چھوڑتے ہیں اور جناب کے اصل زندگی والے حوالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
جناب نے امریکہ کے ”شماریاتی ادارہ“ کا حوالہ دے کر یہ فرمایا ہے کہ امریکہ میں پیدائشی خواجہ سرائوں کا تناسب لاکھ میں ایک سے کم ہے اور اسی شرح سے پاکستان میں اس حساب سے پیدائشی مخنث دو ہزار سے زائد نہیں ہو سکتے، کیونکہ تقریبا یہی تعداد امریکہ میں بنتی ہے۔ حضور نے ”شماریاتی ادارہ“ کا نام نہیں دیا نہ ہی تحقیق کے دورانیے کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس پر کیا تبصرہ کریں، تاہم ہم جواب میں انہیں ایک موقر تحقیق سے آگاہ کیے دیتے ہیں اور وہ بھی حوالوں سمیت۔ کیا یاد کریں گے۔
ولیم انسٹیوٹ نے جوں 2016ء میں ایک تحقیق شائع کی جس کو نیویارک ٹائمز سمیت تمام اخبارات نے رپورٹ کیا۔ اس رپورٹ سے ہرمن، گیٹس اور براؤن جیسے محققین کا نام وابستہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چودہ لاکھ سے زائد تیسری جنس کے لوگ موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے ہر ایک لاکھ میں کم ازکم 600 لوگ۔ اب یہ ابوالاعلی صاحب کی بیان کردہ شرح سے کچھ نوری سال کا فاصلہ ہے۔ اب کیا اس پر اور تبصرہ کریں۔جان ہاپکنز یونیورسٹی سے اگست 2016ء میں تین مقالے اسی حوالے سے منظر عام پر آئے جس میں تیسری جنس کے حوالے سے جینیاتی، نفسیاتی اور حیاتیاتی بحث موجود ہے۔ یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ کوئی بھی مرد یا عورت جب یہ سمجھنا شروع کر دے کہ وہ ایک غلط جسم میں مقید ہے تو وہ متعین کردہ دو جنسی تعریف سے باہر ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بزعم خود محقق کا یہ خیال ہے کہ خواجہ سرا کی تعریف پر صرف وہ پورا اترتا ہے جو کسی جسمانی کمی یا زیادتی کا پیدائشی سزاوار ہو تو اس کو تحقیق کے ہجے دوبارہ سے سیکھنے چاہییں۔
موصوف نے ایک بڑا کارنامہ یہ کیا کہ ایک مارکیٹ ریسرچ پراجیکٹ کا حوالہ دیا جو ایک ”مشہور“ فاونڈیشن کے لیے کیا گیا تھا۔ پراجیکٹ کا عنوان تھا، ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“۔ اب اس پر ناطقہ سر بگریباں ہے۔ ان کی علمیت کے وارے جائوں جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ مارکیٹ ریسرچ کس چڑیا کا نام ہے۔ آئیے پہلے تو آپ کو مارکیٹ ریسرچ کی مروجہ تعریف بتا دیں۔
“Marketing research is the process or set of processes that links the producers, customers, and end users to the marketer through information — information used to identify and define marketing opportunities and problems; generate, refine, and evaluate marketing actions”اب کوئی ”پاکستان میں خواجہ سراؤں کی زندگی کی مشکلات اور ان کا ممکنہ ازالہ“ میں سے اس تعریف کا کوئی ایک جز بھی برآمد کر دے تو اس کو ستارہ امتیاز سے نوازنا چاہیے۔ پھر اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ایک تحقیق جو مشکلات کے ازالے کے موضوع پر ہوتی ہے، اس میں سے نکلتا ہے خواجہ سرا کا ایک بھیانک ولن نما کردار، اغواکار اور قومی شناخت کا ایک عجیب و غریب حساب کتاب، جس کے فورا بعد غامدیت پھر نشانے پر آجاتی ہے۔ ذرا مقالے کا منتہا ملاحظہ کریں
