Blog

  • ملحدین کا تعاقب، اسلام پسندوں کےلیے چند گزارشات – نعیم الرحمان شائق

    ملحدین کا تعاقب، اسلام پسندوں کےلیے چند گزارشات – نعیم الرحمان شائق

    ہمارے کچھ بھولے بھالے مسلمان الحادیوں کے فورمز پر اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات دینے میں لگ جاتے ہیں ۔۔ وہ اس خیال سے بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا ہے ۔۔ یہاں سوال کا جواب دینا ریٹنگ بڑھانے کے مساوی ہے ۔۔

    ہم حقائق جاننے کے لیے ملحدوں کی پیجز اور گروپس جوائن کر لیتے ہیں ۔۔ ہم خود ہی ان کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرتے ہیں کہ الحاد واقعی بڑھ رہا ہے ۔۔ کیا ضرورت ہے مسلمانوں کو ان کے گروپس جوائن کرنے کی ، اور ان کے پیجز لائیک کرنے کی ؟؟

    صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کے گروپس جوائن کیے بغیر اور ان کے پیجز لائیک کیے بغیر اپنے فورمز پر ان کے جوابات دیے جائیں ۔۔

    اگر بہت سے مسلمان بھائی اور بہنیں ان کے خاص پرپیگنڈا گروپ (آپ سمجھ گئے ہوں گے ) کو چھوڑ دیں ، اور ان کے فورم پر بحث و تکرار سے باز آجائیں تو بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے ۔۔ دراصل الحادی اپنے فورمز پر ہمارے مذہب کے خلاف بحث چھیڑ کر ہمیں مشتعل کرنا چاہتے ہیں ۔۔ ہمارا مشتعل ہونا فطری عمل ہے ۔۔ لیکن مشتعل ہو کر ہم ان کے فورمز پر جذباتی کمنٹس کر کے اور خواہ مخواہ کی بحث چھیڑ کر اپنی جگ ہنسائی کا خود سامان کرتے ہیں ۔۔

    ابھی معلوم ہوا کہ ایک ملحد نے اپنے پروپیگںڈا فورم پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عبد الستار ایدھی مرحوم کے موازنے سے متعلق ایک سوال پوچھا ۔۔ 2 دن پہلے لکھی گئی اس پوسٹ پر اب تک 597 کمنٹس ہو چکے ہیں ۔۔ خود سوچیے ، کیا بہتر نہیں تھا کہ ہم وہاں ایک نہ ختم ہونے والی بحث سے اعراض برتتے ہوئے اپنے گروپس پر اس سوال کا جواب دے دیتے ۔۔ ہم نے مذکورہ ملحد کو 597 کمنٹس تک مدد فراہم کر کے نا دانستہ طور پران کی ریٹنگ بڑھانے کا سامان کر دیا ۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مسلمان مذکورہ پوسٹس پر بحث ہی نہ کرتے تو 7 ، 8 کمنٹس اور 10، 11 لائیکس کے ساتھ یہ پوسٹ ہمارے سامنے موجود ہوتی ۔۔

    میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑا کام ہے کہ ہم ملحدوں کو ، ان کی پوسٹس کے بارے میں جاننے کے لیے دوست نہ بنائیں ۔۔ ان کے گروپس اور پیجز جوائن نہ کریں ۔۔ اگر کیے ہوئے ہیں تو فورا ان کو چھوڑ دیں ۔۔ اس طرح ان کی ریٹنگ کم ہوگی ۔۔

  • پاکستان بمقابلہ انگلینڈ۔ جنگ شروع ہو گئی – ثاقب ملک کا تجزیہ

    پاکستان بمقابلہ انگلینڈ۔ جنگ شروع ہو گئی – ثاقب ملک کا تجزیہ

    saqibاسٹیڈیم میں آگ لگ چکی تھی. گراؤنڈ دھویں سے بھر رہا تھا. پاکستان اور انگلینڈ کے کھلاڑی گراؤنڈ سے منہ اور آنکھوں پر ہاتھ رکھے بھاگ رہے تھے. یہ 1967-68 ہے.

    وہ دونوں ایک دوسرے کو خوانخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے. دونوں کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں. مائیک گیٹنگ نے غصے سے اپنا معافی نامہ شکور رانا کو پکڑایا. یہ 1987 ہے.

    ایمپائر نے انگلی فضا میں بلند کی مگر بلے باز کرس براڈ نے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا. کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ساتھی کھلاڑی اور ڈریسنگ روم سے کپتان اور مینجر کی ہدایت وہ کریز چھوڑنے پر آمادہ ہوا. یہ بھی 1987 ہے.

    بولر نے ایمپائر سے اپنی سوئیٹر لینا چاہی. ایمپائر غصے میں تھا اور سوئٹر اسکی بیلٹ سے الجھ بھی گئی تھی نتیجتاً عاقب جاوید کو بھی لگا کہ ایمپائر اسکے ساتھ بدتمیزی کر رہا ہے. اس نے ایمپائر کو دھمکی آمیز انداز میں دیکھا اور ہاتھ کمر پر رکھ کر بولنے لگا. اس سے قبل کپتان جاوید میانداد بھی اسی انداز میں ایمپائر سے بحث کر چکا تھے جب رائے ایمرسن نے عاقب کو لگاتار باونسر کروانے سے منع کیا تھا. یہ 1992 ہے.

    انگلینڈ کے کپتان کی جیب سے مٹی اور بوتل کھولنے والی چابی نکلتی ہے. مائک ایتھرٹن اسکو اپنی غلطی اور تجربہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کرنے کا کہتے ہیں. یہ 1996 ہے.

    گیس سلنڈر کے دھماکے سے کھیل رک جاتا ہے. اس دوران ایک پاکستانی کھلاڑی پچ پر جاتا ہے اور زور زور سے اپنے بوٹ پچ کے درمیان رگڑنا شروع کر دیتا ہے. یہ کھلاڑی شاہد آفریدی ہے. یہ 2005 ہے.

    انضمام کی آنکھیں بال ٹمپرنگ کے الزام پر غصے سے سرخ ہوجاتی ہیں وہ فوراً ایمپائر ڈیرل ہیر سے معافی کا مطالبہ کرتا ہے. ہیر انکار کرتا ہے. انضمام وقفے کے بعد ٹیم کو واپس گراؤنڈ میں لے کر جانے سے انکار کر دیتا ہے. یہ 2006 ہے.

    مظہر مجید کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا ہے. وہ فکسنگ کی تفصیلات بتاتا ہے. کچھ دن قبل عامر اور آصف اوول اور لارڈز میں فٹ فٹ کی نو بالز کرتے ہیں. اسپاٹ فکسنگ کے الزامات بعد میں ثابت ہوجاتے ہیں. یہ 2010 ہے.

    اب 2016 یے اور آج ،جمعرات کے دن سے پاکستان انگلینڈ کی ایک اور ہنگامہ خیز ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہوگیا ہے ۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کم سے کم پہلے ٹیسٹ میں فیورٹ ہے اور پاکستان انگلینڈ کو ہرا سکتا ہے. لیکن اگلے تین ٹیسٹ میچز کے لئے انگلش ٹیم کا پلڑا بھاری ہوگا. اس دوران اگر موسم خشک اور گرم رہا تو پاکستان ایک مزید ٹیسٹ جیت سکتا ہے. میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ سیریز برابر بھی کر لے تو ایک بہتر رزلٹ کہا جا سکتا ہے. لیکن زیادہ متوقع خدشہ انگلینڈ کی 2-1 سے جیت لگ رہی ہے. پاکستان کے میچ ونرز ٹیسٹ میں بولنگ میں یاسر شاہ اور عامر جبکہ بیٹنگ یونس اور سرفراز ہوسکتے ہیں. مصباح، اسد اور سہیل خان عمدہ مدد دے سکتے ہیں.

    امکان غالب ہے کہ پاکستان سری لنکا سے کہیں بہتر کھیلے گا اور سیریز ایک اچھی اور دلچسپ ہوگی. جانے کیوں میں ایک عرصے بعد پاکستانی ٹیم کے لئے مثبت جذبات اور جوش محسوس کر رہا ہوں. پاکستانی ٹیم اچھا کھیلے اور ڈٹ کر مقابلہ کرے تو ہار جیت کا بہت دکھ نہیں ہوگا. مصباح، اظہر اور حفیظ کو صرف بیٹنگ پچز پر رنز کرنے کی تنقید کو اس سیریز میں غلط ثابت کرنا ہوگا وگر نہ وہ صرف سلو پچز کے شیر قرار پائیں گے.

    لارڈز میں پچ کا سلوپ پہلی بار وہاں کھیلنے والے کے لئے بہت ایشو ہوتا ہے. اس لئے امید ہے کہ پریکٹس میں خصوصی توجہ دی گئی ہوگی. اگر موسم ابر آلود ہوا تو گیند سوئنگ کرے گی اور انگلینڈ کے پاس ووکس یا پہلا میچ کھیلنے والا جیک بال یا رولینڈ جونز ہی سوئنگ بولر ہیں. اینڈرسن اور اسٹوکس کی غیر موجودگی میں انگلش بولرز کا بھی امتحان ہوگا. اگلے پانچ دن لندن میں شاید ایک دن بارش کا امکان ہے دو دن ٹھیک ٹھاک دھوپ اور مناسب موسم ہوگا اس لیے ٹیسٹ کے نتیجے کا امکان غالب ہے لیکن یاسر شاہ کو کم مدد ملے گی کیونکہ سخت گرمی یا شدید دھوپ کا امکان نہیں لگ رہا ہے. پاکستان کو سہیل خان کو کھلانا چاہئے تھا کیونکہ وہ سوئنگ بولر ہے اور اسکی لینتھ بھی فل ہے. نیز ہم سارے ہی کھبے فاسٹ بولرز نہیں کھلا سکتے، تاہم ٹیم مینجمنٹ نے سہیل کو بارہ کھلاڑیوں میں بھی شامل نہ کیا اور پھر آخری مرحلے پر عمران خان کی جگہ راحت علی کو ترجیح دی گئی۔. ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ برا فیصلہ نہیں یوگا کیونکہ لارڈز کی پچ تقریباً چار دن تک عموماً بہترین رہتی ہے صرف پہلے دن کچھ سوئنگ اور پیس کا امکان ہوتا ہے لیکن اگر پہلے بیٹنگ کرکے پاکستان بیٹنگ بھی کر لے تو تیسرے دن بادل اور بارش کا امکان ہے اور اس دن پاکستان کی بولنگ زیادہ کامیاب رہ سکتی ہے. پچ سے زیادہ آسمان کو دیکھ کر فیصلہ کرنا مناسب ہوگا. مصباح کو چاہیے کہ دو سلپ تو اپنے فاسٹ بولرز کے لئے ہر حال میں رکھے. آغاز میں چار سلپ رکھی جانی چاہئے. ہیلز کے لئے دو گلی رکھنی چاہئے. روٹ کو کھبے عامر اور وہاب آؤٹ کر سکتے ہیں. انگلش لوئر آرڈر کو جلد نپٹا نا ہوگا انکی ٹیل اچھی اور نمبر دس تک بیٹنگ کرنے والے ہیں اس لئے صرف روٹ اور کک کو آؤٹ کرکے مطمئن نہیں ہونا چاہئے.

    پاکستان کی پلئنگ الیون یہ ہونی چاہئے.
    حفیظ، شان، اظہر، یونس، مصباح، اسد، سرفراز، یاسر، وہاب، عامر اور راحت علی۔عمران خان ایک محنتی بولر ہے اسکو کھلانا برا فیصلہ نہیں تھا،مگر ایک جینوئن فاسٹ بولر وہاب کی شکل میں ٹیم میں ڈالنا ضروری تھا۔یونس کو بطور چوتھے سیمر کے استعمال کیا جا سکتا ہے، اظہر علی بوقت ضرورت پارٹ ٹائم سپنر کے طور پر بائولنگ کرا سکتے ہیں۔

  • زلزلے، مولوی اور لبرل  – ارمغان احمد

    زلزلے، مولوی اور لبرل – ارمغان احمد

    ایک دوست کا بہت دلچسپ سوال نظر سے گزرا۔ سوال یہ تھا کہ کونسے زلزلے اللہ کا عذاب ہوتے ہیں اور کونسے اتفاقی امر۔ بہت ہی دلچسپ سوال تھا، اور اس کا جواب بطور ایک مضمون آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

    سب سے پہلے آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ سائنسی اعتبار سے مندرجہ ذیل میں سے کس پر یقین رکھتے ہیں؟
    ایک۔ کچھ بھی بائی چانس نہیں ہوتا
    دو۔ سب کچھ ہی بائی چانس ہوتا ہے
    تین۔ کچھ بائی چانس ہوتا ہے اور کچھ نہیں
    میں تیسرے آپشن کو درست سمجھتا ہوں۔ کیوں؟

    اگر سب کچھ بائی چانس ہوتا تو میں لکھ نا رہا ہوتا اپنی شعوری کوشش کے ساتھ۔ کچھ بھی بائی چانس نہیں ہوتا اگر یہ بات فرض کر لی جائے تو آپ سائنس کی بنیادیں ہلا کے رکھ دیں گے۔ پھر ارتقاء کا نظریہ بھی فارغ ہو جائے گا، بگ بینگ کا بھی اور آپ کی اپنی موجودگی کا بھی۔ مزے کی بات ہے کہ یہی تیسرا نظریہ اسلام کا بھی ہے۔ کافی عرصہ اسلام میں یہ بحث قضا و قدر کے نام سے معروف بھی رہی ہے۔

    کچھ لوگ کہتے تھے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اللہ کی مرضی سے کرتا ہے، اس لئے انسان جو گناہ کرتا ہے وہ ان کے لیے سزاوار نہیں۔ ان کے مخالف یہ کہتے تھے کہ انسان مکمل طور پر ذمہ دار ہے حالانکہ ایک صحابی (شائد حضرت علی رض) بہت عرصہ پہلے اس کا جواب بتا چکے تھے۔

    ان سے کسی نے پوچھا: “تدبیر اور تقدیر میں کیا فرق ہے؟” انہوں نے اس شخص کو کھڑا ہونے کا کہا اور ہدایت دی کہ اپنا ایک پاؤں زمین سے اٹھا لو۔ اس شخص نے باآسانی ایسا کر لیا تو انہوں نے کہا: “یہ تدبیر تھی”۔ پھر انہوں نے اس شخص کو کہا کہ پہلا پاؤں اٹھائے رکھو اور اب اپنا دوسرا پاؤں بھی اٹھا لو تو وہ شخص ظاہر ہے یہ نا کر پایا۔ اس پر انہوں نے کہا: “یہ تقدیر تھی”۔ کیا آپ نے اس سے مسکت اور مختصر وضاحت کبھی تدبیر اور تقدیر کی سنی ہے؟

    بہرحال اب ہم اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اوپر والی ڈسکشن ذہن میں رکھ کر۔ سوال یہ تھا کہ کونسے زلزلے اللہ کا عذاب ہوتے ہیں اور کونسے اتفاقی امر۔ عرض یہ ہے کہ جیسے آج کل ہر شعبہ زندگی میں انتہا پسندی نے ہماری قوم کے اجتماعی شعور کو یرغمال بنا رکھا ہے یہی حال اس معاملے میں بھی ہے۔ جیسے ہی کوئی زلزلہ آتا ہے تو ایک طبقہ کہتا ہے: “یہ تمہارے گناہوں کا عذاب ہے” چاہے مرنے والے سارے بیچارے غریب غرباء پہلے ہی مظلوم لوگ ہوں۔ یہ تو ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہوئی۔ اس لئے اس طبقے کی خدمت میں بطور ایک “عام پاکستانی مسلمان” عرض ہے کہ کوئی شک نہیں، اللہ بطور عذاب یا سزا قدرتی آفات بھیج سکتا ہے مگر یہ اللہ کو ہی پتا ہوتا ہے کہ اس نے کیوں بھیجی۔ آپ اس معاملے میں کوئی رائے دینے سے پرہیز کیا کریں کیونکہ یہ اس برتر ہستی کی ڈومین ہے۔ میری یا آپ کی نہیں۔ ہاں زلزلہ آنے سے پہلے آپ جتنا مرضی لوگوں کی اخلاقی تربیت کرنے کے لیے پرانی قوموں کے احوال سے آگاہ کریں۔

    دوسرا انتہا پسند طبقہ وہ ہوتا ہے، جو آج کل خود کو اکثر “لبرل و سیکولر” کہہ کے متعارف کرواتا ہے، ملحدین بھی ان کی آواز میں آواز ملا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے رویہ سے لگتا ہے کہ گویا یہ انتظار کر رہے تھے کہ کب کوئی زلزلہ آئے، کب کوئی مولوی اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمائے اور کب یہ اس کی بھد اڑائیں۔ مذاق اڑائیں اور خوش ہوں ایسا کر کے۔ فخر بھی کریں، اور خود کو بہت پڑھا لکھا اور روشن خیال بھی ثابت کریں۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے جیسے ان کو زلزلہ آنے کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا کسی مولوی کے بیان پر اپنی رائے دینے کا موقع ملنے پر خوشی ہوئی ہے۔ یقیناً سب ایسا نہیں کرتے جیسے سب مولوی بھی ایسے بیانات جاری نہیں کرتے مگر بہت سے ایسا ہی کرتے ہیں۔

    اب بات یہ ہے کہ مؤخر الذکر طبقہ چونکہ سائنس کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس لئے ان کی خدمت میں سائنس سے ہی اپنی معروضات پیش کریں گے۔ فدوی خود سائنس اور ریسرچ کا ایک انتہائی ادنیٰ سا طالبعلم ہے اور چوبیس گھنٹے میری روزی روٹی ہی یہی ہے کہ سائنس میں غور کیا جائے۔ میرے محدود تجربے اور علم کے مطابق سائنس یہ ضرور بتا دیتی ہے کہ
    “فلاں فطری مظہر ایسے ہوتا ہے، اس کا قانون یہ ہے”
    (How does it happen?)
    مگر یہ سائنس کبھی بھی حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکتی کہ
    “وہ فطری مظہر کیوں ہوا ہے؟”
    (Why does it happen?)
    اب اس کی مثال بھی پیش ہے۔ ایک فرضی مکالمے کی شکل میں
    یار یہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟
    ٹیکٹونک پلیٹوں کے ہلنے سے
    اور یہ ٹیکٹونک پلیٹیں کیوں ہلتی ہیں؟
    مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلا کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہو، پرتیں حرکت کر رہی ہوں۔
    تو یہ آتش فشاں کیوں پھٹتا ہے؟
    جب اس میں موجود گیسوں کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے تو ایسا ہوتا ہے
    تو یہ گیسوں کا دباؤ کیوں زیادہ ہوتا ہے؟
    زمین کی سطح کے نیچے گرمی ہے بس اس لئے
    اچھا تو یہ گرمی کیوں ہے؟
    کیونکہ زمین کبھی سورج کا حصہ تھی اور سورج گرم تھا
    تو یہ سورج گرم کیوں ہے؟
    اس میں نیوکلئیر فیوژن ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن ایٹم مل کے ہیلئیم بناتے ہیں اور ان کی کمیت میں فرق انرجی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے
    ہائیڈروجن ایسا کیوں کرتی ہے؟ کوئی اور عنصر ایسا کیوں نہیں کرتا؟
    غرض یہ کہ آپ ایسے ہی چلتے چلتے بےشک بگ بینگ تک پہنچ جائے، سوال پھر وہیں کھڑا ہو گا کہ بگ بینگ خود بخود کیسے ہو گیا؟

    اس لئے ایک “عام پاکستانی مسلمان” کی ہاتھ جوڑ کے ان دونوں انتہاؤں سے گزارش یہ ہے کہ سچائی آپ دونوں کی انتہا کے بیچ میں کھڑی ہے۔ آنکھیں اور ذہن کو مذہبی یا سائنسی تعصب سے آزاد کریں تو بالکل سامنے کھڑی ہے۔ زلزلے اللہ کا عذاب بھی ہو سکتے ہیں اور ایک اتفاقی امر بھی۔ نا تو کسی مولوی کو یہ حق ہے کہ وہ کسی کو گناہگار قرار دے کر زلزلے آنے کی وجہ ان کے گناہوں کو قرار دے نا ہی کسی لبرل یا سیکولر یا ملحد کو یہ حق ہے کہ وہ ہر زلزلے کے بارے میں یہی کہے کہ یہ محض ایک اتفاقیہ امر تھا کیونکہ آپ دونوں ہی خدا نہیں ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا جس کا کام ہے اسے ہی کرنے دیں۔ وہ آپ کی رائے کا محتاج نہیں ہے۔ واحد کام جو آپ کر سکتے ہیں وہ ہے دکھ کا اظہار، دعا اور متاثرین کی عملی مدد۔ خدارا قوم کو اس انتہا پسندی کے ہاتھوں یرغمال مت بنائیں۔ اور یاد رکھیں کہ کسی بھی قسم کی انتہا پسندی کا علاج متضاد سمت میں ایک اور انتہا پسندی نہیں ہے بلکہ محض توازن اور اعتدال میں ہے۔ حقیقت پسندی میں ہے۔ اور بطور مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ہر “کیسے” اور ”کیوں“ کا جواب تاعمر تلاش کرتے رہیں، مطالعہ کرتے رہیں، تحقیق کرتے رہیں، کائنات میں غور و فکر کرتے رہیں۔ اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرتے رہیں، انسانیت کی فلاح کے لیے اپنا علم بروئے کار لاتے رہیں۔ اللہ ہم سب کو متوازن، معتدل اور حقیقت پسندانہ بصیرت عطا کرے، آمین

  • آرمی چیف والے بینرز اور معاملہ ہماری عزّت کا  -ہمایوں مجاہد تارڑ

    آرمی چیف والے بینرز اور معاملہ ہماری عزّت کا -ہمایوں مجاہد تارڑ

    کاش فیس بک ایجاد کرنے والے نوجوان بابا جی مارک ذَکر برگ نے کوئی اور کام کر لیا ہوتا – جیسے کپڑے یا چوڑیوں کی دوکان وغیرہ! کاش ان انٹرنیٹ تاروں کو کوئی کیڑا کاٹ لیتا۔ کاش ان ہلکے پیٹ والی مائیوں یعنی آوارہ گرد سیارچوں کو منحوس چھینکوں والی بیماری آن لیتی ،جو پل پل کی خبر کو ‘اِدھر سے اٹھا،تو اُدھر پٹخا’ کے عمل میں ہماری عزّت کا ستیا ناس کیے دیتے ہیں، اور کاش زمین پر ہر ذی روح کی ذرا سی حرکت کو captureکر لینے والے ان سیاروں کو ایک آدھ دن کیلیے اونگھ آگئی ہوتی!

