Category: بلاگز

  • دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    دانشوری کے دھندے کی مجبوری – محمد نعمان بخاری

    نعمان بخاری ہم ایک کنفیوژڈ، فکری یتیم اور عمل سے عاری قوم بنتے جا رہے ہیں، یا پھر باقاعدہ بنائے جا رہے ہیں.. جس نتھو خیرے کو دیکھو سوال کی حرمت کے نام پہ فضول ترین سوالوں کی پوٹلیاں اٹھا کر گھومے اور گھمائے چلا جا رہا ہے .. اگر بندے کے پاس کرنے کو کچھ مفید کام نہ ہو تو نصیب میں ٹائم پاسنگ سوال ہی بچتے ہیں .. سوال بھی ایسے کہ جن کے اگر جواب مل جائیں تو اُن جوابوں میں مزید اوٹ پٹانگ سوالات کی گھمرگھیریاں شروع ہو جاتی ہیں اور بےعملی کا یہ لاحاصل سلسلہ اچھے بھلے مطمئن انسان کو صاحبِ تشویش بنا دیتا ہے .. یہودیانہ کلچر کا دور دورہ ہو اور بنی اسرائیل والی خصلتیں پیدا نہ ہوں،، یہ کیسے ممکن ہے صاب.. بیکار سوچنے اور سوال برائے سوال کریدنے سے بےیقینی اور بےاطمینانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا .. کام کرنے والے آگے نکل جاتے ہیں اور جواب کے سوالی مقامِ یاسیت پہ کھڑے آنکھوں میں سوال لیے گزرنے والے قافلوں کو تکتے رہتے ہیں.. ان کی گاڑی سوالیہ اسٹیشن سے آگے بڑھنے پائے بھی تو سامنے ایک نیا سوال راستہ روکنے کو تیار کھڑا ہوتا ہے..!

    ہمیں سوچنے سے مسئلہ نہیں ہے میری جان! البتہ ”صرف سوچنے“ کے ہم قائل نہیں ہیں .. ہم اُس تدبر و تفکر کے داعی ہیں جس کی منزل الجھن سے شروع ہو کر سلجھن تک پہنچتی ہے .. سوال وہ ہوتا ہے جو بےساختہ ہمارے ذہن میں پیدا ہو یا واقعی جاننے کی طلب میں نکلے،، ورنہ وہ مرض ہوتا ہے اور سوالی مریض.. ہر سوال کا یہ حق نہیں کہ وہ لازماً جواب پائے.. کچھ سوال محض اعتراض پہ مبنی ہوتے ہیں اور کچھ استہزاء یا دل لگی کو کیے جاتے ہیں .. ان کا جواب دینا غیرضروری ہوتا ہے .. ایسے سوال جو کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سوچے بلکہ گھڑے جاتے ہیں، وہ عوامی اذہان کو خلفشاری میں مبتلا کرتے ہیں .. اسی طرح کے سوالات کی ہمارا مخصوص دانشور طبقہ بڑے زور شور سے ترویج کرتا ہے .. بلاناغہ اٹھائے جانے والے ان انتشاری سوالوں کو اگر ہم دانشوروں کے دھندے کی مجبوری کہہ بیٹھیں تو جواب آتا ہے کہ نیت پہ سوال اٹھانا سخت منع ہے.. سوال کرنا بُرا نہیں ہے،، ہمیشہ بس سوال ہی کرتے چلے جانا اور کبھی تسلی نہ ہو پانا بُرا ہے .. سوالات کے ان جامد مقلدین کو جواب کی نہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے.. ”ذرا سوچیے“..!!

  • چکرا دینے والا قانون، مرفی لا – محمد فیصل شہزاد

    چکرا دینے والا قانون، مرفی لا – محمد فیصل شہزاد

    یہ سائنسدان بھی لگتا ہے، سب سے زیادہ ویلے ہیں.. اور کوئی کام ہوتا نہیں تو قوانین (لا) بناتے رہتے ہیں.. حرکیات کا قانون، نیوٹن کے ثقل کا قانون، فلاں قانون ، ڈھماکا قانون!… یہ سنکی سائنسدان شاید نہیں جانتے تھے کہ یہ قوانین پیش کر کے انہوں نے ان کروڑوں لڑکوں کے دل توڑے ہیں جو ہر سال امتحان میں ایگزامنر کی آنکھ بچا کر ان ”قوانین“ کو شلوار کے پائنچوں میں چھپا کر لاتے ہیں، اورنقل نہ کرنے کا قانون توڑ کر بھی ان ”قوانین“ کی ٹانگیں بڑی بےدردی سے توڑتے ہیں اور نتیجتاً فیل ہو جاتے ہیں!

    چلیں چھوڑیں، آج ہم بات کریں گے ایک عجیب قانون کی … جو اہل علم میں ”مرفی لا“ (murphy’s law) کے نام سے مشہور ہے!
    یہ مرفی بدبخت کوئی بڑا ہی سڑیل انجینئر تھا۔ ایک دن کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی کام کر رہے تھے۔ جب ہر چیز بظاہر اس حالت میں آگئی کہ اس کی آزمائش کی جائے تو وہ ناکام ہو گئے… پتہ چلا کہ کسی معمولی سی غلطی کی بنا پر وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکے … مرفی نے روایتی باس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار اپنے اسسٹنٹ کو ٹھہرایا اور کہا: یہ شخص جہاں بھی غلطی کرنے کا موقع ہو…ضرور کرے گا… پھر یہ بھی کہا کہ اگر کسی چیز کے کرنے کے دو طریقے ہوں گے تو جو سب سے بدترین ہو گا، یہ وہی کرے گا۔ بس جی آس پاس سننے والے اس بات پر سر دھننے لگے… (مرفی کا نہیں بھئی، اپنا!) وہ اس کی بات سے ایسے متاثر ہوئے کہ انھوں نے کھوج کھوج کر اس کے پیش کردہ خیال کے حق میں باتیں سوچ لیں، جس سے اس متنازعہ قانون کی حیثیت مسلمہ ہو گئی۔

    تو دوستو! سب سے پہلے اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کر لیں جو حسب ذیل ہیں:
    ٭ اگر ایک صورت حال مختلف طریقے سے نمٹ سکتی ہے تو پورا امکان ہے کہ سب سے بد ترین صورتحال سامنے آئے۔
    ٭ اگر کوئی چیز بظاہر کسی بھی طریقے سے غلط سمت میں نہیں جا سکتی تو وہ کسی نہ کسی طریقے سے جائے گی ضرور۔
    ٭ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے غلط سمت میں جانے کے چار طریقے ہو سکتے ہیں تو کوئی پانچواں طریقہ کہیں نہ کہیں سے جنم لے لےگا۔
    ٭ اگر حالات کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ کم برے سے زیادہ برے حالت کی طرف جاتے ہیں۔
    ٭ قدرت ہمیشہ اس خفیہ غلطی کے ساتھ ہوتی ہے جس کا حل آپ نے سوچا ہی نہیں ہوتا۔ جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔

    (اب آئیے اس قانون کی وکی پیڈیا سے چند مثالیں مگر اس کے ساتھ اپنے اردگرد سے بھی چند مثالیں:)

    ٭ میری ڈیڑھ سالہ بیٹی خنساء کبھی غلطی سے بھی چپل سیدھی نہیں پہنے گی … ہمیشہ پیر غلط طرف کی چپل میں ڈالے گی!
    ٭ آپ نے آدھا گھنٹہ لگا کر ایک فائل اٹیچ کی، مگر ای میل کرنے سے پہلے اچانک ای میل اکاؤنٹ کریش ہو جائےگا، یا بجلی چلی جائے گی!
    ٭ اسی طرح آپ نے بڑا سنوار نکھار کر کسی کی پوسٹ پر ایک کمنٹ لکھا، مگر سینڈ کرنے سے پہلے ہی نیٹ دھوکا دے جاتا ہے!
    ٭ جب آپ اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوں گےکہ آپ بڑے تیس مار خان ہوگئے ہیں تو عین انھی دنوں فیس بک انتظامیہ آپ کا اکاؤنٹ بند کر دے گی اور آپ اچانک اپنی ساری پوسٹس اور دوستوں سےمحروم ہو جائیں گے!
    ٭ اماں یا بیگم کو آپ جتنا مہنگا تحفہ لے کر دیں گے… امکان غالب ہے کہ اتنا ہی کم وہ استعمال ہوگا یا دوسروں کو دے دیا جائے گا!
    ٭ بیوی کا وہ مشورہ جسے آپ بیکار سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں ، وہی سب سے صحیح اور سارے مشوروں میں سب سے بہتر نکل آتا ہے! … اور پھر اس کی طنزیہ نگاہیں اور باتیں برسوں آپ کو برداشت کرنی پڑیں گی!
    ٭ آپ ڈیپارٹمنٹل اسٹور گئے، سامان کی ٹرالی لیے بل بنانے کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ برابر والی قطار چھوٹی ہے، اب آپ اپنی دانست میں بڑی ہوشیاری سے اپنی لین سے دوسری طرف جائیں گے، تو عین اسی وقت وہ قطار پہلے والی سے بھی لمبی ہو جائے گی!… اب نہ آپ ادھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے!
    ٭ جس دن آپ کی جیب میں پانچ کا سکہ بھی نہ ہو … اسی دن آپ کے بےتکلف اور وہ بھی ”کمینے“ دوست ملنے آ جائیں گے! … پھر وہ خوب خوب ذلیل کریں گے۔
    ٭ ناشتہ کرتے ہوئے آپ کے منہ کی طرف جاتا ہوا ڈبل روٹی کا سلائس آپ کے ہاتھ سے گرے گا تو ہمیشہ اس کا مکھن لگا ہوا حصہ قالین سے ٹکرائے گا … اس کے اس حصے سے گرنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں جتنا قیمتی قالین ہوتا ہے!
    ٭ آپ کے چھوٹے بچوں کی شرارتوں اور بدتمیزی کا انحصار اردگرد موجود لوگوں کی تعداد پر ہوتا ہے … جتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ ہنگامہ!
    ٭ آپ کسی مشین کو درست کر رہے ہوں تو اس کا باریک سا اسکرو جو کہ بہت اہم ہوتا ہے … آپ کے ہاتھ سے چھوٹ کر کمرے کے بھاری ترین فرنیچر کے سب سے کونے والے حصے میں پہنچ جائے گا!
    ٭ غسل خانے میں نہاتے وقت صابن جب بھی پھسلے گا تو یہ گویا لازم ہے کہ سیدھا ڈبیلو سی کے اندر ہی جا کر گرے!
    ٭ خواتین جب خوب تیار شیار ہو کر کسی دعوت میں جانے کو تیار ہوں تو اسی وقت ان کے بچے کو سو سو ضرور آئے گا!
    ٭ اسی طرح جس دن ابا جی سفید کاٹن کا کلف لگا کڑکڑاتا سوٹ پہن کر اپنی جوانی کو آواز دینے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہوں گے … اسی دن بچے نے گود میں سو سو کرنا ہے یا کم ازکم اپنے کیچ اپ لگے ہاتھ آپ کے کپڑوں سے ضرور ملنے ہیں!
    ٭ اگر آپ کبھی غلطی سے بھی کوئی رانگ نمبر ڈائل کر بیٹھیں تو مجال ہے کہ وہ مصروف ملے، کوئی نہ کوئی اٹھائےگا ضرور!
    ٭ جس دن آپ اسٹیشن جانے یا دفتر جانے کے لیے لیٹ ہو جائیں، اسی دن کم بخت ٹریفک ضرور جام ہو گا. اور اسی دن باس آپ سے پہلے دفتر پہنچ کر آپ کو ضرور یاد کرے گا!
    ٭ آپ کسی شخص سے کہیں کہ نواز شریف کی پلاننگ سے صرف دو سال میں ملک میں معاشی انقلاب آ جائے گا، تو وہ اس پر تو جھٹ یقین کرلے گا، لیکن اگر یہ کہیں کہ سیڑھی پر کیا ہوا پینٹ ابھی گیلا ہے، اسے چھونا نہیں ہے تو وہ اسے چھو کرضرور دیکھے گا!
    ٭ خارش عام طور پر وہیں ہوگی، جہاں آسانی سے ہاتھ نہ پہنچ سکے!
    ٭ امتحانات میں 80 فیصد وہی سوالات آتے ہیں، جنہیں تیاری کے دوران آپ غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیں!
    ٭ آپ کسی کے خاموش عشق میں مبتلا ہوئے نہیں، اور برسوں سے گھر بیٹھی اس خاتون کی کسی باسٹرڈ سے شادی ہوئی نہیں … پھر کچھ ہی برسوں میں اس کے بچے آپ کو ماموں ماموں پکاریں گے اور آپ انہیں گود میں اٹھائے چیز دلانے جائیں گے!
    ٭ جس دن آپ خوب دل لگا کر محنت سے تیار ہو کر جائیں … اسی دن کوئی آپ سے کہہ دے گا، کیا آج آپ نے منہ نہیں دھویا تھا؟
    ٭ آپ کوئی مشین ٹھیک کر رہے ہیں اور آپ کے ہاتھ گریس سے بھرے ہوئے ہیں یا کوئی خاتون آٹا گوندھ رہی ہیں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ اسی وقت آپ کی ناک پر کھجلی نہ ہو!
    ٭ جو میری لمبی لمبی پوسٹس پوری نہیں پڑھتا، اس کا نقصان ہونا لازم ہے! 😛

    یہ سب تو اس کم بخت مرفی کے قانون کو بتانے کے لیے از راہِ مزاح پیش کیا ہے، جس کے بارے میں تفصیل بہرحال آپ نیچے دیے گئے وکی پیڈیا کے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ہمارے مشاہدے میں بھی ہوتا ہے مگر ہم مسلمانوں کے پاس اس کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بہترین قانون ہے … وہ ہے یہ سوچ کہ جو ہوا، اچھا ہوا، اور جو ہو رہا ہے، اچھے کے لیے ہو رہا ہے اور جو ہوگا اچھا ہی ہوگا! 😛

    لیکن چلیں اب ازراہ مذاق ہی سہی، جلدی جلدی اپنی ذاتی مثالیں پیش کرکے مرفی کا قانون ثابت کریں ۔۔۔ شاباش!)

    وکی پیڈیا لنک

  • گدھا گاڑی والا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    گدھا گاڑی والا، پچاس لفظی کہانی – صداقت حسین ساجد

    میو ہسپتال میں وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی.
    زندگی نے وفا نہ کی.
    وقت پورا ہو چکا تھا.
    گھر جانے کے لیے ورثا کے پاس بندوبست نہیں تھا .
    وہ پریشان تھے .
    ایمبولینس دستیاب نہ ہو سکی.
    ارباب اختیار موج مستیوں میں گم تھے.
    وہ بے پروا تھے.
    گدھا گاڑی والا درد دل رکھنے میں بازی لے گیا..

  • بچپن کے اقبال، ماضی کے کچھ بھولے بسرے اوراق – سعدیہ نعمان

    بچپن کے اقبال، ماضی کے کچھ بھولے بسرے اوراق – سعدیہ نعمان

    بچوں کی بلند آواز سے پورا سکول گونجتا، اسمبلی گراؤنڈ میں قطاریں باندھے ہم سب اپنے دھیان پڑھتے چلے جاتے۔
    *لپےےے آتیی ہےے دعاا بن کے تمناا میری ی *
    یہ تو کچھ بڑے ہو کے معلوم ہوا کہ لپے آتی دراصل لب پہ آئی ہوئی دعا ہے جو علامہ اقبال نے بچوں کے لیے کہی.
    زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
    علم کی شمع سے ہو و مجھ کو مو و حابت یا رب **
    ہم محبت کو ایسے ہی کھینچ کے پڑھا کرتے۔
    کسی کسی دن زرا تبدیلی ہوتی اور
    *یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
    جو قلب کوگرما دے جو روح کو تڑ پا دے *
    پڑ ھایا جاتا۔ اک سماں بندھ جاتا اور جب اس مصرع پہ پہنچتے
    *رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر *
    تو ہم کن انکھیوں سے مس رفعت اور سانولی سلونی سی مس ثریا کو دیکھا کرتے کہ پورا سکول ان کا نام لے رہا ہے، تو یہ دل میں کیسا محسوس کر رہی ہوں گی۔
    یہی سوچتے دوسرا مصرع ادا کر لیتے
    *خود داری ساحل دے آزادی دریا دے یا رب
    قومی ترانہ میں سایہ خدائے ذوالجلال پڑھتے سر کو جھکاتے اور ڈسپلن کی ٹیچر کے سامنے سے ڈرتے ہوئے گزرتے کلاس روم میں جا بیٹھتے۔ کلاس دہم تک یہی ترتیب رہی۔ گورنمننٹ مسلم سکول کی میڈم نظامی کے مشہور زمانہ ڈسپلن میں تربیت پاتے، ہم گرلز گائیڈ بزم ادب کی دلچسپ سر گرمیوں سے گزرتے سیکھنے کے مراحل طے کرتے سکول کی منزل عبور کر گئے
    اقبال اس پورے سفر میں ساتھ رہتے اپنی نظموں کی صورت۔ سالانہ تقریبات میں **ماں کا خواب ** پہ کیا گیا ٹیبلو زہن و دل پہ ایسے نقوش چھوڑ گیا کہ آج بھی زندہ ہیں۔
    میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
    بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب
    یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں
    اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں
    لرزتا تھا ڈر سے مِرا بال بال
    قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال
    کالے کپڑوں میں ملبوس ماں کا کردار ادا کرتی اداس سی چال چلتی طالبہ ایک قطار میں سفید کپڑے پہنے کچھ لڑکے ہاتھوں میں دئے اٹھائے ہوئے آ رہے ہیں کچھ دور ایک اور بچہ ہے رفتار بھی آہستہ اور دیا بھی بجھا ہوا۔ یہی لڑکا اس ماں کا بیٹا ہے۔ سانس رکنے لگتی اب کیا ہو گا-
    جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
    تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
    زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
    دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
    وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رَواں
    خُدا جانے، جانا تھا اُن کو کہاں
    اِسی سوچ میں تھی کہ، میرا پسر
    مجھے اُس جماعت میں آیا نظر
    وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
    دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
    کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
    مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں
    جُدائی میں رہتی ہُوں میں بے قرار
    پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
    نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
    گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی
    جو بچے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
    دِیا اُس نے منہ پھیر کر یُوں جواب
    رُلاتی ہے تُجھ کو جُدائی مِری
    نہیں اِس میں کچُھ بھی بَھلائی مِری
    یہ کہہ کر وہ کچُھ دیر تک چپ رہا
    دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
    سمجھتی ہے تُو، ہو گیا کیا اِسے؟
    تِرے آنسوؤں نے بُجھایا اِسے
    ایک دوسری کلاس کی طالبہ کےذہن میں یہ مناظر چپک گئے، ٹیبلو کا اختتام ہوتا ہے۔ ماں خواب سے جاگتی ہے اور دوسری کلاس کی طالبہ کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہیں۔ بھرے گراؤنڈ میں موجود ہر طالب علم اور ہر استاد کی یہی کیفیت ہے.
    یوں اقبال سے شناسائی کی یہ پہلی منزل تھی۔ اب جو مائیں جوان اولاد رخصت ہونے کے بعد اس کیفیت سےگزرتی ہیں، حقیقت میں انہیں دیکھا ہے تو اقبال یاد آتے ہیں کہ کیسے فطرت سے آشنا اور غم شناس تھے کہ ماؤں کے اندر کے دکھ پہچانتے تھے۔
    اقبال ہمارے بچپن میں اجنبی نہ تھے۔ بانگ درا بال جبریل نصابی کتابوں کی طرح مطالعہ کا حصہ ہوتی ساتھ ساتھ رہتی، پرندے کی فریاد پڑھتے تو گھنٹوں اداس رہتے، سوچتے رہتے کہ یہ قید کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے، کاش کوئی اسے رہائی دلا دے۔
    یہ درختوں پہ چہچہاتے ہی بھلے لگتے ہیں۔
    آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
    وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
    لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
    شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
    (یہاں پہنچ کر ہمارے ننھے دل کو بھی چوٹ لگتی )
    جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
    دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
    (یہ مصرع بار بار دہراتے)
    گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
    دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
    آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے
    میں بے زباں ہوں قیدی ، تُو چھوڑ کر دعا لے
    بس بار بار دہراتے اور سوچتے کاش کوئ رہائ دلا دے اسے
    ایک مکڑا اور مکھی پڑھتے ہوے رونگٹے کھڑے ہو جاتے سوچتے اف یہ خوشامد کیسی بری بلا ہے کیوں مکڑے کی باتوں میں آئ مکھی اور اپنی جان گنوائی،
    مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی
    پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
    سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
    دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
    کیا سبق دیا زندگی بھر کے لیے
    درختوں کی شا خوں پہ جھولتے **ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا * گایا کرتے اور کسی سہیلی کو اداس دیکھتے تو پو چھتے کیا ہوا کیوں اداس بلبل بنی بیٹھی ہو۔ گاؤں کی ٹھنڈی تاروں بھری رات میں جگنو تلاشتے پھرتے، ٹارچ کی مانند جلتے بجھتے اس ننھے سے پرندے کے پیچھے پاگل ہو جاتے ۔
    کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
    میں راہ میں روشنی کروں گا
    اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
    چمکا کے مجھے دیا بنایا
    ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
    آتے ہیں جو کام دوسروں کے
    کتنا پیارا کردار ہے جگنو کا۔ بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانے والا
    **پہاڑ اور گلہری
    نے ہمیں گلہری کی محبت میں ایسا گر فتار کیا کہ ہم آج بھی کہیں گلہری دیکھ لیں تو نظر اس سے ہٹا نہیں پاتے، اسے کیاریوں لان کی دیواروں اور درختوں پہ پھدکتا دیکھتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کیا کمال کا جواب دیا گلہری نے۔ کیا کہنے اس ننھی مخلوق کے۔
    بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو
    یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
    نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
    کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
    *گائے اور بکری * تو ایسے چلتے پھرتے کردار تھے کہ ان کی ہر ادا ازبر تھی۔ چھٹیوں میں گائوں جا نا ہوتا تو وہ سارا منظر تخلیق شدہ ہوتا
    اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں
    تھی سراپا بہار جس کی زمیں
    کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
    ہرطرف صاف ندیاں تھیں‌ رواں
    تھے اناروں کے بے شمار درخت
    اور پیپل کے سایہ دار درخت
    ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں‌ آتی تھیں
    طائروں کی صدائیں آتی تھیں
    چھپڑ کنارے ؛ بھینسوں اور بکریوں کے ریوڑ آتے تو ہم ان کی کیریکٹر اسٹڈی کیا کرتے۔ سوچا کرتے واقعی بھینس نے ناشکری کی ہوگی، ابھی بھی دیکھو کیسی بے زاری ہے، چال میں اور چلتا منہ رکتا نہیں ہے، دوسری جانب بکری، واہ کتنی منظم سی زندگی ہے اس کی اور کیسی صابر وشکر ہے۔
    سن کے بکری یہ ماجرا سارا
    بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
    قدر آرام کی اگر سمجھو
    آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
    گائے سن کر یہ بات شرمائی
    آدمی کے گلے سے پچتائی
    دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
    اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
    یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
    دل کو لگتی ہے بات بکری کی!
    شکر ہے بکری نے گائے کوآدمی کی قدر سکھادی پھربھی گائے کے تیور دیکھ کے ڈر ہی لگتا رہا
    پھر ہم بکریوں کا سکول بناتے اور چھڑی لے کر انکو مزید ڈسپلن سکھاتے اور شام پڑنے پہ انہیں اگلے دن وقت پہ آنے کا کہہ کر گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
    یوں بچپن کی کئ خوشیاں *علامہ اقبال** کے سنگ گزارتے ہم بڑے ہو گئے
    کیسے خوب صورت انداز سے زہن سازی کی اقبال نے اور اس فکر کو لے کر پروان چڑ ھنے والے بچوں کو ستاروں سے آگے کی منازل دکھایئں شاہیں کی پرواز اور انداز سکھائے کہیں عقل و خرد سے گھتیاں سلجھائیں تو کبھی عشق کو امام بتایا کبھی ساقی نامہ تو کبھی شکوہ جواب شکوہ کبھی امام بر حق کی پہچان بتائ تو کبھی لا الہ الاللہ کے اسرارورموز سمجھائے. تو پھر کیا خیال ہے ننھے منے پھولوں کی پیاری پیاری امیوں کا، بچوں کو شاہین بنانا ہے تو انہیں اقبال سے آشنا کریں؟ ہاں! تو پھر آج سے ہی آغاز کریں۔
    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔
    دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
    ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
    آمین۔

  • تمھاری بہن کیسی ہے؟ ابن سید

    تمھاری بہن کیسی ہے؟ ابن سید

    ابن سید علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے میڑک کے انگریزی کے پیپر میں ممتحن صاحب نے کمال کر دیا۔ سوال جاذب نظر تھا، دلچسپ بھی تھا۔ جناب شاید منٹو سے متاثر تھے۔ ان کا افسانہ پسندیدہ تھا۔ مجھے ممتحن کے کردار پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا، مجھے میٹرک کے طلبہ و طالبات سے بھی کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ میں اس معاشرے کا فرد ہوں جہاں الفاظ کہنے پر پابندی ہے۔ ہاں مجھے اپنی حدود وقیود کا بھی خیال رکھنا ہے۔ مجھے اپنے چہرے پر تقوے کا لبادہ اوڑھے رکھنے کا بھی احساس ہے۔ سوسائٹی کے تند و تیز نشتر سہنے کا بھی حوصلہ نہیں میرے اندر۔ میں اس دور کا لکھاری ہوں جہاں پیار کے بول بولنے پر پابندی اور عزتیں اچھالنے کی آزادی ہے۔ میں پیپر کے سوال پر قلم اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرا خیال نہیں تھا کہ اس پیپر کو زیر بحث لاؤں، اپنی تحریر کو کسی اختلافی موضوع پر لکھنے کی جسارت کروں، مگر گذشتہ روز ہی ایک چینل پر اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر جناب رسول بخش بہرام صاحب کی منطق سننے کا موقع ملا۔ پروگرام اینکر آصف محمود صاحب نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موضوع پر اوپن یونیورسٹی کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا جو کہ قابل ستائش تھا۔ علم کے پیاسے لاکھوں نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والی جامعہ، دنیا بھر میں اپنا ایک ممتاز مقام رکھنے والی درسگاہ اور اسی عظیم درسگاہ کے امتحانی پرچے میں ایسی نادانی، یقین جانیے قابل مذمت ہی نہیں قابل سرزنش فعل تھا۔ اس حوالے سے یونیورسٹی کو بروقت مؤقف دینا چاہیے تھا، خیر دیر آید ، درست آید۔ چلیں جناب ریجنل ڈائریکٹر صاحب ہی کو سن لیتے ہیں۔

    اینکر سوال پوچھتا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والے سوال کے بارے میں آپ کا کیا مؤقف ہے؟سوال یہ تھا کہ اپنی بہن کے بارے میں مندرجہ ذیل چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مضمون لکھیں۔ Age، Height، physique، Look، Height ،attitude۔ انہوں نے physique کا مطلب سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمھاری بہن کی صحت کیسی ہے؟ جناب رسول بخش صاحب جہاں تک Physiqye کے معانی کا تعلق ہے تو انگریزی لغات کے مطابق اس کے معانی body, build, figure, frame, anatomy constitution, shape, form بنتے ہیں۔ قبلہ ان الفاظ کے معانی اردو میں کرکے دیکھ لیں، شاید ہی کوئی بھی مطلب آپ کے جواب سے مطابقت نہیں رکھتا۔ قبلہ! آپ تو یہ فرما رہے ہیں کہ بچہ اپنی بڑی بہن سے ڈر رہا ہے۔ خوف زدہ ہے اس لیے اس کو حوصلہ اور ہمت دینے کے لیے یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ وہ بڑی بہن کے بارے میں لکھے۔ حضور والا! منٹو کے افسانے کا مرکزی خیال بھی یہی تھا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آج تک بہن کے بارے میں ایسا سوال نہ پوچھا گیا ہے اور نہ ہی پوچھا جائے گا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی جانب سے ایسا سوال کس مقصد کی خاطر پوچھا گیا۔ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے کئی مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔

    کوئی بھی معاشرہ ہو، بہن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بہنوں کی تکریم دلوں میں نقش ہوتی ہے۔ بہنیں گھروں کی رونق ہوتی ہیں، جہاں باپ کی شفقت اور ماں کا لاڈ انہیں حوصلہ دیتا ہے، وہیں بھائیوں کی شرارتیں ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہیں۔ بھائیوں کے ناز و نخرے خندہ پیشانی کے ساتھ اٹھاتی ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کی جانب سے چھیڑی گئی بحث کی وجہ سے بہن اور بھائی کے مقدس رشتے کو متنازعہ بنایا گیا ہے۔ بہنوں کے پیار اور محبت کو خوف میں مبتلا کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ بہنیں جو بازار میں اپنی جانب اٹھنے والی نگاہوں سے عزت و تکریم کی حفاطت کرتی تھیں، انہیں اپنے بھائیوں سے بھی خود کو بچانا ہوگا ، ہاں بھائی کی تعاقب کرتی نگاہوں سے تحفظ کرنا ہوگا۔ کیا خبر کب بھائی بہن کی Physique پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا شروع کردے، جی یہ نگاہیں بھائی اپنے مضمون کی تکمیل ہی کے لیے ڈالے گا۔ ہاں بہنوں کی Look بھی بھائیوں کے لیے ضروری ہوگی۔ بہن کا بھائی اور باقی افراد کے ساتھ Attitude کا بھی موازنہ ہوگا۔ یہ الفاظ تحریر کرتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں، میری زبان لرزاں ہے مگر مجھے اس ممتحن کے رویے پر ترس آتا ہے۔

    پیارے ممتحن صاحب! معذرت کے ساتھ مجھے ذرا اپنی بہن کے بارے میں ضرور بتائیے گا۔ وہ دکھنے میں کیسی ہے؟ اس کی چال مورنی جیسی ہے؟ یا اس کے بدن میں ہرنی جیسی پھرتی ہے؟ نہیں نہیں یہ بھی دیکھیے، وہ بھینس کی طرح سست ہے یا گوریلا کی طرح لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہے، ارے ہاں! اس کا قد بھی تو بتائیے، جناب ضرورت رشتہ کے لیے نہیں صرف ایک مضمون لکھنا ہے. اس مضمون کے بعد مجھے تو محض 20 نمبر ملیں گے مگر شاید کوئی نگران یا پیپر مارک کرنے والا ٹھرکی ممتحن اس میں دلچسپی اختیار کرتے ہوئے رشتے کا پیغام ہی بھیج دے۔ چلیں بہن کی عمر بھی بتا دیں۔ کیا اس کی شادی کی عمر گزر چکی ہے؟ کیا اس کے بالوں میں چاندی چھا گئی ہے یا ابھی وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہے؟ ارے! اس کا رویہ کیسا ہے؟ کھری کھری سناتی ہے یا بس چپ چاپ سب سن لیتی ہے؟ قسم لے لیں مجھے آپ کی بہن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے. بس ایک مضمون کو مکمل کرنا ہے، وہی مضمون جو آپ نے میٹرک کے امتحانی پرچے میں پوچھا ہے، وہی مضمون جس سے میرا مستقبل وابستہ ہے ، ہاں جی وہی پرچہ جس کے تمام سوالات کا جواب دینا ضروری ہے، کیوں کہ آپ نے وہاں تو آپشن بھی نہیں دیا کہ کوئی سوال چھوڑا بھی جا سکتا ہے، اگر میرے پاس سوال چھوڑنے کا کوئی آپشن ہوتا تو شاید یہ باتیں آپ سے نہ پوچھتا، آپ کی بہن کے بارے میں آپ سے سوالات نہ کرتا، وہ کیا ہے ناں میری کوئی بہن نہیں ہے اس لیے آپ کی بہن میں دلچسپی لینا میری مجبوری بن گئی ہے. اور ہاں ایک اور بات مجھے ریجنل ڈائریکٹر صاحب کا جواب بھی مطمئن نہیں کر سکا ، وہ آپ کی غلطی کے دفاع میں جھوٹ کی تمام حدوں کو پار کر رہے ہیں۔ شاید میں نے اخلاقیات کی پاک و بابرکت حدوں کو پار کر دیا ہے۔ شاید میرے الفاظ امتحانی پرچے میں کیے گئے سوال سے زیادہ احمقانہ اور بے حیائی کا مظاہرہ کر رہے تھے، ہر اس بھائی سے معذرت جس کے لیے اس کی بہن عزت و حرمت کا نمونہ ہے۔ مگر مجھے تو اوپن یونیورسٹی کا یہ پیپر بنانے والے ممتحن اور ریجنل ڈائریکٹر سے ضرور پوچھنا ہے۔ ارے بھائی مجھے بتانا ذرا ’’ تمھاری بہن کیسی ہے؟‘‘

  • ہم جنس پرستی کا فروغ، صہیونی تنظیم الیومیناٹی کا ایجنڈا – حمزہ زاہد

    ہم جنس پرستی کا فروغ، صہیونی تنظیم الیومیناٹی کا ایجنڈا – حمزہ زاہد

    لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی 14جولائی 2016ء کی اشاعت میں ایک خبر رپورٹ کی جس میں بتایا گیا کہ کیلیفورنیا اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن نے دوسری کلاس کے نصاب میں LGBT (ہم جنس پرستی) کی تحریک کی تاریخ کو شامل کر لیا ہے۔ یعنی کے کیلیفورنیا میں اب دوسری کلاس کے بچوں کے ہم جنس پرستی کی تعلیم دی جائے گی۔ LGBT 1990ء میں بنائی گئی ایک کمیونٹی کا نام ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو جو عام دنیا میں فٹ نہیں بیٹھتے، پہچان دلانا ہے۔ اس کمیونٹی کو 2016ء میں میڈیا پر بہت زیادہ پروموٹ کیا جا رہا ہے اور اسے GLAAD کا نام دیا گیا ہے۔ ہم جنس پرست وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہوتے تو عام مرد اور عورت ہی ہیں لیکن ان کا دل جنس مخالف کی طرف مائل نہیں ہوتا، بلکہ ان کا جنسی میلان اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔

    آج کل دنیا بھر میں ہم جنسی پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بھرپور پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی سازش ہے، یہ ایجنڈا کتنا خطرناک ہے اور اس سے ہماری نسلوں کا کتنا زیادہ نقصان ہوگا۔ رالف ایپرسن ( Ralph Epperson) نے 1989ء میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا نیو ورلڈ آرڈر (New World Order)۔ ایپرسن امریکہ کا ایک لکھاری اور محقق تھا جو سازشی نظریات (Conspiracy Theroies) پر تحقیق کرتا تھا۔ ایپرسن نے اپنی کتاب کے ابدائیہ میں لکھا:
    ’’دنیا کا پرانا نظام اپنے آخر کو پہنچنے والا ہے اور اسے نئے نظام میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ نئی دنیا کا نام نیو ورلڈ آرڈر ہو گا اور اس نظام کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے گا۔ اس نئے نظام میں خاندانی نظام کچھ اس طرح کا بنا دیا جائے گا جس میں ہم جنس شادیاں قانونی طور پر جائز ہوں گی۔ والدین بچوں کی دیکھ بھال نہیں کریں گے بلکہ حکومت ان بچوں کی دیکھ بھال کرے گی۔ دنیا کی ساری عورتوں کو حکومت نوکریاں دے گی تاکہ عورتیں گھر نہ بنائیں۔ طلاق حد سے زیادہ آسان کر دی جائے گی اور ایک شادی کے تصور کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا جائے گا۔ اس نظام میں کوئی بھی شخص اپنا ذاتی کاروبار نہیں کر سکے گا بلکہ حکومت ہر ایک کاروبار کی خود مالک ہوگی۔ اس نظام میں مذہب غیر قانونی قرار دے دیے جائیں گے، اور جو بھی مذہب کی بات کرے گا یا تو اُسے ختم کر دیا جائے گا یا قید کر دیا جائے گا۔ ایک نیا مذہب متعارف کروایا جائے گا، یعنی انسانی کی پرستش کا مذہب اور اس کے ذہن کی پرستش کا مذہب، اور تمام انسان اس مذہب کے پیروکار بنیں گے۔ امریکہ اس نظام کے نفاذ میں سب سے اہم کردار ادا کرے گا‘‘۔

    مردوں کی طرح خواتین بھی کاروبار کر رہی ہیں اور جگہ جگہ روزگار کی تلاش میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ حضرت ابن معسود ؓسے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’قیامت کے قریب سلام صرف مخصوص لوگوں کو کیا جائے گا، تجارت پھیل جائے گی جتی کہ عورت تجارت میں اپنے خاوند کا تعاون کرے گی‘‘(حدیثِ حسن: مسند احمد:407,408/1 ، حاکم: 493/4 ، بزار: 04/2)۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ اسلام نے بوقتِ ضرورت عورت کو ’’شرعی حدود‘‘ میں رہتے ہوئے، معاشی جدوجہد کی اجازت دی ہے لیکن اس کے لیے زیادہ بہتر گھر کی چار دیواری ہی ہے۔ تاہم جو عورتیں کسی مجبوری کی وجہ سے ملازمت یا کاروبار میں حصہ لیں تو ان پر لازم ہے کہ ایسی نوکری کریں جہاں مردوں کے ساتھ اختلاط اور بے پردگی نہ ہواور جہاں انہیں محض گاہکوں کو راغب کرنے کے لیے نمائش نہ بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر معاشرے میں بگاڑ جنم لے گا جس کے مظاہر وقتا فوقتا ہمارے سامنے نظر آتے رہتے ہیں۔

    نیو ورلڈ آرڈر نامی یہ کتاب 1989ء میں لکھی گئی تھی، اور جیسا جیسا اس کتاب میں لکھا گیا ہے آج بالکل ویسا ہی ہو رہا ہے۔ اگر آج آپ اپنے آس پاس دیکھیں اور کسی بھی سیکٹر میں چلے جائیں، وہاں خواتین کو مردوں سے زیادہ نوکریاں دی جا رہی ہیں، بے روزگاری اسی لیے بڑھ رہی ہیں کیونکہ مردوں کو نوکری دینے کے بجائے خواتین کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں 14-15سال کے بچوں کو اس بات کی تعلیم دی جا رہی ہے، بچوں کو اکسایا جا رہا ہے کہ اگر کوئی لڑکا لڑکی بننا چاہتا ہے تو وہ اس کا حق ہے۔ سکولوں میں اس بات کو بھی عام کیا جا رہا ہے کہ اگر کلاس میں ایسے رجحانات کا حامل کوئی طالب علم ہے تو اسے چھیڑا مت جائے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ جو کر رہا ہے، بالکل صحیح کر رہا ہے۔ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ 14-15سال کا بچہ جنسیات کے موضوع کی اتنی آگاہی نہیں رکھتا۔ بعض لڑکے لڑکیوں والی چیزوں کو اپنا لیتے ہیں تو کبھی لڑکیاں لڑکا بننے کے چکر میں لڑکوں جیسے کپڑے پہننے لگتی ہیں، ایسے موقع پر ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کو سمجھاتے ہیں، لیکن آج کل معاملات کچھ اس طرح کے ہوگئے ہیں کہ بچے ماں باپ کی بات کم اور سکول والوں کی بات کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں، اور عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ نسلی خلا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس نسلی خلا کی بنا پر بچے ماں باپ کی سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان معصوم بچوں کی سکول اور میڈیا جو پروگرامنگ کر رہا ہے، یہ اسی کو سچ مان بیٹھتے ہیں۔

    یہ فتنہ ان بچوں کوعام مرد اور عورت رہنے کے بجائے ہم جنس پرست بننے پر اُکسا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان بچوں میں بھی ویسا بننے اور اس ناپاکی کو آزمانے کی جستجو جنم لے گی۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہم جنس پرستی کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم ؑ کو مرد اور حضرت حواؑ کو عورت بنایا تھا اور یہی نظام فطرت ہے نہ کہ ہم جنس پرستی۔ یہ شیطانی دجالی تنظیمیں اسے فروغ دے کر اللہ تعالی کے قانون سے بغاوت کر دیں۔ جو شخص بھی ہم جنس پرستی جیسی ناپاک دلدل میں پھنسے گا، وہ ہر مذہب سے انکاری ہو جائےگا کیونکہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ہم اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ تنظیمیں دنیا کو پروپیگنڈا سے اس بات کے لیے مجبور کر دیں گی کہ لوگ اللہ تعالی کے قانون کی خلاف ورزی قبول کر لیں۔ جب لوگ اس طرف راغب ہوں گے اور کھلے عام یہ سب کرنے لگیں گے تو دنیا سے آہستہ آہستہ تمام مذاہب رخصت ہو جائیں گے۔

    ہنری کسنجر امریکہ کا ایک سفارت کار اور سیاستدان ہے اور اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں کا نمبر ون مقصد اس دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنا ہونا چاہیے۔ یہ ہم جنس پرستی کا سارا پروپیگنڈا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے اور مذہب کو اس دنیا سے ختم کر دینے کے لیے ہے۔ جو انسان لڑکا پیدا ہوا ہے، وہ چاہے آپریشن کروا کر اپنے جنس ہی کیوں نہ بدل ڈالے، وہ مکمل طور پر لڑکی نہیں بن سکتا اور نہ ہی ماں بن سکتا ہے، کیونکہ لڑکوں میںX-Y کروموسومز ہوتے ہیں اور لڑکیوں میں X-X کروموسومز۔ اگر دو لڑکا اور لڑکی، جن دونوں نے اپنے جنس تبدیل کروا رکھے ہیں ، ان دونوں کے اختلاط سے شاید ہی کوئی بچہ جنم لے سکے لیکن 90% چانس ناکامی کے ہی ہیں۔ اللہ تعالی نے جو چیز قدرتاً بنائی اور جو چیز انسانی آپریشن سے بنتی ہے، اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آنے والے مستقبل میں جن لڑکوں کو آپریشن کروا کر لڑکی بننے کا خبط چڑھے گا، انہیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اس آپریشن پر لاکھوں روپے لگتے ہیں اور اس کی کامیابی کی بھی 100%گارنٹی نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس بات کی گارنٹی ہے کہ ایک آپریشن کے بعد اور زیادہ آپریشنز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

    یہ سب پڑھنے کے بعد اگر چند احباب یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب تو امریکہ یا یورپ میں ہی ہو رہا ہے اور پاکستان میں یہ سب نہیں ہو سکتا، تو ان سب احباب کے لیے عرض ہے کہ 12 جنوری 2016ء کو ایکسپریس نیوز میں ایک خبر رپورٹ ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایک پاکستانی نوجوان رضوان کی محبت میں گرفتار بھارتی لڑکے گوروو نے جنس ہی تبدیل کر ڈالی اور گوروو سے میرا بن گیا۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی کے پروپیگنڈے کو خواجہ سراؤں کے ذریعے پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ 2جنوری2016ء کو دی نیشن نے ایک خبر LGBT Rights In Pakistan: An Open Letter To Imran Khan کے نام سے شائع کی تھی۔ یہ سلسلہ 10مئی 2012ء سے جاری ہے جب اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں اس بارے میں آگاہی کے لیے سکول کے بچوں میں آپس میں تقریری مقابلہ کروایا گیا، ایسے تقریری مقابلے اور پروگرامز پوری دنیا کے سکولوں میں کروائے جا رہے ہیں اور ان کا حلقہ مزید وسیع بھی کیا جائے گا۔ آج اگر صرف میڈیااور ان نام نہاد Awareness Programs کے ذریعے بچوں کے دماغ خراب کیے جا رہے ہیں تو آنے والے وقتوں میں کتابیں لکھی جائیں گی جو ان معصوم بچوں کو پڑھائی جائیں گی، ان کے نصاب میں شامل ہوں گی، جس کا آغاز کیلیفورنیا میں کر دیا گیا ہے۔ ایسا نصاب پڑھنے اور ایسے پروگرامز میں حصہ لینے کی وجہ سے بچوں کے دماغ ناپختہ حالت میں ہی خراب ہوجائیں گے جس کی وجہ سے یہ دجالی ایجنڈا کامیاب ہوگا۔

    اب آپ سب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اس دجالی فتنے سے کیسے بچا جائے، تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کو بےنقاب کیا جائے اور اس کے پیچھے کی اصل حقیقت سب کے سامنے لائی جائے۔ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ قوم لوط ہم جنس پرستی جیسے قبیح ترین گناہ میں ملوث تھی اور اس وجہ سے اللہ نے قوم لوط کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔

    اللہ تعالی اُمت محمدی ﷺ پر اپنے خاص رحمت نازل فرمائے اور ہمیں فتنہ دجال سے محفوظ فرمائے، آمین ثم آمین۔

  • گزرے زمانے سے الیکٹرانک ریلیشن شپ تک – عرباض احمد شاہ

    گزرے زمانے سے الیکٹرانک ریلیشن شپ تک – عرباض احمد شاہ

    عرباض احمد نہ جانے کس شاعر کا قول ہے؛
    یہ وفا تو اُن دنوں کی بات ہے فراز
    جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے

    میں اتنا پرانا تو نہیں پر مزے کی بات یہ ہے کہ میرا جنم بھی ایک کچے سے مکان میں ہوا تھا. اس دور میں جب ہمارے گاؤں میں لائٹ کا چمتکار ابھی نہیں ہوا تھا، البتہ آس پاس کے گاؤں میں لائٹ پہنچ چکی تھی. اس دور میں ہسپتالوں کا بھی اتنا کوئی خاص رواج نہیں تھا، اس لیے میں شرافت سےگھر پر ہی پیدا ہوگیا، بنا کسی ہسپتال خرچ کے. آج کل تو بچے ہسپتالوں کے بنا پیدا ہی نہیں ہوتے، جب تک ڈاکٹروں کو لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہ پکڑاؤ تو بچے نے پیدا ہونے سے ہی انکار کر دینا ہے. آج ہم اسی لیےتو بڑے بڑے کرپٹ حکمرانوں کو برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ ہمیں پیدا ہوتے ہی کرپشن کا پہلا ٹیکہ ڈاکٹر لگا دیتا ہے.

    تو بات ہو رہی تھی پرانے لوگوں کی اور کچے مکانوں کی، پرانے دور کی. شاعر نے بالکل درست فرمایا، ایسا ہی ہوا کرتا تھا پہلے مکان کچے اور لوگ من کے سچے ہوا کرتے تھے، لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے تھے، ایک دوسرے کا احساس کا ہوتا تھا، لوگ وفادار، ایماندار اور امانت دار ہوا کرتے تھے. لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے، کھیتی باڑی اور مزدوری کے علاوہ کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں تھا، مگر جو چیز پائی جاتی تھی وہ خلوص تھا. لوگ مہمان نواز ہوا کرتے تھے، وہ مہمان کو دیسی گھی, مکئی کی روٹی اور ساگ بھی پیش کر تے تو اس میں خلوص اور محبت کا بھرپور تڑکا شامل ہوتا، جو کھانے کو اور ذائقے کو چار چاند لگا دیتا.

    اُس دور میں محبتیں بھی سچی ہوا کرتی تھی، عاشق لوگ تو کئی کئی دن گلی کی نکڑ پر اسی آس میں گزار لیتے کہ آج وہ یہاں سے گزرے گی اور دیدار یار ہوگا. آج کل کی طرح نہیں، کمنٹ کے اندر لڑکی سے بات کی، ایک دو ٹویٹ کا ریپلائی ہوا، انباکس میں گئے، لڑکی نے مسکرا کر دو باتیں کیں، اور محبت ہوگئی. اس دور میں آج کی کی طرح بے حیائی اور بے شرمی نہیں پائی جاتی تھی کہ ہر آتی جاتی کے اوپر نمبر پھینک دیا، ہر آتی جاتی کو چھیڑ دیا. اس دور میں محبت کے رشتے پاک اور محبوب بھی ایک ہی ہوتا تھا. آج کل تو ہر لڑکے اور لڑکی کے ایک دو درجن افیئر ہوں گے، اس کے بعد جا کر کہیں شادی ہو بھی گئی تو اتنی کامیاب نہیں ہوتی. آج کے لڑکے تو پیدا ہوتے ہی پہلی آنکھ نرس کی انگلی پکڑ کر مار لیتے ہیں. پھر شادی تک افئیر کی سینچری مار کر حاجی ثناءاللہ بن جاتے ہیں.

    پہلے کے دور میں سیدھا منہ پر جا کر اظہار محبت نہیں کیا جاتا تھا، محبت کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے تھے، لوگ شرمیلے ہوا کرتے تھے. اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ ایک لڑکی کا سامنا کیا جائے. اپنے محبوب سے اظہار محبت کے لیے خطوط کا استعمال کیا جاتا تھا. اگر محبوب ان پڑھ ہے تو وہ کسی پڑھے لکھے دوست سے خط لکھواتا. خط بھی یوں ہی ایک دم سے نہیں لکھ دیا جاتا، بار بار لکھا اور مٹایا جاتا، بہترین اور تہذیب یافتہ الفاظ کا چناؤ کیا جاتا، ایک دو دن کی کڑی محنت کے بعد اس خط کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا جو کہ بظاہر آسان مگر کھٹن کام ہوتا. اسی طرح اگر محبوبہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو وہ اپنی کسی سہیلی کا استعمال کرتی. خطوط کی نقل و حرکت اور محبوب تک رسائی کے لیے چھوٹے بچوں کو بطور ڈاکیہ کے استعمال کیا جاتا اور بطور نذرانہ چند فانٹا ٹافیاں عنایت کی جاتی. چھوٹو ڈاکیہ بھی اپنا کام انتہائی چالاکی اور ایمانداری سے سرانجام دیتا اور اس تمام کارروائی کو وہ ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتا. پھر اس تمام کاروائی کے بعد محبوب اپنی محبوبہ کے جوابی خط کا انتظار کرتا. اس خط کا جواب کسی ایس ایم ایس کی طرح فوراً سے نہیں آجاتا تھا، اس کے جواب میں بھی ہفتہ دو ہفتہ لگتے تھے. یوں خط و کتابت کے ذریعہ دل کا حال بیان کیا جاتا اس میں شعر و شاعری کا عنصر بھی ہوتا اور ایک دوسرے سے ملنے کی جگہ اور وقت کا تعین بھی اسی خط کے ذریعہ ہوتا. الغرض اتنی محنت کے بعد حاصل ہونے والی محبت خالص اور سچی ہوا کرتی تھی. اگر محبوب دور دراز کہیں ذریعہ معاش کی خاطر چلا جاتا تو محبوبہ سے وہاں سے خط و کتابت ہوتی، ایک دوسرے کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا، سالوں سال محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں گزار لیتی. آج کل تو یہ مشہور ہے کہ گھوڑا اور لڑکی کو باندھ کر رکھو، نہیں تو کوئی اور لے جائے گا. میرا ایک دوست جوش میں آ کر تبلیغ پر چلا گیا، 10 دن بعد واپس آیا تو لڑکی کہیں اور ٹانکا فٹ کر چکی تھی. 10 دن بھی انتظار نہ ہوا اور پھر دوست نے بھی اگلے دن نئی جگہ دل لگا لیا. یوں پہلے کے زمانے میں لوگ سادہ لوح اور من کے سچے ہوا کرتے تھے اور ان کا عشق بھی سچا ہوا کرتا تھا. اسی لیے آج کل ہیر رانجھا، لیلی مجنوں، شیریں فرہاد جیسے لوگوں نے پیدا ہونا ہی بند کر دیا ہے..

    یوں وقت تیزی سے بدلتا گیا اور لوگ وقت سے بھی تیز نکلے. پی ٹی سی ایل کا دور آیا، انٹرنیٹ آیا، فاصلے کم ہوتے گئے اور ساتھ ساتھ انسانوں کی آپس کی محبت بھی کم ہوتی گئی. مزید وقت گزرا، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو مزید قریب کر لیا، اس طرح انسان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے، پر افسوس کہ بظاہر ہی قریب ہیں صرف، دور سے قریب نظر آتے ہیں.

    پہلے کے دور میں جھوٹ بولنے کے ذرائع بھی نہیں تھے اس لیے لوگ سچے ہوا کرتے تھے. آپ کسی سے ملنے جاتے، وہ گھر پر ہی ملتا اور آج کل کسی سے ملنے جاؤ اور کال کرو آپ کی طرف آ رہا ہوں، آگے سے جواب ملے گا بھائی میں تو گھر پر نہیں جبکہ ہوگا گھر پر ہی. یوں موبائل فون نے جھوٹ بولنا مزید آسان کر دیا. میرے ایک دوست نے فیس بک پر چیک ان کیا اور لکھا eating pizza at pizza hut ، اگلے ہی لمحے دیکھا وہ ڈھابہ ہوٹل پر میرے سامنے بیٹھا چنے کی دال سوت رہا تھا.

    پہلے لڑکیوں میں کسی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، گھر سے اکیلے باہر نکلنے کو عیب سمجھا جاتا تھا ، سکول کالج بھی جاتی تو آتے جاتے کسی سے بات کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی، غرض شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی تھی لڑکیاں، آج کل کی لڑکیاں تو میرے جیسے کو بیچ کر کھا جائیں اور کانوں کان خبر تک نہ ہو. حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ آج ہر لڑکی کی دوسری لڑکی سے ریس لگی ہوتی ہے کہ کس کے دوست زیادہ ہیں. پہلے کسی سے بات کرنے کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور آج کل ایک میسج کرو، ان باکس میں چلے جاؤ، اگلے ہی لمحے ویڈیو کال، اور پھر محبت کا اظہار کر لو . مسئلہ ہی کوئی نہیں…

    پہلے ایک ہی محبوب ہوتا تھا. آج کل فیس بک فرینڈ الگ، یونی فرینڈ الگ، فیملی فرینڈ الگ اور پانچھ چھ عدد بوائے/گرل فرینڈز الگ..

    پہلے بریک اپ ہوتے تو لوگ سالوں تک غم مناتے تھے. آج کل پہلے دن دوستی ہوئی، دوسرے دن محبت، تیسرے دن لڑائی، چھوتے دن بلاک اور پانچویں دن تھوڑے سے آنسو چھٹے دن کوئی دوسرا سہارا دیتا ہے، ساتویں دن چھٹی ہوتی ہے اور سوموار کے دن نئے جذبے کے ساتھ نئی محبت شروع ہو جاتی ہے…

    پہلے کی محبت بھی دیسی گھی کی طرح خالص اور اس میں خالص شہید کی جیسے مٹھاس ہوتی تھے. آج کل کی محبت میں آج کل کے گھی اور شہد کی طرح ملاوٹ پائی جاتی یے.
    میرے چچا جی کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یار تم ڈالڈے کے فارمی جوان تو کسی کام کے نہیں، مجھے تو ڈالڈا بھی برابر کا قصور وار لگتا ہے.

    پہلے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوا کرتا تھا، اور آج کل لوگ گھر والوں سے بات نہیں کریں گے، پاس بیٹھے دوستوں سے بات نہیں کریں گے مگر میلوں دور بیٹھے کچے دھاگے اور ایک بلاک کی دوری پر بنے ہوئے ریلیشن نبھائیں گے.. ایک بار کزن نے ہم پانچ دوستوں کی تصویر لی اور فیس بک پر ڈال دی. ہم پانچ کے پانچ کافی دیر سے حضرت مولانا موبائل صاحب کے احترام میں گردن جھکائے مگن تھے. مجال ہے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی زحمت کی ہو.

    تو بات ہو رہی تھی وفا کی… وفا نام کو تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اتنا بدنام کر دیا کہ پوچھو مت. جہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کیا وہیں دور بھی کیا. آج کل معاشرے میں لڑکیوں کا گھر سے بھاگ جانا اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو جانا اسی سوشل میڈیا کا دیا ہوا تحفہ ہے، وفا نام کی چیز کو تو لوگوں نے ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا.

  • جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    نجم الحسن ”مہر“ یہ لفظ اسلامی دنیا اور پاکستان میں بالخصوص ایک بہت عام نام ہے، مثلا ”مہر بانو“ جو کہ جگن کاظم کے نام سے جانی جاتی ہیں، شاید بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا۔ بہر کیف میں یہاں مہر لڑکی کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں اس مہر کی بات کر رہا ہوں جسے مہرفاطمی، حق مہر بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس رقم کی بات کر رہا ہوں جو مسلمانوں میں دولہا نکاح ہونے پر اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ یہ رقم یا تو نکاح کے فورا بعد دی جاتی ہے یعنی ”مہر معجل یا مہر غیر مؤجل“ یا جب لڑکی چاہے تب لے سکتی ہے جو کہ ”مہر غیر معجل یا مؤجل“ کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے حق مہر ادا کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، مرد اپنی زندگی میں کسی بھی وقت جب چاہے اسے ادا کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قابل نہ ہو پائے کہ ادا کرسکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں سے حق مہر ادا کیا جائے گا اور یہ قرض ہوگا۔ اگرچہ میری نظر میں چونکہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ حق مہر ادا کر سکے تو اس کو شادی کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے، شریعت میں ایسی کوئی قدعن نہیں۔ مگر ہاں جو امر ضروری ہے وہ یہ ہےکہ مہر طے ہوتی نکاح سے پہلے ہے اور یہ طے ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آسانی سے میں نے لکھ دیا۔

    تو تو میں میں ہوتی ہے۔ دلیلیں دی جاتی ہیں۔شریعت کی بات ہوتی ہے۔حیثیت کی بات ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں تو مہر اتنا کیوں، اور اسی دوران دو نوں خاندانوں میں نفرتیں، ناپسندیدگیاں اور ناچاقیاں اپنی جڑیں جمانا شروع کردیتی ہیں۔ دوریاں بڑھ جاتی ہیں اگر چہ قربتوں نے ابھی پنپنا شروع بھی نہیں کیا ہوتا۔ مطلب شادی تو ہوجاتی ہے لیکن مہر کے جھگڑے کی کھٹاس لے کر۔ اور یہ کھٹاس لڑکی کے لئے طعنوں کی وجہ بن جاتی ہے کہ اس کے گھر والوں نے مہر کے لیے کتنا ہنگامہ کیا تھا۔ مہر طے ہوتے وقت لڑکی والوں کو بدگمان بتایا جاتا ہے۔انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ یہ تو بدظن ہیں جو مہر کی رقم کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ارے جس نے بیٹی دے دی تو پھر مہر کا کیا۔
    مگرحیرانی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکے والوں کو کسی بات میں شریعت یاد نہیں آتی۔ بس یاد آتی ہے تو مہر کی رقم لکھواتے وقت۔ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی مولوی یا پاک و پاکیزہ نہیں۔اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کی جڑیں ہل گئی ہوتیں۔ ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں جیسے اسلام صرف ان کو کندھوں پر ہی ٹکا ہے۔ اور ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ چند روپیوں کا مہر ہی لڑکی والوں کو لکھواناپڑتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو مہر کی رقم لڑکی کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ مکمل زندگی گزارنے کے لئے بس ایک سہارا ہوتی ہے، ایک آس ہوتی ایک ڈھارس ہوتی ہے۔جو لڑکے والے کم سے کم لکھوانا چاہتے ہیں۔

    جب لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے۔تو لڑکے کی پسند اور نا پسند کا پٹارا بھی کھل جاتا ہے۔ یہ پسند والی فہرست اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ بیٹی کا ہونا لوگ بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ پسند بتانے والے لڑکے وہ ہوتے ہیں جو کبھی گھر میں پسند کی سبزی بھی پكوا کر نہیں کھا پاتے۔ اور گھر سے باہر یہ ہی بتاتے ہیں کہ آج قورما کھایا، اور آج بریانی کھائی۔ اور ہاں، بیٹے نے اگر کچھ اپنی مرضی کی ڈیمانڈ گھر میں کر دی تو ماں باپ کے ڈائیلاگ ایسے ہوتے ہیں، نالائق کرتا کچھ نہیں، اور مطالبہ ایسے کرتا ہے جیسے سب کچھ کما کے گھر میں اس نے ہی رکھا ہے۔

    اتنا ہی نہیں اگر بیٹا جواب دے دے تو کہتے ہیں، کر نہ کرتوت لڑنے کو مضبوط۔ ‘ مگر یہی ماں باپ جب بیٹے کے لئے دلہن لینے جاتے ہیں تو ان کا منہ لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اسی نالائق بیٹے کے لئے ایسے پھٹتا ہے کہ پوچھو مت۔ اگر ان ماں باپ کا بس چلے تو لڑکی کا پورا گھر ہی سر پر اٹھا لائیں۔ اس وقت انہیں شریعت یاد نہیں آتی۔

    بارات کی بات ہوتی ہے توبول دیا جاتا ہے ہمارے اتنے سو باراتي آئیں گے۔ اگر لڑکی والے کہیں کہ تھوڑے کم باراتی لے آنا تو وہی شان بگھارتے ہوئے کہیں گے۔ اجی ماشا اللہ سے کنبہ ہی اتنا بڑا ہے، اور پھر ہمارا لوگوں سے اتنا ملنا جلنا ہے۔لڑکے کے دوست ہیں، احباب ہیں، جان پہچان کے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اب آپ ہی بتایئں کم باراتی کیسے لائیں، کسے انکار کریں۔انکار کریں گے تو ہمارے رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ اس وقت لڑکے والوں کو لڑکی والوں کی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس وقت اپنی حیثیت ضرور یاد آ جاتی ہے جب مہر کی باری آتی ہے۔ پھر ممياتے ہیں، جی ہماری تو اتنی حیثیت ہی نہیں۔

    کوئی ناراض نہ ہو جائے اس وجہ سے بارات میں کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔لیکن نیا نیا رشتہ ہونے کے باوجود لڑکی والوں کی ناراضگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ طویل چوڑی بارات لے کر جائیں گے۔ چاہے لڑکی والوں کی حیثیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر پھر لڑکی والوں کی طرف سے خاطر داری میں نمک بھی کم رہ جائے تو لڑکے کا پھوپھا مختلف ننگا ناچ کرے گا۔ پھپھو (پھوپھی) کی زبان الگ لمبی راگ الاپے گی، خالو (مسے) الگ بڑبڑائےگا۔ تب لڑکے والوں کو نہیں لگے گا کہ وہ کتنی بے غیرتی دکھا رہے ہیں۔ کھانے کو برا بتاتے وقت نہ شریعت یاد آئے گی اور نہ سنت۔ ہاں اگر لڑکی والے مہر کی بات کریں گے تو ضرور لگے گا۔ دیکھو تو صحیح پوری لڑکی دے دی اور مہر کے چند پیسوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مطلب اگر وہ مہر کی بات بھی کریں تو ان کا وہ بات کرنا جھگڑنا نظر آتا ہے۔ جہیز مانگنا، ہر بات میں اپنی چلانا، آپ نئے نئے رسم و رواج بتا کر لڑکی والوں سے وصولی کرنا، لڑکے والوں کو داداگيري یا رنگداری مانگنے جیسا نظر نہیں آتا۔

    شریعت کے مطابق مہر ”مہرفاطمی“ ہوتا ہے جس کے تحت موجودہ دور میں تقریبا 150 تولا چاندی یا اس کی رقم بنتی ہے۔ مہرفاطمی مطلب جب نبی محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو مہر کی رقم اس دور کے حساب سے طے کی گئی۔یہ رقم موجودہ دور میں انتہائی کم ہے، اس لیے ہی لڑکے والوں کو مہر کے وقت شریعت یاد آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمی باندھ لو۔لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جہیز کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ جہیز مانگنا تو لڑکے والوں کا پیدائشی حق جیسا لگتا ہے۔ جہیز لیتے وقت ان کی شریعت جہیز میں کسی صندوق میں بند ہو جاتی ہے۔ اور صندوق کی چابی پتہ نہیں کہاں کھو جاتی ہے۔حقیقت میں ہم شریعت کو ایک لبادہ سمجھ بیٹھے ہیں، جب ٹھنڈک محسوس ہوئی اوڑھ لیا اور جب گرمی لگے تو اتار پھینکا۔

  • امریکی الیکشن، پاکستانی عوام اور میڈیا – ثقلین مشتاق

    امریکی الیکشن، پاکستانی عوام اور میڈیا – ثقلین مشتاق

    ثقلین مشتاق ابتدئے کائنات سے ہی طاقتور کمزور کو زیرکرنے کیلئے جائز اور ناجائز حربہ استعمال کرتا آیا ہے ۔وہ کمزور کے نظریات ، افکار اور خیالات کو اپنے نظریات ، افکار اور خیالات کے تابع کرنا چاہتا ہے ۔ زندہ قومیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوں وہ اپنے سے کئی گناہ طاقتورحریف کے تابع اپنے نظریات کرنا تو دور کی بات وہ اپنے ملک پر اُن کا سایہ پڑنے پر بھی اپنے تن من دھن کی بازی لگا دیتی ہیں ۔ جب 1954 میں ویت نام پر اقتدار کی ہوس میں امریکہ جیسی عالمی طاقت نے حملہ کیا تو اس چھوٹا سے ملک نے امریکا کا جو حال کیا اس کو دنیا نے دیکھا ۔ اس کے بعد جب 2001 میں نیٹو اتحادیوں نے امن کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کیا تو غیور افغانیوں نے 34 ممالک کی فوج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور آج تک اپنی آزادی کیلئے لڑرہے ہیں ۔
    لیکن اس قرہ ارض پر ہم پاکستانی عوام وہ واحد قوم ہیں جو بظاہر آزاد ہونے کے باوجود بھی غلامی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ شاید ہم کو آزادی کی بجائے غلامی کی زندگی نعمت لگتی ہے ، اور ہم اپنے نظریات ،افکار اور خیالات کو کسی دنیاوْی آقا کے تابع کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔
    حال ہی میں امریکا میں صدارتی انتخابات ہوئے ۔ انتخابات سے دو ماہ قبل ہی ہمارے ملک کے تمام نے ملکی مسائل کو ایک طرف رکھا کر نیوز چینلز پر امریکن الیکشن کے حوالے بھرپور اشتہارات کی تشہیر کرکے نفسیاتی غلامی کا بھرپور ثابت دیا ۔ یوں یوں الیکشن کے دن قریب آتے گئے ایک اشتہار ہرپاکستانی نیوز چینل کی جانب سے ٹی وی سکرین کی زینت بنا کہ
    1- رپورٹرز کی سب سے بڑی ٹیم کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
    2 – سب سے ماہر تجزیہ نگاروں کے تجزیہ کے ساتھ امریکن الیکشن کی کوریج اس نیوز نیٹ ورک پر ۔
    3- سب سے پہلے ہر خبر ، سب سے پہلے الیکشن رزلٹ دیکھنے کیلئے دیکھتے رہے یہ نیوز نیٹ ورک ۔
    افسوس کی بات تو یہ کہ حکمرانوں کو کبھی بھکاری ، کبھی غدار اور کبھی ظالم کا طعنہ دینے والے ان صحافی بھائیوں نے تو امریکن الیکشن کے دنوں میں ایل او سی پر فائرنگ ، پانامہ لیکس ، سیکورٹی لیکس اور ملک میں ہونے والے سینکڑوں واقعات پر بات کرنا بھی گوار نہیں کیا ۔ سب ان پر امریکا کے الیکشن کا بھوت سوار تھا ۔
    کیا خود کو وطن پرست ، غریب کے ہمدرد ، مظلوم کا ساتھی کہنے والے صحافی حضرات کی یہ بےحسی نہیں تھی؟
    اور نیوز چینل پر براجمان تجزیہ نگار ، اینکر اور خارجی امور پر عبور رکھنے والے صاحبان کی گفتگو سے ایسا لگا رہا تھا کہ ہیلری کلنٹن ایک نیک سیرت ، باپردہ ، مسلمانوں کی مسیحا اور رحم دل خاتون ہے جس کے قدموں کو فتح اس معرکہ میں ضرور چومے گئی اور مسڑ دونلڈ ٹرمپ ایک ظالم اور بے حیا انسان ہے ۔ امریکا کی عوام کی بہتری کیلئے ہیلری کا کامیاب ہونا ضروری ہے ۔
    پاکستانی عوام اور صحافی یہ تاثر د ےرہے تھےکہ اگر ٹرمپ کامیاب ہوگا تو
    1- مسلمانوں کا امریکا میں زندگی گزارنا ناممکن ہوجائیگا ۔
    2- دنیا کی جمہوریت کو خطرہ ہے کیونکہ ٹرمپ جمہوریت میں ملبوس ڈکیٹٹر ہے ۔
    3- امریکا سمیت دنیا میں نسل پرستی اور صوبائیت کو ہوا ملے گئی ۔
    4- فلسطین اور کشمیر کی آزادی ناممکن ہے ۔
    5- ٹرمپ بھارت کا اتحادی ہوگا اور اس کی مداخلت سے خطے کا امن تباہ ہوجائیگا اور سی پیک کو بھی خدشہ ہے ۔
    پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر پاکستانی عوام اپنے ملکی حکمران کے چناوْ اس قدر سنجیدہ ہوتی اور ان کو اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کیلئے اس قدر فکر مند ہوتی جتنی ہزاروں میل دور ترقی یافتہ امریکی قوم کے بارے میں ہے تو آجپاکستان کے حالات کچھ اور ہوتے ۔ پاکستانی عوام غربت کی چکی میں پس نہ رہی ہوتی ۔ خود تو الیکشن کے دنوں میں کبھی نعروں سے متاثر ہوکر حکمران کا انتخاب کیا اور کبھی سیاستدانوں کے وقتی وعدوں کے جھانسے میں آگئے ، اس لیے کبھی وہ حکمران چنے جنہوں ملک کو دو لخت کیا کبھی وہ جنہوں عوام کو لوٹ کر سوئس بینکوں میں اکاوئٹ کھول لیے اور آف شور کمپنیاں بنالیں اور ہم کو امریکا کے الیکشن پر بحث کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔
    اور ٹرمپ کو ظالم حکمران کہنے والوں نے ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اپنا موقف تبدیل کرلیا اوراب اس عدل اور رحم دل کے خطاب نوازا ۔ اس کی وجہ ہونے سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اب ٹرمپ نے آئی لو یو پاکستان بولا اور اپنی ویب سائٹ سے مسلمانوں کے خلاف مواد بھی ہٹ دیا ۔ لیکن اصل وجہ یہ تھی آقا کا انتخاب ہوگا ہے اور ہم اُس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے ہیں ۔
    اور دوسری بات یہ کہ ہیلری نے بھی اُسی گندے کنویں کا پانی پیا ہے جس کا ٹرمپ نے پیا ہے ۔ دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک کہتا ہے تمھارا منہ پر طمانچہ رسید کروں گا اور دوسری بولتی تیرا منہ لال کردوں گی ۔
    دونوں میں کوئی بھی مسلمانوں کا حامی نہیں ہوسکتا ۔ اور رہی کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی بات تو تب تک ان ریاست میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی بربریت کا نشان بنتے رہیں گے جب تک ہم خود ان کیلئے اُٹھ کھڑے نہیں ہوتے ۔ امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر اور فلسطین آزاد ہوں ۔ ہم کو اب اپنے دنیاوی آقا کو خیرباد کہنا ہوگا اور مسلمانوں اور وطن پاکستان کی بہتری کیلئے امریکا سے امیدیں وابستہ کیے بغیر اپنے حق کیلئے لڑانا ہوگا ورنہ عنقریب ہمارا نام ونشان بھی نہیں ہوگا دنیا کی قوموں میں ۔

  • نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    نرینہ اولاد کی خواہش اور مظلوم عورت – بشارت حمید

    بشارت حمید اس کرہ ارضی پر نسل انسانی کی ابتدا سے لے کر آج تک ارب ہا ارب انسان گزر چکے ہیں اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کوئی اللہ تعالٰی کے وجود کو ماننے والا ہو یا اس کا انکار کرنے والا، آخرت کی جواب دہی اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو مانے یا نہ مانے لیکن اس بات کو ضرور مانتا ہے کہ ہماری یہ زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے اور ایک دن یہ دنیا چھوڑ جانی پڑے گی۔

    جب ہر انسان اس بات کو جانتا اور مانتا ہے کہ وہ یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میرے بعد میری ہستی کا تسلسل جاری رہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر جاندار جسم کے اندر ری پروڈکشن کا پورا پراسیس ابتداء ہی سے رکھ دیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی نسل کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس ری پروڈکشن کے عمل سے ہر نوع میں نر اور مادہ کی پیدائش ہوتی ہے۔ لیکن نر یا مادہ کا انتخاب کسی بھی نوع کے اختیار میں نہیں ہے۔

    بیٹے کے حصول کی خواہش ہر انسان کے دل میں ہے لیکن انسان بائی چوائس بیٹا حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ اس روئے زمین پر اللہ تعالٰی کا نظام ہے کہ مرد اور عورت کی تعداد کے لحاظ سے ایک تناسب قائم رہے۔ کسی کو صرف بیٹے ہی دیتا ہے تو کسی کو صرف بیٹیاں۔ اور کسی کو دونوں نعمتوں سے نوازتا ہے اور کسی کو کچھ بھی نہیں دیتا۔

    زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹا پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے اور بیٹی کی پیدائش پر سوگ۔ کئی تو ایسے بدبخت تھے کہ گڑھا کھود کر اس میں بیٹی کو دبا کر اوپر سے مٹی ڈال کر زندہ ہی دفن کر دیتے تھے کہ گھر میں بیٹی پیدا ہونا انکے نزدیک بے عزتی اور بے غیرتی کا مقام تھا۔

    سرزمین حجاز میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے بعد قرآن مجید کا نزول شروع ہوا اور اسلام نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اسلام قبول کرنے والوں پر یہ واضح کیا گیا کہ اولاد اللہ تعالٰی کی عنایت ہے، وہ جسے چاہے اور جو چاہے عطا کر دے۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے والوں پر اللہ کا غصہ اتنا شدید ہے کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اس قتل ہونے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہ تم بتاؤ تمہارا کیا جرم تھا جس کی پاداش میں تمہیں جان سے مار دیا گیا؟ یعنی اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ تمہاری پیدائش تو میرے حکم سے ہوئی پھر کس نے تمہیں قصور وار ٹھہرایا؟

    موجودہ سو کالڈ مہذب دور میں بھی انسانی رویے دور جاہلیت سے زیادہ مختلف نظر نہیں آتے۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند میں ہندوانہ پس منظر کے حامل مسلمان اب بھی بیٹی کی پیدائش کو عورت کا جرم عظیم سمجھتے ہیں اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے حالانکہ میڈیکل سائنس بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کے چوائس میں عورت کا سرے سے کوئی کردار ہے ہی نہیں ہے۔ کئی بدبخت تو بیچاری عورت کو جان سے مارنے کا اقدام بھی کر گزرتے ہیں کہ اس کے ہاں بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔

    بیٹی کی پیدائش پر طعنے دینے والی بھی اکثر ساس یا نند کے روپ میں عورت ہی ہوتی ہے جو اتنا نہیں سوچتی کہ وہ خود بھی تو اپنے والدین کی ایک بیٹی ہی ہے۔ یہ سب کچھ دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت رکھنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نام کے مسلمان تو ہیں مگر اعمال اور عقائد ہندوؤں والے ہی ہیں۔

    قرآن مجید زندگی کے ہر شعبے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ سورہ الشوریٰ میں ارشاد فرمایا گیا
    ”زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے۔ یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے“
    یعنی اولاد دینا یا نہ دینا اللہ تعالٰی کی عنایت سے ہے۔ اور اس کی عطا سراسر حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کو کیا دینا ہے اور کیا نہیں۔

    ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو اللہ تعالٰی بیٹا عطا کرتا ہے لیکن وہی بیٹا جس کی پیدائش پر والدین نے خوشیاں منائیں اور بچپن میں لاڈ اٹھائے، بڑا ہو کر اپنے والدین کے لئے سوہان روح بن گیا یہاں تک کہ بڑھاپے میں والدین کو گھر سے نکال باہر کیا یا زیادہ رحم دلی دکھائی تو اولڈ ہاؤس چھوڑ آیا اور پھر ہم کئی والدین کو یہ کہتے ہوئے بھی سنتے ہیں کہ اس سے بہتر تھا کہ ہمارے ہاں اولاد پیدا ہی نہ ہوتی۔ اور اسی طرح یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ جس بیٹی کی پیدائش پر والدین مغموم ہوئے اسی نے انکی خدمت کا حق ادا کر دیا اور بڑھاپے کا سہارا بنی۔

    اسی طرح سورہ کہف میں حضرت موسٰی اور خضر علیہما السلام کے واقعے میں اللہ تعالٰی کے تکوینی امور کو ہماری راہنمائی کے لئے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ جب دونوں سفر پر چلے تو راستے میں ایک جگہ ایک لڑکا ملا۔ حضرت خضر نے اسے قتل کر دیا تو حضرت موسٰی نے حضرت خضر سے کہا کہ یہ آپ نے کیا حرکت کر دی، ایک جان کو ناحق قتل کر دیا۔ حضرت خضر نے جواب دیا کہ اس لڑکے کے والدین بہت نیک ہیں اور یہ لڑکا بڑا ہو کر ان کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب کرنے والا تھا اس لیے آپ کے رب نے چاہا کہ اس کے بدلے ان کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے اور مستقبل میں پیش آنے والی پریشانی سے بچائے لہذا اس لڑکے کو اللہ کی مشیت کے تحت والدین سے چھین لیا گیا۔
    اب بظاہر تو والدین کے لیے بچے کی جدائی ایک بہت بڑا صدمہ ہے لیکن اس میں بھی ان کے لیے خیر ہی تھی جس کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے مگر اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ اللہ تعالٰی کے ہر کام میں حکمت ہے وہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ اگر کسی کو بیٹا یا بیٹی عطا کرتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت کارفرما ہے اگر کسی کو بے اولاد رکھتا ہے تو یہ بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے اس کی عطا پر راضی رہنا چاہیے اور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں جو کچھ بھی دے اس میں ہمارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہی ہو نہ کہ ہمارے لیے وبال جان بن جائے۔