”بچوں کے اغوا کار گروہ کو جو بے بس سمجھتا ہے، وہ خیالوں کی اس دنیا میں تو رہ سکتا ہے جہاں سے غامدی صاحب قرآنی آیات منسوخ کرتے رہتے ہیں مگر حقیقی دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں.“
”حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں“خواجہ سراوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے والا ”مارکیٹ ریسرچ پروجیکٹ“ اس دوران پہلے فوکس گروپ اور انٹرویو کا لبادہ اوڑھتا ہے، پھر سروے کا روپ دھارن کرتا ہے اور پھر اپنی زنبیل میں سے مشکلات ڈھونڈتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اگر مقتول خواجہ سرا ہوں اور قاتل غیر خواجہ سرا اور اگر قاتل دھرے جائیں تو اس سے ثابت ہوا کہ پولیس، ایم آئی، آئی بی، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی سب خواجہ سرائوں کے دست شفقت کے محتاج اور نگاہ کرم کے رسیا ہیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگاتاہم ابھی بھی تان سلامت تھی، ٹوٹی تو اس انکشاف عظیم پر کہ اوسطا خواجہ سرا 39 سال کی عمر میں ایک کربناک موت کے ساتھ دنیا کو اور اپنی سرپرست غیر ملکی این جی اوز کو داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جاتی ہیں ان کی یادیں اور مہلک جنسی بیماریاں۔ اس کے لیے انہوں نے ”ایک سروے کے مطابق“ کا انتہائی معتبر حوالہ بھی دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ پولیس کو بچے فراہم کرنے کا بین الصوبائی ٹھیکہ بھی خواجہ سرائوں کے پاس ہے۔ آخر دم انہوں نے درخواست کی کہ افسانوں کے ذریعے ان کے لیے ہمدردی جگانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان کی درخواست پر ہم نے مذکورہ افسانے کو پھر سے کنگھالا کہ اس میں سے گرو اور اغواکاروں اور خواجہ سرا گروہوں کے لیے کوئی چھٹانک بھر ہمدردی کی اپیل برآمد کر سکیں مگر وائے ناکامی۔
خواجہ سرا کا خط ایک المیے سے عبارت ہے۔ ان بچوں کا نوحہ ہے جنہیں ان کے اپنے ماں باپ سمجھ نہیں پاتے۔ اس معاشرے کا مضمون ہے جو ان کی معصومیت کو کچل ڈالتا ہے۔ اس بھوک اور افلاس کی ننگی داستان ہے جو ڈار سے پچھڑ جانے والوں پر گزرتی ہے۔ اس سماج کی تصویر ہے جس میں جسم بیچنے کی سزا بھی موت ہے اور جسم نہ بیچنے کی سزا بھی موت ہے۔ اس دورنگی کی کہانی ہے جو ہر چہرے پر رقم ہے۔ یہ دکھ کے لفظ ہیں۔ آنسووں میں گندھے جملے ہیں جو کسی نے دل ویران کے صفحے پر بکھیرے ہیں۔ ایک جی کا غم ایک افسانہ بنتا ہے۔ اگر پورا شہر روشن ہے تو کہیں ایک گلی تاریک بھی ہوتی ہے۔ اس کا اندھیرا اسی گلی میں دیا جلانے سے کم ہوگا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر باقی ساری گلیاں نور میں نہائی بھی ہوں۔ درد کی شدت شماریاتی تجزیوں اور تحقیق کے پلندوں سے کم نہیں ہوتی۔ درد دوا مانگتا ہے۔ زخم مرہم کی حاجت رکھتا ہے۔ تم سب زندہ ہو تو ضروری نہیں کہ آج کوئی قبر نہ کھدی ہو۔ یہ سمجھنے کے لیے مگر ایک دل چاہیے جو کسی سروے کے جوابات میں نہیں ملتا۔
تحقیق کریں مگر پہلے اس کے حروف تہجی تو گن لیں۔ سلطان فلم کا گانا لڑکے بالے بجاتے ہیں۔ ”بے بی کو بیس پسند ہے“، جتنی اس میں بیس ہے اسے بس بے بی ہی پسند کر سکتی ہے اور جتنی حضور کے مضمون میں تحقیق ہے، اسے آپ ہی پسند کر سکتے ہیں۔ خوش رہیے۔
-
یومَ دفاع اور دیسی لبرلز – قاضی حارث
مارچ کا مہینہ تھا.
