Blog

  • عبدالستار ایدھی مرحوم کے جنازہ پر چند خاموش پیغامات  –  ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عبدالستار ایدھی مرحوم کے جنازہ پر چند خاموش پیغامات – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    1- فوج : یہ ہم پر الزام ہے کہ ہم سویلین شخصیات سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ غلط، بالکل غلط۔

    بندہ ”جینوئن“ ہونا چاہیے۔ ہم اکرام اور احترام کی آخری حد کو بھی ارزاں کر دکھائیں گے۔

    2- سیاستدان و حکمران: بھئی جو ہمارے راستے کی دیوار نہ بنے اور ہمارے کرنے کے کام بھی اپنے سر لے لے اس کے لیے ہماری طرف سے بھی ٹرپل آفر…. اس کی زندگی میں بھرپور طور سے زبانی جمع خرچ، بیماری پر ہسپتال کا دورہ بمعہ سیلفی اور مرنے پر جنازے میں خود یا بذریعہ نمایندہ شرکت … مزید زبانی جمع خرچ اس کے علاوہ !

    3- عوام: جو ہمارے لیے سچے دل سے کچھ کرے گا اس کے لیے ہمیں پیدل، بسوں پر، موٹر سائیکل، گدھا گاڑی… غرضیکہ جیسے بھی آنا پڑا ہم پہنچیں گے… جامہ تلاشی کروائیں گے، گھنٹوں قطار میں لگے رہیں گے، گرمی سے پسینے میں شرابور ہوجائیں گے، لیکن دعا کے لیے ضرور پہنچیں گے… اور یاد رہے … برکت اور نفری ہماری موجودگی سے ہی ہوتی ہے … !!!

    ہمارا مشورہ برائے اول و دوم ….

    بھائی… پوائنٹ سکورنگ وغیرہ کی گیم سے نکل کر اپنے اپنے کام کی طرف یکسو ہوں …. بے فکر رہیں .. قوم سب دیکھ رہی ہے. اس پر اعتماد کریں. جو ان کے لیے صدق دل سے کچھ کرے گا اسے وہ خالی ہاتھ کبھی نہیں جانے دیں گے۔ سچ مچ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایدھی صاحب کے حوالے سے بعض لوگوں نے منفی انداز میں پوسٹیں کی ہیں، ہماری معروضات سادہ سی ہیں :

    جناب اگر میں بھی جنت مل جانے کی امید لگائے بیٹھا ہوں اور اپنی حرکتوں میں کوئی تبدیلی لائے بغیر اللہ تعالیٰ کے غفور اور رحیم ہونے پر سارا تکیہ کیے ہوئے ہوں تو ایدھی صاحب کے لیے خدا کو جبار اور قہار کیسے بنادوں؟؟؟

    یوں بھی، بچپن سے سنتے آئے کہ ایک مسافر نے پیاسے کتے کو کنویں سے پانی پلایا اور بخشا گیا، یا کسی بدکردار خاتون نے بلی کو بھوکوں مرنے سے بچایا تو اس کی مغفرت کا سامان ہو گیا … ایسے میں ایدھی صاحب محض اس وجہ سے ڈس کوالیفائی ہو جائیں کہ وہ انسانوں کے لیے کام کرتے رہے…. دل نہیں مانتا !

    چلیں ہمیں تو کسی نے ٹھیکہ نہیں دیا، نہ منکر نکیر کی آسامیوں کے لیے درخواستیں مانگی ہیں جو ہم اپلائی کر کے دو دو ہاتھ کر لیں. معاملہ اللہ کا، سوال جواب کرنے والے منکر نکیر…. ہمارے ذمہ کیا ہے …. ؟ چپ رہیں یا دعا کر دیں. دونوں کام بیک وقت بھی ہو سکتے ہیں ……

    جو نہیں دیکھا اس پر رائے زنی سے کہیں بہتر ہے چپ رہیں، اور جو دیکھا ہے اس کی بنیاد پر دعا کر دیں. باقی اللہ تعالٰی جانیں اور ان کا کام. کم از کم گواہی چھپانے کے مجرم تو نہیں ٹھہریں گے ہم.

    دعا سے گھبرائیں مت، یہی سوچ لیں کہ …. ہمارے لیے بھی تو لوگ ہاتھ اٹھا ہی لیں گے نا… ہمارا ظاہر اچھی طرح جاننے کے باوجود …. !!!

  • پیارے وانی  –  زبیر منصوری

    پیارے وانی – زبیر منصوری

    13495272_10209334159298801_2216135318695331631_nپیارے وانی کا روشن چہرہ دیکھتا ہوں بے اختیار ہاتھ کی بورڈ کی طرف بڑھتے ہیں چند شکستہ سے لفظ گھسیٹ پاتا ہوں کہ ہمت جواب دے جاتی ہے ۔۔۔چھوڑ دیتا ہوں ،آگے بڑھ جاتا ہوں۔

    کیا لکھوں ؟
    آخر کیا لکھوں ؟

    اپنے پیارے شہیدوں، ایسے کڑیل جوانوں کے تذکرے لکھوں جو پے در پے جان نچھاور کیے چلے جارہے ہیں اپنے گرم توانا خون سے وادی کو سیراب کررہے ہیں اور برسوں سے کسی صلے اور ستائش کے بغیر اپنے پیر گیلانی اور صلاح الدین کی قسم پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں، اب تو تیسری اور چوتھی نسل اپنی گردنیں لے کر حاضر ہو رہی ہے سوئے مقتل سفر کررہی ہیں۔

    میں ان شیروں اور شیر دلوں کا ذکر کروں یا پھر بھارت کی ہٹ دھرمی پر قلم اٹھاوں، اس کے ظلم کا پردہ چاک کروں، اس کی سفاکیت کو برہنہ کرکے عالمی ضمیر (اگر اس نام کی کوئی شئے ہے تو) کو جھنجھوڑ نے کی کوشش کروں؟

    میں کیا لکھوں ؟

    ان پاکستانی مقتدر قوتوں کا نوحہ لکھوں جو پچھلی دہائیوں سے میرے پیارے برہانوں کو بھارتی نیزوں کی انیوں پر پروتا دیکھ رہے ہیں، مگر ان کی نظر میں کشمیر بس سلگتا رہنا ان کے مفاد میں ہے، اس لیے وہ ”سستی لیبر“سمجھ کر میرے مجاہدوں کو استعمال کررہے ہیں۔ یہ کشمیر کو بس پانی کا ذریعہ دیکھتے ہیں یا اپنے بھوجن کا مسلسل بندوبست اور بس۔۔۔

    میں پاکستان کے بےحمیت حکمرانوں کو برا بھلا کہوں جن کے لیے میرا کشمیر بس ۵ فروری کی ایک کسک بن کر رہ گیا ہے۔
    اور وہ بھی وہ ”مصیبت“ جو مجاہد قاضی ان کے گلے میں ڈال گیا تھا۔

    کوئی بتائو میں کیا لکھوں؟ میں کن بے حسوں کا ذکر کروں؟ ان کا جن کے لیے جہادِ کشمیر اب آزاد کشمیر کے الیکشن جیتنے کے لیے ترپ کا پتا بھی نہیں رہا؟؟

    میرے کشمیریوں یہاں کوئی تمہارا مخلص نہیں ،میری قوم تمہیں فراموش کرچکی ہے۔ ہمارا میڈیا ہمارا نہیں بلکہ یہ دشمن کا واچ ڈاگ بن چکا ہے۔

    اور میں تم سے شرمندہ ہوں۔۔۔
    اب تو فراق صبح میں بجھنے لگی حیات
    بارِ الہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات
    ہر تیرگی میں توں نے اتاری ہے روشنی
    اب خود اتر کے آ کہ سیاہ تر ہے کائنات

  • مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اس کا حل  –  عاطف الیاس

    مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور اس کا حل – عاطف الیاس

    انسانی معاشروں میں پیدا ہونے والے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے، گہری اور روشن فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سطحی انداز میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو امکان ہے کہ بہت جلد وہ مسئلہ کسی اور نئی صورت میں سراُٹھائے گایا جزوی نتائج دینے کے باوجود کُلی حل سے کوسوں دور رہے گا۔

    آج کی مسلم دنیا بھی بے پناہ مسائل اور انتشار کا شکار ہے۔ دو ارب آبادی والی امت جو وسائل سے مالا مال ہے، آج دنیا میں ذلیل اور رسوا ہے۔ مسلم معاشروں میں جابجا بے چینی، بے سکونی، نفرت کے بلیک ہولز وجود میں آرہے ہیں۔ ان میں سرفہرست مسئلہ انتہا پسندی کا ہے۔ عسکریت پسند اور دہشت گرد گروہوں کو ملنے والی توانائی کا بڑا ذریعہ مسلم نوجوان ہیں جو اس انتشار کے دور میں ان کے لیے آسان ہدف ثابت ہورہے ہیں۔

    آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سردست جو کوششیں کی جارہی ہیں، وہ سطحی فکر کانتیجہ ہیں۔ مثلاً عسکری قوت کے ذریعے ان گروہوں کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ اصل محرکات اپنی جگہ موجود ہیں۔ دوسری طرف داعش جیسے گروہ اسلامی ریاست اور جہاد کی غلط تشریح کو گلیمرائز کرکے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ ضرورت اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ایک گہری اور روشن فکر کی ہے تاکہ مسلم دنیا اس انتشار سے نکل سکے جو آستین کے سانپ اور دیمک کی طرح اسے اندر ہی اندر سے کمزور کررہا ہے۔

    اس تحریر میں یہی کوشش کی گئی ہے کہ حتی الامکان ان محرکات، مضمرات اور نتائج کو سامنے رکھا جائے جو اس مسئلے کے ساتھ حقیقی طور پر جڑے ہوئے ہیں ناکہ وہ جو میڈیا پر ریاستی پالیسی کے طور پر بیان کیے جاتے ہیں تاکہ مسلم امہ مناسب تشخیص کے بعد مناسب حل کی طرف بڑھ سکے۔

    1) سب سے پہلا مرحلہ تو اس مسئلے کی بنیادی تفہیم کا ہے۔ وہ یہ کہ مسلم امہ کی عمارت مغربی وطنیت کے طرز پر استوار نہیں۔ آپ لاکھ سکائی-پیکوٹ معاہدوں(Ski-Picot Agreement) کے ذریعے اس امت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر علیحدہ علیحدہ ترانوں، پرچموں اور قوموں میں تقسیم کردیں، یہ امت پھر بھی ان سے ماورا، اپنے ایک الگ ملی وجود کو برقرار رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ امت ہر افغانی، کشمیری، فلسطینی، چینی، چیچن، برمی، شامی، عراقی کا دکھ کو اپنا دکھ محسوس کرتی ہے۔ ایک جسم کی مانند جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو دوسرا حصہ اس تکلیف کو محسوس کرے ۔اس لیے محض ایک نعرے ” سب سے پہلے پاکستان“ یا سنی شیعہ کی تقسیم یا شامی عراقی کی پہچان عطا کردینے سے یہ امت ایک دوسرے سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ اس لیے سب سے پہلے تو مغربی اور مشرقی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسلم امہ ایک مستقل الگ وجود ہے۔ جس کی اپنی ایک مستقل حیثیت ہے اور اس حیثیت کو محض چند نعروں، واقعات یا سرحدوں کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا ۔

    2) اس مسئلے کے حوالے سے دوسرا اہم محرک استعماری طاقتوں کی مسلم دنیا پر جارحیت ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق اور شام ان استعماری طاقتوں کے غاصب پنجوں میں لہولہان ہیں اور سسک رہے ہیں۔ اپنے قومی، معاشی اور اسٹریٹیجک اہداف کے لیے ان استعماری طاقتوں نے لاکھوں لوگوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھادیا۔ ایک انسانی المیے کو جنم دیا جو آج بھی جاری ہے۔ موت، بے گھری، بھوک، معذوری اور خوف تحفے میں دیے ۔

    اب اس جارحیت کے جواب میں ایک عام آدمی لامحالہ اپنے حکمرانوں اور افواج کی طرف دیکھتا ہے کہ یہ ان کا کام ہے۔ساٹھ لاکھ سے زیادہ مسلم افواج، میزائل اور نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی حامل، دنیا کی بہترین افواج میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔یہ ان کا کام ہے کہ وہ مظلوم اور بے بس مسلمانوں کی سیاسی، فکری، اخلاقی اور فوجی امداد کریں تاکہ وہ بے فکر ہوکر اپنی زندگی گزار سکیں اور کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے۔

    لیکن اب ہویہ رہا ہے کہ یہ سیاسی اور فوجی حکمران اس مسئلے کے بنیادی فہم سے عاری ہوکر یا تو خود کو علیحدہ رکھے ہوئے ہیں یا استعماری طاقتوں کے دستِ راست بن کر انھیں مادی مدد مہیا کررہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان مظلوم مسلمانوں کو خوراک، کپڑے اور اشیائے ضرورت مہیا کرکے خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عسکریت پسند گروہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاد کا علم بلند ہوتا ہے، عام آدمی اس میں کشش محسوس کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق عقیدے سے ہے۔ لیکن وہ اس فکری یا سیاسی شعور سے نابلد ہے جو ترجیحات یا فرائض کا تعین کرتا ہے کہ کون سا کام کس کی ذمہ داری ہے؟

    اگرچہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا، انفرادی یا دفاعی جہاد ہی کی ایک نوعیت ہے جس کے لیے ایک فرد خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتا ہے۔ اگرچہ یہ کام باعث ِ اجر ہےلیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایسی جماعتیں یا گروہوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، اگر ایک ایسی ریاست موجود ہو جو اسلام کے نام پر ان کی مدد کرنے کے لیے موجود ہو۔ ظالم کا ہاتھ روکنے اور اس کی سرکوبی کے لیے تیار ہو۔ جو اپنے ریاستی وجود کے ذریعے دنیا بھرمیں ہر جگہ مظلوم مسلمانوں کو اخلاقی، سیاسی اور فوجی مدد دینے کے لیے ہردم تیار ہو ۔تویقین کیجیے کہ دنیامیں کہیں بھی جہادی گروہ ، انفرادی یادفاعی جہاد کی اصطلاح سننے میں نہیں ملے گی ۔

    پھر مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب انھیں میں سے کچھ گروہ ناقص شرعی آرا(یعنی جو شرعی آرا وہ بیان کرتے ہیں وہ ناقص اور غلط انداز میں اخذ کی گئی ہوتی ہیں) کی بنیاد پر اپنی عسکریت کا ہدف عام لوگوں(خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) ، مسلم افواج اور ریاستی اداروں کو بنا لیتے ہیں۔بقول ان کے یہ لوگ بھی ظالم کا ساتھ دینے کی وجہ سے قابلِ ہدف ہیں۔ یہ نسخہ بکنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سےکم علم، بے عمل اور گمراہ لوگ ان کی من گھڑت تاویلات کا شکار ہو کر معاشرہ میں فساد برپا کردیتے ہیں۔

    انتہا پسندی یا عسکریت کے اس پہلو کو کس طرح باآسانی شکست دی جاسکتی ہے اگر مسلم ممالک ، ان کے سیاسی اور فوجی حکمران متحد ہوکر یا بطور ایک ریاست کے دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوں ۔ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے تیار ہوں ۔ تو یقین کیجیے کہ عسکریت کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہے گا کیونکہ ہر شے اپنے جواز پر قائم ہے۔ اور عدم جواز سے وہ شے معدوم ہوجاتی ہے۔

    3) تیسرا اہم مسئلہ مسلم ممالک کے وسائل پر قابض استعماری طاقتیں ہیں جو مسلم دنیا میں انتہا پسندی کو جنم دے رہی ہیں۔ خواہ یہ قبضہ آئی ایم ایف کی صورت میں معاشی غلبہ ہو، خواہ براہ راست جارحیت کے نتیجے میں تیل ، گیس اور دوسرے قدرتی وسائل پر حق جمانا ہو، خواہ سرمایہ دارانہ نظام کی غارت گری کی صورت میں ہو۔ یہ تمام چیزیں مل کر مسلم دنیا میں بے چینی اوراضطراب کو جنم دے رہی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مسلم دنیا کو اس معاشی جبر سے نکالنے والی وہ ریاستی قوت درکار ہے، جو ایک آزاد ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکے اور اپنے شہریوں کو معاشی انصاف مہیا کرسکے۔

    4) امریکی تھنک ٹینک پیو(PEW) کے مطابق پاکستان کی 98 فیصد آبادی شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے، یہی حال باقی مسلم دنیا کا ہے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ باقی 2 فیصد اقلیتی لبرل اور سیکولر طبقہ، استعماری طاقتوں اور ریاست کی آشیر باد سے 98 فیصداکثریت کے سروں پر مسلط ہے۔ اور اپنے لبرل اور سیکولر تصورات میڈیا، تعلیم اورریاستی اداروں کی ذریعے جبراً لوگوں پر تھوپ رہا ہے۔ رینڈ اے کارپوریشن کی شایع کردہ رپورٹ ”سول ڈیموکریٹک اسلام (Civil Democratic Islam) میں اسی 2 فیصد طبقے کی مالی ،ا خلاقی اور مادی امداد کرنے کی تجاویز موجود ہیں جس پر مسلم حکمران دل و جان سے کاربند ہیں۔ اور یہ محرک مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی تفریق کا ایک اہم عنصر ہے۔

    اس مسئلے کے حل کے لیے ریاستی سطح پر عوام کی خواہشات کا انعکاس بے حد ضروری ہے تاکہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنی اجتماعی زندگیوں کو ڈھال سکیں۔ لوگ اسلام چاہتے ہیں۔ وہ ایسا معاشرہ چاہتے ہیں ،جہاں اسلام کی متعین کردہ معاشرتی حدود کے مطابق زندگی گزاری جاسکے، جہاں ریاست، تعلیم اور میڈیا اسلامی تصورات کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہوں۔ اب اگر ہم ریاستی سطح پر عوام کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانےمیں ناکام رہتے ہیں تو یہ تفریق بڑھتی رہے گی جو مسلم دنیا میں بے چینی، اضطراب اور ردعمل کا اہم محرک ہے۔

    تو یہ وہ اسباب ہیں جو مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی بےچینی کے اہم محرکات ہیں۔ اور جن کا سدباب کیے بغیر مسلم معاشروں کو یکسو ہونا ، ناممکن ہے۔ ایسی یکسوئی کہ جس کے بعد معاشرہ مادی ، اخلاقی اور روحانی طور پر بلند ہوسکے۔ اگر یہ محرکات موجود رہتے ہیں تو مسلم دنیا میں پھیلتے ہوئے بھنور اور بلیک ہولز بہت جلد مسلم معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔

    اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں اپنے فکری اور سیاسی شعور کا بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ فکری ،دین کے فہم کی بنیاد پر اور سیاسی، ریاست اور فرد کے فرائض کے حوالے سے۔ہمیں اس شعور کو ایک ایسی مثالی ریاست کی صورت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے، جہاں فرد اور ریاست اپنے اپنےفرائض اور دائرہ کار سے بخوبی آگاہ ہوں۔ایسی ریاست ہو، جو فرد کی محافظ اور ڈھال ہو اور فرد معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا کردار۔ بلاشبہ یہ ایک کٹھن کام ہے ۔ لیکن ہمیں اپنے نوجوانوں کو عسکریت سے بچانے کے لیے انھیں ایک مثالی ریاست کی تشکیل و تعمیر کا مقصد دینا ہوگا ورنہ وہ بے سمت بھٹکتے رہیں گے۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی ہے، جس نے منتشر انسانی تاریخ کا رخ ایک اعلی اور افع معاشرے کی طرف موڑ دیا تھا۔

    کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
    وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
    تجھےاس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں!
    کچل ڈالا تھا جس نے پاوُں میں تاج ِسردارا

  • ہٹلر استاد کی فون کال…!!!  –  مجذوب مسافر

    ہٹلر استاد کی فون کال…!!! – مجذوب مسافر

    1483761_10202850021597637_480194935_oمیں نے فیس بک کی تاریخ کے سب سے عظیم لکھاری کی پوسٹ پڑھی جس میں موصوف نے معروف دہشت گرد تنظیم ‘داعش’ کی دہشت گردی کا سرا امام ابن تیمیہؒ کے ایک فتویٰ سے جوڑا تھا… مجھے تجسس ہوا تو تاریخ کے اوراق پھرولنے لگ گیا تاکہ دیکھوں تو سہی کہ ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچے… اس سلسلے میں ابن تیمیہ کے فتویٰ کا پہلا متاثر قابیل نکلا جس نے یہ فتویٰ پڑھتے ہی نہ چاہتے ہوئے بھی ہابیل کو قتل کردیا تھا… پھر دور حاضر کے دو عظیم ترین انسان دوست اور امن پسند عالمی رہنماؤں یعنی ٹونی بلیئر اور جارج بش کا پتا چلا کہ ان دونوں پر اس فتوے نے ایسا سخت اثر کیا کہ اپنے ممالک کی معیشتوں کو داؤ پر لگا کر انہوں نے پہلے افغانستان اور پھر عراق میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھات اتار دیا… ایک اور نام بھی اس تاریخی فہرست میں موجود تھا اور وہ ہیں اپنے پیارے سے معصوم الطاف بھائی جو کہ اخوت و محبت کے پیکر ہیں… یہ بھی اسی مذکورہ فتویٰ سے متاثر ہو کر انسانوں کے جسم کو ڈرل اور ہتھوڑی سے ٹھونک بجا کر ان کی بوریوں میں پیکنگ کرنے لگے… میں اس تاریخی ریکارڈ سے انتہائی متاثر ہوا اور اپنی فیس بک وال پر ان لوگوں کی تعریف میں تین پوسٹس کر دیں…

    میرا خیال تھا کہ…

    اب چونکہ مجھے ابن تیمیہ کے فتویٰ کے اثرات اچھی طرح معلوم ہو گئے تھے لہذا اب اس سلسلے کو روک دیا جائے اور کچھ ذاتی دلچسپی کے امور بھی نمٹا دئیے جائیں لیکن… لیکن برا ہو اس موبائل کا کہ اس نے ایک تسلسل کے ساتھ ڈسٹرب کرنا شروع کر دیا… کال در کال اور میسج کے بعد میسج… اب کوئی کال اٹینڈ کئیے بغیر یا میسج پڑھے بغیر چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کہ عید کا موقع ہے اور کسی رشتہ دار’ سنگی یار یا کسی اور جاننے والے کی طرف سے عید مبارک ہی مس نہ ہو جائے… لیکن یقین مانیں ان میں سے کوئی بھی عید مبارک والی کال یا میسج نہیں تھا بلکہ یہ قابیل’ ٹونی بلیئر’ بش اور بھائی کے شکرئیے کے فون اور پھر ان کے علاوھ پوری انسانی تاریخ کے ان افراد اور اقوام کی کالز اور میسیجز تھے جو انسانی بستیاں اجاڑنے اور انسانوں کا خوں بہانے کے لئے معروف ہیں… ہر ایک کا ایک ہی گلہ رہا کہ ان کے نام کی پوسٹ کیوں نہیں کی؟؟؟ میں مصروفیت وغیرہ کے بہانے بناتے اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے ان کا خیال بٹانے کی پوری کوشش کرتا رہا لیکن اس کوشش میں بری ناکامی ہوئی… گھوم پھر کر سب کا ایک ہی سوال یا گلہ تھا کہ:

    ہمارے بارے میں کب پوسٹ کر رہے ہو؟؟؟

    ان سب میں سے جس بندے نے میرے پسینے نکال دئیے’ وہ تھا اپنا ہٹلر استاد جس نے عالم ارواح سے گرجدار آواز میں کہا کہ:

    ‘فیو ہرر’ کے بارے میں لوگوں کو نہ بتایا تو تیری خیر نہیں…

    یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی… میں نے لرکھراتے جسم کے ساتھ فورا کپکپاتا ہاتھ اٹھایا اور ‘نازی سلیوٹ’ مارا جبکہ کانپتی آواز میں نعرہ لگایا ‘فیوھرر’… ایسا کرتے ہوئے میرے دوسرے ہاتھ سے فون گرتے گرتے بچا تھا…

    تو سنگیو تے یارو…!!!

    سب سے پہلے آپ دوست جان لیں کہ ہٹلر وہ عظیم انسان تھا جس نے ابن تیمیہ کے فتویٰ سے متاثر ہو کر دوسری جنگ عظیم شروع کی تھی جس میں کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے… آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ گواہ رہیں میں نے آپ تک محترم ‘فیوھرر’ کے بارے میں معلومات پہنچا دی ہیں…

    اس کے علاوہ…

    دیگر کئی ہستیوں اور قوموں کا ذکر بھی ضروری ہو گیا ہے… کیونکہ جس کسی کا تعارف رہ گیا اس نے پھر فون کھڑکا دینا ہے… ان میں لاکھوں ہندستانیوں کا قاتل اشوکا’ سپارٹا پر حملے کرنے والے فارسی’ مسلمانوں کے سروں سے مینار بنانے والے چنگیز اور ہلاکو’ بیت المقدس میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے رچرڈ شیر دل اور دیگر صلیبی جنگجو’ اسپین میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے اور پھر انہیں زبردستی عیسائی بنانے والا فر ڈی ننڈ’ نو کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کرنے والے یورپی عیسائی’ جنوبی امریکا کے قدیم باشندوں کا قتل عام کرنے اور بچ جانے والے پرتگیزی اور ہسپانوی حملہ آور’ برصغیر پر قبضے کے بعد ہندستانیوں کو توپ کے آگے باندھ کر اڑانے والے انگریز’ ایک دن میں دس ہزار الجزائری مسلمانوں کو بھوننے والا’ مراکو کے مسلمانوں کے سروں کو چوراہوں میں ٹانگنے والا اور مغربی و وسطی افریقہ کو مکمل غلامی میں لینے والا فرانس اور بیلجیم’ فلپین کی مسلم آبادی کو زبردستی عیسائی بنانے والے ہسپانوی’ اَسٹرالیہ اور نیوزیلنڈ میں ظلم کے پہاڑ توڑنے والے یورپی عیسائی’ فلسطینی مسلمانوں کی سرزمین پر قابض خازار نسل کے یہودی’ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی تیرہ مسلم ریاستوں کو تہس نہس کرنے والا روس’ چین کے پرانے دارلحکومت نانجنگ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ہفتے کے دوران تین لاکھ چینیوں کو قتل کرنے والا جاپان… اور ہاں!!! ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے والا امریکا…

    یہ سارے کے سارے ابن تیمیہ کے فتویٰ سے ہی متاثر تھے…

    اور ان میں سے کسی کے پیش نظر ہوس ملک گیری’ دوسرے ملکوں کے باشندوں کو غلام بنانا’ دوسروں کو زبردستی اپنے مذھب میں داخل کرنا’ دوسری قوموں کے معدنی وسائل و تجارتی منڈیوں پر قبضہ جیسے کوئی مقاصد ہر گز ہرگز نہیں تھے…

    اور اگر آپ کو میری بات پر شک ہے تو…

    تو پھر فیس بک کے اس عظیم مفسر’محدث’ فقیہ’ تاریخ دان’ فلسفی’ ماہر علم الکلام وغیرہ وغیرہ وغیرہ سے رابطہ کر کے تصدیق کر لیں جس نے ابن تیمیہ کے فتویٰ پر پوسٹ لکھی تھی… شکریہ-

  • اس کے بعد آئے جو انقلاب آئے  –  عمار مسعود

    اس کے بعد آئے جو انقلاب آئے – عمار مسعود

    tR3X0qoQحضرت قبلہ ڈاکٹرطاہر القادری وہ مرد بحران ہیں جو اکثر بقلم خود ہی بحران کے ذمہ وارقرار پائے جاتے ہیں۔ ہر آنے والے سال کے ساتھ ان کے جوشیلے، جذباتی اور جنونی انقلاب کی مدت قیام کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ پہلے یہ انقلاب ہمیشہ کے لیے آنا تھا، دائمی ہونا تھا۔ پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر انقلاب نے چند مہینے ہی قیام پر اکتفا کیا۔ انقلاب کا دوسرا حملہ بھی تاریخ میں چند ماہ سے زیادہ جگہ نہ بناسکا۔ اور اس دفعہ تو انقلاب کا سورج صرف ایک سہ پہر کو نکلا اور سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب بھی ڈوب گیا۔ کچھ بعید نہیں کہ اگلا انقلاب چند منٹوں کا ہو یا پھر ممکن ہے کہ داعی انقلاب کینیڈین ائر لائن کی پرواز سے اپنے مریدین کا فضائی دورہ کریں، جہاز کی کھڑکی سے سینہ بکف ہوکر ایک ولولہ انگیز خطاب فرمائیں۔ انقلاب کی راہ میں مرجانے والوں کی قربانی پر داد و تحسین کے ڈونگرے بجائیں، انہیں شہادت کی بشارت سنائیں اور مبارک ہو مسلمانو! مبارک ہومسلمانو! کی گردان کرتے اپنے آبائی گاوں کینیڈا کی جانب عازم سفر ہوجائیں۔

    میں ذاتی طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کا بہت معتقد ہوں۔ کوشش کرتا ہوں ان کے ہر ٹی وی انٹرویو، ہر قومی خطاب، ہر بین لاقوامی دورے، ہر دعوے اور ہر دلیل سے استفادہ کروں۔ ان کے بے پایاں علم سے اپنی بے علمی کو منور کرنے کی جسارت کروں۔ ان کے ہر قول زریں پر سر دھنوں۔ یہ کچھ نہیں تو کم از کم ہر ولولہ انگیز جہادی خطاب پرحال ہی پڑے، کچھ جنوںکا سودا ہی سر میں سمائے۔ مگر کیا کیجئے کہ راز کی بہت سی باتیں ہم سے کم عقلوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیں۔

    اپنے ایک حالیہ انٹرویومیں جب ایک ناہنجار، نابکار اور شیطان صفت اینکر نے قبلہ سے جی کڑا کر یہ سوال کر لیا کہ حضور! یہ درست ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کا درد آپ کے سینے میں سمایا ہوا ہے۔ اس جاہل قوم کی فلاح کا سودا آپ کے سینے میں شعلہ بن کر الائو کی طرح بھڑک رہا ہے۔ لیکن جناب والا اس اہم فریضے کی بجا آوری کے لیے اگر حضور کا قیام بھی اسی ملک میں رہے تو کیا یہ زیادہ مناسب بات نہیں ہوگی؟ سوال کرنے والے کی نیت ہی ایسی تھی کہ قبلہ اشتعال میں آگئے۔ گردن کی رگیں پھول گئیں، چہرہ انار ہو گیا، جلال کی کیفیت تن بدن پر طاری ہوگئی۔ فرمایا اگر میں یہاں رہوں گا تو عالم اسلام کی خدمت کون کرے گا؟ کفار دنیا تک میرا پیغام کیسے پہنچے گا؟ تحریک منہاج القران کا غلبہ سلطنت امریکہ و انگللشیہ پر کیسے ہوگا؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کا دفاع کون کرے گا؟ آئی ایم ایف سے مذاکرات کیسے ہوں گے؟ بین الاقوامی طاقتوں میں صلح کون کروائے گا؟ ہر سال دو سو سے زائد مسلم ممالک کا دورہ کیسے ہوگا؟ بتائیں؟ بتائیں؟ مظلوم اینکر اس انقلابی افتاد سے ایسا گھبرایا کہ یہ بھی نہ پوچھ سکا حضور انور دنیا میں کل ممالک کی تعداد بھی اتنی نہیں جتنی مسلمان ریاستوں کے دوروں کا انکشاف آپ نے ایک ہی ہلے میں کردیا۔ ویسے زیادہ حساب کتاب نہیں کرنا چاہیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس لمحے قبلہ جلال میں تھے اور جلال کی یہ مخفی کیفیت کوئی صاحب حال ہی جان سکتا ہے یہ کسی نوکری پیشہ اینکر کے بس کی بات نہیں ۔

    ڈاکٹر طاہر القادری سے یہ سوال بھی بارہاپو چھا گیا کہ پار سال جب پاکستان کے ہنگامی و انقلابی دورے پرا ٓئے تھے تو فرمایا تھا کہ اب میرا جینامرنا یہیں ہے۔ میں اپنا سب اسباب یہاں لے آیا ہوں۔ یہیں رہوں گا ،یہیں مروں گا۔ مزید براں قبلہ نے ناظرین، سامعین اور حاضرین کی تشفی کے لیے یہاں تک فرما دیا کہ میں اپنے سامان میں سے آخری موزہ بھی یہاں لے آیا ہوں۔ اس موقعے پر صاحبان عقل و دانش سمجھ گئے کہ جب آخری موزہ بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہجرت کا سفر طے کرچکا ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس دفعہ انقلاب آ کر ہی رہے گا۔ باطل کے لشکر کو شکست ہو گی ۔ حق کی فتح ہو گی۔ اور فتح کا جشن ایسے منایا جائے گا کہ قبلہ ہاتھ میں خونی تلوار سونتے کیسری رنگ کے گھوڑے پر سوار ہوں گے اور دشمن چاروں اور سر نگوں ہوں گے۔ لیکن جانے داعی انقلاب کے جی میں کیا سمائی کہ چند مہینوں میں انقلاب کی بساط لپیٹ کر پھر عازم کینیڈا ہوگئے۔ ناسمجھوں نے بہت سمجھایا کہ حضور اب تو وہاں آپ کے موزے بھی نہیں رہے۔ سنا ہے سردی بھی بہت پڑتی ہے کافروں کے اس ملک میں۔ برف بھی قبلہ کی دلیلوں کی طرح ہر وقت سر پر برستی رہتی ہے۔ پھر گھر کا سب سامان بھی تو آپ یہاں لے آئے ہیں، وہاں نیا سامان خریدنا ہوگا، تکیہ ، بستر ، لوٹا، موزہ وغیرہ وغیرہ۔ رخصت کا ارادہ ملتوی کر دیں۔ مگر قبلہ دھن کے پکے نکلے۔ آن کی آن میں یہ جا وہ جا۔ اس اچانک رخصت کی وجہ جاننے کی کئی ناسمجھ ٹی وی اینکروں نے بہت کوشش کی۔ پہلے تو قبلہ نے اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف اور عالم اسلام کی خدمت وغیرہ کی دلیلوں سے کام چلایا مگر جب یہ اینکر بچوں کی طرح ضد کرنے لگے تو ڈاکٹر طاہر القادری نے انکشاف کر ہی دیا۔ انقلاب جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ اسے گھمایا اور انقلاب آگیا۔ انقلاب بچوں کا کھیل بھی نہیں ہے۔ بھئی انقلاب آتے آتے ہی آتا ہے۔ اب انقلاب کے انتظار میں دنیا کے دھندے رک تو نہیں جاتے ۔ اور پھر آئی ایم ایف، اقوام متحدہ کب کسی کا انتظار کرتے ہیں وہاں ہماری موجودگی ضروری ہے۔ ہم یہاں رکے رہتے تو تو دنیا میں نہ جانے کیا سے کیا ہو جاتا۔ وہ تو غنیمت ہوئی کہ ہم دنیا کے دورے پر نکل گئے ورنہ شاید تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی، افریقہ میں قحط آ جاتا، جاپان زلزلوں سے ختم ہو جاتا، امریکہ اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتاوغیرہ وغیرہ۔

    ڈاکٹر طاہر القادری کے مرید بھی لاجواب ہیں۔ ان کی جماعت کے ایک سربرآوردہ رکن سے ایک ٹی وی شو میں سوال کیا گیا کہ کل کے جلسے میںکتنے افراد کی شمولیت کا امکان ہے؟ بغیر کسی تامل کے ارشاد فرمایا دو کروڑ۔ پروگرام کے پینل کے دیگر مہمان بشمول اینکر کے ایک لمحے کے لیے تو سکتے میں آگئے۔ پہلے تو کچھ دیر احمقوں کی طرح سر ہلاتے رہے، پھر اینکر نے جی کڑا کر عرض کیاقبلہ بالفرض محال اگر یہ لوگ جمع بھی ہو گئے تو اکھٹے کہاں ہوں گے؟ کھائیں گے کہاں سے؟ رہیں گے کہاں پر؟ شاگرد رشید نے رسان سے جواب دیا کہ آپ قبلہ کی انقلابی پکار پہچان نہیں پائے۔ قبلہ چاہیںتو سارا عالم اسلام مال روڈ پر جمع ہوجائے۔ اس مدلل بیان کے بعد اب کی بار کسی میں جرات نہیں ہوئی کہ پوچھ سکے کہ سارا عالم اسلام مال روڈ پر کیسے جمع ہوسکتا ہے؟ اینکر نے مارے خجالت کے شاگرد رشید سے کوئی مزید سوال کی ہمت ہی نہیں کی اور باقی ماندہ وقت دیگرمہمانوں سے بے سروپا گفتگو میں گزار دیا۔

    میری کیا بساط کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی سوال کرسکوں۔ بس ایک استدعا کا خواہشمند ہوں کہ حضور اب کی بار جب انقلاب کا سودا سر میں سمائے اور رخ انور پاکستان کی جانب ہو تو اس دفعہ کچھ بنیادی باتوں پر گفتگو ہو جائے۔ بھوک، افلاس اور غربت کا سدباب ہوجائے۔ سارے پاکستان کی نہ سہی آپ کے ماننے والوں کی حالت ہی سنور جائے۔ انقلاب سے آپ کے سوا بھی کسی کو کچھ مل جائے۔

    خیر وقت تنگ ہے اور قبلہ کی کرامات کاقصہ طویل ہے۔ فی الوقت فیض صاحب سے معذرت کے بعد بات ختم ہوتی ہے
    آئے کچھ شرم، کچھ حجاب آئے
    اس کے بعد آئے جو انقلاب آئے

  • مسیحائے انسانیت  “Is Edhi  really no more”   –  حافظ یوسف سراج

    مسیحائے انسانیت “Is Edhi really no more” – حافظ یوسف سراج

    13006698_1120626147982743_4328716347595490718_n درد اس نے جان پر جھیلے تھے، سو وہ جانتا تھاکہ جب Bread نہ ملے تو انسان Cake کیوں نہیں کھاسکتے اور وہ اسحاق ڈار بھی نہ تھا کہ جو دال مہنگی ہونے پر قوم کو مرغی کھانے کا مشورہ دینے لگتا۔ وہ کچھ اور تھا، قطعی مختلف اور بے حد منفرد، اک عام آدمی۔کیا پوری قوم کی اجتماعی اوردلی افسردگی نے ثابت نہیںکر دیا کہ وہ واقعی کچھ اور تھا، عام آدمی، مگر اک اور طرح کا عام آدمی۔

    وہ حکمراں نہ تھا، کہ شاہی ان دنوں ظرف سے تہی اور ضمیرسے عاری ادنیٰ تاجروں کے ہاں پیشہ کیا کرتی ہے۔ (الا ماشااللہ!) وہ سماجی رہنما بھی نہ تھا کہ نفیس سوٹ میں ملبوس بیش قیمت گاڑی سے اتر کر کبھی اس نے بدیسی زباں میں اجنبیوں سے داد نہیں سمیٹی۔ وہ خوش ادا اور خوش نوا نام نہاد Human Activist بھی نہ تھا کہ پنج تارہ ہوٹلوں کے یخ کمروں میں جو انسانیت کی لاش پر دو آنسو بہا کے بیرونی چندہ حلال کرتا۔ وہ فلاسفر بھی نہ تھا کہ جو منرل واٹر پیتے انسانیت نوازوں کے حضور چسکیلے نظریۂ ہائے ڈارون و فرائڈ کی ذہنی ورزش کرکے داد پاتا۔ وہ کوئی مذہبی سکالر بھی نہ تھا کہ سیرت و آیاتِ قرآنی سے دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے لا کر مجمع رلاتااور پھر اپنے معمولات ِ زندگی کی طرف لوٹ جاتا۔وہ معاملاتِ مذہب سے بھی زیادہ آگاہ نہ تھاکہ کبھی وہ ایسا بھی کہہ دیتاکہ جس پر حاشیے لگتے اور خرد کی ترازو میں وہ تولا جاتا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ وہ ایک عام ہی آدمی تھامگر حوصلہ مندانسان اور رسولِ رحمت کا دردمندامتی بھی۔

    یہ ضرور ہوا کہ درد کے کسی بوجھل لمحے اس نے اپنی پیشانی کا لکھا پڑھ لیا اورکا ش انسان کبھی جان پائے کہ عظمت بس یہ ہے کہ آدمی اپنامقصدِ تخلیق جانے ،اپنی صلاحیت پہچانے اور محنت کے مورچے پر مخلصانہ ڈیرہ ڈال دے۔زیادہ نہیں ،اللہ نے اس کی ماں کے ذریعے سے ،اسے صرف دو سبق دیئے تھے اور اس نے جی کر ہی نہیں،مرکربھی ان پر عمل کر کے ثابت کردکھایاکہ بس یہی دو سبق اس کی کامیابی کی شہ کلید تھے۔ اس کی ماں ہمیشہ اسے دو ٹکے دیا کرتی ، ایک خود پر خرچنے اور دوسرا بانٹنے کی غرض سے۔ یہ پہلا سبق تھا،یعنی: ’’تم پر جتنا تممھارے وجود کا حق ہے کم از کم اتنا ہی دوسرے انسانوں کا بھی تسلیم کر لو۔‘‘ ؎
    دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
    ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں
    ایدھی پھر اس سبق کی روح میں اتر گیا۔ اس نے دو جوڑوں، ایک اپارٹمنٹ اور ایک جوتے میں زندگی گزارنا سیکھ لی۔ اس نے کبھی تنخواہ نہیں لی اور کبھی چھٹی نہیں کی۔ یہاں تک کہ وہ ایسے ریکارڈ کا حامل اکلوتا عالمی شخص قرار پایا۔ ریکارڈ بن گیا لیکن چھٹی اس نے پھر بھی نہیںکی تاآنکہ وہ سیارۂ زمیں ہی سے ابدی چھٹی پر روانہ کر دیا گیا۔ 1939ء میں وہ 11سال کا تھا کہ جب بھارتی گجرات میں اس کی ماں مفلوج ہوگئی۔ تب اس نے جانا کہ پھول سا بوجھ ہوتی زندگی کچھ لوگوں پرکیسے زمیں سے دگنا بوجھ بھی بن جایا کرتی ہے اور تبھی اس نے اذیت سہتی اپنی معذور ماں کی کامل 8سال خدمت کرکے اپنا دوسرا اور آخری سبق بھی سیکھ لیا۔ معذوروں اور مجبوروں کے لیے جینے کا سبق۔

    47ء کے بٹوارے میں یہ شخص انڈین گجرات سے ساحلِ کراچی پہ آبسا۔ زندگی کی جوئے شیر لانے کو اس نے کچھ ملازمتوں کا تیشہ تھاما مگر پھر جلد ہی،1951میں ایک بنچ کے پاس چند دوائیاں رکھیں اور دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کی حامل فلاحی تنظیم تک چلنے کا سفر شروع کردیا۔ کراچی میں شب اور بدن میں تھکن اترتی تووہ اسی چوبی بنچ پر کلائی پرتکیہ کرکے سو رہتا۔ اس نے رفاہی کام کی اِک شریک کار نرس بلقیس کوشریکِ حیات کیا اور یوں اللہ نے اسے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازدیا۔ اس نے مگر اپنی اولاد ساری دکھی انسانیت کو سمجھا اور ان کے لئے اس سے بھی بڑھ کر کیاجتنا اپنے والدین کیا کرتے ہیں۔ایدھی کی خدمت کی بانہیںپھر دنیا بھر کے دکھیاروں کے گلوں کا ہار ہونے لگیں اور اس کا دستِ شفقت بلا تفریقِ رنگ و نسل انسانیت کے اشک پونچھتا چلا گیا۔ بالتدریج ایدھی دکھی دلوں کا سہارا اور پاکستانی شناخت کا عالمی منارہ بنتے گئے۔ یوں ایک لٹے پٹے فاقہ مست مسافر نے خدمت کی عالمی گیم اور فیم پاکستان کی قسمت کردی۔ اس کی جیت کی، اس سے اگلی کہانی عام ہے۔ لیکن نہیں، اگلی کہانی ایدھی کی نہیں ،وہ اس قوم کی جیت کی کہانی ہے۔ وہی پاکستانی قوم جو کرۂ ارض کی سب سے بڑی فیاض قوم ثابت ہوئی ہے، لیکن جس کوکچھ دانش وربالتکرار اور بالاصرار کائنات کی بھدی ترین قوم باور کرانے کی تنخواہ پاتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ صرف اسی قوم کے ظرف اور زر نے انھیں نام اور کا م دے رکھا ہے۔ کیا انھیں ڈرنا نہیں چاہئے کہ کہیں یہ قوم انھیں دئیے نام کا ’نا‘ اتار کے ان کے ’کام‘کے شروع میںرکھ ڈالے؟ بہرحال اس قوم کے بازوئے اعتماد نے ایدھی کے خواب کی تعبیر بُنی اوراس قوم کے دستِ فیاض نے ایدھی کے تراشیدہ تعمیرِانسانیت کے گھروندے کی اینٹ پر اینٹ جڑی۔نتیجہ معلوم کہ آج یہ 88سالہ بابا یوں فرش ِ کراچی سے یوں اٹھا ہے کہ ہر شہری کے لب پہ اس کا نام اور ہر شہر میں اس کا کام ہے۔کیا اتفاق ہے کہ ایک ملک کا وزیر اعظم لاہور میں اترتااور ایک دکھی دلوں کا حکمران کراچی میں رخصت ہوتا ہے۔ لطف دیکھئے کہ ایک کے لئے سرکار جبراً عوامی ٹریفک روکتی ہے تو دوسرے کے لئے عوام سرکار کا ٹریفک جام کردیتے ہیں۔یوں ایدھی کی زندگی ہی نہیں موت بھی ایک سبق بن جاتی ہے۔

    ایدھی نے خود کو مٹی کردیا مگر نشانِ امتیاز سمیت کئی تمغوں اور ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں نے اس درویش کا پیچھا کیا۔اس کا اصلی اعزازلیکن محض یہ ہے کہ وہ عام آدمی کے لیے عام آدمی کی طرح جیا۔مسافرت ومہاجرت نے اسے جس زمیں اور جس مشن پر لا دھرا تھا، وہ مر اتواس کے قدموں تلے وہی زمیں، سر پر وہی آسمان اور لبوں پر اسی مشن کا ترانہ ’’غریبوں کا خیال رکھنا‘‘ گونجتاتھا۔

    یہ ایدھی تھا، جسے زندگی بھر قوم نے وہ سب دیا جس کی اس نے چاہ کی۔ دل ، دھن اور دولت۔ عزت ، شہرت اور فضیلت۔ لیکن کیا یہ دیالوقوم ایدھی کا دیا ایک سبق بھی لینے کی متحمل ہوسکے گی؟ اس نے گدڑی اور گلیم فقیری میں شاہی کرنے کا ہنر دیا۔ اس نے مٹ کردلوں میں انمٹ ہونے کا سبق دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ ہاتھ زبان سے کہیں موثر مبلغ ہیں۔ اس نے بتایا کہ وطن اور وفا کے دامن میں ڈالا سکہ کبھی برباد نہیں ہوتا۔ اس نے ثابت کیا کہ اسرائیلی فوجی اور ائیر پورٹس کے کچھ کارندے گاہ ایدھی کا جسدروک سکتے ہیں، لیکن ایدھی کے مشن کی خوشبو پرکوئی سرحد کبھی روک نہیں لگاسکتی۔ اس نے بتایا کہ کوئی گونگا بھی خدمت پر اتر آئے تو دنیا کی ہر زبان اس کیا قصیدہ کہے گی۔اس نے بتایا کہ کوئی قلاش اور کنگال بھی اگر ٹھان لے تو آدھی دنیا کے قلاشوں کا سائبان بننے سے اسے پوری دنیابھی نہیں روک سکتی۔اس نے بتایا کہ عزت عبدالستار ایدھی کے ساتھ سیلفی لینے سے نہیں عملاعبدالستار ایدھی بننے سے ملتی ہے۔اس نے اس کیپیٹل ازم کے اس دورِ ریاکار میں بھی ثابت کر دکھایا کہ

    یہاں ’آدمی‘ کی قیمت ہے ’لباس‘ کی نہیں
    ہاں وہ جا چکا ، اگر چہ قرطاسِ دل اور صفحات ِ تاریخ سے وہ کبھی نہ جا سکے گا سوال مگر یہاں محض یہ ہے کہ اس نے صرف دو سبق سیکھے اور انسانیت کچھ سر بلنداور سر و قد ہوگئی۔ کیا ہم بھی اس کی داستانِ لذیذ اور حکایتِ دلپذیر سے عمل کا کوئی درس لے سکیں گے؟ کیا ایسا بڑا شخص واقعی ہم کھو دیں گے؟

  • ایدھی  –  اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم –  ہمایوں مجاہد تارڑ

    ایدھی – اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم – ہمایوں مجاہد تارڑ

    12510238_992882284129170_8202808987580135765_n
    ایدھی صاحب کے لیے ڈھیروں دعائیں! جو وقتِ آخر بھی انہی کےہمراہ جا سوئے جن کاکوئی وارث نہ تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اس دھرتی کے افق میں غروب ہوتا کل کا سورج اپنے ہمراہ ایدھی کو بھی ساتھ لے جائے گا:

    اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

    یقین نہیں آرہا آج کراچی کی فضاؤں میں اس ایمبولینس کا سائرن بھی بج اُٹھا جو خود ایدھی کے عنبر فشاں جسد کو اس کی دائمی آرام گاہ کے سپرد کرنے چلی ہے۔ وہ ایدھی کہ جس کے آنگن سے کھٹا کھٹ چھوٹتی پندرہ سو ایمبولینسیں اس شہر بے اماں کی تنگ و تاریک گلیوں میں تو کبھی کشادہ شاہراہوں پر تھرکتی موت کے سرکس تماشوں کے بیچوں بیچ زندگی کا ہُوٹر بجاتی رہیں، تباہ کن باقاعدگی سے جاری دہشت گردی میں لقمہ اجل بن جانے والوں کی لاشیں اٹھا اٹھا انہیں حرمت واکرام آگیں انداز میں سپرد خاک کرنے کا فریضہ ادا کرتی رہیں۔

    شہر کراچی کی متعفن گلیوں میں یاسیت سے معمور زندگیوں کو مشکبار کرنے کا عزم لیے ایدھی نے اپنا اوّلین فلاحی کلینک 1951ء میں کھولا۔ مفت علاج کی فراہمی ان کاخواب تھا۔بعد ازاں میٹرنٹی وارڈز، پناہ گاہیں، یتیم خانے اور ایدھی ہومز وجود میں آئے۔ یوں 1951ء میں روشن ہونے والا یہ چراغ کم و بیش 66 برس تک جلتااور ان گنت تاریک زندگیوں میں اجالےبکھیرتا رہا۔ خدمت انسانیت کے شعبہ میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے کسی ایک صفحے کی زینت بنا، جگمگاتا یہ نام اصل میں کروڑوں انسانوںکی زمینِ دل میں گڑا وہ سدا بہار درخت ہے خزائیں جس سے نا آشنا ہیں۔ یہ نام امر ہوگیا۔ کیوں نہ ہو کہ کروڑوں دلوں میں اس کی عظمت کے گیت بجتے، کروڑوں آنکھوں میں اس کی محبت کے آنسو تیرتے ہیں۔

    اس مہر ضو فشاں کے بادلوں کی اوٹ میں چھپ جانے کا یہ منظر بھی کیا منظر ہے! وہ کون سی آنکھ ہے جو نم فشاں نہیں، اور وہ کون سا دل ہے جو ایدھی صاحب ایسی عنبر فشاں ہستی کی رخصتی پرآہ فشاں نہیں۔ کامل نصف صدی جو شخص بھیک مانگنے، اور بانٹنے کی خود ساختہ، خود عائد کردہ فریضے کی مشقت میں جُتا دامن فشاں رہا، اس کے سفرِ آخرت کی سواری کے گردوپیش اس شہر بے رنگ کی فضائیں تک آج نغمہ فشاں ہیں کہ:

    شہرِ بے رنگ ترے لوگ گواہی دیں گے
    ہم سے خوش رنگ بھی تیرے خس و خشاک میں تھے

    ایدھی صاحب کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ مثال قطرہِ باراں وہ تہی دستوں، معذوروں اور مجبوروں کی دنیائے بے اماں کی بے برگ و بار زمین پر اترنے والے اولین شہسوار تھے، وہ اولین ابر باراں جو برگ و بار کی نوید لائے۔ بلاشبہ آپ نے لاکھوں زندگیاں بچائیں، اور بے شمار بیواؤں اور یتیموں کے لیے کشت امید بنے۔

    آج ٹویٹر پر ٹویٹس کی یہ بارش کیوں نہ ہو کہ جانے والا اس دھرتی پر کسی شمار میں نہ آسکنے والی خیرات کی برسوں بارشیں برساتا رہا۔ آج فیس بک کے سٹیٹس ہمک ہمک کر اس کے گیت کیوں نہ گائیں جس نے عمر بھر لاکھوں بے سہارا واداس دل نونہالانِ وطن کی اداسیاں رفع کرنے کو امیدافزا گیت گائے۔ آج اخباروں، ویب سائٹوں اور ٹی وی چینلز پر ایدھی کے نام نامی کا شور کیوں بلند نہ ہو کہ اس نے دم توڑتی انسانیت کے کانوں میں حیات افروز سرگوشیاں کی تھیں۔ سوچتا ہوں موت اس کا نام صفحہ ہستی سے کیونکر کھرچ پائے گی کہ جس کے لہو کی ایک ایک بوند حیاتِ نو کی بوندیں برسانے، زندگی ارزاں کرنے میں وقف رہی۔

    سوچتا ہوں کتنی ناپائیدار ہے یہ دنیا جہاں کی چہکتی، ہمکتی زندگی کو آنِ واحد میں ایک بے ضرر سی ہچکی اُچک لے جاتی اور عدم کے تاریک، مہیب جنگلوں میں کہیں پھینک آتی ہے۔ کیسے ناقابلِ اعتبار اور فریبی ہیں یہ گلزار ہفت رنگ جو پل بھر میں اپنی رعنائیاں کھو دیتے، بے رنگ، بے نور ہوجاتے ہیں۔ اِس زارو زبوں جنَتا کی زمینِ مردہ دل پر گھٹا بن کر برسنے، نجانے کتنوں کے تاریک مسکن میں مہ و انجم کی شمعیں جلانے، ہمارے اس برباد آنگن کو قافلہ ہائے بہار سے سجانے، اور ان گنت دم توڑتی زندگیوں کو اپنے لمسِ مسیحا ئی سے حیات نو اَرزاں کر دینے والا پاکستان کا امیر ترین غریب— عبدالستار ایدھی راہیِ عدم ہوا۔ جیسے کہہ رہا ہو:

    اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
    ساتھیو، ختم ہوئی دیدہِ تر کی شبنم
    تھم گیا شورِ جنوں، ختم ہوئی بارشِ سنگ
    خاکِ راہ آج لیے ہے لبِ دلدار کا رنگ
    دیکھیے، دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد!

  • نئی بھارتی کابینہ؛ قابلیت اور تعلیمی اہلیت کا امتزاج   –  اسامہ عبدالحمید

    نئی بھارتی کابینہ؛ قابلیت اور تعلیمی اہلیت کا امتزاج – اسامہ عبدالحمید

    دور حاضر میں کسی بھی حکومت کا چہرہ اس کی کابینہ کے افراد ہوتے ہیں۔ وزرائے باتدبیر ہی سے حکومت کی دور اندیشی، اہداف، عزائم اور اپنے عوام کے لیے اس کے خلوص کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

    ترقی یافتہ اقوام کے حکمران اپنی کابینہ کا انتخاب کرتے وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ، وسیع المشرب اور قابل افراد کو پہلی ترجیح میں رکھتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال کینیڈا ہے جہاں عوام نے ایک نوجوان سیاست دان کو بطور وزیر اعظم منتخب کیا اور نو منتخب وزیراعظم نے بعد ازاں مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے افراد پر مشتمل انتہائی متوازن کابینہ تشکیل دی۔

    ترقی پذیر ممالک میں منصب وزارت پارٹی یا خاندان کے وفاداروں کو عطا کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مہارت،خلوص، محنت، قابلیت اور علم کو زیادہ خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسے وزارت تعلیم کا ہما ایسے افراد کے سر بٹھایا جاتا ہے جنھیں قرآن مجید کے پاروں کی درست تعداد کا علم بھی نہیں ہوتا۔

    پڑوسی ملک بھارت اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا ہے کہ مسلسل جمہوریت کے نتیجے میں وہاں قدرے بہتر اور ریاست سے مخلص چہرے سامنے آتے رہے ہیں۔ لالو پرساد یادیو ذاتی زندگی میں چاہے مسخرے ہی لگتے ہوں لیکن ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے تین سال کے اندر اندر ریلوے کو بام عروج تک پہنچا دیتے ہیں۔

    موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نظریات اور ماضی سے قطع نظر، یہ بات ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ انتہائی زیرک، محنتی اور مسلسل اپنے ملک و قوم کے مفاد کے لیے سرگرداں رہنے والے آدمی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں ان کی کارکردگی کا ہی جائزہ لیا جائے تو انھوں نے مسلسل دوروں اور بہترین ڈپلومیسی کے نتیجے میں ایک طرف بھارت کے عالمی منڈیوں کے پروانے حاصل کرلیے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ نہ صرف عالمی طاقتوں بلکہ اسلامی ممالک کو بھی اس بات کا یقین دلانے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں کہ بھارت انتہائی مظلوم ہے اور پاکستان کی جانب سے مسلسل بھارت میں دراندازی اور دہشت گردی کی پشت پناہی جاری ہے۔

    مودی نے حال ہی میں اپنی کابینہ میں چند نئے چہرے متعارف کروائے ہیں۔ کابینہ میں شامل ہونے والے ان افراد کے پورٹ فولیو پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ مودی حکومت عالمی برادری میں بھارت کو نمایاں مقام دلانے کے لیے کتنی جدوجہد کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ بھارتی عوام جمہوری بلوغت کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اور اب تعلیم یافتہ امیدواران کو لوٹوں پہ ترجیح دینے لگے ہیں۔

    نئی کابینہ میں اعلی تعلیم یافتہ ارکان پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا ہے جن میں وکلا، ایم بی بی ایس ڈاکٹر، پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ماہرین تعلیم اور کئی سماجی کارکنان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ وزرا لا گریجویٹ، چار پوسٹ گریجویٹ، پانچ گریجویٹ اور دو انڈر گریجویٹس شامل ہیں۔

    آئیے ایک نظر بھارتی کابینہ کے چند نئے چہروں کی تعلیکی اہلیت پہ ڈالتے ہیں۔

    پی پی چودھری: پالی سے لوک سبھا کے ممبر پی پی چودھری سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ لوک سبھا میں متاثرکن حاضری پر انھیں دو مرتبہ رتنا ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

    وجے گوئیل: بھارتی ریاست راجستھان سے راجیہ سبھا کے ممبر معروف لاء گریجویٹ ہیں۔ وجے گوئیل سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کھیل اور امور نوجواناں کے وزیر تھے۔

    ارجن رام میگھوال: لا گریجویٹ ارجن رام بی جے پی کے ٹکٹ پہ لوک سبھا ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ انڈین سول سروس کے ممبر بھی رہ چکے ہیں اور مقامی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ارجن رام اپنی سادگی کے لیے مشہور ہیں۔ لوک سبھا کے ابتدائی اجلاسوں میں وہ سائیکل پہ آتے رہے ہیں۔

    سبھاش رام راو: مسٹر سبھاش رام راو ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور بھارت کے معروف کینسر سرجن ہیں۔ وہ بھارتی کابینہ میں شامل واحد ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔

    مہندرا ناتھ پانڈے: ڈاکٹر پانڈے نے انگریزی ادب میں ایم اے اور ہندی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی ایم اے کر رکھا ہے۔

    انوپریا سنگھ پٹیل: مس انوپریا سنگھ پٹیل نے ایم بی اے کے ساتھ ساتھ ایم اے سائیکالوجی بھی کیا ہوا ہے۔

    سی آر چودھری: سی آر چودھری نے جغرافیہ میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ سے دیہی بہبود کے حوالے سے ایک تربیتی کورس کیا۔ وہ راجستھان پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہنے کے ساتھ ساتھ معروف بھارتی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

    انیل مادھو دیو: انیل دیو ماحولیاتی تبدیلیوں پہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے ایم کام کر رکھا ہے۔

    ایم جے اکبر: انگریزی ادب کے گریجویٹ ایم جے اکبر بھارت کے معروف لکھاری اور صحافی ہیں۔ وہ مسلم اکثریتی علاقے سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔

    بھارت کے ان چند وزرا کی مختصر اہلیت اور کوالیفکیشن پاکستانی سیاسی جماعتوں اور عوام کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔

  • آہ! ایدھی صاحب  –  آصف محمود

    آہ! ایدھی صاحب – آصف محمود

    asif mehmood
    ایدھی صاحب بھی چل بسے۔ ایک سادہ صاف گو اور معصوم سے ایدھی صاحب۔ ان سے میری ایک ہی ملاقات تھی۔ اس کی یادیں جب تک سانسیں چل رہی ہیں، ایک متاع عزیز بن کر ساتھ رہیں گی۔

    مصطفیٰ کمال ان دنوں ناظم کراچی تھے۔ میں ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے ان کا انٹرویو کرنے اسلام آباد سے کراچی پہنچا۔ مصطفی کمال کے انٹر ویو کے بعد میں نے مقامی ٹیم سے کہا کہ ممکن ہو تو میں عبد الستار ایدھی کا انٹرویو بھی کرنا چاہوں گا۔ رابطہ کیا گیا اور ایدھی صاحب نے اسی وقت ہمیں اپنے پاس بلالیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک تنگ سی گلی کی نکڑ پر واقع ایدھی سنٹر میں موجود تھے۔

    انٹر ویو شروع ہوا اور اس کا نصف حصہ خاصی سنجیدہ گفتگو کی نذر ہوگیا۔ بریک کے بعد میں نے سوال کیا: ’’ایدھی صاحب آپ کو کیا چیز پسند ہے؟‘‘۔۔۔۔۔ اور اس سوال کے جواب میں جو ایدھی صاحب کھلے تو ایسا کھلے کہ میں ہی نہیں وہاں موجود ہر شخص حیران رہ گیا۔ آج خیال آتا ہے کاش میں نے ان سے سنجیدہ گفتگو کی ہی نہ ہوتی اور پہلا سوال ہی یہی پوچھ لیا ہو تا کہ ’’ایدھی صاحب آپ کو کیا چیز پسند ہے؟‘‘

    ایدھی صاحب کے مشن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے بریک لی۔ بریک کے بعد میں نے پوچھاآپ کو کیا چیز پسند ہے؟ ایدھی صاحب ترنت بولے ’’لڑکیاں ‘‘۔

    باریش بزرگ کا یہ جواب سن کر ایک لمحے کو تو میں سن سا ہوگیا۔ ان کا ایک اور ہی امیج میرے ذہن میں تھا۔ مجھے لگا شاید وہ کچھ اور کہنا چاہ رہے ہیں میں سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے میںنے پوچھ لیا: ’’کیا کہا آ پ نے؟‘‘

    ایدھی صاحب اسی روانی میں اور اسی معصومیت کے ساتھ جواب دیا، ’’لڑکیاں بولا میں‘‘ اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مجھے دیکھنے لگ گئے۔

    میرے لیے یہ ایک انتہائی غیر متوقع صورت حال تھی۔ میں اگلا سوال بھی نہ کر سکا ، ٹک ٹک ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے کنفیوز ہوتے دیکھ کر وہ بولے، ’’تم نے لڑکیاں کبھی نہیں دیکھیں؟‘‘

    اب تک میں کچھ سنبھل چکا تھا، عرض کی، ’’ قبلہ لڑکیاں تو دیکھ رکھی ہیں، ایسا لڑکا کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

    ایدھی صاحب ذرا نہ جھینپے، اسی رسان اور معصومیت سے بولے، ’’ مجھے گوری پوپٹ لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔‘‘

    میں نے کہا ، ’’ قبلہ آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘

    کہنے لگے، ’’ اسی کے قریب ہو گی‘‘۔

    میںنے مسکرا کر کہا، ’’ اسی کے قریب آپ کی عمر ہے اور آپ ابھی تک لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں؟‘‘

    ’’گوری اور پوپٹ لڑکیوں کو‘‘۔۔۔بچوں سی معصومیت کے ساتھ انہوں نے غالباً میری تصحیح فرمائی۔

    ’’اس عمر میں آپ یہ تکلف کیوں فرما رہے ہیں؟ میں نے انہیں چٹکی کاٹی کہ اب میں بھی صورت حال انجوائے کر رہا تھا۔

    ایدھی صاحب نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا ’’ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ ‘‘
    ’’اکتیس سال ‘‘
    ’’سادی ( شادی ) ہوا؟ ‘‘
    ’’جی ابھی نہیں ہوئی ‘‘۔

    ’’کسی نے تیرے کو بولا ادھر کراچی میں یا لاہور میں کہ مجھ سے سادی ( شادی ) کر لو؟ ‘‘۔۔انٹر ویو کرنے میں گیا تھا لیکن سوال ایدھی صاحب پوچھ رہے تھے۔
    میں نے کہا ’’جی نہیں ابھی تک تو کسی نے نہیں بولا ‘‘۔

    ایدھی صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی، کہنے لگے ،’’مجھ سے تو ابھی کل ایک لڑکی بولا مجھ سے سادی( شادی ) کر لو۔ضد کیا مجھ سے۔بھکر کی ہے۔بہت فون کیا اس نے مجھ کو ‘‘۔
    اس لڑکی نے آپ سے شادی کرنے کا کہا؟
    ’’ہاں مجھ سے بولا۔کئی دفعہ بولا۔ایک یہ لڑکی نہیں بولا مجھ سے۔ بہت سی لڑکی نے بولا ‘‘۔ ۔۔پھر ہاتھ لہرا کر باقاعدہ مجھے طعنہ دینے لگے : ’’تجھ سے تو کوئی نہیں بولا‘ ‘۔
    ”مجھ سے کوئی نہیں بولا۔مجھے چھوڑیں یہ بتا ئیں پھر آپ نے کیا جواب دیا اس لڑکی کو؟“

    ایدھی صاحب قہقہہ لگا کر کہنے لگے ،’’میں نے اس کو بولا میں اب مرد نہیں رہا ‘‘۔
    پھر کیا کہا اس نے ؟
    ’’وہ کہنے لگی کوئی بات نہیں سادی کے بعد میرے کو صرف ساپنگ کروا دیا کرنا ‘‘۔
    تو کیا فیصلہ کیا آپ نے؟
    ’’ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا‘‘۔ ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے جھک کر سرگوشی کی’’آہستہ بولو بلقیس سن لے گی ‘‘۔

    آپ موبائل فون کیوں نہیں رکھتے اپنے پاس؟
    ’’مجبوری ہے ‘‘۔اب پھر وہی معصومیت لوٹ آئی تھی ایدھی صاحب کے چہرے پر’’میری گرل فرینڈز ناراض ہو گئی تھیں موبائل کی وجہ سے۔بس میں نے اسی وقت موبائل فون پھینک دیا ‘‘
    وہ کیوں ناراض ہو گئی تھیں؟
    ’’بس ناراض ہو گئیں مجھ سے۔ ایک دن سکیلہ کا فون آیا تو میں سمجھا جمیلہ کا فون ہے میں بولا ہیلو جمیلہ ڈارلنگ۔وہ سکیلہ نکلی۔ ۔ ۔پھر جمیلہ کا فون آیا میں سمجھا سکیلہ کا فون ہے۔میں بولا ہیلو سکیلہ ڈارلنگ۔ لیکن وہ جمیلہ نکلی۔دونوں ہی ناراض ہو گئیں ‘‘۔

    اچھا یہ بتائیں کس بات نے آپ کو بہت پریشان اوردکھی کیا؟
    ’’وہ میری دوسری بیوی تھی ناں۔میں نے اس کو بہت پیار کیا۔بہت سی امانتیں اور سونا اس کے پاس پڑا تھا۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ‘‘
    میں نے سوچا ایدھی صاحب دکھی ہو گئے ہیں ان کا غم بانٹنا چاہیے۔میں نے اظہار افسوس کیا تو انہوں نے مجھے روک دیا اور بولے’’ اس بات کا مجھے دکھ نہیں کہ وہ چلی گئی۔اس بات کا دکھ بھی نہیں ہے کہ سونا ساتھ لے گئی۔اللہ مالک ہے۔وہی نظام چلاتا ہے ‘‘۔

    تو پھر کس بات کا دکھ ہے؟
    ’’دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر چلی گی تو اس نے سادی کر لیا ‘‘۔
    اوہو۔۔۔
    ’’ابے بات تو پوری سن۔سادی کر لینے کا دکھ نہیں ہے مجھ کو ‘‘۔
    تو پھر کس بات کا دکھ ہے آ پ کو؟
    ’’دکھ اس بات کا نہیں کہ اس نے مجھے چھوڑ دیا‘‘ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے کو جھک کر کہا اور پھر اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے ’’ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر سالی ایک مولبی سے سادی کر لیا۔مولبی ہی سے کرنا تھی تو میرے کو کیوںچھوڑا ‘‘۔

    اور آج۔ ۔۔۔
    ایدھی صاحب ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی یادیں ہمارے ساتھ اور ہماری دعائیں ان کے ساتھ۔

  • عبدالستار ایدھی چلے گئے …. انا للہ و انا الیہ راجعون –  ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عبدالستار ایدھی چلے گئے …. انا للہ و انا الیہ راجعون – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
    ”پاکستان“ کی اصل روح کے متعلق جاننا ہو تو ایدھی صاحب کی زندگی کو دیکھ لیجیے۔ بلکہ وہ عظیم شخص تو اپنی موت میں بھی ہم سب کے لیے اہم ترین پیغام چھوڑ گیا۔

    آپ اور کچھ مت کیجیے …. ابھی سے فیس بک پر لکھے وہ سب سٹیٹس پڑھنے شروع کر دیجیے جو ان کی موت سے متعلق ہیں… شیعہ، سنی، بریلوی، سلفی، دیوبندی، قادیانی، عیسائی، ہندو، سکھ… سب پڑھ ڈالیے۔ کہیں بھی دکھ، رنج، خراج عقیدت اور دعا کے علاوہ کچھ اور ملے تو ضرور بتائیے گا…

    یہ سب اس لازوال قوت کا نتیجہ ہے جس کا کوئی توڑ کسی کے پاس نہیں… ہم جسے ”انسانیت“ کہتے ہیں۔

    جو بھی انسانوں کی بھلائی سوچے گا، وہ انہیں اپنی محبت میں یکجا کر لے گا۔

    یہ جو ہم سب صبح شام چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے سے بحث، تکرار اور جھگڑے کرتے ہیں جن کے خیالات و نظریات کبھی مل کر نہیں دیتے… انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ سب اختلاف ایک طرف رہ گئے، سب حوالے دھرے کے دھرے رہ گئے اور آج سب یک آواز ہیں ایدھی صاحب کی شخصیت کی مدح میں۔

    وجہ صرف اتنی ہے انہوں نے ہم سب کے مابین کبھی تفریق نہیں کی، سب کے لیے ہمہ وقت حاضر رہے اور آج پورا ملک ان کے لیے حاضر ہے، ان کے لیے کوئی تفریق نہیں۔

    یہی وہ نسخہ ہے اتحاد اور یکجہتی کا جو وہ نحیف و نزار بوڑھا ہم سب کو دکھا اور سمجھا کر اپنے رب کے حضور جا اترا ہے۔