Blog

  • معرکہ قریب ہے .. اوریا مقبول جان

    معرکہ قریب ہے .. اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480
    یہ وہ زمانہ تھا جب اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہونے والا تھا۔ دونوں جانب سے زور شور سے دلائل دیے جارہے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کے قوم پرست برطانوی استحصال کی مثالیں اسی طرح دیتے ہیں جیسے بلوچستان‘ سندھ‘ خیبرپختونخوا یا جنوبی پنجاب والے شکایتوں کی ایک طویل داستان تیار رکھتے ہیں۔ ایڈنبرا میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے ایک چیمبر میں مجھے پاکستانی نژاد ممبر پارلیمنٹ حنظلہ ملک سے گفتگو کا موقع ملا۔

    گلاسکو سے لیبر پارٹی کی جانب سے منتخب ہونے والا یہ شخص 1995 سے 2012 تک گلاسکو میں سٹی کونسلر رہا‘ پولیس اور فوج کی نوکری کی اور ذاتی کاروبار بھی۔ برطانیہ میں اس زمانے میں مسلمانوں‘ خصوصاً ایشیائی مسلمانوں کے بارے میں نفرت کے جذبات زور پکڑ رہے تھے۔ عراق میں دولت اسلامیہ کا عروج ہوا تھا اور اسکاٹ لینڈ کے صحافی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس صحافی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے وہاں کے مسلمان بھی جمع ہوئے تھے‘ لیکن برطانیہ کے گورے انھیں شک کی نظر سے ہی دیکھتے رہے۔
    حنظلہ میری ملاقات کے وقت یعنی آج سے دو سال قبل 58 سال کا تھا‘ پیدائشی طور پر پاکستانی باپ اور پیدائشی طور پر برطانوی ماں کا بیٹا پانچ سے زیادہ دہائیاں یہاں گزارنے کے بعد اپنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے مستقبل سے سخت مایوس تھا۔ کہنے لگا میں ان لوگوں کے درمیان پلا بڑھا ہوں‘ میں ان کے چہرے پر آنے والی سلوٹوں سے پہچان لیتا ہوں کہ یہ ہم سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ لیکن جتنی نفرت یہ ہم سے آج کررہے ہیں اتنی گزشتہ پچاس سالوں میں بھی انھوں نے نہیں کی۔ مسلمانوں کو تیار رہنا چاہیے‘ ایک ایسے وقت کے لیے جب انھیں یورپ کے شہروں سے ایسے ہی نکالا جائے گا جیسے انھیں کئی صدیاں قبل اسپین سے نکالا گیا تھا۔ ہمارے گھر‘ ہماری گاڑیاں اور ہمارے کاروبار پر ان کی نظریں ہیں۔

    یہ ہماری محنت سے حسد بھی کرتے ہیں اور ہم سے شدید نفرت بھی۔ ان دو سالوں میں پاکستانی والدین کے گھر پیدا ہونے والے برطانوی مسلمان رکن پارلیمنٹ کے الفاظ ایسے لگتا ہے حرف بہ حرف سچ ہوتے نظر آ رہے ہیں پورا یورپ گزشتہ پندرہ سالوں سے آبادی کے ایک بحران میں مبتلا تھا اور آج بھی ہے۔ یورپ کے پاس افرادی قوت کی کمی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے ایک بوڑھے کے مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی تعداد موجود ہونا چاہیے۔ لیکن یورپ کے اکثر ممالک میں یہ تعداد ایک بوڑھے کے مقابلے میں دو یا زیادہ سے زیادہ تین نوجوانوں تک رہ گئی ہے۔ مانع حمل ادویات یوں تو دنیا بھر میں آبادی کو کم کرنے کے لیے مارکیٹ میں لائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس کا نتیجہ خوفناک نکلا۔ خاندانی نظام پہلے سے ہی تباہ ہو چکا تھا‘ اب ان ادویات کی آسان دستیابی کی وجہ سے لوگوں نے بچے پیدا کرنا ہی چھوڑ دیے۔

    یہ سوچ پروان چڑھی کہ اپنی زندگی مزے سے گزارو‘ آیندہ نسل بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ترغیبات دی گئیں۔ نہ صرف ماؤں بلکہ باپوں کو بھی تنخواہ سمیت چھٹیوں کا لالچ دیا گیا تاکہ بچے پیدا کریں۔ لیکن اس تباہ حال خاندانی نظام میں کوئی اولاد پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ وہ کہتے ہیںکہ بڑھاپے میں اگر وہ ایک اولڈ ایج ہوم میںزندگی بسر کریں گے تو وہاں بہترین طبی سہولیات ہوں گی‘شاندار کھانا‘ نفسیاتی معالج‘ کھیل کود اور ورزش کا انتظام‘ غرض سب کچھ میسر ہو گا۔ ایسے میں ایسی اولاد پیدا کیوں کریں جس نے انھیں بڑھاپے میں ایسے ہی اولڈ ہوم میں چھوڑ جانا ہے۔

    اس لیے یورپ میں افرادی قوت کی شدید کمی واقع ہوئی۔ اس خلا کو پرکرنے کے لیے پہلے ایشیا اور افریقہ سے لوگ آئے تھے۔ ان کو میونسپل‘ ریلوے‘ ٹریفک اور دیگر نظام چلانے تھے۔ یورپی یونین بنا تو وہ مشرقی یورپ جو کمیونزم کے زیر اثر غربت و افلاس کی زندگی گزار رہا تھا‘ وہاں سے لوگ اٹھ کر مغربی یورپ کے امیر ملکوں میں آنے لگے۔ پولینڈ نے تو نقل مکانی میں وہی شہرت حاصل کر لی جو کبھی پاکستانی اور انڈین کو حاصل تھی۔ فرانس میں افریقی اور خصوصاً شمالی افریقہ کے لوگوں نے آباد ہونا شروع کیا کہ فرانسیسی زبان ان کے لیے مسئلہ نہ تھا۔ مدتوں یہ ملک فرانس کی کالونی رہے تھے۔ برطانیہ پر تو جیسے حملہ ہی ہو گیا۔

    یہی بنیادی وجہ تھی جس نے برطانیہ کے عوام کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ یہ لوگ تو یورپ کے باشندے تھے‘ ویسے ہی کا کیشیائی نسل سے تعلق اور عیسائیت مذہب کو اپنائے ہوئے‘ پھر بھی ان کو روکنے کے لیے اسقدر سخت قدم اٹھایا گیا کہ پونڈ کی قیمت تاریخی طور پر کم ترین مقام تک گر گئی۔ جب کہ مسلمانوں سے نفرت دن بدن عروج پکڑتی جا رہی ہے اور PEW ریسرچ سینٹر کی گزشتہ کئی سروے رپورٹس شایع ہوئیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یورپ میں مسلمانوں سے نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

    پہلی رپورٹ میں یورپ میں موجود مسلمانوں کی پانچ اہم خصوصیات بنائی گئی ہیں۔ (1جرمنی اور فرانس میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور پورے یورپ میں یہ آبادی کا 7.5 فیصد ہیں جب کہ صرف روس میں ان کی تعداد 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ (2 مسلمان ہر دس سال بعد ایک فیصد زیادہ آبادی میں حصہ دار ہو جاتے ہیں-3مسلمان زیادہ تر نوجوان ہیں ان کی اوسط عمر 32 سال جب کہ عیسائی آبادی کی اوسط عمر42 سال ہے یعنی یہ کچھ عرصے بعد آبادی کا زیادہ بڑا حصہ بن جائیں گے۔(4 مسلمانوں کے خلاف اٹلی اور پولینڈ میں سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے جو بالترتیب 61 اور 56 فیصد ہے جب کہ اسپین میں42فیصد اور جرمنی‘ فرانس میں24 فیصد لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔

    -5یورپ میں 2010 کے بعد ایک کروڑ تیرہ لاکھ مسلمان عراق‘ کوسود‘ بوسنیا اور مراکش سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچے ہیں جن کی وجہ سے معاشرتی صورت حال مزید گمبھیر ہوگئی ہے۔ PEW ریسرچ سینٹر کی دوسری رپورٹ دسمبر 2015 میں شایع ہوئی۔ اس میں انھوں نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دنیا کے باقی مذاہب کے لیے ایک سوالیہ نشان کے طور پر بتایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2050 تک 35فیصد اضافہ آبادی میں متوقع ہے اور جس طرح مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دیگر مذاہب کی کم ہو رہی ہے‘ 2050 میں مسلمان دنیا میں 75فیصد زیادہ ہوں گے‘ عیسائی35 فیصد‘ ہندو34فیصد‘ یہودی 16 فیصد‘ علاقائی مذاہب 11فیصد‘ غیر مذہبی9 فیصد‘ چھوٹے مذاہب6فیصد اور بدھ منفی اعشاریہ 3فیصد بڑھیں گے۔ یعنی سب سے زیادہ اضافہ مسلمانوں کی آبادی میں ہو گا اور اگر یہی صورت حال جاری رہی تو صدی کے آخر تک مسلمان عیسائیوں سے زیادہ ہو جائیں گے۔

    اصل خطرہ آبادی سے نہیں بلکہ اصل خطرہ نظریات سے ہے اور اس سوچ سے ہے جو اس وقت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے‘ PEW کے سروے کرنے والوں نے سوال کیا کہ کیا آپ شریعہ قوانین چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ سوال صرف مسلمانوں سے پوچھا گیا۔ تمام تر مغربی میڈیا‘ سیکولر تعلیم اور ترغیبات کے باوجود سوال بہت حیران کن تھا۔ یہ تازہ ترین سروے جو نومبر 2015 میں ہواہے۔ اس کے مطابق افغانستان میں99 فیصد‘ عراق میں91 فیصد‘ فلسطین میں89 فیصد‘ ملائیشیا میں86 فیصد اور پاکستان میں84فیصد مسلمان شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ نائجیریا میں86فیصد‘ جبوٹی میں82فیصد‘ مصر میں74فیصد‘ مراکش میں85 فیصد‘ بنگلہ دیش میں 82فیصد‘ کانگو میں74فیصد‘ اردن میں71فیصد اور روس جیسے ملک میں بھی 42 فیصد مسلمان شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ جب داعش یا دولت اسلامیہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو لوگ بات کرنے سے ہچکچاتے رہے۔

    پاکستانیوں میں سے 62فیصد نے کوئی جواب دینے سے انکار کیا۔ نائیجیریا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 14 فیصد مسلمانوں اور 7فیصد عیسائیوں نے داعش کو اچھا تصور کیا۔ باقی تمام مسلمان ملکوں میں داعش یا دولت اسلامیہ کے بارے میں اچھا تاثر نہیں تھا لیکن PEW کا سروے کہتا ہے کہ یورپ میں بسنے والے عیسائی یا انگریز‘ فرانسیسی اور جرمن وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ یورپ کا تعصب اور نفرت ہے کہ وہ مسلمانوں کو اگر دہشت گرد نہ بھی سمجھیں تو ان کا ہمدرد ضرور تصور کرتے ہیں۔

    یہ ہے آج کا یورپ اور یہ ہیں آج کے مسلمان۔ یورپ جہاں ٹونی بلیئر کے خلاف رپورٹ آتی ہے اور یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر پندرہ لاکھ کے قریب عراقی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ لیکن حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس نے معافی صرف ان برطانوی سپاہیوں کے اہل خانہ سے مانگی جو جنگ میں مارے گئے تھے۔
    مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور ساتھ ان سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا جب کہ اس کے ردعمل میں پوری مسلم دنیا میں جس رد عمل کا مظاہرہ ہوا وہ یہ تھا کہ رنگ نسل‘ زبان اور علاقے میں بٹے ہوئے ستاون سے زیادہ اسلامی ممالک میں صرف ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دی اور وہ تھا شریعت کا نفاذ۔ یہی تو وہ نعرہ ہے جس سے پورا مغرب خوفزدہ ہوتا ہے۔ اسی نعرے کی گونج ہے کہ ساٹھ سال مغرب میں گزارنے والے بھی اب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اسپین ایک دفعہ پھر بننے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس آخری جنگ کا وقت قریب آ گیا جس کی پیش گوئی سید الانبیاء ﷺ نے فرمائی کہ اہل روم 80جھنڈوں تلے مسلمانوں سے لڑنے آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار سپاہی ہوں گے (مستندرک‘ ابن حبان)۔ یورپ میں بسنے والوں کو اس کا اندازہ ہے‘ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

  • ذاکر نائیک، دہشت گرد یا مبلغ اسلام؟  – اسامہ عبدالحمید

    ذاکر نائیک، دہشت گرد یا مبلغ اسلام؟ – اسامہ عبدالحمید

    گزشتہ پچیس سال میں عالمی سطح پر اسلام کی پہچان بننے والی شخصیات میں سے نمایاں ترین نام ڈاکٹر ذاکر نائیک کا ہے۔ دنیا بھر کا سفر کرکے اپنے حیرت انگیز حافظے کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے لاکھوں لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا، اسلام اور قرآن مجید پہ ہونے والے مختلف اعتراضات کا انتہائی مدلل انداز میں جواب دیا۔ اسلام کے مقابلے میں دیگر مذاہب میں در آنے والی خامیوں کی نشاندہی کی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کو اسلام میں لانے کا موثر ذریعہ ثابت ہوئے۔ موجودہ دور میں جبکہ اسلام سے منسلک ہر شخصیت اور ہر ادارے کو متنازع بناکر اس کا دائرہ کار محدود کرنے کی کوششیں اپنے عروج پہ ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی ایک مرتبہ پھر الزامات کی زد میں ہیں اور ان الزامات کو لے کر انٹرنیٹ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان کی کردار کشی جاری ہے۔ تازہ الزامات کے حوالے سے بات کرنے سے قبل ڈاکٹر صاحب کے ماضی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    اکتوبر 1965ء میں بھارتی شہر ممبئی میں جنم لینے والے ذاکر عبدالکریم نائیک بنیادی طور پر میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ بھارت ہی کی مختلف یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میڈیکل پریکٹس شروع کی۔ 1987ء میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور مبلغ اسلام شیخ احمد دیدات سے ہوئی۔ نوجوان ذاکر نائیک شیخ احمد دیدات سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے بھی اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا۔ 1991ء میں انھوں نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامک انٹرنیشنل سکول اور ”یونائیٹڈاسلامک ایڈ“ نامی این جی او بھی قائم کی، جس کا بنیادی مقصد غریب مسلمان نوجوانوں کو وظائف دے کر دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بنانا تھا۔ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی نگرانی میں ہی بعد ازاں ”پیس ٹی وی چینل“ کا آغاز بھی کیا گیا جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے علاوہ معروف پاکستانی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اورخلیل الرحمٰن چشتی کے دروس اور لیکچرز نشر کرتا ہے۔

    ان اقدامات کے ساتھ ذاکر نائیک نے لیکچرز اور مباحثوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان لیکچرز میں زیادہ تر اسلام اور جدید سائنس،اسلام اور عیسائیت،اسلام اور الحاد اور اسلام اور ہندو مت جیسے موضوعات پہ بات کی جاتی ہے۔ ذاکر نائیک کے بقول ان کے پیش نظر بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی موجودہ نوجوان نسل جو مذہب کے حوالے سے مغربی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو بھی ایک فرسودہ مذہب سمجھنے لگ گئی ہے، کے ذہنوں کو اپیل کیا جائے اور اس حوالے سے ان کے ذہنوں میں موجود سوالات کا جواب دیا جائے۔ انھوں نے روایتی مذہبی حلیہ اختیار کرنے کی بجائے پینٹ کوٹ اور ٹائی پہننے کو ترجیح دی اور انگریزی کو اپنا ذریعہ ابلاغ بنایا۔ چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم تیزی سے ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کے پروگرامات میں شرکاء کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔

    ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جو خوبی انھیں دیگر اہل علم سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا حیرت انگیز حافظہ ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ بائبل اور ہندومذہب کی مقدس کتب کی عبارات انھیں حوالوں سمیت اس حد تک یاد ہیں کہ وہ دوران گفتگو بغیر کسی معاون کے،ان عبارات کا باب نمبر اور صفحہ نمبر تک بتا دیتے ہیں۔ وہ اسلام کے حوالے سے شرکاء کے سوالات کے اتنے اطمینان بخش جواب دیتے ہیں کہ ان کے ایک ایک پروگرام میں بیسیوں افرادکلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب تک بلامبالغہ ہزاروں افراد کو مسلمان کرچکے ہیں۔2000 میں شکاگو میں ایک عیسائی مناظر سے ان کے مناظرےکے بعد کئی ہزار افراد نے ان کے ہاتھ پہ اسلام قبول کیا۔

    2006 میں ذاکر نائیک کی ملاقات شیخ احمد دیدات سے ہوئی تو شیخ احمد دیدات ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ اسی مجلس میں شیخ دیدات نے انھیں “دیدات پلس” کے خطاب سے نوازا۔ ان کی اہلیہ فرحت نائیک اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ویمن سیکشن کی انچارج ہیں۔

    ڈاکٹر ذاکر نائیک کی شخصیت بعض حوالوں سے تنقید کی زد میں رہتی ہے مثلاً واقعہ کربلا کے تناظر میں ان کا ایک خاص موقف ہے جسے برصغیر کے مذہبی ماحول میں قبول کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم اسلام کے ابلاغ کے حوالے سے خدمات ان کی متنازعات پہ غالب ہیں۔

    نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی ایک ایسا سلگتا موضوع ہے کہ اس بارے میں مین سٹریم سے ہٹ کر کوئی موقف رکھنا دریا کے بہاؤ کے الٹ بہنے کے مترادف ہے۔ عالمی میڈیا ٹوہ میں رہتا ہے کہ مسلم سکالرز کی کوئی دکھتی رگ ہاتھ میں آئے جس کو بنیاد بناکر ان پہ کیچڑ اچھالا جاسکے۔ بالخصوص اسامہ بن لادن کی شخصیت اور اس کے کردار پہ آپ کی وہی بات قبول کی جاسکتی ہے جو امریکہ اور غیر مسلم طاقتوں کے موقف سے ہم آہنگ ہو۔ چند سال قبل ایک انٹرویو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اسامہ بن لادن کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا گیا تو انھوں نے اسامہ کو دہشت گرد ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اسامہ بن لادن سے اس کی زندگی میں کبھی ملے ہی نہیں اور نہ ان کے پاس اس پہ لگائے گئے الزامات کا کوئی ثبوت ہے تو وہ اسے دہشت گرد کیسے مان سکتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ نائن الیون میں اسامہ کے کردار سے انکار کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ نائن الیون صرف ایک اندرونی ڈرامہ تھا جو جارج بش اور اس کے حواریوں نے مسلمان ممالک پہ حملے کے لیے رچایا تھا۔ اس میں بیرونی عناصر کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

    ایک اور انٹرویو میں ذاکر نائیک سے سوال کیا گیا کہ آیا قرآن میں مسلمانوں کو دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ انھوں نے اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا کہ جس طرح ایک ڈاکو کے لیے پولیس والے کی دہشت ہوتی ہے اور وہ اس سے مرعوب ہوتا ہے اس طرح ایک مسلمان کی دہشت اتنی ہونی چاہیے کہ سماج مخالف عناصر اس سے خوف زدہ رہیں۔ان معنوں میں انھوں نے ہر مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا۔ تاہم انھوں نے اسی گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اسلام معصوم افراد کے بہیمانہ قتل کی کسی طور اجازت نہیں دیتا اوراسی وجہ سے وہ خود بھی اس کے مخالف ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں جگہ دی گئی ۔ ایسے ہی بیانات کی بنیاد پہ کینیڈا اور برطانیہ میں ذاکر نائیک کا داخلہ ممنوع قرار پایا اوربھارت نے بھی 2012 میں پیس ٹی وی کی نشریات کو انتہائی قابل اعتراض قرار دے کر ان پہ ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔

    حالیہ دنوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک مرتبہ پھر شہ سرخیوں میں آئے جب رمضان المبارک میں وہ عمرے کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔ اسی دوران بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک کیفے پہ حملے میں کئی غیر ملکی ہلاک ہوگئے۔ چند گرفتاریوں اور تفتیش کے بعد بنگالی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث دہشت گرد ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پیروکار تھے اور وہ ان کے اس بیان سے متاثر تھے کہ مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے پیس ٹی وی چینل کی نشریات پہ فوری پابندی عائد کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے سفارش کی کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو گرفتار کر کے ان سے تفتیش کرے۔ چونکہ ان دنوں ڈھاکہ اور نئی دہلی میں ویسے ہی گاڑھی چھنتی ہے لہٰذا بھارتی وزارت داخلہ نے فوری طور پہ ایک کمیٹی قائم کرکے اس قضیے کی تحقیقات اس کے ذمے لگائیں۔اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سیکرٹری اطلاعات نے اعلان کیا کہ جو کیبل آپریٹرز ابوطبی سے آن ایئر ہونے والی پیس ٹی وی کی نشریات بھارت میں چلائیں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران ممبئی میں واقع اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس کا محاصرہ کرلیا گیا جو کئی گھنٹے جاری رہا۔ تاہم اس کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ ڈھاکہ کیفے حملے میں ذاکر نائیک کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔ وزرات داخلہ اب اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا فاؤنڈیشن اور پیس ٹی وی کو واقعی بیرونی ممالک بالخصوص سعودی عرب سے امداد ملتی ہے۔

    ذاکر نائیک نے مکۃ المکرمہ سےجاری ایک ویڈیو بیان میں ان الزامات پر افسوس کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ انھیں اور ان کے ادارے کو منصوبہ بندی کے تحت پھنسا کر اس کا کردار محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں اور انھوں نے کبھی معصوم شہریوں کے قتل حوصلہ افزائی نہیں کی۔

    طرفہ تماشا یہ ہے ایک جانب عالمی میڈیا نے ذاکر نائیک کی پریس کانفرنس کی کوریج کرنے سے معذرت کرکے ان کا موقف دنیا تک پہنچانے سے انکار کیا ہے تو دوسری جانب چند نادان مسلمان فرقہ وارانہ منافرت کو بنیاد بنا کر ذاکر نائیک کے خلاف عالمی پروپیگنڈے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو ممبئی کی ایک بڑی جامع مسجد کے علماء نے نماز جمعہ کے بعد ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ا س مظاہرے کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک کی قد آدم تصاویر پہ گوبر اور جوتے اچھال کر ان سے نفرت کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح بھارت کی ایک تنظیم حسینی ٹائیگرز نے ذاکر نائیک کے سر کی قیمت پندرہ لاکھ روپے مقرر کر دی ہے۔ان واقعات کی آڑ میں فرقہ پرستوں کو ذاکر نائیک کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع تو مل گیا ہے تاہم انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ

    ؎چراغ سبھی کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں

  • مسلمانوں کا ماضی، غیرمسلموں کی نظر سے – عماد بزدار

    مسلمانوں کا ماضی، غیرمسلموں کی نظر سے – عماد بزدار

    “دلیل” کے لیے کچھ لکھنے سے پہلے جب قیاس کے گھوڑے دوڑانے شروع کیے تو سوچا کہ کیا کچھ ایسا لکھا جائے. سوچتے سوچتے اس نتیجے پر پنہچا کہ کیوں نہ ایک ایسے رحجان پہ لکھا جائے جس نے آج کل توجہ ذرا ضرورت سے زیادہ ہی اپنی جانب مبذول کروا لی ہے.

    ہوتا یوں ہے کہ سوشل میڈیا کے بزعم خود ملک الشعرا میں سے کوئی ایک مسلمانوں کی موجودہ حالات کو بنیاد بنا کر طرح مصرع یارانِ نقطہ داں کے لیے فیس بک کے بحرِ ظلمات میں اچھال دیتا ہے، پھر ویلے مقتدی ، بلا تخصیص جنس و عمر اُ مّہ کی لتریشن میں پوری غزل کہہ ڈالتے ہیں.
    .میری نظر میں ایسے لوگوں کی درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔
    1۔ مذہب بیزار
    2۔ مسلمانوں کی موجودہ حالات سے ناخوش مخلص مسلمان
    3۔ حاضر پیچھے امام کے چلنے والے ’’انے واہ‘‘ مقتدی
    .
    اس تحریر کے بنیادی مخاطب یہی لوگ ہیں کہ عام زاویوں پر چلنے کے بجائے اپنی آنکھوں سے معاملات کو سمجھیں، جیسے سیانے کہتے ہیں کہ دستار کے ہر پیچ کی تحقیق لازم ہے کہ ہر صاحبِ دستار معزز نہیں ہوتا ویسے ہی ہر بڑے لکھاری کے ایک ایک لفظ کو تحقیق کے معیار پر جانچیں پرکھیں اور رائے رکھیں کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر بڑا لکھاری سچ بھی بول رہا ہوتا ہے یا حقائق ہی بیان کر رہا ہوتا ہے.
    .
    اس میں ہرگز دو رائے نہیں کہ موجودہ مسلم دنیا ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے. اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں منیر نیازی کی زبانی ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہر دے لوک وی ظالم نیں تے سانوں مرن دا شوق وی ہے.اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ہمیں موجودہ حالات سے نکلنے کے لیے جہاں زیادہ خود احتسابی کی ضرورت ہے وہیں ایسا کرتے ہوئے دانستہ یا نادانستہ حقائق کو مسخ کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک متوازن رائے رکھنی چاہیے. اپنی داخلی کمزوریوں، کمیوں کوتاہیوں کے بارے ہمارا رویہ کسی گاؤں دیہات کے “ملامتی صوفی” جیسا نہیں ہونا چاہیے جس کا مطمح نظر اپنی اصلاح کے بجائے اپنا مذاق اڑا کر چوہدری کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
    .
    اس تمہید کے بعد کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں. رمضان کے مہینے میں کسی برطانوی سٹور نے پیپسی پر ڈسکاؤنٹ کا اشتہار دیا حسبِ معمول مخصوص طبقہ لعن طعن میں مصروف ہوگیا کہ دیکھیں غیرمسلموں کو تو اتنی توفیق ہے کہ ہمارے مقدس مہینے میں چیزیں سستی کریں لیکن خود بحیثیتِ مسلمان ہمیں یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اگر تو پاکستان کی حد تک کہا جائے تو میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہاں کے حاجی و میاں صاحبان ایسی چیزوں کی طلب بڑھنے پر زیادہ منافع کما کر عموما آخری عشرہ ارضِ مقدس میں گزارنے کے لیے قیمتیں بڑھا کر ثوابِ دارین حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن اس ڈسکاؤنٹ کو بنیاد بنا کر پوری مسلم اُمّہ کو لپیٹ میں لینا حقائق کے یکسر منافی ہے۔ عربوں کا شدید ناقد ہونے کے باوجود، عرب امارات، جہاں میں رہتا ہوں، وہاں رمضان میں صرف پیپسی ہی نہیں اور بھی بہت ساری چیزیں سستی ہو جاتی ہیں. مساجد میں بہترین کھانا وافر مقدار میں دستیاب ہوتا ہے. سعودیہ اور ترکی کے بارے بھی یہی سنا ہے کہ وہاں بھی یہ رحجان پایا جاتا ہے. اب آپ بتائیں کہ اس بات پہ پوری امت مسلمہ کو مطعون کرنا کہاں کی منصف مزاجی ہے؟
    .
    اب آتے ہیں دوسرے اور اہم موضوع پر. ہمارے بہت سارے لکھاری ، بڑے دانشور، اپنی تحریروں اور بیانات میں بارہا ایسا تاثر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے مسلمانوں نے ماضی میں گلے کاٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا یا ہماری تاریخ ایسی ہے کہ اس میں ایسے مواقع آئے ہی نہیں کہ جس پر ہم فخر کر سکیں. یہاں میں ایک وضاحت کر دوں کہ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ایسے کسی واقعے سے مکمل انکار کردوں کہ مسلمانوں میں خونریزیاں نہیں ہوئیں یا انہوں نے کچھ غلط کیا ہی نہیں، میرا اعتراض ان سویپنگ سٹیٹمنٹس پر ہے جن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے مسلمانوں کے ہتھ پلے کچھ بھی نہیں اور ہماری تاریخ میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ہمارے لیے باعثِ شرمندگی ہے. جب ہم دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو مجموعی طور پر مسلمانوں کے اندر حصولِ علم، رواداری اور دوسرے مزاہب کو برداشت کرنے کی صلاحیت باقیوں کے مقابلے زیادہ نظر آتی ہے. اسلام کے ابتدائی چند سالوں کے بعد بھی بارہا تاریخ کی نظر سے ایسے واقعات گزرے جن پر مسلمان آج بھی بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
    رابرٹ بریفالٹ “تشکیلِ انسانیت” میں لکھتے ہیں کہ ” یورپ کی حیاتِ ثانیہ عربوں کی وجہ سے ہوئی. یورپ کی حیاتِ نو کا گہوارہ اٹلی نہیں بلکہ سپین تھا. جس وقت یورپ جہالت و بربریت کے تاریک ترین گڑھوں میں گرا ہوا تھا، اس وقت بغداد، قرطبہ طلیطلہ سے وہ تہذیب و زندگی نمودار ہو رہی تھی جس نے بعد میں انسانی ارتقا کو نئی صورت دی۔” آگے چل کر لکھتے ہیں کہ” اگر عرب نہ ہوتے تو عصرِ رواں کی مغربی تہذیب جنم ہی نہ لیتی۔یورپی نشوونما کا کوئی پہلو ایسا نہیں،جس میں اسلامی تہذیب کا یقینی سراغ نہ مل سکے. یہ صحیح ہے کہ عربوں نے کوئی کاپر نیکی یا نیوٹن پیدا نہیں کیا لیکن عربوں کے بغیر کاپر نیکی یا نیوٹن کا پیدا ہونا ناممکن تھا۔ مزید لکھتے ہیں کہ عربوں کے نفیس کتانی،سوتی، اونی اور ریشمی لباس، بغداد کے حریر و پرنیاں، دشمقی مشجر، موصل کی ململ، غزہ کی جالی، غرناطہ کے اونی کپڑے، ایرانی تافتہ اور طرابلس کے شیفون نے یورپ کی نیم برہنہ آبادی کو اعلیٰ لباس کا شوقین بنا دیا. اس قسم کے مناظر اکثر دیکھنے میں آئے کہ ایک بشپ گرجے میں عبادت کر رہا ہے اور اس کی عبا پر قرآنی آیات کاڑھی ہوئی ہیں. مرد تو رہے ایک طرف عورتیں بھی عربی قمیص اور جبہ بڑے فخر سے پہنتی تھیں.”

    ڈاکٹر ڈریپر “معرکہ مذہب و سائنس “میں لکھتے ہیں کہ ” قرونِ وسطیٰ میں سائنس کی ترقی مسلمانوں کی بدولت تھی۔اس وقت عیسائی دنیا پر جہل و اوہام کی تاریکی محیط تھی اور انھیں علمی مشاغل کی ہوا تک نہیں لگی تھی۔”

    کیرن آرمسٹرانگ ایک کیتھولک عیسائی ہیں، 7 سال نن رہی ہیں، بہت ساری کتابوں کی مصنفہ ہیں. اپنی کتاب Battle for God میں لکھتی ہیں “1492 ہماری بھی بعض الجھنیں اور مسائل سامنے لاتا ہے۔ پہلا واقعہ 2 جنوری کو ہوا جب کیتھولک حکمرانوں شاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا کی شادی سے پرانی آیئبیرین بادشاہتوں اراگون اور کاستیل میں اتحاد قائم ہوا. اور ان کی فوجوں نے غرناطہ کی شہری ریاست پر قبضہ کر لیا. غرناطہ عیسائی دنیا میں مسلمانوں کا آخری قلعہ تھا. مشرقِ وسطیٰ میں صلیبی جنگ ناکام ہوگئی لیکن یورپ سے آخری مسلمان بھی نکال دیا گیا۔ 1499 میں اسپین کے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ عیسائی ہوجائیں ورنہ ملک سے چلے جائیں. اب وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا. دوسرا واقعہ اسی سال 31 مارچ کو پیش آیا جب فرڈی نینڈ اور ازابیلا نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت یہودیوں سے کہا گیا کہ وہ عیسائی ہوجائیں یا ملک چھوڑ دیں ۔ بہت سے یہودی اندلس میں بس گئے تھے کہ وہ عیسائی ہو گئے لیکن 80 ہزار کے قریب سرحد پار کر کے پرتگال چلے گئے جبکہ 50 ہزار یہودی مسلمانوں کی نئی عثمانی سلطنت میں جا پہنچے جہاں ان کی بہت آؤ بھگت ہوئی”. آگے چل کر وہ لکھتی ہیں کہ ” کہ اندلس کے مسلم علاقوں پر سپین کا قبضہ یہودیوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوا. اسلامی ریاست میں یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں چھ سو سال سے امن اور دوستی کے ساتھ اکٹھے رہ رہے تھے. وہاں یہودی خاص طور پر اپنی کلچری اور روحانی نشاۃ ثانیہ کی کیفیت میں تھے اور وہ اس منظم قتلِ عام سے بالکل محفوظ رہے تھے جو باقی یورپ میں یہودیوں کا مقدر تھا. اسلامی علاقوں پر عیسائیوں کے قبضے سے یہودیوں پر بڑی آفت آئی. 1378 اور 1391 میں عیسائیوں نے اراگون اور کاستیل میں یہودیوں پر حملے کیے اور انھیں گھسیٹتے ہوئے عیسائی بنانے لے گئے۔ اراگون میں ڈومینکن پادری ونسنٹ مسلسل یہودی دشمن فسادات بھڑکاتا رہا۔ یہودیت کو رد کرنے کے لیے وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں کے درمیان مناظرے بھی کرواتا۔ بعض یہودی ایذاؤں سے بچنے کے لیے رضاکارانہ طور پر عیسائی بن گئے. انہیں سرکاری طور پر تو عیسائی کہا جاتا تھا مگر عیسائی انھیں خنزیر کہتے تھے ” وہ مزید لکھتی ہیں کہ ” 1492 میں جب فرڈی نینڈ اور ازابیلا نے غرناطہ پر قبضہ کیا تو وہاں یہودی خاصی بڑی تعداد میں تھے. انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ نہیں ہو سکیں گے ۔ یہودیوں کے مسئلہ کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ ان کے اخراج کا فرمان جاری کر دیا. یہودی بستیاں تباہ کر دیں اور 70 ہزار یہودی جبرا عیسائی بنا لیے ۔باقی ایک لاکھ تیس ہزار یہودی جلاوطن کر دیے گئے۔ اسپین سے نکالے جانے والے یہودیوں کو بالخصوص یہ یقین تھا کہ وہاں ان کے قدم اکھڑ گئے ہیں. انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے صوبوں بلقان اور شمالی افریقہ میں پناہ لی۔ انہیں مسلمانوں کے ساتھ رہنے کی عادت تھی”

    اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ مسلمان کتنے روادار رہے ہیں کہ ایک غیر مسلم مصنف کے بقول تینوں مذاہب کے ماننے والے 6 سو سال تک مسلمانون کے دورِ حکومت میں ایک دوسرے کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہے. اور جب یہودیوں کو جب جلا وطن بھی کیا گیا تب بھی پناہ انہیں مسلمانوں کے ہاں ملی۔

    صلیبی جنگوں بارے لکھی گئی اپنی کتاب ” مقدس جنگ” میں یہی مصنفہ لکھتی ہیں کہ ” 15 جولائی 1099 کو صلیبی شہر میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے دو دن تک یروشلم کے مسلم اور یہودی باشندوں کا قتلِ عام جاری رکھا. انھوں نے مردو زن کی تمیز کیے بغیر ہر کسی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس قتلِ عام کے اگلے دن صلیبی مسجدالاقصیٰ کی چھت پر چڑھ گئے. انھوں نے مسلمانوں کے ایک گروپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا، حالانکہ ٹینکرڈ نے ضمانت دی تھی کہ انہھں مسجد میں قتل نہیں کیا جائے گا. صلیبیوں کے نزدیک مسلمان معزز دشمن نہیں رہے تھے بلکہ خداوند کے دشمن بن چکے تھے لہٰذا انھیں سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا جانا ان کا نصیب بن گیا تھا. وہ اس مقدس شہر کو ناپاک کر رہے تھے اس لیے انہیں کیرے مکوڑوں کی طرح فنا کر دیا جانا تھا۔صلیبی مسلمانوں کے لیے ‘گند’ کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے. اس قتلِ عام کے ایک عینی شاہد نے لکھا ہے: : بڑے ہی زبردست مناظر دیکھنے کو ملے. ہمارے کچھ سپاہیوں نے (رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے) اپنے دشمنوں کے سر کاٹ دیے. دوسروں نے انھیں تیروں کا نشانہ بنایا اور کچھ نے انھیں شعلوں کی نذر کر کے طویل اذیت دی. شہر کی گلیوں میں سروں، ہاتھوں اور پیروں کے ڈھیر دیکھے جا سکتے تھے. انسان انسانوں اور گھوڑوں کی لاشوں پر پاؤں رکھے بغیر گزر نہیں سکتا تھا. تاہم ہیکلِ سلیمانی میں جو کچھ ہوا اس کے مقابلے میں تو یہ کچھ بھی نہیں ہے. وہاں کیا ہوا؟ اگر میں سچ بیان کروں تو تمھیں یقین نہیں آئے گا، لہٰذا تمھارے اطمینان کے لیے کم از کم اتنا کہنا کافی ہے کہ ہیکل سلیمانی کے اندر اور اس کے دالان میں اتنا خون تھا کہ گھوڑ سواروں کے گھٹنوں سے اوپر اور گھوڑوں کی لگاموں تک آ گیا تھا۔ بلاشبہ یہ خداوند کا ایک منصفانہ اور شاندار فیصلہ تھا کہ یہ مقام کافروں کے خون سے بھر جائے، کیونکہ وہ بہت طویل عرصے سے اس کی توہین کر رہے تھے”:
    .
    لیکن جب مسلمان فاتح رہے تو ان کا طرزِ عمل کیسا رہا آیئے اسی مصنفہ کی زبانی سنتے ہیں.”
    .
    آخر صلاح الدین نے یروشلم کا محاصرہ کر لیا. شہر میں موجود عیسائی خوفزدہ تھے کہ شاید صلاح الدین ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے جیسا کہ انہوں نے 1099 میں یروشلم کے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا. تاہم صلاح الدین نے عیسایئوں کو ایک پیشکش کی. اس نے کہلوایا کہ اگر وہ شہر غیر مشروط طور پر اس کے حوالے کر دیں تو کوئی خون خرابہ نہیں ہوگا. عیسایئوں نے یہ پیشکش رد کر دی اور لڑائی شروع ہو گئی. جلد ہی عیسایئوں کو یقین ہوگیا کہ ان کی شکست یقینی ہے. انہوں نے امن کی درخواست کی لیکن اب صلاح الدین سخت مؤقف اپنا چکا تھا. 2 اکتوبر 1187 کو صلاح الدین اپنی فوج کے ساتھ فاتح کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوا. صلاح الدین نے یروشلم کو اعلیٰ ترین قرآنی اصولوں کے تحت فتح کیا تھا. اس نے 1099 میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام کا انتقام نہیں لیا. ایک بھی عیسائی قتل نہیں کیا گیا اور لوٹ مار بالکل نہیں ہوئی. قیدیوں کو معمولی تاوان ادا کرنے پر رہا کر دیا گیا. جو غریب قیدی تاوان ادا کرنے سے قاصر تھے، صلاح الدین نے انھیں روتے دیکھ کر آزاد کروا دیا. صلاح الدین کے بھائی العادل کو قیدیوں پر اس قدر ترس آیا کہ اس نے اپنی جیب سے تاوان ادا کر کے ایک ہزار قیدیوں کو آزادی دلوائی. دوسری طرف دولت مند عیسائی اتنی دولت لے کر فرار ہو رہے تھے کہ جو سارے قیدیوں کو رہائی دلوانے کے لیے کافی تھی. جب عماد الدین نے پادری ہیرا کلیئس کو رتھوں پر خزانہ لادے شہر سے فرار ہوتے دیکھا تو اس نے صلاح ا لدین پر زور ڈالا کہ پادری کا خزانہ ضبط کر لیا جائے لیکن صلاح الدین نے انکار کر دیا. قرآن کہتا ہے کہ وعدے اور معاہدے لازما ایفا کیے جایئں اور مسلمانوں کو قانون کی پابندی کرنی چاہیے. صلاح الدین نے عماد الدین کو کہا تھا “عیسائی جہاں بھی ہوں ہماری مہربانی کو یاد کریں گے” پادری ہیرا کلیئس نے دوسروں کی طرح دس دینار تاوان ادا کیا. صلاح الدین نے ٹائر تک کے سفر کے لیے اس کے خزانے کی حفاظت کے واسطے محافظ ساتھ کر دیے.”
    .
    .یہ حوالے میں نے نسیم حجازی کے ناولز یا زید حامد کے ٹی وی پروگرامز سے نہیں دیے بلکہ مغرب کے پڑھے لکھے غیر متعصب لوگوں کی کتابوں سے پیش کیے ہیں جو ہماری کنٹریبیوشن کو تسلیم کرتے ہیں۔ بہتری کی خواہش بجا، خود احتسابی کی ہر کوشش جائز لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں ان حقائق کو فراموش نہیں کرنا. خصوصا جب نیت اصلاح کی ہو تو تنقید کے نشتر چلانے کے ساتھ ساتھ ان باتوں کو بھی ذہن میں رکھ کر رائے دیں کہ ہم ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے. تبھی ہماری بات وہاں تک پہنچ سکے گی جہاں پہنچنی اور اثر کرنی چاہیے

  • کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    obaid ullah abidبھارت کیسے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے سکتا ہے کیونکہ سن 1948 کے بعد سے اب تک متعدد بار خود بھارت نے کشمیر کو ایک ایسا علاقہ تسلیم کیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ کیسے اس کا حل استصواب رائے قرار دے سکتی تھی؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو بھارت نے کیوں‌ پاکستان سے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ باہم مذاکرات کے ذریعے کریں گے؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو کشمیر کے ایشو پر بھارت پاکستان کے ساتھ کیوں‌ مذاکرات کی میز پر بیٹھا؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ نہ بنتا، وہ ہیرو اس لیے قرار پایا تھا کہ وہ کشمیر کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا داعی تھا، جب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹا تو وہ زیرو ہوگیا۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو سید علی شاہ گیلانی سمیت دیگر حریت پسند رہنما کشمیری قوم کی آنکھوں‌ کا تارا کیوں بنتےSyed-Ali-Gilani-addressing-a-bog-gathering-in-Kupwara-08-11-13-800xsize
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو مسلح جدوجہد کیسے پنپ سکتی تھی اور کامیاب ہوسکتی تھی۔ نوے کی دہائی میں خود بھارت کے متعین کردہ گورنر کشمیر ، یہاں کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یہاں قابض بھارتی فوج کے جرنیلوں نے مسلح جدوجہد کے مقابل اپنی بے بسی ظاہر کی تھی، سادہ سی بات ہے کہ اگرحریت پسندوں کو کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا کشمیر میں رہنا بھی مشکل ہوتا
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو برہان وانی اور اس سے پہلے کے شہدا کے جنازوں میں مٹھی بھر لوگ ہوتے لیکن یہاں‌لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج کیسے تمام گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے؟ کیسے پاکستانی پرچموں کے سائے تلے مظاہرین سڑکوں پر نکلتے؟kashmir-protest-pakistan-flag
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج بھارتی ٹی وی چینلز پر اس سوال پر مباحثے نہ ہوتے کہ یہ عسکریت پسند کیسے کشمیریوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ ان کے جنازوں میں لاکھوں‌انسان کیوں شریک ہوتے ہیں؟ جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی فوج کے گھیرے میں آتے ہیں تو کشمیری کیوں انھیں محاصرے سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج پر پتھرائو شروع کر دیتے ہیں؟
    ارے بھائی!
    کشمیری قوم اور پاکستان کا یہ مطالبہ دنیا کے کس اصول کے تحت غلط ہے کہ کشمیریوں‌ سے پوچھ لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ  یا پھر ایک خودمختار ریاست کے طور پر جینا چاہتے ہیں؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو پھر بھارتی قیادت کو ڈر کس بات کا ہے؟ وہ استصواب رائے سے کیوں انکار کرتی ہے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کشمیری بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے نا !!! پھر ریفرنڈم سے گھبراتے کیوں‌ ہو؟
    کیا کشمیری کوئی گائے، بکریاں اور مویشی ہیں کہ انھیں زنجیر سے اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ لیاجائے؟
    یہ سوالات ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے گن گاتے ہیں، جو مسئلہ کشمیر کو غیراہم سمجھتے ہیں، جو کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے پر اپنا وزن ڈالتے ہیں۔

  • لختِ جگر  –  عالمی ادب سے منتخب بہترین اور شاہکار افسانہ –  شولم آش

    لختِ جگر – عالمی ادب سے منتخب بہترین اور شاہکار افسانہ – شولم آش

    بچے کے بِلکنے سے بوریاؔ کی نیند اچٹ گئی۔ آنکھیں بند کیے بیوی کو پکارا۔ گولڈاؔ کو چپ کرائیو۔ رورہا ہے۔
    گولڈا کی طرف سے کوئی جواب نہ سنا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ معلوم ہوا کہ گھر میں نہیں ہے۔ پہلے تو کچھ حیرت ہوئی، پھر سوچا نہانے کو گئی ہوگی۔ پاس ہی ایک دھجی پڑی تھی۔ اُٹھاکر بچے کے منہ مین ڈھونس دی کہ روئے نہیں۔ پھر کپڑے پہننے کو اُٹھ کھڑا ہوا۔ ٓ

    کپڑے پہنتے پہنتے یکایک خیال آیا کہ زوبلنز کے گھر سے جو چاندی کے شمع دان اُڑا لایا تھا، ان کے بدلے کتنی زمین ملے گی۔ یہ خیال دل پر کچھ ایسا چھاگیا کہ اسی وقت بالاخانے پر چل دیا کہ چُرائے ہوئے مال کا اندازہ لگائے، لیکن جاکر دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا۔ گھر کا کونا کونا چھان مارا۔۔۔ بے سود۔
    پھرتی سے نیچے اُترآیا اور اس طرف گیا جہاں اس کی بیوی نے اپنی چیزیں لٹکارکھی تھیں۔ پردے کو نوچ ڈالا۔ دیکھا تو وہ بھی غائب۔۔۔ اب کھلا کہ بس بھاگ گئی ہے۔

    ہونہہ ہونہہ۔

    ”بلا سے بھاگ گئی تو بھاگ جائے۔ لعنت ہو یہاں پروا ہی کسے ہے۔“ جبراً بے پروائی ظاہر کرتے اور دیواروں پر تھوکتے ہوئے اپنے آپ سے کہہ اٹھا۔
    ”بھئی کیا کہنا! خوب کارستانی ہے۔۔۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔“

    پھر بچے کی طرف دیکھا۔
    ”لیکن اس کم بخت کا کیا ہوگا؟“ فکرمند سا ہوگیا۔
    ”اگر اتنا ہی معلوم ہوجائے کہ نامراد کہاں گُم ہے تو خدا کی قسم! میں اسے ابھی لے جاکر اس کے دروازے پر رکھ دوں اور کہوں لے اسے بھی ساتھ لیتی جا۔۔۔ یہ تیرا ہی ہے۔“

    یکایک ایک خیال اس کے دماغ میں آیا۔ جس سے اس کا چہرہ زرد پڑگیا اور وہ اپنا اوپر کا ہونٹ دانتوں سے کاٹنے لگا۔ ہاتھ لرزنے لگے۔ بچے کے پاس آیا، جو ننگا پڑا ہوا تھا۔ اوپر کا میلا کچیلا چیتھڑا اپنی ننھی نازک ٹانگیں چلاچلاکر پرے پھینک دیا تھا۔ ہاتھ منہ میں ٹھونسے ہوئے تھے۔ ہلکے ہلکے مسکرا رہا تھا۔ دونوں گالوں پر ننھے ننھے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔۔۔ چہرے کے خدوخال نے اسے شبہ میں ڈال دیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
    بچے کے پاس سے ہٹ گیا۔ ٹوپی پہنی اور جلدی سے دروازے میں قفل لگاکر باہر نکل آیا۔ بلامقصد چلا جارہا تھا۔ مگر دل کا سکون کھوبیٹھا تھا۔ بچے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ جیسے اسے بلارہی ہوں۔۔۔۔ خیال ہی خیال میں نظر آیا جیسے اس کے سامنے پڑا اپنی ننھی ننھی ٹانگیں چلارہا ہے۔ بے تحاشا دوڑرہا ہے۔۔۔ نہیں مجھے پلٹ جانا چاہیے۔ یہ ظلم ہے۔

    پھر اپنے آپ سے کہنے لگا: ”خدا کی قسم! اگر وہ کمبخت ہاتھ لگ جائے تو میں گلے سے پکڑلوں اور اس زور سے گھونٹوں، اس زور سے گھونٹوں کہ زبان نکل کر باہر آپڑے۔“

    نانبائی کی دُکان میں داخل ہوا۔ ایک ڈبل روٹی خریدی اور گھر واپس لوٹ آیا۔ بچہ پہلے کی طرح ننگا پڑا ہوا تھا۔ مگر مسکرارہا تھا۔

    ”لو مردود کیا مزے سے پڑا ہنس رہا ہے۔“
    ۔۔۔۔ اور پھر گھر سے نکل گیا۔ مگر ایک ایک قدم اُٹھانا دوبھر تھا۔ راستہ بھر رہ رہ کر محسوس ہوتا تھا جیسے بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں آئی ہے۔ دل میں جیسے کوئی نشتر سا اُترا جارہا تھا۔

    زور سے مٹھیاں بند کیں اور پھر گھر لوٹ آیا۔ اب کے بچہ لگاتار چلائے جارہا تھا۔۔۔ ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

    ”کیوں بے ماما کے بچے۔۔۔ جاکے اپنی پیاری اماں کو ڈھونڈ کیوں نہیں لاتا؟ الٰہی! ہیضہ آجائے۔“

    بچے کوگود میں اُٹھالیا۔ بچہ سینے سے لگتے ہی چمٹ گیا اور اپنے پتلے پتلے ہونٹوں سے بے تابانہ کچھ تلاش کرنے لگا۔
    ”الٰہی اس پر بجلی گرپڑے۔ ناگ ڈس جائے۔“ وہ کوستا جاتا اور پیار سے ننھے کے گالوں پر تھپکی دیتا جاتا تھا۔
    ”رو مت۔۔۔ شلوئے میل۔۔۔ بس چپ ہوجائو۔۔۔ چپ کرو۔۔۔ شاباش شاباش۔۔۔“
    بچہ اپنے نازک منہ سے تلاش میں مصروف رہا۔ اِدھر اُدھر ہاتھ گھماتا۔ کبھی سر ہلاتا۔ جیسے کچھ کہنے کو ہے۔ مگر کہہ نہیں سکتا۔ اشاروں سے مطلب سمجھ کر بوریاؔ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ چولہے پر ایک کٹورا رکھا ہوا تھا۔ جس میں تھوڑا سا دودھ تھا۔ ذرا سی ڈبل روٹی توڑکر دودھ میں بھگوئی اور چمچے کے ساتھ بچے کو کھلانے لگا۔ چمکارتا بھی جاتا تھا۔
    ”کھالے بیٹا کھالے۔۔۔ تیری اماں، شیطان لے جائے۔ تجھے چھوڑکر بھاگ گئی ہے۔۔۔ کتیا بھی تو اپنے بچے کو یوں نہیں چھوڑتی۔۔۔ وہ اس سے بھی بدتر ہے۔۔۔ رومت۔۔۔ نہیں میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ اپنے پاس سے کبھی الگ نہیں کروں گا۔۔۔“

    جب بچہ چپکا ہوگیا تو اسے ایک کپڑے میں لپیٹ لیا اور بازار کو لے چلا۔ منڈی میں اس کے آنے سے ہلچل سی پڑگئی۔ ایں بوریا کولک اور بچہ!“

    اپنی گدی پر سے کریڈنگ نے آواز دی: ”اے کولکؔ! یہ بچہ کہاں سے لیا؟“
    کریڈنگ کی بیوی بے تابی سے اُٹھی اور اپنی بانہیں کھولے بچے کی طرف لپکی۔ خوشی سے باچھیں کھلی جاتی تھیں۔ کئی بار اپنے چہرے کو دامن سے پوچھا اور بچے کے پھول سے گالوں پر ہلکے ہلکے طمانچے مارے۔

    ”کولک یہ تیرا ہے؟۔۔۔ اس کی پیاری پیاری آنکھوں کو تو دیکھ۔ ہیں نا بالکل مرینہؔ کی سی۔۔۔ اسی کی ناک ہوبہو۔۔۔ خدا کی قسم بچہ تو لعل ہے لعل۔۔۔ لا مجھے دے دے۔“

    اس نے بوریاؔ سے بچہ لے لیا اور اسے اُچھالنے لگی۔ ”ارے چل شریر۔۔۔ ہُت ترے شریر کی۔“

    بوڑھا کریڈنگ چوروں کا سردار آہستہ سے اُٹھا اور بچے کے پاس آکر اسے اچھی طرح دیکھا بھالا۔ پھر کولک کی پیٹھ تھپتھپاکر کہنے لگا: ”واہ بیٹا! کولک بچہ تو خوب حسین ہے۔ لے ذرا اسے بڑا ہوجانے دے۔ پھر دیکھیو کیسی آسانی سے دیواروں کو پھاندا کرے گا۔۔۔ ہاں تو اس کی ماں کون ہے؟“

    ”خدا کرے آگ میں جل جائے مُردار۔۔۔ چاندی کے شمع دان لے کر چمپت ہوگئی۔“
    ”اور بچہ چھوڑگئی؟“
    ”ہاں“
    ”تو بُرا ہوا۔۔۔ بہت بُرا۔۔۔“

    بوڑھے کریڈنگ نے اپنا سر کھجایا۔ اتنے میں اس کا بیٹا بھی آدھمکا۔ اور کولک پر آوازے کسنے لگا۔ ”بہت اچھا ہوا۔۔۔ میں جانوں اب تم اپنا پیشہ چھوڑدوگے اور دایہ گری کا کام شروع کردوگے۔۔۔ کیونکہ بے کیسا چکمہ دے گئی ہے نا؟“

    کولک نے جھنجھلاکر کہا: ”جا میاں اپنی راہ الگ۔ خدا رزق رساں ہے اور کولک، کولک ہی رہے گا۔“

    اس نے بچہ گود میں لے لیا اور گائوں کے بیچوں بیچ چل دیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ اس پر انگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ ہنس رہے ہیں۔

    جب گائوں سے دور نکل کر جنگل میں پہنچ گیا تو ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ آس پاس کسی آدم زاد کی صورت نظر نہ آتی تھی۔ درختوں کی ٹہنیاں اپنے زرد زرد پتے بہا بہاکر آہیں بھر رہی تھیں۔ دور سے ایک ندی کی مدھم سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو پتھروں سے ٹکرائی، اُچھلتی، کودتی بہی جارہی تھی۔

    اس نے بچے کو پاس ہی زمین پر رکھ دیا اور اسے ترچھی نظروں سے گھورنے لگا۔ بچہ انگوٹھا چوس رہا تھا اور چپکے چپکے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی سوچ میں کھویا ہوا ہے۔ بوریاؔ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ بچے کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے جی میں آئی کہ اسے یہیں جنگل میں چھوڑکر چل دے۔ مگر فوراً ہی اس ننھی سی جان، اپنے ہی گوشت، اپنے ہی خون کی بے بسی پر دل بھر آیا۔ اس نے پھر گود میں اُٹھالیا اور محبت سے اس کے نازک جسم کو بھینچا۔ پھر غور سے اس کے چہرے کی طرف جو دیکھا تو اسے اپنے ہی خط وخال جھلکتے ہوئے نظر آئے اور اس کے تمام جسم میں خوشی کی گرمی دوڑگئی۔

    ”ننھے کولک“ محبت بھری آواز میں کہنے لگا۔ ”ہاں تو ننھا کولک ہی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ تو بڑا ہوکر نہایت عجیب وغریب نکلے گا۔ تو مکانوں میں کھڑکیوں اور ہوا دانوں اور چھجوں سے داخل ہوجایا کرے گا۔۔۔ اور قفل توڑکر بھیڑوں کی کھالیں چرا لایا کرے گا۔۔۔ پھر تیرے بچے بھی ہوں گے۔۔۔ اور ان کی ماں انہیں چھوڑکر بھاگ جائے گی۔۔۔ پھر کیا تو اپنے بچوں کو لیے دربدر بھیک مانگتا پھرے گا؟۔۔۔ تو کون ہے؟۔۔۔ کولک۔۔۔ تو بھی میری طرح۔۔۔ تو ۔۔۔۔ میں۔۔۔۔“

    اس نے بچے کو ندی کے کنارے کے پاس ہی بٹھادیا اور آپ ایک درخت کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہوگیا کہ دیکھوں کیا کرتا ہے۔ بچہ اِدھر اُدھر لڑھکنے لگا۔ ہاتھوں کو چُوستا اور کہتا: ”ماما۔۔۔ ماما۔۔۔“

    وہ اس درخت سے آگے بڑھ کر ایک اور درخت کے پیچھے چھپ گیا، لیکن ابھی بچے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ اسی طرح اس درخت سے اُس درخت کے پیچھے چھپتا ہوا دور ہی دور ہٹنے لگا۔ یہاں تک کہ اب اسے کچھ سنائی اور دکھائی نہ دیا۔ پھر وہ سرپٹ بھاگا۔ مگر بھاگتے ہوئے بھی ننھے کی چیخیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ یکایک خیال آیا ”کہیں لڑھکتا لڑھکتا دریا میں نہ گرپڑا ہو۔۔۔ اس کا سر درد کرنے لگا۔۔۔ زور زور سے دُکھنے لگا۔ ہوش وحواس غائب ہوگئے۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا معلوم ہونے لگا اور دل کو جیسے کوئی چرکے لگارہا ہو۔۔۔ مگر وہ بھاگتا ہی رہا۔۔۔
    یک لخت تھم گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور پوری تیزی سے اُلٹے پائوں سے لوٹا۔ بچے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ زور زور سے رورہا ہے۔ اس نے گود میں لے لیا اور وہاں سے چلا آیا۔ جنگل کے سرے پر کچھ جھونپڑیاں سی بنی ہوئی تھیں۔۔۔ ایک ایک گھر سے گزرتا ہوا ٹوٹی ہوئی آواز میں بھیک مانگ رہا تھا: ”یتیم بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔ بے ماں کے بچے کو تھوڑا سا دودھ دو۔۔۔“
    (ترجمہ غلام عباس)

  • کشمیر اور فیس بکی دانشوروں کا فکری افلاس – جمیل اصغر جامی

    کشمیر اور فیس بکی دانشوروں کا فکری افلاس – جمیل اصغر جامی

    12923288_10206370299922790_7302688591427071872_nظالم کے ظلم کی مذمت اور مظلوم سے یکجہتی اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے جس سے فی زمانہ بہت سے لوگ محروم ہیں۔ استدلالی اور عقلی درماندگیاں ہمارے فکری افلاس اور تاریخ سے عدم واقفیت کی مختلف صورتیں ہی تو ہیں۔ جن معاملات میں سر ظفراللہ خان اور اے کے بروہی جیسے لوگ بھی رات رات بھر تیاری کرکے راۓ دیتے تھے، آج دانشوران فیس بک اس کے بارے میں حتمی فیصلے سنا رہے ہیں۔ جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ انت ناگ کو اسلام آباد کیوں کہتے ہیں وہ بھی ’’ماہرین امور کشمیر‘‘ بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے منہ سے برہان وانی کے لیے تو ایک بھی حرف ہمدردی نہ نکلا، لیکن اتنا ضرور یاد رہا کہ ’’بھئی اگر طاقت نہیں ہے، تو لڑتے کیوں ہو؟ مار تو پڑے گی نا‘‘ گویا پہلے جارح کے برابر طاقت حاصل کی جاۓ اور جب طاقت اور عسکری صلاحیت میں جارح کے برابر ہو جائو تو پھر، اس سے لڑو۔ یعنی الجزائر کے لوگ انتظار کرتے اور جب طاقت میں فرانس کے برابر ہو جاتے تو، علم جہاد بلند کرتے۔ یا یہ کہ ویت نام کے لوگ پہلے سپر پاور بنتے، پھر امریکی بربریت کے خلاف صف آرا ہوتے۔ بھلا کبھی ظالم اور مظلوم بھی طاقت میں ہم پلہ ہوۓ ہیں؟ اگر مظلوم طاقت میں ظالم کی ہم سری کرنے لگ جاۓ تو پھر تو ظلم کا وجود ہی کیسا؟ بھلا کبھی جارح اور محکوم بھی طاقت کے ترازو میں برابر ہوۓ ہیں؟ اور کیا کبھی ظالم اپنے زیر تسلط ایسے مواقع پیدا ہونے دے گا، کہ مظلوم طاقت میں اس کے برابر ہو جاے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر اللہ، مظلوم سے نصرت کا وعدہ ہی کیوں کرتا؟ اللہ کی کتاب واضح حکم دیتی ہے:
    [pullquote]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ۔
    [/pullquote]

    ’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جا رہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان کی مدد پر بڑا قادر ہے‘‘۔
    دوسری بات یہ کہ ان دانشوران فیس بک سے کس نے کہا کہ یہ جنگ کشمیریوں نے شروع کی ہے؟ جنگ شروع کرنا ایک شے ہے لیکن جنگ کا مسلط کیا جانا ایک بالکل دوسری۔ کیا یہی بات حضور نبی اکرمﷺ کے فرمودات سے ثابت نہیں؟ کس کی تعلیم ہے کہ جنگ کی تمنا مت کرو، نہ ہی اس کا آغاز کرو، لیکن اگر جنگ مسلط کر دی جاۓ تو پھر بہادری سے لڑو؟ یاد رکھیں، محض کسی آزاد ملک میں پیدا ہونا، اس بات کی گارنٹی نہیں ہے کہ ہماری فکر بھی آزاد ہوگی۔ غلامانہ ذہنیت غلامانہ ہی رہتی ہے۔ اور مردان حر، محکوم ملکوں میں پیدا ہو کر بھی، آزاد فطرت ہی ہوتے ہیں۔ اقبال نے ایسے ہی فطری محکوموں کے بارے میں کہا تھا:
    محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
    ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

  • ایدھی صاحب اور ہیومن ازم کی حقیقت – رضوان اسد خان

    ایدھی صاحب اور ہیومن ازم کی حقیقت – رضوان اسد خان

    news-1468224303-8955_largeایدھی صاحب تو چلے گئے اپنا حساب دینے. ان کے ذہن میں “انسانیت” کا جو کوئی بھی تصور تھا اور جن معنوں میں انہوں نے اسے اپنا مذہب قرار دے رکھا تھا، وہ سب اب ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے، ہمیں اس پہ رائے دینے کا کوئی حق نہیں. البتہ جس بات پہ خاموشی ہمارے لیے جرم قرار پاتی ہے وہ ہے لبرل طبقے کا انہیں اون کر کے اس کی آڑ میں “انسانیت” کی اس تعریف اور مفہوم کو عام کرنا جو کہ فی زمانہ مغرب میں رائج ہے. اور اس کا ہرگز اس “انسانیت” سے کچھ لینا دینا نہیں جس کا سب سے بڑا داعی خود ہمارا اپنا دین ہے.
    یہ والی مذموم “انسانیت” دراصل اردو ترجمہ ہے “ہیومن ازم” کا.

    ماڈرن ہیومن ازم کی عالمی تنظیم 1952 میں معرض وجود میں آئی اور ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں اس نئے دین کے خدوخال واضح کیے گئے. اسی “ورلڈ ہیومنسٹ کانگریس” کے 2002 کے پچاسویں یوم تاسیس پر جاری کردہ 7 نکاتی “ایمسٹرڈیم ڈکلئیریشن” کے نکتہ نمبر 5 کے مطابق:
    “Humanism is a response to the widespread demand for an alternative to dogmatic religion. The world’s major religions claim to be based on revelations fixed for all time, and many seek to impose their world-views on all of humanity. Humanism recognises that reliable knowledge of the world and ourselves arises through a continuing process of observation, evaluation and revision.”
    15977 “ہیومن ازم، اصول و قواعد فراہم کرنے کے دعویدار کسی بھی مذہب کے متبادل کی وسیع پیمانے پر طلب کا جواب ہے. دنیا کے بڑے مذاہب خدائی وحی کی بنیاد پر قائم ہونے کے دعویدار ہیں اور اکثر یہ چاہتے ہیں کہ اپنی تعلیمات کو پوری انسانیت پر مسلط کریں.(اس کے برعکس)ہیومن ازم تسلیم کرتا ہے کہ دنیا اور ہمارے اپنے بارے میں حقیقی علم مشاہدے، تجزیے اور اعادے کے ایک مسلسل عمل سے ہی جنم لے سکتا ہے.”

    اس کے آغاز کو یورپ کے تاریک دور کے اختتام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے. اس دور میں بھی ا س کے مفہوم پر ویسی ہی بحثیں ملتی ہیں جیسی آج کل ہمارے یہاں شروع ہیں، کہ آیا یہ مذہب مخالف تحریک ہے یا موافق. اس لحاظ سے اس کی تعریف میں تاریخی طور پر کافی ابہام رہا ہے.

    مگر آج کل جب لفظ ہیومن ازم انگریزی میں کیپٹل “H” کے ساتھ لکھا جاتا ہے تو اس سے مراد “سیکولر ہیومن ازم” ہی ہوتا ہے. اور اس “عقیدے/فلسفے” کے مطابق انسانیت، اخلاقی معیارات بنانے اور ان پہ چلنے کے لیے کسی مذہب یا خدا کی محتاج نہیں…!!!

    اس “دین” کی سب سے بڑی داعی تنظیم اسوقت “انٹرنیشنل ہیومنسٹ اینڈ ایتھیکل یونین” کے نام سے 38 ممالک میں کام کر رہی ہے جس میں 117 مختلف منطقی، الحادی، نیچری، فری تھنکر اور سیکولر تنظیمیں ضم ہیں.
    اس عالمی تنظیم کے دستور (جو ایمسٹرڈیم ڈکلئیریشن سے ہی ماخوذ ہے) کی ایک شق کے مطابق یہ خدا کے تصور سے آزاد (Non-theistic) ہے اور حقیقت کے مافوق الفطرت نکتہ نظر کی منکر…!!!

    الغرض سیکولرازم، مغربی جمہوریت، لبرل اکانومی (کیپٹل ازم کا مستقبل کا تصور) اور لبرٹیرئین ازم (Libertarianism) کی طرح ہیومن ازم یا “انسانیت” بھی لبرل ازم کے فلسفے کا شاخسانہ ہے جسے باقی متذکرہ “ازمز” کی طرح دیدہ ذیب پیکنگ میں (بالخصوص) اسلام اور اس کی پابندیوں سے جان چھڑانے کے لیے مارکیٹ کیا جا رہا ہے.
    اسلام خالق اور مخلوق کا سب سے خوبصورت رشتہ بصورت “عبد اور معبود” پیش کرتا ہے. اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قران میں اللہ نے جہاں بھی اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ قربت کا اظہار فرمایا ہے، وہاں ان کے لیے “عبد” کا لفظ استعمال کیا ہے حتی کہ جو کلمہ ہمارے دین کی بنیاد ہے اس میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول اللہ کے ساتھ ساتھ “عبداللہ” ہونے کا اقرار کرتے ہیں.
    اب یہ اللہ کی مکمل اور غیر مشروط “غلامانہ” اطاعت جو ایک مسلمان کا فخر ہے، جو نظام اسے قابل نفرت بنا کے پیش کرے اور اس سے نجات کا داعی ہو، اس کافرانہ نظام کو “Satanism” یا “شیطنت” کہنا زیادہ مناسب ہے، نہ کہ “ہیومن ازم” یا “انسانیت”..!!!

  • اسلامی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے – مولانا جلال الدین عمری

    اسلامی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے – مولانا جلال الدین عمری

    اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اتنی ترقی کہ ایک صدی قبل شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مادی دشواریوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی آسانیاں اور سہولتیں وجود میں آئی ہیں اور دنیا زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔ آمد و رفت کے تیز رفتار ذرائع کی وجہ سے مسافتیں کم ہوگئی ہیں، خیالات کی ترسیل اور ابلاغ آسان ہوگیا ہے، جو معلومات چھوٹے سے دائرے میں محصور ہوتی تھیں وہ عام ہو رہی ہیں۔ نشر و اشاعت ایک وسیع انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو چیز چھپتی ہے وہ گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے، پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، خوش حالی آئی ہے، معیار زندگی بلند ہوا ہے، صحت اور تندرستی کی طرف توجہ ہے۔ امراض کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولتیں فراہم ہیں، اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب باتوں کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس ترقی کا پورا فائدہ اصلاً ایک چھوٹے سے طبقہ ہی کو حاصل ہے، لیکن عام آدمی بھی کسی نہ کسی درجے میں اس سے فیض یاب ہو رہا ہے۔
    یہ آج کی سائنسی ترقی اور اس کے فوائد اور ثمرات کا حال ہے۔ دوسری طرف سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر پوری دنیا زوال اور پستی کی شکار ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی راہ اسے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ موجودہ دور انسان کے بعض بنیادی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، ان میں زندہ رہنے، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے، وسائل حیات سے بلاامتیاز فائدہ اٹھانے، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے، اظہارِ خیال اور عمل کی آزادی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق قانوناً تو حاصل ہیں لیکن عملاً پامال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی ان کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کی حکم رانی کا ہر طرف چرچا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی حکومت ہے اور عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں رہ گیا ہے، انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ پرسکون اور امن و امان کی زندگی گزارے، لیکن فتنہ و فساد اور اضطراب کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، مساوات اور برابری کے دعوے ہیں لیکن کم زور افراد اور قومیں طاقت ور افراد اور قوموں کا ہدف ستم بنی ہوئی ہیں اور ان کا ہر سطح پر استحصال ہورہا ہے۔ انسان کے سامنے مال و دولت اور عیش و عشرت کے سوا اور کوئی مقصد نہیں رہ گیا ہے، اس کے لیے غلط سے غلط اقدام میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔ اخلاق اور قانون پر خواہشات نفس غالب آگئی ہیں اور ترقی کے نام پر بے حیائی اور جنسی آوارگی کو فروغ مل رہا ہے۔ انسان جنسی جذبہ کی تسکین کے لیے سماج اور قانون کی بندشوں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ خاندان سے انسان کا جو فطری اور جذباتی تعلق تھا وہ ٹوٹ رہا ہے، الفت و محبت، خدمت اور ایثار و قربانی کی جگہ خود غرضی کی فضا پرورش پا رہی ہے۔ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود معاشرے کے رگ و ریشے میں فساد پوری طرح پھیل چکا ہے اور بسااوقات نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی کو اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے پڑ رہے ہیں۔
    سوال یہ ہے کہ دور حاضر کے اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح نظریۂ حیات سے محروم ہے۔ اس نے انسان کو مادی لحاظ سے تو بہت کچھ دیا، لیکن اس کائنات اور خود انسان کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کر سکا۔ اس کی فکری اساس غلط ہے اس لیے وہ ایک طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو دوسری طرف پستی کا شکار ہے۔ متوازن اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی بنیاد صحیح فکر پر ہو۔
    بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کی فکری اساس غلط ہے تو اس نے اتنی ترقی کیسے کی ہے؟ کیا غلط فکر کے ساتھ اس طرح کی ترقی ممکن ہے؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ مادی ترقی کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کے بغیر بھی اس ترقی کا امکان ہے۔ قرآن مجید نے اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اس نے عبرت و نصیحت کے لیے بعض قدیم قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ان کا فلسفۂ حیات غلط تھا، لیکن مادی ترقی کی راہیں ان پر بند نہیں تھیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ چناں چہ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب ترقی کی۔ قوم عاد جسمانی طور پر بڑی توانا اور تندرست قوم تھی۔ قوت و طاقت میں اس وقت اس جیسی کوئی دوسری قوم نہ تھی (الفجر: 6،7)۔ اس قوم نے تفریح اور عیش کی خاطر اور شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں اور قلعے اس طرح تعمیر کیے جیسے اسے اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے علاقے میں عمدہ زراعت تھی، سرسبز و شاداب باغات تھے اور چشمے رواں تھے۔ اسے افرادی قوت بھی حاصل تھی۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پر یہ قوم ہاتھ ڈالتی تو اس کے شکنجے سے نکالنا آسان نہ تھا۔ (الشعراء: 123۔134)
    قومِ ثمود کا بھی یہی حال تھا اس کے علاقے میں زراعت کو بڑا عروج حاصل تھا، پھلوں کی خوب پیداوار تھی، اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر بڑی مہارت کے ساتھ مکانات تعمیر کیا کرتی تھی۔ (الفجر، الشعراء: 147۔149)
    مصر میں فرعون کا بڑا دبدبہ تھا، وہ بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا، اس کے لیے جگہ جگہ خیمے لگتے تھے، ملک میں خوش حالی تھی، باغات تھے، چشمے تھے، دولت کے خزانے تھے اور شاندار مکانات تھے۔ (الفجر:10، الشعراء: 57،58)
    قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دوسری قوموں کی نادانی یہ تھی کہ وہ مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی تھیں۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھیں اپنے علم و فن پر بڑا ناز تھا اور کسی راہ نمائی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھیں۔ اللہ کے رسولوں نے انھیں راہ ہدایت دکھائی لیکن اسے انھوں نے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دن پورے ہونے لگے، ان کی مادّی ترقی انھیں ہلاکت سے نہ بچا سکی اور وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔
    قریشِ مکہ نے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی مخالفت کی تو قرآن نے کہا کہ تم سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کیا تو صفحۂ زمین سے مٹا دی گئیں۔ ان کے مقابلے میں تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تم اللہ کے رسول کی مخالفت کر رہے ہو تو اپنے انجام پر غور کرلو۔
    وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ مَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰھُمْ فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ
    (سبا:45)
    ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی تکذیب کی، حالاں کہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو (دیکھو کہ) میرے انکار کا کیا انجام ہوا۔
    قرآن مجید نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی قریش مکہ کو تنبیہ کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:
    کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّ فِرْعَوْنَ ذُو الْاَوْتَادِ161لا وَ ثَمُوْدُ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَّ اَصْحٰبُ لْءَیْکَۃِط اُولٰٓءِکَ الْاَحْزَابُ۔ اِنْ کُلٌّ اِلاَّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (ص:12۔14)
    اُن سے پہلے جھٹلا چکی ہے قوم نوح (قوم) عاد اور فرعون جو میخوں والا تھا۔ (قوم) ثمود، قوم لوط اور ایکہ والے (حضرت شعیبؑ کی قوم) یہ سب بڑی طاقتیں۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر آکر رہا۔
    اس طرح قرآن نے یہ حقیقت واضح کی کہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کو دریافت کرنے اور ان کو کام میں لانے سے مادّی ترقی ممکن ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرے گی، اس پر مادّی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس ترقی کو کنٹرول کرنے اور پوری زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
    اسلام اس معاملے میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے۔ وہ صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے۔ وہ ان تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے جو انسان کے ذہن میں اس وسیع کائنات اور خود اس کی ذات کے بارے میں ابھرتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی، کیا یہ ہمیشہ رہے گی یا اس کی رونق کبھی ختم ہوجائے گی؟ انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے جو مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اس کی ہدایت اور رہ نمائی کا کیا انتظام کیاہے؟ اس کی آخری منزل کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟
    اسلام ان بنیادی سوالات کا جواب ہی نہیں فراہم کرتا بلکہ ان کی اساس پر زندگی کا ایک پورا نظام پیش کرتا ہے۔ اس سے ہر گوشۂ حیات میں متوازن ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور آدمی کو قلبی سکون اور راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
    ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیمات سے آدمی کو چاہے روحانی سکون حاصل ہوجائے لیکن مادّی ترقی ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس خیال کی تردید کی ہے، اس لیے کہ یہ مادہ پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔
    یہود اپنی دنیا داری میں مشہور ہیں۔ اس کے لیے انھیں کوئی بھی غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کبھی تامل نہیں رہا۔ یہ ایمان کی کم زوری اور اس احساس کا نتیجہ تھا کہ دین کی راہ سے دنیا حاصل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن نے کہا اگر وہ دین پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں تو دنیا ان کے قدم چومنے لگے گی، زمین اپنے خزانوں کے مونھ کھول دے گی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش شروع ہوجائے گی۔
    وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ اْلِانْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْط مِنْھُمْ اّمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ (المائدۃ:66)
    اگر یہ توریت اور انجیل کو اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی جانب سے ان کے لیے نازل کی گئی تھیں، تو رزق ان کے اوپر سے بھی اترتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اُبلتا۔ لیکن ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت سیدھی راہ پر ہے اور ان میں کے زیادہ تر برے کام کر رہے ہیں۔
    یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اسی رخ سے ہونا چاہیے، لیکن مختلف اسباب کی بنا پر مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام اس حیثیت سے دنیا کے سامنے نہ آنے پائے۔ اس نے اسلام کو سمجھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے اسے دیکھا تو صرف اس نقطۂ نظر سے دیکھا کہ اسے کس طرح ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل قرار دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر اعتراضات کا جو سلسلہ اپنی تہذیب کے غلبہ کے بعد شروع کیا وہ اب تک جاری ہے بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بعض پہلوؤں سے شدت بھی آگئی ہے۔ اس کے خلاف علمی، سیاسی، تہذیبی ہر طرح کے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی تصویر اس طرح مسخ کی جا رہی ہے کہ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو اور اسلام کا نام آتے ہی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔
    اسلام کے بارے میں مغرب کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام موجودہ فکر اور تہذیب کے لیے زبردست چیلنج ہے۔ اس کی نظریاتی اور عملی قوت کو مخالف طاقتیں پوری طرح محسوس کررہی ہیں اور اس سے خوف زدہ ہیں۔ یہاں بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
    1۔ جو بھی شخص اسلام پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر موجودہ تہذیب کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس کا اس نے جواب نہ دیا اور اس کا حل نہ پیش کیا ہو۔ چاہے اس کا تعلق عقیدہ اور فکر سے ہو، عبادات و اخلاق سے ہو، تہذیب و معاشرت سے ہو، معیشت و سیاست سے ہو یا مادیت و روحانیت سے۔ کسی معاملے میں اس کے نقطہ نظر سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نے اسے نظر انداز کیا ہے یا اس سلسلے میں راہ نمائی نہیں کی ہے۔
    2۔ آج قیادت کا منصب مغرب کو حاصل ہے۔ پوری دنیا پر عملاً اسی کی حکومت ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والوں کو بری طرح دبایا اور کچلا بھی جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود مغرب میں اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین بھی اسلام کے ماننے والوں میں عام ہے کہ اس کے پاس ایک بہتر اور برتر نظامِ فکر و عمل ہے، صحیح عقیدہ اور فکر ہے، بہتر اخلاقیات ہیں، اعلیٰ تہذیب و تمدن ہے اور سیاست کے ایسے اصول ہیں جو دنیا کو بے لاگ عدل و انصاف فراہم کرسکتے ہیں اور جن کے ذریعے ہر طرح کے ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی برتری کا یہ یقین صرف ان لوگوں میں نہیں ہے، جو دورِ جدید سے بے خبر اور ’قدامت پسند‘ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ ان افراد میں بھی پرورش پا رہا ہے، جو مغرب میں پیدا ہوئے، اس کی گود میں پلے بڑھے اور جن کی تعلیم و تربیت ان کے اداروں میں ہوئی اور جن کی ذہن سازی میں وہ مستقل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کے لیے تشویش کا پہلو یہہے کہ اسلام کے بارے میں وہ مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وہ مغرب کے فکر کو برداشت تو کر رہے ہیں، قبول نہیں کر رہے ہیں۔
    3۔ اس وقت عالم اسلام میں، بلکہ پوری دنیا میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جو اسلام کو ایک غالب قوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اس صورتِ حال پر قانع اور مطمئن نہیں ہیں کہ دنیا پر فرماں روائی غیر اسلامی افکار کی ہو اور اسلام محکوم بن کر رہے۔ ان تحریکات کے طریقۂ کار میں حالات کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن یہ سب اسلام کو سربلند اور غالب دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مغرب کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان تحریکات کے اثرات پھیل رہے ہیں۔ یہ آج کم زور ہیں لیکن کل طاقت ور ہوسکتی ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلم راہ نماؤں اور ان کی نمایاں شخصیتوں کی تصویر بگاڑی جا رہی ہے، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں دستوری اور قانونی طریقے سے بھی کامیاب نہ ہونے پائیں اور کامیاب ہوں تو انھیں اقتدار میں آنے سے کسی نہ کسی طرح روک دیا جائے۔
    4۔ مغرب کو یہ فکر بھی پریشان کر رہی ہے کہ مسلم ممالک مادی لحاظ سے بھی اس موقف میں ہیں کہ وہ اس کے حریف بن سکتے ہیں۔ کسی فکر کو آگے بڑھانے اور اسے غالب کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہیں۔ ان وسائل پر گو اس وقت عملاً قبضہ مغربی طاقتوں ہی کا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا یہ قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی مادی ترقی، خوش حالی اور اقتدار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے انھوں نے بیشتر ممالک کے سربراہوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ وہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو مسلم ملک ان کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے، اسے ختم کرنے کی ہزار تدبیریں ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ صورتِ حال دائمی نہیں ہے، یہ بدل سکتی ہے۔ وہ آزادانہ فیصلے اور اقدامات کرنے کے موقف میں ہوسکتے ہیں۔ اس وقت غالب امکان اس کا ہے کہ ان کے وسائل و ذرائع اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال ہوں۔ یہ چیز مغرب کے لیے باعث تشویش ہے۔
    اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں مغرب کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہر صاحب دانش انھیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فکری اور تہذیبی کم زوریاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور وہ مغرب کے عین مراکز میں خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی فطری خوبیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ صورت حال بہ ظاہر اسلام کے حق میں ہے لیکن خود اسلام کے ماننے والوں کو مختلف قسم کی کم زوریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب تک وہ ان پر قابو نہ پالیں اور اسلام کا نمونہ نہ پیش کریں اسلام کی سربلندی کی تمنا پوری نہیں ہوسکتی۔ یہاں بعض کم زوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
    1۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی اساس پر امت مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ وہ اس پر اپنے ایمان و یقین کا آج بھی اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی دین کے تابع ہو اور اس کا ہر قدم دین کی راہ نمائی میں اٹھے، لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ دین کی اس پر گرفت کم زور پڑ چکی ہے، جو شخص دین دار تصور کیا جاتا ہے، اس کی پہچان یہ تو ہے کہ وہ نماز روزے اور بعض اخلاقیات کا پابند ہے، باقی یہ کہ اس کی شخصیت اس حیثیت سے نمایاں نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بھی درد مند دل رکھتا ہے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح پوری ملت کی کوئی مضبوط دینی پہچان نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ایک محدود دائرے میں۔ سماجی یا معاشرتی سطح پر اس کا دینی کردار دنیا کے سامنے نہیں ہے۔
    2۔ آدمی کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت اور احترام پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس سے آگے اگر کوئی قوم اخلاق و کردار کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو اس کا اعتبار قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا اس پر بھروسہ کرنے لگتی ہے اور اس کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت و کردار کے لحاظ سے یہ امت کہیں بھی نمایاں نہیں ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہے کہ وہ اخلاق کی پابند ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے راست باز اور قول و قرار کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، رشوت نہیں لے سکتے اور کسی غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔ اس میں شک نہیں کہ امت کبھی ایسے افراد سے خالی نہیں رہی اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جاسکتے ہیں، جن کے اخلاق قابل رشک ہیں اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی جاتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی امت کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں ہے، بلکہ اس کی اخلاقی کم زوریاں اس کی خوبیوں کے مقابلہ میں زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں جب تک تبدیلی نہ ہو امتکا اعتبار قائم نہیں ہوسکتا۔
    3۔ مغرب کے سیاسی اقتدار اور اس کی تعلیم و تہذیب کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر قائم ہے۔ اس کے فروغ سے امت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے اندر بھی دین و دنیا کی تقسیم عمل میں آگئی۔ دینی اور دنیوی یا سیکولر تعلیم کے الگ الگ ادارے وجود میں آگئے اور دونوں کے میدان کار بھی الگ ہوگئے۔ امت نے عملاً یہ تسلیم کرلیا کہ علمائے دین انفرادی اور شخصی امور و معاملات میں دینی راہ نمائی فراہم کریں گے اور سیکولر تعلیم پائے ہوئے افراد کی قیادت اجتماعی اور سیاسی امور میں ہوگی۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ربط و تعلق اور ایک دوسرے کے علم اور تجربہ سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں رہی۔ اس وجہ سے امت سخت کشمکش میں ایک مدت سے مبتلا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت تقسیم نہیں ہوسکتی۔ اگر تقسیم ہوگی تو اس کا ایک متعین رخ نہ ہوگا، بیشتر معاملات میں وہ تضاد کا شکار ہوگی اور کبھی ذہنی اور عملی یک سوئی اسے حاصل نہ ہوگی۔ اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر معاملہ میں دینی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت آج کے حالات میں اسی وقت پوری ہوسکتی ہے، جب کہ علمائے دین اور سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان بہت ہی مضبوط ربط و تعلق ہو، دونوں ایک دوسرے کے علم و تجربہ سے فائدہ اٹھائیں، جس طبقہ میں جس پہلو سے کمی ہے اسے دور کرنے میں اسے تامل نہ ہو اور دونوں طبقات مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ کوئی دوسرا مقصد ان کے سامنے نہ ہو۔
    4۔ مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کے درمیان اصول اور اساساتِ دین پر اتفاق ہے۔ البتہ تفصیلی احکام و مسائل میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات دورِ اول سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اختلافات نے بہت ہی ناپسندیدہ شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کا اثر شخصی، سماجی اور معاشرتی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ آپس میں دوری پائی جاتی ہے اور ہر فریق دوسرے کو حریف کی حیثیت سے دیکھنے لگا ہے۔ دین و شریعت اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے رویہ میں تبدیلی آئے اس کے لیے بعض باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
    یہ اختلافات اصول میں نہیں فروع میں ہیں، جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر علمی ہے۔ اسے علمی موضوع ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ ان کا اثر آپس کے تعلقات پر نہ پڑنے پائے۔ بسا اوقات ہمارے نزدیک اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے لیے سوچتے اور تدبیر کرتے ہیں۔ ملت کا مفاد پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملت کا وسیع تر مفاد پیش نظر ہو تو ہم اپنے اختلافات پر قابو پاسکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
    یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اپنے حدود میں رہیں اس کے اندر انھیں برداشت کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہوگی۔ اسی لیے اب مغرب کی بھی کوشش ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی رہے تاکہ یہ امت آپس ہی میں دست و گریباں رہے اور اصل حریف کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے۔

  • ڈاکٹر ذاکر نائک پر پابندی اور اندلس کا سبق – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

    ڈاکٹر ذاکر نائک پر پابندی اور اندلس کا سبق – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

    بیس برس پہلے کی بات ہے، کانپور (انڈیا) میں منتخب نوجوانوں کا ایک اجتماع تھا. اس موقع پر مجھ سے کہا گیا کہ میں اس میں ‘ اندلس میں مسلم عہد حکمرانی کی تاریخ اور اس سے حاصل ہونے والے دروس’ پر اظہار خیال کروں. اندلس کی تاریخ کے تفصیلی مطالعہ کے بعد میں نے نوجوانوں کے سامنے بہت شرح و بسط کے ساتھ اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا. اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود اجتماع کا منظر میری نگاہوں میں ہے اور جو باتیں میں نے وہاں رکھی تھیں وہ بھی ذہن میں تازہ ہیں.
    میں نے اس موقع پر کہا تھا کہ اندلس کی تاریخ کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک عروج کی تاریخ ہے اور دوسرے زوال کی تاریخ.
    اموی خلافت کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت قائم ہوئی تو ایک اموی شہزادہ (عبد الرحمٰن) بھاگ کر اندلس پہنچا، اس نے ایک فوج تیار کی اور حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس نے شہر قرطبہ کو دار الحکومت بنایا اور وہاں ایک شان دار مسجد قائم کی، جو ‘مسجد قرطبہ’ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ حکومت 284 سال قایم رہی. یہ اندلس کی تاریخ کا شان دار دور تھا. مسلمانوں کو اس زمانے میں جو عروج حاصل ہوا وہ پھر کبھی ان کے نصیب میں نہیں آیا.
    اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی. ان کی خودمختار حکومتیں قائم ہوئیں جو آپس میں لڑتی بھڑتی رہتی تھیں. دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مسلم حکومت دوسری مسلم حکومت کے خلاف پڑوس کی عیسائی حکومتوں سے مدد حاصل کرتی تھیں. اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائی آہستہ آہستہ مسلم علاقوں پر قبضہ کرتے گئے اور قرطبہ، طلیطلہ، اشبیلیہ ، بلنسیہ جیسے بڑے بڑے شہر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتے گئے. مرابطین اور موحدین کی حکومتوں نے کچھ سنبھالا دینے کی کوشش کی، لیکن پھر ان کے درمیان بھی جنگیں شروع ہو گئیں. بالآخر تیرہویں صدی کے وسط تک اندلس کے بڑے حصے پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا اور مسلمانوں کا اقتدار اندلس کے جنوب مشرق میں ایک چھوٹے سے حصے پر رہ گیا، جس کا صدر مقام غرناطہ تھا. یہاں تقریباً 250 سال تک بنواحمر کی حکومت رہی، لیکن پھر شاہی خاندان کے لوگ آپس میں لڑنے بھڑنے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی قوت کمزور ہوتی گئی اور عیسائیوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے. بالآخر قشتالہ کی عیسائی حکومت نے غرناطہ کا محاصرہ کرکے 1492 میں اندلس میں مسلم حکمرانی کا خاتمہ کر دیا.
    اندلس پر قبضہ کرنے کے بعد عیسائیوں نے مسلمانوں پر بڑے مظالم ڈھائے. عربی پڑھنا اور بولنا جرم قرار دیا گیا. مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا گیا. ہزاروں مسلمانوں کو، جنھوں نے عیسائیت قبول نہیں کی، قتل کر دیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ کئی لاکھ مسلمان ملک سے نکال دیے گئے یا وہ خود ہجرت کر گئے. اندازاً جلاوطن ہونے والے مسلمانوں کی تعداد 30 لاکھ تھی. باقی آبادی نے جان کے خوف سے بظاہر عیسائیت قبول کر لی. اس طرح اندلس میں، جہاں مسلمانوں نے تقریباً 800 سال حکومت کی تھی،ایک بھی مسلمان باقی نہ بچا. جناب ثروت صولت نے اپنی کتاب ‘ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ’ میں اندلس میں مسلم عہد حکمرانی کی تاریخ بیان کرنے کے بعد بہت درد بھرے انداز میں لکھا ہے کہ “اندلس میں مسلمانوں کی داستان بڑی درد ناک ہے۔ اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔” (۱/۳۵۰)
    اس وقت ہندوستان میں وہ طاقتیں جن کی اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے، بہت سرگرم ہیں. ایک طرف وہ دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں، کم زور طبقات، اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان ان کے مظالم کا شکار ہیں، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ الٹا مسلمانوں کو عالمی اور ملکی دونوں سطحوں پر بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہیں. ان پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگارہی ہیں. انھیں شدت پسند، بے رحم، خون آشام، دہشت گرد اور طرح طرح کے القاب سے نواز رہی ہیں۔اس وقت مشہور داعی اسلام اور مبلّغ ڈاکٹر ذاکر نائک ان کے نشانے پر ہیں. ان کی شخصیت کو متّہم کیا جا رہا ہے، ان کے چینل پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، ان کےادارہ پر پابندی کے ارادے ظاہر کیے جا رہے ہیں، ان کے وسائل آمدنی کی تفتیش کی جا رہی ہے، ان کے خلاف مقدمے قائم کرنے اور ان کو داخل زنداں کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
    عجیب بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے بعض گروہ ان مسلم دشمن طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرکے ان کو گرفتار کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
    مسلمانوں کے ان گروہوں کو میں اندلس کا سبق یاد دلانا چاہتا ہوں. اندلس کا یہ پیغام نوشتہ دیوار ہے کہ جب تک مسلمان متحد رہیں گے، کوئی طاقت ان کا بال بیکا نہیں کر سکتی، لیکن جب ان کی صفوں میں دراڑ پڑ جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں عروج واستحکام نہیں بخش سکتی۔
    اسی طرح اندلس کا یہ سبق بھی انھیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں کوئی فرق نہیں کرتے. ان کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں. جس طرح اندلس میں وہ مسلم حکومتیں فنا کے گھاٹ اتر گئیں جن کے خلاف دوسری مسلم حکومتوں نے عیسائی حکومتوں سے مدد لی تھی اسی طرح خود وہ مسلم حکومتیں بھی زیادہ عرصہ تک باقی نہ رہ سکیں جنھوں نے ان کے خلاف عیسائیوں سے مدد چاہی تھی۔
    مسلم دشمن طاقتوں کو معلوم ہے کہ اندلس سے کس طرح مسلمانوں کا صفایا کیا گیا تھا. وہ اسی حکمت عملی کو یہاں بھی بروئےکار لانا چاہتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہیں. بہتر ہے کہ ہم نوشتہ دیوار پڑھ لیں، اس سے پہلے کہ وقت نکل جائے، پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا.
    کوئی مسلم گروہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ موجودہ مسلم دشمن حکومت کی ہاں میں ہاں ملا کر کسی مسلم شخصیت یا گروہ کی سرکوبی کے بعد وہ محفوظ رہے گا اور اس کو پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع حاصل ہوجائیں گے، بلکہ اندلس کی تاریخ یاد دلاتی ہے کہ اس صورت میں اس کو بھی لازماً زیرِ عتاب آنا ہے، چاہے کچھ دنوں کے بعد ۔
    بہت بے وقوف ہے وہ شخص یا گروہ جو اس نوشتہ دیوار کو نہ پڑھے اور تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے۔

  • کیا انسانیت کوئی مذہب ہے؟  – محمد دین جوہر

    کیا انسانیت کوئی مذہب ہے؟ – محمد دین جوہر

    عبد الستار ایدھیؒ کے انتقال پر کئی طرح کے رد عمل سامنے آئے، حالانکہ موت پر عموماً ایک ہی طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے جو مرنے والے کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ دکھ کا ہوتا ہے۔ لیکن ایدھی مرحوم کو جہاں خراج تحسین پیش کیا گیا، وہاں بعض لوگوں نے ان کے عمل کو یکسر فراموش کرکے ان کے عقیدے کو موضوع بنایا اور انہیں ملحد و زندیق وغیرہ قرار دیا۔ انسان کے عمل کا انکار کر دینا، دراصل انسان کے وجود ہی سے انکار ہے اور اس کے بعد ہر بات کہنے کا راستہ کھل جاتا ہے اور کچھ بھی کسی کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔

    ضمناً اس میں انسانیت اور مذہب کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا اور ایک نیا خلط مبحث پیدا ہو گیا جس میں انسانیت اور اسلام کی مابینی نسبتوں پر بھی گفتگو ہونے لگی۔ گزارش ہے کہ انسان اور مسلمان دونوں حیثیتوں سے یہ صورت حال ازحد افسوس ناک ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم نے اپنی دینی تعلیمات کو چیستاں بنا لیا ہے، اور دوسری طرف حیاتِ انسانی کے مسلمات سے بھی ہمارا ذہن حالتِ انکار میں چلا گیا ہے۔

    گزارش ہے کہ انسان ہونا فطری ہے اور مسلمان ہونا ارادی، یعنی انسان ہونا اپنی ہستی میں آفاقی اور مشترک ہے جبکہ حیات میں مختلف ہے۔ بلا تفریق رنگ، زبان، نسل اور مذہب، انسان ہونا تقدیری صورتحال میں مشترک ہے جبکہ تاریخی صورتحال میں مختلف ہے یعنی انسان being میں ایک ہے اور becoming میں مختلف ہے۔ مذہبی فرق کے باوجود، تقدیری صورتحال میں انسان کے فطری اشتراکات کو نظر انداز کرنا نادانی اور محرومی کی بات ہے۔ ان فطری اشتراکات میں اخلاقی اعمال اور رویے لازماً شامل رہتے ہیں۔

    دنیا کا ہر مذہب یا ہر تصورِ حیات تاریخ میں اجتماعی سطح پر بہت متعین مظاہر رکھتا ہے جو عموماً چار ہیں۔ اگر کوئی مذہب یا تصور حیات اجتماعی سطح پر یہ چار مظاہر نہیں رکھتا تو وہ تہذیبی اور آفاقی ہونا کوالیفائی نہیں کرتا: (۱) سیاسی نظام؛ (۲) معاشی نظام؛ (۳) علم، اور (۴) کلچر اور جمالیاتی مظاہر۔ مذہب یا کسی بھی تصور حیات کے یہ تاریخی مظاہر ہی اس کی تہذیب قرار پاتے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت عالم گیر سطح پر اسلام کے سیاسی، معاشی اور علمی مظاہر معدوم ہیں اور کلچر اور جمالیاتی مظاہر کمزور اور عالمی تناظر میں غیر اہم ہیں۔ ان چاروں پہلوؤں سے اسلامی ممالک اور معاشرے مغربی تہذیب کے دست نگر ہیں اور انہوں نے اپنے معاشروں کی پوری جدید تشکیل ادھار کے نظام اور مانگے کے علم سے کی ہے۔ ہمارے کلچر اور دینی معاشرت کے نمونے بھی بہت تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔

    دوسری طرف آج کی دنیا میں اسلام کے طاقتور اور مؤثر ترین تہذیبی مظاہر تحریک طالبان پاکستان، داعش، بوکوحرام اور الشباب وغیرہ ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے زعم میں اسلام کی ایک خاص تعبیر کی داعی ہیں اور مسلم دنیا کا بڑا حصہ ان کے موقف کو مسترد کرتا ہے۔ لیکن ہمارا رد اتنا کمزور ہے کہ ہم خود بھی اسے نہیں سن پاتے، کوئی کیا سنے گا، کیونکہ ان تنظیموں کے رد میں ہمارے اندر بھی ایک گہرا دوغلا پن پایا جاتا ہے۔ ہمیں ان کا نعرہ اچھا لگتا ہے، لیکن عمل سے ڈر آتا ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے جدید دنیا میں اسلام کی اجتماعی اور عالمی نمائندگی کے جملہ حقوق بالجبر اپنے نام منتقل کر لیے ہیں۔ ان کا موقف یقیناً غلط ہے لیکن اس وقت اسلام اپنے جو بھی تہذیبی مظاہر رکھتا ہے، وہ ان تنظیموں کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ تنظیمیں خالص ترین بربریت کی نمائندہ ہیں۔ عموماً ”انسانیت“ کی جو بات کی جاتی ہے اس کے پس منظر میں اشارہ اسی بربریت کی طرف ہوتا ہے، اور جو درست بھی ہے کیونکہ انسان ہونے کا کوئی بھی معروف تصور بھلے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، اس بربریت کو نہ درست قرار دے سکتا ہے نہ قبول کر سکتا ہے۔ اس سیاق میں انسانیت کے ذکر سے اسلام کی مخالفت مراد لینا درست نہیں۔

    بطور علمی اصطلاح ”انسان“ کا لفظ ایک خالی ظرف کی طرح ہے۔ انسانوں کے تقدیری اشتراکات کو نظر انداز کیے بغیر، ہر تصورِ حیات اور ہر مذہب انسان ہونے کی مرادات کو اپنے خاص تناظر میں متعین کرتا ہے۔ بطور مذہب اسلام چونکہ حق کا نمائندہ ہے، اس لیے اسلامی تناظر میں ”انسان“ کی حتمی معنویت، مراد اور مطالبہ uncompromising ہے اور جسے ”عبد“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ”عبد“ ہونے سے انسان کے انفرادی، سماجی اور تاریخی مظاہر مختلف ہو جاتے ہیں، اور تقدیری صورت حال کے بارے میں اس کا موقف تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور موقف کی اس تبدیلی کے باوجود دیگر انسانوں سے ”عبد“ کے تقدیری اشتراکات پھر بھی باقی رہتے ہیں۔

    انسانیت کے موضوع پر ناچیز مطعم بن عدی کے واقعے کا ذکر کرنا چاہ رہتا تھا، لیکن چونکہ مذہبی بات کرنے کے جملہ حقوق کہیں اور محفوظ ہیں اس لیے ہم اس کو موضوع نہیں بناتے، لیکن یہ واقعہ اس موضوع پر حتمی ہے۔

    ہمارے ہاں انسانیت ایک خلط مبحث اس لیے بن گئی ہے کہ ہمارے علم اور عمل سے انسان غائب ہے۔ ہمارے ہاں جو انسان دینی ہدایت پر کاربند ہے، اس کا بیان بھی غائب ہے، یعنی وہ ایک فرضی مخلوق ہے اور اس کے انسانی، سماجی، تاریخی اور تہذیبی خدوخال ہمارے علم سے خارج ہیں۔ یہی صورت حال اس انسان کی ہے جو اس کا ممکنہ مخاطب ہے، یعنی عصر حاضر میں جو انسان اس ہدایت کا مخاطب ہے، اس کی شناخت بھی ہمیں قطعی نامعلوم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علم اور عمل کا مدار انسان کا عمل نہیں رہا ہے، اس کا عقیدہ بن گیا ہے، حالانکہ انسان ظاہر پہلے ہے اور باطن بعد میں ہے۔ ہماری آنکھ ارد گرد جس انسان کو دیکھتی ہے، وہ معاشرے اور تاریخ میں نہیں ہے، ہمارے پسماندہ ذہن کی بنائی ہوئی کوئی ادھوری تصویر ہے۔ انسان کے عمل کا انکار کر دینا، انسان، معاشرے اور تاریخ کا بیک وقت انکار ہے۔ انسان کے انکار سے خدا کی معنویت بھی باقی نہیں رہتی۔ اس موقف پر انسان اور تاریخ دونوں فکشن بن جاتے ہیں۔ ہماری یہی وہ حالت انکار ہے جس میں اب ہمیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ اگر ہم انسان ہونے کی کوئی معنویت باقی نہیں رکھ پا رہے تو مسلمان ہونے کی کسی معنویت کا دفاع کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔

    خوارج کی اصل پہچان یہ تھی کہ وہ اصلاً عملِ انسانی کا انکار کرتے تھے، اور دوسرے کے عقیدے پر یک طرفہ فیصلہ خود ہی دیتے تھے، اور پھر اپنے اس فیصلے کو یک طرفہ سیاسی اور جارحانہ عمل کی بنیاد بناتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ انسان کی جنت و دوزخ کا فیصلہ بھی یہیں ”نافذ“ کر دیتے تھے۔ خوارج کے برعکس، ہماری روایت میں عقیدہ براہ راست فتوے کا موضوع نہیں ہے، علم کا موضوع ہے، اور علم کے بعد فتوے کا امکان بروئے کار لایا جاتا ہے جبکہ عمل براہ راست فتوے کا موضوع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خوارج کے رویے اب علی الاطلاق مسلم معاشرے پر غالب آ گئے ہیں اور ہم نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دینی موقف اور عمل کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ ”کافر“، ”مشرک“، اور ”گستاخ“ کہنے کا براہِ راست تعلق عقیدے سے ہے اور یہ ایک ہی بات کے مختلف رخ ہیں۔ ہمارے غالب مذہبی مباحث کا مقصد ان تین میں سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ہم خوارج کے تتبع میں مرنے والوں کی جنت و دوزخ کا تعین بھی ادھر بیٹھے کر لیتے ہیں۔ ہمارے مذہبی علما انبیا کے وارث ہیں، اور وہ اب تک مذہبی متون کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھتے رہے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ عصری تاریخ کے آئینے میں بھی اپنی تصویر دیکھنی چاہیے۔

    اسلام اب بھی دنیا اور مسلم معاشروں میں طاقتور اور لاتعداد انفرادی، خانگی اور سماجی مظاہر رکھتا ہے جو زیادہ تر عباداتی اور اخلاقی نوعیت کے ہیں۔ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے جو تہذیبی مظاہر عمل اور علم میں سامنے آ رہے ہیں وہ علی العموم نہایت تشویشناک ہیں۔ اب ہمارے مذہبی عمل اور مذہبی علم میں صرف دو بڑے تہذیبی مظاہر باقی رہ گئے ہیں۔ مذہبی عمل میں یہ داعشی طرز کی دہشت گردی ہے جو سوائے بربریت کے اور کچھ نہیں۔ مذہبی علم میں یہ آفاقی تکفیریت ہے جو انسان کشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت اس سے متفق نہیں، لیکن ہمارے ان شدید، مذہب دشمن اور انسان دشمن تہذیبی مظاہر نے عامۃ المسلمین کے اختلاف کو بھی بے معنی کر دیا ہے۔ ظاہر ہےکہ ہمارے دین کے انفرادی، خانگی، جمالیاتی، تعلیمی اور معاشرتی مظاہر اب بھی بے شمار ہیں لیکن تہذیبی مظاہر کے سامنے ان کی حیثیت فطری طور پر کم ہے اور ان کا دائرہ بھی مختلف ہے۔ اس کا بہت سادہ مطلب یہ ہے اگر ہم خلافت راشدہ کی مذہبی تعلیمات کی کوئی فکری تشکیل نہیں کر پاتے اور اس کے علمی اور فکری دفاع کے اہل نہیں ہیں تو ہم اپنی اخلاقیات کو بھی نہیں بچا سکیں گے۔ یہ عمل ادھورا نہیں رہتا، پورا ہوتا ہے۔ ہم نے بہت تیزی سے زندگی کے سارے سلیقے فراموش کر دیے ہیں۔ دہشت گردی اور تکفیریت کے عالمگیر تہذیبی مظاہر میں ہماری اپنی دینداری اور انسانیت بھی اب داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ آج کے دور میں ہمیں اپنے مسلمان ہونے کی معنویت کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے انسان ہونے کی معنویت کو باقی رکھنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔

    گزارش ہے کہ اپنے ذہن کی کسریت اور عمل کے انہدام میں اسلاف سے تمسک راستوں کو روشن کرنے، عزم سفر اور سفر کے تمام لازمی وسائل کا واحد ذریعہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہے اور یہ فیصلہ وہی ہے جس کے تہذیبی مظاہر نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے، تو ہمیں اپنے ملی مستقبل کے بارے میں ازسرنو سوچنے کی ضرورت ہے۔
    واللہ اعلم