مری کی یخ بستہ رات تھی. درجہ حرارت بھی منفی میں تھا۔
مری کینٹ میں چہل قدمی کرتا ہوا اچھی طرح فوجی چھاؤنی کا جائزہ لے رہا تھا.
زندگی کے بہترین اور پر کیف لمحات میں سے کچھ لمحات تھے، یخ بستہ رات، مری کی ٹھنڈ، ہریالی اور لمبی واک۔ ان لمحات کو پوری وسعت کے ساتھ یادداشتوں میں مقید کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اکثر ہوتا یوں ہے کہ وقت گزرنے کے بعد اسکی سوچ زیادہ سرور دیتی ہے.
چلتے چلتے اچانک نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر ایک قرآنی آیۃ لکھی ہوئی تھی:
[pullquote]وَاَعِدُّوْا لَـهُـمْ مَّا اسْتَطَعْتُـمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّـٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِـهِـمْۚ لَا تَعْلَمُوْنَـهُـمُ اللّـٰهُ يَعْلَمُهُـمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ يُوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُـمْ لَا تُظْلَمُوْنَ. سورہ بقرہ آیۃ 60[/pullquote]اور ان (کفار) سے لڑنے کے لیے جو کچھ قوت سے اور صحت مند گھوڑوں سے جمع کرسکو سو تیار رکھو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کے سوا دوسروں پر رعب پڑے، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے، اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے تمہیں (اس کا ثواب) پورا ملے گا اور تم سے بے انصافی نہیں ہوگی۔”
نہ جانے کیوں ایک دم رونگٹے کھڑے ہوگئے. عجیب سا سرور ملا.
جگہ کی مناسبت سے آویزاں یہ آیۃ ایک دم دل کو لگی۔
پھر سوچنے لگا کہ اللہ کے دشمن تو اسکے دین کے دشمن ہوگئے,
ہمارے دشمن ہماری اسلامی سرحدوں کے دشمن ہوگئے.
یہ تیسرے لوگ کون ہیں جنہیں اللہ رعب دکھانا چاہتا ہے اور ہمیں کہتا ہے کہ تم نہیں جانتے وہ لوگ کون ہیں.
میں سوچتا رہا پر سمجھ نہ آیا.
لیکن!!!
اب جب دیسی لبرلز کو پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں پر طعن و تشنیع اور یوم دفاع پر تاریخ کو مسخ کرتے دیکھا تو وہ تیسرے لوگ بھی سمجھ آگئے.
نعرہ تکبیر
اللہ اکبر -
اندھا اعتماد…. ناد علی
تحریر ناد علی
یہ داستانِ عروج و زوال’ تخلیق کائنات یعنی ابتدائے آفرینش سے لے کر حیات بشر تک آتی ہے .
پھر اشرف المخلوقات کا اعزاز سے پانے سے لے کر حیات انسانی میں پائی گئی نشانیوں کو’ اس داستانِ عروج و زوال کو بارہاں کلام پاک میں دہرایا جاتا ہے ..
مگر کس لیے ؟
لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہوتی یہ داستان تخلیق کچھ مزید پیچیدہ دکھائی دیتی ہے جیسے کہ کسی مٹیالن کے گہرے گھنے بال کہ جب انکی میڈھیاں بنائی جاتی ہیں تو سانس کچھ پل رکتی نظر آتی ہے …
اشرف المخلوقات کو جو کہ اپنی پیدائش پہ نازاں نظر آتی ہے اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ
هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ
ھل استفہامیہ کے ساتھ جهنجوڑ کر یہ بات پوچھی جاتی ہیکہ کیا انسان پر وہ وقت وہ زمانہ نہیں گزرا ؟
لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
کہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا .
پھر آخر ایسی کیا تغیر پزیری ہوئی حیات انسانی میں کہ وہ اپنے خالق یعنی مالک کن فیکون کا ہی انکار کر بیٹھا اور ظلم و بربریت کے وہ بازار گرم کیے کہ انسانیت سسکتی بلبلاتی اور پھر دم توڑتی نظر ائی .
بازارِ نمائش حسن سے لے کر بازارِ قتل و غارت تک اس انسان نے جو صدیوں پہ محیط زمانے میں کوئی قابل ذکر شے نہ تها اس حیوان ناطق نے ایک لمحے کو بهی اس بازارِ نمود و نمائش کو سرد نہ پڑنے دیا ..
اس داستان بے کراں میں عقل کو کبھی تو بیڑیاں ڈال کر زندان کی سیر کرائی گئی تو کبھی یونان میں سقراط کے ہاتھوں زہر کا پیالہ پینے پہ مجبور کیا گیا
لاشعور سے شعور کا یہ سفر اس قدر اذیت ناک ہے کہ حیات انسانی خود ہی بلبلا اٹھتی ہے شعور انسانی کو کبھی تو بیچ بازار میں گھنگرو ڈال کے نچوایا گیا تو کبھی
پیروں تلے روندا گیا …
مگر کیا انسان نے پیدا ہونا چھوڑ دیا ؟
یا عقل و شعور کو پابند سلاسل کرنے کے بعد عقل نے جنم نہ لیا ؟
اگر ایسا نہیں تھا تو کوئی ایسا ذی حیات پیدا ہوا جو عقل کی بنیاد پہ سچ اور جھوٹ کی پرکھ کر سکے ؟
کسی عقل نے کسی متجسس روح نے کسی خود شناس نے اس صنم خانے میں خدا کی ذات کو تلاش کیوں نہیں کیا ؟
کوئی ایک شخص جس نے اپنی اور حیات انسانی کی ترجیح اول کو اس مسافر کی طرح ڈھونڈا جو صحرائے گوبی میں زندگی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے یا پھر کسی عقل نے توحید کی مئے غوروفکر سے چکھی ہو ؟
یہ وہ سوالات ہیں جو مذہب پر بصورت الزام دھرے جاتے ہیں اور مذہب کو blind faith تصور کیا جاتا ہے
مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایسا ہی ہے ؟
تقریباً 2ہزار تین سو سال قبل از مسیح ابراہیم بن تارخ بن ناخور نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ دور اپنے آباء و اجداد کے عقیدوں کی بقا کا دور تھا ہر شخص نے اپنا خدا بصورت بت خود تخلیق کیا ہوا تھا یہاں تک کے ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میں پروان چڑھے وہ خاندان بذات خود بت فروش تھا ..
ابراہیم نے اپنے ارد گرد بت فروشی سے لے کر بت پرستی تک کو دیکها مگر ایک دفعہ بھی کسی بت کے آگے نہیں جھکے..
اسلام کو blind faith کہنے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ نو عمر ابراہیم اپنے بت فروش چچا کو یہ کہتے ہیں کہ
لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا..
آپ کیوں معبود بناتے ہیں انکو جو نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپکی کوئی مدد کرتے ہیں ..
ابراہیم اپنی قوم سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں اور دلائل کی بنیاد پہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے انکی بت پرستی کو رد کرتے ہیں
اس قوم میں صرف بت پرست ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ایک کثیر تعداد ستارہ پرست’ چاند کو خدا ماننے والوں اور آگ برساتے سورج کو سجدہ کرنے والوں کی ہے .
ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ بھی آتے ہیں اور اپنے مذہب کی دعوت دیتے ہیں ابراہیم مشاہدہ کرتے ہیں ستاروں اور چاند کا’ غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں
بے شک میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا پھر سورج کی طرف نگاہ التفات کرتے ہیں شام تک کا مشاہدہ جب سورج کو ڈوبتا ہوا دکھاتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں کہ میں بیزار ہوں تمہارے ان خداؤں سے …
پهر نوبت بت شکنی تک پہنچتی ہے مگر وہ بهی ناصحانہ انداز میں بڑے بت کے علاوہ سبهی کو توڑتے ہیں اور قوم جب اپنے خداؤں کی حالت دیکهتی ہے تو ابراہیم سے پوچهتی ہے تو کس قدر تفکر میں ڈوبا ہوا جملہ ادا کرتے ہیں کہ پوچهو اپنے بڑے سے اسی نے توڑا ہوگا …
قوم اپنے منہ سے خود کہتی ہے ابراہیم..! یہ تو بولنے والے نہیں بھلا یہ کہاں بتائیں گے ؟ ابراہیم کہتے ہیں تو کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے ؟
اسلام کو blind faith کہنے والوں سے یہ سوال کرنا مناسب ہوگا کہ کیا اپ نے کبھی اپنے حریف سے اسکی شکت کا اعتراف اسی کی زبان سے کروایا ؟
کیا ابراہیم کی یہ باتیں صرف جذبات ہیں محبوبانہ عقل کے سامنے ؟
کیا یہ باتیں تفکر و تدبر پہ مبنی نہیں ہیں ؟
یا پھر ناقدین اسلام بھی ایک اندھی تقلید میں پڑے ہیں جو ابراہیم کا نہیں ابراہیم کی قوم کا وطیرہ ہے …
ہم پھر آگے دیکھتے ہیں ابراہیم کو دربار جاہ و جلال میں اس نمرود کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو جبر و قہر کا منبع نظر آتا ہے اور اپنے زعم میں خود ہی خدا بنا بیٹھا ہے
تمام درباری سر جھکائے کھڑے ہیں دل دھک دھک کرنا بھول جاتے ہیں کہ جب عقیدوں کے پیمانے ٹوٹتے ہیں تو انسان پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے
مناظرہ شروع ہوتا ہے
نمرود ابراہیم علیہ السلام سے سوال کرتا ہے
کون ہے تمہارا رب ؟
قال ابراہیم ربی الذی یحیی و یمیت
ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ،
اجسام میں موت و حیات کو پیدا کرتا ہے ، ایک بے جان نطفے سے ایک رقیق سیال مادے سے عدم سے وجود میں لاتا ہے، لا سے الا کرتا ہے نیست سے ہست میں بدلتا ہے..
قال انا احی و امیت ..
نمرود نے کہا میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں .
پھر بطور دلیل دو شخصوں کو بلاتا ہے ان میں سے جسے آزادی کا پروانہ تھمایا جا چکا تھا اسے قتل کرتا ہے اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے..
عقلمندوں پر ظاہر ہو چکا تھا کہ جواب ممکن نہیں مگر نمرود احمقانہ دلیل پیش کرتے ہوئے خود کو بچانے کی سعی کرتا ہے ..
ابراہیم بولے اچھا ؟
بےشک میرا اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے آپ اسکو مغرب سے لے آئیے ..
فبھت الذی کفر ..
کافر مبہوت ہو کہ رہ جاتا ہے ہوش اڑ جاتے ہیں
آپ بس ایک لمحے کو خود کو دربار نمرود میں تصور کیجئے اور دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ ابراہیم کے دلائل’ ابراہیم کا دین اندھوں کا دین ہے ؟
کیا ابراہیم کا دین بغیر سوچے سمجھے مفروضے قائم کرنے اور پھر ان پر ایمان لانے کا دین ہے ؟
آپ کی شکست خوردہ نظر واپس لوٹ آئے گی
مگر نشانیاں تو سوچنے والوں کے لیے ہیں ..
اس ذی حیات کے لیے ہیں جو دی گئی عقل کو استعمال کرتا ہے سوچتا ہے سمجھتا ہے …
نیٹشے کا یہ قول سنانے والے کہ
‘ if u wish to strive for peace of soul and happiness,
Then Believe ,
If u wish to to be disciple of truth ,
Then inquire ‘
ہمیں blind faith کا طعنہ دیتے ہیں
مگر مصیبت در مصیبت یہ ہیکہ قرآن اٹھا کر نہیں دیکهتے
کیا قرآن غوروفکر اور تحقیق سے منع کرتا ہے ؟
قرآن کیا کہتا ہے
ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً
اور وہ جو زمین و آسمان کی خلقت کے رازوں کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں( اور کہتے ہیں) اے پالنے والے تونے انھیں بیکار خلق نہیں کیا ہے۔
قرآن بھی تو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے تفکر و تدبر پہ آمادہ کرتا ہے اوندهے منہ آیتوں پہ پڑنے والوں کو چوپایوں سے بدتر کہتا ہے ..
مگر یہ کہ اسے کوئی کھولے تو سہی سمجھے تو سہی
یہاں تک تو تھا غیروں کا مسئلہ اور غیروں کی باتیں ..!
مگر اس سب میں امت مسلمہ کا زوال کیوں ہے ؟
زوال یوں ہیکہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
( علامہ اقبال علیہ الرحمہ)
اور بقول پروفیسر احمد رفیق عقل جہاں رکتی ہے وہاں بت خانہ تخلیق کرتی ہے ہم نے اس تحفہ خداوندی عقل و شعور کو پس پشت ڈالا، ہم نے اپنے زعم میں فرقہ پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک چھوٹے چھوٹے بت خانے تخلیق کیے اور پھر اسی پہ ڈٹ گئے …
واعظ نے ہمیں معجزوں اور تقدس کی دنیا میں گھمانے پہ اکتفا کیا
نخیل و اعناب کے قصے اور حوروں کی جلوہ گری ہی دکھائی بس’
فرقوں میں بانٹا اور خود مسند تقدس پہ براجمان ہو گئے اور ہم نے سہمے ہوئے یہ سب قبول کر لیا ..
مگر کیا ابراہیم علیہ السلام کا دین صرف معجزوں کا دین تھا ؟
ابراہیم علیہ السلام کا دین تو غوروفکر کا دین تھا ‘سوچ و بچار کر کے فیصلہ کرنے کا دین تھا
تحقیق کا دین تھا’ اپنے اعتقاد کو مضبوط دلائل پہ قائم کرنے والوں کا دین تھا .
ابراہیم علیہ السلام کا دین آیتوں پر اوندھے منہ پڑنے والوں کا دین نہی تھا blind faith والوں کا دین نہی تھا چمتکار و فریب روزگار کا دین نہی تھا ابراہیم کا دین اسلام تھا صرف اسلام ..
مگر ہم نے کیا ظلم کیا اپنی جانوں پہ آج ہمارا دین کیا ہے ..؟
آج ہمارا دین سنی ہے شیعہ ہے وہابی ہے دیوبندی ہے اہل حدیث ہے نہی ہے تو اسلام نہیں
اب یہ ہیکہ
یہ زوال ختم نہیں ہونا یہاں تک کہ فرقوں سے آگے نکل کر ہم دین ابراہیمی پہ اپنی دلیلوں کو استوار نہ کر لیں عقل و شعور کا ادراک کر کے اسے جانچ نہ لیں .
ہم جس دن اسلام کی اصل کو لوٹے وہ امت مسلمہ کے زوال کا آخری دن ہوگا
کہ
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن.