Category: دینیات

  • سیرت ِطیبہ کے دو واقعات – نعیم الرحمان شائق

    سیرت ِطیبہ کے دو واقعات – نعیم الرحمان شائق

    اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِحسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ بالکل اسی طرح، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی ہے ۔ تعلیم ہو یا سیاست ، امور ِ خانہ داری ہوں ، یا تجارت ، معیشت ہو یا رہن سہن کے اطوار ، ہر جگہ اسوہ ِ حسنہ کی پیروی کرنا ہمارے لیے از حد ضرور ی ۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِ طیبہ ایک بحر ِ بے کراں ہے ۔ اس کا پورا پورا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ جی چاہتا ہے ، آقا علیہ السلام کی سیرت ِ پاک کے دو واقعات سے آج کی اپنی تحریر کو معطر کروں۔

    1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالائی منزل پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم ِ مبارک پر صرف ایک تہہ بند تھا۔ ایک کھری چارپائی تھی، سرہانے ایک تکیہ پڑا تھا، جس میں خرمے کی چھال بھری ہوئی تھی۔ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے تھے۔ ایک کونے میں پائے مبارک کے پاس کسی جانور کی کھال پڑی تھی۔ کچھ مشکیزے کی کھالیں سر کے پاس کھونٹی پر لٹک رہی تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب دریافت کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں کیوں نہ روؤں۔ چار پائی کے بان سے جسم ِ اقدس پر بدھیاں پڑ گئی ہیں۔ اس میں جو سامان ہے، وہ نظر آ رہا ہے۔ قیصر و کسریٰ تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور خدا کے پیغمبر و برگزیدہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان ِخانہ کی یہ کیفیت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ”اے ابنِ خطاب ! تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ یہ دنیا لیں اور ہم آخرت۔“
    یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت ِطیبہ کا مشہور واقعہ ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ ہم دنیا و آخرت میں سے کس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟ ہمیں ان دونوں میں سے کون سی شے زیادہ مرغوب ہے؟ اسلام کا جھکاؤ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی طرف زیادہ ہے، کیوں کہ وہ ابدی زندگی ہے ۔

    2۔ قبیلہ ِاراش کا ایک شخص مکہ مکرمہ میں اپنے اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابوجہل نے اس سے سارے اونٹوں کا سودا کر لیا۔ اونٹ لینے کے بعد ابوجہل نے قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول شروع کر دی۔ اراشی کئی روز مکہ مکرمہ میں ٹھہرا رہا، مگر ابوجہل برابر حیلے بہانے کرتا رہا۔ جب اراشی تنگ آگیا تو اس نے ایک روز حرم ِکعبہ میں پہنچ کر قریش کے سرداروں کو اپنی بپتا سنائی اور فریاد کی کہ میری رقم ابوجہل سے دلوادو۔ میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں، خدارا میری مدد کرو۔ جس وقت وہ قریش کے سرداروں سے فریاد کر رہا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حرم ِکعبہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔ سرداران ِقریش کو مذاق سوجھا تو انھوں نے اس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں مدد طلب کرنے کو کہا۔ مظلوم اراشی اپنی فریا د لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ دوسری طرف سرداران ِقریش خوش ہو رہے تھے کہ اب مزہ آئے گا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس اجنبی مظلوم کی فریاد سن کر اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کے مکان پر پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رعب دار آواز میں کہا، تم نے اس اراشی سے اونٹ خریدے ہیں، فوراََ اونٹوں کی رقم لا کر اس شخص کو دے دو ۔ یہ ایک سچے کردار کی عظمت اور رعب کا نتیجہ تھا کہ ابوجہل نے مطلوبہ رقم اراشی کے سپرد کر دی۔

    اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں مظلوم کی حمایت کرنی چاہیے، چاہے وہ مظلوم کسی اور قوم کا ہی کیوں نہ ہو! اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ ِحسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )

  • ایک آیت جو پانچ سو لوگوں کے ایمان لانے کا سبب بنی

    ایک آیت جو پانچ سو لوگوں کے ایمان لانے کا سبب بنی

    ممتاز سعودی عالم ابو عبد الرحمن محمد العریفی کہتے ہیں كہ میں یمن گیا اور شیخ عبد المجید زندانی سے ملا، جو جید عالم دین ہیں اور قرآن کریم کے علمی اعجاز اور سائنسی تجربات (جو قرآن کریم کی تصدیق کرتے ہیں) پر مامور ہیں اور شیخ نے اس پر کافی کام کیا ہے۔ میں نے شیخ سے پوچھا کہ کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو؟
    شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں۔
    میں نے کہا مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں۔
    شیخ کہنے لگے۔
    کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا، یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے انکشافات ہوئے، اُن کے متعلق تھا۔ ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے اُن کا وہم ہے) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کی ذریعے ہمیں درد کا احساس ہوتا ہے، ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے۔ پھر اس نے مثالیں دیں کہ مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو درد کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے، اس کے بعد درد کا احساس نہیں ہوتا۔
    اُس پروفیسر کی باتوں کا لُب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں درد کا مرکز اور درد کا احساس صرف جلد تک محدود ہے، جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو درد کا احساس نہیں ہوتا۔
    شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا:
    پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لے کر آئے ہیں، ہم تو چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں۔ پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا۔
    شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں ۔
    اُس نے کہا، وہ کیسے؟
    شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پڑھی،
    ترجمہ:جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقینا آگ میں ڈال دیں گے، جب ان کی کھالیں پک جائیں گی، ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے. (سورہ النساء۔56)
    یعنی کہ جب اہل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی، تو اللہ نئی جلد اور کھال دےگا تاکہ نافرمان لوگ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ معلوم ہوا کہ درد کا مرکز جلد ہے۔
    شیخ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا، وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کہ کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟
    سب نے کہا ترجمہ صحیح ہے، وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا۔
    شیخ زندانی کہتے ہیں کہ جب وہ باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور برطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ، انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا۔
    وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا، سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں۔ اُس نے کہا کہ مجھے قرآن کا ترجمہ دو، شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا۔
    شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے۔
    اے اللہ میرے سینے میں قرآن کو محفوظ کر دے،
    اور میری زبان پر قرآن کی تلاوت ہو،
    اور میرا اخلاق قرآن ہو،
    اور میرا علم و عمل قرآن کے مطابق بنا دے۔ آمین۔

  • تکفیر سے متعلق ایک سوال کا جواب – تجلّٰی خان

    تکفیر سے متعلق ایک سوال کا جواب – تجلّٰی خان

    میرے مضمون ’’قرآن میں لفظ ’’مشرک ‘‘ کا استعمال واطلاق ‘‘ کو جن لوگوں نے سراہا ہے ان کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بدھلہ ملتان سے میرے ایک دوست عدنان قاسم صاحب نے ایک سوال کیا ہے کہ ایک ایسے دور میں جب ہزاروں کی تعداد میں غلط روایات کو اسلامی رنگ دے کر پروان چڑھایا جارہا ہو اور اس کے لیے دلائل بھی غلط احادیث اور ان کی غلط تشریحات سے دیے جا رہے ہوں اور کوئی اس کی وجہ سے انجانے میں شرک کا مرتکب ہو رہا ہو جبکہ دل میں کجی یا ٹیڑ ھ بھی نہ ہوجبکہ اس کو تبلیغ بھی نہ کی گئی ہو تو کیا ان لوگوں کو بھی کافر ومشرک کہا جائے گا یا کوئی توقف کیا جائے گا؟
    جواب: دلوں کا حال اللہ جانتا ہے کہ کسی کے دل میں کیا ہے ؟ ہم اس کے لیے مکلف نہیں ہیں۔ آخرت کا معاملہ الگ ہے اور دنیا کا معاملہ الگ ۔ آخرت کا فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ دنیا میں فیصلہ ظاہر پر کیا جاتا ہے نہ کہ کسی کے دل میں پوشیدہ باتوں پرجن کا ہمیں علم تک نہ ہو۔ اب اگرکوئی شخص بظاہر ایمان لا کراسلام قبول کرے تو اسے مومن یا مسلم کہا جائے گا خواہ اس کے دل میں کفر ،شرک یا نفاق کیوں نہ چھپا ہو اورایسا شخص جو بظاہر ایمان نہ لائے اور اسلام قبول نہ کرے تو اس کو مومن یا مسلم تسلیم نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ اپنے دل میںایمان کیوں نہ رکھتا ہو۔ ہم ظاہر کو دیکھ سکتے ہیں اور ظاہر ہی پر فیصلہ کرسکتے ہیں نہ کہ باطن پر ۔ باطن کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ اب جو شخص ایمان نہ رکھتا ہو اور دائرہٗ اسلام سے باہر ہو اور شرک میں ملوث ہو اگر اس سے انجانے میں شرک ہورہا ہو یا وہ جان بوجھ کر شرک کررہا ہو خواہ غلط روایات یا غلط تشریحات کی بنا پر کیوں نہ ہو لیکن ظاہری طو رپرتو وہ شرک کا مرتکب ہورہا ہے اورشرک جو ظلم ِ عظیم ہے ِ اللہ تعالیٰ کے ہاںا س کی بخشش نہیں۔ اس نے اس قبیح اور ناقابل معافی جرم کی سزا جہنم بتائی ہے اور ارشاد فریاما:
    [pullquote]اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْحَرَّ مَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰہٗ النَّارِ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارِ[/pullquote]

    ترجمہ: ’’بے شک جس نے اللہ کے سا تھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کیا ہے اور اس کاٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘ ( سورہ الما ئدۃ آیت نمبر۷۲)
    اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ نے فرمایا ہے:
    [pullquote]من مات یشرک باللہ شیئاً دخل النار ومن مات لا یشرک باللہ شیئاً دخل الجنۃ (مسلم) [/pullquote]

    ترجمہ : ۔ ’’ جو شخص اس حالت میں مر جاتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرتا ہے آگ میں داخل ہوگا اور جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
    [pullquote]إنَّ اللہ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدا (سورۃ النساء آیت نمبر ۱۱۶)[/pullquote]

    ترجمہ :۔’’بے شک اللہ یہ نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو جس کے لئے چاہے گا بخش دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ گمراہی دور جا پڑا ۔

    اب آپ غور کریں ان آیات میں یہ ذکر نہیں کہ اس سے یہ شرک انجانے سے ہوا یااس نے جانتے بوجھتے کیا لیکن اللہ اس کو معاف نہیں کرے گا ۔اس کو آپ ظلم بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اللہ عدل کرنے والاہے ،اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرے گا کہ کسی کو بلاوجہ سزا دے گا کیونکہ اس نے انسان کو اس کے پیدا ہونے سے قبل اس کی فطرت میں توحید کا عقیدہ ڈال دیا تھا اور ازل ہی سے یہی عقیدہ سے اس کی سرشت اوراس کے شعور میں پیوست کردیا تھا اور تمام انسانوں سے یہ عہد لیا تھا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں اور سب نے یہ اقرار کیا تھا کہ آپ واقعی ہمارے رب ہیںاو ر پھر اللہ نے توحید کایہی عہدواقرار اس کی فطرت کے اندودیعت فرمایا اور پھر اسی فطرت پر انسانوں کی پیدائش فرمائی، جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے :
    [pullquote]فاقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللہ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا (سورۃ الروم ۳۰ آیت نمبر۳۰)[/pullquote]