    تا دمِ تحریر آپ میں سے تواکثر جان ہی چکے ہوں گے۔ تاہم، ہمیں تب پتہ چلا جب آج علی الصبح ہمارے تکیے تلے دبے موبائل فون نے ‘چیخ ماری ‘۔اور پھر جب سعودی عرب سے ایک دوست نما کزن نے یہ پوچھ کرہماری عزت پر ہاتھ ڈالاکہ سناؤ کیا کہتے ہو ان بینرز کا؟ جواباً ہماری کھسیانی سی لاعلمی بھری بڑبڑاہٹ پر جناب نےہمیں بے نطق سنائیں کہ جو خبر کینیڈا یسے ملک کی پرلی سرحد پر بیٹھا کوئی چھابڑی والا اپنے سمارٹ فون پر پچاس لوگوں کو ٹیگ لگا کر ، اگلے مرحلے میں اس پر دانش بگھار کر، اس سےاگلے مرحلے میں کسی ڈیلی موشن وغیرہ پر آئیفا ایوارڈ کا کوئی بھڑکیلا سا ڈانس دیکھنے میں مگن ہو گا ، وہ خبر ہم جیسے باخبر “صحافی ” کی حد ِ رسا سے ہنوز دُور است؟!— وہ بینرز جو ہمارے دولت کدے سے 50 فٹ کے فاصلے پر لگے کسی ماڈ سکاڈ گَرل کیطرح دعوت نظّارہ دے رہے ہوں کہ ‘ ہےدیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ’ اور ہمی بےخبر بیٹھے ہوں تو اِس گھامڑ پن پر کون ماتم نہ کرے۔

    اوپر سے اس ظالم کزن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔کچھ ایسا کہہ دیا جس نے ہمارے ضبط کے سارے بند توڑ ڈالے ۔ چلیں آپ بھی جان لیں ہماری ‘بے عزّتی خراب’ ہو نے کا وہ نقطہ عروج کیا تھا ‘جب اس منحوس نے انتہا کر دی ۔ کہا:

    “شرم کرو!!”

    ہمارے تو ہچکی بندھ گئی۔

    یہ پہلی بار نہیں صاحب، پہلی بار نہیں! ایسے شاکس کی تعداد کی، جہادِ زندگانی میں، کوئی حد ہے نہ اخیر۔اسے اتنا لائٹ مت لیں۔ہمارا معصوم جگر اس سے کہیں زیادہ چھلنی ہے جتنا آپ تصور کر سکیں۔جب کبھی کسی ذی روح کو برتھ ڈے وش کرنا ہوتی ہے، ہماری سبکی ہوتی ہے۔ جیسے پچھلے دنوں اِسی شہر اسلام آباد کے ایک دوسرے سیکٹر میں اپنے سگے بھائی کو کرنا تھی۔ تو پتہ چلا شام 4 بجے تک لوگ انہیں بلوچستان کے گاؤں ‘اُستہ محمّد’ سے لیکرامریکہ کے شہر ڈیلیس تک، وہاں سے شارجہ، شارجہ سے سعودیہ اور وہاں سے مانچسٹر تک وِشِز کی قطاریں لگا چکے تھے۔

    بعض ہارٹ پیشنٹس کو مدّنظر رکھتے ہوئےابھی ہم نے وہ سمے شیئر نہیں کیا جسے سن کر نارمل لوگوں کی بھی حالت غیر ہونے لگے۔ بس اللہ کو ایسے ہی منظور تھا۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لیے قعرِ مذلّت میں جا گرنے کا یہ لمحہ ناگہانی کچھ یوں ٹوٹا کہ ایک روز جب ہم اسلام آباد کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کو عازمِ سفرتھے تو گھر کی سیڑھیاں اترتے سمے ہمیں ایک کال موصول ہوئی۔پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں، چک نمبر 144 سے بابا خیر دین آن لائن تھے، جو ہمیں گھر میں پڑے رہنے ،اور سفر نہ کرنے کی وارننگ دے رہے تھے ۔

    “کیوں چا چا جی؟ خیریت؟”

    کہنے لگے “پتر، پارلیمنٹ والی سائیڈ پر ہنگامےوالا ماحول ہے۔ کدھرے پھَس نہ جانڑاں”(کہیں پھنس نہ جاؤ)۔

    ہمارا ماتھا ٹھنکا۔اتنا تو جانتے ہی تھے کہ “علمائے کرام” نے ڈی چوک پر دھرنا دے رکھا ہے، مگرہر پل بدلتے اس جہانِ فانی میں ہم نے صبح سے ٹی وی آن کیا تھا، نہ سوشل میڈیا پر ہی نظر ڈال سکے تھے ۔تجسس ہوا کہ بابا جی کیونکر ہم سے زیادہ اَپ ڈیٹڈ ہیں۔

    ”چا چا جی، آپ کو کیسے پتہ چلا؟“ ہم نے کپکپاتی آواز میں پوچھا۔ پسینے کی بوندیں ہماری پیشانی سے لڑھک کر ہمارے ابروؤں کو تر کرنے لگیں۔
    ”پتر ، یہ اے آر وائی والے دکھا رہے تھے۔ میں نے اپنے موبائیل پہ دیکھا ہے۔“

    یا اللہ خیر۔ہر مابعد لمحہ کچھ ایسی انہونی لیے وارد ہوتا ہے جیسے ہم تو اِس ماڈرن دنیا سے دور، افریقہ کے کسی دور دراز جانگُو قبیلے کے باشندے ہوں۔چھوٹے چھوٹے بچے کینڈی گیم کا سکور ہَیک کیے خود سے بڑوں کو لتاڑ رہے ہوتے ہیں۔
    بجلی کا ِبل اُٹھائے ایک دن اپنے گھر کےمین گیٹ سے باہر نکلے تو سامنے کوڑے والا کھڑا تھا۔بھاگم بھاگ اوپر آئے۔ کوڑا لیجا کر تھمایا تو ہمارے ہاتھ میں بجلی کا بل دیکھ کر وہ قدرے چونکا۔
    ”کدھر صاب جی!“
    ”بل جمع کرانے!” ہم نے تیزی سے پلٹتے ہوئے کہا تو اس کے ہنسی چھوٹ گئی۔

    ”ابھی بھی بینک کے چکر لگاتے ہو صاب؟!!“
    ہم چکرا گئے۔

    “کیوں کیا ہوا؟”

    “صاب جی ، ہم تو موبیل فون سے ہی کر دیتے ہیں۔آپ کو نئیں پتا؟”

    ہم سٹپٹا سا گئے۔خیر، تازہ ترین وقوعہ اِن نا مراد بینرز کا آناً فاناً کہیں سے ظاہرہونا ہے، جنہوں نے آج صبح ہمیں چاروں شانے چت گرا ڈالا۔کہنا یہ ہے کہ اِس ملک میں مارشل لا آئے یا آپ جمہوریت کے شیریں گھونٹ بھریں ، ہماری بلا سے! ہمیں تو اپنی ذاتی عزّت کے کے لالے پڑے ہیں، صاحب! صاف دِکھ رہا ہے، ِاس دنیا میں عزّت سے جینا اب کارِ دشوار ہے۔آپ کیا کہتے ہیں؟

  • آپریشن تھیٹر سے براہِ راست  –  قاری حنیف ڈار

    آپریشن تھیٹر سے براہِ راست – قاری حنیف ڈار

    مثل قران دینی کتاب لانے یا اس کی جیسی سورت اور آیت لانے کے چیلنج کاحقیقی معنی ومفہوم اور غلطی ہائے مضمون کا تفصیلی جائزہ …..

    ایک بہت بڑا علمی فریب اور مغالطہ سادہ لوح لوگوں کے سامنے یہود و نصاریٰ کے جھوٹے چمچے یہ دیتے ہیں کہ قران نے اپنے جیسا قران لکھنے یا سورت بنانے یا اس کے مثل آیت لانے کا جو چیلنج کیا ہے وہ چیلنج کئی بار پورا کردیا گیا ہے۔

    پھر نمونے کے طور پر کچھ ایسی مزاحیہ عربی جملے والی آیات منظر عام پرلائی جاتی ہیں جو ہو بہو قران کی اندھی تقلید (blind following) ہوتی ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ قراآنی الفاظ کی تقلید تو کرلی لیکن اس کی تاثیر کو جواب ديتے وقت موثر ودندان شکن جواب نا دے سکے اور علمی محفل میں غیر جانب دار محققین ماہرین لسانیات عرب کی نظروں میں خود کو نمونہ بناکر رہ گئے کیونکہ اس قسم کی لچر تحریروں پر قراآنی عربی سے آشنا اہل علم و اہل زبان ہنس ہی سکتے ہیں-

    اس معاملے کا سب سے پر لطف پہلو یہ ہے کہ فیس بک پر کچھ نو وارد دہرئے تو كبھی کبھار اس قدر مشتعل و جذباتی ہوکر پوچھ بیٹھتے ہیں کہ چلو میں قران جیسی کتاب تحریر کردوں لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ میری کتاب افضل ہے یا قران؟؟؟

    ان کے جواب میں ہم ان سے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ ” برادر من“ قران کے مثل کتاب لکھ کكر تنقید وتبصرہ، اور موازنہ کی خاطر پیش کردو باقی فیصلہ دنیا کے غیر جانب دار عربی آشنا اہل علم وقلم عوام کو خود کرلینے دو اور اس کتاب کو مارکیٹ میں آجانے کےبعد لوگوں کو اس کے اوپر ایمان لانے دو اور اس كتاب كو اپنااسوہ حیات بنانے دو۔ تاکہ پتا چلے کہ آپ کی اس ”تصنیف لطیف“ کی مقبولیت کی معراج کیا ہے اور کتنی صدیوں تک لوگوں کے ذہن پر یہ حاوی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟؟؟؟

    اصل مسئلہ یہ ہے کہ قران کریم نے اہل عرب کو جو چیلنج دیا تھا کہ اس کے مثل یا اس کے جیسی ایک سورت یا ایک آیت لائی جائے تو وہ اتنے بیوقوف نا تھے کہ اس چیلنج کی گہرائی اور حساسيت کو نہیں سمجھتے تھے اور محمد کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے عربی کی 500 صفحات کی محاورات اور لسانی وثقافتی وسماجی ومعاشی ادبیات پر کتاب لکھ نہيں سکتے تھے – لیکن انہوں نے قراآن کو سنا سمجھا اور اس کے بعد ان سابقہ کافروں پر اس قرآن کا اثر دیکھا جو کسی وقت گناہوں میں لت پت تھے لیکن قرآن نے انہیں کیا سے کیا بنادیا تھا-

    اس لیے ہمارے ننھے منے دہریوں کے لیے اس قرآنی چیلنج کو قرآن سے ہی سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ قران کے مثل قرآن لانے کا چیلنج آخر ہے کیا۔ کیا وہ انسان جس نے قرآن کو اول تا آخر پڑھا ہی نا ہو اس پر تدبر نا کیا ہو؟ وہ قرآن کے مثل یا اس جیسی کتاب یا سورت یا ایک آیت پیش کرسکے گا؟ قرآن کا مقابلہ کرنا ہو توکم ازکم مد مقابل بندے کو اتنا پتا ہونا چاہیے کہ
    1-قران کے اندر ایسے کون سے نمایاں مضامین و موضوعات ہیں جس كا تکرار واعادہ کیا گیا ہے۔
    2-اور سماجی پہلو سے کیا کیا تعلیمات ہیں؟ مادی حوالے سے کیا رہنمائیاں ہیں؟
    3-آخرت کے حوالے سے کیا انسٹرکشن ہیں؟
    4-اور مختلف ادیان کا علمی رد کس طرح کیا گیا ہے؟
    5- اور خود قران نے قران کے اندر اپنا تعارف کیسے کرایا ہے؟
    5-اپنی تاثیر کیا گنوائی ہیں جو بقیہ کتابوں میں نہیں پائی جاتیں؟
    مثلاً اس حوالے سے تو سب سے پہلے خود قران نے ہی اپنے اہم اوصاف کے متعلق خبر دی ہے۔ مثلاً:-
    1- اگر یہ قرآن کریم پہاڑ پر نازل ہوتا تو قران کی ہیبت وجلال سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (الحشر 21)
    2-اس قرآن کو سننے کے بعد ان لوگوں کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ پڑتے ہیں جو اس پر ایمان و یقین نہیں رکھتے۔ (نساء 83)
    3- اس قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے یا اس کی آیت سننے کے بعد اہل ایمان کے دل کانپ جاتے ہیں۔ (حج 34/35)
    4-اگر اس کے اندر کچھ سختی ہو تو ان آیات کی برکت سے ان کے دل موم ہوجاتے ہیں۔ (الزمر 23)
    4-اہل ایمان کے ایمان میں زیادتی اور دل میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔ (الانفال 2)
    4- اس قرآن کو سننے کے بعد غور وفکر کے نتیجے میں لوگ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ (بنی اسرائیل 109-107
    قرآن دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنے متعلق صاف طور پر صد فی صد اعتماد سے یہ بتلاتی ہےکہ
    5- کیوں اور کس لیے نازل ہوئی؟
    6-اس سے فائدہ اٹھانے والےحقیقی لوگ کون ہیں؟
    7-وہ کس پر نازل ہوئی؟
    8-وہ کب نازل ہوئی اور کس رات نازل ہوئی؟
    9-کس زبان میں نازل ہوئی؟
    10-کہاں سے نازل ہوئی؟
    11-کس کے ذریعے نازل ہوئی؟
    12-دنیا کی سب سے پہلی دینی کتاب ہے جو کہتی ہے کہ اس کی حفاظت کی ضمانت اس کے مصنف ومنزل کی ہے

    اس خاص زاوئے سے غور کیجیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اور عیسائیت اور یہودیت اور دیگر ادیان باطلہ کی کتابیں اپنے متعلق ان سوالوں کا قابل اطمینان جواب نہیں فراہم کرتیں۔۔۔

    قصہ مختصر یاد رہے کہ تاریخ میں ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دشمنان اسلام نے قرآن پاک کے ہی الفاظ لے کر چند آیات ترتیب کرنے کی کوششیں کیں ۔ خير کیا اس طرح قران کا چیلنج ٹوٹ گیا؟؟

    جواباً عرض ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دس یا پندرہ فقرات ترتیب دے لینا، کسی عربی یا عجمی عالم کے لیے نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشکل تھا نہ آج ہے۔

    قرآن میں جو چیلنج ہے وہ یہ ہے کہ اگر سمجھتے ہو کہ قرآن دراصل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بشر رسول کی طبع زاد ایسی تصنیف ہے جس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل کانپ اٹھتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں اور سوچ و فکر میں عظیم انقلاب برپا ہوتا ہے جسے صبح شام تلاوت کرنا لوگ باعث ثواب سمجھتے ہیں، اور جس کی تعلیمات پر عمل کرکے زندگی بسر کرنا باعث نجات سمجھتے ہیں تو بنا لاؤ ایسی ہی ایک کتاب جو عربی فصاحت وبلاغت کی سب سے آخری چوٹی پر فائز ہو اور اس قدر جوامع الکلم ہوں کہ عقل دنگ رہ جائے جسے پڑھ کر پتھر دل انسان موم ہوجائیں جو دل و دماغ میں انقلاب برپا کردے اور جسے سات تا دس سال کا بچہ حفظ کرکے فخر محسوس کرے جس کی دن رات مشرق تا مغرب شمال تا جنوب مسلسل تلاوت ہو اور جس پر عمل کرنے میں لوگ اپنی نجات سمجھیں، جسے ویسا قبول عام حاصل ہو جیسا قرآن پاک کو حاصل ہے ، جسے پڑھنے کے بعد عربوں کی طرح مختلف جاہل اور مفلوک الحال غير متمدن وناخواندہ افراد اوراجڈ لوگوں کی اصلاح ایسی ہو کہ قیصرو کسریٰ جیسی اپنے وقت کی سپر پاور کو ناکوں چنے چنے چبوادیں-جسے پڑھنے کے بعد لوگوں کی سماجی زندگی میں ایس انقلاب آجائے کہ چوری زناکاری اور لڑکیوں پر بہتان لگانا یا انہیں زندہ دفن کرنا بند کردیا جائے۔ دل ودماغ کی لت یعنی شراب پینی چھوڑ دی جائے۔ مساکین ویتیم کی پرورش کی جائے اور صدقات و خیرات و زکوت کے ذریعے دل سے مال کی محبت کم اور انسانيت نوازی زیادہ ہوجائے- (سوره بقره 24/25)

    کس کافر نے آج تک ایسی روحانی و قلبی انقلاب پیداکردینے والی کتاب لکھی ہے جس کے اندر دنیا اور آخرت اور ماضی و حال اور مستقبل میں ہونے والے تمام حالات کے متعلق پیشین گوئی قصے اور خبریں تک لکھ دی گئی ہوں اور دنیا نے اختلاف نا کیا ہو بلکہ یہ کتاب (قرآن) ایک ایسے ماحول اور وقت میں یہ باتیں بیان کررہی ہو جب اس کا تصورکرنا بھی ممکن نا ہو-

    یہ ہے وہ چیلنج جو قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیا تھا جسے قبول کرنے کی سعی نامراد ماضی میں بھی کی گئی اور آج بھی کفار نے یہی سعی لاحاصل کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے لیکن قیامت تک خائب و خاسر ہوں گے جو آیات قران کے جواب میں بعض مسیحی مشنریز یا عرب مرتدین و مدعیان نبوت کی طرف سے تصنیف ہوئیں انہیں کوئی پڑھنے والا تو کیا کوئي جاننے والا بھی نہیں ہے اورجواب تصنیف کی جارہی ہیں چند سال بعد ان کا حشر بھی يہی ہوگا ۔ بقول شاعر
    نا ہوا پر نا ہوا میر کا سا انداز نصیب
    ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

    قرآن نے صاف کہہ دیا ہے
    ترجمہ، (قرآن پاک کو باطل نہ آگے سے حملہ آور ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ نازل کردہ ہے اس ذات کی طرف سے جو دانا ہے اور اپنی ذات میں لا محدود ہے۔) (سورۃ حم السجدہ ۔ آیات 42)

    پھر یہ کہ قرآن نے ہر معترض کو اس کے حال کے مطابق چیلنج کیا ہے۔
    یہود نے جب قرآن پر سوال اٹھایا تو ان کو جواب میں چیلنج دیا تو کتاب کا دیا، سورت یا دس سورتوں کا نہیں دیا ۔
    فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَى أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَى مِن قَبْلُ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ( القصص- 48)

    جب حق ان ”یہود“” کے پاس آیا تو کہنے لگے کہ اس کو ویسے معجزے کیوں نہ ملے جیسے کہ موسیٰ کو ملے تھے؟ کیا یہ اس کا کفر نہیں کر بیٹھے تھے جو کچھ موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ گویا معجزات جس نے بھی طلب کیے کبھی مسلمان نہ ہوا اور جو مسلمان ہوا وہ دلیل سے مسلمان ہوا۔ معجزات کی وجہ سے نہیں ہوا ۔ اس کے لیے دلیل ہی بڑا معجزہ ہوتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات دیکھنے والوں نے بھی یہی کہا تھا کہ دونوں جادوگر ہیں۔ جو غلبہ چاہتے ہیں اور کہنے لگے کہ ہم ان سب کا انکار کرتے ہیں۔
    (( قل فأتوا بكتاب من عند الله هو أهدى منهما أتبعه إن كنتم صادقين)) (القصص- 49 )
    آپ کہہ دیجئے کہ لاؤ اللہ کے یہاں سے ایسی کتاب جو زیادہ ہدایت یافتہ ہو ان دونوں کتابوں (تورات و قرآن) سے تا کہ میں اس کی پیروی کروں اگر تم سچے ہو۔

    پھر ساتھ دوسرا چیلنج بھی دے دیا کہ اگر یہ ایسا نہ کر پائیں تو جان لیجئے کہ یہ لوگ دلیل کے بجائے بس خواہشِ نفس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ورنہ ان کے ہر سوال کا مدلل جواب کتاب اللہ میں موجود ہے، اور خواہش نفس کا اتباع کرنے والے سے زیادہ بے انصاف کوئی نہیں ہوتا۔

    یہ یہود کے لیے چیلنج ہے کہ تورات پہ تمہارے آباء و اجداد ایمان نہ لائے اور موسیٰ و ھارون علیہما السلام کو جادوگر کہہ دیا۔ اب قرآن پر تم بھی ایمان نہیں لا رہے تو اس کا حل تو یہ ہے کہ اللہ کے یہاں سے تم ان دونوں سے زیادہ ہدایت یافتہ کتاب لے آؤ کیونکہ بہرحال ہر زمانے میں اللہ کی کتاب ہی متبع رہی ہے نہ کہ انسانوں کی لکھی ھوئی کتابیں۔ لامحالہ انسانیت کو کتاب اللہ اور کلام اللہ کی ضرورت ہے، قیامت تک اور وہی ہدایت کا ذریعہ بھی ہے اور ہدایت کی سند بھی، نہ کہ ہر زمانے کے دانشوروں کی اوٹ پٹانگ باتیں قابل اتباع ہیں۔
    فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ( القصص- 50 )

    اہلِ کتاب کو کتاب لانے کا چیلنج دیا تو مکے والوں کو پہلے دس اور پھر ایک سورت لانے کا چیلنج دیا نہ کہ آیات،، ہر سورت ایک خطبہ ہے جس کا ایک موضوع یا عمود ہوتا ہے۔ ساری آیات اس سے متعلق ہوتی ہیں۔ مثالیں اس سے متعلق ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدا ہوتی ہے، بیانیہ ہوتا ہے، اور انجام یا منتہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ سورہ الکوثر جیسی چھوٹی سورت ہو۔ مکے والے اہل زبان اور پڑھے لکھے تھے، جو ہستی قرآن سنا رہی تھی وہ ان میں ان پڑھ مشہورتھی،، جو پڑھے لکھوں کو چیلنج کر رہی تھی کہ بس ایک سورت جیسی سورت لے آؤ ، وہ قتل کرنے پہ تو تل گئے، سورۃ الکوثر جیسی سورت تک نہ بناکر لا سکے، وجہ کیا تھی؟ وہ قرآن کی حقیقت کو بھی سمجھتے تھے اور چیلنج کے زور کو بھی سمجھتے تھے۔ عربی کے چند جملے بناکر کہنا کہ ہم سورہ الحاد بنا کر لے آئے ہیں، اپنا مذاق خود اڑانے کے قابل ہے۔ اس سورہ الحاد سے زیادہ فصیح و بلیغ اور ذو معنی و با مقصد تو ام کلثوم کے گانے ہیں، مگر اس نے دعویٰ نہیں کیا کہ چونکہ یہ عربی میں ہیں لہٰذا قرآن ہیں، روزانہ اخبارات میں عربی شاعری اور نہایت فصیح مضامین شائع ھوتے ہوتے ہیں، کبھی کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ یہ قرآن ہے، کیونکہ عربی میں ہے۔
    آپریشن فہم و ارتقاء ترمیم شدہ اضافے کے ساتھ۔

  • انھیں بس ایک اور ایدھی چاہیے : سید راشد حسن

    انھیں بس ایک اور ایدھی چاہیے : سید راشد حسن

    12247867_143184039371982_2381542524907879687_o

    موسا دکا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ موساد کی شہرت کا
    دارومدار اس کی سفاکیت اور بے رحمی پر کم اور اپنے ایجنٹس ؂ کی پیشہ ورانہ
    صلاحیتوں کا اعلی معیار قائم رکھنے پر زیادہ ہے۔کچھ سال ہوئے مجھے ایک کتا ب
    میں آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس ایجنسی کے بھرتی (recruitment) کے
    عمل کو کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا گیا تھا ۔مضمون نگار موساد کا ایجنٹ تھا اور اس
    نے سلیکشن کے مختلف مراحل سے گزرنے کی روداد بڑے دلچسپ انداز میں لکھی
    تھی۔سینکڑوں علمی،عملی اوراعصابی امتحانوں کی چھلنی سے گزارنے کے باوجود بھی
    امیدوار کو کسی ایک ڈرل میں مطلوبہ نتائج نہ دینے کی صورت میں مسترد(reject)
    کر دیا جاتا ہے ۔اس ایجنٹ کو جن مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ان میں ایک اعصاب
    شکن آزمائش سیوریج کے انڈرگراؤنڈ جنکشن میں مسلسل کئی گھنٹے گزارنا تھا۔دراصل
    شروع میں پر کئے گئے ذاتی سوال ناموں میں ایک جگہ پوچھا گیا تھا کہ امیدوار کو
    کراہت (disgust) اور الجھن سب سے زیادہ کس ماحول میں ہوتی ہے ، جواب میں اس نے
    سیورج کے تعفن اور باس والی جگہوں پر وقت گزارنے کو اپنے لئے مشکل قرار دیا
    تھا۔ اس کو وہاں اسی لئے بھیجا گیا تھا تاکہ اس کے ضبط اور صبر کی آخری حد کا
    اندازہ لگایا جا سکے۔اس ایجنٹ کے بقول وہاں گزارے وقت نے اس کے اعصاب ایسے شل
    کئے کہ وہ بمشکل اپنے حواس قائم رکھ سکا اور شاید یہ وہ واحد آزمائش تھی جس
    میں اس نے اپنے آپ کو بے بس پایا۔ یعنی کراہت (disgust)کے اس کیفیت کے اگے سپر
    صرف ہم جیسے کمزور اعصاب کے لوگ ہی نہیں ڈالتے بلکہ انتہائی برداشت کے حامل
    غیر معمولی افراد بھی اس کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔

    ہم سب اپنے اردگرد کی بہت سی اشیاء کے بارے میں کراہت (disgust) رکھتے
    ہیں۔انسان اور جانوروں کے فضلات، سڑی ہوئی کھانے کی چیزیں اورگندا پانی، خون
    اور اس اسے آلودہ اشیاء ، خاص طور پر مردہ اجسام کے بارے میں سب ہی اس کیفیت
    سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ کراہت (disgust) ہمیں بہت سی مضر بیماریوں اور مصیبتوں
    سے بچاتا ہے اور ہم میں نفاست کی (sense)پیدا کرتا ہے۔لیکن جب کراہت کی اس
    جبلت کا معاشرے کے افراد کی طرف رخ ہو جائے تو یہ کسی بھی سوشل فیبرککا بیڑہ
    غرق کر دیتی ہے۔

    ہمارے ہاں کراہت (disgust) غلاظتوں سے کم اور اپنی نسل، مذہب، فرقہ اور جماعت
    سے تعلق نہ رکھنے والوں سے زیادہ برتی جاتی ہے۔ہر اوپر والا اپنے سے کمتر
    افراد سے دور بھاگتا ہے۔کمتر پیشوں سے وابستہ افراد سے بے اعتنائی برتناہمارا
    معمول ہے ۔معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا کم ہی کوئی والی وارث بننا پسند کرتا
    ہے۔یہاں اپنے پیاروں کو غسل دینے کے لئے بھی لوگو ں کو باہر سے بلانا پڑتا
    ہے۔یتیموں ، مسکینوں اور بے گھر عورتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔یہ سب
    ہماری بے حسی کا تماشا دیکھنے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔

    لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تعصبات اور کراہتوں(disgusts) کا شکار ہمارے سماج میں اس
    کا کیا قصور ہے جو کسی خاص فرقہ یا طبقہ میں پیدا ہوگیا؟ اس نوزائیدہ کا کیا
    قصور ہے جو مکروہ ترین گناہ کے نتیجہ میں وجود میں آگیا؟ اس لاش کا کیا قصور
    ہے جس سے آنے والے تعفن کی وجہ سے لوگ اسے ہاتھ لگانے سے دور ہے ؟اس یتیم کا
    کیا قصور ہے جس کو اپنانے کو کوئی تیا ر نہیں ہے؟

    ہماری نظر میں تو شاید بیچارگی اور ہم جیسا نہ ہونا ہی ان کے کوڑھی پن کا
    سرٹیفکیٹ ہے لیکن ہمارے رب کی نظر میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا تبھی اس نے
    عبدالستار ایدھی جیسا نادار الوجود شخص کو ہم میں پچھلے ستر سال زندہ رکھا
    تاکہ وہ ان کراہتوں (disgusts)
    کا سہارا بنے جن سے دور رہنے سے ہی ہمارے اعصاب بحال رہتے ہیں۔جدھر بڑے بڑوں
    کے ہمت جواب دے جاتی تھی وہاں ایدھی گیا اور بلاتفریق رنگ نسل اور مذہب کام
    کیا اور اس قدر خلوص ، ایمانداری اور بے لوثی سے کیاکہ آج ان کی عزت اور شہرت
    کسی میڈیا پروجیکشن کی محتاج نہیں ہے۔

    اب ایدھی صاحب کے مرنے کے بعد لوگ ان کے قصیدے لکھ رہے ہیں کہ انھوں نے پندرہ
    سو ایمبولنسسز پر مشتمل چوبیس گھنٹہ سروس فراہم کرنے والے نیٹ ورک بنایا،مردہ
    خانوں اور ایدھی ہومز کا جال بچھایا اور دنیا کے لئے رول ماڈل خیراتی نیٹ ورک
    بغیر کسی حکومتی اور غیر ملکی امداد کے بغیر بنایا، سینکڑوں امن ایوارڈ پوری
    دنیا سے اپنے نام کرا کے پاکستان کا نام روشن کیا، لیکن میری نظر میں
    یہکارنامے، اخبار کی شہ سرخیوں اور نیوز رپورٹس میں تو خوشنما اور (appealing)
    لگتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی اصل میراث (legacy) ریکارڈ بکس کی زینت بننا نہیں
    بلکہ پسے ہوئے اور ٹھکرائے طبقات کا سہارا بننا تھی۔ان اعدادوشمار کو پیچھے
    چھوڑنا کسی حکومت یا ارب کھرب پتی مخیر شخص کے لئے ذرا مشکل کام نہیں ہے لیکن
    انسا نی حسیات (sensations) سے بلند ہو کر سوسائٹی کی کراہتوں کو گلے لگانا وہ
    ناممکن تھا جسے ایدھی صاحب نے سات دہائیوں تک ممکن بنائے رکھا۔ایدھی کا اصل
    کارنامہ ان لوگوں کو سینہ سے لگانا تھا جن کے پاس سے گزرتے ہم اپنی ناک پر
    رومال رکھ لیتے ہیں۔ غرض ہماری غلاظتوں اور تعفن کو سمیٹے رکھنے کا جو احسان
    ایدھی نے ہم پر کیا وہ شاید ہم کبھی نہ اتار سکیں ۔

    ہماری طرف سے جو ٹریبوٹ (tribute) تھوڑا بہت پیش کیا گیا وہ ان کا سرکاری ا
    عزاز کے ساتھ جنازہ (state funeral) ، مین سٹریم ،سوشل میڈیا پر ان کو خراج
    تحسین پیش کرنے اور نامور شا ہراوں کو ان سے منسوب کرنے کا سلسلہ تھا ۔لیکن
    حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ٹریبوٹ، خدمات کے اعترا فات اور عالمی امن ایوارڈ ان
    ٹھکرائے ہوئے پاکستانیوں کے لئے کچھ اہمیت رکھتے ہیں جن کا اصل میں ایدھی ہیرو
    تھا۔انھیں تو بس ایک اور ایدھی چاہیے جو اپنی نگاہوں کو ٹیڑھا اور ناک پر ہاتھ
    رکھے بغیران کی مدد کو آسکے، جو رنگ نسل ،مذہب اور فرقہ کی عینک لگائے بغیر ان
    کے دکھوں کا مداوا کر سکے،جو لینڈکروزر میں بیٹھے بغیر فلاحی کاموں کر سکے،جو
    سرکاری اور غیر سرکاری ڈونیشنز کی دلدل میں گھسے بغیر اتنا بڑا خیراتی نیٹ ورک
    بنا سکے اور جو دھتکارے ہوئے انسانوں کے لئے اپنی زندگی تیاگ کر سکے اور جو ان
    کے وجود سے کراہت(disgust)اور نفرت نہ محسوس کرے ۔انھیں تو ٹریبوٹ نہیں بس ایک
    ایدھی اور چاہیے۔

  • پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک  –  وقار علی، فن لینڈ

    پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک – وقار علی، فن لینڈ

    بدقسمتی سے پاکستان کچھ عرصے سے پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز کے سکالرز اور طالب علموں کے لیے ایک پُرکشش موضوع بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرے سے متعلق شاید ہی کوئی تنازع ہو جس کی بہترین مثال پاکستان میں موجود نہ ہو بلکہ ہر مثال اپنی گہرائی، تنوع، لمبی تاریخ، پیچیدگی اور ہمہ جہت مثالیت کے ساتھ موجود ہے۔

    عام طور پر ملک کے شمال مغربی علاقوں (فاٹا اور خیبر پختونخوا) میں جاری تنازعے کو مذہبی، وسط مغربی (بلوچستان) اور جنوبی (کراچی) علاقوں میں جاری شورش اور ابتری کو نسلی و لسانی جبکہ وسطی (پنجاب) علاقے میں جاری بدامنی کو فرقہ وارانہ تنازع سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ درآں حالیکہ یہ سب تنازعات کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ و منسلک ہیں۔

    بعینہٖ ان تنازعات کے لیے جتنے بھی حل اب تک تجویز کیے گئے ہیں وہ تین موضوعات یعنی جیوپولیٹیکل، مذہب اور ریاست سے متعلق ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں بیشتر تنازعات کا حل ریاست کی خارجہ پالیسی کی درستگی اور توازن میں مضمر ہے۔ یعنی ریاست پاکستان کے خاص طو ر پر اپنے پڑوسیوں اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے پالیسی میں اگر تبدیلی کی جائے تو یہ مسائل بتدریج حل ہوسکتے ہیں۔

    دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ مذہب (یا اس کی ایک مخصوص تعبیر) ان مسائل یا تنازعات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے مذہب (یا اس مخصوص تعبیر) کی اصلاح سے ان تنازعات (خصوصاً شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں موجود مسائل) کا دیرپا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ریاست کو اپنے اندرونی بنیادی پالیسیوں کی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی جس میں سماجی اور سیاسی اصلاحات، جمہوری عمل کا تسلسل، عسکری تسلط کا خاتمہ، علاقائی خودمختاری اور ملک کے تمام طبقات اور اقوام میں اعتماد کی بتدریج بحالی جیسے اہم امور شامل ہیں۔

    تاہم سب سے ضروری نکتہ جس کو کسی بھی حل میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ حل کی عملیت ہے۔ اس حوالے سے جب ہم جیوپولیٹیکل حل یعنی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حل کے پیش کرنے والے پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے علاقائی اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ ظاہر ہے ریاست کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ایک ریاست پولیٹیکل گیم میں خود کو آسانی سے ملوث کرسکتی ہے اور خود اس کے شروعات میں کردار بھی ادا کرسکتی ہے لیکن بعد میں ایسے کسی تنازعے سے خود کو یک طرفہ طور پر نکال لینا یا اس کا خاتمہ اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ممکن بھی ہو تو اس کے لیے عوام میں مضبوط جڑیں رکھنی والی اور طاقتور اعصاب کی مالک قیادت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جاری قیادت کے فقدان کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مزید براں اس خطے (خصوصاً افغانستان) میں جاری پراکسی وار کچھ زیادہ ہی پیچیدہ اور کثیرالجہت ہوگیا ہے اور فی الوقت اس کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ اس میں علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں اور سب اپنے مفادات کو انفرادی سطح پر محفوظ تر بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کھیل میں شامل سب کھلاڑیوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔

    اسی طرح مذہب (یا اس مخصوص روایتی تعبیر) کی اصلاح سننے میں تو ایک دلپذیر خیال اور دلکش عنوان ہوسکتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو اس کے ناممکن ہونے میں کلام ہو۔ یعنی ایں خیال است و محال است و جنوں! اس خیال کے موکلین ہزاروں میں ہوسکتے ہیں اور اس کے حامی لاکھوں میں لیکن پاکستان میں آپ کو 20 کروڑ مختلف النوع انسانوں سے سابقہ ہے جن کی زبانیں مختلف ، مسالک مختلف ، تاریخ اور جغرافیہ مختلف، سماج، سوچ اور کلچر مختلف ہے۔ اس لیے جتنا یہ خیال دلکش و دلپذیر ہے اتنا ہی غیر عملی بھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس خیال کے پیش کرنے والے شاید پاکستان کے سب سے زیادہ جمہوری سوچ رکھنے والے ہیں اور وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی تعبیر دین عوام پر کسی بھی طریقے سے تھوپی جائے۔

    اس لیے سب سے زیادہ عملی اور بہترین ممکن راستہ یہی ہے کہ ریاست اپنے اندرونی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ ان تنازعات میں تمام ریاست مخالف دھڑوں کے درمیان بُعد المشرقین ہے لیکن سب ایک نکتے پر متفق ہیں اور وہ یہ ان کا ایک ہی مشترکہ دشمن ہے جس کا نام ”اسٹبلشمنٹ“ ہے ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ریاست کے اندرونی سطح کے اصلاحات میں اس بات کو کلیدی اہمیت حاصل ہو کہ اس نام نہاد اسٹبلشمنٹ کی شکل و ہئیت کو بالکل بدل کر رکھ دیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کی نوآبادیاتی دور کے تصور کو ختم کیا جائے اور اس کے ظہورپذیر ہونے کے تمام راستوں کو بند کرکے ریاست اور ملک میں جدید دنیا کے تصور اسٹبلشمنٹ سے ہم آہنگ تصور کو فروع دیا جائے۔ دیگر اصلاحات میں پاکستان کے تمام طبقات اور اقوام اور ان کی علاقائی شناخت کو حقیقی طور پر تسلیم کرنا، انتظامی یونٹس کی ازسرنو تشکیل یعنی تمام اقوام کی حقیقی نمایندہ یونٹس کا قیام، فیڈریشن کی جانب پیش قدمی، مقامی ذرائع آمدن پر مقامی حقوق کو یقینی بنانا، وسیع تر قومی معاشرے میں ہم آہنگی اور اعتماد کو فروغ دینے کے لیے مطلوبہ اقدامات، ہر سطح پر جمہوری کلچر اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا، جاگیرداری کا مکمل خاتمہ اور زمین سے متعلقہ اصلاحات، ہتھیاروں کی بجائے علم اور تعلیم پر مرتکز پالیسی، ریاستی اور حکومتی امور میں عسکری تسلط اور غلبے کا خاتمہ اور تمام شہریوں کے (بلاتفریق مذہب ، مسلک ، قومیت ، زبان ، نسل اور جنس) بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بنیادی امور ہیں ۔

    اگرچہ یہ اقدامات اور اصلاحات پاکستان کو غیریقینی کیفیت سے نکال لینے اور اس کے مستقبل کی ضمانت کے لیے ناگزیر ہیں لیکن بدقسمتی سے ریاست اور حکومت اس کے مخالف سمت میں برابر لگی ہوئی ہے اور مجھے ان پالیسیوں کے ناکامی اور ریاست پاکستان پر اس کے دوررس اور انتہائی منفی اثرات کے مرتب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ اس حوالے سے سی پیک کا منصوبہ ایک نہایت اہم، واضح اور اہمیت کا حامل ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ اپنے افادیت کے لحاظ سے یہ نہ صرف پاکستان کی معاشی حالت کے سدھار بلکہ ریاست پاکستان کے حدود کے اندر ایک قوم کی تشکیل کے لیے ایک گراں قدر موقع ہے ۔ تاہم اس کے روٹ میں بنیادی تبدیلی (جس کا تقریباً فیصلہ ہوچکا ہے) اس کو پاکستان میں انتشار اور تقسیم کے لیے ایک عمل انگیز ثابت کرسکتی ہے۔

    لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کےاذہان کبیر نے شاید درست سوچا کہ مغربی روٹ کو علاقے میں بدامنی اور ریاست مخالف انتشار کی وجہ سے اپنایا نہیں جاسکتا حالانکہ یہی تو ریاست کے لیے اصل اور کڑا امتحان ہے کیونکہ اسی امتحان سے گزر کر ریاست اپنے شہریوں کو یہ باور کراسکتی ہے کہ ان کا آنے والا کل روشن اور محفوظ ہے ۔ روٹ تبدیل کرنے کا مطلب ریاست مخالف عناصر کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے؛ اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ ریاست کو چند علاقوں اور چند قومیتوں کے علاوہ باقی علاقوں اور قومیتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی اور وسط مغربی علاقوں میں ریاست اور ریاست کے اندر اپنے مستقبل کے حوالے سے متعلق شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ریاست پاکستان عام طور پر ان شکوک کو ”ملک دشمنی“ اور ”غداری“ کے لیبلز چسپاں کرکے دبانا چاہتی ہے جبکہ یہ شکوک ریاست مخالف گروہوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے لیے محبت رکھنے والے لوگوں میں پیدا ہورہے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق نوجوان نسل میں اس طرح کے جذبات عام ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کے شکوک کا اظہار عام نہیں؛ بالکل تسلیم لیکن وجوہ سب کے علم میں ہیں کہ ایسے شکوک کا کھلے عام اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟

    حال ہی میں القاعدہ اور طالبان کی قید سے رہائی پانے والے حیدر گیلانی نے بھی بہت بروقت ریاست کو اس پر متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ تحریک طالبان اپنا بیانیہ مذہب سے ہٹاکر قومیت کے بنیاد پر پیش کرنے کی طرف جارہی ہے۔ یعنی ان کے دلائل میں اب واضح تبدیلی نظر آتی ہے جہاں مذہب کی بجائے قومیت اور قومی حقوق یا محرومی کا ذکر غالب آرہا ہے ۔ سی پیک روٹ کی تبدیلی ان حالات میں نہ صرف طالبان بلکہ تمام ریاست مخالف گروہوں کو ایک مضبوط ، دیرپا اور مستحکم دلیل فراہم کرسکتا ہے ۔

    حکومت کی طرف سے روٹ کی مبینہ تبدیلی کے بعد ایک خاص قومیت سے تعلق رکھنے والے نام نہاد دانشوروں نے بھی ایک خاموش اور بلاواسطہ پروپگنڈہ مہم شروع کردی ہے جو مغربی روٹ کی خرابیاں اور مشرقی روٹ کی اچھائیاں ”اجاگر“ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مخالف قوتوں کو منفی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک غیرمحسوس طریقہ کیا جارہا ہے ۔ اس طرح کی حرکات پاکستان کے مختلف النوع قومیتوں کے درمیان دراڑ کو مزید مضبوط اور گہرا کرسکتی ہیں ۔

  • لڑکیوں کے لیے تعلیم ضروری تو ہے مگر!  –  رئیس فاطمہ

    لڑکیوں کے لیے تعلیم ضروری تو ہے مگر! – رئیس فاطمہ

    ”میرا بس چلے تو آیندہ پانچ سال کے لیے لڑکیوں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی پابندی لگوادوں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے غصے اور جھنجھلاہٹ سے کہا۔

    ’’آپ بالکل صحیح فرمارہے ہیں۔ میں بھی آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔

    میں نے حیرت سے دونوں شخصیات کو دیکھا اور وجہ جاننا چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے کرب سے کہا۔ ’’اس لیے کہ لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں ڈگری پہ ڈگری لیے جاتی ہیں اور جب ان کے معیار کے مطابق رشتہ نہیں ملتا تو قسمت کو کوستی ہیں۔ اعتراض مجھے اس لیے بھی ہے کہ شادی کو ڈگری سے کیوں مشروط کردیا گیا ہے؟ لڑکی اگر ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے تو لڑکے کا بھی برابر کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوتا ہے، نتیجہ یہ کہ بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

    اور آپ کیا کہتے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔

    ’’میں بھی ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال ہوں۔ میری بیگم کی تعلیم شادی کے وقت صرف انٹر تھی اور میں اس وقت گریڈ 17 کا لیکچرر۔ میری والدہ نے بہت سوچ سمجھ کر یہ رشتہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی لڑاکا، جھگڑالو اور بدتمیز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کے مقابلے میں آسیہ اس لیے اچھی لگی کہ اس نے ایک مہذب ماحول میں پرورش پائی تھی۔ بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں اور آسیہ واقعی بہت سمجھ دار اور دھیمے مزاج کی مالک تھی۔ اس نے میری والدہ، والد اور دونوں بہنوں سے اس طرح تعلقات رکھے کہ اس کی شرافت اور محبت کی بنا پر فوراً ہی اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔

    میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ برسوں سے بہت پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں نے کبھی اس بات کو ایشو نہیں بنایا کہ لڑکی بھی انھی کے برابر پڑھی لکھی ہو۔ خدا جانے یہ خناس کیوں لڑکیوں اور ان کے والدین کے دماغ میں سما گیا ہے کہ بہرصورت داماد نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ ملازمت کا حامل بھی ہو۔ اور اپنا ذاتی مکان بھی ہو، نوکری سرکاری ہو اور اکلوتا ہو تو کیا کہنے۔ شادی کے بعد علیحدہ گھر میں رہنا بھی ضروری ہے۔ یہی آج کل لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اور اسی لیے کنواریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ طلاق کی شرح میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ بھی ہو رہا ہے۔‘‘

    اچانک ڈاکٹر صاحب نے بیچ میں لقمہ دیا۔ دونوں پریشان تھے اور صحیح تھے۔

    ”دراصل اس ملک میں سب کچھ بغیر کسی پلاننگ کے ہوتا ہے۔ خاص طور سے تعلیمی میدان میں یہ وبا حد سے زیادہ ہے۔ ایک زمانے میں لوگ اپنی ذاتی دلچسپی اور صلاحیت کی بنا پر کسی شعبے کا انتخاب کرتے تھے۔ پھر اچانک خدا جانے کیوں سائنس کی تعلیم کی طرف مائل ہوگئے۔ وہ بھی طب کے شعبے کی طرف۔ ہر لڑکا اور ہر وہ لڑکی جس نے انٹر سائنس کرلیا۔ وہ صرف ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ میں نے جن کالجوں میں بھی پڑھایا، وہاں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی تعداد پری میڈیکل میں بہت زیادہ تھی۔ پھر ہوا یوں کہ بغیر کسی تحقیقی رجحان کے مالی منفعت کے لحاظ سے ڈاکٹری کا پیشہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی بھی اولین ترجیح رہی۔ لیکن اس بھیڑ چال کا نتیجہ یہ ہوا کہ M.B.B.S ڈاکٹروں کی ایک کھیپ تیار تو ہوگئی۔ مگر ان کے لیے سرکاری ملازمتیں نہیں تھیں۔ پھر یہ ریوڑ ڈاکٹروں کی زبوں حالی اور بے روزگاری دیکھ کر انجینئرنگ کے شعبے کی طرف مڑ گیا۔ اب پری میڈیکل کا ایک سیکشن اور پری انجینئرنگ کے چار چار سیکشن کالجوں میں بنانے پڑے۔ لیکن یہاں بھی وہی طلب اور رسد کے توازن کے بگاڑ کی بنا پر سارے کا سارا ریلہ کامرس کی تعلیم کی طرف مڑ گیا۔ اور پھر MBAاور کمپیوٹر سائنس کی طرف طلبا و طالبات نے دوڑ لگادی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی عالمی معیار پہ پوری نہیں اترتی۔ اور بھلا اترے بھی کیوں؟ یہ مال بنانے کی فیکٹریاں ہیں، جہاں نقل، سفارش اور جعلی ڈگریوں کا گٹھ جوڑ ہے اور خوب ہے۔“

    لیکن جس خرابی کی طرف ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب اور پروفیسر صاحب نے توجہ دلائی تھی وہ آج کا اہم مسئلہ ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے کی بنیاد صرف میرٹ ہوتی ہے۔ عموماً لڑکیاں نمبر زیادہ ہونے کی وجہ سے داخلہ حاصل کرلیتی ہیں۔ اس طرح تناسب بگڑ جاتا ہے۔ 80 فیصد لڑکیاں محض وقت گزاری کے لیے تعلیمی استعداد بڑھاتی رہتی ہیں، جبکہ لڑکوں کو یہ نقصان ہوتا ہے کہ انھیں یا تو تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے، یا پھر خاندان کی کفالت اور باپ بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے نوکری کرنی پڑتی ہے۔ لڑکیاں ماسٹرز کرکے رشتوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ لیکن بوجوہ ان کے من پسند رشتے جب نہیں ملتے تو پھر فرسٹریشن جنم لیتا ہے۔

    ذرا گہرائی میں جاکر کھلی آنکھوں سے دیکھیے تو ہوش اڑا دینے والے واقعات جنم لیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی دونوں صاحبزادیاں ڈبل ایم اے ہیں۔ رشتے آتے تھے، مگر لڑکیوں کی ترجیح وہی تھی، آفیسر گریڈ، اعلیٰ تعلیم اور اپنا مکان، نتیجہ؟ دونوں کی شادی کی عمریں نکل گئیں تو وہ والدین سے بغاوت کر بیٹھیں۔ تفصیلات بتانا ممکن نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ بے چارے پروفیسر صاحب لڑکیوں کی تعلیم ہی سے برگشتہ ہوگئے۔ اور ہمارے ڈاکٹر صاحب جن کے لیے ’’مسیحا‘‘ کا لفظ زیادہ بھلا لگتا ہے، وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ صرف ایک بہن شادی شدہ باقی کنواری۔ تینوں بہنیں کسی رشتے کو خاطر میں نہ لاتی تھیں، ایک وکیل، ایک جج، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر۔ والدین بھائی بھاوج اور بڑی بہن کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تینوں اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص سے شادی پہ راضی نہ ہوئیں۔ پھر عمریں ڈھلنے لگیں اور ایسے رشتے آنے لگے جن کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا، یا وہ ذمے داریوں کی بھرمار کی وجہ سے وقت پہ شادی نہ کرسکے تھے۔

    ایسے میں کراچی کے ایک کالج کی پرنسپل کی مثال دینا چاہوں گی۔ وہ بھی آئیڈیل اور معیار کے چکر میں ریٹائرمنٹ تک جاپہنچیں۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انھوں نے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے صاحب جائیداد شخص کا رشتہ بخوشی قبول کرلیا جن کی بیوی کا ایک سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں سب شادی شدہ تھے۔ تب بہوؤں، بیٹوں اور بیٹیوں نے باہم مشورے سے سابق پرنسپل سے والد کا نکاح کروادیا۔ کالج کا اسٹاف حیران تھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے تو خاتون کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں اور اب یہ کہ نانا دادا بن جانے والے صاحب سے برضا و رغبت شادی کے لیے تیار ہوگئیں۔ یہ کیونکر ہوا؟ تب انھوں نے دل گرفتہ لہجے میں اپنی ان چند قریبی ساتھیوں کو بتایا (جو خود بھی غیر شادی شدہ تھیں) کہ وہ بھی لیکچرر بننے کے بعد بہت اونچی ہواؤں میں اڑ رہی تھیں، کسی رشتے میں ماں باپ نقص نکال دیتے، کسی کو وہ خود ریجیکٹ کردیتیں، آہستہ آہستہ ان کی مانگ میں چاندی اگنے لگی۔ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے رشتے آنے لگے، ان کا حشر سامنے تھا، بہنیں بھی ناخوش رہنے لگیں اور انھیں اپنے راستے کا پتھر سمجھنے لگیں۔ پھر گھر والوں نے ان کی پرواہ کیے بغیر دونوں بیٹیوں کی شادیاں انٹر اور بی اے کے بعد ہی کردیں۔ یہ اپنے گریڈ میں مست۔ پھر والدین کا بھی انتقال ہوگیا، بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، وہ اپنی فیملی میں مست ہوگئے۔

    تب انھیں احساس ہوا کہ شادیاں انسانوں سے ہوتی ہیں، ڈگریوں اور عہدوں سے نہیں۔ قصور وار ان کی والدہ زیادہ تھیں جنھوں نے بیٹی کے دماغ میں بٹھادیا تھا کہ روئے زمین پر کوئی اس کے قابل نہیں۔ اب تنہائی کے جنگل میں اکیلے پن نے انھیں اپنی غلطی کا احساس دلایا۔ تب انھوں نے یہ رشتہ برضا و رغبت قبول کیا۔ کسی ساتھی نے یہ بھی کہا کہ اس عمر میں شادی تو کرلو گی، لیکن اولاد کہاں سے لاؤگی؟ تب کسی دوسری پروفیسر نے کہا کہ بڑھاپے میں اصل ساتھی میاں بیوی ہی ہوتے ہیں۔ بچے ہیں بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سب اپنے اپنے گھونسلے بنا لیتے ہیں۔ آنگن ان کی چہکار کے لیے ترستا ہے۔ آج کئی سال ہوگئے ہیں اس شادی کو۔ سابقہ پرنسپل اپنے سوتیلے بیٹے کی فیملی کے ساتھ اوپر کی منزل میں رہائش پذیر ہیں۔ عید بقر عید پر سارے بچے انھی کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی دستر خوان لگتا ہے۔ خاتون نے رشتے توڑنے اور شوہر کے خاندان سے نفرت کے بجائے محبتوں کی کیاری لگا کر پھول اگائے۔
    (بشکریہ ایکسپریس)

  • پاناما لیکس یا پاجامہ!  –  ظفر عمران

    پاناما لیکس یا پاجامہ! – ظفر عمران

    zafar imranمحترم عامر ہاشم خاکوانی فرماتے ہیں کہ ‘در اصل فوج کے حوالے سے آپ ایک خاص موقف طے کرچکے ہیں، تو اس سے ہٹ کر آپ کو کوئی بھی بات نا گوار لگتی ہے۔’ میں نے ان کی بات کو تسلیم کرتے کہا کہ فوجی بھی اتنا ہی بد عنوان ہوسکتا ہے، جتنا کہ سیاست دان۔ یہ مضمون اسی بحث کی کڑی ہے۔

    آج کل پاناما لِیکس کا شوروغوغا ہے۔ سیاست دانوں بالخصوص شریف فیملی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ کوئی بات نہیں، یہ جمہوریت کا حسن ہے، کہ کوئی آپ سے سوال کرے، آپ تسلی بھرا جواب دیں؛ لیکن یہ نہ کیجیے، کہ سوال کرنے والے کو ‘مِسنگ پرسن’ بناکر رکھ دیا جاے۔ پاناما لِیکس میں جو الزامات لگاے گئے، ان کی تحقیق ہو، کوئی مجرم ثابت ہو جاے، تو سزا دی جاے۔ ماضی دیکھیے، اسی ملک میں ایک منتخب وزیر اعظم پہ قتل ‘ثابت’ ہوا، انھیں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ دوسرے منتخب وزیر اعظم طیارہ اغوا کرتے ‘رنگے ہاتھوں’ دھر لیے گئے؛ ملک بدر کیے گئے۔ تیسرے وزیر اعظم توہین عدالت کے مرتکب ہوے، عہدے سے برخاست کیے گئے۔

    کسی سیاست دان میں اتنا دم خم ہی نہیں، کہ کسی فوجی کا احتساب کر سکے؛ جب کہ سیاست دانوں کا احتساب ہر فوجی آمر نے کیا، نتیجہ یہی نکلا کہ کچھ پاک ہو کر فوجی اقتدار کا حصہ بنے؛ کچھ کے خلاف عدالت میں ثبوت ہی نہ فراہم کیے جاسکے؛ چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں، کہ جن کے خلاف ثبوت میسر نہ ہوے، وہ گھاگ تھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ ایسے سیاست دان عدالتوں سے بے گناہی کا فیصلہ لیتے دس سال جیل میں گزار دیتے ہیں۔

    اب آتے ہیں، اس کیس کی طرف جو سولہ سال فیصلے کا منتظر رہا؛ اصغر خان کیس۔ ملاحظہ ہوں اس فیصلے کی جھلکیاں۔

    ‘چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں، جسٹس جواد ایس خواجہ اور عارف حسین خلجی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 1990ءکے انتخابات میں آئی جےآئی بنانے سےمتعلق سولہ سال پرانے اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے، کہ نوے کے انتخابات میں اِسٹیبلش منٹ کے بناے گئےسیاسی سیل کے ذریعے دھاندلی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، اور عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جو سیاست دان اس سے مستفید ہوئے ان کی تحقیقات کی جائیں۔ اس کے علاوہ فیصلے میں سب سے اہم حکم کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود ہے تو ختم کیا جاے، صدر حلف وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔’

    آخر کیا وجہ ہے، کہ ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی؟ کچھ نہیں، تو فوج ان افسران کو بہ حال کر کے ناراضی کی سزا ہی سنا دے! اب آپ کوئی یہ کہے، کہ میں نے پاناما لِیکس کے ‘مجرموں’ کو بچانے کے لیے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی ہے، تو ان کے لیے مقدمے کے فیصلے سے یہ حوالہ پیش کرتا ہوں۔

    ‘ایف آئی اے کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی انکوائری رپورٹ کہتی ہے کہ یونس حبیب نے الیکشن میں دھاندلی وغیرہ کے لیے آئی ایس آئی کے ذریعے دیئے گئے پینتیس لاکھ روپے کے علاوہ نواز شریف کو بیس کروڑ روپے کی رشوت دی تھی۔’

    لیجیے جناب، حاکم وقت جناب میاں نواز شریف کا نام بھی شامل ہے، گنہ گاروں میں۔۔۔ میری راے ہے، کہ کسی نئی تحقیق میں پڑنے سے بہ تر ہے، پہلے سے ہوے عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاے؛ سولہ سال لٹکنے والے اس مقدمے پہ قوم کا کتنا پیسا ضائع ہوا، اس کا حساب تو ہو۔۔۔ سنیے! ایسا ہوگا نہیں۔۔۔ فوج کے خلاف چاہے جتنے فیصلے آ جائیں وہ ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں؛ واقع یہ ہے، کہ سیاست دان کم زور مقدموں میں بھی جیل کی ہوا کھاتے آے۔

    جناب خاکوانی، کیا آپ سمجھتے ہیں، کہ پاناما لِیکس، اور پاجامہ لِیکس کی اصطلاحیں کوئی معنی رکھتی ہیں؟

  • برہان وانی میری ڈسپلے پکچر پر کیوں؟  –  ارمغان احمد

    برہان وانی میری ڈسپلے پکچر پر کیوں؟ – ارمغان احمد

    میں آج کل یورپ میں رہ رہا ہوں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں کی حکومتیں دہشت گردی کے بارے میں کس قدر حساس ہیں۔ بھارت کی بھی پوری کوشش ہے کہ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔ اس کے باوجود میرے ضمیر نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں اس نوجوان شہید کے ساتھ اظہار یکجہتی نا کروں۔ باقی پھر جو اللہ کو منظور۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ میرا فرض ہے کہ میں اس سلسلے میں کچھ چیزوں کی وضاحت کروں۔ شکوک و شبہات دور کروں تا کہ میں لوگوں کو غلط سمت میں ڈالنے کا سبب نا بنوں۔

    سب سے پہلے یہ واضح کر دیں کہ جہاد اور دہشت گردی میں فرق ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دہشت گرد جہاد کرنے کا دعویٰ کر رہا ہو اور آپ کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ وہ درست کہہ رہا ہے یا غلط۔ اسی طرح جب میں ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ کو جہنمی کتا کہتا ہوں مگر کشمیر کے جدوجہد کرنے والوں کو مجاہد کہتا ہوں تو ضرور کچھ لوگوں کو یہ بات دوغلی یا دو عملی لگتی ہوگی۔ اب ان تمام شکوک و شبہات کا جواب پڑھیں۔

    پہلی بات یہ ہے کہ سویلینز پر حملہ چاہے کشمیر میں ہو، چاہے بھارت میں چاہے پاکستان میں، وہ دہشت گرد ہے اور قابل مذمت ہے۔

    دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی طور متنازع علاقے میں اگر آپ پر ظلم کیا جا رہا ہو تو پھر چاہے وہ آئرلینڈ ہو، کشمیر ہو، سکاٹ لینڈ ہو یا فلسطین، وہاں ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد دہشت گرد نہیں ہے جب تک کہ سویلینز کو نشانہ نا بنایا جائے۔ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گرد میں فرق کرنا ضروری ہے۔

    مجھے معلوم ہے بہت سے دوست دوسرے نکتے کے بین السطور پیغام کو فراموش کر دیں گے۔ اس لیے مزید واضح لکھتا ہوں۔ بلوچستان قانونی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کوئی ایسا حل طلب مسئلہ نہیں کہ جس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں تک موجود ہوں۔ اسی طرح پاکستان میں فاٹا وغیرہ میں کوئی ایسا متنازع علاقہ نہیں کہ ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا فوج کے خلاف بھی کوئی جواز بنتا ہو۔ اور داعش کی تو بات ہی کیا کرنی۔ ان کا تو کوئی بھی کام اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتا۔

    جہاں بھی کسی ملک پر غیر ملکی حملہ کیا جائے، اس پر قبضہ کیا جائے غیر قانونی طور پر اور وہاں کی آبادی پر ظلم کیا جائے تو اقوام متحدہ اور دنیا کا ہر قانون ان کو آزادی کی جدوجہد کی اجازت دیتا ہے۔ اور وہ سو فیصد جائز سمجھی جائے گی پھر وہ چاہے عراق ہو، افغانستان ہو، کشمیر ہو یا فلسطین۔

    جی مجھے پتا ہے اس نکتے پر کچھ لوگوں کے ذہن میں کیا مکالمہ آ رہا ہو گا، آئیں اس کا جواب بھی سن لیں۔

    پہلے مکالمہ سن لیں: ”چونکہ پاکستان افغانستان پر حملے کے دوران امریکا کا اتحادی تھا، اس لئے اس کے خلاف ٹی ٹی پی کا لڑنا جائز ہوا نا پھر“

    اب اس کا جواب سن لیں۔ ہرگز جائز نہیں ہوا، بودی دلیل ہے۔ کیسے؟ افغانستان پر جب حملہ ہوا تو وہاں کون حکمران تھا؟ افغان طالبان۔ کیا پاکستانی طالبان وہاں حکمران تھے؟ جواب ہے نہیں۔ تو پاکستانی ریاست پر اصل غصہ کس کو ہونا چاہیے تھا؟ افغان طالبان کو یا پاکستانی طالبان کو؟ ظاہر ہے افغان طالبان کو۔ مگر کیا انہوں نے غصہ کیا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ پتا ہے کیا کیا؟ اس کا جواب آپ کو میں نہیں دوں گا بلکہ سترہ جنوری 2014 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے افغان طالبان کی طرف سے جاری کیا گیا خط دے گا۔ یہ خط ساتھ دیا جا رہا ہے۔ اس تاریخ کے جنگ اخبار سے اس کی تصدیق بھی کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی بات سمجھ نا آئے تو ”آپریشن ایول نائٹ ایئر لفٹ“ گوگل کر کے پڑھ لیجیے گا، پھر بھی سمجھ نا آئے تو جنرل مشرف پر امریکی انتظامیہ کے ڈبل گیم کے الزامات پڑھ لیجیے گا، پھر بھی سمجھ نا آئے تو افغان مسلے کی اصل پارٹی افغان طالبان اور ملا عمر کی طرف سے ریاست پاکستان یا پاک فوج کے خلاف زیادہ نہیں محض ایک، صرف ایک جی ہاں میں دہرا رہا ہوں صرف ایک بیان پیش کر دیں تو ہم جھوٹے اور ٹی ٹی پی سچی۔

    اس تمام گفتگو کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ برہان وانی ایک شہید ہے، ایک ہیرو ہے اور ہمارے احترام کا مستحق ہے۔ ہاں اگر اس نے ایک بھی سویلین پر حملہ کر کے دہشت گرد کی ہے تو میں اسے اپنا ہیرو نہیں مانوں گا۔ یہ تھیں کچھ معروضات ایک “عام پاکستانی مسلمان” کی طرف سے۔

    اور اب اس مضمون کا حاصل کلام۔ کیا آپ کو پتا ہے کہ اس مضمون کے موضوع کے مطابق ایک ”عام پاکستانی مسلمان“، ”ایک مذہبی شدت پسند“ اور ”ایک سیکولر و لبرل شدت پسند“ میں کیا فرق ہے؟

    مذہبی شدت پسند کہے گا: افغان طالبان، ٹی ٹی پی، کشمیری فلسطینی، داعش سب مجاہد ہیں
    سیکولر و لبرل شدت پسند کہے گا: یہ سب دہشت گرد ہیں
    جب کہ عام پاکستانی مسلمان کہے گا: محض افغان، کشمیری اور فلسطینی مجاہد ہیں تب تک جب تک کہ وہ جنگ کے اسلامی احکامات و آداب کا خیال رکھیں گے، سویلینز پر حملے نہیں کریں گے، دہشت گرد نہیں کریں گے۔ باقی تمام گروہ دہشت گرد ہیں ہر لحاظ سے۔

    اللہ ہمیں اعتدال اور خلوص کے ساتھ سچ سوچنے، سمجھنے اور کہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین