گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
مخدوم الاولیاء والاصفیاء تاجدارِ سلطنتِ ولایت ، رونقِ بزمِ معرفت حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن عظیم روحانی شخصیات کے سرخیل ہیں جن کی سعی ٔ جمیلہ کی بدولت ظلمت کدۂ ہند میں نورِ اسلام پھیلا ۔
نام و نسب
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت شہر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی اسی لئے آپ کو علی ہجویری کہتے ہیں آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض روایات کے مطابق ۴۰۰ہجری کوسلطان محمود غزنوی کے عہد میں ہوئی ۔آبِ کوثر میں لکھا ہے کہ شیخ علی ہجویری جو داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں وہ ایک ہزار نو کے قریب پیدا ہوئے ، حافظ عبداللہ کی تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت ماہِ ربیع الاول ۳۷۳ ہجری میں ہوئی ۔ آر اے نکلسن جس نے کشف المحجوب فارسی کا انگلش میں ترجمہ کیا ہے اُس نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ علی ہجویری کی پیدائش دسویں صدی عیسوی کے آخر پر یا گیارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشرے میں ہوئی ۔بہرحال اکثر مورخین کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ آپ کی تاریخ ولادت سن ۴۰۰ ہجری ہے ۔
نسبی فضل و شرف
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت سیدنا زید ابن امیر المومنین حضرت سیدنا امام حسن پر منتہی ہوتا ہے ۔
آپ بابِ مدینۃ العلم منبع ولایت شیرِ خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نسباً بھی تعلق رکھتے ہیں اور اِسماً بھی حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا نام بھی علی ہے آپ کے دادا جان کا نام بھی علی ہے اور آپ کے جدِ امجد کا نام بھی علی ہے ۔
کُنیت اور لقب
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوالحسن اور لقب داتا گنج بخش ہے ۔ حضرت علی بن عثمان داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ منبعِ فیض و عطا ہیں صدیوں سے اولیائے کرام آپ کے دربار گہربار سے گہرہائے سے معرفت حاصل کرتے آرہے ہیں ۔داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سے بعد میں آنے والے تمام اولیائے کرام آپ کی چوکھٹ پر حاضری دینا خیرو بھلائی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے رہے ہیں ۔
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُسوۂ رسول کی کامل تصویر تھے آپ نے ساری زندگی حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع میں گزاری ،آپ اوصافِ حمیدہ کا پیکر تھے ۔تقویٰ و ورع ، خوفِ خدا ، صبر و رضا ، جود و سخا ، فیض و عطا ، علم و فضل ، میں یگانہء روزگار تھے۔
خواجۂ خواجگان ، نائب رسول فی الہند ، سرچشمۂ رشدو ہدایت ، منبعٔ فضل و رحمت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے آستانِ نور سے فیض لینے کے لئے حاضر ہوئے اور اعتکاف فرمایا اور آپ کے حُسنِ سخاوت کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ پکار اُٹھے ۔
گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا
ناقصاں راپیر کامل کاملاں را رہنما
اس وقت سے حضرت علی بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ کا لقب داتا گنج بخش مشہور ہوگیا آپ کا یہ لقب مبارک اس قدر مشہور و معروف ہوا ہے کہ آپ کا ذاتی نام پردے میں چلا گیا ہے اور آج لوگ آپ کو داتا گنج بخش کے نام سے زیادہ جانتے ہیں ۔
حضرت بابا فرید کی حاضری
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے آستانِ اقدس پر عظیم اولیائے کرام نے حاضری دی اور فیض حاصل کیا ، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جو سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے اُن کو داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت تھی اور اس عقیدت کا رنگ کچھ ایسا تھا کہ آپ جب داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے دربارِ اقدس میں حاضر ہوتے تو نہایت باادب حاضری پیش کرتے ۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضر ہوکر یہاں اعتکاف فرمایا ، چلہ کشی کی اور اکتسابِ فیض کیا ، حضرت بابا فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ آپ جب بھی مرقدِ مبارک پر حاضر ہوتے تو گھٹنوں اور کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے حاضر ہوتے ۔
{تجلی ہجویر ص۵۴}
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے دربار عالی مرکزِ تجلیات میں برصغیر کے عظیم اولیائے کرام نے حاضری پیش کی یہاں اُن کی تفصیلات بیان کرنا مشکل ہے مقتدر اولیائے کرام کا دربارِ عالیہ سے فیض یاب ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو روحانی سلطنت کا تاجدار بنایا گیا ہے
Category: روحانیات
-
روحانی سلطنت کا تاجدار حضرت داتا گنج بخش – حافظ محمد اویس چشتی سیفی
-
من من کے پاؤں – محمد یعقوب آسی
(۱)
’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ اور …. پھر زبان کانپ گئی، لفظ کھو گئے! حاضری؟
اور وہ بھی اللہ کے حضور! ایسی ہوتی ہے، حاضری؟
بدن کو کفن کی طرح سفید چادروں میں لپیٹ لینے سے کیا ساری کالک دھل جاتی ہے؟
شاید ہاں، شاید نہیں! مگر … یہاں شاید اور مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
یہی شاید اور مگر ہی تو حضوری کو حجاب بنا دیتے ہیں۔ بدن اور وجود کا احساس کتنی بڑی رکاوٹ ہے!
اے اللہ میں حاضر ہوں! اگر میں حاضر ہوں تو پھر میں کیوں ہوں!؟
حاضری میں میرا بدن کیا کر رہا ہے! اور کیوں؟
کس لئے؟
یہ پاؤں، من من کے پاؤں مجھے ہلنے نہیں دے رہے۔
میرے اللہ! مجھے سر تا پا دھڑکن بنا دے اور میرا وجود میرے اشکوں میں تحلیل کر دے! پھر شاید میں لبیک کہہ سکوں۔
یہ قیامت ہی تو ہے!
حشر کا عالم اس سے کیا مختلف ہو گا؟
ایک بسیط خلا جس میں سر ہی سر ہیں، آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، اشک ہی اشک ہیں، دھڑکنیں ہی دھڑکنیں ہیں۔ رنگ و نسل، عمر اور طبقہ کہاں سے در آئے گا، یہاں تو صنف بھی صنف نہیں رہتی۔ یہاں ہوش کسے ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ٹکرا کر گزرا ہے یا گزری ہے! یا میں کسی کالے گورے عربی عجمی مرد سے جا ٹکرایا ہوں یا کسی عورت سے! کچھ پتہ ہی نہیں رہتا۔ بس ایک چادر باقی رہ جاتی ہے۔ گہرے سیاہ رنگ کی چمکتی دمکتی اور دل میں اترتی، روح پر چھاؤں بن کر پھیلتی ہوئی ایک بسیط چادر، جو میرے بائیں طرف تنی ہے اور میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور بس! حاضری تو تب ہو کہ میں نہ رہوں، صرف وہ چادر رہ جائے۔ پھر ممکن ہے میری صدا بھی بسیط ہو جائے۔ لبیک کی کاف تک کا فاصلہ جتنا طویل ہو جائے حاضری بھی اتنی ہی طویل اور عمیق ہو جائے! مجھے، میرے جسم اور میری روح کو اپنے اندر سمو لے تب میرے اندر سے ایک پکار اٹھے! لب بَے …. ک۔ لاشریک لک!
یہ تو محشر بھی نہیں ہے! کچھ اور ہے۔ محشر میں تو سنتے ہیں کہ شور ہو گا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ نفسی! نفسی! نفسی! مگر نہیں یہاں کبھی کبھی ایک بھنبھناہٹ سی ابھرتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ بہت ساری آوازیں ’’لبیک‘‘ کہنے کی کوشش میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔جیسے آواز کو بھی پاؤں لگ گئے ہوں، من من کے پاؤں! میری آواز اِن پاؤں کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں بلند ہو جاتی ہے۔ اور ’’لب بے … …‘‘ کاف تک پہنچنے سے پہلے ایک پکار میں بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں، من من کے پاؤں اشکوں کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں۔ وہی حشر کا سماں؟ کہ ہر کوئی اپنے اپنے پسینے میں ڈوب رہا ہے! میری پکار بھی اس میں ڈوب کر ہچکی بن جاتی ہے۔ لبیک کہنے کے لئے لام، با، یا، کاف کی ضرورت نہیں رہتی! لبیک اللّٰھم لبیک!
(۲)
کائنات کے سارے رنگ سیاہ چادر میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں اور مجھے شکمِ مادر کی صورت اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی خوف ہوتا ہے، نہ تاریکی ڈراتی ہے، نہ آنکھیں ویران ہوتی ہیں بلکہ ایک سرمدی سکون اور خودفراموشی ہوتی ہے جو مجھے دنیا جہان کے غم و آلام سے محفوظ اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ دعائیں لہو میں دوڑتی اور دل میں دھڑکتی ہیں، بے چینیاں آنکھوں میں بھی ٹک نہیں پاتیں توآبِ نمکیں کی صورت جسم سے نکل بھاگتی ہیں۔ ہم کلامی اور خود کلامی کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے بلکہ کلام ہی نہیں بچتا۔ کس کس نے کیا کہا کہا تھا! میرے لئے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر دعا کیجئے گا؛ میری بچی ذرا سی بلند آواز سن کر ڈر جاتی ہے، اس کے لئے سکونِ قلب مانگئے گا؛ درخواست کیجئے گا کہ مجھے بھی بلا لیا جائے؛ میرے لئے مال و دولت میں برکات کی دعا کیجئے گا۔ سب کا کہا بجا! سب کی خواہشات کا خلوص تسلیم مگر …. صدا کہاں سے آئے، لفظ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں کہ اللہ! میرے چاہنے والوں کی مشکلات کو بھی آسان فرما دے؛ میرے احباب کو بھی سکونِ قلب سے نواز اور اُن کو بھی جسمانی طور پر حاضری کا شرف عطا فرما۔ لبیک! ان الحمد، و النعمت لک والملک؛ تیرا ایک ایک بندہ جہاں بھی ہے تیری نظر میں ہے اور تیرے کرم کی پناہ میں ہے۔
مگر، بندہ جو ٹھہرا! اکرام اور شرف کا سودائی، تیرا مہمان بننے کی خواہش کے ساتھ جیتا ہے۔ کم مایہ انسان کی اس آرزو کو کیا کہئے کہ اللہ کو اپنا میزبان دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب خود کو تیرے گھر میں پاتا ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے! یہ بھی تو قیامت ہے! جب ایک ایک عضو بولے گا اور زبان کو تالا لگا دیا جائے گا۔ اللہ اکبر! مجھ جیسے بے مایہ شخص کو بھی یہ تجربہ ہوا کہ سوچ کا خانہ تک خالی ہو گیا۔ اللہ کریما! اس خلا میں جو اچھی بات جو اچھا خیال جو اچھا جذبہ بھر دے، تیری عنایت ہے۔ لفظ بھی تو خود ہی عطا کرے گا۔ نہیں بھی کرے گا تو تجھے لفظوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اللہ کریما! سب کی ایک ایک آرزو، ایک ایک تمنا تیرے سامنے کھلی ہے۔ ہر ایک کی ہر وہ آرزو پوری کردے جو آرزو کرنے والے کے حق میں اچھی ہے، آرزو مند کو اتنا ادراک کہاں کہ کیا مانگنا ہے! وہ تو ہر آرزو کی تکمیل چاہے گا، یہ تو ہی جانتا ہے کہ نادان بچے کی طرح کون اپنی ہی آرزو کے ہاتھوں انگلیاں کٹوا بیٹھے! میرے مالک کبھی مجھے میرے حوالے نہ کرنا۔ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث!
(۳)
میں کیوں ہوں؟ کس لئے ہوں! یہ بھی تیری مشیت ہے۔ تو کہ ایک خفیہ خزانہ تھا، مگر خود پر عیاں تھا۔ شجر حجر، نباتات و اشجار، چاند سورج ستارے سیارے، ہوائیں فضائیں، حشرات و وحوش، انعام و مواشی، اور وہ ہر ہر شے جو تیرے ایک حرفِ کن کا کرشمہ ہے تجھے جانتی پہچانتی تھی۔ پر تیری مشیت اور مرضی تو کچھ اور تھی۔ تو نے چاہا کہ کوئی تجھے اپنی آزاد خواہش کے تحت پہچانے اور مانے جب کہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار بھی ہو اور ادراک بھی ہو! تونے ذی شعور مخلوقات کو پیدا فرمایا اور مجھے (انسان کو) احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کیا۔ مجھے یہ جو تو نے قفسِ عنصری میں محدود کر دیا ہے یہ بھی تیری عنایت ہے، نہیں تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا!
اپنا پنجرہ اپنے کندھوں پر اٹھائے تیرے گھر کی دہلیز پر پہنچتا ہوں تو ایک عظیم الشان دیوار سامنے آ جاتی ہے سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی بلند و بالا عمارت کے گردا گرد ہزاروں لاکھوں سر ہیں جو میرے سامنے دائیں طرف سرک رہے ہیں۔سیاہ رنگ کی چادر کے اوپر کی طرف ایک پٹی میں سنہرے حروف جگمگا رہے ہیں۔ لبیک! ہاں لبیک! اور پھر؟ لبیک! تیرا جلال حاوی ہو جاتا ہے! مجھے تو کچھ کہنا تھا! اپنے رب سے مکالمہ کرنا تھا! کیا کہوں! یا اللہ کیا کہوں۔ میری نگاہیں تو چادر میں گڑی ہیں اور لفظ شاید کوئی ترتیب پا ہی نہیں سکے، اور پا بھی سکے ہیں تو دل سے حلقوم تک کے راستے میں کہیں کھو گئے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے اور لبیک سے اگلے الفاظ ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے ابل پڑتے ہیں۔ میرے سامنے چادر پھیلی ہوئی ہے۔ پردہ! انسانی آنکھ میں تیرے نظارے کی ہوس تو ہے پر تاب نہیں ہے۔ میں کیا، میری اوقات کیا! وہ جلیل القدر عصا بردار پیغمبر جسے یعقوب کے بگڑے ہوئے بیٹوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اسے بھی تو تجھے دیکھنے کی تڑپ تھی! ایسی تڑپ کہ مجھے اس کا ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ملا ہو گا۔ اس عزمِ مجسم سے ارشاد ہوا تھا: تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا! میں کیا! میری حیثیت کیا! تیرے گھر پر لپٹی کالی چادر میرا پردہ رکھ لیتی ہے، اور میرے دیکھتے دیکھتے چہار جانب یوں پھیل جاتی ہے کہ نہ کہیں کوئی افق باقی رہتا ہے نہ کوئی منظر، میرے بے نطق الفاظ ہیں، بے ترتیب دھڑکنیں ہیں اور بے محابا بہتے ہوئے اشک ہیں۔ اللّٰھم اہدنی فی من ہدیت! و عافنی فی من عافیت! و تولّنی فی من تولّیت! و بارک لی فی ما اعطیت! و قنی شر ماقضیت! و انّہٗ لا یذلّ من والیت! و لا یعزّ من عادیت! استغفرک و اتوب الیک! تبارکت ربنا و تعالیت! میرے مالک تو مجھے عطا کر دے۔میں ایسا فقیر ہوں کہ تو مجھے جو بھی عطا کرے میں اس پر شکرگزار ہوں۔ میں بخشش کا طالب ہوں اور تیرے در پر آن پڑا ہوں۔ میرے اللہ میں تیرے گھر کی دہلیز پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں من من کے ہو گئے ہیں۔
تیرے جلال کی قسم مجھے کھڑا ہونا محال ہے، تیرا ایسا دبدبہ ہے کہ جی میں آتی ہے بھاگ جاؤں! مگر کہاں؟ اے میرے مولا! میں تجھ سے بھاگ کر تیری طرف آتا ہوں۔ اور میرا سر بھی ہزاروں لاکھوں سروں کے اس قافلے کا حصہ بن جاتا ہے جومیرے سامنے میرے دائیں طرف کو سرک رہا ہے۔ میں چل پڑتا ہوں، مگر نہیں! میں کہاں چل پڑتا ہوں! میری نگاہیں تیری پھیلتی ہوئی چادر میں کسی غیر مرئی نقطے کی تلاش میں ہیں۔ چادر پھیل رہی ہے! طواف کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔ سروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میرے من من کے پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں، آنسوؤں کی رفتار اور مقدار بڑھنے لگتی ہے، دھڑکنیں سینے کی بجائے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اور پھر میں تیری بے پایاں رحمتوں کی پناہ میں آ جاتا ہوں۔ -
ایک لڑکی کی روح کی فریاد – نوشابہ عبدالواجد
میں! آسمانوں میں قائم خداوندہ کریم کی بارگاہ میں روح کی شکل دے کر وجود میں لائی گئی ہوں اور مجھے اُس قطار میں کھڑا کیا گیا ہے، جو عنقریب اولاد بن کر دنیا میں جانے والی ہے۔ اُس دنیا میں جو ہمارے لیے ہی تخلیق کی گئی اور جس کا وجود ہم سے ہی ہے۔
اولاد کی قطار میں کھڑی، اللہ کے فرمان کا انتظار کرتے ہوئے، میں دنیا میں آنے والی زندگی کو اپنی آنکھوں کے پردے پر چلتا دیکھ رہی ہوں اور خوف ذدہ ہوں کہ اللہ کا فرمان میرے لیے کیا فیصلہ لے کر آ رہا ہے ۔ انسانی شکل حاصل کرنے کے لیے مجھے کسی نہ کسی ماں کے شکم کی ضرورت ہو گی ۔۔۔کون ہو گی میری ماں؟ مسلمان یا کسی اور عقیدے سے تعلق رکھنے والی؟ میں یہ جانتی ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور میرے تحتِ شعور میں دینِ اسلام محفوظ ہے، مگر مجھے کس عقیدے کو ماننا ہے اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ میرے ہونے والے والدین کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی تو مجھے اپنی فطرت کے مطابق ماحول مل جائے گا، جہاں میں باآسانی اپنے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کو سمجھ پاؤں گی اور اگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا تو میرے لیے اپنی فطرت کے خلاف ساری زندگی گزارنا مشکل ہو گا اور اگر میں خود دینِ اسلام کی کھوج میں نہ نکلی تو ایک اضطرابی روح بن کر رہ جاؤں گی۔
انتظار کے لمحوں میں نِت نئے سوالات میرے ذہن میں آ رہے تھے کہ اُسی وقت ایک خواہش نے میرے اندر جنم لیا کہ کاش! اللہ تعالی مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں؟ اور پوچھے جانے پر میں جواب دوں۔ نہیں کبھی نہیں۔
اللہ تعالی میرا یہ جواب سُن کر مجھ سے ایک بار پھر پوچھے آخر کیوں؟ تب میں اپنا حالِ دل بیان کرتے ہوئے کہوں۔اے اللہ! میں اس بات پر فخر کرتی ہوں کہ دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں مجھے مانگا نہ جاتا ہومگر جب میں اپنے مانگے جانے کی وجوہات پر نظر ڈالتی ہوں تو دل برداشتہ ہو کر یہ خواہش کرتی ہوں کہ مجھے اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کے گھروں میں نہیں جانا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی آپ نے مجھے ان مانگنے والوں کو دینے کے لیے ہی بنایا ہے، مگر یہ مجھے کیوں مانگ رہے ہیں؟؟؟
ذرا دیکھیں تو۔
کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو صاحبِ اولاد ہونے کا سرٹیفکیٹ چاہیے، تاکہ وہ دنیا میں اَکڑ کر چل سکیں۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی نسل اور وراثت چلانی ہے۔ کوئی مجھے اس لیے مانگ رہا ہے کہ اُن کو اپنی ادھوری خواہشات کو پورا کرنا ہے، تو کوئی مجھ میں اپنے بڑھاپے کا سہارا دیکھ رہا ہے۔
اے میرے رب! ہر کوئی مجھ میں اپنا مفاد دیکھ رہا ہے ، کوئی بھی مجھے اُس مقصد کے لیے نہیں مانگ رہا جس کے لیے میری تخلیق ہوئی ہے۔ مرد اور عورت پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مجھے پیدا کرکے آپ کے آگے جھکنے والوں کی تعداد میں ایک اور عاجز بندے کا اضافہ کریں۔ معاشرے کو ایک مکمل انسان بنا کردیں تاکہ وہ دین اور انسانیت کے اُصولوں کو آگے لے کر چل سکے۔یا اللہ! صرف یہ ہی وجہ نہیں ہے، جس نے میرے اندر دنیا میں جانے کی خواہش کو کم کر دیا ہے۔ ۔ ذرا میرے وجود کا آغاز دیکھیں، جب میں اپنی ماں کے شکم میں ہوتی ہوں تب بھی اپنی ماں کے رحم و کرم پر ہوتی ہوں، اگر ماں چاہے تو مجھے ایک صحت مند انسان بنا کردنیا میں لانے کا ذریعہ بن جائے اور اگر نہ چاہے تو میری بے بسی کا فائدہ اُٹھا لے۔
میں یہ بات جانتی ہوں کہ میرے اور میرے والدین کے درمیان احسان کا رشتہ ہے کیونکہ جہاں بے بسی ہوتی ہے وہیں تو احسان ہوتا ہے۔ مگر کیا میرے ہونے والے والدین یہ جانتے ہیں کہ میرے اور ان کے درمیان کون سا رشتہ ہے؟
اے میرے مالک! میں اپنی ماں کہ شکم میں جتنی بےبس ہوں اُتنی ہی لاچار دنیا میں آنے کے بعد بھی ہوں گی۔ زبان، آنکھ، کان اور عقل سب ہونے کے باوجود کسی چیز پر میرا کوئی اختیار نہیں ہو گا، والدین کی آغوش میں ایسے سمٹی رہوں گی کہ کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ ایک دن اکیلے دنیا فتح کر سکتی ہوں۔
اللہ کون ہے؟ وہ دین جومیرے تحتِ شعور میں محفوظ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات جاننے اور سمجھنے سے پہلے میرے والدین ہی میرے لیے سب کچھ ہوتے ہیں، اندھادہند ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیتی ہوں یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ میرے ساتھ اچھائی کر رہے ہیں یا بُرائی۔ بس ایک اندھا یقین کہ وہ مجھے کامیاب بنا رہے ہیں۔۔۔
یااللہ! افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجھے حاصل کرنے کے لیے والدین ہر حد سے گزر جاتے ہیں، مگر مجھے حاصل کرنے کے بعد وہ میری بھلائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میرا نام رکھنے سے لے کر زندگی کے بڑے بڑے فیصلوں میں اپنی پسند نا پسند کو ترجیحی دیتے ہیں۔ میرے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا ، اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔
میرے مالک! ذرا سوچئیے،اِن مانگنے والے والدین کو پرورش اور تربیت میں فرق بھی نہیں پتہ۔ پرورش میں میری جسمانی نشوونما شامل ہے اور تربیت میں میرے عقائد، اخلاقیات، رسم ورواج اور نفسی شعور کا علم شامل ہے، مگر آج کل کے والدین پرورش کو تربیت کا نام دے کر تربیت کی اہم ذمہ داری میں کوتاہی کر رہے ہیں۔۔۔ بہترین کھانا کھلانے، اعلٰی اسکولوں میں تعلیم دلانے اور بہترین جگہ پر رکھ کر پرورش کرنے کو بہترین تربیت کا نام دیتے ہیں۔والدین کی یہ لاپرواہی اور لاعلمی دیکھ کرکس کا دل کرے گا کہ وہ اولاد بن کر اِن مانگنے والوں کی زندگیوں کا حصہ بنے ۔اے میرے رب! آج کل کے والدین یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کو یہ منصب اُن کی صلاحیتوں پر نہیں ملتا ہے بلکہ یہ آپ کا فضل ہے، آپ مانگنے والے کو وہ سب دیتے ہیں جو وہ مانگ رہے ہیں، کیونکہ ہرمانگی جانے والی چیز پر ہی تو مانگنے والے کا حساب لیا جائے گا ۔۔۔۔ میرا وجود تو والدین کا منصب حاصل کرنے والوں کے لیے کڑا امتحان لے کر آتا ہے۔ والدین کا امتحان میرے لیے بھی آزماش کا سبب بنتا ہے، کیونکہ وہ مجھے جو بنا کر دنیا کے حوالے کرتے ہیں وہاں ہرقدم پر میری جنگ خود سے ہوتی ہے۔ ٹھوکریں میرا مقدر بنتی ہیں اگر میری تربیت آپ کے بتائے اُصولوں پر نہ ہوئی ہو۔
یا اللہ! شکوہ تو یہ ہے کہ والدین یہ جانتے ہیں کہ ہر کام کو بہترین طریقے سے کرنے کے لیے اُس کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری ہے، اس لیے وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوں اور اپنی ساری خواہشات کو پورا کر سکیں، مگرآج کے والدین اولاد کی تربیت کرنے کے لیے کوئی بھی علم حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھتے، مجھے اپنی تجربہ گاہ سمجھتے ہیں جہاں وہ صرف تجربے کرتے نظر آتے ہیں۔ والدین یہ نہیں جانتے کہ اُن کو میری تربیت کیسے کرنی ہے، اپنی زندگی سے جو سیکھا وہ سیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ والدین یہ بھی نہیں جانتے کہ انھوں نے اپنی زندگی سے صحیح سیکھا ہے یا غلط ۔ جس چیز کا وہ علم رکھتے ہیں اُسے بھی سیکھانے میں کوتاہی کرتے ہیں کیونکہ انسان ایک ایسی ذات ہے جو عمل سے سیکھتی ہے بولے جانے والے لفظوں سے نہیں اور آج کے والدین عمل سے سیکھانے پر یقین نہیں رکھتے۔۔۔۔اے اللہ! میری کہی سب باتوں کا ملطب یہ نہیں ہے کہ میں والدین کی خالص محبت کو مانتی نہیں ہوں، مگر میں اس بات پر حیران و پرشان ہوں کہ والدین مجھے اچھی زندگی دینے کے لیے کسی کی بھی حق تعلفی کر سکتے ہیں، چوری ، ڈاکہ اور قتل جیسے سنگن جُرم کر سکتے ہیں، حرام ذریعے سے کما کر میری ضروریات پوری کر سکتے ہیں لیکن مجھے بااخلاق بنانے کے لیے اپنے اخلاق کو بلند نہیں کر سکتے، مجھے نمازی بنانے کے لیے خود نمازی پرہیزگار نہیں بن سکتے، مجھے خوش کلام بنانے کے لیے آپس کی گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑوں سے اجتناب نہیں کر سکتے ، ہر بُری عادت جو میرے لیے نقصان دہ بن سکتی ہے میری بھلائی کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔آج کل کے والدین کی محبت بھی اُن کی طرح گمراہ ہو گئی ہے۔۔۔۔ اولاد کی محبت میں والدین جو کچھ کر رہے ہیں اُس سے نہ اُن کی زندگی بن سکتی ہے اور نہ میری ۔
یا اللہ! میں یہ جانتی ہوں کہ بلوغت میری عمر کا وہ مرحلہ ہے جہاں مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت آ جائےگی، مگر چودہ سال والدین کی اندھی تقلید مجھے حقیقت سے اتنا دور کر دے گی کے میں اپنے ضمیر کی آواز، جو میرے تحتِ شعور میں محفوظ دینِ اسلام کی ترجمانی کرے گی، سننے سے قاصر ہوں گی ۔ میں چاہ کر بھی اس بات پر یقین نہیں کر پاؤں گی کہ میری زندگی میں آنے والی آزمائش اور ناکامیوں کی وجہ میرے والدین کی غلط تربیت اور غلط فیصلے ہیں ۔۔۔ ایک بار پھر میں ایسے دو راہے پر آ کر کھڑی ہو جاؤں گی جہاں خود کو ایک بار پھر بہت بے بس محسوس کروں گی ۔ میری پوری زندگی غلط تربیت اور غلط فیصلوں کی وجہ سے برباد ہو جائے گی۔ پتہ نہیں اُس لمحے میں خود کو سنبھال پاؤں گی بھی کے نہیں؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں پوری زندگی والدین کے بتائے ہوئے غلط راستوں پر بھٹکتے گزار دوں۔
رب العزت! والدین یہ سمجھتے ہیں کہ شعور آنے کے بعد اولاد اپنے صحیح اور غلط اقدامات کی خود ذمہ دار ہے ، کسی حد تک تو ہم اولاد کو ذمہ دار کہہ سکتے ہیں، کیونکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر حق کا راستہ اپنانا خود بندے کی ذمہ داری ہے، مگر اولاد کی بربادی کے زیادہ ذمہ دار والدین ہوتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو عیسائی، یہودی اور مُشرکین کی اولاد شعور کی عمر کو آتے ہی اللہ اور اُس کے رسول کے بتائے راستے پر چلنے لگتی اور اپنے والدین کا بتایا اور سیکھایا ہر سبق بھول جاتی ۔ والدین شاید یہ نہیں جانتے کہ غلط تربیت کے اثرات اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرتے کرتے کبھی ساری زندگی گزر جاتی ہے مگر چھٹکارا نہیں ملتا۔اے میرے مالک! میں جب اپنے سے پہلے دنیا میں جانے والی اولاد کا بُرا حال دیکھتی ہوں تو خواہش کرتی ہوں کہ یا تو آپ مجھے صرف اُن والدین کو نوازیں جو میری تربیت کرنے کے قابل ہوں یا آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا میں اولاد بن کر دنیا میں جانا چاہتی ہوں اور میرا جواب وہی ہو ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں
-
نوائے فرد – فائزہ صابری نوا
مالک! میں ناشکرا حد سے زیادہ ، میں لا پرواہ حدوں کو چھو کر، میں بے فیضا، بے پناہ.
دینے والے! مجھے شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما دے،
سوہنے! میری لاپرواہی ختم کر دے،
مالکا! مجھے معلوم ہے کچھ نہیں ہوگا، کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود مجھے یقین ہے اپنے بخشے جانے کا کہ تو حد سے گزر کر رحیم ہے.
مرشد! مجھے فیض عطا فرما دے، میرا سینہ فیض سے بھر دے، نکال پھینک سب غلاظت جو تجھے پسند نہیں کہ میں اس بے نور زندگی سے تنگ پڑ گیا ہوں.
مرشد! تو کہتا ہے کہ میں خلیفہ ہوں تیرا. سوہنیا! میں کیا کروں، میں کیسا خلیفہ ہوں کہ جو ہر چیز کا محتاج ہے، جسے سب کی ضرورت ہے اور کسی کو اس کی ضرورت نہیں.
میرے عالم! میں علم حاصل کرنا چاہتا ہوں اور تجھے پا لینا چاہتا ہوں. تیری الفت کے سمندر میں غرق ہونا چاہتا ہوں، تجھے اپنے اندر بھر لینا چاہتا ہوں اور پھر باہر بھی تجھے ہی دیکھنا چاہتا ہوں… اسی خواہش میں گھُل رہا ہوں…سوچ دینے والے مجھے آج تک معلوم نہیں پڑ سکا کہ مجھے کیا سوچنا ہے! کچھ ہے جس کا اِدراک مجھ پہ ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے. کوئی سوچ ہے جو مجھے تنگ کرتی ہے، ستائے رکھتی ہے. میں کھو جانا چاہتا ہوں ایسے اندھیروں میں جہاں مجھے صرف تیرے ہی اجالے ملیں…
مولا! جانتا ہوں اس قابل نہیں مگر میں صرف تیری یاد کی کرن کا منتظر ہوں…. جو میرے گمان سے سوا لے جائے جہاں کوئی خواہش نہیں رہتی..
دیکھ میں تلوار پر چل رہا ہوں مگر پھونک پھونک کر قدم نہیں رکھ رہا، مجھے تجھ پہ پورے سے زیادہ یقین ہے. کبھی کبھی تو آنکھیں بند کرکے چلتا ہوں مزے سے… کٹنے سے نہیں ڈرتا، کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے اس میٹھی دھار سے پاؤں کٹ جائے اور پھر جب میٹھی سی چبھن ہو گی اس کا مزہ مدہوش کر دینے والا ہو گا.گمانے والے! میں گمنام ہو جانا چاہتا ہوں، دھیان دینے والے! میں بے دھیان ہو جانا چاہتا ہوں. پہچان دینے والے! میں بے پہچان جینا چاہتا ہوں… سرکار! میں نفس کو تابع کر لینا چاہتا ہوں لیکن یہ مجھے مصلوب کرتا رہتا ہے… میں تیرا ہونا چاہتا ہوں یہ مجھے اس راہ سے بھٹکاتا ہے بہکاتا ہے… مجھے کچھ دکھا کر کے چمکارتا ہے تو میں بچوں کی طرح دوڑتا ہوا اس کی بانہوں میں بھر جاتا ہوں. نفس کو تابع کرنے کی طاقت دینے والے… کیوں؟ مجھے اتنی طاقت دے کہ زیادہ نہ سہی میری بہت ہی چل جایا کرے..
سماعت کے دیون ہارا! تیرا کتنا احسان ہے تو نے مجھے کچھ کچھ بہرا رکھا ہے اور اگر نہ رکھتا تو میں کائنات کی ہر چیز کی آواز سنتا اور روتا رہتا اور میرے کان پھٹ جاتے… زبان دینے والے! تو چاہے تو اسے واپس لے لے.،میں نے کبھی اسے استعمال نہیں کیا.. میں نے کبھی کسی کو اس کا حق لے کر نہیں دیا، میں کبھی بولا ہی نہیں تو پھر مجھ پہ یہ بوجھ کیسا؟ شاید میرے نہ بولنے کا بوجھ ہے… سوہنے خالقا! تو مجھے بولنا سیکھا کہ پہ کچھ گلہ نہ رہے.
تجھ سے بات کرنی ہے مگر قوت گفتار نہیں… اس کھنڈر میں ایک تناور درخت اگانا ہے تو بیج ڈال دے میں پانی دیتا رہوں گا…. بس بیج کہہ دے، ایک بار، میرے رازداں! میں تجھ سے بات کرنا چاہتا ہوں، پہلے میں ویرانے ڈھونڈتا تھا تجھ سے ہم کلام ہونے کو مگر اب ہجومِ آدمی میں تجھ سے مخاطب ہو جاتا ہوں تجھ سے مسکراتا ہوں، تو میرا دوست ہے مگر میں بات کرتا ہوں تو لوگ کافر اور گستاخ کہنے لگتے ہیں… مرشد! میں تیرے قریب ہونا چاہتا ہوں، تو دھڑکن ہے، تو سنتا ہے کہ میری دھڑکن تیری منشاء میں محوِرقص ہے… جانے کب سے خود کو خالی اور پرسکون محسوس کرتا ہوں.
بخشنے والے کیا میں لذتِ دیدار سے بانجھ ہوں؟؟؟ سوہنیا! کیا میں بنجر ہوں؟ مجھ پر سرکار کوئی تو فصل لہلہائے… خود سے لڑتا ہوں تو پھر تھک کے تیرے پناہ لیتا ہوں، تو جانتا ہے نا پچھلی شب کتنے زور کا زلزلہ آیا تھا، کئ زور سے آندھیاں جھکڑوں کی صورت چل رہیں تھیں نا! ہر طرف گرد تھی، کچھ دِکھ نہیں رہا تھا… تو تُو نے مٹی کے اس بھر بھر ے سے ڈھیلے کو بچایا… ہمیشہ کی طرح… کبھی کبھی دل میں محشر بپا ہو جائے تو ہر طرف سے ناکام و نامراد کی صدائیں اٹھتی ہیں، مگر تیری طرف دیکوں سوہنیا تو اتنی ساری آوازوں پر تیری اک نگاہ بھاری، اور سرکار ہمیشہ کی طرح خود کو کامیاب و کامران سمجھنے لگتا ہوں… تو جانتا ہے میں نے کیا کہنا ہے، کیا کہا ہے… بس چپکے سے کن فرما دے… مالک! حالات بس سے باہر ہوئے جاتے ہیں، آخر تو ہی سب کچھ ہے، تو نے دستِ شفقت رکھنا ہے اور کن کا مژدہ سنا دینا ہے. تو خالق! پھر سجدے میں جا کر میں نے تجھے اتنا چومنا ہے کہ بس…. تیری کرم نوازی ہے کہ تو اس حقیر کی مان لے.،تجھے تیری بزرگی کا واسطہ مان لے…. مشکلات بڑھ گئیں، یا حل المشکلات! کوئی دوسرا ساتھ نہیں ،لذتِ یقین سے آشنا فرمانے والا! مجھے میرا یقین لوٹا دے، میں راضی ہوں سرکار! ازحد راضی، تو جس میں رکھے، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ میں محوِ رقص میں ہوں، تمام عالم رقص میں ہے مگر….آنکھیں کھولوں تو سب کچھ ساکت… پے در پے آزمائش کے وار کر، ایک ہی وار کر، ایک ہی دھار سے سب چیر کے رکھ دے مگر کبھی کبھی ذرا پہلو بدلنے دیا کر… کبھی درد سے پھٹ جاتا ہوں، آزمائش شرط ہے کہ چاروں شانے چت ہوں، بہت لمبی سیڑھی لگائ ہے تو نے میرے لئے…. اتنا فاصلہ طے ہوا، مگر ابھی بھی دھند اس قدر کہ منزل کا ہونا نہ ہونا معلوم نہیں پڑتا، کچھ ہے بھی یا محض دھول کا بے دام ذرہ ہوں.
کرم فرمانے والے! تیرے کرم کی انتہا نہیں کہ میری سوچ سے ورا… تو پھر سوچوں تو میری سوچ ہی کیا؟
رحیم! کریم!
تو میرا!
سوہنیا!
پر صرف میرا نہیں…
مگر میں تیرا ہوں، صرف تیرا…
تو ہی جانے کیا ہوں، کون ہوں، میں جو تجھ سے محبت کرتا ہوں مگر کبھی کبھی تیری مانتا ہی نہیں، جب میں تجھ سے ڈرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں، یہ خوف محبت میں ضروری ہے کہ جس سے محبت ہو اس سے خوف آتا ہے… بے صورت! صورت گر! مجھے تجھ سے خوف آنے لگا ہے.
کرم فرما کہ عذاب سے جان چھوٹے دل کا منظر صاف ہو جائے. پاک ہو جائے. تلاطم خیز طوفان میں دراڑ پڑ جائے… تو جانتا ہے پیاریا! دوئ کے رستے پہ چلتا ہوں.. بندہ ہوں، لالچ بہت ہے نا! پتا نہیں کہ کس راستے پہ ملے گا اور یہی لالچ ہر سو بھگاتا ہے. تیرے اس بندے کو….. -
سورۃ الفاتحہ سے میرا ذاتی تعلق – رضوان اسد خان
اے اللہ جو کچھ بھی تو نے مجھے دین اور دنیا میں عطا فرمایا ہے، اس پ ر میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری حمد بیان کرتا ہوں۔ اے اللہ تیرے احسانات مجھ بندہ حقیر پر اس قدر ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے۔ اور صرف مجھ پر ہی نہیں، تیرا کرم تو تمام جہانوں پر ہے جن کا تو رب ہے۔ تیری عظمت بیان سے باہر ہے اور عقلوں کو عاجز کر دینے والی ہے۔ یہ پوری کائنات جو ہمیں ستاروں سے مزین لاکھوں کہکشاؤں پر مشتمل نظر آتی ہے، یہ تو محض تیرا پہلا آسمان ہے! اور اس کی حیثیت دوسرے آسمان کے مقابلے میں محض ایک لق و دق صحرا میں پڑی انگوٹھی کی سی ہے۔ اور یہی حقیقت دوسرے کی تیسرے اور تیسرے کی چوتھے کی نسبت ہے۔ اور یہ سلسلہ ساتویں آسمان تک ہے جس کا احاطہ تیرے عرش نے ایسے کر رکھا کہ گویا اس کائنات کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو اور اس عرش پہ تیری ذات با برکات ہے جس کا تصور ہی ہمارے لیے محال و حرام ہے۔ اللہ اکبر کبیرا۔
”الحمد للہ رب العالمین“
اے اللہ تو اس دنیا میں مومنین پر بھی مہربان ہے اور ان پر بھی جو تجھے نہیں مانتے یا تیرے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ تو ان سے ناراضگی کے باوجود نہ ان کی ہوا بند کرتا ہے، نہ پانی نہ خوراک۔ تیری رحمت چرند، پرند، درند، درختوں، پھولوں، پودوں پر بھی ہے۔ حتیٰ کہ سیاہ اندھیری رات میں، کالی چٹان کے تاریک سوراخ میں دبکی سیاہ چیونٹی کو تو اپنے عرش سے دیکھتا بھی ہے، اس کی سنتا بھی ہے اور اس کے رزق کا انتظام بھی فرماتا ہے!
اے اللہ آخرت میں جب تیری یہ رحمت محض تیرے مومن بندوں کے لیے مخصوص ہو جائے گی تو میرا شمار انہی مخلص ایمانداروں میں فرمانا اور قبر و حشر کی سختیوں سے اپنی رحمت کے ساتھ بچا لینا۔ اے اللہ میرے اعمال تو جنت میں لے جانے والے نہیں۔ بس تو اپنی رحمت سے ڈھانپ کر مجھے جنت الفردوس میں داخل فرما دینا۔
اے اللہ اس کائنات کا بلا شرکت غیرے تو اکیلا مالک ہے۔ اور جب یہ فنا ہو جائے گی تو قیامت والے دن بھی تیرے سوا کسی کی ملکیت اور کسی کی مملکت نہ رہے گی۔ آج جو تیری ملوکیت کے منکر ہیں وہ بھی اس دن ہیبت سے فنا ہو چکے ہوں گے جب تو پوچھے گا:
”لمن الملک الیوم“
تو اے روز جزا کے مالک، اس پچاس ہزار سال کے برابر طویل ترین اور سخت ترین دن میں مجھے ان خوش نصیبوں میں شامل فرمانا جن کے لیے اس کی طوالت ایک پہر سے زیادہ نہ ہوگی۔ جو اس دن تیرے عرش کے سائے میں ہوں گے جب شدید گرمی میں کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ جو تیرے حبیبﷺ کے دست مبارک سے جام کوثر نوش کریں گے جبکہ منافق اور بدعتی پیاس سے تڑپ رہے ہوں گے۔ جن کے چہرے نور سے دمک رہے ہوں گے جبکہ کفار کے چہرے ہیبت و مایوسی سے سیاہ پڑے ہوں گے۔ جن کے رفقاء نبیین، صدیقین، شہداء اور صالحین ہوں گے۔ جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں ہوگا اور جن کے نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے۔ اور جو نور اور سلامتی کے ساتھ پل صراط پار کر کے تیری جنتوں کے وارث قرار پائیں گے۔
”مالک یوم الدین“
اے اللہ میں صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ تیرے سوا عبادت کے لائق ہو بھی کون سکتا ہے۔
جب پیدا تو نے کیا تو کسی ”پیراں دتا“ کا کیا سوال۔
جب رزق دینے والا صرف تو ہے تو”داتا“ کو ئی اور کیسے۔
جب خزانوں کا مالک صرف تو ہے تو کسی”گنج بخش“ کی کیا حیثیت۔
جب مصائب و آلام سے صرف تو نکالتا ہے تو کوئی اور ”مشکل کشا“ کیوں۔
جب مسائل میں گھرے بندے کے ہاتھ ہی نہیں دل بھی تھامنے والا صرف تو ہے تو کسی دوسرے ”دستگیر“ کی کیا اوقات۔
جب بھنور میں پھنسی کشتی صرف تو نکال سکتا ہے تو بیڑے پار کروانے کا ٹھیکہ کسی غیر کا کب سے۔
جب قانون ساز صرف تیری ذات ہے تو میں کسی جمہوری نظام کے قوانین کو کیوں مانوں۔
جب تیری رہنمائی دین و دنیا دونوں کے لیے ہے تو سیکولرزم میرے جوتے کی نوک پر۔
اور یہ عبادت تو محض ایک علامت ہے میری عاجزی اور عبدیت کی۔ بندگی کا حق تو میں ساری عمر زمین پہ ناک رگڑ کر بھی ادا نہیں کر سکتا۔
اور اے اللہ میں صرف اور صرف تجھ سے ہی مدد مانگتا ہوں۔
جب حاضر و ناظر تیرے سوا کوئی نہیں تو میرا نعرہ بھی ”یا اللہ مدد“ کے سوا کوئی نہیں۔
دنیا میں بھی تیرے سوا کوئی مددگار نہیں کہ تو اکیلا غنی اور باقی سب تیرے محتاج ہیں۔
اور دین میں بھی تیرے سوا کوئی مددگار نہیں کہ ایک تیرا راستہ ہی ہدایت کا راستہ ہے اور باقی سارے راستے گمراہی کے راستے ہیں۔
اور آخرت میں بھی تیرے سوا کوئی مددگار نہیں کہ تیرا ہی اختیار ہے کہ جسے چاہے جنت میں داخل فرمائے اور جسے چاہے جہنم میں پھینک دے۔
تو اے میرے مالک اپنی مدد کو ہر ہر قدم پر میرے شامل حال رکھنا۔
”ایاک نعبد و ایاک نستعین“
اے اللہ میں نے تیری حمد بیان کی، جیسی تو نے سکھائی، تو خوش ہوا۔
(الحمد للہ رب العالمین)
میں نے تیری ثناء بیان کی، جیسی تو نے سکھائی، تو خوش ہوا۔
(الرحمٰن الرحیم)
میں نے تیری عظمت بیان کی، جیسی تو نے سکھائی، تو خوش ہوا۔
(مالک یوم الدین)
میں نے اقرار کیا کہ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کروں گا، نہ کسی سے مدد مانگوں گا،
(ایاک نعبد و ایاک نستعین)
تو اتنا خوش ہوا کہ تو نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے، تجھے دیا جائے گا۔
اے اللہ میں تجھ سے وہی مانگتا ہوں جو تو نے مجھے سکھایا ہے اور جو تیرے علم میں میرے لیے سب سے بڑی دولت ہے:
اے اللہ مجھے ”ہدایت“ کی دولت عطا فرما دے۔
وہ ہدایت جو تیرے دین متین کے صراط مستقیم پر چلاتی ہے۔
وہ ہدایت جو تیرے محبوبﷺ کی سنتیں سکھاتی ہے۔
وہ ہدایت جو کفر و نفاق کی بھول بھلیوں سے بچاتی ہے۔
وہ ہدایت جو قبر میں ساتھ نبھاتی ہے۔
وہ ہدایت جو حشر میں پار لگاتی ہے۔
وہ ہدایت جو پل صراط کی تاریکی میں نور بن جاتی ہے۔
وہ ہدایت جو جنت میں پہنچاتی ہے۔
وہ ہدایت جو سیدھا تجھ تک لے جاتی ہے اور تیرے چہرے کا دیدار کرواتی ہے!
اور پھر اس ہدایت پر مرتے دم تک قائم رکھنا۔
کسی موڑ پہ قدم لڑکھڑا نہ جائیں۔
کسی گھاٹی پر شیطان پھسلا نہ دے۔
کسی لمحے میں ایمان ڈگمگا نہ جائے۔
زندہ رہوں تو اسلام پر،
موت آئے تو ایمان پر۔
”اھدنا الصراط المستقیم“
اے اللہ تیرے کچھ ایسے پراسرار بندے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو تیری محبت اور انعام کا اہل ثابت کیا۔
انہوں نے تیری ذات کو پہچانا جیسا کہ پہچاننے کا حق تھا۔
انہوں نے تیری حمد و ثناء کی جیسا کہ کرنے کا حق تھا۔
یہ وہ بندے ہیں جو روز محشر خوف سے مبرا، عزت والی اونچی مسندوں پر ہوں گے۔
اے اللہ بس انہی نبیین، صدیقین، شہداء و صالحین کے راستے پر مجھے چلا دے جو آخرت میں مجھے ان نفوس قدسیہ کا ساتھی بنا دے اور اسی منزل پر پہچا دے جو ان
جلیل القدر ہستیوں کا ابدی مقام ہے۔
اے اللہ رسول اللہﷺ کی سنتوں پہ چلنے والا بنا دے۔
نوحؑ کی ثابت قدمی،
ابراہیمؑ کی عزیمت،
موسیٰ ؑ کا عزم،
عیسیٰ ؑ کا حلم،
ابوبکرؓ کی قربانی و فقاہت،
عمرؓ کا رعب و جذبہ،
عثمانؓ کی فیاضی و حیا،
اور علیؓ کی فراست و بہادری
میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ نصیب فرما دے۔ (آمین)
(صراط الذین انعمت علیھم)
بچا لے میرے مالک، مجھے بچا لے اس راستے سے جو تیرے غضب کو دعوت دیتا ہو۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے یہود کی طرح نہایت ارزاں قیمت پر تیرے دین کو بیچ ڈالا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے تیرے احکام کو تبدیل کیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے حکمرانوں کی کاسہ لیسی میں ان کی مرضی کے فتوے دیے۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے حلال کو حرام کیا اور حرام کو حلال۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے توحید کو شرک بنایا اور شرک کو توحید۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے وحدت الوجود کو توحید بتایا اور اللہ اور رسول میں فرق کو شرک۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے سود کو حلال کیا اور تجارت پر ٹیکس لگائے۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے زنا کو آسان کیا اور نکاح کو مشکل۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے فحاشی کو ثقافت کہا اور دینی اجتماعات کو شرارت۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے جمہوریت کو شورائیت کہا اور خلافت کو انتہاپسندی۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے سیکولرزم کو آزادی کہا اور بنیاد پرستی کو دہشتگردی۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے جہاد کو فساد کہا اور دراندازی کو حق۔
اور ان لوگوں کے راستے سے بھی جو نصاریٰ کی مانند تیری عبادت میں حد سے گزر گئے اور گمراہ ہو گئے۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے نبی کو اللہ کا بیٹا تو نہ کہا پر اس کا جزو بنا دیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے نبی کے طریقے کو کافی نہ جانا اور بدعت کو بھی حسنہ کہا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے نبی کی شفاعت کو اللہ کی پکڑ پر غالب قرار دیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے اطاعت اولیاء کو پرستش اولیاء بنا دیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے قبروں اور بتوں کے فرق کو مٹا دیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے اللہ کے دیدار اور حدیثوں کے انکار کو ولایت کی معراج قرار دیا۔
ان لوگوں کے راستے سے جنہوں نے فنا فی اللہ اور حلول جیسی خرافات کو سلوک کی منزل قرار دیا۔
پس اے اللہ! ان ساری جہنم کو جاتی پگڈنڈیوں سے بچا لے، کہ جن میں سے ہر ایک کے داخلے پر ایک شیطان بیٹھا لبھا رہا ہے۔ اور ان کی آسائشات کو ہمارے لیے وبال
بنا دے۔
اور بس اس ایک شاہراہ مستقیم پر چلا دے جو تیرے انبیاء کا راستہ ہے، جو سیدھا تیری جنت کو جاتا ہے۔ اور اس راہ کی تمام مشکلات ہم پر آسان فرما دے۔آمین۔
(غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) -
مومن کی آزمائش ہوتی ہے : محمد عمیر اقبال
دنيا ميں کون ايسا انسان ہے جسے تکليف نہ آتی ہو..؟ جسے رنج وغم لاحق نہ ہوتا ہو..؟ جو پریشانیوں اور مصائب میں گھرا ہوا نا ہو..؟
يہ تو دنيا کی ريت ہے، يہاں رہنا ہے تو کبھی خوشی تو کبھی غم، کبھی خوش حالی تو کبھی بدحالی، کبھی سکھ تو کبھی دکھ ۔۔۔ يہ ساری کیفیتیں انسان کے ساتھ لازم ملزوم ہیں-
گو سراپا عيش وعشرت ہے سراب زندگی
اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی
البتہ مومن اور کافر کے کردار ميں يہاں فرق يہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافر رنج وغم کی تاب نہ لاکر ہوش وحواس کھو بيٹھتا ہے، مايوسی کا شکار ہو جاتا ہے، اور کبھی غم کی تاب نہ لاکر خود کشی کرليتا ہے، جبکہ مومن بڑے بڑے مصائب پربھی چيں بجبيں نہيں ہوتا، اور صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالی کی حکمت ومصلحت سے ہوا، اور اللہ تعالی اپنے بندہ کے لئے اچھا ہی کرتا ہے، اس طرح اُسے غم کی چوٹ ميں بھی عجيب لذت محسوس ہوتی ہے۔
صحيح مسلم ميں اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے مومن کی اسی کيفيت کو بيان کيا ہے : “عجبا لأمرالمؤمن إن أمرہ کلہ لہ خير إن أصابتہ سراء شکر فکان خيرا لہ وإن أصابتہ ضراء صبرفکان خيرا لہ”
(مومن کا معاملہ کيا ہی خوب ہے وہ ہرحال ميں خيرہی سميٹتا ہے اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے اور يہ خوشحالی اس کے لئے خير کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر وہ دکھ، بيماری، اور تنگ دستی سے دو چار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے چنانچہ يہ آزمائش اس کے حق ميں خيرثابت ہوتی ہے)
دنيا مسائل ہی کا نام ہے، اس سرائے فانی ميں کون ايسا انسان ہے جو ہميشہ خوش وخرم رہتا ہو، کون سا ايسا گھر ہے جہاں ماتم نہ ہو، مصيبتيں، پريشانياں، آفتيں، آلام و مصائب زندگی کا اٹوٹ حصہ ہيں۔
اگر يہ مصيبتيں کسی فاسق وفاجر پر آتی ہيں تو يہ اس کے کالے کرتوت کا نتيجہ ہوتی ہيں، اور اگر کسی بندہء مومن پر آتی ہيں تو يہ اس کے ايمان کی علامت ہوتی ہے، اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے۔
لہذا ہميں غور کرنا چاہيے کہ اگر ہم پر کسی طرح کی مصيبت آئی ہوئی ہے، ملازمت سے محروم ہيں، يا سالوں سے بيمار ہيں، يا جسم وجان سے مجبور ہيں جبکہ ہمارا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہے تو ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزماکراپنا مقرب بنانا چاہتا ہے۔
ذرا سنيے کچھ بشارتيں زبان نبوت سے آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا : “من يرد اللہ بہ خيرا يصب منہ” (رواہ البخاری)
(اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتار کرديتا ہے)
گويا کہ بندہ مومن کا مصيبت سے دوچار ہونا اس کے لئے نيک فال ہے، حب الہی کی علامت ہے ، سزا يا عذاب نہيں-
آپ صلي الله عليه وسلم نے يہ بھی فرمايا: “إذا أراد اللہ بعبدہ الخير عجل لہ العقوبة فی الدنيا وإذا أراد اللہ بعبدہ الشرأمسک عنہ بذنبہ حتی يوافی بہ يوم القيامة”
(اللہ تعالی جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے گناہوں کی سزا دنيا ميں ہی دے ديتا ہے، اور جب اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تواس کے گناہ کی سزا روک ليتا ہے، اُس کا پورا پورا بدلہ قيامت کے دن دے گا)
اور ايک دوسری روايت ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: “إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وأن اللہ اذا أحب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضاء ومن سخط فلہ السخط” (صحیح الجامع)
(يعنی جتنی بڑی مصيبت ہوگی اُتنا ہی بڑا ثواب ملے گا، اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے مصيبتوں ميں ڈال ديتا ہے۔ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرديا تواس کے لئے رضامندی ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضگی ہے)
ايک مرتبہ حضرت سعد رضي الله عنه نے نبی صلي الله عليه وسلم سے پوچھا: يا رسول اللہ وہ کون لوگ ہيں جن کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے؟ آپ نے جواباً فرمايا: الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل.
*أنبياء کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے-
*پھر مقام ومرتبہ کے اعتبار سے جو جتنا زيادہ نيک اور اچھا ہوگا اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی-
*اگر آدمی کا دين کمزور ہے تواسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی، آدمی کو اس کے دين کے اعتبار سے آزمايا جائے گا، اگر اس کا دين ٹھوس ہے تو اس کی آزمائش سخت ہوگی، اور اگر اس کے دين ميں نرمی ہے تو اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی۔
پھر آپ نے فرمايا: “فما يبرح البلاء علی العبد حتی يترکہ يمشی علی الأرض ما عليہ خطيئة.”(مصيبت آدمی کے ساتھ لگی رہتی ہے يہاں تک کہ وہ زمين پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر گناہ نہيں ہوتا يعنی صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کرديتا ہے)
درج بالا احادیث شریفہ سے یقینا بے شمار کے دلوں کی تسلی ہوئی ہوگی۔ یہاں یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ مصیبت یا آزمائش مانگنے کی چیز نہیں ہے۔ اس دور میں پل پل اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے ایمان کو آزمانے کا سوچنا بھی اپنے آپ میں ایک بڑی حماقت ہے۔ تاہم جو لوگ کسی غم میں مبتلا ہیں ان کے لیے ارشادات بمنزلہء عظیم بشارتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانیت کو ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھے اور مبتلا بہ لوگوں کو جلد از جلد اس سے نجات دے۔ آمین! -
میں نے اس سے مانگا تھا : عشوا رانا
میں نے اس سے مانگا تھا…مجھے امید تھی کہ مجھے ملے گا…پر مجھے نہیں ملا..
میں بہت روئی…بہت شکایتیں کی…پر خالی ہاتھ رہی…
اور پھر میں نے صبر کر لیا…شکر کا کلمہ پڑھنے کی کوشش کی پر ادا نہ ہوا…
مجھے لگا وہ مجھ سے روٹھ گیا ہے..اب میں اسے نظر نہیِ آتی..وہ میری نہیں سنتا..
میں بھی روز زندگی کے دن گزارتی رہی اس سے روٹھ کر … یو نہی ماہ و سال بیت گئے…
اور پھر میرے سامنے وہ چیزیں آئیں جن کی میں نے خواہش کی تھی..
میں نے جو مانگا تھا..وہ اب کسی اور کا تھا ..پر اچھا نہ تھا.
اور مجھے محسوس ہوا کہ میں بہتر حال میں تھی…
میں واقعی بہتر تھی..میں نے کبھی غور نہیں کیا ..
اور تب یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مجھے تو وہ سب ملا جو “میرے لیے “تھا..وہ نہیں جس کے پیچھے میں نے بھاگنا چاہا…
اس نے تب بھی میرا بھلا چاہا جب میں نے اس کے بارے میں برا سوچا..
وہ تب بھی نہیں روٹھا جب میں روٹھی رہی..
مجھے اب بھی رونا آیا…میں بہت روئی پر اب کی بار میں نے اسے منانا چاہا…اسے چاہنا چا ہا…اور اس نے راستہ صاف کر دیا..
اور پتہ ہے وہ اس کون ہے…
مجھے لگتا ہے وہ بس میرا ہے…پر وہ سبکے ساتھ اچھا ہے..سب کا خیال رکھتا ہے..اسکا بھی جو اسکا خیال نہیں کرتے..میرا ” رب” بڑا رحیم ہے
اے ابن آدم
اک تیری چاہت ہے
اک میری چاہت ہے..
اگر تو وہ کرے جو میری چاہت ہے
میں تجھے دوں گا وہ جو تیری چاہت ہے..
پر اگر تو اسکے خلاف ہے جو میری چاہت ہے
تو میں تھکادوں گا اس کے لیے جو تیری چاہت ہے
اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے..(مفہوم) -
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف – ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
اُس بندے کی عظمت، بزرگی اور عند اللہ مقبولیت کا کوئی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے، جس کے اوصاف اللہ تعالی خود بیان کرے_ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درج ذیل اوصاف بیان کیے ہیں:
1_حنیف (یک سو)
“جو ہر ایک سے کٹ کر صرف اللہ کے لیے ہوکر رہے، جسے کوئی چیز حق کو قبول کرنے سے باز نہ رکھ سکے”
(یہ صفت قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے 8 بار آئی ہے)
2_شرک سے بیزار :
‘حنیف’سے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے بار بار ‘مَا کانَ مِنَ المُشرِكِين’ اور ‘لَم یَکُ مِنَ المُشرِكِين’ کے الفاظ آئے ہیں_
3_مسلم:
مسلم کے معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردینے والا_
“اس کے رب نے کہا :”ل مسلم ہوجا“اس نے فوراًکہا :”میں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا”(البقرۃ:131)
4_اوّاہ: (التوبۃ :114 ،ھود :75)
” رقیق القلب، خداترس، نرم دل ”
5_مُنیب: (ھود:75)
“اللہ کی طرف رجوع کرنے والا،اس کی طرف بار بار پلٹنے والا ”
6_حلیم :(التوبۃ:114)
” حلیم وہ شخص ہے جو غیظ و غضب کے موقع پر اپنے اوپر کنٹرول رکھے اور کوئی شخص بد سلوکی کرے تو اس کے جواب میں صبر و تحمّل کا مظاہرہ کرے”
7صدّیق :(مریم :41)
صدیق کا مطلب ہے :
(1)حق کی تصدیق کرنے والا
(2)آزمائشوں میں پورا اترنے والا (3)صداقت شعار اور راست باز_
8_مہمان نواز
(الذاریات:24)
9_اللہ سے برابر دعا کرنے والا (مریم :48، البقرۃ:127_129،ابراہیم :35_41، الشعراء:83_89)
10_عبادت گزار
(الانبیاء:73،ابراہیم :40)
11_والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا (مریم:42_45)
12 بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار کرنے والا (ابراہیم :41، الشعراء:82، الممتحنۃ:4_5)
13_اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر گزار (النحل :121،الشعراء:77_82، العنكبوت :17،ابراہیم :39)
14_صاحب قلبِ سلیم (الصافات:84)
“ایسے دل کا مالک جو تمام اعتقادی و اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو”
15امۃ (النحل؛ 120)
” اپنی ذات میں ایک امت، امام”
16_قانت (النحل :120) “اللہ تعالی کا مطیعِ فرمان”
17_آزمائشوں میں پورا اترنے والا (البقرۃ:124)
18_مھاجر (العنكبوت :26)
” اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا، اس کی رضا کے لیے گھر بار، وطن، رشتے دار سب کو چھوڑ دینے والا”
ان اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالی نے انھیں رہتی دنیا تک کے لیے تمام انسانوں کا امام بنادیا(البقرۃ :124)
یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرکے ہم بھی اللہ کے مقرّب بندے بن سکتے ہیں_ -
کانٹ اور قربانی – ارشد زمان
عمران شاہد بھنڈر فرماتے ہیں کہ:
“عظیم جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ حضرت ابراہیم پر یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ جب یہودیوں کے خدا نے ابراہیم سے کہا کہ میرے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کر دو تو حضرت ابراہیم کو خدا سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ خدا مجھے امتحان میں کیوں ڈال رہے ہو؟ ابراہیم کا اپنے بیٹےاسحاق، اسماعیل کے گلے پر چھرا رکھنے کا عمل کانٹ کے نزدیک انسانوں کے حوالے سے ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔ ابراہیم نے خدا کی جانب تو اپنی ذمہ داری پوری کر لی تھی مگر خدا سے سوال نہ کرکے نوع انسانی کی جانب اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا تھا۔ دریدا نے اپنی کتاب “دی گفٹ آف ڈیتھ” میں کانٹ کے اس نکتے کو ازسر نو اٹھایا ہے۔ دریدا کی دلیل یہ ہے کہ ایک کی جانب ذمہ داری کی تکمیل دوسرے کی جانب غیر ذمہ داری کی شرط پر ہی ممکن ہے۔ یا تو آپ خدا رکھ لیں یا انسان”!
کانٹ بیچارا فلسفی ہے اور وہ بھی عقل کا غلام، جو ہمیشہ ظاہر کے اگے سجدہ ریز ہوتا ہے۔
عقل ہمیشہ ظاہر کو دیکھتا ہے جبکہ عشق باطن کا ادراک رکھتا ہے اس لئے جن لوگوں نے عقل کے چشموں سے حقائق کو دیکھنے کی کوشش کی ہے وہ ہمیشہ سراب کے پیچھے پیچھے ہی چل کر تھک ہار کر بیٹھ گئے ہے یا اپنے پیروکاروں کو اندھیروں میں بھگاکر نامعلوم منزل کو پانے کی سعی ناتمام سے دوچار کرایا ہے۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کو عشق کے آئینے میں دیکھ کر ہی رب کی معرفت،عظمت اور اطاعت کی سمجھ آسکتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا سفر عشق و محبت سے عبارت ہے اور خلیل اللہ کا جو لقب ملا ہے اسی عشق کا معراج ہے __ورنہ عقل کے تقاضے تو کچھ اور ہوا کرتے ہیں ___
تازہ میرے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
*باب دادا اور پورے معاشرے کے رسم و رواج اور خداووں سے بغاوت اور بتوں تک توڑنا اور ہجرت کرنا___یہ عقل کا پیمانہ نہیں ___!
*بڑھاپے میں عطا کردہ قابل قدر نعمت ،پیارا لخت جگر اور محبوب بیوی کو لق دق صحرا میں چھوڑنا __ عقل کے نزدیک قابل شک عمل ہے!
جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹا کر اس کے گردن پہ چھری پیرنا اور ذبح کرناعقل کے مطابق قابل تنقید ہے
*گوشت، پوست کے بنے ہوئے زندہ انسان کا آتش نمرود میں کودنا ___ماورائے عقل ہے__
عقل علم دیتا ہے، راستہ دکھاتا ہے اور منزل کے قریب بھی کرتا ہے لیکن منزل طے نہیں کراسکتا !
گزر جا عقل سے آگے ورنہ
چراغ راہ ہے منزل نہیں!
عقل ہمیشہ اسباب اور نتائج کے بھول، بهلیوں میں گم ہو کر تنقید پہ آمادہ ہوتا ہے اور شکوک پیدا کرتا ہے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ
لیکن عشق ظاہر کو نہیں باطن کو دیکهتا ہے اور انسان کو قربانی پہ آمادہ کر دے دیتا ہے __”زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بے غیر تار رفو سی سکتا ہے ”
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تار رفو
عشق سوچتا بھی ہے، غور و فکر بھی کرتا ہے لیکن محض تصورات، خیالات اور خدشات کا اسیر بننا گوارا نہیں کرتا اسی لیے تو بے کراں فاصلوں کو ایک ہی جست میں طے کرنےکی طاقت رکھتی ہے
عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام!
عشق نتائج، عواقب سے بے پرواہ ہو کر محبوب کی رضا میں فنا ہو کر امر ہوا چاہتا ہے
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی !
بس خلاصہ یہ ہے کہ اگر زندگی محض عقل کے سہارے جینا ہے تو حقیقت کو پانا مشکل ہی ناممکنات میں سے ہوگاکیونکہ عقل تصورات کا بت کدہ تو بناسکتی ہے لیکن زندگی کی صحیح رہبری و راہ نمائی سے قاصر ہے__
اس لئے حقیقت کو پانے کے لئے اور دراصل محبوب تک پہنچنے کا راستہ ___عشق کا راستہ ہے
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بت کدہ تصورات!
عشق و محبت کے راستے چل کر انسان __خلیل اللہ کے معراج کو پا لیتا ہے!
خرد کی گھتیاں سلجھا چکا ہوں میں
میرے مولا مجھے صاحب جنون کر دے -
کیا کافر نیک اعمال کرکے بھی جہنم کے حقدار ہیں؟… قاضی محمد حارث
کیا کافر نیک اعمال کرکے بھی جہنم کے حقدار ہیں؟ … از قاضی حارث
……
سوال کیا: “کفار نیک اعمال کرکے بھی جہنم میں کیوں جائینگے؟؟
کفار نے انسانوں کیلیئے اتنی ایجادات کی ہیں کیا آخرت میں انکو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا؟
جواب: پہلے چند باتوں کو سمجھئے پھر جواب کی طرف آجائینگے۔.
پہلی بات: خلود الگ شے ہے دخول الگ شے ہے. دخول مطلب داخل ہونا اور خلود مطلب ہمیشہ رہنا۔
دوسری بات: ایمان پر موت سے خلود فی النار ممکن نہیں رہتا لیکن دخول ممکن ہوتا ہے۔.
تیسری بات: کفر پر موت (معاذ اللہ) سے دخول کے ساتھ ساتھ خلود لازم ہوجاتا ہے.
چوتھی بات: معلوم ہوا کہ صرف ایمان لانے سے عذاب سے بچا نہیں جاسکتا اگر اعمال خراب ہوں تب بھی عذاب سے گزرا جاسکتا ہے.
پانچوی بات: کفر پر عذاب الگ ہے اور اعمال شنیعہ پر عذاب الگ.
اب جواب سمجھیئے:
دیکھیئے! مسلمان اگر برے اعمال کرے تو برے اعمال کی سزا بھگت کر جنت میں چلا جائے گا یعنی دخول تو ہوسکتا ہے لیکن خلود نہ ہوگا۔
کافر اگر غلط اعمال نہ کرے تو جہنم میں کفر کا عذاب تو اس کو دیا جائے گا لیکن غلط اعمال کا نہ دیا جائے گا۔
بلکہ اگر اچھے اعمال کرے تو بھی جنت میں اس وجہ سے نہ جا پائے گا کیونکہ جنت کی چابی یعنی ایمان نہیں تھا۔ یہی قران کی آیۃ
“لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم”
کا مفھوم ہے کہ کافروں کو انکے مال اور اولاد کام نہ آئینگے۔
البتہ اگر کافر اچھے اعمال کرے تو عین ممکن ہے کہ کسی قدر عذاب میں تخفیف کردی جائے، اب دیکھا جائے گا کہ ایجادات اپنی آسانی یا معاش کیلیئے کی تھیں یا واقعی انسانیت کی خدمت کیلیئے کی تھیں؟ بالفرض اگر انسانیت کی خدمت کیلیئے کی تھیں تو عذاب میں کمی ممکن ہے لیکن اللہ کی مرضی سے مشروط ہے جیسا کہ احادیث میں آپ علیہ السلام کے چچا ابو طالب کے بارے میں آیا کہ حضور علیہ السلام کی مدد کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی اور آگ کا ایک جوتا پہنایا جائے گا۔
الغرض ایمان جنت کی چابی ہے۔ یہ ہوگا تو جنت میں دخول ممکن ہے ورنہ نہیں، اب چاہے عذاب کم ہو یا زیادہ!!!