Category: ادبیات

  • توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری – ہمایوں مجاہد تارڑ

    توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری – ہمایوں مجاہد تارڑ

    ہمایوں تارڑ راقم نے دیکھا ہے کہ نوع بہ نوع مسائل جوں جوں سر اٹھاتے ہیں، توں توں انسانی معاشروں میں برسرِ پیکار طاقتور آوازوں میں سے کوئی ایک آواز پیغمبرانہ لب و لہجے کی حامل ”برہانِ قاطع“ بن کر اُبھرتی اور ساری بحث گویا لپیٹ ڈالتی ہے، جس کے مقابل دیگر آوازیں کبوتروں کی سی نیم آہنگ غٹر غوں میں بدل جاتی، اپنی تاثیر کھو دیتی ہیں۔ عاطف حسین کی شاہکار تصنیف ”کامیابی کا مغالطہ“ سحرالبیان موٹیویشنل سپیکنگ کی ایمپائر کو چیلنج کرتی ایک ایسی ہی کاٹ دار آواز ہے۔ اسے پڑھ کر بےساختہ علّامہ کا شعر یاد آیا:
    کیے ہیں فاش رموز قلندری میں نے
    کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
    اور آپؒ کا وہ مشہور مصرعہ کہ: توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسمِ سامری

    جی ہاں، فی الحقیقت یہ ہے وہ ”لائف چینجنگ“ بُک جو فی الفور ایسے تمام خواتین و حضرات کے پاس ہونی چاہیے جو زندگی کے کسی بھی مرحلہِ ذوق و شوق میں مایوس نہیں ہونا چاہتے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ایک اچھی کتاب وہ ہے جس کے مطالعہ کے بعد آپ وہ نہ رہیں، جو کتاب پڑھنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ یقین جانیں یہ سحر طراز ”بول کار“ جس ”پیغمبرانہ“ مسند پر خود کو براجمان کیے ”حشرات الارض“ سے خطاب کرتے ہیں، اب مضحکہ خیز لگنے لگا ہے۔ یوں جیسے موسلا دھار بارش کے بعد گرد آلود فضا ایکدم شفّاف ہوجاتی ہے، اور نیلگوں آسمانی چھتری صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔

    میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”کامیابی کا مغالطہ“ بارے غلغلہ اس سے کہیں زیادہ بلند آہنگ ہونے کا مستحق ہے، جتنا کہ اِس گزرتی ساعت تک ہوا۔ یہ حقیقتاً ایک سحر پاش کاوش ہے جس پر خالی خولی جذباتیت سے یکسر قطع نظر ”معرکۃ الآرا“ ایسا لفظ بہ آسانی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ایمل پبلیکیشنز کے سربراہ شاہد اعوان صاحب نے اب تک لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں اس کی تقریب رونمائی بارے کیوں کوئی اہتمام نہیں کیا۔ یا برادرعامر خاکوانی نے (کہ جنہوں نے ٹرمپ کامیابی بارے تاثرات رقم کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں اس کتاب کا ذکر جلی حروف میں کیا) اس کو ہائی لائٹ کرنے سے متعلق کیوں کوئی آئیڈیا فلوٹ نہیں کیا؟ یا عاصم اللہ بخش اور احمد جاوید صاحب ایسی محترم المقام شخصیات جن کے تعریفی کلمات کتاب میں بہ اہتمام شائع کیے گئے ہیں، نے کیوں اِس خاطرمحض ایک آدھ تعریفی نوٹ پر ہی اکتفا کیا؟

    یقین جانیں، کم سے کم بھی، یہ کتاب جامعات کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔ وہ بھی یوں کہ ideally speaking اس کو کسی ایک شعبہ کے ساتھ منسلک یا مخصوص نہ کیا جائے، بلکہ تمام شعبہ ہائے علوم سے وابستہ طلبہ و طالبات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ یکساں طور پر لازمی قرار دیا جائے۔ کتاب کے مواد پر ایک آدھ Quiz ڈیزائن کر لینے کا اہتمام برتنا بھی اس کا حق ہے۔ اخلاص اور مستند ریسرچ پر مبنی یہ دانشورانہ رہنمائی مستقبل کے معماران کے لیے ایک چھوٹی بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ کہوں تو اس شاندار تصنیف کے لیے حکومتی سطح سے چھوٹے موٹے ایوارڈ تک کا سوچا جانا چاہیے۔ میں یہ الفاظ لکھتے ہوئے حد درجہ محتاط ہوں کہ کچھ مبالغہ نہ ہو جائے لیکن یہ مبالغہ نہیں، جو کوئی اس کتاب کو ایک بار پڑھنے کی زحمت گوارا کر لے گا، مجھے یقین ہے وہ ناچیز کی رائے سے اتفاق کرے گا۔

    اس تصنیف کی ایک نمایاں خوبی اس کے مواد کی ہمہ گیریت ہے۔ دورانِ مطالعہ جو ممکنہ سوالات ایک فتنہ جُو انسانی دماغ ابھار سکتا ہے، انہیں چابکدستی سے گھیر لیا گیا ہے۔ یوں جیسے ایک نکتہ پر پیش کردہ استدلال اور اس کی عالمانہ تشریح و تفسیر کے فوری بعد قاری کے ردّ عمل یا ری فلیکس ایکشن کو مصنّف خود ہی بھانپ لے اور یکلخت، اگلے نکتہ پر سُوِئچ کرنے کا مواد اپنی جانب سے پیش کرنے کے بجائے، قاری کے ذہن میں اُٹھے سوال کا جواب دینے کے عمل سے اُٹھائے۔ یہ ذہانت اور حساسیت کی انتہا ہوتی ہے کہ آپ دیکھنے، سننے، پڑھنے والے کی حسیات کے ساتھ ایسے جڑے ہوں کہ ان کا پورا ادراک رکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھائیں۔ فرانسس بیکن نے بلاوجہ نہیں کہہ دیا تھا کہ:
    Writing makes a man perfect.
    ایک عمدہ و جامع تحریر ذہنِ انسانی کی معراج ہے گویا۔ اور برادر عاطف کا یہ کام اسی معراج کو چھوتا نظر آتا ہے۔ آزمائش شرط ہے! یوں، اپنی کہوں تو شاید ہی کوئی سوال ہو جو تشنہ رہ گیا ہو۔
    ”کامیابی کا مغالطہ“ موٹیویشنل سپیکرز کے پھیلائے مغالطہ ہائے کامرانی کے میل کچیل کی زد میں آئے ا ذہان کے لیے وہ دھوبی گھاٹ ہے جہاں سے وہ صاف شفّاف، ہشاش بشاش ہو کر نکلیں گے، ان شااللہ! یہ تصنیف وہ کلینک ہے جہاں ڈرگ ایڈکٹس کا شافی علاج کیا جاتا ہے۔ یہ وہ منتروں کا شہنشاہ منتر ہے جو موٹیویشنل سپیکرز کی دانش گاہوں سے پھوٹنے والےسحر آفریں اقوالِ زرّیں کے ”زیرِاثر“ حضرات و خواتین کے لیے سورۃ النّاس کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ وہ اسمِ اعظم ہے جو فسوں زدہ ”پتھر بنے“ یعنی سحر زدگاں کو واپس انسانی رُوپ میں ڈھال دینے کی یقینی تاثیر لیے ہے۔ یہ اسمِ اعظم ہاتھ آ جانے پر، مستقبل میں بھی، ایک پروٹیکٹو شیلڈ کا کام دے گا۔ یہ ایک ویل ریسرچڈ تھیسس ہے جو اس نام نہاد لائف چینجنگ سیلف ہیلپ کے صنم کدے میں ابراہیم کی صدائے لا الہ ہے۔ عاطف حسین نے خالصتاً عقلی، علمی، تجربا تی، حقیقی اور تحقیقاتی بنیاد پریہ ثابت کیا ہے کہ اس کمبخت لا آف اٹریکشن کی علمی بنیادیں سخت کمزور اور مخدوش ہیں۔

    ”یہ محض چند ذہنی محدودات کا پیدا کیا ہوا سراب ہے جس کے پیچھے بھاگنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا۔“
    محنت کو صرف دنیاوی خوشحالی کے حصول کا ذریعہ ہونے کا تصوّر بنا کر رکھ دینا، اور زیرِ ورکشاپ Victims کو چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں سجائے رکھنے اور مصنوعی ملمّع کاری ایسے بعض عادات و خصائل کو اپنا لینے کی تربیت دینا، ”گول“ لکھوانا اور مادّی اشیا کے تعاقب میں بھگوانا خلافِ فطرت بات ہے۔ ایک ایسا مبالغہ ہے جس کی حقیقت سے یہ ہادیانِ عصر خود بھی ناواقف ہیں۔ وہ اسی کو حقیقت خیال کرتے اور مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر بیچارے توجیہات اور وضاحتیں پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ عاطف حسین نے منطق، دلیل، تحقیق اور مثال سے بہ خوبی سمجھایا ہے کہ:
    ”مثبت خیالات کی کرشماتی طاقتیں محض افسانہ ہیں، اور رجائیت پر بےجا اصرار نقصان دہ۔ اسی طرح کامیابی کے نام نہاد اصول اور ٹوٹکے بےکار اور لایعنی ہیں۔ محض کچھ عادات اپنا کر کوئی امیر نہیں بنتا، نہ ہی ان کو ترک کر نے سے کوئی غریب ہوتا ہے۔ اس نوع کا پرچار لوگوں کے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹا انہیں ڈپریشن کا شکار کیے دیتا ہے۔ اپنی قسمت کا مالک ہونے کا نظریہ محنت کو ایک اخلاقی قدر کے مقام سے گرا کر محض حصولِ مال کے ٹول کے بطور پیش کرتا ہے جو اگر مطلوبہ نتائج پیدا نہ کرے تو بے کار ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے برعکس قسمت کی حاکمیت کے تصوّر پر یقین رکھنے والا محنت کے مثبت یا منفی نتائج سے قطع نظر اپنی محنت کے عمل پر فخر اور اس سے خوشی کشید کر سکتا ہے۔“

    راقم کے نزدیک یہ تصنیف وہ عصائےموسٰی ہے جس کے روبرو طلسمِ سامری بے بس نظر آئے۔ سحرالبیان دنیائے موٹیویشنل سپیکنگ کیطرف سے ارزاں کیے جانیوالے سنہری قوانین، اور اسرار و رموز کا سودا خرید چکے اور چُکنے کے لیے پُرعزم نوجوانانِ ملّت یہ تحریرضرور پڑھیں، جیسا کہ اس کے ٹائٹل سے ہی عیاں ہے، یہ آپ کو ”کامیابی کے گُر“ سکھانے کا دعوٰی نہ رکھنے والی کتاب ہے۔ ہے نا حیرت کی بات!

    البتہ یہ آپ کو مایوس ہونے سے بچانے کا بھرپور دعوٰی رکھتی ہے۔ یہاں واصف علی واصف مرحوم کی ایک خوبصورت سٹیٹمنٹ کا حوالہ بنتا ہے۔ فرمایا: ”خواہش پوری کرنے والا بزرگ اور ہے، خواہش سے نجات دلانے والا اور۔“ عاطف حسین خواہش سے نجات دلانے والا بزرگ ہے۔ یعنی اصلی والا پیر۔ نقلی پِیروں سے ہشیار رہیے!

    اس کے ناشر شاہد اعوان کے اپنے الفاظ بھی غور طلب ہیں:
    ”مثبت سوچ“ کا منجن بیچنا خود ان سپیکرز اور ٹرینرز کے حق میں تو بہت ”مثبت اور کارآمد“ ثابت ہوتا ہے، مگر سامعین کو ایک فوری، یا اکثر تاخیری ڈپریشن، گِلٹ، غیر حقیقی آدرش اور منفی اثرات کا شکار کر چھوڑتا ہے۔ یہ جدید جہلا کارپوریٹ کلچر کے وہ آلے (Tools) ہیں، جو زبانِ غیر کے منہ زور گھوڑے پر سوار مانگے کے افکارِ مایہ کو ”مایہ“ کے لیے سونا بنا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو مرعوب کر کے تالیاں پٹواتے ہیں۔ جعلی تحقیقات کے حوالے اور تیسرے درجہ کے لکھاریوں کے ادھ کچرے خیالات کی جگالی، بدن بولی، متاثر کن حلیہ اور سامعین کی نفسیات سے کھیلنے کی جادوگرانہ تراکیب ان کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔“

    کتاب کے مصنّف، عاطف حسین، نے اِن ٹرینرز کی جعلی یا غیر مستند تحقیقات پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور اپنے بیانیہ کی تصدیق کے لیے خود مغربی دنیا سے بھی مضبوط مواد پیش کیا ہے، جو بہت اپیل رکھتا ہے۔
    المختصر:
    کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

  • وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    وطن کی مٹی گواہ رہنا – عشوارانا

    بابا بابا! مجھے یہ والے کھلونے چاہیے۔ معاذ نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے کھلونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
    اچھا میرے بیٹے کو کون سا کھلونا چاہیے؟
    یہ جہاز والا اور یہ گن بھی۔ معاذ نے خوشی سے کہا۔
    آپ ان کا کیا کرو گے؟میں نے تجسس سے پوچھا۔
    بابا! میں جہاز اڑا کر گن سے سارے دشمنوں کو ختم کر دوں گا۔ ایسے ٹھیشا ٹھیشا۔ اس نے ہاتھ سے گن بناتے ہوئے ٹھیشا ٹھیشا کرتے ہوئے کہا۔ مجھے اس کی معصومیت پہ بےاختیار پیار آیا تھا۔

    آج معاذ چھ سال کا ہوگیا ہے۔ کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں نے اسے پہلی بار گود میں اٹھایا تھا۔ وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کی امی تو اس کی پیدائش کے وقت ہی وفات پا گئی تھی۔ تین سال تک اس کی خالہ نے اس کی دیکھ بھال کی۔ میں نے بھی سب کے کہنے کے باوجود دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بچے کا خود خیال رکھا۔ آج بھی کھلونے دیکھ کر مچل اٹھتا ہے۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے۔ نیک بنائے۔ آمین۔ رشید صاحب نے ڈائری بند کرتے ہوئے سوچا تھا۔

    سنیں بابا! ہوم ورک کرتے ہوئے معاذ نے پکارا تھا۔
    بابا! آج سر کلاس میں پوچھ رہے تھے کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے۔ میں نے کہا۔ فوجی۔۔ تو سر ہنسنے لگے۔ کہتے بیٹا، آپ ایک چوٹ سے رونے لگتے ہو۔۔ وہاں کیسے رہ پاؤ گے۔ میں ہنس پڑا۔
    بابا آپ بھی ہنس رہے۔۔ آپ دیکھنا میں یونیفارم میں کتنا اچھا لگوں گا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ چہرے پہ خوشی کے رنگ تھے تو آنکھوں میں خوابوں کا عکس۔۔
    اللہ اسے نظر بد سے بچائے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی۔
    معاذ اتنا بڑا ہوگیا ہے۔ کل تک میں اسے ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتا تھا۔ آج وہ ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہے۔ میرے کام کر دیتا ہے۔ کل کہہ رہا تھا، بابا! آپ سست سے ہوگئے ہیں۔ بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اللہ میرے بچے کو زندگی دے۔ آمین۔ تنہائی میں ان کی ڈائری ہی ان کی دنیا ہوتی تھی۔

    آج سیکنڈایئر کی الوداعی تقریب تھی۔ والدین نے بھی شرکت کی تھی۔ معاذ کی نمایاں پوزیشن تھی۔ محنتی وہ ہمیشہ سے تھا۔ استاتذہ سے ملتے اور اسٹیج پہ چلتے پھرتے میرا بچہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ آج اسے انٹر کی ڈگری بھی مل گئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے یونیورسٹی میں داخل کروا دوں۔ کل میں نے پوچھا بھی تھا معاذ سے۔ وہ فوج میں جانے کا کہہ رہا تھا۔ میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ میں اسے اپنے سے دور کیسے بھیج سکتا ہوں۔ سمجھاؤں گا اسے۔ چھوٹا ہے نا ۔۔ اسی لیے سمجھ نہیں آتی اسے۔
    بابا گھر چلیں ۔۔ کہاں گم ہیں آپ؟ معاذ نے مجھے ہلاتے ہوئے کہا اور میں نے سوچوں سے نکل کر سر ہلا دیا۔
    معاذ بیٹا! یہیں داخلہ لے لو۔ میں تمہیں دور کیسے بھیج سکتا۔ ہم دونوں کے علاوہ ہمارا ہے ہی کون۔ میں نے معاذ کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سن رہا تھا۔
    بابا آپ ہی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم ان کی امانت ہیں ۔۔ جب چاہے لے لیں ۔۔ ہمیں بس اللہ کی رضا میں راضی رہنا چاہیے، اسی میں ہماری بھلائی ہی ہوتی۔ ہمیں کبھی نا امیدی اور مایوسی کو پاس نہیں آنے دینا چاہیے۔
    وہ بول رہا تھا۔ میں سن رہا تھا۔ میں کیوں یہ بھول گیا۔ ہم پہلے اولاد کو سارے سبق پڑھاتے ہیں ۔۔ اور جب وہ سیکھ جاتے تو ہم بھول جاتے ہیں۔ میں سوچوں میں گھرا تھا۔
    کیا سوچ رہے بابا ۔اگر آپ کا دل نہیں مان رہا تو نہیں جاتا۔ اس نے اداسی سے کہا تھا۔ نظریں میرے چہرے پہ ٹکی تھی۔ میں نے فیصلہ کر لیا۔
    ٹیسٹ کب ہے تمہارا۔ میں نے سنجیدگی سے کہا تھا اور وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا۔ اس کی خوشی ہی میری خوشی تھی۔

    معاذ ٹریننگ کے لیے جا چکا ہے۔ میرا دل بہت اداس ہو رہا اس کے بغیر۔ کل اس کا فون آیا تھا تو کہہ رہا تھا بابا اپنا خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کہ اب کی بار تم آؤ گے تو اپنا اور تمہارا خیال رکھنے والی پیاری سی بیٹی لے آؤں گا۔۔ ہنس کر کہنے لگا۔۔ میں اپنے لیے مما ڈھونڈتا ہوں ۔۔ اور آپ بیٹی ۔۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔
    وقت بھی کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ معاذ کہ نوکری کو بھی کافی سال ہو گئے ہیں۔ فون پر بتا رہا تھا کہ بارڈر پہ تعیناتی ہوگئی ہے۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے معصوم لوگوں پہ فائرنگ کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا خون کھول اٹھتا ہے۔ بس نہیں چلتا کہ ختم کر دوں ۔۔ وہ بول رہا تھا ۔۔ میں پریشان ہو گیا۔ حالات بھی تو ایسے ہیں۔ اللہ اس کی حفاظت کرے۔ آمین

    بریکنگ نیوز ۔۔ بھارتی افواج کی جانب سے دو فوجی اور کئی شہری زخمی ۔ پاکستانی فوج کی بھرپور جوابی کاروائی۔ وزارت خارجہ کو طلب کر لیا گیا۔
    آج پھر وہی خبر چل رہی تھی، یہ تو اب روز کا معمول تھا۔ ہر ایسی خبر پہ میرا دل کسی بچے کی طرح روتا اور معاذ کی خیریت کی اطلاع ملتے ہی خاموش ہو جاتا جیسے بچے کو ماں نے پیار کیا ہو ۔۔ میرا دل بہت پریشان ہو رہا تھا۔ فون کی گھنٹی پر میں نے فورا ریسیور اٹھایا۔۔
    معاذ بیٹا ۔۔ میں نے اٹھاتے ہی بےساختہ کہا تھا۔
    بولنے والی آواز کسی گولی کی طرح میرے سینے کے پار ہوئی تھی۔ ٓآپ کے لیے فخر کی بات ہے کہ آپ کا بیٹا بھارتی افواج کی جانب سے فائرنگ پہ اک شخص کو بچاتے دشمن کو گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
    اللہ آپ کو صبر کی تو فیق دے۔ خبر تھی کہ گولی۔۔؎۔۔ میرا دل چھلنی ہوگیا۔۔ درد تھا بےانتہا درد ۔۔ اپنے لخت جگر کی موت پہ دل نے سسکنا چاہا۔ میں گم صم سا بیٹھ گیا۔میرے دماغ میں اس کی باتیں گونج رہی تھی۔۔ اور پھر جیسے رب کی رحمت نے مجھے اپنے سائے میں لیا ہو ۔۔ یہ قربانی تھی ۔۔ شہادت تھی ۔۔ اس وطن کے لیے جسے پانے میں ہم نے ایک دن میں لاکھوں لوگ گنوائے ۔۔ میرے اللہ نے اس کی خواہش کو پورا کر کر اسے ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا تھا ۔۔ بےشک ہم سب اللہ کی امانت ہیں ۔۔ میرا بیٹا شہید ہوا تھا۔دل و دماغ خالی ہو رہے تھے۔ میں نے خود کو سنبھالا ۔۔ آنسوؤں پہ بھلا کس کا اختیار؟

    انہی آنکھوں نے اسے بڑا ہوتا دیکھا تھا.. اس کی میت پہنچا دی گئی تھی.. لوگوں نے نعرہ لگاتے، اسے رخصت کیا تھا ۔۔ میں اسے اس کی آخری آرام گاہ میں پہنچا آیا ۔۔ اب روز وہاں جاتا ہوں اور مسکرا کر آنکھ میں آئے آنسو صاف کر کر کہتا ہو ں ۔۔گواہ رہنا۔۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔۔ اس کے کتبے پہ بڑے واضح لفظوں میں لکھوایا گیا تھا۔
    وطن کی مٹی گواہ رہنا
    کہ تمہاری آس میں
    بہت کچھ لٹایا ہے
    تم سے بے لوث محبت میں
    بہت سوں کو گنوایا ہے
    وطن کی مٹی گواہ رہنا

  • ایک تھا رانگڑ (1) – اویس قرنی

    ایک تھا رانگڑ (1) – اویس قرنی

    اویس قرنی (یہ سیف الملوک کی کہانی ہے، نہ داستانِ امیر حمزہ ، یہ وہ حکایت ہے جو شیخ سعدی نے نقصِ امن کے خدشے کے باعث گلستان میں نہ لکھی مبادا لینے کے دینے پڑ جائیں۔ یہ پانچویں درویش کا قصہ نہیں بلکہ چھٹے راجپوت کا کچا چٹھا ہے۔ بے شک یہ کہانی صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہے.)

    پتا نہیں کون سی دفعہ شاید 302 کا ذکر ہے کہ سسی کے پیدائشی علاقے میں ایک بچہ نما پیدا ہوا۔ والدین کو حیرت تو ہوئی لیکن قدرت کا تحفہ سمجھ کر دل و جان سے اسے قبول کر لیا۔ تاہم اس ضمن میں تاریخ گونگے کی طرح خاموش ہے کہ نومولود کے سر پہ موجود دونوں سینگوں کا کریا کرم کیسے ہوا۔ البتہ یادِ رفتگاں کے طور پہ نام رکھ دیا گیا، تاکہ ایک غیر رسمی سند رہے۔ فدوی کا ماننا ہے ”گدھے کے سر سینگ غائب ہونا“ والے محاورے کی وجہ تسمیہ پر تحقیق کی جائے تو محاورے کا سنِ پیدائش بھی شاید وہی نکلے گا۔ کسی نے مذاق میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ یہ ایک دن اتنا بڑا آدمی بن جائے گا کہ اس پر قلمکار قلم بازی کرتے پھریں گے، اس لیے موصوف کے حالات ِگزشتہ کسی نے یاد رکھنے یا لکھنے کی زحمت نہ کی۔ موصوف نےاس بات کو اتنا دل پرلے لیا کہ دل میں ”بڑا آدمی“ بننے کی ٹھان لی۔ کچھ سال کی لگاتار کوششیں جب رائیگاں گئیں تو موصوف نے ”واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں“ والے کلیے کے تحت کاغذات میں اپنا سنِ پیدائش ایک سال پرانا درج کروا کے سوچا دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

    اپنی خدادا د عصری حسیت کو کام میں لا کر بڑے رانا جی نے سو پشت سے چلے آرہے پیشہ آبا یعنی سپہ گری کو خیرباد کہا اور غالب کی طرح شاعری کو بھی ذریعہ عزت ِنہ گردانتے ہوئے کاشت کاری کو شرف بخشاتھا۔ تاآنکہ جب سلطنت دست بدست موصوف تک پہنچی۔ غالب امکان ہے کہ آپ نے آلسی طبیعت سے مجبور ہو کر سکول جانا گوارہ کیا مبادا کہیں کاشت کاری کا کوہِ گراں کھودنا پڑے۔ چند حاسدین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بچپن میں لیلیٰ مجنوں کے قصے میں مکتب والی واردات سے متاثر ہو کر آپ نے طالب علم ہونا گوارہ کیا کہ شاید تاریخ کا خود کو دہرانے کا موڈ بن جائے۔ لیکن لیلیٰ تو کیا لیلی (لے+لی) بھی نہ ملی۔ کچھ عرصہ منہ لٹکائے لٹکائے پھرے ۔

    ایک دن اٹواٹی کھٹواٹی لیے غور و فکر کے جوہڑ میں آلسی بھینس کی طرح گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ زیر ِغور مسئلہ ”وجوہاتِ عدم دستیابی لیلیٰ“ تھا۔ اور بقول شاعر ”ادھر ڈوبے، ادھر نکلے“ والا حال تھا۔ ایک ڈبکی کے دوران اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کل کیدو والا کردار ضیاءالحق ادا کر رہے ہیں۔ راجپوت خون تھا، کھول اٹھا۔ پس اس دن کے بعد اٹھتے بیٹھتے صدر کو بددعائیں دینا شروع کر دیں۔ خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع صدر تک پہنچا دی۔ صدر صاحب نے مجذوب کی بڑ سمجھ کر چٹکیوں میں کیوں نہ اڑا دیا ، اس ضمن میں موجود سب روایات درجہ ضعیف کی ہیں، اس لیے ان کا ذکر بےمحض اور طوالت کا باعث ہوگا۔ حقائق صرف اتنے ہیں کہ صدر سرکاری دورے کے بہانے دراصل چھوٹے راجپوت سے معاملہ سلجھانے تشریف لا رہے تھے، ادھر چھوٹے راجپوت کی چھٹی حس نے چغلی لگا دی۔ انتقامی جذبات سے مغلوب الغضب چھوٹے راجپوت نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء والا منتر (ہنوز بہاولپور دور است) پڑھنا شروع کر دیا اور صدارتی جہاز پانی پانی ہونے کے بجائے آگ آگ ہو گیا۔ دریائے ستلج کا کنارہ دیکھ کر پائلٹ کو خیال سوجھا کہ جہاز کو پانی میں ڈبکی لگوائی جائے۔ مگر پانی تو سندھ طاس معاہدے کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ پس ریت کے فرش پہ گرتے ہی اناللہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ ایک بادشاہ کو دفن کے لیے دو گز زمین نہ مل سکی تھی، اور ایک کو چلو بھر پانی نہ مل سکا۔

    حکومت بدلی اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم سے چھوٹے راجپوت کو امید ہوئی کہ ولایت سے پڑھ کے آئی ہیں، مخلوط تعلیم والا قانون اب بنا کہ اب بنا، لیکن عوام کو ”خواب دے کے جھوٹے موٹے“ اپنی تجوریاں بھرنے والے سرے محل اور گھوڑوں کے چاؤ چونچلوں میں ہی مصروف رہے۔ ظاہر میں تو غلام اسحٰق خان سبب بنے لیکن بعض لوگوں کو شک ہے کہ پیپلز پارٹی کا بوریا بستر گول کرنے میں چھوٹے راجپوت کی بدعا کارفرما تھی۔ تیر گیا، سائیکل آیا لیکن ”احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے“ نتیجہ پھر وہی، یعنی دو سال اڑھائی سال بعد حکومتوں کا آنا جانا لگا رہا۔ اور اس دوران رانا جی بھی مکتب سے پرائمری سکول میں علم کی منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضد میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا، اندرونی سبب شاید یہ تھا کہ آتش کی طرح رانا بھی جوانی کی جانب گامزن تھا۔
    گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
    لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
    اقتدار کا بٹیر جب دوسری بار پیپلز پارٹی کے ہاتھ آیا تو غالب کے مصرعے ”آبلوں پر حنا باندھتے ہیں“ کی طرح خاتون وزیر اعظم نے لغاری صاحب کو صدر بنا کر اپنے طور پہ پیش بندی کر لی، لیکن کالی زبان سے کون بچ سکا ہے، نتیجتاً راجپوت کی بددعا نے پیپلز پارٹی کے چراغ سے پیپلز پارٹی کو آگ لگا دی۔ بعض دل جلوں کا ماننا ہے کہ دراصل لغاری صاحب نے حقِ ہمسائیگی ادا کیا تھا۔
    مسلم لیگ بھی دوسری بار حکومت میں آئی اور راجپوت بھی سوزِ نہانی سمیت ہائی سکول میں آن پہنچا۔ حکومت شریعت بل، قرض اتارو ملک سنوارو، کارگل جنگ ، اور ایٹمی دھماکوں میں الجھی رہی، اور راجپوت امیدِ بہار میں شجر سے پیوستہ رہا۔ جب دیکھا کہ ان گنجوں میں بھی تیل نہیں تو بددعا والی تسبیح پھیرنے لگا. تسبیح پھرنے کی دیر تھی کہ عوامی مینڈیٹ کا دعویدار اڈیالہ جیل میں پچھتاتا نظر آیا، وہ تو سعودی عرب نے بیچ میں کود ا پھاندی کر کے بچا لیا ورنہ چھوٹے راجپوت نے اس بار طیارہ کیس میں پھانسی لگوانے کے لیے چلہ شروع کیا ہوا تھا۔

    مشرف صاحب کے انقلابی اقدامات سے راجپوت کو امید کی کرن نظر آنے لگی، میراتھن دوڑیں، پی ٹی وی کے خبر نامے سے اکتائے عوام کے لیے نئے چینلز کی بھرمار، روشن خیالی کے نعرے، اور سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ تک عوامی رسائی، نیز موبائل نیٹ ورکس کی ابتدا۔ ناامیدی کے اندھیرے چھٹتے ہی چھوٹا راجپوت بھی کھل اٹھا۔ جوانی تو جس پر بھی آئے غضب ہوتی ہے۔
    جوانی تو قانونِ قدرت سے مل گئی تھی لیکن ذہنی بلوغت کے لیے راناجی نے کتابوں کا سہارا لیا، مگر موصوف کا صرف عصمت چغتائی، منٹواور ممتاز مفتی کے شاہکاروں میں ہی دل لگتا تھا۔ خوب سے ہے خوب تر کہاں کی تلاش تو مولانا حالی کو تھی، مولانا راجپوت کے اندرونی ولولے انہیں ”محجوب سے ہوتا ہے کشف المحجوب کہاں“ پہ اکساتے کوک شاستر تک لے گئے۔ اب دنیا بازیچہ اطفال نظر آنے لگی، خواب میں پرستان کی سیر کو جایا کرتے، اور صبح اٹھ کے نہایا کرتے۔

    بچپن سے سنتے آئے تھے، اور فلموں میں بھی دیکھا تھا کہ کالج میں یہ آزادی اور وہ مزے ہوتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، سب سے بڑی بات یہ کہ کو ایجوکیشن، اور کچھ نہیں تو کم از کم ”ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں“۔ پس میٹریکولیشن کی خندق پھاند کے صادق آباد کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ مگر ہیہات ہیہات۔۔ جیسے غالب کا بندگی میں بھلا نہ ہوا تھا، بالکل اسی طرح چھوٹے راجپوت کا بھی کالج میں داخلہ تو ہوگیا مگر بھلا نہ ہوا۔ تحصیل سطح پر ابھی تک مطلوبہ انقلاب نہیں پہنچا تھا، اس لیے لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ کلاسز ہوتی تھیں۔ یوں ہر سال پے درپے آرزؤں کے لہولہان ہونے سے موصوف اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ اپنے تئیں منحوس فرض کر لیا۔ اور غالب کے مصرعے ”ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے“ کا پوسٹر بن کے رہ گئے۔

    بجھے ہوئے چونے کی طرح یہ بجھا بجھا رہنا امی حضور سے دیکھا نہ گیا، تو تبدیلی آب و ہوا و دانہ کی غرض سے اپنے طوطے کو چھٹیوں میں بہاولپور بھیج دیا۔
    عباسی نوابوں کا دارا لحکومت بہاولپور۔ ہر قسم کے حسن سے مالامال یہ شہر پاکستان کا پرستان کہلاتا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ کے حسینوں کی ایک آدھ نمایاں خوبی کے مقابلے میں بہاولپور کا حسن ”آنچہ ہمہ خوباں، تو تنہا داری“ کا امتیاز رکھتا ہے۔
    غالب نے مولانا فضلِ حق خیر آبادی کے سوال کے جواب میں آموں کی جو دو ضروری صفات بیان کی تھیں، کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں، وہ بہاولپور کی غزالانِ حور شمائل پر صادق آتی ہیں۔ غالب اگر کلکتے کے بجائے بہاولپور آئے ہوتے تو خدا لگتی کہتا ہوں کہ وہ غزل کلکتے کے بجائے بہاولپور کی مدح میں ہوتی ۔
    کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
    اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
    پس رانائے موصوف کے چودہ طبق روشن ہونا لازمی امر تھا۔ چھٹیاں گزار کے واپس تو چلے گئے لیکن دل بہاولپور ہی اٹکا رہا۔
    اٹھتے بیٹھتے بہاولپور کے خواب دیکھتے اور وہاں جا کے رہنے کی ترکیبیں سوچا کرتے۔ انہی دنوں پطرس بخاری کا مضمون ”ہوسٹل میں پڑھنا“ زیر مطالعہ آیا تو موصوف کو جیسے گیدڑ سنگھی ہاتھ آ گئی۔ آپ نے پطرس کے دلائل میں سے ”ہوسٹل“ کا لفظ ہٹا کے ”بہاولپور“ لکھا اور ”بہاولپور میں پڑھنا“ نامی تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں پیش آمدہ واقعات جزوی تبدیلی کے علاوہ بالکل پطرس کے مضمون جیسے ہی تھے، جن کا ذکر محض طوالت کا باعث ہوگا۔

    قصہ کوتاہ۔! رانا جی ایف ایس سی پاس کرتے ہی بی ایس سی کی غرض سے بہاولپور آن وارد ہوئے۔ شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے تو رانا جی کے لیے بھلا کیوں ہاتھ روک لیتا، پس موصوف کو قائداعظم میڈیکل کالج اور وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور کے قریب فرودگاہ دے دی گئی۔ گویا
    میڈیکل کالج کے پاس گھر بنا لیا ہے
    یہ بندہ حسینہ ہمسایہ وکٹوریہ ہے
    بہاولپور کا فسوں انگیز شہر ۔۔۔ اور وہ نازنین بتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے ۔۔۔ وکٹوریہ ہسپتال کی خوش ادا تقویٰ شکن لیڈی ڈاکٹرز ۔۔۔ صبر آزما وہ ان کی نگاہیں کہ حف نظر ۔۔۔ زہد سے تائب کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال، نظر نواز نرسیں ۔۔۔۔ طاقت ربا وہ ان کاا شارہ کہ ہائے ہائے ۔۔۔
    بس پھر کیا تھا ۔۔۔ رانا جی نے جب حسن کو تغافل سے جرات آزما پایا تو کچھ عرصہ اس چکا چوند کے باعث سکتے میں ہی رہے۔ جب ذرا ہوش حواس قائم ہوئے تو ”کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے“ والی صورت حال درپیش رہی۔ بھلے وقتوں میں کیا ہوا ”علی پور کا ایلی“ کا مطالعہ کام آیا، اور رانا جی اینکر اینڈی باماؤں، ہکوری ڈکوری اور کپ، کیپ والی تھیوری کی حقیقت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے ممتاز مفتی صاحب کے دل و جان سے معتقد ہو گئے۔ آنکھیں سیکتے سیکتے جب موصوف کے دماغ کو بھی اچھا خاصا سیکا لگ گیا، اور نوبت بہ اینجا رسید کہ ان کی گرسنہ نگاہی سے استانیاں بھی شرمانے لگیں۔ حالانکہ موصوف اس بات سے آج بھی صاف مکر جاتے ہیں لیکن معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اربابِ یونیورسٹی کے کانوں پر جوؤں نے رینگنے کے بجائے جلسے جلوس شروع کر دیے تھے۔ صاحبان اختیار چونکہ اہنسا کے قائل تھے، اس لیے جوئیں مارنے کے بجائے ”سانپ بھی مر جائے اور آمدنی بھی نہ چھوٹے“ والی ترکیب پر عمل کیا۔ یعنی دو سمسٹرز بعد رانا جی کو جبری ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ ناقدین کے سامنے رانا جی نے ناک بچانے کے لیے، اپنی علمی پیاس اور لاہور بہاولپور سے بڑا شہر ہے، قسم کے دلائل کا سہارا لیا، نیز یہ تک کہہ دیا ”ہے اس معمورہ میں قحطِ غم الفت اسد“ اور ”انشا جی نکلو اب کوچ کرو ، اس شہر میں جی کو لگانا کیا“ ، گنگناتے ہوئے لاہور چل پڑے۔

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت – آخری قسط – ریحان اصغر سید

    بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
    مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
    دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
    آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
    یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
    سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
    میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
    آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
    ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
    تم کیا چاہتے ہو ولی؟
    ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
    ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
    وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
    ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
    ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
    ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
    سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
    میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
    میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
    ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
    مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
    ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
    کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
    تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
    تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
    میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
    ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
    الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
    میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
    یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
    کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
    شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
    واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
    آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
    بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
    میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
    سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
    سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
    ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
    چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
    آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
    لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
    لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
    میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
    کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
    الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
    میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
    یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
    اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
    اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
    ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
    میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
    ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
    ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
    لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
    شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
    کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
    تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
    یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
    معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
    ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
    میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
    میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
    میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
    یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
    انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
    آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
    الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
    ہمیں بتائیے؟؟
    بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
    بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
    میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
    الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
    ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
    رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
    بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
    جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
    لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
    اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
    اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
    میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
    دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
    میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
    میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
    میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
    ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
    لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
    یہی ہے وہ شخص؟
    میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
    باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
    میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
    دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
    ہیلو، میں بمشکل بولا۔
    الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
    اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
    رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
    اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
    جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
    جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
    السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
    جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
    مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
    میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
    الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
    میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
    آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
    اللہ حافظ
    ختم شد

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • مذموم محبت – حنا تحسین طالب

    مذموم محبت – حنا تحسین طالب

    محبت دل میں اتری تھی
    کسی آسیب کی صورت
    میری خوش رنگ دنیا میں
    اندھیری رات کی صورت
    شب ماہ کامل میں
    بھیانک خواب کی صورت
    سلگتی راکھ کی صورت
    محبت دور تھی جب تک
    بہت خوش باش رہتے تھے
    ہمیشہ شاد رہتے تھے
    ویرانے رہ گئے اب تو
    محبت کھا گئی رونق
    اجاڑا دل کی دنیا کو
    کسی سفاک کی صورت
    محبت دل میں اتری تھی
    کسی آسیب کی صورت