    ترجمہ: پس آپ یکسو ہوکر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں ،اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے ۔

    اسی طرح بخاری اور مسلم کی حدیث میں بھی یہ بات بیان ہوئی ہے کہ
    [pullquote]ما من مولود یولد علی الفطرۃ ۔ (بخاری ومسلم )[/pullquote]

    چونکہ پہلے ہی سے انسان کے عقل وشعور ،اس کی سرشت اور اس کی جبلت اور اس کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ،الوہیت اور توحید کے عقیدے کا علم موجود ہے اس لیے اس سے اس کی بے خبری یا لاعلمی کا عذرقابل قبول نہیں اور تقریباً تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ ازل ہی سے اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میںتوحید کا عقیدہ ودیعت کردیا ہے ملاحظہ ہوں مختصراً چند مفسرین کے اقوال:
    1. ’’ یعنی تمام انسان اس فطرت پر پیدا کئے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی رب اور کوئی معبود اور مطاع حقیقی ایک اللہ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد سوم )
    2. ’’ فطرت کے اصل معنی خلقت (پیدائش ) کے ہیں ۔ یہاں مراد ملت اسلام (وتوحید ) ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش،بغیر مسلم وکافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوئی ہے، اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح عہد الست سے واضح ہے ۔‘‘ (تفسیر احسن البیان صفحہ ۹۵۶)
    3. ’’رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کر لیا گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے ۔‘‘ (ابن کثیر اردو جلد چہارم صفحہ ۱۷۷)
    4. ’’یعنی ہر طرف سے کٹ کر اس دین فطرت کی پیروی کرو جس پر فاطر فطرت نے لوگوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ ’’یہ دین خارج کی کوئی چیز نہیں ہے جو تم پر اوپر سے لادی جا رہی ہو، بلکہ یہ عین تمھاری فطرت کا بروز اور تمھارے اپنے باطن کا خزانہ ہے جو تمھارے دامن میں ڈالا جا رہا ہے۔‘‘ ’’انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت اور بہترین فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ اس کو خیر وشر اور حق وباطل کی معرفت عطا فرمائی ہے اور نیکی اور بدی کا جزبہ بھی اس کے اندر ودیعت فرمایا ہے ۔‘‘ (تدبر قرآن جلد ششم صفحہ ۹۴)
    5. ’’اللہ کی فطرت (یعنی دین اسلام کو) جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ۔‘‘ یعنی تمام لوگوں کے اند ر صلاحیت اور استعداد پیدا کردی ہے کہ فطرت کو جان سکتے ہیں اور اس پر چل سکتے ہیں، گویا فطرت سے مراد ہے فطری استعداد جو ہر شخص میں پیدائشی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک فطرت سے وہ وعدہ مراد ہے جو اللہ نے حضرت آدم اور آپ کی ساری نسل سے لیا تھا اور فرمایا تھا: الست بربکم، کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ قالوا بلیٰ تو سب نے جواب دیا: کیوں نہیں، تو ہمارا رب ہے۔ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے، اسی ازلی اقرار پر پیدا ہوتا ہے ۔یہ ہی حنیفیت ہے جس پر سارے انسانوں کی تخلیق ہوتی ہے ۔یعنی ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو سالم سرشت لے کر آتا ہے، اس کی طبیعت قبول حق کے لیے تیار ہوتی ہے۔‘‘ ( تفسیر مظہری جلد نہم صفحہ ۱۵۳)
    6. ’’فطرت اللہ سے اللہ کی توحید مراد ہے جس کی قابلیت واستعداد اللہ تعالیٰ نے ہر بچے کی فطرت اور خلقت میں ودیعت فرمائی۔‘‘ (جواہر القرآن جلد سوم صفحہ ۸۹۷)
    7. ’’یہ بات ہر انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اس کا بندہ اور غلام ہے ۔لہٰذا اسے صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنا چاہئیے ۔چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت (اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ ’’ بالفاظ دیگر ہر انسان کی فطرت میں قبول حق کی استعداد رکھ دی گئی ہے اور اسی لیے قبول حق کا مکلف بھی بنایا گیا ہے ۔‘‘ (تیسیر القرآن جلد سوم صفحہ ۵۱۳)

    یہ بات تو دو اور دو چار کی طرح واضح ہو ئی کہ توحید کا عقیدہ ،حق وباطل اور خیر وشر کی پہچان رو ز ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ڈال دی گئی ہے اورہرانسان کی پیدائش فطرت اسلام پر ہوتی ہے، اس میں قبول حق کی استعدا د رکھ دی گئی ہے اور اسی لیے اسے قبول حق کا مکلف بنایا گیا ہے ۔ اب اگر وہ اللہ تعالیٰ کی اس دی ہوئی صلاحیت کو بروئے کار نہ لائے اور خود کو بے خبر رکھے ۔تو اس کا یہ عذر قیامت کے دن قابل قبول نہ ہوگا ۔ آئیے مزید وضاحت کے لیے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳ پر نظر ڈالتے ہیں،
    [pullquote] وَإذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُواْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَ (172) أَوْ تَقُولُواْ إنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّن بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (سورۃ الاعراف۷ آیت نمبر ۱۷۲ ،۱۷۳[/pullquote]

    ترجمہ: اور جب تمھارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا : کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا : ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ،ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دینا کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے ۔یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے ۔ پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟

    اس بات پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس عہد [pullquote]’’أَلَسْتُ بِرَبِّکُم قَالُواْ بَلَی شَہِدْنَا‘‘[/pullquote]

    کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے معاملے میں تمام بنی نوع انسان پر اتمام حجت ہوچکی ہے ۔انہیں اور کسی مزیددعوت وتبلیغ کی حاجت نہیں ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب جو تکفیر کے جواز کے قائل نہیں اور ان کے نزدیک انقطاع وحی کے بعد دنیا کے کسی بھی فرد ( خواہ وہ عیسائی ، یہودی،مجوس، صابی ،ہندو ، سکھ یا بدھ مت والے کیوں نہ ہو) کو اس کے کفر یا شرک کی بنا پر کافر یا مشرک قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس کی تکفیر کو غلط کہتے ہیںخود بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکے اور اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں لکھا :
    ’’جہاں تک توحید اور بدیہات فطرت کا تعلق ہے ،ان کے بارے میں مجرد اس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیا جائے گا ۔ان سے انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہ ہوگا کہ اسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی یا اس نے یہ انحراف خارجی اثرات کے نتیجے میں اختیار کیا تھا اور اس کے ذمہ دار اس کے باپ دادا اور اس کا ماحول ہے۔قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ ہر شخص مجرد اس شہادت کی بناپر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ مزید حجت جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی ان کا مواخذہ کیا جائے گا اور آخرت کے لحاظ سے بھی ان کی مسئو لیت دوچند ہو جائے گی ،ورنہ اصلاً تو یہ حجت،جیسا کہ بیان ہو ا، اس علم سے قائم ہو جاتی ہے جوانسان کے فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔‘‘ (البیان جلد دوم صفحہ ۲۴۲ ،۲۴۳ حاشیہ نمبر ۵۶۶ ، ۵۶۷)

    یعنی عقیدۂ توحید کاعلم ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لیے وہ بے خبر نہیں۔لہٰذا قیامت کے روز وہ اپنی لاعلمی یا بے خبری کاعذر پیش نہیں کرسکے گا ۔غامدی صاحب لکھتے ہیں :
    ’’زمین پر خدا کی دینونت کے واقعات سے استدلال کے بعد اب یہ قریش کو اس عہد فطرت کی یاددہانی کرائی ہے جس کی بنیاد تمام بنی آدم قیامت کے دن مسئول ٹھیرائے جائیں گے اور خدا کی بارگاہ میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ اسے کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی یا اس نے شرک اور الحاد کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی اور خدا کے اقرار اور اس کی توحیدکے تصور تک پہنچنا اس کے لیے ناممکن تھا ۔ قرآن نے اس عہد کو جس طریقے سے پیش کیا ہے ،اس سے واضح ہے کہ یہ محض تمثیلی انداز بیان نہیں ہے بلکہ اسی طرح کے ایک واقعے کا بیان ہے جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں ۔اس سے یہ حقیقت مبرہن ہوجاتی ہے کہ خالق کا اقرار مخلوقات کی فطرت ہے ۔‘‘
    اصل الفاظ ہیں: مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ۔ مِن ظُہُورِہِمْ مِن بَنِیْ آدَمَ سے بدل واقع ہوا ہے۔ اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ یہ واقعہ کسی خاص دور ہی کے بنی آدم سے متعلق نہیںبلکہ قیامت کے دن تک جتنے بنی آدم بھی پیدا ہونے والے ہیں ،ان سب سے متعلق ہے اور ارواح کے اجسام کے ساتھ اتصال کی ابتدا سے پہلے ہوا ۔‘‘ (البیان جلد ۲ صفحہ ۲۴۱ )

    جناب امین احسن اصلاحی صاحب اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :
    اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ، اس کے جواب میں سب نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہاں بے شک تو ہمارا رب ہے اور ہم اس کے گواہ ہیں ۔یہ ملحوظ رہے کہ الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ اقرار اللہ تعالیٰ نے صرف اس بات کا نہیں لیا کہ وہ اللہ ہے بلکہ اس بات کا لیا کہ وہی رب بھی ہے ۔یہ ملحوظ رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اہل عرب کو اللہ کے اللہ ہونے سے انکار نہیں تھا لیکن رب انہوں نے اللہ کے سوا اور بھی بنا لیے تھے حالانکہ عہد فطرت میں اقرار صرف اللہ ہی کی ربوبیت کا ہے۔ (تدبر قرآن جلد سوم صفحہ ۳۹۲ ،۳۹۳)‘‘

    یہی بات سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے ،یہ معاملہ تخلیق آدم کے موقع پرپیش آیا تھا ۔اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کرکے انسان اول کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا،اسی طرح پوری نسل آدم کو بھی، جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالی نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابی ّ بن کعب نے غالباً نبی ﷺ سے استفادہ کر کے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس مضمون کی بہترین شرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
    ’’اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا او ر ( ایک ایک قسم یا ایک ایک دورکے) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی ، پھر ان سے عہد ومیثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پرزمین وآسمان سب کو اور خود تمھارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تاکہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کوعلم نہ تھا۔خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا ۔ میں تمھارے پاس اپنے پیغمبربھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو ،یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا۔اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے ، آپ ہی ہماے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں ، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود ۔‘‘

    اس معاملہ کو بعض لوگ محض تمثیلی انداز بیاں پر محمول کرتے ہیں ۔ان کا خیال یہ ہے کہ دراصل یہاں قرآن مجید صرف یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار انسانی فطرت میں پیوست ہے اور اس بات کو یہاں ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ ایک واقعہ تھا جو عالم خارجی میں پیش آیا۔ لیکن ہم اس تاویل کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ قرآن اور حدیث دونوں میں اسے بالکل ایک واقعہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور صرف بیان واقعہ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ قیامت کے روز بنی آدم پر حجت قائم کرتے ہوئے اس ازلی عہد واقرار کو سند میں پیش کیا جائے گا ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے محض ایک تمثیلی بیان قرار دیں ۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ بالکل اسی طرح پیش آیا تھا جس طرح عالم خارجی میں واقعات پیش آیا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع ان تمام انسانوں کو جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے کاارادہ رکھتا تھا ،بیک وقت زندگی اور شعور اور گویائی عطا کرکے اپنے سامنے حاضر کیا تھا، اور فی الواقع انہیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا کہ ان کا کوئی رب اور کوئی الٰہ اس کی ذات اقدس واعلیٰ کے سوا نہیں ہے ،اور ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی وفرمان برداری (اسلام) کے سوا نہیں ہے ۔‘‘

    ’’اس آیت میں وہ غرض بیان کی گئی ہے جس کے لیے ازل میں پوری نسل آدم سے اقرار لیا گیا تھا ۔اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں۔ وہ اپنی صفائی میں نہ تولاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد ومیثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوع انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے کی شہادت اپنے اندرلیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے،یا ایک گمراہ ماحول میںپرورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہو سکتا ہے ۔‘‘ ( تفہیم القران جلد دوم صفحہ۹۶ ،۹۷ حاشیہ نمبر ۱۳۴ ،۱۳۵)

    ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت کا عقیدہ ازل ہی سے تمام انسانوں کی فطرت میں رکھ دیاگیا ہے ۔ اور ازل ہی سے اس کاعلم ان کی فطرت میں ودیعت کیاگیا ہے اس لیے وہ اس سے بے علم یا بے خبر نہیں۔ ہر شخص انفرادی طور پر اللہ کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے کی شہادت اپنے اندرلیے ہوئے ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کرسکے گا کہ اسے کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی یا اس نے شرک اور الحاد کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی اور خدا کے اقرار اور اس کی توحیدکے تصور تک پہنچنا اس کے لیے ناممکن تھا ۔اب آپ کا یہ سوال کہ ایسے لوگ جن کو توحید کی دعوت نہ پہنچی ہو اور وہ انجانے سے شرک میں ملوث ہو، ایک مفروضہ تو ہو سکتا ہے ،حقیقت نہیں ۔ اول تو یہ بات بعید از قیاس ہے کہ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جن کواسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے جس کے کونے کونے تک کسی نہ کسی طرح اسلام کا پیغام پہنچ گیا ہے ،دوم اور اگر بالفرض محال کہیں دور دنیا سے الگ تھلگ کسی علاقے میں ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو جو مسلمانوں کے ماحول ، معاشرے اور ملک سے باہرہو اور ان کااس سے کوئی تعلق یا واسطہ نہ ہو اور اس کے بارے میں مسلمانوں کو کوئی خبر بھی نہ ہو تو مسلمان اس بات کے مکلف نہیں کہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں ۔اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر قیامت کے دن اس کے بارے اپنافیصلہ صادر فرمائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق ؑعطا فرمائے!

  • کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    کیا مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ مفتی منیب الرحمن

    پروفیسر مفتی منیب الرحمن گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے لبرل دانشوروں کو کوئی اور پرکشش موضوع ہاتھ نہ آئے تو مذہب اور اہلِ مذہب کی خبر گیری اور اصلاح کے درپے ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ہماری تمام تر ناکامیوں اور زوال کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں اور مذہب ہی ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے۔ پھر اچانک انہیں خیال آتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اورجمود طاری ہے، حالانکہ علامہ اقبال نے کہا تھا: اجتہاد جاری رہنا چاہیے۔

    اصلاح کے اس مشن کے عَلَمبردار دانشوروں کے لیے یہ جاننا بھی ضروری نہیں ہے کہ اجتہاد کا معنی و مفہوم کیا ہے، اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے اور اس کے لیے کس طرح کی علمی قابلیت اور اہلیت درکار ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے، اگر اس سے مادّی، سائنسی، علمی، معاشی اور سماجی ترقی مراد ہے، تو اس میں مذہب کہاں رکاوٹ بنتا ہے۔ کیا مذہب یا اہل مذہب نے کبھی آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ یونیورسٹیاں، کالج اور جدید علوم پر مشتمل اعلیٰ تعلیمی، تحقیقی اور تربیتی ادارے قائم نہ کریں۔ کیا آپ کی نظر میں سائنس اور مذہب کا کہیں ٹکراؤ ہے؟ کیا ہماری یونیوسٹیوں میں عالمی سطح کا تحقیقی کام اس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم مسلمان ہیں یا اہلِ مذہب ہیں؟ کیا صنعتی ترقی کی راہ میں مذہب حائل ہوگیا ہے یا اہلِ مذہب نے اس کا راستہ بند کردیا ہے؟

    سو جب تک ہم اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ انداز میں تجزیہ نہیں کریں گے، اُن کا تشفّی بخش حل بھی ہمیں سجھائی نہیں دے گا۔ ہماری نظر میں جدید سائنسی، فنی، طبی، معاشی، سماجی، ادبی، بحریات، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، حیوانیات اور خلائی تحقیقات سمیت کسی شعبہ علم کا مذہب سے کوئی تعارض نہیں ہے، البتہ اتنی سی بات ہے کہ اسلام مالیاتی شعبے میں رِبا کی حرمت کا قائل ہے اور ادبی و سماجی علوم میں اخلاقی اَقدار کا عَلَم بردار ہے۔ پھر ریاستی وسائل جن تعلیمی شعبوں اور اداروں پر خرچ ہوتے ہیں، وہ سب کے سب جدیدیا عصری علوم سے متعلق ہیں اور اُن میں سے کسی کی باگ ڈور علماء کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ کسی شعبے میں کامیابی مل جائے تو اُس کا افتخار آپ کے حصے میں آئے اور ناکامی ہو تو اُسے مذہب کے سر تھوپ دیا جائے۔

    ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ کئی جدید علوم کے حامل پروفیسر، دانشور اور مذہبِ انسانیت کے دعوے دار پاکستان کے ایٹمی دھماکے اور ایٹم بم بنانے کے شدید مخالف تھے اور اس میں وہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ہم نوا تھے، جبکہ کسی مذہبی شخصیت نے نہ صرف یہ کہ اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب یک زباں ہوکر اس کی پرزور تائید کرتے رہے ہیں۔ آج پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت اور ایٹم بم کا وجود ہی ظاہری اسباب کے تحت سدِّ جارحیت کا سب سے مؤثر ذریعہ یعنی Deterrent ہے۔ یہ امر مسلّم ہے کہ جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت کا کوئی بدل نہیں ہے، مگر ہم عالَمِ اسباب میں جی رہے ہیں اور اگر ظاہری اسباب کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو آج امریکہ بلاشرکتِ غیرے دنیا پر اپنی شرائط کیسے مسلّط کرتا۔
    درپیش مسائل میں اجتہاد کی اجازت خود رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمائی ہے:
    ’’رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو کس طرح فیصلہ کروگے؟ انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں درپیش مسئلے کا جواب کتاب اللہ میں نہ ملے تو (کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: رسول اللہ ﷺ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں اس کا جواب کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ (دونوں) میں نہ ملے، (تو کیا کرو گے؟)، انہوں نے عرض کی: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور (کسی اورجانب) مڑ کر نہیں دیکھوں گا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اپنے رسول کے نمائندے کو ایسی توفیق عطا فرمائی جو رسول کی رضا کا باعث ہے. (ابودائود: 3592)‘‘۔
    قرآنِ مجید میں سورۃ الانبیاء،آیت:78میں ایک مقدمے کے حوالے سے حضرتِ داؤد وسلیمان علیہما السلام کے اجتہادی فیصلے مذکور ہیں، اُن میں سے ایک کو ہم ’’حَسَن‘‘اور دوسرے کو ’’اَحسن‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حالتِ احرام میں شکار کے حوالے سے المائدہ:95 میں اللہ تعالیٰ نے مُحرِم پر فدیے کے حوالے سے فرمایا: دو مُنصِف اس کا فیصلہ کریں، ظاہر ہے اُن کا یہ فیصلہ اجتہاد پر مبنی ہوگا۔ دین کا اصول یہ ہے کہ جن امور کے بارے میں قرآن و سنت میں صریح نصوص اور احکام موجود ہیں، اُن کے بارے میں اجتہاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، ائمہ کرام کے اجتہادات اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔ مزید یہ کہ اجتہاد مقاصدِ شرعیہ کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے، باطل کرنے کے لیے نہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تو ابلیس نے اجتہاد ہی کیا تھا، قرآنِ مجید میں ہے:
    (1)’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اے ابلیس!) جب میں نے تجھے (آدم کو) سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو تم کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا تھا؟، اُس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں، (اے اللہ!) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اُس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، (اعراف:12)‘‘۔
    (2)اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اے ابلیس!) تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا؟، اُس نے کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے والا نہیں ہوں، جس کو تو نے بجتی ہوئی خشک مٹی کے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے، (الحجر: 32-33)‘‘۔
    سو ابلیس کا یہ اجتہاد اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے کے لیے تھا اور جو اجتہاد اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولِ مکرم ﷺ کے صریح حکم کو رد کرنے کے لیے کیا جائے، وہ باطل ہوگا۔

    ہمارے بعض تجَدُّد پسند دوست کہتے ہیں کہ اجتہاد پارلیمنٹ کرے گی، سادہ سا سوال ہے کہ ہماری پارلیمنٹ جن عناصرِ ترکیبی کا مجموعہ ہے، کیا اُن میں کتاب وسنت سے احکام مستنبط کرنے اور اجتہاد کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ ہمارے دستور میں قوانین کے کتاب و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک آئینی ادارہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ‘‘ قائم کیا گیا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے پاس فرصت ہی نہیں ہے کہ اِس ادارے کی سفارشات پر غور کرے، ان پر بحث کرے اور ان کی منظوری دے۔ اگر پارلیمنٹ کو کسی قانون کے بارے میں شرحِ صدر نہ ہو تو نظرِثانی کےلیے دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کو بھیج سکتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں بیٹھے ہوئے خود ساختہ (Pseudo) ماہرین زبان اور قلم کے زور پریہ اختیار خود ہی حاصل کرلیتے ہیں، وہ جس شعبے میں چاہیں، اپنے شوقِ اجتہاد کو پورا کر سکتے ہیں، ہر ایک کی نفی کرسکتے ہیں۔ ہر ایک کی تجہیل و تحقیر اُن کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہاں! جب وہ اسکرین سے آف ہوجائیں تو پھر ہم جیسے انسان ہوتے ہیں، لیکن جب تک اسکرین پر براجمان ہوں، تو پھر ماورائی مخلوق ہوتے ہیں۔

    یقینا ہمارے مذہبی طبقات میں بھی کمزوریاں ہیں، کیونکہ وہ بھی اِسی سرزمین کی پیداوار ہیں اور ہمارے مجموعی قومی مزاج سے بالاتر نہیں ہیں، ماسوا اِس کے کہ کسی فرد یا افراد پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہوجائے، کیونکہ مستثنیات ہر طبقے میں ہوتی ہیں۔ فقہی اعتبار سے سحر و افطار کے اوقات میں معمولی تقدیم و تاخیر یا بعض نمازوں کے اوقات میں معمولی فرق ہماری علمی و سائنسی اور صنعتی و معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ بعض دوستوں کو ہمیشہ دینی مدارس اور اہلِ مدارس سے گِلہ رہتا ہے، یقینا مدارس کے نظام میں بھی خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں اور اُن کی اصلاح اور معیار کی بہتری کے لیے کوشش جاری رہنی چاہیے اور اصلاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

    لیکن حال ہی میں فیڈرل سروس کمیشن آف پاکستان نے سی ایس ایس یعنی سینٹرل سپیریر سروسز آف پاکستان کے امتحانات کے تحریری نتائج کا اعلان کیا ہے۔ پورے پاکستان سے 9643 طلبہ تحریری امتحان میں شریک ہوئے اور صرف 202 پاس ہوئے اور نتیجے کی شرح 2.09 فیصد رہی، اللہ ہی جانے کہ زبانی انٹرویو کے بعد اِن میں سے کتنے سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ملک بھر سے ذہین طلبہ بھرپور تیاری کر کے مقابلے کے اِن امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور پھر یہی ہماری بیوروکریسی کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں۔ اِس سے ہمارے تعلیمی زوال کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اس کا ملبہ مدارس پر نہیں ڈالا جاسکتا، اس کے ذمہ دار ہمارے عصری تعلیم کے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے ادارے ہیں، جن میں طرح طرح کے پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح حال ہی میں انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری تعلیمی بورڈز کے نتائج کے اعلانات ہوئے، کراچی کے نتائج بھی مُشتَبہ قرار پائے اور یہی صورتِ حال پنجاب کے مختلف بورڈز کے نتائج کی ہے۔

    ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر بریُ الذِّمہ ہوجائیں، نہ ہی ہم دوسرے کی ناکامی کو جواز بنا کر سرخرو ہوسکتے ہیں، ہر ایک کو اپنا حساب دینا ہے، کیونکہ ہم ایک ملّت اور ایک قوم ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیابی سب کی کامیابی ہے اور ناکامی کا وبال بھی سب کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آج کل ہم قومی سطح پر بھی انتشار کا شکار ہیں اور سیاسی قیادت اپنی اجتماعی دانش سے مسائل کا حل نکالنے میں ناکام ہے، اور ایسے عالَم میں کہ ہر جانب سے ہماری سرحدوں پر حالات حسّاس ہیں، ہمیں آپس کی جوتم پیزار سے ہی فرصت نہیں ہے۔

  • جنت کا ویزہ – بشارت حمید

    جنت کا ویزہ – بشارت حمید

    بشارت حمید زندگی کے تیزی سےگزرتے شب و روز میں کسی رات سونے کے لیے نرم و ملائم بستر پر لیٹ کر کبھی ہمیں یہ غور کرنے کا وقت ملا کہ میرا اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا میں اپنی مرضی سے یہاں تک پہنچا ہوں اور کیا اپنی مرضی سے یہ دنیا چھوڑ کر جاؤں گا؟

    کبھی وہ وقت تھا جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا میری ہر ادا پر میرے والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ گزرنے والے ایک ایک لمحے اور آنے والی ایک ایک سانس نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کیا میں ہمیشہ یہیں رہوں گا؟ ہرگز نہیں۔ مجھے ایک مقررہ وقت پر اپنے رب کے حضور پیش ہونا پڑے گا اور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی۔

    بحیثیت مسلمان ہم موت کے بعد اخروی زندگی اور اللہ کے حضور پیش ہونے کو مانتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم اس زندگی میں جو کچھ اچھا یا برا کر رہے ہیں اسکا جواب اس علیم و خبیر ہستی کے سامنے پیش ہو کر دینا پڑے گا جو ہر شے کو جاننے والی ہے۔

    اگر یہ کہا جائے کہ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہم زبان سے تو مانتے ہیں مگر قلبی یقین ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم چونکہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور والدین سے اسلام کے بارے سنا انکو نماز پڑھتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے دیکھا تو کسی حد تک دین کی بنیادی معلومات حاصل ہو گئیں لیکن جب شعور کی عمر تک پہنچے تو سب کچھ فراموش کر دیا اور دنیاوی زندگی میں مست ہو کر شب و روز گزارنے لگے۔ دین کا علم حاصل کرنے کی نہ ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس کی طرف توجہ کی۔

    برا مت منائیے گا اس بات کا کہ ہمارا ایمان اور یقین صرف کھوکھلے دعوے کی حد تک ہے ہمارے اندر وہ ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں جو ایمان سے خالی ہیں۔ ہم نے زبان سے کلمہ تو پڑھ لیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہو گئے دنیا میں مسلمان کے حقوق کے دعویدار تو بن گئے لیکن قلبی ایمان کی کیفیت نہ حاصل کر سکے۔
    دنیا کے معاملات میں زبان سے کلمہ طیبہ ادا کرنے والا مسلمان مانا جائے گا اور اسے تمام وہ حقوق حاصل ہوں گے جو باقی مسلمانوں کے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔! قیامت کے دن کامیابی اسلام کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان قلبی کی وجہ سے ملے گی۔ اس لئے کہ آخرت میں کامیابی کے لئے ایمان شرط ہے۔

    اگر ہم یورپ کے کسی ملک کا ویزہ حاصل کرنا چاہیں تو اس کے لیے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں۔ کہیں انگلش سیکھ رہے ہوتے ہیں تو کہیں بنک سٹیٹمنٹ بنوانے میں لگے ہوتے ہیں۔ دعائیں بھی بہت کرتے ہیں اور ویزہ انٹرویو کی تیاری بھی بہت اچھی طرح کرتے ہیں کہ کہیں کسی بھی وجہ سے ویزہ مسترد نہ ہو جائے۔ پھر ایمبیسی جا کر علی الصبح لمبی لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر ہم غور کریں کہ جس کو ویزہ مل جاتا ہے اس کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہوتا۔ وہ ہر جاننے والے کو بھی اور انجان کو بھی دکھاتا پھرتا ہے کہ دیکھو یہ مجھے ویزہ مل گیا سب رشتے داروں اور دوست احباب کو فون کرکے بتاتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا۔ سب اسے کامیابی کی مبارکباد دیتے ہیں۔

    اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں یوم الحساب کا کچھ ایسا ہی نقشہ کھینچا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اسکے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا اور کہے گا کہ یہ دیکھو میرا رزلٹ۔ میں کامیاب ہو گیا اور مجھے اسی کامیابی کی امید تھی۔

    اب آئیں دوسری طرف۔ جس کا ویزہ مسترد ہو جاتا ہے وہ کسی سے نظریں بھی نہیں ملاتا اور نہ ہی کسی کو بتانا پسند کرتا ہے بعینہ ایسا ہی کچھ منظر اس روز ہو گا کہ جس کا رزلٹ کارڈ اسکے بائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا تو وہ پچھتائے گا کہ اے کاش میں نے اس زندگی کے لئے بھی کچھ تیاری کی ہوتی۔ اے کاش میری موت میرا قصہ ہی تمام کر دیتی اور آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ مگر اس روز اس کا یہ پچھتاوا کسی کام نہیں آئے گا۔

    آئیے ہم اپنا اپنا محاسبہ کریں اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت فضول سرگرمیوں میں ضائع کرنے کی بجائے اس وقت کو دین کا علم سیکھنے میں صرف کریں اور اپنی ذات کی اصلاح کریں اس یقین کے ساتھ کہ ہم جنت کا ویزہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اللہ تعالٰی ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور قیامت کی رسوائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

  • من گھڑت احادیث، 9 اعتراضات کا جواب – نیر تاباں

    من گھڑت احادیث، 9 اعتراضات کا جواب – نیر تاباں

    کچھ دن پہلے ہم نے اپنے فیس بک پیج پر من گھڑت ”احادیث“ کا سلسلہ شروع کیا، جس میں ان خود ساختہ احادیث کے امیج تھے جن پر کراس کا نشان لگایا تھا۔ اس پر لوگوں کی طرف سے آنے والے ریسپانس پر یہ پوسٹ لکھی۔ موضوع چونکہ اہم ہے اس لیے آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔

    فرض کیجیے کہ میں ایک ایسی بات کہوں جو آپ نے کہی نہ ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یا آپ نے کہا ہو کہ گھر جاتے وقت نان لیتے جانا، اور میں جا کر پھیلاؤں کہ آپ نے کہا کہ اگر میں نان نہ لے کر گیا تو مجھے مار مار کر گھر سے نکال دیا جائے گا۔ آپ کے کہے گئے چھوٹے سے سچ میں ڈھیر ساری جھوٹ کی آمیزش کر کے پھیلانا درست ہے؟ کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ کوئی آپ سے پوچھے تو آپ کہیں گے کہ بھائی صاحب، میں نے یہ بات کہی ہی نہیں، یا میں نے یوں کہی تھی لیکن انہوں نے غلط بات آگے پھیلائی۔

    میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کو اپنی ذات سے منسوب ہوتا جھوٹ ناپسند ہے تو کس طرح آپ کا ایمان یہ گوارا کر لیتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے کر لوگ جھوٹ‌ گھڑیں اور آپ بغیر تصدیق کے سبحان اللہ کہہ کہہ کر فارورڈ کریں۔ نہ صرف اتنا، بلکہ اگر کوئی آپ کو سمجھائے تو آپ مزید خفا ہو جائیں۔ ایک دو بار من گھڑت ”احادیث“ کے متعلق پوسٹ کیا تو اس قدر دل دکھانے والا رویہ سامنے آیا کہ بندہ اپنا سر پیٹ لے۔ ایسی ایک پوسٹ حال ہی میں شیئر کی گئی۔ اس پر جو سوال/اعتراضات بار بار ہوئے، ان کا تذکرہ یہاں کریں گے اور ساتھ میں اللہ کی توفیق سے جواب بھی دیں گے۔

    1- ”لیکن ان میں کچھ حصہ تو صحیح ہے، آدھی تو ٹھیک ہے۔“
    آپ نے کئی بار وہ قول پڑھا ہو گا کہ آدھا جھوٹ جس میں سچ کی آمیزش ہو، وہ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جیسے یہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے دوران بات کرنے حتی کہ قرآن کی تلاوت سے بھی منع فرمایا ہے، لیکن خود ساختہ حدیث والوں نے ساتھ یہ بھی گھڑ لیا کہ جو ایسا نہیں کرے گا اسے مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہوگا۔ جو قبرستان میں ہنسا، سمجھو اس نے زنا کیا۔ چاہے اصلاح کی نیت سے ہی کیا ہو، ہے تو جھوٹ ناں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا کچھ نہیں فرمایا۔

    2- ”آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا ریفرینس دیں۔“
    ارے بھئی! ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ بات جھوٹ گھڑی گئی ہے اور صحیح احادیث میں شامل ہی نہیں۔ جب کتابوں میں ہے ہی نہیں تو ثبوت ہم کہاں سے لائیں؟ لوگوں کی طرح خود کوئی کتاب بنائیں جھوٹ سچ ملا کے؟

    3- ”آپ کی ایسی پوسٹ سے فتنہ پھیل رہا ہے۔“
    کمال ہے! جھوٹ‌ بکنا اور اس کو پھیلانا فتنہ ہے۔ ہم تو اللہ کی راہ میں اس فتنے کا سد باب کرنے کی اپنی حقیر سی کوشش کر رہے ہیں۔

    4- ”آپ کو کراس نہیں لگانا چاہیے۔ کچھ بھی ہو، ہے تو حدیث ہی ناں.“
    پہلی بات کہ وہ حدیث نہیں ہے، یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
    دوسری بات: اکثریت صرف امیج دیکھ کے سبحان اللہ کہہ کر شیئر کر دیتی ہے، کیپشن نہیں پڑھتی۔ ایسے میں کراس نہ ہو تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ ہم نے حدیث ہی شیئر کی ہے۔

    5- ”لیکن فلاں مولانا اس حدیث کو کوٹ‌ کرتے ہیں اس لیے یہ صحیح ہے۔“
    کوئی بھی مولانا خطا کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیے دین میں حجت قرآن و حدیث ہونی چاہیے، مولانا صاحب نہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ علماء کے لیے، دین کی بات پھیلانے والوں کے لیے ہم دل میں انتہائی نیک جذبات اور بہت احترام رکھتے ہیں، لیکن بہرحال دین میں حجت وہ نہیں۔

    6- ”آپ کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔“
    دیکھیں، دین سوشل میڈیا اور فارورڈڈ میسجز سے نہیں سیکھا جاتا۔ آپ خود کتابیں پڑھیں تا کہ علم الیقین حاصل ہو۔ جب تک سنی سنائی پر یقین کریں گے، یونہی ڈانواڈول رہیں گے۔ آج کے دور میں تو کتابیں پڑھنا انتہائی آسان ہے۔ صحاح ستہ پوری کی پوری ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

    7۔ ”بات تو اچھی ہی ہے ناں؟ ماں کا، اذان کا احترام ہی سکھایا جا رہا ہے ناں، پانی پینے کا ادب ہی بتایا جا رہا ہے ناں“
    ماں کے احترام، اذان کی فضیلت، روز مرہ زندگی کے آداب کے لئے ڈھیروں صحیح احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، آپ وہ پڑھیں اور شیئر کریں۔ اصلاح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت پر جھوٹ‌ باندھنا کسی کا ایمان کیسے گوارا کر سکتا ہے؟

    8- ”ہم پیج ان لائک کرنے لگے ہیں۔ ہم نے تو اصلاح کے لیے لائک کیا تھا۔“
    یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے کر لوگ جھوٹ گھڑتے رہیں، وہ خیر ہے۔ ہم جب بتائیں کہ میرے پیارے نبی نے ایسی کوئی بات نہیں کی تو آپ کو لگتا ہے کہ یہ اصلاح کے خلاف کوئی کام ہوا۔

    9- ”عقیدت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔“
    تو یعنی میں کل سے عقیدت اور محبت کے نام پر دو کے بجائے تین سجدے کر لوں تو جائز ہے؟ کوئی حق بتائے تو کہوں کہ عقیدت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ عقیدت اور نبی کی محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے نام سے جھوٹ پھیلائے۔ یہ نرالی عقیدت ہے کہ دین کو موم کی ناک بنا لیا ہے۔

    اپنی بات کا اختتام پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر کروں گی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،
    ”جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔“ مسلم

  • خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    جی تو آج بات کرتے ہیں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پڑنے والے قحط کے بارے میں:

    جزیرۃ العرب میں اسلام سے پہلے یعنی دور جاہلیت میں جب کبھی قحط پڑتا تو قبائل اپنے پاس جمع شدہ مال پر گزارہ کیا کرتے تھے اور جب ایک قبیلے کا ذخیرہ ختم ہو جاتا، گھروں میں بھوک ناچنے لگتی اور اپنی جانوں کے لالے پڑ جاتے تو لوگ اسلحہ سے لیس ہو کر دوسرے قبائل کو لوٹنے نکل پڑتے، تلواریں خون سے لال ہوجاتیں، بندے کٹ مر جاتے، مائیں بے اولاد ہوجاتیں، عورتیں بیوہ ہو جاتیں، بچے یتیم ہو جاتے پھر کہیں جا کر کچھ دن کا لوٹا ہوا راشن نصیب ہوتا، وہ راشن بھی بس اتنا ہی ہوتا کہ کچھ دن بعد پھر بات لوٹنے پر جا پہنچتی

    اس سب میں منافع خوروں کا کردار بھی نمایاں ہوتا، اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کر دیا جاتا، خوراک تک رسائی صرف امیروں کو ہی ہوتی، غریب بیچارہ یا دوسرے قبائل کو لوٹتے ہوئے جان گنوا دیتا یا پھر گھر میں بیٹھے بلک بلک کر جان دے دیتا

    ایسے میں عرب میں طیبہ کا چاند صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چمکا، ہر طرف نور ہی کی برسات ہونے لگی، ایسی پرافروز ساعت پر لاکھوں سلام اور ایسے خوشنصیبوں پر سلام جنہوں نے ایسی ساعت سے اپنی آنکھوں کو منور کیا… دیکھتے ہی دیکھتے یہ نور پورے خطہ عرب میں پھیل گیا اور پوری آب و تاب سے قائم ہو گیا

    اسلام کے قیام کے بعد سب سے پہلا قحط سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پڑا، الحمدللہ ثمہ الحمدللہ امام وقت اور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ایسی کسی بھی گھڑی سے نمٹنے کے لیئے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے، بیت المال میں اتنا کچھ موجود تھا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے پریشانی لاحق نا ہو سکے، کچھ عرصہ تو ایسے ہی گزر گیا لیکن قحط طول پکڑنے لگا امیر المومنین اور انکی شوری میں اضطراب بڑھنے لگا

    اس بار قحط پڑا تو اطمینان کا باعث یہ بات بنی کہ عرب قبائل ایک دوسرے سے نبردآزما ہونے کی بجائے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اطراف پہنچنے لگے اور خیمہ زن ہوگئے، اہل حل و عقد کے لیئے یہ بات کسی کامیابی سے کم نا تھی اور ساتھ ہی یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ اگر خدانخواستہ قحط طول پکڑ گیا اور بیت المال ختم ہونے لگا تو کیا کیا جائے گا، خود امیر المومنین کا یہ عالم تھا کہ گوشت و دیگر “پرتکلف” کھانے بلکل چھوڑ کر سوکھی روٹی اور تیل کھا کر گزارا کیا کرتے تھے تاکہ ان کی وجہ سے کوئی بھوکا نا سو جائے، راتوں کو خیمہ بستیوں میں جاتے، اشیاء خورد و نوش پہنچاتے، لوگوں کے ساتھ کھانا پکاتے اور خود لوگوں کو کھلاتے

    اسی طرح امیر المومنین دوپہر کے وقت تپتی دھوپ میں آرام کرنے کی بجائے مسلمانوں کے معاملات دیکھنے کے لیئے گلیوں اور بازاروں میں پھرتے رہتے، حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتے، ایک دن دوپہر کو امیر المومنین میدان میں پہنچے جہاں مسلمانوں کے اونٹ بندھے تھے، دیکھا کہ باقی اونٹ تو دبلے پتلے ہیں یعنی قحط کے آثار ان پر نمایاں ہیں لیکن ایک اونٹ موٹا تازہ ہے، حیرانگی کے عالم میں انہوں نے پتہ کروایا کہ یہ اونٹ امیر المومنین کے بیٹے سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ فوراً ابن عمر کے پاس پہنچے اور کہا کہ اونٹوں کے رکھوالوں نے تمہارے اونٹ کو میری حیثیت کا خیال رکھ کر کھلایا پلایا ہے اس لیئے مسلمانوں کا حق غصب ہوا ہے، ساتھ ہی نصیحت کی کہ اونٹ کو بیچ کر صرف قیمت خرید واپس لیں باقی کی رقم بیت المال میں جمع کروا دیں

    ایک بار امیر المومنین کے غلام حضرت اسلم نے گوشت بھون کر امیر المومنین کو پیش کیا تو امیر المومنین نے کھانے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ اس گوشت کو مدینہ میں آ کر بسنے والوں کو دے دیا جائے، کافی عرصہ صرف سوکھی روٹی اور تیل پر گزارا کرنے کی وجہ سے امیر المومنین کے چہرے کی رنگت بھی زرد پڑنے لگی، انکی صحت بھی پہلے جیسی نا رہی، وہ راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، رو رو کر داڑھی تر ہو جاتی، وہ کہتے کہ اگر مسلمانوں پر وبال عمر کے گناہوں کی وجہ سے آرہا ہے تو ائے اللہ عمر کو اٹھا لے تاکہ مسلمانوں کے اوپر سے یہ وبال جاتا رہے

    سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تب وافر مقدار میں دولت موجود تھی، انہوں نے شام سے سینکڑوں اونٹ سامان سے لدے ہوئے منگوائے، جب اونٹ مدینہ کی سرحد پر پہنچنے لگے تو چند سرمایہ داروں اور منافع خوروں کی اس کی خبر جا پہنچی، سب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچے، کسی نے کہا عثمان یہ سب مجھے بیچ دو میں اس سب کا دوگناہ منافع دوں گا، کسی نے کہا مجھے دے دو میں تین گناہ منافع دوں گا یہاں تک کے بات سو گناہ منافع تک پہنچ گئی لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بضد رہے کہ انکو اس سے بھی زیادہ منافع مل رہا ہے، سب منافع خود مایوس ہو کر چلے گئے، اگلی صبح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کے حضور پہنچ کر اعلان کیا کہ مدینہ میں جس کسی کو بھی جتنا مال اپنی ضرورت کے لیئے درکار ہے وہ آکر حسب ضرورت بغیر کوئی رقم ادا کئے لے جائے، جب منافع خوروں نے کہا کہ آپ تو ایک سو گناہ منافع ٹھکرا کر کہتے تھے آپ کو زیادہ منافع مل رہا ہے اور اب یہ سب مال بغیر کسی منافع کے دے رہے ہیں تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اللہ تعالٰی سات سو گناہ منافع دے رہا ہے، اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی

    یہ تو تھا دور خلافت راشدہ کا جہاں سب مسلمان برابر کے حقوق کے تحت جی رہے تھے اب بات کرتے ہیں آج کے دور کے چند دانشوروں کی ممدوح جمہوریت کا… ہاں جی اسی جمہوریت کا جس کے بغیر سیاست دانوں اور بھولے بھالے مسلمانوں کے مطابق ملک چل نہیں سکتا اس جمہوریت میں ملک خداداد پاکستان پر آنے والی مصیبتوں کے وقت سیاست دانوں اور ان سے چمٹے منافع خوروں اور علماء کا کردار آپکے سامنے ہی ہے

    یہاں زلزلہ آئے، لاکھوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھیں تو سیاست دان زلزلے پر اپنی سیاست چمکانے لگتے ہیں، زلزے کو سیاسی طور پر استعمال کر کہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ڈزاسٹر مینجمنٹ نام کی کوئی بھی شے نظر نہیں آتی، منافع خور قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن میں زلزلے پر زیادہ بات اس لیئے نہیں کروں گا کیونکہ چند لوگوں کے مطابق بوقت زلزلہ پاکستان کا حکمران جمہوری نہیں تھا

    آپ پاکستان کے جمہوری ادوار میں آنے والی مصیبتوں کو دیکھ لیں، یہاں سیلاب آئے، یہاں تھر میں قحط سالی ہوئی، یہاں کراچی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ سیاست دانوں نے اپنے گندے مقاصد کے حصول کے لیئے لگوائی، یہاں دہشتگردی ہزاروں بے قصوروں کو نگل گئی، یہاں انسانی زندگی کی ضروریات سیاست دان پوری نہیں کر پاتے اور پھر الیکشن میں سیاست بھی انہی چیزوں کے نام لے کر کرتے ہیں یعنی جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، سیاست دان جب مسند حکومت پر بیٹھتا ہے تو امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے، ان سے حساب مانگنے والوں کو ذلیل کروایا جاتا ہے، سیاست دانوں کے پالتو علماء ایسے لوگوں کا مذاق اپنی محفلوں میں اڑاتے ہیں جو عوام ہی کے مال کا حساب عوام کے سیاست دانوں سے نانگتے ہیں

    میاں… لکھنے پر کتابیں لکھی جائیں لیکن عرض یہ کرنی تھی کہ کہاں نبوت کر طریق پر ادا ہونے والی خلافت راشدہ… اور کہاں… کہاں فرعونیت کو بھی شرمسار کر دینے والی جمہوریت… موازنہ کرنے والوں کو بھی کوئی شرم ہونی چاہیے کوئی حیا ہونی چاہیے

    تحریر: فاروق الخطاب

  • دیت، عاقلہ اور ٹریفک حادثات – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    دیت، عاقلہ اور ٹریفک حادثات – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق 1۔ اسلامی قانون کی رو سے قتلِ خطا کی صورت میں دیت کی ادائیگی لازم ہے، الا یہ کہ مقتول کے ورثا اسے کلی یا جزوی طور پر معاف کردیں۔
    2۔ دیت کی ادائیگی کی ذمہ داری تنہا اس شخص پر نہیں جس کی خطا کی وجہ سے یہ قتل ہوا ہو ، بلکہ اس کے اعوان وانصار اس کے ساتھ یہ ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ان اعوان و انصار کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں عاقلہ کہا جاتا ہے۔ امام سرخسی اس بات کی وضاحت میں ، کہ عاقلہ کی یہ ذمہ داری انفرادی ذمہ داری کے اصول [pullquote](لا تزر وازرۃ وزر اخری) [/pullquote]

    سے متصادم نہیں ہے ، فرماتے ہیں:
    ھو معقول المعنى من أوجہ : أحدھا ان مثل ھذا الفعل انما يقصدہ القاتل بزيادۃ قوۃ لہ ؛ وذلك انما يكون بالتناصر الظاھر بين الناس ؛ ولھذا التناصر أسباب ۔ منھا ما يكون بين أھل الديوان باجتماعھم في الديوان ؛ ومنھا ما يكون بين العشائر وأھل المحال وأھل الحرف ۔ فانما يكون تمكن الفاعل من مباشرتھم بنصرتھم ،فيوجب المال عليھم ليكون زجرا لھم عن غلبۃ سفھائھم ، وبعثا لھم على الاخذ على أيدى سفھائھم ، لكيلا تقع مثل ھذہ الحادثۃ ۔ ھذا في شبہ العمد ۔ وكذلك في الخطا لان مثل ھذا الامر العظيم قلما يبتلى بہ المرء من غير قصد، الا لضرب استھانۃ وقلۃ مبالاہ تكون منہ ، وذلك بنصرہ من ينصرہ ۔ ثم الديۃ مال عظيم وفي ايجاب الكل على القاتل اجحاف بہ فاوجب الشرع ذلك على العاقلہ دفعا لضرر الاجحاف عن القاتل كما أوجب النفقۃ على الاقارب بطريق الصلۃ لدفع ضرر الحاجۃ۔ ۔۔ ولان كل واحد منھم يخاف على نفسہ أن يبتلى بمثل ذلك ۔ فھذا يواسي ذلك إذا ابتلي بہ، وذلك يواسى ھذا، فيدفع ضرر الاجحاف من كل واحد منھم، ويحصل معنى صيانۃ دم المقتول عن الھدر ، ومعنى الاعسار لورثتہ بحسب الامكان۔ وبھذا يتبين أنا لا نجعل وزر أحد على غيرہ۔ وانما نوجب ما نوجبہ على العاقلۃ بطريق الصلہ في المواساۃ۔
    (اس حکم کی عقلی توجیہ کئی طریقوں سے سمجھ میں آتی ہے۔ ایک یہ ہے کہ قاتل ایسا فعل اس احساس کی وجہ سے کرتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ قوت ہے اور اس احساس کا سبب لوگوں کے درمیان پایا جانے والا ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہے۔ اس جذبے کے کئی اسباب ہوتے ہیں؛ جیسے ایک دیوان (سرکاری ریکارڈ ) میں درج ہونے والے افراد اس دیوان میں جمع ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک خاندان، ایک علاقے، ایک پیشے سے تعلق بھی اس جذبے کا باعث بن جاتا ہے۔ پس قاتل ان لوگوں کی مدد کی وجہ سے ایسا فعل کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس مال کی ادائیگی ان لوگوں پر لازم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے گروہ کے نادان لوگوں کے غلبہ پانے سے ڈریں اور ان نادان لوگوں کا ہاتھ روکیں اور پھر آئندہ ایسا حادثہ نہ ہو۔ یہ بات شبہ ِ عمد کے بارے میں کہی گئی لیکن خطا کی صورت میں بھی یہ بات صحیح ہے کیونکہ کوئی شخص عام طور پر بغیر ارادے کے اتنی بڑی آزمائش میں نہیں پڑتا، الا یہ کہ اس میں ایک طرح کی حقارت اور لاپروائی ہو جس کا سبب ان لوگوں کی مدد ہی ہوتی ہے جو اسے بچانے کے لیے لپکتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دیت کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور صرف قاتل پر اس کی ادائیگی لازم کی جائے تو اس کے لیے یہ بہت بھاری بوجھ بن جاتا ہے۔ چنانچہ شریعت نے اس سے یہ بھاری بوجھ کم کرنے کے لیے اس کی عاقلہ پر یہ ذمہ داری عائد کردی ہے جیسے اس نے رشتہ داروں کا نفقہ ان کی حاجت کی بنا پر انسانی ہمدردی کے اصول پر لازم کیا ہے۔ پھر یہ وجہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنے بارے میں فکرمند ہوتا ہے کہ کہیں ایسی آزمائش مجھ پر نہ آن پڑے ۔ اس لیے وہ آزمائش میں مبتلا اس شخص کی مدد کرتا ہے اور پھر دوسرا اس کی مدد کرتا ہے۔ اس طرح کسی ایک شخص پر بھی سارا بوجھ نہیں آتا (بلکہ سارے ایک دوسرے کا بوجھ بانٹتے ہیں)۔ اس کے نتیجے میں مقتول کا خون بھی ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور اس کے ورثا سے ممکن حد تک مشکل بھی دور کردی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہم ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالتے بلکہ عاقلہ پر جو ذمہ داری ہم ڈالتے ہیں، وہ انسانی ہمدردی کے اصول پر صلہ رحمی کے طور پر ہوتا ہے۔)

    3۔ پاکستان کے قانونِ قصاص و دیت میں جو اب مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کا حصہ ہے، عاقلہ کا تصور موجود نہیں ہے اور دیت کی ادائیگی اس شخص پر ہی عائد کی گئی ہے جس کی خطا سے قتل واقع ہوا ہو۔ (دفعہ 319) استاد محترم جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب مرحوم سے ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ آپ کا اس قانون کی تشکیل میں کافی حصہ ہے تو اس قانون میں عاقلہ کیوں نہیں ہے؟ ان کا جواب یہ تھا کہ پاکستان میں عاقلہ ہے کہاں جس کو ہم قانون میں ذمہ دار ٹھہراتے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ ہی سے ہم نے یہ بات سیکھی ہے کہ اسلامی قانون معاشرے کے تابع نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کو اپنا تابع کرتا ہے۔ چنانچہ اگر عاقلہ نہیں تھی، تو قانون کے ذریعے عاقلہ بنانی چاہیے تھی۔ عاقلہ کی عدم موجودگی میں دیت کی ادائیگی بہت بڑا بوجھ بن جاتی ہے، بالخصوص ٹریفک حادثات میں جب تنہا ڈرائیور کو دیت کا ذمہ دار بنادیا جاتا ہے۔

    4۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک جانب سے خطا ہوئی ہے اور اس وجہ سے اسے قصاص کی سزا نہیں دی جاسکتی لیکن دوسری جانب ایک بےقصور انسان کی جان گئی ہے اور اس کی جان بے قیمت نہیں ضائع ہونی چاہیے۔ دیت اسی اصول پر لازم کی گئی ہے، جیسا کہ اوپر امام سرخسی کی عبارت سے واضح ہوا۔

    5۔ چنانچہ اہم بات یہ ہے کہ دیت کی ادائیگی strict liability کے اصول پر ہے، یعنی اس کا انحصار اس بات پر نہیں کہ قتل کرنے والے کا قصور ثابت ہو ۔ بلکہ اس کو بے قصور مانتے ہوئے، اور قتل کو خطا قرار دیتے ہوئے، یہ ذمہ داری اس پر (اور اس کی وساطت سے اس کی عاقلہ پر ) عائد کی جاتی ہے۔ (دیکھیے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 319)۔ ہاں، اگر ثابت ہوجائے کہ ڈرائیور نے لاپروائی کا مظاہرہ بھی کیا تو پھر اس پر اضافی سزا بھی عائد ہوتی ہے۔ (دیکھیے دفعہ 320۔)

    6۔ گزشتہ دن اسلامی یونی ورسٹی کی بس کو جو حادثہ پیش آیا ہے، اس پر ہم سب دلی دکھ محسوس کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ڈرائیور بےقصور ہو اور واقعی گاڑی کے بریک فیل ہوئے ہوں، اگرچہ وڈیو سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قصور اسی کا ہے اور وہ اشارہ سبز ہوتے ہی غلط سائیڈ سے انتہائی تیز رفتاری سے جانے کی کوشش میں بس پر کنٹرول کھو بیٹھا۔ اگر تحقیقات کے بعد وہ بے قصور ثابت ہو تو دفعہ 320 میں مذکور سزا اس پر عائد نہیں ہوسکتی لیکن اس صورت میں بھی دفعہ 319 کے تحت اس پر دیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

    6۔ اسلامی یونی ورسٹی کی انتظامیہ سے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اسلامی قانون کے عدل کے اصول مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر مقتول کے ورثا کو دیت کی ادائیگی کا بندوبست کرے گی۔ اس ضمن میں ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ وہ ذمہ داری تنہا ڈرائیور پر عائد کرنے کے بجائے پورے ٹرانسپورٹ سیکشن کے ملازمین کو اس ڈرائیور کی عاقلہ قرار دیتے ہوئے ان کی تنخواہوں سے دیت کی ادائیگی کرائے۔ اسی طرح اس سیکشن میں اجتماعی ذمہ داری کا وہ تصور پیدا ہوگا جو آئندہ اس طرح کے حادثات سے بچانے میں مفید ثابت ہوگا۔ جس کسی نے بھی اسلامی یونی ورسٹی کی بسوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر دیکھا ہو، وہ گواہی دے گا کہ عموماً یہ ڈرائیور بہت زیادہ لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان پر کسی کا کسی طرح کا کنٹرول نہیں ہوتا۔

    7۔ ہاں! اگر تحقیقات کے بعد ثابت ہو کہ ڈرائیور نے غفلت اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا تو اس کی مزید سزا اسے تنہا بھگتنی ہوگی۔

    8۔ یہ حادثہ ایک تنبیہ ہے۔ اس تنبیہ کے بعد یونی ورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ڈرائیوروں کی تربیت اور ان پر چیک کے لیے خصوصی انتظام کرے۔ نیز ٖڈارئیوروں کی تھکن، ان کی شفٹس اور دیگر مسائل کے فوری حل کی طرف بھی توجہ کرے۔

    وما علینا الا البلاغ۔

  • صحت حدیث اور جدید سائنس – عالم خان

    صحت حدیث اور جدید سائنس – عالم خان

    عالم خان مستشرقین (Orientalists) قرآن کریم کے مقابلے میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ تحقیق کرتے ہیں، کیونکہ ان کی دلچسپی تاریخ اور سیرت کا از سر نو ترتیب کرنے میں ہے، جس کا اظہار ہارلڈ موتزکی نے اپنی کتاب ((Dating Muslim tradition میں کیا ہے، اور ان دونوں کی تحقیق کے لیے قرآن بحثیت مصدر ناکافی ہے، اس لیے مجبورا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ گریگر شیلر، ہارلڈ مو تزکی، اور اینڈریس گورک کی تحقیق ونظریہ ہے-

    لیکن حدیث پر تحقیق کرنے کے دوران انہوں نے تاریخ اور سیرت کی از سر نو ترتیب کے بجائے اس کی صحت پر سوال اٹھانا شروع کر دیا، اور مختلف ادوار میں احادیث کے مختلف مجموعات پر تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی صحت مشکوک اور تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت غلط ہے، اور اس مشن کے لیے ان کتابوں کا انتخاب کیا گیا جو مسلمانوں کے ہاں معتبر مانی جاتی ہیں، مثلا شاخت (وت 1969) نے موطا امام مالک جو کہ صحاح ستہ کے لیے مصدر کی حثیت رکھتی ہے، اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الام جو کہ فقہاء کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، منتخب کیا تھا، پروفیسر ڈاکٹر جونبل (وت 2010) چونکہ عمومی طور پر شاخت کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے اس نے شاخت کے بعض نظریات کو لے کر صحاح ستہ عموما اور بخاری ومسلم کو خصوصا اپنا موضوع تحقیق ٹھہرایا ہے-

    مستشرقین کا آپس میں مناہج اور طرز استدلال میں فرق ضرور ہے، لیکن احادیث کی صحت اور تاریخی اعتبار سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونے کے انکار میں سب متفق ہیں، اور ان کے نزدیک محدثین نے صرف سند کی تحقیق کرکے بغیر تحقیق کے متون (حدیث کےالفاظ) اپنی کتب میں نقل کرکے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے- ان کے اس طرز تحقیق و نتائج سے ہمارے بعض مسلمان اسکالرز بھی متاثر ہوئے ہیں، کہ واقعی محدثین نے متون الحدیث کی تحقیق پر دھیان نہیں دیا تھا جیسا کہ اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی کوالالمپور ملائشیا کے پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد خان نے اپنی کتاب (Authentication of Hadith: Redefining the Criteria) میں بخاری کی چند آحادیث پر سوالات اٹھائے ہیں، اگرچہ محدثین نے متن اور سند دونوں کی تحقیق کرکے حدیث پر صحیح ضعیف اور موضوع (من گھڑت) کا حکم لگایا ہے، اور اس کے لیے جو قواعد اور اصول وضع کیے، آج بھی ہمارے نقد المتون کی کتابوں میں طالب علموں کو پڑھائے جاتے ہیں، جس کی پوری تفصیل كسی اور تحریر میں کروں گا-

    لیکن موریس بوکائے(Maurice Bucaille) جو ایک فرانسیسی سرجن ہے، اور قرآن و دیگر آسمانی کتب کی جدید سائنس کے ساتھ ہم آہنگی پر تحقیق میں خاص شہرت رکھتا ہے، اور اس کے مسلمان ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے، کہ وہ قرآن کی جدید سائنس سے مطابقت سے متاثر ہوا تھا، اس کے نزدیک صداقت اور صحت کا معیار جدید سائنس سے مطابقت پر ہے، اس لیے صحیح بخاری کتاب بدء الوحی اور کتاب الطب کی صحت کو مشکوک قرار دیا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک وہ جدید سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں، اور اپنی شہرہ آفاق کتاب (The Bible, The Qur’an and Science) میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے، کہ اگر متن الحدیث کسی ایسی چیز پر مشتمل ہو جس کی سائنس توثیق نہ کرتی ہو، تو اس کی صحت کو مشکوک ٹھہرایا جائے گا-

    اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اسلام سائنسی علوم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس کے اثبات کے لیے سورۃ الانفال کی آیت (60) کافی وشافی ہے جس میں مسلمانوں کو دشمن کے مقابلے تیاری کا حکم دیا گیا ہے، آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہی وہ تیاری ممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے، کہ کیا ہم نص قرآنی یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اسی وجہ سے رد کرسکتے ہیں، کہ سائنس اس کی تصدیق و توثیق نہیں کرتی، جیسا کہ سائنس سے متاثر حضرات کا شیوہ ہے، کہ ہر چیز کو سائنسی اصولوں پر پرکھتے ہیں، کیونکہ تجربات اور مشاہدات سے علم الیقین اور عین الیقین حاصل ہوتا ہے، جو کہ زیادہ معقول اور مقبول ہوتا ہے، اور روایت سے حاصل ہونے والے علم کا دراومدار انسان کے عقیدہ پر ہوتا ہے، اگر عقیدہ نہ ہو، تو پھر تجربات اور مشاہدات کو ترجیح دے کر روایت رد کر دی جاتی ہے-

    حقیقت یہ کہ اسلام کی طرح سائنس بھی اسلام کی توثیق کرتا ہے، ماضی میں بہت سی قرآنی آیات اور آحادیث نبویہ کا انکار کیا جاتا تھا لیکن سائنس کی آئے روز ترقی اور نت نئی ایجادات نے ان پر مہر تصدیق ثبت ثبت کی ہے، اور کل کے انکاری- جس میں جدید سائنس اور اس کے پیروکار بھی شامل ہیں- آج اقراری بن گئے ہیں، اس کی کئی مثالیں ہیں، لیکن چند ایک عرض کرتا ہوں-

    حديث الذبابۃ (Fly)
    حدیث کی تقریبا تمام کتابوں میں مختلف اسانید سے کتاب الطب میں (حدیث الذبابۃ) روایت کی گئی ہے، جس میں کھانے میں مکھی گر جائے اور کھانا استعمال کرنے کا ارادہ ہو، تو اس صورت میں مکمل ڈبونے کا حکم دیا گیا ہے، اور سبب یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے، ماضی میں میڈیکل سائنس اس حدیث کا انکار کرتی تھی، اور اس کو حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سائنس نے ترقی کی اور اس موضوع پرتحقیق کی تو خود ثابت کیا، کہ واقعی مکھی کے ایک پر میں وائرس اور ایک میں انٹی وائرس موجود ہے اور موجود وائرس مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، جس کی پورى تفصیل الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مصطفی ابراہیم حسن نے اپنے مقالہ (الداء والدواء فی جناحی الذباب) میں بیان کیا ہے.

    اعمال کا وزن کرنا
    قرآن وسنت میں انتہائی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان کے برے اور اچھے اعمال کا وزن کیا جائے گا، حتی کہ کامیابی وناکامی كا اعلان بھی فرشتہ کرے گا، اگر نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوا تو پھر انسان جنت کی پر تعیش زندگی سے نوازا جائے گا، اور برے اعمال کا پلڑا بھاری ہونے کی صورت میں جہنم کے عذابوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی طرف سورۃ القارعۃ آیث (6-7-8-9) میں اشارہ کیا گیا ہے، لیکن یونان کے فلسفہ اور سائنسی مشاہدات وتجربات سے متاثر اسکالرز نے انسانی اعمال کو غیر مجسم قرار دے کر اس کا وزن کرنے سے انکار کر دیا، اور ماضی میں مفسرین و محدثین اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے طرح طرح کی تاویلات کرتے تھے، کہ اعمال نہیں بلکہ صاحب عمل اور یا ان رجسٹرز کا وزن کیا جائے گا، جس میں انسان کے اعمال کا ریکارڈ موجود ہے وغیرہ، جس کی پوری تفصیل تفاسیر اور أحادیث کی شروح میں موجود ہیں، لیکن سائنس نے ترقی کرکے تھرمامیٹر اور بیرومیٹر ایجاد کرکے اس اعتراض اور جوابا تاویلات کو ختم کردیا، اور ابگی کوئی اس موضوع پر لب کشائی نہیں کرتا کہ اعمال کا وزن ممکن ہے یا نہیں –

    اعمال کا ریکارڈ (اعمال نامہ)
    ابتداء یہ بھی نا ممکن تصور کیا جاتا تھا، کہ انسان کی پوری زندگی کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے گا، اور پھر قیامت کے دن اس کو پیش کیا جائے گا، کہ لو پڑھو اس میں تمھارے تمام اعمال کا ریکارڈ موجود ہے، اور یہ تمھارے احتساب کے لیے کافی ہے، اوراگر انسان نے ذرہ برابر عمل بھی کیا ہو تو اس کو اس میں دیکھ پائے گا، جیسا کہ سورۃ الاسراء آیت(14) اور سورۃ الزلۃ آیت (7-8) میں مذکور ہے، ہارڈ ڈسک سے لے کر موبائل کے میموری کارڈ تک کی ایجاد نے اس ناممکن تصور کو ممکن بنا کر عقل انسانی کو قائل کیا کہ واقعی انسان کا ریکارڈ ویڈیو کی شکل میں بالکل اصل کی طرح محفوظ کیا جا سکتا ہے، اور (player) میں (zoom, pause and forward) نے کم وقت میں بہت کچھ دیکھنے کا مسئلہ بھی حل کیا، تو اگر انسان ریکارڈنگ اور اس کو محفوظ کرنے پرقادر ہے تو انسان اور پوری کائنات کا خالق کیوں اس پر قادر نہیں ہوگا-

    لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اب ہم ہر چیز (خواہ قرآن ہو یا حدیث) کو سائنس پر پرکھیں گے، اور اگر موافق ہو تو صحیح ورنہ اس کی صحت کو مشکوک قرار دے کر رد کریں گے، جیسا کہ موریس بوکائے کا نظریہ ہے- کیونکہ سائنس انسانی تحقیق، تجربات و مشاہدات کا نام ہے اور قرآن و حدیث انسان کے خالق کی طرف سے نازل شدہ وحی کا نام ہے، حدیث کے وحی ہونے کے لیے (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) کافی ہیں، توسائنس پر اس کا پرکھنا نا انصافی ہے، البتہ اگر کہیں مطابقت پائی چاتی ہو، تو اس کو بحیثیت شاھد علی الحقانیۃ استعمال کی جاسکتی ہیں، لیکن جہاں مخالفت اور عدم مطابقت پائی جاتی ہے، تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ سائنس نے ابھی تک اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ وہ قرآن یا حدیث میں بیان کردہ موضوع کی حقیقت کا ادراک کرے، اور اس عدم مطابقت و توثیق کو صرف بنیاد بنا کر حدیث کو رد نہیں كیا جائے گا، بلکہ اس کی تحقیق نقد المتون کے قواعد کے مطابق کی جائے گی ، اور اس کے موضوع ہونے Fabricated) یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا –

  • کیا متجدد کا مطلب بدعتی ہے؟ مشرف بیگ اشرف

    کیا متجدد کا مطلب بدعتی ہے؟ مشرف بیگ اشرف

    profilepicture اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم – کا فرمان ہے کہ:
    [pullquote]ان اللہ يبعث لہذہ الامۃ على رأس كل مائۃ سنۃ من يجدد لہا دينھا (سنن أبي داود، حكم الشيخ الالباني عليہ بالصحۃ)[/pullquote]
    ”اللہ تعالی ہر صدی کے سرے پر اس امت کے لئے کسی ایسے (یا ایسوں) کو اٹھاتا ہے جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے (یا کرتے ہیں)“

    اسی حدیث کی وجہ سے لفظ “تجدید” مسلمانوں میں، خاص طور سے علمی ودینی حلقوں میں، بہت مقبول ہو گیا اور اسی کے ساتھ ایک لفظ “تجدد” بھی۔ مندرجہ ذیل سطروں میں ہم دونوں لفظوں کو عربی زبان اور حدیث میں اس کے استعمال کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

    لفظ تجدید دراصل ”جدۃ“ دال کی تشدید کے ساتھ ، سے بنا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا تروتازہ اور نیا ہو جانا اور اپنی پہلی حالت کو لوٹ جانا، اس کے مقابلے میں ”خلق“ آتا ہے جس کے معنے ہیں کسی چیز کا بوسیدہ ہو جانا، چناچہ ”الصحاح“ میں اس لفظ کے تحت آتا ہے:
    [pullquote]جد الشئ يجد بالكسر جدۃ: صار جديدا، وھو نقيض الخلق[/pullquote]

    جد کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا اور اس کا متضاد ہے بوسیدا ہونا۔

    اسی سے لفظ ”تجدید“ بنا جس کے معنی ہیں کسی چیز کو نیا کر دینا اور اسے اس کی سابقہ حالت پر لے جانا، اس حالت پر جس پر وہ اپنی ابتدا میں تھی اسی سے حدیث پاک میں آیا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر اللہ تعالی مجدد کو اٹھاتے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں اور افکار میں دین کے حوالے سے جو بوسیدگی آ جاتی ہے، اسے ختم کر کے اپنی پہلی حالت پر لے آتا ہے۔

    اسی سے لفظ ”تجدد“ بنا جس کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا چناچہ ”الصحاح“ میں آتا ہے:
    [pullquote]وتجدد الشئ: صار جديدا[/pullquote]

    ترجمہ: تجدد کے معنے ہیں کسی چیز کا نیا ہو جانا۔

    البتہ لفظ ”تجدد“ میں تکلف کی جھلک پائی جاتی ہے اور عربی زبان میں ایک اصل سے الفاظ بنانے کے حوالے سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب اسے اس شکل پر، جس شکل پر تجدد ہے، لایا جاتا ہے تو اس میں تکلف کے معنے پائے جاتے ہیں اور شاید یہی بات ہے کہ ”تجدید“ کے مقابلے میں جب کسی ایسی کاوش کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو امت مسلمہ میں کسی تبدیلی کی خواہاں ہو لیکن صحیح طریقے سے ہٹی ہوئی ہو، تو اس کے لئے لفظ ”تجدد“ استعمال کیا جاتا ہے کہ کوئی صاحب اپنی تئیں ”تجدید“ کا کام کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ تجدید نہیں۔

    اس حوالے سے بعض تحریروں میں یہ بات دیکھنے کو ملی کہ:
    ”تجدد“ کا مطلب اسلام کو نیا بنانا ہے اور اسلام کو نیا بنانے کے حوالے سے اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم – نے فرمایا کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے چنانچہ کسی صاحب کو متجدد کہنا دراصل اس کی نیت اور ارادہ پر حملہ ہے. اس بات پر غور کرنے سے پہلے ایک اور حدیث دیکھیے جس کی طرف اس بات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ کے نبی – صلى اللہ عليہ وسلم –کا فرمان بخاری و مسلم میں ہے:
    [pullquote]من أحدث في أمرنا ھذا ما ليس منہ، فھو رد (صحيح البخاري، كتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود)[/pullquote]

    ”جس نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہ ہو، تو وہ مسترد ہے اور در خور اعتنا نہیں۔“

    اس حدیث میں لفظ ”احداث“ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کسی چیز کو از سر نو پیدا کرنا، چناچہ اس لفظ کے مادے اور اصل ”حدوث“ کے بارے میں ”الصحاح“ کے مصنف کا کہنا ہے:
    [pullquote]والحدوث: كون شئ لم يكن[/pullquote]

    حدوث کے معنی ہیں کہ ایک چیز کا وجود میں آنا بعد از آن کہ وہ موجود نہ ہو۔

    نیز یہ حدیث خود بھی اسی معنے کی وضاحت کر رہی ہے کہ دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرنا جو اس میں پہلے نہ ہو۔

    اب اس بات کی طرف لوٹیے اور غور کیجیے کہ دراصل ”تجدید یا تجدد“ اور ”احداث“ کے مفہوم کو گڈ مڈ کرنے سے یہ اشتبا پیدا ہوا کہ کسی کو ”متجدد“ کہنا دراصل یہ کہنا ہے کہ وہ بدعت ساز ہے اور کسی کی طرف اس لفظ کی نسبت کرندراصل اس کی نیت پر حملہ ہے۔

    اس بات میں ایک اور زاویے سے بھی جھول نظر آتا ہے کہ اگر ”تجدد“ کا مطلب ”بدعت سازی“ ہے تو کیا ”تجدید“ کا بھی یہی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں لفظوں کےبنیادی معنے ایک ہی ہیں؟ جبکہ حدیث میں کہا جا رہا ہے کہ ہر صدی کے سرے پر اللہ تعالی ”مجدد“ پیدا کرتے ہیں اور اس کا کام ہی بدعتوں کا قلع قمع کر کے لوگوں کی زندگیوں میں دین کو اصلی حالت پر لے جانا ہوتا ہے۔

    جب یہ بنیاد ہی اکھڑ گئی کہ ”تجدد“ کے معنے بدعت سازی ہیں، تو اس بات پر کیا بحث کرنی کہ کسی کو ”متجدد“ کہنا دراصل اس کی نیت پر حملہ ہے، البتہ میں صرف اتنی بات عرض کرنا چاہوں گا کہ جب کسی کے فعل کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”وہ بدعت ہے“ اور کسی کی بابت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ ”بدعتی“ ہے تو اس کی نیت پر کبھی بھی حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے فعل کی بنیاد پر گفتگو ہوتی ہے، دلوں کے بھیدوں کو کبھی بھی نہیں کریدا جاتا۔ اس کے لیے صرف ایک مثال دوں گا کہ مونچھوں کو کترنا چاہیے یا مونڈھنا؟ اس حوالے سے امام طحاوی – رحمہ اللہ تعالى – یہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ – رحمہ اللہ تعالى – کے نزدیک مونڈھنا افضل اور اعلی ہے جبکہ امام دار الجہرہ، امام مالک – رحمہ اللہ تعالى – کا یہ موقف نقل کیا جاتا ہے کہ مونڈھنا بدعت ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی کی نیت پر حملے کرنا والا نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے لیے دلوں میں احترام کو جگہ دیے ہوئے ہیں جیسا کہ ان کے واقعات اور معاملات سے چھلکتا ہے (واللہ العليم بذات الصدور)