Category: اسپورٹس

  • قیدی اور پنجرہ – اسری غوری

    قیدی اور پنجرہ – اسری غوری

    اسری غوری اسے پنجروں میں قید پرندے دیکھ کر ہمیشہ ہی دکھ ہوتا تھا..
    وہ اکثر ایسے پنجرے کھول دیا کرتی تھی..
    اور جب کسی بھی پنجرے سے پرندہ پھر سے اڑ کر آزاد فضا میں سانس لیتا اور فضا کی بلندیوں تک جاتے جاتے بھی وہ مڑ مڑ کر اسے دیکھتا تو…
    وہ اڑتے پرندوں کی محبت اور تشکر بھری نگاہوں کو پہچان لیا کرتی تھی…
    اس لمحہ اس پر اک عجیب سی سرشاری کی سی کیفیت طاری رہتی…
    پھر یوں ہوا..
    وقت نے ایسا پلٹا کھایا..
    وہ اب اپنے پنجرے کی جالیوں سے باہر دیکھا کرتی ہے..
    اور
    اس کا پنجرہ کھولنے والا کوئی نہیں..

  • نہیں نہیں، فواد عالم تم نہیں – شاہد اقبال خان

    نہیں نہیں، فواد عالم تم نہیں – شاہد اقبال خان

    fawad_alam ’نہیں نہیں، فواد عالم تم ون ڈے ٹیم میں نہیں کھیل سکتے۔‘
    ’مگر کیوں؟ میں نے تو ون ڈے انٹرنیشنل میں 40 اور ڈومیسٹک ون ڈے میں 48 کی ایوریج سے بیٹنگ کی ہے۔‘
    ’ایوریج تو ٹھیک ہے مگر تمھارا سٹرائیک ریٹ ٹھیک نہیں‘
    ’اتنی ایوریج پر کتنا سٹرائیک ہو تو کافی ہوتا ہے؟‘
    ’75 تو ہو کم از کم‘
    ’ہاں میرا بھی سٹرائیک 75 کا ہی ہے۔‘
    ’مگر تم تیز نہیں کھیل سکتے۔ میرا مطلب ہے کہ آخری اوورز میں 150 کے سٹرائیک ریٹ کی ضرورت ہوتی ہے، تب تم سے نہیں کھیلا جاتا۔ تب جب چھکوں چوکوں کی ضرورت ہو۔‘
    ’میری آخری دونوں ون ڈے ففٹیز میں میں نے ٹوٹل 6 چھکے لگائے تھے اور ایشیا کپ کے فائنل میں جب میں نے سنچری کی، تو اس میں میں نے آخری 78 رنز صرف 38 بالز پر بنائے تھے۔‘
    ’اچھا ہاں سری لنکا کے خلاف ناں؟ ان کے تو سپنرز تھے۔ فاسٹ باولر کو نہیں مار سکتے تم‘
    ’مگر اس میچ میں میں نے مالنگا کو بھی 2 چھکے اور 2 چوکے مارے تھے‘
    ’اچھا پر تم ہٹر لگتے نہیں ہو۔ اگر میں نے تمہیں ٹیم میں رکھا تو مجھ پر بہت تنقید ہو گی۔‘
    ’چلیں ٹیسٹ ہی کھلا لیں۔ میری ٹیسٹ اوسط بھی 42 اور ڈومیسٹک میں 56 ہے۔‘
    ’اچھا 56 کی اوسط ہے؟‘
    ’ہاں جی اور پاکستان کی طرف سے تاریخ کی سب سے زیادہ ڈومیسٹک اوسط میری ہی تو ہے۔ دنیا میں بھی ٹاپ ٹین میں آتا ہوں۔‘
    ’مگر تمھارا سٹائل بڑا عجیب سا ہے۔ ‘
    ’چندرپال اسی سٹائل سے کھیلتا تھا مگر بڑا کامیاب تھا‘
    ’ہاں مگر اس ٹیکنیک سے انگلینڈ میں نہیں کھیلا جاتا۔‘
    ’مگر میں نے تو کاؤنٹی میں بھی 80 سے زیادہ کی اوسط سے بیٹنگ کی‘
    ’تم نے کاؤنٹی بھی کھیلی ہے؟‘
    ’جی 2006ء میں لیور پول چیمپئن شپ اور 2011ء میں لنکا شائر کی طرف سے کھیلا تھا۔‘
    ’واہ بھئی زبردست مگر مسئلہ یہ ہے کہ تم ہو مڈل آرڈر کے کھلاڑی اور یونس، مصباح اور اسد شفیق کے ہوتے ہوئے ہم مڈل آرڈر کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے۔‘
    ’مجھے اوپنر کھلا لیں۔ میں نے تو اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری سری لنکا کے خلاف بطور اوپنر ہی کی تھی۔‘
    ’ہاں مگر اب جو بچے اوپنر کھیل رہے ہیں، وہ بھی اچھے ہیں، کبھی کبھی ففٹی بھی کر جاتے ہیں۔ ان کو فی الحال ٹرائی کرنا ہے، اس کے بعد 5،4 اور بچے ہیں۔ اس کے بعدخدا نے چاہا تو تمہیں بھی چانس ملے گا۔‘
    ’تو ابھی میں کیا کروں؟‘
    ’ابھی۔۔ تمھیں ٹی ٹونٹی کھیلا لیتے ہیں۔‘
    ’اس میں کس نمبر پر کھیلوں گا‘
    ’چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھیلو گے‘
    ’مگر آپ تو کہ رہے تھے کہ میں تیز نہیں کھیل سکتا‘
    ’ہاں ۔۔ پر چلو فیلڈنگ کر لینا‘

    2008ء میں 10 سال تک مسلسل نظرانداز ہونے کے بعد مصباح الحق نے کہا تھا کہ خدا کرے پاکستان میں کوئی اور مصباح پیدا نہ ہو۔ اب اس لائن میں آپ مصباح کاٹ کر فواد عالم لکھ سکتے ہیں۔ 2003ء میں فواد عالم پاکستان کی طرف سے انڈر 19 کھیل رہا تھا۔ پوری دنیا کے کمینٹریٹر اسے مستقبل کا پاکستان کا کپتان بتا رہے تھے مگر شاید وہ بھول رہے تھے کہ وہ آسٹریلیا یا انگلینڈ میں نہیں پاکستان میں کھیل رہا ہے۔ اس وقت فواد عالم ایک زبردست ہٹر تھا۔ 2006ء میں جب پاکستان نے ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تو اس میں پاکستان کے تمام بڑے سٹارز نے بھرپور شرکت کی۔ 22 سالہ فواد عالم نے اس میں شعیب اختر، محمد سمیع اور محمد آصف کی خوب درگت بنائی۔ اس وقت فواد عالم آل راؤنڈر تھا۔ اس ایونٹ میں فواد عالم بہترین بیٹسمین کے ساتھ ساتھ بہترین باؤلر بھی قرار پایا اور فائنل کا مین آف دی میچ بھی۔ مگر ٹورنامنٹ کے بعد عمران نذیر کو سلیکٹ کر لیا گیا۔ 2008ء میں کینیڈا میں چار ملکی ٹورنامنٹ میں فواد عالم کی ٹیم میں انٹری ہوئی۔ فائنل میں آخری اوور میں پاکستان کو 18 رنز درکار تھے۔ باؤلر فرنینڈو تھا جو بہترین یارکر نے کے ساتھ ساتھ اس وقت سلو بال کرنے والے چند بالرز میں شامل تھا۔ فواد عالم نے اسے اوور میں 2 چھکے جڑ کر میچ جیت لیا۔ اس کے بعد فواد عالم کو ڈراپ کر دیا گیا۔ اسے کہا گیا کہ ون ڈے ٹیم میں آل راؤنڈر کی جگہ خالی نہیں۔ وہ اگر اپنے آپ کو پراپر بیٹسمین بنا لے تو اس کی ٹیسٹ اور ون ڈے میں جگہ بن سکتی ہے۔

    بیچارے فواد عالم نے خود کو پراپر ٹیسٹ بیٹسمین کے روپ میں لانے کے لیے اپنا سٹائل بدل لیا اور رنز کے انبار لگانے لگا۔ اسے ٹیسٹ کھیلایا گیا مگر 3 میچز کھلانے کے بعد پتہ نہیں کیوں ڈراپ کر دیا گیا جبکہ اس نے ان 3 میں سے ایک میچ میں 168 کی شاندار اننگز بھی کھیلی تھی۔ اس کے بعد کبھی اسے ٹیسٹ نہ کھیلایا گیا۔ اسے ون ڈے میں بار بار چانس دیا گیا اور ہر بار سکور کرنے کے باوجود یہ کہہ کر ڈراپ کر دیا جاتا تھا کہ سٹرائیک ریٹ کم ہے۔ میں ایسی سلیکشن کو نہیں مانتا۔ کیا آپ مانتے ہیں؟

  • ہاکی کی حالت زار اور ایشین چیمپئنز ٹرافی – نجم الحسن

    ہاکی کی حالت زار اور ایشین چیمپئنز ٹرافی – نجم الحسن

    نجم الحسنکچھ عرصہ پہلے دلیل پر میرے ایک دوست نے پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی کا ذکر کیا تھا اور اس میں خصوصا ہاکی کے کھیل کی بربادی پر اپنا فوکس مرکوز کیا تھا۔ پڑھ کر بہت دکھ ہوا تھا، کہ “نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ پاکستان جو کبھی ورلڈ چیمپئن اور اولمپک چیمپئن تھا، 2016 کے ریواولمپکس میں شامل ہی نہیں”۔ لیکن معمول کے مطابق یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا رہتا ہے ہر کھیل میں ٹیم پر برا وقت چل رہا ہوتا ہے، اور امید ہے کہ اگلے مہینے کے ایشئین چمپئینز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم جیت کر ہی آئیگی۔ لیکن کل کا میچ دیکھ کر بچی کچھی تسلی کیلئے بھی جگہ نہیں رہی، پاکستانی ٹیم میچ ہارے تو ہاری لیکن وہ بھی فائنل۔ اب فائنل ہارنے کا دکھ تو ہوتا ہی ہے، لیکن بہ مثل جلتی پہ تیل چھڑکنے کے، فائنل ہارے بھی تو بھارت سے۔ بھارت نے پاکستان کو ایک سنسنی خیز میچ میں 3-2 سے شکست دے کر 5 سال بعد دوبارہ ایشین چیمپئنز ٹرافی جیت لی ۔ خوب دل میں برا بھلا کہا اور ایک برا خواب سمجھ کر، معمول کے مطابق، بھولنے کی کوشش میں لگ گیا۔ ویسے بھی آجکل ہم بحیثیت قوم بھولنے کے عادی ہو چکے ہیں، کوئی بھی واقعہ ناگوار گزرے تو جھٹ سے کوئی نیا ڈرامہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں، سو میں بھی عمران خان اور نواز شریف کےحالیہ چالو ڈرامے میں مشغول ہو گیا۔لگتا ہے جلدی ہم سب شارٹ ٹرم میموری لاس کے بیماری میں مبتلا ہو جائینگے اور پوری قوم خوش وخرم زندگی گزارینگے۔
    لیکن ابھی اس بیماری میں پوری طرح غرق ہوئے نہیں ہیں، لہذہ اس میچ کے کچھ جھلکیاں ابھی بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ اب ظاہری بات ہے پاکستان کا فائنل میچ ہو اور وہ بھی بھارت کے ساتھ کہاں اتنی جلدی بھلایا جا سکتا، بھلے جیت ہار کسی کی بھی ہو لیکن ایسا میچ دیکھنے کیلئے پوری دنیا کے ناظرین اوتاولے بیٹھے رہتے ہیں۔ بھارت پاکستان میچ کی ایک شان ہوتی ہے اور ملائیشیا کے شہر کوانٹن کے میدان میں یہ میچ بھی اس شان میں کھیلا گیا۔ پہلے 15 منٹ میں برابر، دوسرے 15 منٹ میں بھارت، تیسرے 15 منٹ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔ میچ کا سب سے پہلا حملہ ہندوستان نے ہی کیا جسجيت کے شاٹ سے ایک عذب کا کارنر بیکار جانے کے بعد روپندر پال سنگھ نے پنالٹی کارنر سے ایسی گولی داغی کہ کسی کے پاس ہلنے تک کا موقع نہیں ملا. میچ میں بھارت کی جانب سے 18 ویں منٹ میں روپندرپال سنگھ نے گول کرکے برتری دلادی جبکہ 5 منٹ بعد رمندیپ کے پاس کو یوسف عفان نے گول کرکے برتری کو دوگنا کرتے ہوئے 23 ویں منٹ میں 2-0 کر دیا ۔ اور ٹھیک 3 منٹ بعد پاکستان کی جانب سے محمدعلیم بلال نے اسکور کر معاملہ 2-1 پر لا کر کھڑا کر دیا جبکہ شان علی نے 38 ویں منٹ میں گول کرکے مقابلہ کو 2-2 سے برابر کردیا۔لگ رہا تھا کہ میچ شوٹ آؤٹ میں جائے گا، کیونکہ بھارت اور پاکستان میچ کسی بھی وقت تبدیل کرنے کے لئے مشہور ہیں اور چاہیں دونوں ٹیموں کو ایک دوسرے سے مسلسل کھیلنے کا موقع نہ ملے لیکن آپس میں کس طرح کھیلنے یہ نہیں بھولتیں، سو دھڑکنیں تیز اور امقبلہ سخت ہوا جا رہا تھا۔ آخری 8 منٹ میں پاکستان نے زوردار حملے کئے، ایک پنالٹی کارنر بھی ملا لیکن پاکستان کے کھلاڑی گیند کو پنالٹی کارنر کے لئے سٹاپ ہی نہ کر پائے۔ تب میچ میں 6 منٹ باقی تھے،سکور 2-2 تھا فائنل هوٹر سے کوئی 6منٹ پہلے اكاشديپ کو 25 گز کے پاس گیند ملی، گیند کو پاکستان کے دائرے میں کھڑےکھلاڑی تھیماما کو تھمایا جسکے سامنے کوئی نہیں تھا اور اس طرح اس نے چوتھے کوارٹرمیں فیلڈگول کرکے اپنی ٹیم کو برتری دلائی،پاکستانی ٹیم نے آخری وقت تک خوب مقابلہ کیا لیکن میچ برابر کرنے یا جیتنے میں ناکام رہے، پاکستان اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہےاسطرح بھارت نے برتری برقرار رکھی اور پانچ سال بعددوسری دفعہ ٹرافی کے حقدار بن گئے۔ یاد رہے کہ 2011 میں بھی بھارت نے پاکستان کو شوٹ آؤٹ میں شکست دے کر ایشین چیمپینز کا خطاب جیتا تھا جس کے بعد پاکستان گزشتہ 2 بار سے مسلسل یہ ٹرافی جیت رہا تھا۔ پاکستان انڈیا کا آپس میں لگا رہتا ہے کہ جو لیگ راؤنڈ میں جیت جاتی ہے وہ ناک آؤٹ میں ہارنے والی سے ہار جاتی ہے۔ بھارت نے اب کی بار اس روایت کو توڑ کر لیگ اور ناک آوٹ دونوں میچ 3-2 سے جیتے۔ویسے پاک بھارت میچ میں 1-2 رف ٹےكل ضرور ہوتے ہیں لیکن اس میچ میں دونوں ٹیمیں کھیل سمجھ بھوج کےساتھ کھیلی۔ میچ دیکھ کر اپنے دوست کے گوش گزار کرتا جاوں کہ انکا تجزیہ ہرگز غلط نہیں اور ہماری ٹیم مینیجمنٹ جتنی بھی بری کارکردگی دے، لیکن جسطرح پاکستانی کھلاڑیوں نے ڈٹ کر ہندوستانی کھلاڑیوں کا مقابلہ کیا وہ بھہ قابل ستائش ہے۔ گر چہ میچ پاکستان نہیں جیت سکا اور ٹرافی بھی ہاتھ سے گئی لیکن ایک اچھا کھیل دیکھنے کو ملا، جس سے دل کو آیندہ میچز دیکھنے کو تسلی ہے، بقول غالب کے
    ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
    دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

  • آج کا تاریخی دن، جب پاکستان کو پہلی ٹیسٹ فتح ملی – محسن حدید

    آج کا تاریخی دن، جب پاکستان کو پہلی ٹیسٹ فتح ملی – محسن حدید

    محسن حدیدا آج کے دن 1952ء میں پاکستان نے اپنی پہلی ٹیسٹ فتح حاصل کی تھی۔ یہ پاکستان کا صرف دوسرا ٹیسٹ میچ تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی جس نے دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا۔ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ انڈیا جیسی مضبوط ٹیم جسے ٹیسٹ کھیلتے ہوئے 20 سال ہوچکے تھے، اسے ایک نو آموز ٹیم شکست دے دے گی۔ پاکستان نے مگر اپنی موجودگی کا شاندار احساس دلایا اور آنے والے تابناک دنوں کی نوید سنا دی۔

    اپنی پہلی ہی سیریز میں ٹیسٹ میچ جیت جانا اور وہ بھی ایک اننگز سے، ایسا کارنامہ کسی اور ملک نے کیا ہو، تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں۔

    انگلینڈ اور آسٹریلیا کو اس میں استثنی حاصل ہے کیونکہ دونوں کرکٹ کے ایک طرح سے بانی گنے جاتے ہیں اور انگلینڈ آسٹریلیا کے کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ شروع ہونے سے پہلے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل کھیلتے چلے آرہے تھے، اس لیے طرفین میں تجربے اور مہارت کا کوئی فقدان نہیں تھا۔ ویسے انگلینڈ اور آسٹریلیا دونوں نے اپنی پہلی ہی سیریز میں ایک دوسرے کو ٹیسٹ میچ ہرا دیا تھا، تاریخ کا پہلا ٹیسٹ بھی انہی دو ملکوں کے درمیان کھیلا گیا تھا جس میں آسٹریلیا کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اگلے ہی میچ میں انگلینڈ نے اپنا بدلہ اتار لیا تھا۔ انگلینڈ کے بعد پاکستان واحد ٹیم ہے جس نے اپنا دوسرا ہی میچ جیتا ہو۔

    قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ بنگلہ دیش نے اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے تقریبا 5 سال انتظار کیا اور اس سے پہلے مسلسل 17 سیریز میں شکست کھائی۔ اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے سے پہلے اتنی مسلسل سیریز کسی اور ٹیم نے نہیں ہاری ہیں۔ انڈیا کو اپنا پہلا ٹیسٹ جیتنے کے لیے 20 سال انتظار کرنا پڑا تھا، جب 1952ء میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف ایک ٹیسٹ میچ جیتا۔ اسی سال دوسری کامیابی اسے پاکستان کے خلاف حاصل ہوئی تھی۔ نیوزی لینڈ کو اپنی پہلی ٹیسٹ فتح کے لیے 26 سال انتظار کرنا پڑا تھا، اس نے پہلی دفعہ ویسٹ انڈیز کے خلاف مارچ 1956ء میں فتح حاصل کی۔ ساؤتھ افریقہ نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ 17 سال کی شدید محنت کے بعد جیتا تھا جب انہوں نے جنوری 1906ء میں انگلینڈ کو ہوم گراؤنڈ میں شکست دی تھی۔ ساؤتھ افریقہ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے بعد ٹیسٹ سٹیٹس حاصل کرنے والی تیسری ٹیم ہے۔ سری لنکا خوش نصیب ٹیم تھی جس نے صرف تین سال بعد اپنے 14 ویں ٹیسٹ میچ میں ہی فتح حاصل کر لی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے بہت عرصے بعد تک بھی سری لنکا کو بے بی آف کرکٹ کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ ویسٹ انڈیز والے قدرتی ٹیلنٹڈ اور کرکٹ کے لیے شائد فٹ ترین لوگ تھے۔ 1928ء میں ویسٹ انڈین جزائر پر مشتمل کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس ملا، اور 1930ء میں اپنی دوسری ہی سیریز میں ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کو ٹیسٹ میچ ہرا دیا، حالانکہ انگلینڈ سے ہی پہلی سیریز میں ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ شکست بھی ہوچکی تھی۔ زمبابوے کو بھی پہلی ٹیسٹ فتح صرف تین سال بعد مل گئی تھی جب پاکستان کی مضبوط ترین ٹیم زمبابوے کے خلاف ڈھے گئی تھی۔ سلیم ملک کی کپتانی میں فروری مارچ 1995ء میں زمبابوے کا دورہ کرنے والی ٹیم نے پہلا ٹیسٹ جس طرح ہارا، اس پر آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ میچ فکسنگ کے حوالے سے یہ میچ بہت بدنام گنا جاتا ہے مگر اب یہ تاریخ ہے۔

    پاکستانی ٹیم کلکتہ ائیرپورٹ پر
    پاکستانی ٹیم کلکتہ ائیرپورٹ پر

    خیر موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان کی اس عظیم ترین فتح کے معمار عظیم فضل محمود تھے، جنھوں نے اس میچ میں 12 وکٹیں حاصل کیں۔ انڈین ٹیم بہت مضبوط تھی، اس میں لالا امرناتھ اور پولی امریگر جیسے بڑے کھلاڑی موجود تھے۔ وجے منجریکر (مشہور کمنٹریٹر اور بلے باز سنجے منجریکر کے والد) بھی اس میچ میں انڈین ٹیم کا حصہ تھے، مگر کسی کے پاس فضل محمود کی شاندار باؤلنگ کا جواب نہیں تھا۔ پاکستان نے انڈیا کو پہلی اننگز میں صرف 106 رنز پر آؤٹ کردیا۔ اس اننگز میں فضل محمود نے 5 وکٹیں حاصل کیں، وہ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ اننگز میں 5 وکٹیں لینے والے پہلے باؤلر بن گئے۔

    لکھنو میں پاکستانی ٹیم کے لیے گورنر کی طرف سے استقبالیہ
    لکھنو میں پاکستانی ٹیم کے لیے گورنر کی طرف سے استقبالیہ

    جواب میں نذر محمد کی شاندار اور تقریبا 9 گھنٹے لمبی محنت بھری 124 رنز کی اننگز کی بدولت پاکستان نے 194 اوورز میں 331 رنز بنائے۔ اس میچ میں انڈیا کو اپنے کامیاب ترین باؤلر ونو منکڈ (بہترین آل راونڈر تھے) کی خدمات حاصل نہیں تھیں، جنہوں نے گزشتہ میچ میں 13 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کی غیر موجودگی انڈیا کے لیے بہت بڑا نقصان ثابت ہوئی اور پاکستان ایک اچھا ٹوٹل تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری اننگز شروع ہوئی تو فضل محمود جیسے قہر بن کر انڈین بلے بازوں پر ٹوٹ پڑے اور اپنی پہلی اننگز سے بھی بہترین باؤلنگ کر ڈالی۔ دوسری اننگز میں انڈین ٹیم صرف 182 رنز بنا سکی۔ فضل محمود نے 27 اوورز میں صرف 42 رنز دے کر 7 انڈین بلے بازوں کو پویلین کا راستہ دکھا دیا۔ پاکستان کو اس میچ میں ایک اننگز اور 43 رنز کی شاندار فتح نصیب ہوئی۔

    فضل محمود
    فضل محمود

    یاد رہے کہ پہلے ٹیسٹ میچ میں انڈیا نے بھی پاکستان کو ایک اننگز سے شکست دی تھی۔ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچ میں پہلی دفعہ 10 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز بھی فضل محمود کے حصے میں آگیا۔ نذر محمد نے ٹیسٹ میں پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کا اعزاز اپنے نام کیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔ انڈیا کے ہری لال گائیکواڈ کا یہ واحد ٹیسٹ میچ ثابت ہوا، وہ دوبارہ کبھی انڈیا کے لیے نہیں کھیل سکے۔ پاکستان کی طرف سے کھیلنے والے امیر الہی اور حفیظ کاردار دونوں متحدہ ہندوستان کی طرف سے بھی کھیل چکے تھے۔ مزے کی بات ہے کہ امیر الہی نے انڈیا کی طرف سے اپنا واحد ٹیسٹ میچ دسمبر 1947ء میں کھیلا تھا جب پاکستان معرض وجود میں آچکا تھا۔ یہ انڈیا کی طرف سے ان کا پہلا اور آخری ٹیسٹ بھی ثابت ہوا۔

  • جب عاقب جاوید نے بھارت کے خلاف ہیٹ ٹرک کی – محسن حدید

    جب عاقب جاوید نے بھارت کے خلاف ہیٹ ٹرک کی – محسن حدید

    محسن حدیدا 25 اکتوبر 1991ء کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان ولز ٹرافی کا فائنل کھیلا گیا تھا۔ انڈیا، پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے گئے اس تین ملکی ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان نے با آسانی جیت لیا تھا۔ یہ مسلسل تیسرا موقع تھا جب کسی تین یا اس سے زیادہ ملکوں کی سیریز میں میں پاکستانی ٹیم نے فائنل میں انڈیا کو ہرایا ہو۔ اس سے پہلے دو بارمسلسل 1983-84ء کے رتھمینزایشیا کپ اور بینسن اینڈ ہیجز کپ 1985ء میں انڈیا پاکستان کو ہرا چکا تھا۔ پاکستان کو کسی بھی کثیرالملکی سیریز میں پہلی فتح 1986ء کے آسٹریلشیا کپ میں حاصل ہوئی جب پاکستان نے انڈیا کو ہی فائنل میچ میں شکست دی تھی۔ یہ جاوید میاں داد کے مشہور زمانہ آخری گیند پر چھکے والا میچ تھا۔

    25 اکتوبر 1991ء کے ولز ٹرافی فائنل کی خاص بات نوجوان عاقب جاوید کا ناقابل یقین باؤلنگ سپیل تھا۔ عاقب جاوید نے اس میچ میں 37 رنز دے کر 7 انڈین بلے بازوں کو پویلین واپس بھیجا تھا۔ یہ اس وقت ایک ورلڈ ریکارڈ تھا۔ ان سے پہلے صرف ایک باؤلر ویسٹ انڈیز کے ونسٹن ڈیوس یہ کارنامہ انجام دے سکے تھے۔ ڈیوس نے جون 1983ء میں آسٹریلیا کے خلاف 51 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن ونسٹن ڈیوس نے ساتویں وکٹ اپنے گیارھویں اوور کی تیسری گیند پر حاصل کی تھی، اس وقت ون ڈے میچز60 اوورز پر مشتمل ہوتا تھا، سو موجودہ قوانین کے تحت عاقب جاوید 7 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے باؤلر ہیں۔ عاقب جاوید کا یہ ریکارڈ تقریبا دس سال تک قائم رہا اور اکتوبر 2000ء میں مرلی دھرن نے انڈیا کے خلاف صرف 30 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کر کے یہ ریکارڈ عاقب جاوید سے چھین لیا۔ اب یہ ریکارڈ چمندا واس کے پاس ہے جنہوں نے زمبابوے کے خلاف 19 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کے سوا کوئی باولر ون ڈے میچ میں 8 وکٹیں حاصل نہیں کر پایا۔

    aaqib-javed عاقب جاوید نے اس میچ میں اپنے اس باؤلنگ سپیل میں ایک ہیٹ ٹرک بھی سکور کی تھی جب انہوں نے مسلسل تین گیندوں پر روی شاستری، محمد اظہرالدین اور عظیم ترین سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کر دیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں انڈین بلے باز ایل بی ڈبلیو آوٹ ہوئے تھے۔ یہ مجموعی طور پرساتویں اور پاکستان کی طرف سے چوتھی ہیٹ ٹرک تھی۔ 19 سالہ عاقب جاوید کے کیرئیر میں یہ پہلا موقع تھا جب انہون نے 5 یا اس سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہوں۔ عاقب جاوید اس کے بعد بھی مسلسل اچھی باؤلنگ کرتے رہے مگر 1998ء میں ان کا کیرئیر صرف 26 سال کی عمر میں بہت ہی افسوسناک انداز میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ بہت سے لوگ اسے میچ فکسنگ کے خلاف بولنے کا شاخسانہ بھی قرار دیتے ہیں مگر یہ چیز آج تک کسی فورم پر ثابت نہیں ہو سکی۔ پاکستان کی طرف سے ایک اور خاص کارکردگی جو اس میچ میں دیکھنے کو ملی، وہ 18 سالہ زاہد فضل کے 98 ناٹ آوٹ رنز تھے۔ زاہد فضل کریمپس کی وجہ سے اپنی سنچری مکمل نہیں کر سکے تھے اور انہیں ریٹائرڈ ہرٹ ہونا پڑا تھا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ زاہد فضل کا یہ سب سے بہترین ون ڈے سکور بھی ہے۔ اس کے بعد زاہد فضل کئی بار ٹیم سے ان آؤٹ ہونے کے بعد صرف 22 سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر ہوگئے تھے۔

    اس میچ میں عاقب جاوید کی وکٹیں دیکھیں

  • دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین – شاہد اقبال خان

    دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین – شاہد اقبال خان

    ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سر ڈان بریڈمین، سر گیری سوبرز، سر ویون رچرڑز، سنیل گواسکر، ظہیر عباس، جاید میانداد، انضمام الحق، رکی پونٹنگ، جیک کیلس، برائن لارا، سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ جیسے عظیم کھلاڑی پیدا ہوے۔ سر بریڈمین بلاشبہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں مگر ان کے بعد تجزیہ نگار دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین پر کبھی متفق نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مختلف زمانے کے کھلاڈیوں کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر زمانے میں کنڈیشن مختلف ہوتی ہے مگر ایک ہی زمانے کے کھلاڑیوں کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

    دور حاضر میں بھی بہت شاندار بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس تحریر میں دور حاضر کے ان بیٹسمینوں کا موازنہ کیا گیا ہے جو کم از کم 40 ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہیں اور ان کی اوسط 50 سے زیادہ ہے۔
    کسی بھی بیٹسمین کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اس کی ایوریج کافی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں بہت سے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس موازنے میں ہر بیٹسمین کو پانچ طریقوں سے جانچا جائے گا اور اس کو اس کے مطابق پوائنٹ دیے جائیں گے۔اس کی تفصیل نیچے دی گئی ہے۔
    1۔ بیٹسمین کی ایوریج۔ 55 کی اوسط پر 20 پوائنٹ اور اس سے زیادہ ہر زنز پر ایک اضافی پوائنٹ ملے گا۔ 55 سے کم ہر رنز پر ایک پوائنٹ کاٹ لیا جائے گا.
    2۔ مختلف ملکوں میں کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک میں کارکردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق ہر ملک میں پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
    3۔ مختلف ملکوں کے خلاف کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک کے خلاف کار کردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
    4۔ لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت۔ ہر سنچری کے 40، ہر 150 پلس سکور کے 60، 200 پلس سکور کے 80، 250 سکور کے 100 اور 300 پلس سکور کے 120 پوائنٹ ملیں گے۔ ان تمام پوائنٹس کو جمع کر کے میچز کے تعداد پر تقسیم کر کے اس کی اوسط لی جائے گی۔
    5۔ پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت۔ اس کے لیے کسی بیٹسمین کی بطور کپتان کارکردگی، بڑی اور اہم سیریز میں کارکردگی اور میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط دیکھی جائے گی. اس کے علاوہ فتوحات میں کردار بھی دیکھا جائے گا۔
    دنیا میں اس وقت 6 ایسے بیٹسمین ہیں جن کی اوسط 50 سے زیادہ اور میچز 40 سے زیادہ ہیں۔ ان سب کا تفصیلی موازنہ نیچے دیا گیا ہے۔

    اے بی ڈویلیر
    abdevilliars-getty-1411-750 سپرمین یعنی اے بی ڈویلیر کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ وہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کا شاندار کھلاڑی ہے کیونکہ وہ بہت مختصر وقت میں ہی مخالف ٹیم کے پرخچے اڑا کے رکھ دیتا ہے۔ مگر اے بی کی 50 کی ٹیسٹ اوسط یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اے بی ایک بہترین ٹیسٹ بیٹسمین بھی ہے۔ اوسط میں اسے 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی وکٹ مشکل نہیں، کوئی باؤنڈری بڑی نہیں، کوئی باؤلر تیز نہیں، کوئی گگلی یا دوسرا گیند کو باؤنڈری سے باہر جانے سے نہیں روک سکتے۔ بنگلہ دیش میں ایک بیڈ فیز کی وجہ سے وہ زیادہ سکور نہ کر سکا۔ اس کے علاوہ تمام ممالک میں اور تمام ممالک کے خلاف اس کی اوسط 45 سے زیادہ رہی۔ مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر اسے بالترتیب 15،16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 106 میچز میں 21 سنچریاں، 7 بار 150 پلس،اور 2 بار 200 پلس سکور کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے بی لمبی اننگز کھیلنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسے اس کیٹیگری میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اے بی ایک خوف کا نام ہے۔ جب تک وہ وکٹ پر موجود ہو مخالف ٹیم جیت کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کی بطور وکٹ کیپر اوسط 57 کی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشکل اور زیادہ ذمہ داری کے وقت پہلے سے بھی بہتر پرفارم کرتا ہے۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط بھی 45 سے زیادہ ہے۔ اس لیے پریشر کی کیٹیگری میں اسے 23 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 84 بنتی ہے۔

    ہاشم آملہ
    ہاشم-آملہ.jpg ایک بار شعیب اختر نے یہ کہا تھا کہ آملہ کو آؤٹ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اس سے ہی پوچھ لیا جائے کی بھئی تمہیں کہاں پر گیند کرائیں. آملہ ساؤتھ افریقہ کی رنز مشین ہے۔ اس کی ٹیسٹ اوسط 51 کی ہے۔ اوسط میں اسے 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ ہر ٹیم کے خلاف بےرحمی سے پیش آیا مگر اسے پاکستان، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی سلو وکٹوں نے بہت تنگ کیا۔ وہ ان ملکوں میں 30 کی اوسط سے بھی نہیں کھیل سکا۔ اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 12 اور 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ آملہ لمبی دوڑ کا کھلاڑی ہے۔ اگر وہ سیٹ ہو جائے تو پھر مخالف ٹیم اننگز ڈیکلیئر ہونے کا ہی انتظار کرتی ہے۔ اس نے 96 میچز میں 25 سنچریاں، 3 بار 150 پلس، 2 بار 200 پلس اور ایک ٹرپل سنچری بھی سکور کی۔ اسے ا س کیٹیگری میں 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی بطور کپتان بیٹنگ اوسط میں تھوڑی سی کمی ہوئی ہے۔ میچ کی تیسری اننگز میں اس کی اوسط نہایت شاندار 65 کی ہے مگر چوتھی اننگز میں اوسط کافی کم 35 کی ہے. انڈر پریشر کھیلنے میں آملہ کا ریکارڈ زیادہ امپریسو نہیں۔ اسے اس کیٹیگری میں 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 74 بنتی ہے۔

    سٹیو سمتھ
    SteveSmith اسمتھ آسٹریلیا کا کپتان ہے اور بہت نوجوانی میں ہی اسے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ اس کی اوسط 58 کی ہے جو موجودہ دور کے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اوسط میں اسے 23 پوانٹ ملتے ہیں۔ سمتھ کی یہ خوبی بھی اسے دوسرے تمام نان ایشین کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ ہر طرح کی پچ پر کھیل سکتا ہے۔ اس کی تمام آٹھ ممالک میں 40 پلس کی اوسط ہے۔ ایشیا میں بھی اوسط 41 رہی۔ اس لیے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں اسے 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیم سمتھ کے بلے کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس نے تمام ٹیموں کے خلاف 40 سے زیادہ کی اوسط سے بیٹنگ کی سوائے پاکستان کے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ نے 44 میچز میں 15 سنچریاں، 3 بار 150 پلس اور 1 بار 200 پلس رنز کیے۔اس لحاظ سے اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ کا انڈر پریشر پرفارم کرنے کا ریکارڈ بہت ہی شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 47 کی اوسط سے بیٹنگ کی۔ ایشیز سیریز میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط 81 کی رہی جو ناقابل یقین ہے مگر میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 40 سے کم رہی جو سمتھ کے ریکارڈ کا واحد منفی پوائنٹ ہے۔ اس لحاظ سے اسے15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کل پوائنٹ 96 بنتے ہیں۔

    جو روٹ
    joe-root جو روٹ انگلینڈ کی بیٹنگ لائن اپ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ پچھلے 20 سال میں انگلینڈ کا بہترین ٹیسٹ بیٹسمین ہے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں الیسٹر کک اور جو روٹ کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی قوم یہ سمجھنے لگ جاتی تھی کہ انگلینڈ آل آؤٹ ہو گئی ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہر دفعہ ہی بیرسٹو اور معین علی ہمیں جھٹکا لگا دیتے تھے۔ جو روٹ کی ٹیسٹ اوسط 55 کی ہے جو کہ نہایت شاندار ہے۔ اوسط میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ سیم بال کو اچھا کھیلتا ہے۔ اس کی انگلینڈ اور جنوبی افریقہ مین اوسط 55 کی ہے۔ وہ اسپین باؤلرز کو کھیلنے والا انگلینڈ کا بہترین کھلاڑی ہے۔ اس کی ایشیا اور ویسٹ انڈیز میں بھی اوسط 55 سے زائد ہے مگر روٹ کے لیے باؤنسی وکٹ پر کھیلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اوسط 20 کے قریب ہے۔ اسے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے تمام ممالک کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی سب سے کم اوسط نیوزی لینڈ کے خلاف 40 کی ہے۔ اس شاندار کارکردگی پر روٹ کو مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے 46 میچز میں 10 سنچریاں سکور کی ہیں جو اس کے معیار سے کافی کم ہیں۔ اس نے 3 بار 150 پلس، ایک بار 200 پلس اور 1 بار 250 پلس سکور کیا۔ اس لحاظ سے اسے لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے یواے ای میں پاکستان، ایشیز میں آسٹریلیا اور دورہ بھارت میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں بھی اوسط 40 سے زیادہ ہے، جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط ناقابل یقین یعنی 82 کی ہے۔اس لیے اسے پریشر میں کھیلنے کی کیٹیگری میں19 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ کے کل پوائنٹ94 بنتے ہیں۔

    کین ولیمسن
    kane_williamson ولیمسن صرف 25 سال کی عمر میں بطور بیٹسمین وہ کچھ حاصل کر چکا ہے جو کوئی اور نیوزی لینڈ کا بیٹسمین حاصل نہیں کر سکا۔ وہ پہلا نیوزی لینڈ ہے جس کی ٹیسٹ اوسط 50 کی ہے۔ اس لے اسے اوسط میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن کی کارکردگی میں ایک قابل تنقید بات اس کی بھارت، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ میں 35 سے بھی کم کی اوسط ہے۔ اس وجہ سے اس کی ان ممالک کے خلاف مجموعی اوسط بھی 35 سے کم ہے، البتہ کین ولیمسن ہر ٹیم کے خلاف سنچری اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 13، 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 54 میچز میں 14 سنچریاں سکور کیں، 3 بار 150 پلس اور صرف 1 بار ڈبل سنچری اسکور کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنے کیرئیر میں کوئی زیادہ لمبی اننگز نہیں کھیلیں۔ اس کیٹیگری میں اسے 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن اننگز کو سنبھال کر چلنے والا کھلاڑی ہے۔ اس کی بھی دوسرے تمام عظیم کھلاڑیوں کی طرح پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 61 کی اچھی اوسط سے بیٹنگ کی۔ میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 50 کے قریب ہے۔ فتوحات میں کین کی اوسط 82 کی ہے۔ ہر لحاظ سے کین ایک میچ ونر اور انڈر پریشر پرفار کرنے والا کھلاڑی ہے۔ اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 73 بنتی ہے۔

    یونس خان
    یونس-خان.jpgیونس خان اعداد و شمار کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ بیٹسمین ہیں، اسی وجہ سے آئی سی سی نے اسے کنگ خان کا خطاب بھی دیا، البتہ بہت سے تجزیہ نگار اور سابق کرکٹرز اب بھی اسے جاوید میانداد، ظہیر عباس اور انضمام الحق سے کمتر کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی وجہ شاید وہ بھی نہیں جانتے۔ یونس کی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 53 کی ٹیسٹ اوسط ہے۔ اوسط میں اسے 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ تمام ممالک میں سنچری اسکور کر چکا ہے سوائے آسٹریلیا کے۔ اس کی ویسٹ انڈیز کے علاوہ تمام ممالک میں اوسط 40 سے زیادہ ہے۔ وہ تمام ممالک کے خلاف سنچری سکور کرنے والا واحد پاکستانی کھلاڑی ہے۔ اس کی کسی ٹیم کے خلاف اوسط 40 سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر بالترتیب 18 اور 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ لمبی اننگز کھیلنے کا ماہر ہے۔ آپ ٹیسٹ میچ کے دوران جب بھی ٹی وی آن کریں گے آپ کو یونس کھیلتا ہوا نظر آئے گا۔ اس نے 108 میچز میں 30 سنچریاں، 6 بار 150 پلس، 4 بار 200 پلس، 1 بار 250 پلس اور ایک بار ٹرپل سنچری بھی اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے لمبی اننگز کھیلنے میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ اوسط، سب سے زیادہ سنچریاں ہیں، اس کی بطور کپتان اوسط 55 کی رہی جو کہ اچھی اوسط ہے۔ جن میچز میں پاکستان فتح یاب ہوا ان میں بھی اس کی اوسط 76 کی ہے۔ اس لحاظ سے یونس ٹیسٹ میچز میں پریشر کی صورتحال میں کھیلنے کا ماہر ہے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ یونس کے کل پوائنٹس کی تعداد 99 بنتی ہے۔
    %d8%a8%db%8c%d9%b9%d8%b3%d9%85%db%8c%d9%86

  • ڈگلس جارڈن، کرکٹ کا دہشت گرد کھلاڑی و کپتان – محسن حدید

    ڈگلس جارڈن، کرکٹ کا دہشت گرد کھلاڑی و کپتان – محسن حدید

    محسن حدیدا انگلینڈ کے بدنام زمانہ کپتان ڈگلس جارڈن  1900 میں پیدا ہوئے تھے. جارڈن متحدہ ہندوستان کے شہر بمبئی میں پیدا ہوئے. اپنے دور کے اچھے بیٹسمین تھے مگر ان کی پہچان دنیا میں ایک منفی کھلاڑی کے طور پر ہوئی. ان کے نام کے ساتھ ایک ایسی منفیت جڑ گئی جس پر شاید وہ خود بھی باقی زندگی پشیمان رہے. انہوں نے کرکٹ کے کھیل میں باڈی لائن باؤلنگ متعارف کروائی

    ڈگلس جارڈن
    ڈگلس جارڈن

    کرکٹ کی سب سے متنازعہ ترین سیریز میں سے ایک (1932-33 کی ایشز سیریز) دسمبر 1932 اور جنوری فروری 1933 کے درمیان کھیلی گئی. یہ سر ڈان بریڈ مین کا عروج تھا. اپنے پہلے 21 ٹیسٹ میچز میں وہ 106 کی ناقابل یقین اوسط تک پہنچ چکے تھے. سیریز شروع ہونے سے پہلے سر ڈان بریڈ مین صرف 19 میچز میں 12 سنچریاں سکور کرچکے تھے. یاد رہے کہ یونس خان جیسے بڑے بلے باز بھی اتنی سنچریاں 50 کے قریب میچز میں بنا سکے ہیں. انگلینڈ کے ذہن میں تین سال پہلے کی ہار کی یادیں تازہ تھیں جب آسٹریلیا کی ٹیم نے انگلینڈ کو انگلینڈ میں 2-1 سے شکست دی تھی اس وقت یہ عام سی بات تھی کہ لیگ سائیڈ پر فیلڈ لگا کر منفی باؤلنگ کی جائے مگر اس سیریز میں پہلی دفعہ انگریز کی روایتی مکاری اور سازش سامنے آئی، جب باقاعدہ کھلاڑیوں کے جسم کو نشانہ بنانے کی سکیم سامنے آئی. اس انگلینڈ ٹیم میں ہیرالڈ لارووڈ جیسے تیز باؤلر موجود تھے. ذہن میں رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کھیل میں ابھی ہیلمٹ اور اس طرح کی دوسری حفاظتی چیزیں متعارف نہیں ہوئی تھیں اور جو حفاظتی سامان موجود تھا، وہ بھی آج کے مقابلے میں بہت کم معیار کا تھا. بعد میں ہیرالڈ لارووڈ کو کرکٹ کا دہشت گرد بھی کہا گیا، اور یہ ان کی آخری ٹیسٹ سیریز ثابت ہوئی. بہت سارے لوگوں کے نزدیک انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا.

    ایڈیلیڈ ٹیسٹ سے پہلے باڈی لائن ٹیم کا گروپ فوٹو
    ایڈیلیڈ ٹیسٹ سے پہلے باڈی لائن ٹیم کا گروپ فوٹو

    ویسے تو پوری سیریز ہی میں انگلینڈ نے یہ کام جاری رکھا مگر ایڈیلیڈ میں کھیلا جانے والا سیریز کا تیسرا ٹیسٹ سب سے متنازعہ رہا، خاص کر میچ کے دوسرے دن حالات اس وقت پریشان کن ہوگئے جب لارووڈ کی ایک تیز گیند آسٹریلوی کپتان بل ووڈفل کے سینے پر لگی اور بلا ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا، ووڈفل درد کی شدت سے دوہرے ہوتے ہوئے زمین پر گر پڑے ،گراونڈ اس وقت 51 ہزار تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. (اس وقت کا ریکارڈ کراؤڈ) تماشائی اضطراب سے بے قابو ہو رہے تھے، انگلش کپتان نے اس وقت سفاکی کی انتہا کر دی جب انہوں نے باؤلر لارووڈ کو یہ کہتے ہوئے شاباش دی ”ویل باولڈ ہارووڈ“، ڈان بریڈ مین اس وقت نان سٹرائیکر تھے، انہوں نے بعد میں بتایا کہ میں اس سے زیادہ خوفزدہ شاید کبھی نہیں ہوا. اگلے اوور میں جب لارووڈ دوبارہ باؤلنگ کرنے آئے تو فیلڈ نارمل تھی لیکن جیسے ہی وہ بال پھینکنے کے لیے بھاگے تو جارڈن نے انہیں رستے میں ہی روک دیا اور فیلڈ کو دوبارہ باڈی لائن کے حساب سے لگا دیا۔

    ہیرالڈ لارووڈ بل ووڈفل کو باؤلنگ کرتے ہوئے - منفی فیلڈنگ کی تصویر
    ہیرالڈ لارووڈ بل ووڈفل کو باؤلنگ کرتے ہوئے – منفی فیلڈنگ کی تصویر

    یہ اب سیدھا سادھا حملہ کرنے والی بات تھی کراؤڈ اس حرکت پر آپے سے باہر ہونے لگا، تماشائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری طور پر پولیس کی بہت بڑی نفری طلب کرنا پڑی، حالات ایسے ہوگئے کہ باؤنڈری لائن پر کھڑا ایک انگلش فیلڈر لیگ ایمپائر جارج ہیل کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ اگر یہ تماشائی جنگلے سے کود کر اندر آگئے تو دفاع کے لیے ایک وکٹ میں اکھاڑ لوں گا. ایمپائر نے جواب دیا، میں تینوں اکھاڑنے کی سوچ رہا ہوں. حالات خراب تھے. کرکٹ آسٹریلیا نے ایم سی سی (کرکٹ قوانین بنانے والے ادارہ ) کو تار بھیجی کہ انگلینڈ کھیل کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے. آسٹریلین کپتان کے یہ الفاظ اگلے دن تمام اخبارات کی شہہ سرخی بنے، جب انہوں نے ایم سی سی کے نمائندے مسٹر وارنر کو کہا کہ ”میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا“. میڈیا کی تمام تر توجہ اب کھیل سے زیادہ باڈی لائن تکنیک پر مرکوز ہو چکی تھی اس پر بہت لے دے ہوئی.

    اخباری تراشہ
    اخباری تراشہ

    کھیل کا تیسرا دن مزید پریشانیاں لے کر آیا جب لارووڈ کا ایک باؤنسر آسٹریلین وکٹ کیپر کے سر پر لگا اور وہ زمین پر گر گئے. اس وقت ایڈیلیڈ کے کمشنر پولیس کی پیش بندی کام آئی جنہوں نے گراؤنڈ سے باہر موجود پولیس کو فوری طور پر کراؤڈ کو قابو کرنے کا حکم دیا. آسٹریلوی کپتان پویلین سے بھاگتے ہوئے اپنے ساتھی کی مدد کو پہنچے. کراؤڈ بےحد جذباتی ہو چکا تھا. وکٹ کیپر اولڈ فیلڈ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی. دونوں ٹیموں کے درمیان حالات اتنے زیادہ خراب ہو چکے تھے کہ ایک بار پانی کے وقفے میں آسٹریلوی کھلاڑی باراک نے اونچی آواز میں کہہ دیا کہ جارڈن کو پانی نہیں دینا بلکہ اسے پیاس سے تڑپا تڑپا کر مارنا چاہیے. جارڈن بعد میں متحدہ ہندوستان کے خلاف سیریز تک کپتان رہے جولائی 1933ء میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم انگلینڈ کے دورے پر آئی تو انگلینڈ کو کرنی کی بھرنی پڑی اور ویسٹ انڈیز کے تیز ترین باؤلرز لیری کانسٹنٹائن اور مارٹن دیل نے بھی یہی حربے انگلینڈ کے خلاف آزمائے. باڈی لائن سیریز کی وجہ سے ایم سی سی کو کھیل کے قوانین میں تبدیلی کرنی پڑی اور نیا قانون بنانا پڑا جس کے تحت اب لیگ سائیڈ پر بی ہائنڈ دی سکوائر دو سے زیادہ فیلڈر کھڑے نہیں کیے جاسکتے.

    اس سیریز میں انگلینڈ نے 4-1 سے فتح حاصل کی. لارووڈ سب سے کامیاب باؤلر تھے. اس سیریز میں انگلینڈ کی ٹیم اگر یہ منفی کھیل نہ بھی پیش کرتی تب بھی وہ انگلینڈ کے عظیم ترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تھی اور جیتنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی. اس انگلش ٹیم میں ہربرٹ سٹکلف لیس ایمس اور ولی ہیمنڈ جیسے بڑے بلے باز موجود تھے. آسٹریلوی ٹیم میں بھی سر ڈان بریڈ. بل پونسفورڈ اور کلیری گریمٹ جیسے عظیم کھلاڑی موجود تھے. کلیری گریمنٹ 36 ٹیسٹ میچز میں 200 وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں. یہ تیز ترین 200 ٹیسٹ وکٹوں کا ریکارڈ 1936 میں بنا تھا اور آج 80 سال بعد بھی نہیں ٹوٹ سکا مگر افسوس اتنے بڑے کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود بھی یہ سیریز باڈی لائن تنازع کی وجہ سے مشہور ہے.
    نوٹ : اس تحریر کے لیے وزڈن آرکائیوز اور کرک انفو سے مدد لی گئی ہے

  • شاہد آفریدی نے کس کی دھمکی پر جاوید میانداد سے صلح کی؟ نجم الحسن

    شاہد آفریدی نے کس کی دھمکی پر جاوید میانداد سے صلح کی؟ نجم الحسن

    پچھلے دنوں پاکستانی کرکٹ کے سب سے چہیتے آل راؤنڈر شاہد آفریدی اور ماضی میں پاکستان کے بہت بڑے بلے باز جاوید میانداد کی آپس میں نوک جھونک ہوئی تھی۔ ٹی وی چینلز نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا، دونوں طرف سے جو تیر چل رہے تھے، ان کی سطح گرتی جا رہی تھی۔ میانداد ذاتی تبصرہ تک کرنے لگے تھے۔ پھر خبر آئی کہ کچھ سینئر پاکستانی کرکٹرز کے بیچ بچاؤ کے بعد معاملہ نمٹ گیا۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ یہ معاملہ بیچ بچاؤ سے نہیں، دھمکی سے سےٹالا گیا ہے، اور یہ دھمکی آفریدی کو دی تھی دنیائے انڈر ورلڈ کے جانے پہچانے ڈان داؤد ابراہیم نے جو میانداد کے قریبی رشتہ دار بھی بتائے جاتے ہیں۔ معروف بھارتی ویب سائٹ سیاست ڈاٹ کام، کے مطابق 12 اکتوبر کو داؤد ابراہیم نے شاہد آفریدی کو دھمکی دے کر معاملہ رفع دفع کرنےاور بدلے میں کچھ مراعات کا تقاضا کیا۔ اب آپ اسے بھتہ سمجھ لیں یا دوستی کی ضمانت، یہ آپ پر ہے۔

    پاکستان کےان دو نامی گرامی ہستیوں کے درمیان کافی عرصے سے چكچك مچی ہوئی تھی۔ کیونکہ جاوید میانداد نے پوچھ لیا تھا کہ آفریدی ریٹائرمنٹ کب لوگے۔ ان دونوں کی یہ جنگ بہت خطرناک موڑ پر اس وقت پہنچ گئی تھی جب میانداد نے آفریدی پربہت بڑا الزام لگایا تھا کہ آفریدی ایسا پیسہ کمانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اور اس وجہ سے وہ اس عمر میں بھی کرکٹ کھیلنا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ میانداد نے آفریدی پر میچ فکسنگ کا الزام بھی لگایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کئی معاملات کی معلومات رکھتے ہیں۔ میانداد نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ شاہد آفریدی اپنے بچوں کی قسم کھا کر کہیں کہ انہوں نے پاکستان کے میچ فکس نہیں کیے ہیں اور پاکستان کی عزت کو نیلام نہیں کیا ہے۔ اور یہ کہ میں گواہ ہوں، میں نے انہیں پکڑا ہے، میں نے پوری ٹیم کو پکڑا تھا۔ یہ لوگ میچ فکس کرنے والے تھے، اس لیے پیسوں کے بارے میں بات کرتے تھے۔

    اس کے بعد آفریدی میانداد کے خلاف قانونی ایکشن لینے والے تھے۔ سارے الزامات کے بعد شاہد نے میڈیا سے کہا تھا کہ میانداد کا پیسوں کو لے کر ہمیشہ ہی لالچ رہا ہے اور ان کو وہ ثبوت چاہییں جن کے لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ کھلاڑی میچ فکسنگ میں پھنسے ہوئے ہیں. اگرچہ بہت سے سینئر پاکستانی کھلاڑیوں نے اس مڈ بھیڑ کو بند کروانے کے لیے دونوں کے درمیان دخل دیا تھا، جن میں عمران خان اور وسیم اکرم بھی شامل تھے۔ ہفتہ کو دونوں رنجشیں دور کرنے کے لیے ایک دوست کے گھر پر ملے۔ اس میٹنگ کی ویڈیو میں دونوں ایک دوسرے کو مٹھائیاں پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ جب سے میانداد نے اپنے کہے الفاظ واپس لیے ہیں، سب ٹھیک ہے۔ شاہد کے میانداد کے لیے لفظ تھے، میں آپ سے مل کر خوش ہوں، میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مجھے سوری بولیں کیونکہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔آپ نے اپنی کہی بات واپس لے لی ہے یہی میرے لیے کافی ہے۔ میں نے بھی ان ساری چیزوں کے لیے دکھی ہوں جو میں نے کہیں، انہوں نے شاید آپ کو دکھ پہنچایا ہو۔

    مگر اس دو ہفتہ کے اتار چڑھاؤ سے پاکستان کی جو جگ ہنسائی ہوئی، پاکستان کے بارے میں باہر کے میڈیا نے جو زہر اگلا اور اس سے پاکستان کے تشخص پر جو منفی اثر پڑا اس کی ذمہ داری کون لے گا؟۔ کیا یہ دونوں بڑے لیجنڈ اس مثبت امیج، جو ان دونوں نے کئی سالوں کی محنت سے بنایا تھا، کو نقصان پہنچانے کا مداوا کرسکیں گے؟ ان کی آپسی رنجشیں جو بھی تھیں لیکن انھیں بیچ چوراہے لانے کی کیا ضرورت تھی، اس کے بعد پاکستان کرکٹ پر باہر کے لوگوں نے جو انگلیاں اٹھائیں اس کا جواب کون دے گا؟

    میڈیا نے بھی اس معاملے میں منفی کردار ادا کیا. میڈیا ہر چھوٹی بڑی بات کو خبر کی زینت بناتا دیتا ہے، وہ ایسے معاملات کو دنیا کے سامنے لانے سے پہلے ایک منٹ کے لیے کیوں نہیں سوچتے کہ اس خبر سے پاکستان اور پاکستانیوں کو بحیثیت قوم کس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ گا؟ آخر کب ہم بحیثیت قوم ایک اجتماعی سوچ کو لے کر چلنے والے بنیں گے، جہاں ہم کوئی بھی بات کسی بھی مسئلے پر بولنے اور اس کی بےجا تشہیر کرنے سے پہلے اپنی قومی کردار ، قومی تشخص اور اور اپنی قومی عزت و آبرو کو اپنے ذاتی سوچ اور فائدے سے بڑھ کر مانیں گے۔

  • جاوید میانداد اور شاہد آفریدی آمنے سامنے – سید انور محمود

    جاوید میانداد اور شاہد آفریدی آمنے سامنے – سید انور محمود

    انور محمود محرم کے پہلےدس دنوں میں عام طور پر لوگ دوسری مصروفیات کو کم یا ترک کرکے مجالس، جلوس میں شرکت اور واقعہ کربلا پر بات کر رہے ہوتے ہیں، ایسے میں سیاسی مصروفیات بھی بہت کم ہوجاتی ہیں، ایسا ہی اس سال بھی ہوا اور خاص کر6 محرم کے بعد سےسیاسی بیانات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اس اثنا میں پاکستانی میڈیا نے پاکستان کے دو نامور کرکٹ کے کھلاڑیوں جاوید میانداد اور شاہد آفریدی کےآپس میں الجھ جانے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اس خبر کو لیڈ نیوز بنائے رکھا۔ میانداد اور آفریدی کے آمنے سامنے آنے کا پس منظر یہ تھا کہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران میڈیا کے نمائندوں نے شاہدآفریدی سے یہ سوال کیا کہ جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ آپ پیسوں کے لیے اپنا الوداعی میچ چاہتے ہیں جس پر شاہد آفریدی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جاوید میانداد کو ساری زندگی پیسوں کا مسئلہ رہا ہے۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے کرکٹر کو ایسی چھوٹی بات نہیں کرنی چاہیےتھی۔ یہی فرق عمران خان اور جاوید میانداد میں تھا۔ شاہد آفریدی کے اس بیان کے بعد جاوید میانداد نے ایک نجی ٹی وی چینل پر شاہد آفریدی پر تنقید کرتے ہوئے مبینہ طور پر ان پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آفریدی اپنی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ انہوں نے میچ نہیں بیچے۔

    miandad-afridi-1457951920یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جاوید میانداد جو پاکستان کے بہت سینئر اور لیجنڈ کرکٹر ہیں، اپنے سے بہت جونیئر شاہدآفریدی کے بہت زیادہ خلاف کیوں ہیں۔ مثلاً شاہد آفریدی نے بھارت میں ہونے والے 2016ء کے ورلڈ کپ ٹی 20 میں کولکتہ میچ سے پہلے ایک پریس کانفرنس کی اور ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے لوگوں سے ہمیں بہت پیار ملا ہے اور اتنا پیار تو ہمیں پاکستان میں بھی نہیں ملا جتنا یہاں ملا۔ یہ ایک طرح کا سفارتی بیان تھا لیکن اس بیان پر انہیں پاکستان بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا، ایسا نہیں کہ سب نے ان کی مخالفت کی ہو، لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک تبصرہ جاوید میانداد کا ہی تھا، جس میں انہوں نے شاہد آفریدی کے بیان کی مذمت کی تھی۔ انہوں ٹی وی شو میں بیٹھ کر شاہد آفریدی کو لعنت بھی دکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی کے بیان سے انھیں صدمہ اور تکلیف پہنچی ہے۔ سابق پاکستانی کپتان اور موجودہ سیاستدان عمران خان نےایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ جاوید میانداد کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔ جاوید میانداد ایک کرکٹر رہے ہیں، سیاست دان نہیں لہذا ان کو شاہد آفریدی اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر بولنا چاہیے تھا۔

    جاویدمیانداد کے شاہد آفریدی پر میچ فکسنگ کے الزام کے بعد شاہدآفریدی نےجاوید میانداد کے بیان پر وکلا سے مشاورت کے بعد قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ آفریدی نے سوشل میڈیا پر پیغام دیا کہ جاوید میانداد کے ذاتی حملے کافی عرصہ برداشت کیے لیکن ہر کسی کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ آفریدی کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا اس پر افسوس ہے لیکن میانداد کے رویے پر ان کا ردعمل فطری تھا۔ کرکٹ کے سابق کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ شاہدآفریدی کو اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کےلیے لازمی عدالت میں جانا چاہیے۔ جاویدمیانداد اور شاہد آفریدی کے درمیان الفاظ کی جنگ کے دوران پی سی بی کے سابق چیئرمین جنرل توقیر ضیاء اور سابق کپتان وسیم اکرم نے دونوں کے درمیان مصحالت کرانے کی کوشش کی تھی۔ ان تمام حالات کے بعد جاوید میانداد کی طرف سے ایک بیان دیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ شاہدآفریدی میرے ہاتھوں ہی پروان چڑھا ہے،اس کے بیان نے میرا دل بہت دکھایا ہے، پھر بھی بڑا ہونے کے ناطے میں نے شاہدآفریدی کو معاف کر دیا ہے۔

    جاوید میانداد کے اس بیان کے بعد شاہدآفریدی کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ اپنے ملک کے لیے کھیلنا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے اور وہ کبھی اپنے ملک کو نہیں بیچ سکتے۔ جاوید میانداد کے الزامات سے انہیں، ان کے گھر والوں اور پرستاروں کو تکلیف پہنچی ہے۔ ان کے دل میں جاوید میانداد کی بہت عزت ہے، جاوید میانداد نے انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ ان کے شکر گزار ہیں، لیکن اگر انہوں نے اپنا الزام واپس نہ لیا تو وہ خود کو کلیئر کرانے کے لیے عدالت جائیں گے۔ آفریدی کی طرف سے الزامات واپس لینے کے مطالبے پر جاوید میانداد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ابھی کسی معاملے پر تبصرہ کرنا نہیں چاہتا تاہم کسی سے ڈرنے والا نہیں اور اگر شاہد آفریدی کی جانب سے میچ فکسنگ الزامات پر نوٹس ملا تو اس کا ضرور جواب دوں‌گا۔ جبکہ ایک اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر ایک سروے میں ایک سوال پوچھا تھا کہ کیا میانداد کی جانب سے آفریدی پرلگایا جانے والا میچ فکسنگ کا الزام درست ہے؟۔ اس سروے میں جواب ہاں یا نہیں میں دینا تھا، جس کے جواب لوگوں کی ایک معقول تعداد نے دیے۔ رزلٹ کے مطابق 71 فیصد لوگوں نے شاہد آفریدی کی حمایت کی اور نہیں میں جواب دیا جبکہ 29 فیصد کا جواب جاوید میانداد کے حق میں ہاں تھا۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے اس سال ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے واضح طور پر کہا تھا کہ شاہد آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت صرف اس شرط پر سونپی گئی تھی کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیں گے۔ جبکہ شاہد آفریدی نے بھی اس سال بھارت میں ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں انھوں نے ایک بیان میں اپنی کرکٹ جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کر دی تھی۔ کرکٹ کے بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ شاہد آفریدی اپنی ریٹائرمنٹ کے بارے میں مسلسل بیانات تبدیل کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ ان سے خوش نہیں ہے۔ ستمبر 2016ء کے بیچ میں پاکستانی میڈیا کے حوالے سے شاہد آفریدی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کو الوداع کہنے کے لیے انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے خود کہا ہے جو بالکل غلط ہے۔

    بقول شاہد آفریدی کہ ابھی ان کی کرکٹ ختم نہیں ہوئی ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ ان کےلیے کسی الوداعی پارٹی کا انتظام نہ کرے، ہوسکتا ہے کہ اگلے چند ماہ کے بعد کرکٹ بورڈ کو ان کی ضرورت ہو جبکہ شاید آفریدی ایک اچھا میچ کھیل کر ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی سوچنا چاہیے کہ شاہد آفریدی 98 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں97 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں اور انہیں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں وکٹوں کی سنچری مکمل کرنے والا پہلا بولر بننے کے لیے صرف تین وکٹیں درکار ہیں، اگر شاہد آفریدی کا یہ ریکارڈ بنتا ہے تو یہ پاکستان کا بھی ریکارڈ ہوگا۔ کم از کم اس ریکارڈ کو حاصل کرنے کے لیے ہی حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاہد آفریدی کو چانس دینا چاہیے تھا۔

    آخر میں اپنے دونوں مایہ ناز کھلاڑیوں جاوید میانداد اور شاہد آفریدی سے یہ درخواست ہے کہ اپنے آپس کے اختلافات کو ختم کریں، کیونکہ آپ دونوں جو اس وقت ایک دوسرے خلاف بیانات دے رہے ہیں، اس سے صرف اور صرف پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ اگر دونوں اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں تو عدالت کا رخ کریں اور میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ کریں۔

  • آج یادگار دن ہے، پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ، 400 واں ٹیسٹ میچ – محسن حدید

    آج یادگار دن ہے، پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ، 400 واں ٹیسٹ میچ – محسن حدید

    محسن حدیدا وہ یادگار دن آن پہنچا جب پاکستان اپنا پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کھیلےگا. ایشیا میں کھیلا جانے والا یہ پہلا اور مجموعی طور پر صرف دوسرا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ ہے. پاکستان نے آج سے دو سال پہلے سری لنکن بورڈ کو ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کی آفر کی تھی جو سری لنکا نے ٹھکرا دی تھی ورنہ تاریخ کا پہلا ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کی سعادت ان دو ایشیائی ٹیموں کے حصے آتی جو بعد مں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے حصے میں آگئی.

    dubai-cricket-ground-2 ایشیا میں ڈے نائٹ ٹیسٹ کھیلنے کا تجربہ اس لیے بھی تھوڑا ہٹ کر اور دلچسپ ہوگا کہ عام طور پر ایشین ٹیموں کی مضبوطی سپن باؤلنگ گنی جاتی ہے. ایک دور تھا جب پاکستان کی مضبوطی اس کی فاسٹ باؤلنگ تھی مگر گزرے 8-10 سالوں میں پاکستان بھی بہت زیادہ سپنرز پر انحصار کرنے لگا ہے. رات کو مصنوعی روشنی میں گیند سپنر کو کتنی مدد دیتی ہے، یہ بہت اہم سوال ہے. ایشیا کی ڈرائی اور سپن فرینڈلی وکٹیں جہاں سپنر ہمیشہ وکٹوں کے انبار لگاتے ہیں، وہاں اوس کی موجودگی کس حد تک سپنر پر اثر انداز ہوگی، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں. گو کہ دبئی میں ابھی تک اوس کے زیادہ امکانات نظر نہیں آئے اور اس کے لیے منتظمین نے سپرے وغیرہ کے بھی انتظامات کر رکھے ہیں تاہم پاکستان کی پہلے ٹیسٹ کے لیے اعلان کردہ ٹیم کو دیکھا جائے تو اس میں تین فاسٹ باؤلرز کھلائے جانے کا پورا چانس ہے. پاکستان ٹیسٹ میں زیادہ تر 4 باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترتا رہا ہے. اس بار کافی عرصے بعد پاکستان ممکنہ طورپر 5 باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترے گا. اس کی واحد وجہ رات کے وقت سپنرز کے حوالے سے پائے جانے والی بےیقینی ہی لگتی ہے، تاہم یہ واحد مشکل نہیں ہے جو کہ ڈے نائٹ ٹیسٹ کے حوالے سے پیش آنے والی ہے.

    %d8%af%d8%a7 گلابی گیند کے ساتھ بہت سارے بصری مسائل کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے. بیٹسمین گیند کی لینگتھ کو کتنی جلدی پڑھ پاتے ہیں اور اس پر کتنی کامیابی سے نظر جما سکتے ہیں؟ یہ بھی بہت اہم سوال ہوگا. اس کے علاوہ سلپ کے فیلڈرز کسی بھی کیچ کی صورت میں کتنی کامیابی سے ردعمل دیتے ہیں؟ یہ دوسرا اہم سوال رہے گا، کیونکہ اس طرح کی شکایات پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میں بھی دیکھنے کو ملی تھیں. ابھی تک یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ کیا یہ مسائل گلابی رنگ کی وجہ سے ہیں یا پھر کھلاڑیوں کو پریکٹس کی کمی کا مسئلہ ہے. ایک اور چیز جو فاسٹ باؤلرز سے تعلق رکھتی ہے، وہ بھی دیکھنے کے لائق ہوگی کہ گرم موسم میں خشک/تپتی ہوئی گھاس پر (خاص کر دبئی میں ) جو گیند جلد رف ہو جاتی تھی، اسے رات کے وقت ٹھنڈی اور نسبتا نرم یا بعض صورتوں میں گیلی گھاس پر کھردرے ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟ اور کیا یہ چیز گیند کے جلد یا دیر میں ریورس ہونے پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے؟ یاد رہے کہ ٹیسٹ میچ میں ایک اچھی اور لمبی پارٹنرشپ کو توڑنے کے لیے بعض اوقات باولرز کے پاس ریورس سوئنگ کا ہتھیار ہی بچتا ہے.

    102016122220134169912520  پاکستان کا یہ 400 واں ٹیسٹ میچ بھی ہے. اس حوالے سے بھی یہ میچ بہت خاص اہمیت کا حامل ہے. پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس حوالے سے بھی خاص انتظامات کر رکھے ہیں. خاص سکہ جاری کیا جائے گا اور کھلاڑیوں کو سپیشل کیپس بھی دی جائیں گی، اس کے علاوہ وقار یونس، وسیم باری اور رمیز راجہ کیک بھی کاٹیں گے. دل مچل سا جاتا ہے کہ کاش یہ میچ لاہور یا کراچی میں کھیلا جاتا، مگر یہ ہمارے بس میں نہیں.

    12babarazam پاکستان اس میچ میں فیورٹ کے طور پر میدان میں اترے گا. بابر اعظم اور محمد نواز کا ڈیبیو یقینی لگ رہا ہے. ان دونوں کے پاس بہترین موقع ہے کہ ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرلیں. متحدہ عرب امارات کی بیٹنگ پچز اور کمزور اپوزیشن کے خلاف کیرئیر شروع کرنے کا موقع مل جانا ایک نعمت سے کم نہیں. پاکستان اب تک کھیلے گئے 399 میچز میں سے 128 جیت چکا ہے جبکہ انڈیا 502 ٹیسٹ میچز کھیل کر صرف 132 میچز جیت سکا ہے. ان میں سے بھی زیادہ تر فتوحات انہوں نے اپنے گھر میں حاصل کی ہیں. اس لحاظ سے ایشیا میں پاکستان کا ریکارڈ بہت قابل رشک کہا جاسکتا ہے.

    pakistan پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان اس سے پہلے 46 ٹیسٹ میچز کھیلے جا چکے ہیں. پاکستان 16 ٹیسٹ میچز جیت چکا ہے جبکہ 15 ٹیسٹ میچز میں ویسٹ انڈیز کو فتح حاصل ہوئی ہے. پاکستان 1997ء کی سیریز میں ویسٹ انڈیز کو 3-0 سے وائٹ واش کر چکا ہے تب وسیم اکرم پاکستان کے کپتان تھے. موجودہ سیریز سے پہلے یو اے ای میں ایک بار دونون ٹیمز آمنے سامنے آچکی ہیں. 2002ء میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں بھی پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 2-0 سے وائٹ واش کیا تھا. اس بار بھی شائقین امید رکھتے ہیں کہ پاکستان با آسانی 3-0 سے سیریز جیت لے گا. بیٹنگ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 1214 رنز محمد یوسف نے 8 میچز میں بنائے ہیں جبکہ ویسٹ انڈیز کی طرف سے برائن لارا نے 12 ٹیسٹ میچز میں 1173 رنز بنا رکھے ہیں. باؤلنگ میں پاکستان کی طرف سے عمران خان نے 18 ٹیسٹ میچز میں 80 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جبکہ ویسٹ انڈیز کی طرف سے 18 ہی میچز میں کورٹنی والش نے 63 وکٹیں حاصل کی ہیں. یہ علیحدہ بات ہے کہ اب پاکستان کی طرف سے زیادہ وکٹیں سپنر ہی لیتے ہیں.