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    میں کچھ دیر حیرت کی شدت سے کچھ بول ہی نہیں پایا اور سکتے کی کیفیت میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو تکتا رہا۔ جو اب اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنے پر پھنسائے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار ان پر بہت ترس آیا۔ میں اپنے بارے میں قطعاً کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھا، ایک معمولی پس منظر کا معمولی جاہل انسان۔ جس کے پاس تعلیم، خاندان، شکل و صورت کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے مقابلے میں بیگم صاحبہ کے پاس سب کچھ تھا۔ میں انھیں کسی بھی لحاظ سے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ ان کے لائق تو کوئی ان جیسا خاندانی، اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت انسان ہونا چاہیے۔ کوئی آرمی کا کرنل، پائلٹ، ڈاکٹر یا پھر کوئی اعلی سرکاری افسر۔ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کے عشق میں کوئی بھی مرد گرفتار ہو سکتا تھا۔ میرے دل میں موجود ان کے لیے محبت اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ میں فورا انکار کر دوں اور کہوں کہ میری جان بچانے کی یہ قیمت بہت بڑی ہے اور آپ میری جان بچانے کے چکر میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ میں آپ کی زندگی کو اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا وہ بہت غیر معمولی ہے لیکن اب میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں یہیں سے پنجاب لوٹ جاتا ہوں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ آپ بھی اس قصے کو یہیں ختم کر دیجیے۔ حارث نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، میں آپ کے صدقے اسے معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

    میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ میرا نکاح میری خالہ زاد کے ساتھ لڑکپن میں ہی کر دیا گیا تھا اور وہ گھر بیٹھے میری راہ تک رہی ہے۔ اگلے سال مارچ اپریل تک ہماری شادی ہے لیکن میں ان باتوں میں سے انھیں کچھ بھی نہیں بتا پایا۔ ایک عجیب سے کمینگی اور خودغرضی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاید میری رگوں میں دوڑتا معمولی خون اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ میری عقل مجھے سمھا رہی تھی کہ بے وقوف، جس کے تو دن رات سپنے دیکھتا رہا ہے، وہ تجھے مل رہی ہے، تجھے اور کیا چاہیے؟ زندگی میں ایسے مواقع روز روز اور ہر کسی کو نہیں ملتے۔ ایک معمولی نوجوان سے ایک امیر کبیر پری کی شادی، ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے یا پھر رومانی رسالوں میں، اور تیری منکوحہ شمسہ کا کیا ہے، نہ شکل و صورت اور نہ رنگ روپ۔ تین مرلے کے کچے مکان اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک معمولی لڑکی جس کے جسم سے ہر وقت ایک ناگوار سی بُو اٹھتی ہے۔ یہاں سے لوٹو گے تو ساری عمر غربت کی چکی میں پستے ہوئے گزارنی پڑے گی۔
    چلیں؟
    بیگم صاحبہ نے شاید میری خاموشی سے تنگ آ کر کار کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
    کار میں بیٹھ کر میں نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھے بنا کہا،
    میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
    تو ساحل میں سمندروں کی ہوا
    چھوٹی بیگم صاحبہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
    ہمیں تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

    میں نے بہت محتاط لفظوں میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنے بچپن اور ماضی کے بارے میں تفصیلاً بتایا لیکن اپنے نکاح کی بات گول کر گیا۔ ہمت کر کے میں نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ میں چپکے چپکے ان پر کتنا مرتا رہا ہوں اور دن رات ان کے سپنے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انھیں اپنے اور ان کے متوقع نکاح کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیم دلانہ سی کوشش کی۔ میں انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے دلائل تو دے رہا تھا لیکن دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ قائل ہی نہ ہو جائیں اور نہ ہی میں انھیں کوئی ایسی دلیل دینا چاہتا تھا کہ جس سے وہ قائل ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری ساری باتیں بہت غور و تحمل سے سنیں۔
    اوکے ! لیٹس میک اِٹ سِمپل۔
    ہم نے آپ کی ساری گفتگو سے جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ کہ آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں اور ہم سے شادی بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو صرف دو باتوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمارے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا آپ ڈر رہے ہیں کہ ہماری شادی کے بعد ہمیں خاندان و سماج کی بہت ساری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم آئی رائٹ؟؟
    جی بیگم صاحبہ ! میں نے تائید کی۔
    آئی جسٹ ڈونٹ کیئر! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا میں کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا الیاس؟
    کار رک چکی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ دل و جان سے میری طرف متوجہ تھیں۔ میں سرشاری کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔
    الیاس ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سے اقرار کرنے کے بعد آپ کے لیے واپسی کے سارے رستے بند ہو جائیں گے۔ آپ پر ہماری فیملی، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی فیملی کا بھی شدید دباؤ آئے۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈرایا جائے یا لالچ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم دونوں قتل کر دیے جائیں۔ آپ نے جو کچھ سوچنا ہے، ابھی سوچ لیجیے. بعد میں پچھتانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
    بیگم صاحبہ کے چہرے پر بے پناہ سختی اور ان کی روایتی بے نیازی نمودار ہو چکی تھی۔
    میں مر جاؤں گا لیکن اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے ہاتھ تو کاٹے جا سکتے مگر آپ کے ہاتھ سے چھڑوائے نہیں جا سکتے۔ میں نے بے اختیار چھوٹی بیگم صاحبہ کا ہاتھ تھام لیا۔

    ولی خان نے گھر جا کر سیٹھ صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سیٹھ صاحب کی چھوٹی بیگم صاحبہ کو دو دفعہ کال آ چکی تھی لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔ کراچی پہنچ کر ہم سیدھے کورٹ چلے گئے۔ جہاں ایک وکیل نے پارکنگ میں ہمارا استقبال کیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا لیکن مستقبل کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ حسب معمول پرسکون و پراعتماد تھیں۔ دوپہر تک ہم ساری کاغذی کاروائی مکمل کر کے باقاعدہ ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو گھر جلدی جانا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ وقتی طور پر اپنے کزن کے گھر چلا جاؤں لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نہیں مانیں۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے بنگلے پہنچیں۔ میں اپنے کواٹر میں چلا گیا اور چھوٹی بیگم صاحبہ سیٹھ صاحب کے پاس چلی گئیں جو ان کے انتظار میں آج آفس نہیں گئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے میری مرہم پٹی حیدرآباد سے ہی کروا دی تھی۔ میں درد کش گولیاں کھا کر لیٹ گیا۔

    ساری رات کی ہلچل اور رت جگے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا لیکن میری توجہ دروازے پر ہی مرکوز رہی۔ کبھی لگتا کہ ابھی دھماکے سے دروازہ کھلے گا اور سیٹھ صاحب یا ولی خان مجھے گولیوں سے سے بھون دیں گے۔ پھر سیٹھ صاحب کی بردباری اور بیگم صاحبہ کے لیے ان کی محبت دیکھ کر دل کو تھوڑی ڈھارس بندھتی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میرے کوارٹر کے دروازے پر ایک نفیس سے دستک ہوئی۔
    میرا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ ہیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور چھوٹی بیگم صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ وہ پہلی دفعہ میرے کمرے میں آئی تھیں، اس لیے کافی دلچسپی سے اردگرد کا معائنہ کر رہی تھیں۔ میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
    آپ کی بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی ہے؟؟ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا بتایا ہے؟؟
    میں نے بے چینی سے پوچھا۔
    ہاں ! ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے اور ہم پر بہت غصہ بھی ہوئے، مگر ہم بھی ہم ہیں، جب ہم بھی غصے میں آ گئے تو انھیں نارمل ہونا پڑا۔ کیا کریں بے چارے، وہ ہم سے محبت جو اتنی کرتے ہیں۔ ان کی جان ہمارے اندر ہے، ہمیں پتہ تھا کہ وہ مان جائیں گے۔ ابھی وہ آپ کو بلا رہے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بڑے شوخ و چنچل انداز میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک رات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھیں مگر پھر بھی فریش اور کھلی کھلی لگ رہیں تھیں۔

    میں ان کی راہنمائی میں چلتا ہوا بنگلے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ اس سے بیشتر میں اس حصے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ بنگلے کی شان و شوکت مجھے مرعوب کر رہی تھی۔ ایک شاندار کمرے میں سیٹھ صاحب ٹہل رہے تھے۔ سفید ریشم کی شلوار قمیض میں ان کی شخصیت مجھے ہمیشہ سے زیادہ بارعب و پرقار لگی۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چھوٹی بیگم صاحب کو تشریف لے جانے کا کہا۔
    ہم تو کہیں نہیں جا رہے، یہیں بیٹھے ہیں۔ آپ کو جو بات کرنی ہے ہمارے سامنے ہی کیجیے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے میرے قریب ہی ایک صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔
    سیٹھ صاحب کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
    بےبی، سٹاپ اِٹ ! اتنی بڑی حماقت کے بعد تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں اور شوخی زہر لگ رہی ہیں مجھے، جاؤ یہاں سے۔ جب میں نے ایک دفعہ تم سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور الیاس کی زندگی محفوظ رہے گی تو پھر تمہیں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمہارے بابا کی زبان ہے۔
    بےبی عرف چھوٹی بیگم صاحبہ پر اس تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنے چہرے کو ہاتھوں پر ٹکا رکھا تھا۔ سیٹھ ٓصاحب کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹھنک کر بولیں،
    تو بابا ہم نے کب کہا ہے کہ ہمیں آپ کی بات یا زبان پر ڈاؤٹ ہے۔ ہم تو بس الیاس کی مورل سپورٹ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، دیکھیں نا کتنے گھبرائے ہوئے ہیں بیچارے۔ ہم بھی اٹھ کر چلے گئے تو خاک بات کر پائیں گے آپ سے۔ بابا ہم پرامس کرتے ہیں کہ آپ دونوں کی کنورسیشن میں بالکل نہیں بولیں گے۔
    سیٹھ صاحب بے بسی سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئے۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور ایک طویل کش لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پرسوچ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔

    الیاس ! ہمیں بہت افسوس ہے تم پر۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کرو گے۔ ہم نے ہمیشہ تمھیں اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی۔ اپنی سب سے قیمتی چیز ہماری بیٹی کے لیے تم پر اعتماد کیا، میرے احسانات کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟
    چلو بےبی تو بچی ہے مگر تم تو میچور مرد ہو۔ بجائے اسے سمجھانے کے تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شادی کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟؟
    بابا ۔۔۔۔! چھوٹی بیگم صاحبہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
    شٹ اپ ، آئی سے جسٹ شٹ اپ ! سیٹھ صاحب بھڑک اٹھے۔
    کم از کم اپنے الفاظ اور اپنی زبان کا پاس کرنا سیکھ لو کہ تم پر کوئی اندھا اعتماد کرے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ سیٹھ صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی اور کاٹ تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھبرا کے اپنے منہ کے سامنے کشن رکھ لیا۔
    سیٹھ صاحب انھیں کچھ دیر گھورتے رہے۔۔ اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اب دوبارہ تمہاری آواز نہ آئے۔۔
    تھوڑا سا پانی پینے اور سگار کے ایک دو کش لینے کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔
    دیکھو الیاس ! تم نے ہمارا رہن سہن اور ہماری کلاس دیکھ رکھی ہے۔ بےبی کا بچپن برطانیہ میں گزرا ہے۔ میں نے ساری زندگی اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس نے شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری ہے۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ تم اسے کہاں رکھو گے؟ اور اس کی شاہانہ ضروریات کیسے پوری کرو گے؟ میں تمہاری انسلٹ نہیں کر رہا لیکن تم خود غیر جانبداری سے مجھے جواب دو کہ کیا تم اور بےبی کسی بھی طور پر میاں بیوی لگتے ہو؟ اپنی تعلیم، شکل و صورت اور سٹیٹس دیکھ کر کیا تمھیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کر دی ہے ہمارے ساتھ۔
    سیٹھ صاحب کے لہجے میں تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اور میں شرم سے زمین میں گڑ رہا تھا۔
    الیاس ! بےبی بہت رحمدل اور حساس بچی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میرے بھتیجے نے بہت زیادتی کی ہے اور اِس پاگل نے اپنے کزن کے ظلم کی تلافی کے لیے خود کو تمھارے نکاح میں دے دیا ہے۔ اور تم نے بھی خوب بدلہ لیا ہے ہم سے۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو الیاس۔۔۔! جس طرح بےبی نے آدھی رات کو جا کر تمھیں ریسکیو کیا اور تمہاری مرہم پٹی کروائی، کون کرتا ہے اپنے ملازموں کے لیے اتنا؟ اور اس کے بعد تم لوگوں نے کورٹ میں جا کر نکاح والا تماشا کیا ہے۔ کوئی بھی دوسرا صاحب حیثیت گھر ہوتا تو تمہاری لاش اس وقت کچرے پر پڑی ہوتی۔۔!
    بڑے صاحب، میں۔۔۔۔۔!
    میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مجھے بولنے سے روک دیا۔ سگار کا کش لگا کر انھوں نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔
    اب میں کس منہ سے حارث کی سرزنش کروں۔ تم لوگوں نے تو اس کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اگر حارث کو پتہ چلا کہ تم نے بےبی سے نکاح کر لیا ہے تو وہ زندہ چھوڑے گا تمھیں؟
    جواب دو!
    سیٹھ صاحب نہایت غضب ناک ہو چکے تھے۔ میں چپ چاپ سر جھکائے پیر کے ناخن سے قالین کھرچتا رہا۔
    میں نے بےبی سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارا نکاح برقرار رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے میری کچھ شرائط ہیں۔
    میں نے سر اٹھا کر سیٹھ صاحب کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں قیامت کی سنجیدگی اور سختی تھی۔
    کمرے میں کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔

    کیسی شرائط بابا؟ چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں کچھ پریشانی جھلک رہی تھی۔
    بے فکر رہو بیٹا! میری شرائط کچھ ایسی ناجائز نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ میرے کچھ تحفظات ہیں۔ انھیں دور کیے بنا میں تمہیں الیاس سے نہیں بیاہ سکتا۔ بطور باپ یہ میرا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ میں آپ کے فیوچر کو سیکیور و پرعزت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کروں۔ سیٹھ صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
    بڑے صاحب! چھوٹی بیگم صاحبہ سے خلع کی شرائط کے علاوہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔
    مجھے تم سے ایسی ہی تابعداری کی امید تھی۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مناسب وقت آنے تک تم دونوں اس نکاح کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔ کسی سے بھی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو میں الیاس کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
    میں پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے گا لیکن بڑے صاحب کا موڈ دیکھ کر محض صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
    میری دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم دونوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم دونوں علیحدگی میں نہیں ملو گے۔ نو باڈی ریلیشن شپ، ناٹ ایٹ آل ! اگر ایسا کچھ ہوا تو الیاس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔ بےشک قانونی طور پر تم لوگ میاں بیوی بن چکے ہو لیکن شرعا والی ایسا نکاح منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جو بالکل بےجوڑ اور ہتک آمیز ہو، میں صحیح غلط کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ بس تم میری اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لو کہ جب تک تم لوگوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم میری بیٹی سے دور رہو گے۔
    بڑے صاحب کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مجھے بے اختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو صوفے پر ٹانگیں فولڈ کیے گود میں پڑے کشن کے ریشمی غلاف کے دھاگے کھینچ رہی تھیں۔
    مجھے منظور ہے۔۔ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔
    میری تیسری شرط یہ ہے الیاس کہ تمھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمارے سوسائٹی کے قابل بناؤ، ہمارا انداز و اطور اور رہن سہن اپناؤ۔! تم جو بھی بزنس کرنا چاہتے ہو کرو، تمھیں سرمایہ میں فراہم کروں گا۔ میں تمہیں ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اپنی تعلیم مکمل کرو، تب تک بےبی کی ڈگری بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر میں تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے تمہیں خود کو بےبی کا اہل ثابت کرنا ہے۔
    جی! بڑے صاحب میں پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر جواب دینے سے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا، حسب سابق اسی شغل میں مشغول تھیں۔
    صرف کوشش نہیں کرنی۔۔! تمیں کامیاب ہونا ہے۔۔! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر تم واقعی بےبی سے محبت کرتے ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ کسی بزنس کا تجربہ ہے تمہیں؟؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟
    یہ سوال میرے لیے کافی غیر متوقع تھا ۔
    میں نے اس بارے میں کچھ سوچا نہیں بڑے صاحب۔۔! مجھے کسی قسم کے بزنس کا تجربہ نہیں ہے۔
    ھووووں۔۔! سیٹھ صاحب نے ایک ہنکارا بھر کر سگار کر کش لیا۔
    ہماری ایک کنسٹرکشن کمپنی ابوظہبی میں بھی ہے۔ کیوں نہ تمہیں وہاں بھیج دیا جائے؟ یوں تم حارث کی نظروں سے بھی دور رہو گے اور کام بھی سیکھ جاؤ گے۔ اگر تم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو کچھ عجب نہیں کہ میں وہ کمپنی تمہیں شادی کے تحفے میں دے دوں۔
    میں نے چونک کر بڑے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کنفیوژ ہو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا تو انھوں نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
    ٹھیک ہے بڑے صاحب ! جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ میری اندرونی خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ آئیں۔
    اور میری ایک آخری شرط بھی ہے جسے تم میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہو۔
    حارث کو معاف کر دو۔۔! حارث ایک جذباتی ٹین ایج بچہ ہے۔ وہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ کبھی اس سے بدلہ لینے کا خیال دل میں مت لان ا۔۔ اسی میں تمہاری اور سب کی بہتری ہے۔
    بڑے صاحب! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں حارث صاحب کو پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔
    چلو ٹھیک ہے۔ بےبی آج رات ہی لندن اپنی نانی اور ماموں کے گھر دو تین ہفتے کے لیے جا رہی ہے۔ اس کا پروگرام تو کچھ دن بعد کا تھا لیکن میں نے اس کی آج رات کی ہی ٹکٹ کروا دی ہے۔ تم بھی اپنا سامان پیک کر کے میرے کلفٹن والے فلیٹ میں چلے جاؤ۔ اب تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کل تمہارے پاس میرا ایک شخص آئے گا جو تمہارا ارجنٹ پاسپورٹ بنوا دے گا۔ تم اگلے دس دن میں ان شاءاللہ ابوظہبی میں ہوگے۔ بڑے صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
    بےبی تمہیں میرے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟
    بابا! ہم پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں اور گلٹی فیل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ہماری اور الیاس کی بہتری کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
    اپنے کوارٹر میں آ کر میں نے اپنا سامان پیک کیا مگر روانہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے رات دس بجے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ میں انھیں آخری بار دیکھنا چاہتا تھا کہ نہ جانے اب کب ملاقات ہو۔

    دس بجے بنگلے کے پورچ میں سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز آ کر رکی۔ کالی شلوار قمیض کے نیچے جوگرز پہنے اور اپنی رائفل گلے میں لٹکائے ولی خان بھی آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب بنگلے کے اندرونی حصے سے باہر آئے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھٹنوں تک سفید رنگ کی بڑی خوبصورت فراک پہن رکھی تھی جبکہ دونوں بازو چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی انھیں اتنے اہتمام سے میک اپ کیے اور تیار ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
    شاید یہ تیاری میرے لیے تھی۔ میرا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ میں اندھیرے میں کوارٹر کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔ انھوں نے کار میں بیٹھنے سے پہلے میرے کوارٹر کی طرف دیکھ کر شرما کر ہاتھ ہلایا۔ جانے انھیں کیسے معلوم پڑ گیا کہ میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں۔۔
    ولی خان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑے صاحب اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کار روانہ ہو گئی۔
    اس کے چند منٹ بعد ہی میں بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے، گیٹ پر کھڑے گارڈز سے سلام دعا کرتے ہوئے بنگلے سے نکل آیا۔ رکشہ لینے کے لیے مجھے کچھ دور تک پیدل چلنا پڑا۔ سیٹھ صاحب نے پچاس ہزار سے بھی زائد رقم میری جیب میں ڈال دی تھی۔ میں رکشہ میں بیٹھا سیٹھ صاحب کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ سیٹھ صاحب نے بظاہر بڑی ہوشیاری سے مجھے چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور ہٹا دیا تھا۔ انھیں یقیناً مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار و اعتماد نہیں رہا تھا۔ اس لیے نہ صرف انھوں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو لندن بھیج دیا تھا بلکہ ان کی واپسی سے پہلے مجھے ابوظبہی روانہ کرنے کے انتظامات بھی کر دیے تھے۔ انھوں نے یہ سب انتہائی غیر محسوس انداز میں کیا تھا۔ میں جتنا بڑے صاحب کی معاملہ فہمی اور فراست کا قائل ہوتا جا رہا تھا، اتنا ہی ان سے مزید خوفزدہ اور مرعوب ہوتا جا رہا تھا۔

    کلفٹن کا فلیٹ بہت شاندار تھا۔ اگلے کچھ دن میں میرا پاسپورٹ اور ابوظہبی کا ویزہ بھی آ گیا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دو تین بار چند منٹ کے لیے بات ہوئی مگر میں ان کو اپنے خدشات سے آگاہ نہ کر پایا۔ وہ اپنے بابا سے کافی خوش تھیں اور ہم دونوں کے مستقبل کے لیے کافی پرجوش بھی۔
    ابوظہبی کے لیے میری فلیٹ رات دو بجے کی تھی۔ میں رات دس بجے کے قریب تیاری مکمل کر کے فلیٹ سے نکلنے ہی والا تھا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے ولی خان کو دیکھا۔ یہ فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی چند کھڑکیاں سڑک والی سائیڈ پر بھی کھلتی تھیں۔ ولی خان لیدر کی جیکٹ اور جینز میں ملبوس ایک سپورٹس بائیک پر سوار تھا جو بڑے صاحب نے اسے لے کر دی تھی۔ بڑے صاحب واقعی اپنی ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
    میں نے کمرے کی لائٹ کو بند کیا اور پردے کے پیچھے سے ولی خان کو دیکھنے لگا۔ آج خلاف معمول اس کے گلے میں رائفل نہیں جھول رہی تھی مگر قابل تشویش بات یہی تھی کہ وہ میرے فلیٹ کی طرف ہی متوجہ تھا۔ پھر وہ اپنی مخصوص چال چلتا بلڈنگ کے گیٹ کی طرف آیا۔
    کچھ دیر بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ولی خان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا اور اس کا چہرہ ہر وقت بخار سے تپا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اور گالوں پر داڑھی
    کے چند لمبے بال تھے۔
    ام چھوٹا سا تھا جب امارا والد صاب، بڑے صاب پر قربان ہو گیا۔ ماں تو پہلے ہی گزر گیا تھا۔ امارے والد کی لاش خون میں لت پت بنگلے کے صحن میں چارپائی پر پڑا تھا۔ جب بڑے صاب نے امارے سر پر ہاتھ رکھ کر بولاولی فکر نہ کرنا۔ اب ام تمہارا باپ ہے۔ پھر بڑے صاب نے امارا باپ ای نہیں ، ماں بن کر بھی پالا۔ ہمیں اچھے سکول پڑھایا۔ تمہیں اماری شکل دیکھ کر یقین نہیں آئے گا مگر ام کراچی کے سب سے مہنگے کالج کا گریجویٹ ہے۔ دنیا کے چھ زبانیں پَھر پَھر بولتا اے۔ بڑے صاب نے امارا ہر خواہش کا احترام کیا اور اسے پورا کیا۔ تم مانو گے نہیں کہ اس وقت امارے اکاوئنٹ میں جتنا پیسہ ہے، اور شہر میں ہمارے نام پر جتنی جائیدار ہے وہ چھوٹے صاحبوں کے نام پر بھی نہیں ہے۔ بڑا صاب امارا صرف مالک ہی نہیں بلکہ باپ بھی ہے اور اس وقت امارا باپ تم جیسی گندی نسل کی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہے۔ بڑے صاب کا ٹینشن ام نہیں دیکھ سکتا۔ خدایا پاک کی قسم ! امارا بس چلے تو تمیں قتل کر کے تمہارے ٹکڑے کر دے۔ حیدر آباد کا ایس ایچ اور سچا تھا۔ تم واقعی نمک حرام ہو۔ جس ٹہنی کا پھل کھاتا ہے اسی کی جڑیں کاٹتا ہے۔
    ولی خان غصے سے کھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے شدید خطرے کا احساس ہوا۔
    بڑا صاب اپنے سگے بیٹوں سے پرشانی چھپا لیتا ہے مگر اپنا دل امارے سامنے کھول دیتا ہے۔ امارا بس نہیں چلتا کہ اس کی پرشانی کیسے دور کرے۔ ام نے خود پر بہت جبر کیا مگر آج خود کو روک نہیں پایا۔ یہ گن دیکھ رہے ہو؟ اب یہ تومارے اور امارے درمیان پھسلہ کرے گا۔ ام دونوں میں سے یہاں سے ایک ہی زندہ واپس جائے گا۔ ولی خان نے جیکٹ کے نیچے سے ماوزر نکال کر میز کے اوپر رکھ دیا۔
    الیاس خان ! تمہارے پاس دو آپشن ہیں۔
    نمبر ایک، اپنی قیمت بول۔ کیا چاہیے تمیں ایک کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑ ؟؟ پچاس کروڑ تو ام اپنے پلے سے دے سکتا ہے۔ اپنی قیمت لے۔ اس طلاق نامے پر سائن کر اور دفعہ ہو جا۔ دوبارہ کبھی امارے سامنے مت آنا ورنہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
    دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر مرد کا بچہ ہے اور حلال اولاد ہے تو یہ ماؤزر تمہارے سامنے پڑا ہے اور اس کے میگزین میں گیارہ گولیاں ہیں۔ ساری کی ساری امارے سینے میں اتار دے۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس۔
    پتہ نہیں زندگی میرے ساتھ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ جب کبھی میں منزل پر پہنچنے لگتا تو ایک ڈیڈ اینڈ سامنے آ جاتا اور لگتا کہ اب میں بچ نہیں پاؤں گا۔ پھر مقدر یاوری کرتا اور میں عروج کی طرف سفر کرنے ہی لگتا تھا کہ دوبارہ بگولے میرے پاؤں پکڑ لیتے۔
    اگر میں کہوں کہ مجھے تمہارے دونوں آپشن قبول نہیں ہیں، تو؟؟ میں نے صوفے کی ٹیک سے پشت لگا کر عزم سے کہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرنا ہی ہے تو عزت سے مروں گا، کسی کی دھمکی دھونس میں نہیں آؤں گا۔
    پھر امارے پاس بھی دو ہی آپشن ہے۔ پہلا تجھے قتل کر کے چلا جائے۔ دوسرا حارث صاب کو فون کر کے تمہارے نکاح اور لوکیشن کے بارے میں بتا دے۔ باقی حارث صاب جانے اور تم جانے۔! ولی خان نے بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
    ولی خان تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔۔۔!! میں لائبہ بی بی کو طلاق نہیں دوں گا۔
    میرے لہجے کی دلیری اور عزم نے ولی خان کو چونکا دیا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اس نے ماؤزر اٹھا کر بیلٹ کے نیچے اڑسا۔ طلاق کے کاغذات رول کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور کھڑا ہو گیا۔
    مرد کا بچہ اے توم بھی۔۔۔ ام یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم زندگی کے کسی موڑ پر ڈر کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو چھوڑ تو نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر ولی خان تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا فلیٹ سے نکل گیا۔

    کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ ولی خان تیز آدمی ہے مگر وہ اتنا عیار اور اتنا بڑا اداکار بھی ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ یہ سٹنٹ ولی خان نے اپنے طور پر کھیلا ہے یا اس کے پیچھے سیٹھ صاحب ہیں۔ یہ سخت نفسیاتی قسم کا بھرپور وار تھا جس سے میں بمشکل بچا تھا۔ میرے خدشات و تفکرات میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ابوظہبی پہنچ کر میں مکمل طور پر بڑے صاحب کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اگر وہ چاہتے تو میں بآسانی کسی حادثے یا مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
    ابوظبہی ائیر پورٹ پر مجھے بڑے صاحب کی کنسٹرکشن کمپنی کے مینیجر نے ریسیو کیا۔ اس کا نام زکریا تھا۔ زکریا بہت کھلا ڈھلا اور خوش باش بندہ تھا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر جگہ میری راہنمائی کی۔ اگلے دن اس نے مجھے کمپنی کے ہیڈ آفس اور آس پاس چلنے والے پروجیکٹس کی سائٹس کا معائنہ کروایا۔ میری رہائش کا بندوبست ایک معقول فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس بن جانے کے بعد مجھے ایک ٹیوٹا لیکسس کار بھی عنایت کر دی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے خدشات دھلتے جا رہے تھے۔ بڑے صاحب نے مجھے آفس کے بجائے ایک بڑی سائٹ کے پروجیکٹ مینیجر کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ پروجیکٹ مینیجر پاکستان میں سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور اس کا نام سہیل علی تھا۔ ایک ہی علاقے کے ہونے اور ڈیوٹی ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔
    مجھے یہاں آئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دوسرے تیسرے دن چند منٹ بات ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ فطرتاً ہی کم گو تھیں۔ دوسرا انھوں نے مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی میں کوئی ایسی جرات کر پایا تھا حتی کہ میں انھیں چھوٹی بیگم صاحبہ کے نام سے ہی بلاتا تھا مگر انھوں نے مجھے کبھی منع نہیں تھا کیا اور نہ ہی خود کو کبھی اصل نام سے بلوانے کی فرامائش کی۔ سہیل کے تعاون کی وجہ سے میں کام کو بڑی تیزی سے سمجھ رہا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک نئے کام کا پروجیکٹ مینجر بنا دیا گیا۔

    ایک ویک اینڈ پر میں اور سہیل کار پر یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ سہیل کار ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے لے کر ایک شیشہ کلب جا پہنچا۔ ایسی جگہیں میرے لیے نئی نہیں رہی تھیِں۔ ہم اکثر ایسے کلبوں میں آتے جاتے تھے لیکن اس کلب کا ماحول کچھ زیادہ ہی کھلا تھا۔ سٹیج پر نیم برہنہ پاکستانی اور انڈین لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں۔ سہیل نے وہاں سے اپنے ساتھ دو پاکستانی لڑکیوں کو لیا اور میرے ساتھ کار میں ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ کی طرف بڑھا۔ میرا اور سہیل کا فلیٹ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ پہلے بھی یہ کاروائیاں کرتا رہا تھا مگر آج اس نے مجھے بھی نیم رضا مند کر لیا تھا۔
    اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ ہمارا ہر ویک اینڈ کا معمول بن چکا تھا۔ میں خود کئی ایسی جگہوں سے واقف ہو چکا تھا۔ میں بہت خوش تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک میری نگرانی میں بننے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی ایک چھت گرگئی جس کے نیچے دب کر دو تین مزدور جاں بحق ہو گئے۔ میں اتفاقاً اس دن دبئی گیا ہوا تھا۔ اطلاع ملتے ہی میں فورا واپس پہنچا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی اور اس نے باقاعدہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا تھا۔ میرا بھی تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کے بعد مجھے شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیٹ واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی۔ وہ سخت پریشان تھیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ مجھے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ انھوں نے مجھے فورا ابوظہبی چھوڑنے کی ہدایت کی۔
    لیکن بیگم صاحبہ ! جب میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں بھاگوں اور کیا سیٹھ صاحب اس کی اجازت دیں گے ؟
    سیٹھ صاحب سے میری پہلے ہی فون پر بات ہو چکی تھی۔ وہ سخت برہم تھے۔ انھوں نے مجھے سخت سست سنایا اور آگاہ کیا کہ کمپنی پر بھاری جرمانہ ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا لائسنس ہی معطل کر دیا جائے۔ وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔
    مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے فورا ٹکٹ کروائی اور اپنے سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی میں پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ڈور آئی سے دیکھا تو بےاختیار چونک پڑا۔
    باہر بڑے صاحب کا رائٹ ہینڈ اور ذاتی محافظ ولی خان کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔
    ولی خان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت شاندار اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ میرے پاس سے گزر کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا فریج کی طرف بڑھا۔ سافٹ ڈرنک کا ٹن پیک نکال کر اس نے بیڈ پر پڑے میرے بیگ کی طرف دیکھا،
    بھاگنے کی تیاری مکمل ہے۔۔۔؟
    ولی خان کو میں نے پہلے بھی دو تین دفعہ اپنی کمپنی کے آفس یا پروجیکٹ سائٹس کے آس پاس دیکھا تھا۔ وہ انگلش و عربی فر فر بولتا تھا۔ وہ اردو بھی بڑے اچھے تلفظ میں بول سکتا تھا مگر جب اسے اپنے آپ کو کہیں ان پڑھ اور جاہل ظاہر کروانا ہوتا تھا، تو وہ پشتو کے لہجے میں توڑ پھوڑ کر اردو بولنے لگتا تھا۔ ابوظبہی میں ہمارا جب بھی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی اس نے مجھے بلایا۔
    آج اس کا یوں فلیٹ پر آنا کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پیکنگ میں مصروف رہا۔
    تم کہیں بھی بھاگ جاؤ۔ اگر یہ چاہیں تو تمہیں پکڑ کر واپس لے آئیں گے اور کڑی سزا دیں گے۔ ولی خان نے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے دوبارہ اشتعال دلایا۔
    یہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔! میں نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
    تم کسی کام سے آئے ہو؟
    ہاں ! کسی کام سے آیا ہوں۔ کچھ تصویریں ہیں میرے پاس، جو تمہیں دکھانا ضروری تھیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر اس کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے تھمایا۔
    میں کچھ دیر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
    پکڑ لو، فکر مت کرو اس میں بم نہیں ہے۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
    میں نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے لفافہ تھام کر اس میں موجود تصویریں باہر نکال کر دیکھیں.
    پہلی تصویر دیکھتے ہی میں اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ تصویریں میرے ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر پھیل گئیں جنہیں میں پھٹی پھٹی
    نظروں سے دیکھ رہا تھا
    (جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے – فیض محمد شیخ

    فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے – فیض محمد شیخ

    فیض محمد شیخ فلک سے روح دھرتی پر گرائی جانے والی ہے
    مری برسوں کی پل بھر میں کمائی جانے والی ہے

    جنہوں نے خون سے لپٹے ہوئے اجسام دیکھے ہیں
    قیامت ان کی آنکھوں سے اٹھائی جانے والی ہے

    دھواں اٹھ اٹھ کے پھولوں سے لپٹ کے رونے والا ہے
    اک ایسی آگ گلشن میں لگائی جانے والی ہے

    جہاں ہر شخص سنتے ہی سماعت ڈھانپ لیتا ہے
    صدا اک ایسی بستی میں لگائی جانے والی ہے

    تو لازم ہے تڑپتا دل نکالوں اپنے سینے سے
    تمہاری یاد جو دل سے اٹھائی جانے والی ہے

    ابھی سے آنکھ میں آنسو ابھی سے دل تڑپتا ہے
    کہانی تو ابھی باقی سنائی جانے والی ہے

  • محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    محبت اس کو کہتے ہیں – حنا تحسین طالب

    نفع نقصان سے ہٹ کر
    سرور و آہ سے آگے
    شمع کے گرد چکرانا
    دہکتی آگ میں جلنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    نشاط انگیز لمحوں میں
    گلوں کی سیج سے اٹھ کر
    خدا کے روبرو ہونا
    جبیں اپنی جھکا دینا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    کسی محروم ساعت میں
    ہر اک تاریک لمحے میں
    ترقی میں تنزل میں
    خدا سے خوش گماں رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    بھری محفل میں تنہائی
    کبھی تنہائی میں محفل
    ہر اک رنگین منظر میں
    کسی کو سوچتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں

    خود ہی زنجیر پا ہو کر
    قدم زندان میں رکھنا
    کھلے روزن سے بے پرواہ
    اسیری مانگتے رہنا
    محبت اس کو کہتے ہیں
    محبت اس کو کہتے ہیں

  • غلام روحیں – عنایت علی خان

    غلام روحیں – عنایت علی خان

    منظر بہت ہی بھیانک تھا.
    رونگٹے کھڑے کر دینے والا.
    جسے دیکھ کر روح تک کانپ جاتی تھی.
    فضا دھویں اور گرد سے بوجھل تھی.
    چیخ و پکار تھی کہ الامان.
    گوشت جلنے کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی،
    وہ سب ایک قطار میں پڑے ہوئے تھے،
    زندگی کی رمق سے خالی،
    لاغر و کمزور،
    مفلوک زدہ ننگے وجود،
    قطار کو قائم رکھنے کے لیے چند درندہ قسم کے بھیانک شکلوں والےوحشی تھے، ان کے بڑے بڑے ہاتھوں میں ڈنڈے اور کوڑے تھے، وہ لگاتار قطاروں کے درمیان جلدی جلدی چکر لگاتے اور قطار کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پیٹنا شروع کر دیتے، قطار میں یکدم سراسیمگی سی پھیل جاتی اور پٹنے والے اپنے لاغر وجود سے پہلے سے موجود قطار کو مزید سیدھا کرنے میں جت جاتے۔
    وہ سب لاکھوں کی تعداد میں تھے اور دور جہاں تک نظر جاتی، بس قطار ہی نظر آتی تھی۔
    وہ سب برہنہ تھے لیکن ان کے ستر برہنہ نہیں تھے۔ ان کو اس سے کوئی سروکار بھی نہیں تھا۔
    وہ تو صرف اور صرف اس قطار کو سیدھا کرنے کی تگ و دو میں تھے۔
    بھاینک شکلوں والے وحشی لگاتار قطاروں کے درمیان فاصلہ دیکھ کر پل پڑتے اور یوں پوری قطار میں ایک بھونچال سا آ جاتا۔
    جلے اور جھلسے ہوئے جسموں میں حرکت ہوتی اور وہ اپنے لاغر وجود کو گھسیٹ کر آگے سرک جاتے، فاصلہ کم ہوتا اور قطار میں وقتی طور پر ٹھہراؤ سا آجاتا۔ نیم مردہ ادھ جلے برہنہ جسم تیز تیز سانس لیتے اور ہانپتے ہانپتے ادھر ہی گر پڑتے۔
    یہ میری ہی سرزمین تھی، میرا گاؤں تھا، یا شاید میرا ہی گھر تھا،
    کیونکہ قطاروں میں پڑے ہوئے لوگ اجنبی نہیں تھے،
    سب کی شکلیں شناسا سی تھیں، گو کہ ان کے مسخ شدہ جسموں سے شناخت ختم ہو چکی تھی اور وہ جلی ہوئی لٹکتی ہوئی کھالوں سے اپنی اصلی شکل و صورت کھو چکے تھے۔
    میں ان سب مناظر کو حیرت و افسوس سے دیکھ رہا تھا اور حیران تھا کہ ابھی تک کسی میڈیا نے خبر بریک کیوں نہیں کی۔
    حکومت کو تو فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔
    میں نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور ان مناظر کو کیمرے میں محفوط کرنے لگا، یکدم ایک وحشی آگے بڑھا اور مجھ سے موبائل چھین کر دور دھکیل دیا۔
    اب میں قطار سے دور کھڑا اس منظر کو دیکھ رہا تھا، آخر یہ قطار جا کہاں رہی تھی؟
    یہ جاننے کےلیے میں قطار کے متوازی چلنے لگا،
    کافی دیر چلنے کے بعد میں قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا،
    وہاں ایک بہت بڑی بھٹی تھی جس میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے، قطار میں لگے لوگ گھسٹتے ہوئے آتے اور اپنے آپ کو اس جلتی بھٹی کی نذر کر دیتے، چیخ و پکار میں یکدم اضافہ ہو جاتا اور چند لمحوں کے لیے آگ کی شدت بھی زیادہ ہو جاتی۔
    یہاں گوشت کے جلنے کی بو اور دھویں سے دماغ پھٹا جا رہا تھا اور میں اس بو سے بچنے کے لیے بھٹی کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔
    یہاں کا منظر اس سے بھی بھیانک لیکن حیران کن تھا،
    بھٹی میں چھلانگ لگانے والے لوگ بھٹی سے باہر آ رہے تھے،
    ان کے جسم پر لگا گوشت گل چکا تھا اور ہڈیاں صاف نظر آ رہی تھیں،
    ان کی زبانیں باہر کو نکلی تھیں اور وہ ہانپ رہے تھے،
    بھٹی سے باہر نکل کر یہ تھوڑا سا سستاتے اور پھر ایک جانب کو چل دیتے،
    اب وہ قظار کے ایک جانب مخالف سمت میں جا رہے تھے،
    چلتے چلتے آخر وہ قطار کے پہلے سرے پر پہنچ گئے اور اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دوبارہ قطار میں لگ گئے۔
    اب اس بستی کا منظر دھندلانے لگا اور یوں لگا جیسے ایک بہت بڑی حویلی ہو،
    حویلی کی موٹی موٹی دیواریں صاف نظر آرہی تھیں،
    ان کے اوپر خاردار تاریں بھی لگی تھیں،
    اچانک دیواریں سمٹنا شروع ہوگئیں،
    میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو آسمان بھی نیچے آتا محسوس ہوا،
    میں چیخنا چا رہا تھا لیکن آواز ہی حلق سے نہیں نکل رہی تھی،
    بےبسی و خوف سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
    دیواریں اب بہت نزدیک آ گئی تھیں اور ان کالمس مجھے اپنی پشت پہ محسوس ہو رہا تھا،
    میں آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا،
    بڑھتے بڑھتے میں اس قطار کے آخری سرے پر پہنچ گیا اور پھر قطار میں لگ گیا،
    قطار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی،
    میرا جسم جھلسا ہوا تھا،
    زبان باہر نکلی ھوئی تھی،
    اور ہاں!
    میں شاید برہنہ بھی تھا اور میرا ستر بھی نہیں ڈھکا ہوا تھا۔
    کوڑے والے وحشی لپکے، قطار میں ہلچل سی ہوئی۔
    میں نے تھوڑا سا گھسیٹ کرخلا کو پر کیا
    اور پھر
    تھوڑی دیر کے لیے سکون ہوگیا
    ۔۔۔۔

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرے سیل فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی۔ پھر بند ہو گئی۔ مجھ پر تشدد روک دیا گیا تھا۔ سر نیچے جھکا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کا فی الحال مجھے فوری طور پر قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ اتنی دور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں آس پاس ہر طرف ویرانہ تھا۔ سیل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ ڈرائیور نے فون والے کو ایک فصیح گالی سے نوازا، پھر کچھ کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد دوبارہ کال نہیں آئی۔ شاید بیٹری کھول کے سم پھینک دی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کار ایک جگہ جا کے رکی۔ کھینچ کر مجھے نیچے اتارا گیا۔ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا، ٹانگیں اور پیر سن ہو چکے تھے اور کمر نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اہلکار نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے اس طرح دبائے رکھا کہ میری ٹھوڑی میرے سینے میں دھنس رہی تھی، اس لیے میں تھانے کا نام دیکھنے سا قاصر رہا، گھیسٹتے ہوئے مجھے ایک برآمدے سے گزار کر ایک سیلن زدہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک زرد رنگ کا بلب بیمار سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ ٹیبل کے پیچھے ایک بھاری بھر کم ایس ائی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مگن تھا۔ ایک نوعمر سا لڑکا اس کے پیچھے کھڑا اس کے کندھے دبا رہا تھا۔ ایس آئی نے اطمینان سے سگریٹ ختم کی، اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتاریں اور پیچھے کھڑے لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا۔ کچھ دیر تک میرا آنکھوں سے ایکسرے کرنے کے بعد اس نے ساتھ کھڑے اہلکار سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا تو اس نے جیب سےمیرا بٹوا اور دوسرا سامان نکال کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایس آئی نے نیا سگریٹ سلگایا اور باریک بینی سے میرے شناحتی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا معائنہ شروع کیا۔
    اس کی کچھ خاطر تواضع کی ہے؟ ایس ائی نے میری طرف دیکھے بغیر کانسٹیبل سے پوچھا۔
    ہاں جی! کار میں کچھ چائے پانی پلایا ہے، ابھی ڈرائنگ روم میں لے جا کے کچھ ٹہل سیوا کرتے ہیں، اس۔۔۔۔کی۔
    کیوں بے! تجھے شرم نہیں آئی جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں گند ڈالتے ہوئے؟ بڑا ہی حرامی نسل کا انسان ہے یار تو، تو۔ تجھے تو آری سے کاٹ دینا چاہیے۔ کب سے چلا رہا ہے یہ عشق معشوقی کا چکر؟
    ایس آئی نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر چڑھاتے ہوئے کہا۔
    سر! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب کے مجھ پر جتنے احسان ہیں، میں مر کے بھی وہ نہیں اتار سکتا۔ حارث صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر سے دور رہوں تو میں یہ نوکری بلکہ یہ شہر چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں فوراً گھر چلا جاؤں گا، پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔
    سر میں بہت غریب آدمی ہوں۔ آپ مجھ پر رحم کریں میں ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آواز گلوگیر ہوگئی اور میں نے ہاتھ جوڑ دیے۔
    ابھی تو آیا ہے تو، ابھی سے جانے کی بات تو نہ کر یار ۔۔ لگتا ہے تجھے بیگم صاحبہ کی یاد آ رہی ہے۔ ایسی بات ہے نا؟؟
    ایسی کوئی بات نہیں ہے سرکار! مجھے مکے مدینے کی قسم، مجھے سوہنے رب دی قسم میں جھوٹ بولوں تو کافر ہو کے مروں۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔
    اس کو لے جاؤ اور ننگا کر کے الٹا لٹکا کے مارو اور تب تک مارو جب تک یہ ساری بات نہیں بتاتا اور اس سے پہلے جو یہ کرتوت کرتا رہا ہے، وہ بھی اس سے پوچھو۔ اور ظہیرے کو میرے پاس بھیج دو۔
    مجھے گھیسٹ کے ایک عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ یہاں بھی زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ کمرا سیلن اور عجیب سی بو سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں اور فرش پر جابجا خون کے داغ نظر آرہے تھے۔ میں مسلسل اپنی بےگناہی کی دہائی دے رہا تھا لیکن ان پولیس والوں پر میری کسی التجا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
    میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کہ الف سے لے کر یے تک ساری کہانی مجھے سنا دے، ورنہ میں تجھے کوئی نئی کہانی بنانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔ شادی کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔ بڑی بڑی مونچھوں والے کانسٹیبل نے اپنے ریچھ جیسے ہاتھ سے میرے دونوں گالوں کو پچکا کے پوچھا۔ میں درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا لیکن اس کی جناتی گرفت سے نکلنا میرے لیے ناممکن تھا۔
    یہ اس طرح نہیں مانے گا۔ اس کے کپڑے اتار کے لٹکاؤ اسے۔ تھوڑی دیر بعد میں لباس فطری میں چھت کے ساتھ لگے کنڈے کے ساتھ بندھی رسی کے سہارے الٹا لٹک رہا تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے میں نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک وحشی سا اہلکار پوری طاقت سے مجھے تار اور چمڑے کے چھتر سے مار رہا تھا۔ کھال ادھڑ رہی تھی لیکن اب میری چیخوں میں درد سے زیادہ غصہ اور بغاوت تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں انھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
    اچانک تشدد روک دیا گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کے دیکھیں، کریہہ چہرے والا کانسٹیبل میرے کندھے اور بازو کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے میرے جسم کو روشنی کی طرف گھما کے گولیوں کے زخموں کے نشان غور سے دیکھے.
    یہ گولیوں کے نشان ہیں؟ وہ چونکا ہوا لگ رہا تھا۔
    ہاں یہ گولیوں کے نشان ہیں۔ میں نے نقاہت سے کہا۔
    کچھ دیر بعد میں دوبارہ کپڑوں میں ملبوس ایس آئی کے سامنے کھڑا تھا۔
    میرے سامنے کوئی ہینگی پھینگی نہ مارنا۔ بیشتر کہانی کا مجھے پہلے ہی پتہ ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں مجھے بتاؤ۔ اس دن مغل پورہ کی نہر اور بھٹہ چوک پر کیا ہوا تھا؟
    ایس آئی نے دو سگریٹ سلگا کے ایک مجھے پیش کیا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی جلدی دو تین کش لگا کے اپنے اعصاب کو پرسکون اور خیالات کو مجتمع کیا، اور بولنا شروع کر دیا۔
    یہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ ہم آٹھ پنجاب رینجرز کے جوان کیپٹن لودھی کی قیادت میں شالیمار کے قریب مغل پورہ کی نہر پر کھڑے اکا دکا اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک سفید رنگ کی کار بڑی تیزی سے زگ زیگ انداز میں دوڑتی ہوئی سڑک پر نمودار ہوئی۔ کار میں کم سے کم چار لوگ تھے بعد میں پتہ چلا پانچ تھے۔ ہمارے روکنے پر بھی وہ نہیں رکے۔ جی تھری کے ٹریگر پر میری انگلی مچل کے رہ گئی لیکن لودھی نے سڑک پر رش کی وجہ سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ اب ہماری ٹیوٹا ہائی لکس طوفانی رفتار سے سفید کار کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ کار کا رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ائیرپورٹ چوک کے قریب ہم نے ان پر پہلا فائر کیا۔ اگلے ایک کلومیڑ میں ہم ان کی کار ناکارہ کر چکے تھے۔ جوابی فائرنگ کرتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں موجود کھڈوں اور مٹی کے چھوٹے ٹیلوں کے پیچھے اوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ہم ان کے مقابلے میں کھلے میں تھے۔ دوسرا ایڈونٹیج انھیں اے کے فورٹی سیون کا تھا۔ ان کو پاس ایمونیشن کی کوئی کمی بھی نہیں تھی، ہم ایک فائر کرتے تو وہ جواباً پوری میگزین ہم پر خالی کر دیتے۔ حالات مخدوش لگ رہے تھے، میرے پاس صرف بارہ میگزین کا ایمونیشن تھا، ہر میگزین میں بیس گولیاں تھیں۔ قانون کے مطابق مجھے چار میگزین کا ایمونیشن ہر قیمت پر بچا کے رکھنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گرد اندھیرے اور ایمونیشن کی برتری کا فائدہ اُٹھا کے بھاگنے میں کامیاب رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے ہم ائیر پورٹ کے ریڈار کی رینج میں آ گئے تھے، ہماری گاڑی کے وائرلیس سے ریڈار آپریٹر ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ ہم دو جوان غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم ابھی اس گڑھے سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو گئے۔ ایک طویل برسٹ فائر ہوا۔ میں نے بروقت خود کو زمین پر گرا لیا۔ لیکن مرزا علی کو کئی گولیاں لگ چکی تھیں، اب خاموشی یا واپسی کا مطلب بےبسی کی موت تھا، میں فائر کرتا ہوا گڑھے کی طرف دوڑا۔ دوبارہ فائرنگ کے لیے سر بلند کرتے ہوئے دو دہشت گرد میرا نشانہ بنے اور وہ الٹ کے گڑھے میں گرے۔ جوابی فائرنگ سے پہلے میں ان کے گڑھے کے نزدیک ایک گڑھے میں خود کو گرانے میں کامیاب رہا۔ لیکن کچھ تاخیر ہو چکی تھی، کئی انگارے میرے کندھوں اور بازوؤں میں گھس چکے تھے۔ چند لمحوں میں ہی میری گن اور ہاتھ خون سے تر بتر ہو گئے لیکن اب صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی تھی۔ دو ساتھیوں کی موت کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہم ان کے بالکل سر پر پہنچ گئے تھے، اس لیے جب انھیں ہتھیار پھینکے کا حکم دیا گیا تو تھوڑی سی گالی گلوچ اور مذاکرات کے بعد وہ آمادہ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ ہتھیار پھینک کے گڑھے سے نکلے، اپنی تربیت کے مطابق ہم نے مزید دو کو ٹانگوں پر گولیاں مار کے پنکچر کیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ مجھے اور علی کو فوراً ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن ہماری بدقسمتی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والے دہشت گرد ایک وفاقی وزیر کے ذاتی سیکورٹی گارڈ تھے جو کہیں کارروائی ڈال کے آ رہے تھے اور مرنے والوں میں اس کا کوئی بھتیجا یا بھانجا بھی شامل تھا۔ کیپٹن لودھی سمیت ہمیں فوراً معطل کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ہمیں اور خاص طور پر مجھے اور علی کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہم پر جعلی مقابلہ اور اقدام قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بڑا پر عزم تھا لیکن کیپٹن لودھی کی کاٹھی بھی تگڑی تھی، اسی دوران ڈرامائی طور پر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن کیپٹن لودھی کے سوا ہم سب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ چھ مہینے بعد ہمیں مستقل جبری رخصتی کا پروانہ مل گیا۔
    میرا قصہ مکمل کرنے تک ایس آئی جس کا نام بعد میں باسط ابڑو پتہ چلا، کے تاثرات اور رویہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا، سگریٹ کی پوری ڈبی اور ماچس عنایت کی اور چائے بھی پلائی۔ حارث اس کے کسی جگری کا دوست تھا، جو پیکٹ مجھے دے کر کے بھیجا گیا تھا، اس میں باسط کے لیے نذرانہ موجود تھا۔ ایس آئی ابڑو نے مجھے اپنی مشکل بتاتے ہوئے کہا کہ تمھیں سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی اور سماجی حیثیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ تم ابھی تک زندہ ہو تو اسے حارث کی رحم دلی ہی سمجھو۔ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی منحوس شکل لے کے کہیں دور دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی چھوٹی بیگم صاحبہ سے رابطہ نہ کرنا۔
    حارث نے مجھے تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر معذور کرنے کا کہا تھا۔ تم ابھی دو چار دن ادھر ہی رہو گے، میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں لیکن زیادہ بہتری کی امید نہ رکھنا۔
    تھوڑی دیر بعد مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یہاں دوسرے کئی ملزم بھی چادریں اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، میں بھی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے بہت ہنگامہ خیز رہے تھے، میں کئی دفعہ پٹا، جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا، لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی ایک ملیح چہرہ میرے تصور میں ابھر آیا۔ دل سے بے اختیار ایک ہوک سی اٹھی۔ کیا میں زندگی میں دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھ پاؤں گا؟ میں نے دکھ سے سوچا۔
    اچھا ہے، میں ان سے اتنا دور چلا جاؤں کہ میرے منحوس وجود کی تہمت بھی ان کے پاکیزہ وجود تک نہ پہنچ سکے۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگتی، پھر درد کی ٹیسیں اور مستقبل کے خدشات مجھے جگا دیتے۔ شاید رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ تھانے کے باہرایک گاڑی کے ٹائر سخت بریک سے چرچرائے۔ پھر زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔ خوابیدہ تھانے کے ماحول میں اچانک ہی ہلچل سے مچ گئی تھی۔ ایک آواز سنتے ہی میرے سر پر گویا حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔
    اگر الیاس یہاں پر نہیں ہیں تو باہر کھڑی میری گاڑی یہاں تمھارا باپ لایا ہے؟ یو ایڈیٹ۔ تمھیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں تمھارا خون پی جاؤں گی۔
    شیرنی کی طرح دھاڑتی یہ آواز چھوٹی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی۔
    اس آواز نے میرے نیم مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ میں لپک کے حوالات کی سلاخوں کے پاس پہنچا اور باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ برآمدے کے بلب کی ہلکی سی روشنی اس راہدری میں پڑ رہی تھی جہاں سب انسپکڑ کا کمرہ تھا لیکن حوالات اس زوایے پر تھی کہ مجھے وہ کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کی آمد نے جہاں میرے اندر نیا ولولہ اور ہمت پیدا کر دی تھی وہاں میں کسی المیے اور انہونی کے خدشات سے لرز رہا تھا۔ سب انسپکٹر کی آنکھ میں سور کا بال تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کو رات کے اس پہر تھانے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کمرے سے مسلسل تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک ایسی بھاری بھر کم اور گونج دار آواز سنائی دی جسے سن کے میرے سارے خدشات دھل گئے۔
    ”اوے حرامخور، چھووٹی بیگم صاحب کے سامنے اپنی آواز نیچھی رکوو۔ ورنہ خدایا پاکا کی قسم ام پورا میگزین تیرے تھوبڑے پر خالی کر دے گا۔پھر تیرا ماں بھی تیرا شناحت نہیں کر پائے گا۔“
    یہ ولی خان تھا، سیٹھ صاحب کا ذاتی محافظ۔ اس کا باپ بھتہ خوروں کی طرف سے کیے گئے قاتلانہ حملے میں سیٹھ صاحب کو بچاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔ ولی خان کا بچپن اور لڑکپن سیٹھ صاحب کے بنگلے میں ہی گزرا تھا۔ یہ وفادار قبائلی سیٹھ صاحب کی خاطر جان دینے اور جان لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ سب انسپکڑ کے کمرے میں صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ولی خان نے پولیس والوں کو گن پوائنٹ پر لے رکھا ہو۔
    تھوڑی دیر بعد حوالات کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری ساری حسیات آنکھوں میں سمٹ آئیں تھیں۔ میں نے انتہائی دراز قد چھوٹی بیگم صاحبہ کو باسط ابڑو کے ساتھ حوالات کی طرف آتے دیکھا۔ پیچھے پیچھے ولی خان تھا۔ کلاشنکوف بیلٹ کے ساتھ اس کے سینے پر جھول رہی تھی اور وہ کسی جنگلی جانور کی طرح چوکنا نظر آ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے نیلی جینز کے اوپر گہرے سبز رنگ کی ڈھیلی سی جرسی سی پہن رکھی تھی جس کی آستینیں فولڈ کی گئی تھیں، پیروں میں جاگر پہنے اور بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ باسط ابڑو کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دبنگ بندہ تھا لیکن اس وقت وہ کچھ پریشان نظر آتا تھا۔ بیگم صاحبہ حوالات کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرے کی رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو رہی تھی۔
    تالہ کھولو!
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے باسط ابڑو کو حکم دیا!
    باسط ابڑو کے چہرے پر روایتی ہٹ دھرمی نمودار ہو گئی۔
    بی بی جی! آپ بچوں جسی باتیں کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس آدمی کو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہیں، اسے آج رات میرے لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر منشیات سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ آپ کی ذاتی کار بھی اس مکروہ دھندے میں استعمال ہو رہی تھی، لیکن میں نے ایف آئی آر صرف آپ کے ڈرائیور کے خلاف کاٹی ہے۔ صبح ہونے والی ہے، صبح ہم اسے عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لے لیں گے۔ اگر آپ کا بالکل گزارہ نہیں ہو رہا اس کے بغیر تو صبح اپنے وکیل کے ساتھ عدالت تشریف لے آئیے گا، اور ضمانت کی درخوست دائر کر دیجیے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
    لُک آفیسر۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ تم نے خود کو کس مصبیت میں پھنسا لیا ہے۔ تم نے لاک اپ میں ایک ایسے شخص کو بند کر رکھا ہے جس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم جانتے ہیں تمھارے پاس اس کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی ابھی اس پر کوئی ایف آئی آر کٹی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اغوا اور حبس بےجا کا کیس ہے۔ اس کے بعد تم لوگ الیاس پر بدترین تشدد کے بھی مرتکب ہو چکے ہو۔ ہم تم لوگوں کو عدالت میں گھیسٹ لیں گے۔ پھر تم ناک سے لکیریں بھی نکالو گے تو معاف نہیں کریں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں ان کا روایتی تحکم اور شان بےنیازی تھی۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ بی بی جی میں آپ کے والد محترم کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بڑے معقول اور شریف النفس انسان ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کے کردار کی حیا ہی مجھے مارے جا رہی ہے ورنہ آپ جس طرح ایک پاگل گن مین کے ذریعے مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کارسرکار میں مداخلت کر رہی ہیں، اگر کوئی اور ایسا کرتا تو میں اسے بھی اس حوالات میں بند کر کے ایک ایف آئی آر اس پر بھی کاٹ دیتا۔ آپ ایک نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک دو ٹکے کے سمگلر ڈرائیور کے پیچھے خود کو اتنا نہ گرائیے۔ آپ کو اس سے بہت بہتر مرد مل جائیں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحب کے چہرے پر غصے کے شعلے لپکے۔ ولی خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا، اس نے رائفل کو کاک کر کے برسٹ موڈ پر کیا، اور اسے باسط ابڑو کے چہرے پر تان لیا۔ اگر بیگم صاحبہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتیں تو باسط کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ بیگم صاحبہ نے ہاتھ سے ولی کی رائفل کی نال کو پیچھے ہٹایا اور اسے ڈانٹ کے پیچھے دھکا دیا۔ صورتحال ایک دم سے دوبارہ سخت کشیدہ ہوگئی تھی۔ پولیس والوں نے بھی بیگم صاحبہ اور ولی کی طرف بندوقیں تان لیں تھیں۔ ولی غصے سے بل کھا رہا تھا اور پشتو میں باسط کو گالیاں اور قتل کرنے کا عزم دہرا رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اسے بمشکل شانت کیا۔
    تم ایسے نہیں مانو گے۔ ہم تمھارا دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنی جینز کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔
    سرکار! ہم تو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں، پر آپ سیٹھ لوگ قانون کو موم کی ناک اور قانون کے رکھوالوں کو دلا سمجھتے ہیں۔ آپ کے گن مین نے دو دفعہ ایک تھانے میں ڈیوٹی پر موجود وردی میں ملبوس پولیس آفیسر پر گن تانی ہے، یہ بذات خود ایک نہایت سنگین جرم ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا، آپ سے یہی گزارش ہے کہ گھر لوٹ جائیے، صبح وکیل کے ساتھ عدالت آ جائیے گا۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو اب پوری طرح سنبھل چکا تھا، اور چھوٹی بیگم صاحبہ کو وقتی طور پر وہاں سے ٹالنے کی فکر میں تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور فون پر بات کرتی رہیں۔ ان کے کال بند کرنے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی باسط کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ باسط نے سیل نکال کے نمبر دیکھا اور بے اختیار بیگم صاحب پر نظر ڈال کے فون کال ریسو کر لی۔
    جی سر!
    جی وہ ادھر ہی ہیں۔
    سر وہ۔۔۔
    جی سر۔۔
    ایف آئی آر تو ابھی نہیں کاٹی سر۔
    جی لیکن۔۔۔
    معافی چاہتا ہوں جناب۔
    باسط ابڑو بات کرتے ہوئے ہم سے دور چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا لوٹا۔ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ باسط نے اوور کانفیڈنس میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ اس نے مجھے اٹھوا تو لیا تھا لیکن کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی تھی، اور میری کار کو بھی منظر سے ہٹانا بھول گیا تھا۔ شاید اسے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فدوی بالکل بے یار و مددگار اور لاوارث ہے، وہ بےفکر ہو کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑتا رہے لیکن اللہ کی تقدیر ہمیشہ ظالموں کی تدبیر پر غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنے انکل ایس ایس پی صاحب کو کال کی تھی، اور باسط ابڑو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نہ صرف معطل کروا کے دم لیں گی بلکہ اسے بھی ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے باہر نکال کے باسط ابڑو اب میرے اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پیروں میں لوٹ رہا تھا، اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کی ساری اکڑ اور کروفر ہوا ہو چکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس شرط پر اسے معاف کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ سیٹھ صاحب کے سامنے حارث کے خلاف گواہی دے گا۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا۔ سب انسپکڑ کے کمرے سے نکل کر ہم احاطے میں پہنچے تو فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ میں حیدر آباد شہر میں ہوں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے ولی خان کو لینڈ کروزر لے کر کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کی اور مجھے لے کر اپنی ہونڈا میں آ بیٹھیں۔ ولی خان کے چہرے پر تذبذب کے ِآثار تھے، وہ ہماری کار کے قریب کھڑا ہونٹ کاٹتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے ولی؟ کیوں کھڑے ہو؟ ہم نے کہا نہ گھر جاؤ!
    بیگم صاحب، ام آپ کو لےکر آیا ہے، اب اکیلا کیسا چلا جاوے؟ سیٹھ صاحب کو کیا جواب دے گا؟
    ولی خان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
    آپ فکر نہ کرو ولی۔۔ ہم بابا کے جاگنے سے پہلے واپس آ جائیں گے، ہمیں کچھ کام ہے وہ کر کے آئیں گے۔ اور یاد رکھنا یہاں جو کچھ ہوا، وہ بابا کو بتانا ہے، جب ہم آپ کو بابا کے سامنے بلائیں گے۔ اس حارث کو چھوڑنا نہیں ہم نے۔
    آج اس نے الیاس کو اٹھوایا ہے، کل کو آپ کو اٹھوا دے گا۔ ہی بیکیم ٹوٹلی میڈ، ۔
    اوکے؟
    جی میڈم۔
    ولی خان گاڑی لے کر چلا تو گیا لیکن وہ مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہم نیشنل ہائے وے پر آئے تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ گاڑی بیگم صاحبہ ڈرائیو کر رہی تھیں، میں ان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
    اعصاب کو مطیع اور مفلوج کر دینے والی ایک بھینی بھینی خوشبو نے مسلسل مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ المناک رات کا اتنا روشن سویرا ہوگا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے کو حزن اور اداسی نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے معذرت کی اور مجھے بتایا کہ اس واقعہ نے ان کے دل اور اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھیں لگ رہا تھا کہ میری زندگی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔ حارث کے والد سیٹھ صاحب کے کئی کاموں میں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ آثار یہی تھے کہ ایک معمولی ملازم کے لیے اس رشتے داری کو قربان نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کی جان کی قربانی ہی دے دی جائے۔ وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی فیصلے کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتی ہیں لیکن نامعلوم اندیشوں کے بھنور انھیں ڈبو رہے ہیں۔
    ناشتہ ہم نے سڑک کے کنارے آباد ایک وی آئی پی ریسٹورنٹ میں کیا۔ اب کراچی صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ناشتہ ختم کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے مجھے گہری نظروں سے دیکھا، ایک گہری سانس لی، اور پھر بڑبڑائیں ۔۔ او کے لٹس فنش اٹ!
    پھر تھوڑا سا کھنکار کے، سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نظریں جھکا کے بولیں،
    الیاس کیا آپ ہمیں اپنے نکاح میں قبول کر لیں گے؟
    میرے سر پر تو گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔

    (یہ سچی داستان ابھی جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں