Category: کالم

  • جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    orya

    یوں لگتا ہے یہ ہمارا قومی رویہ ہے کہ اگر کوئی ہماری خامیاں بیان کرے‘ ہماری خرابیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوال کرے تو ہم اس کا جواب دینے کے بجائے مخالف کی خامیاں‘ خرابیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں میں تو یہ رویہ آپ کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو میں بدرجہ اتم نظر آئے گا۔

    اس رویے پر ہمارے دانشور‘ تجزیہ نگار اور کالم نگار اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ان کے نظریات و خیالات کی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی‘ انھوں نے بھی اس کا جواب دینے کے بجائے تنقید کرنے والے کے نظریات و خیالات کے لتے لینے شروع کر دیے۔ اس رویے میں کمال ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جو جمہوری نظام کے مدح خواں ہیں اور اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

    اگر جمہوریت سے جنم لینے والی ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے بارے میں گفتگو کی جائے تو وہ اس بہت بڑی اور بنیادی خرابی کا جواب نہیں دیں گے بلکہ فوراً اپنے آپ کو امت مسلمہ سے خارج کر کے پوری اسلامی تاریخ میں پائے جانے والی خرابیوں کا ذکر اس انداز سے کریں گے جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تم جمہوریت نہیں مانتے ہو تو بتاؤ مسلمانوں نے خود کونسے کارنامے تاریخ میں چھوڑے ہیں اور کونسی قابل تقلید طرز حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں جمہوری نظام میں دفاع کے قابل صرف ایک ہی خوبی نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے ایک بدترین حاکم کو پانچ سال بعد حکومت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ آمریت میں تو آدمی قابض ہو جائے تو پھر یا مرنے سے جاتا ہے یا پھر جنگ و جدل سے۔

    کاش وہ تاریخ کے یہ ورق بھی الٹتے کہ خلافت کے اعلیٰ و ارفع نظام کے تیس سال سید الانبیاءﷺ کے تخلیق کردہ معاشرے کی مرہون منت تھے‘ جو تعصبات سے بالاتر تھا‘ ذمے داری کے خوف سے عہدہ لینے سے دور بھاگتا تھا۔ اپنے جانشین اولاد نہیں‘ اہل لوگوں کو چنتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ رائے یا ووٹ کے لیے جاننے اور نہ جاننے والے کے درمیان تمیز رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا جمہوری معاشرہ نہیں تھا جس میں عظیم دانشوران اور مداحین جمہوریت کی رائے یا ووٹ ڈیڑھ سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں ایک تہجد گزار‘عابد و زاہد اور ہیروئن کا دھندہ کرنے والے سے حکومت چلانے کے لیے برابر رائے لی جاتی ہے اور ان کا وزن بھی برابر ہوتا ہے۔

    ہم اپنا کاروبار چلانے‘ اپنی اولادوں کا رشتہ کرنے‘ بازار سے کوئی چیز خریدنے کے لیے بھی ان سے رائے لیتے ہیں جنھیں اس کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ذاتی معاملات میں ہم جمہوری مزاج اور جمہوری رویے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی مالک نے اپنی فیکٹری کے مزدوروں سے ووٹ لے کر یہ فیصلہ کیا ہو کہ نیا یونٹ لگاؤں یا نہ لگاؤں‘ تمام جاننے والوں سے ووٹ لے کر بیٹی کا رشتہ کیا ہو‘ یا پھر محلے بھر کے افراد سے اکثریتی رائے کی بنیاد پر مکان میں ایک کمرے کا اضافہ کیا ہو۔ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیاں ہر معاملے کے بارے میں اہل الرائے یعنی رائے دینے کی اہلیت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں۔

    امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی شخص اپنے ذاتی معاملے میں اس شخص سے رائے نہیں لے گا جو اس معاملے میں جاہل اور لاعلم ہو۔ لیکن جمہوریت کا یہ نظام انسانی رویوں کے بالکل برعکس تخلیق کیا گیا۔ لیکن میرے اللہ نے تو انسانوں کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔’’اے نبی‘ کہہ دو‘ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ‘ اور سوچتے وہی ہیں جن کے پاس عقل ہے (الزمر۔9)۔ ایک اور جگہ تو اللہ نے واضح اعلان کر دیا۔ ’’اے نبی ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا فریفتہ کرنے والی ہو۔

    بس اے لوگو‘ جو عقل رکھتے ہو‘ اللہ کی نافرمانی سے بچو‘ امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی (المائدہ 100)۔ اللہ نے بار بار قرآن پاک میں انسانوں کی اکثریت کو نہ جانے والے‘ نہ شعور رکھنے والے اور نہ عقل رکھنے والے کہا ہے بلکہ رسول اکرمﷺ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے جو زمین پر بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (الانعام:116)۔ یہی اکثریت کا ظلم و ناانصافی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں اقلیت سہہ رہی ہے اور اب امریکا کے عوام اس کا مزہ چکھیں گے۔

    جمہوریت کیسے آہستہ آہستہ اکثریت کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تم اس ملک پر اپنی آمریت قائم کر سکتے ہو‘ امریکا میں ڈالے گئے گزشتہ سولہ سال کے ووٹوں کا PEW نے تجزیہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا سب سے معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔

    اس کے نزدیک سفید فام مذہبی تعصب نے ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب 2000 کے الیکشن سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اب یہ امریکی سیاست پر مکمل طور پر چھا گیاہے۔ جارج بش نے دوسری دفعہ جب 2004 میں الیکشن لڑا تو اسے سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 78فیصد ووٹ دیے اور کیری کو 21فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے بش کو59فیصد اور کیری کو 40 فیصد سفید فام کیتھولک عیسائیوں نے بش کو56فیصد اور کیری کو 43فیصد جب کہ یہی کیتھولک اگر لاطینی امریکی یعنی ہسپانوی تھے تو انھوں نے بش کو 33فیصد اور کیری کو 65فیصد ووٹ دیے۔

    لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے تھے ان میں سے 67فیصد نے کیری کو 31فیصد نے بش کو ووٹ دیا۔ چونکہ بش ایک شدت پسند اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علمبردار تھا‘ اس لیے سفید فام عیسائی اکثریت نے اسے منتخب کروایا۔ یہ تعصب آہستہ آہستہ نکھرتا گیا اور ٹرمپ کو سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 81فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے 58فیصد‘ سفید فام کیتھولک نے 60فیصد‘ اور عیسائیوںکے ایک صوفیانہ گروہ مورمون Mormon نے 61فیصد ووٹ ڈالے جب کہ ہلیری کلنٹن کو لا مذہب لوگوں نے 68فیصد اور ہسپانوی عیسائیوں نے 67فیصد ووٹ ڈالے۔ ٹرمپ امریکی جمہوریت میں سفید فام عیسائی اکثریت کے تعصب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کی علامت ہے جہاں کئی سو سال بعد گوروں نے ایک بار پھر امریکا کو فتح کیا ہے اور یہ صرف ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔

    جمہوریت کی جب بات ہوتی ہے تو اس کی اعلیٰ صفات اور اقدار کی بات ہوتی ہے‘ کوئی دنیا میں نافذ بدترین جمہوری حکومتوں کا ذکر نہیں کرتا‘ اچھی مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ بہتر نظام ہے‘ آمریت کو گالی دینا ہو تو کسی کو سنگاپورکا لی کوآن ہوا یاد نہیں آتا‘ کوئی مہاتیر محمد کا نام نہیں لیتا جو اقتدار چھوڑ رہا تھا تو قوم رو رہی تھی۔ کوئی معیشت دانوں کے بتائے اس اصول کو بیان نہیں کرتا کہ قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خیرخواہ (Benevolent) آمر کے زمانے میں ممکن ہوتی ہے۔

    کوئی چین کی ترقی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اسلام میں رائے کے لیے ایک معیار مقرر ہے۔ اگر ووٹ دینے کے لیے 18سال کی عمر کی شرط رکھی جا سکتی ہے تو پھر مزیدشرائط کے طور پر پڑھا لکھا ہونا‘ ایماندار ہونا‘ جرم سے پاک ہونا جیسی شرائط رکھ کر ووٹنگ کارڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کوئی مشکل کی بات نہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر نیت نظام کے نفاذ کی ہو۔ آمریت میں تو آمر کے خلاف جلوس نکال کر تحریک چلا کر اسے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ آمر ایک گالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت میں اکثریت کی آمریت نافذ ہو گئی اور پھر وہ تاریک رات کی طرح سالوں پر محیط ہو گئی تو ایسے ظالموں کو تخت سے کون اتارے گا۔

    اقلیت کو اکثریت کے عذاب سے نجات کون دلائے گا‘ کیا ملک سے وہ ہجرت کر جائیں جیسے ٹرمپ کے جیتنے کے بعد امریکا کے عوام نے کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں شہریت کی اتنی درخواستیں جمع کروائیں ہیں کہ ان کے سسٹم بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے ان ملکوں میں جانے سے اگر وہاں بھی اکثریت کا تعصب جاگ گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میرے عظیم دانشور کندھے اچکا کر کہیں گے جمہوریت میں اتنا تو برداشت کرنا ہو گا۔لیکن جو اپنا جمہوری وطن چھوڑ کر بھاگے اور دوسرے جمہوری ملک میں بھی اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہو گئے تو ان کے لیے بقول ذوق

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

  • اگر وہ چلا گیا-جاوید چوہدری

    اگر وہ چلا گیا-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی‘ اچانک بجلی چمکی‘ بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی‘ بس آگے بڑھتی رہی‘ آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی‘ بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی‘ بس آگے بڑھتی رہی‘ بجلی ایک بار پھر آ ئی‘ وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی‘ ڈرائیور سمجھ دار تھا‘ اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا ’’بھائیو‘ بس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔
    یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے‘ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے‘‘ بس میں سراسیمگی پھیل گئی اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے‘ ڈرائیور نے مشورہ دیا‘ سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے‘ ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی اور باقی لوگ بچ جائیں گے‘ یہ تجویز قابل عمل تھی‘ تمام مسافروں نے اتفاق کیا‘ ڈرائیور سب سے پہلے اترا  اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔

    بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی‘ وہ بس میں واپس چلا گیا‘ دوسرا مسافر اترا اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا‘ بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی‘ تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا یوں مسافر آتے رہے‘ درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے اور واپس جاتے رہے یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا‘ یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا‘ کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا‘ مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔

    لوگوں کا کہنا تھا ’’ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں‘ تم فوراً بس سے اتر جاؤ‘‘ وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی‘ وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے‘ مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا‘ پھر اسے پیار سے سمجھایا اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔

    وہ کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا‘ کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا لیکن لوگ باز نہ آئے‘ انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا‘ ڈرائیور نے بس چلا دی‘ بس جوں ہی ’’گناہ گار‘‘ سے چند میٹر آگے گئی‘ دھاڑ کی آواز آئی‘ بجلی بس پر گری اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے‘ وہ گناہگار مسافر دو گھنٹوں سے مسافروں کی جان بچا رہا تھا۔

    مجھے کسی صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا‘ وہ ترکی کے راستے یونان جانا چاہتے تھے‘ ایجنٹ انھیں ترکی لے گیا‘ یہ ازمیر شہر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ برفباری کا انتظار کرنے لگے‘ سردیاں یورپ میں داخلے کا بہترین وقت ہوتا تھا‘ برف کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار مورچوں میں دبک جاتے تھے‘ بارڈر پرگشت رک جاتا تھا‘ ایجنٹ لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے تھے اور انھیں یونان کے کسی ساحل پر اتار دیتے تھے‘ یہ ایجنٹوں کی عام پریکٹس تھی۔

    اس صاحب نے بتایا ’’ہم ترکی میں ایجنٹ کے ڈیرے پر پڑے تھے‘ ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک گندہ سا لڑکا تھا‘ وہ نہاتا بھی نہیں تھا اور دانت بھی صاف نہیں کرتا تھا ‘ اس سے خوفناک بو آتی تھی‘ تمام لوگ اس سے پرہیز کرتے تھے‘ ہم لوگ دسمبر میں کشتی میں سوار ہوئے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس لڑکے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا‘ ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ رونا شروع ہو گیا‘ ایجنٹ کے پاس وقت کم تھا چنانچہ اس نے اسے ٹھڈا مار کر کشتی میں پھینک دیا‘ کشتی جب یونان کی حدود میں داخل ہوئی تو کوسٹ گارڈ ایکٹو تھے۔

    یونان کو شاید ہماری کشتی کی مخبری ہو گئی تھی‘ ایجنٹ نے مختلف راستوں سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر ہر راستے پر کوسٹ گارڈ تھے‘ اس دوران اس لڑکے کی طبیعت خراب ہو گئی‘ وہ الٹیاں کرنے لگا‘ہم نے ایجنٹ سے احتجاج شروع کر دیا‘ ایجنٹ ٹینشن میں تھا‘ اسے غصہ آ گیا‘ اس نے دو لڑکوں کی مدد لی اور اسے اٹھا کر یخ پانی میں پھینک دیا‘ وہ بے چارہ ڈبکیاں کھانے لگا‘ ہم آگے نکل گئے‘ ہم ابھی آدھ کلو میٹر آگے گئے تھے کہ ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی‘ ایجنٹ نے کشتی موڑنے کی کوشش کی۔

    کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور وہ پانی میں الٹ گئی‘ ہم سب پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے‘ میں نے خود کو سردی‘ پانی اور خوف کے حوالے کر دیا‘ میری آنکھ کھلی تو میں اسپتال میں تھا‘ مجھے عملے نے بتایا کشتی میں سوار تمام لوگ مر چکے ہیں‘ صرف دو لوگ بچے ہیں‘ میں نے دوسرے شخص کے بارے میں پوچھا‘ ڈاکٹر نے میرے بیڈ کا پردہ ہٹا دیا‘ دوسرے بیڈ پر وہی لڑکا لیٹا تھا جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے سمندر میں پھینکا تھا‘ سمندر کی لہریں اسے دھکیل کر ساحل تک لے آئی تھیں۔

    مجھے کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا جب کہ باقی لوگ گولیوں کا نشانہ بن گئے یا پھر سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے تھے‘ میں پندرہ دن اسپتال رہا‘ میں اس دوران یہ سوچتا رہا ’’میں کیوں بچ گیا‘‘ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا تھا‘ میں جب اسپتال سے ڈسچارج ہو رہا تھا‘مجھے اس وقت یاد آیا میں نے اس لڑکے کو لائف جیکٹ پہنائی تھی‘ ایجنٹ جب اسے پانی میں پھینکنے کے لیے آ رہا تھا تو میں نے فوراً باکس سے جیکٹ نکال کر اسے پہنا دی تھی‘ یہ وہ نیکی تھی جس نے مجھے بچا لیا‘ مجھے جوں ہی یہ نیکی یاد آئی۔

    مجھے چھ ماہ کا وہ سارا زمانہ یاد آ گیا‘ جو ہم نے اس لڑکے کے ساتھ گزارہ تھا‘ ہم نہ صرف ترکی میں اس کی وجہ سے بچتے رہے تھے بلکہ وہ جب تک ہماری کشتی میں موجود رہا ہم کوسٹ گارڈز سے بھی محفوظ رہے‘ یخ پانی سے بھی اور موت سے بھی‘ ہم نے جوں ہی اسے کشتی سے دھکا دیا موت نے ہم پر اٹیک کر دیا‘ میں نے پولیس سے درخواست کی ’’میں اپنے ساتھی سے ملنا چاہتا ہوں‘‘ پولیس اہلکاروں نے بتایا ’’وہ پولیس وین میں تمہارا انتظار کر رہا ہے‘‘ میں گاڑی میں سوار ہوا اور جاتے ہی اسے گلے سے  لگا لیا۔

    مجھے اس وقت اس کے جسم سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں آ رہی تھی‘ مجھے معلوم ہوا میرے ساتھیوں کو اس کے جسم سے اپنی موت کی بو آتی تھی‘ یہ ان لوگوں کی موت تھی جو انھیں اس سے الگ کرنا چاہتی تھی اور وہ جوں ہی الگ ہوئے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    میرے ایک بزرگ دوست جوانی میں ارب پتی تھے لیکن ان کی زندگی کا آخری حصہ عسرت میں گزرا‘ مجھے انھوں نے ایک دن اپنی کہانی سنائی‘ انھوں نے بتایا ’’میرے والد مل میں کام کرتے تھے‘ گزارہ مشکل سے ہوتا تھا‘ ان کا ایک کزن معذور تھا‘ کزن کے والدین فوت ہو گئے‘ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں رہا‘ میرے والد کو ترس آ گیا‘ وہ اسے اپنے گھر لے آئے‘ ہم پانچ بہن بھائی تھے‘ گھر میں غربت تھی اور اوپر سے ایک معذور چچا سر پر آ گرا‘ والدہ کو وہ اچھے نہیں لگتے تھے‘ وہ سارا دن انھیں کوستی رہتی تھیں۔

    ہم بھی والدہ کی وجہ سے ان سے نفرت کرتے تھے لیکن میرے والد کو ان سے محبت تھی‘ وہ انھیں ہاتھ سے کھانا بھی کھلاتے تھے‘ ان کا بول براز بھی صاف کرتے تھے اور انھیں کپڑے بھی پہناتے تھے‘ اللہ کا کرنا یہ ہوا‘ ہمارے حالات بدل گئے‘ ہمارے والد نے چھوٹی سی بھٹی لگائی‘ یہ بھٹی کارخانہ بنی اور وہ کارخانہ کارخانوں میں تبدیل ہو گیا‘ ہم ارب پتی ہو گئے‘ 1980ء کی دہائی میں ہمارے والد فوت ہو گئے‘ وہ چچا ترکے میں مجھے مل گئے‘ میں نے انھیں چند ماہ اپنے گھر رکھا لیکن میں جلدہی تنگ آ گیا۔

    میں نے انھیں پاگل خانے میں داخل کرا دیا‘ وہ پاگل خانے میں رہ کر انتقال کر گئے بس ان کے انتقال کی دیر تھی ہمارا پورا خاندان عرش سے فرش پر آ گیا‘ ہماری فیکٹریاں‘ ہمارے گھراور ہماری گاڑیاں ہر چیز نیلام ہو گئی‘ ہم روٹی کے نوالوں کو ترسنے لگے‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوا ہمارے معذور چچا ہمارے رزق کی ضمانت تھے‘ ہم ان کی وجہ سے محلوں میں زندگی گزار رہے تھے‘ وہ گئے تو ہماری ضمانت بھی ختم ہو گئی‘ ہمارے محل ہم سے رخصت ہو گئے‘ ہم سڑک پر آ گئے۔

    یہ تینوں واقعات آپ کے لیے ہیں‘ہم نہیں جانتے ہم کن لوگوں کی وجہ سے زندہ ہیں‘ ہم کن کی وجہ سے کامیاب ہیں اور ہم کن کی بدولت محلوں میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے ہم کس کو بس سے اتاریں گے‘ ہم کس کو کشتی سے باہر پھینکیں گے اور ہم کس کے کھانے کی پلیٹ اٹھائیں گے اور وہ شخص ہمارا رزق‘ ہماری کامیابی اور ہماری زندگی ساتھ لے جائے گا‘ ہم ہرگزہرگز نہیں جانتے لہٰذا ہم جب تک اس شخص کو نہیں پہچان لیتے ہمیں اس وقت تک کسی کو بس‘ کشتی اور گھر سے نکالنے کا رسک نہیں لینا چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے ہمارے پاس جو کچھ ہو وہ سب اس شخص کا ہو اور اگر وہ چلا گیا تو سب کچھ چلا جائے‘ ہم ہم نہ رہیں‘ مٹی کا ڈھیر بن جائیں۔

  • جب ماں ہی بیگانہ ہو جائے !-وسعت اللہ خان

    جب ماں ہی بیگانہ ہو جائے !-وسعت اللہ خان

    557857-WusatullahNEWNEW-1468605895-811-640x480

    بادشاہت کا ادارہ کم ازکم سات ہزار برس پرانا ہے، پیشوائی کا ادارہ بھی لگ بھگ اتنا ہی پرانا ہے مگر بالغ رائے دہی یعنی ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کا عملی اطلاق زیادہ سے زیادہ دو سو برس پرانا ہے۔ جمہوریت کے جتنے بھی نقصانات گنوا دیں مگر ایک فائدہ ضرور ہے۔

    مری گری جمہوریت میں بھی ایک ریوالونگ ڈور ہوتا ہے جس کے ذریعے عوامی توقعات پر پورے نہ اترنے والے شخص کو پرامن طریقے سے باہر نکالا جا سکتا ہے یا توقعات پر پورے اترنے والے کو دوبارہ اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بادشاہت اور پیشوائی میں ریوالونگ ڈور نہیں ہوتا لہذا تبدیلی بغیر خون بہائے مشکل ہی سے ہو پاتی ہے۔

    بادشاہت اور پیشوائیت کو عوام کا نباض ہونے کی حاجت نہیں لیکن جمہوریت عوامی نبض پر مسلسل ہاتھ رکھے بغیر نہیں چل سکتی۔ پھر بھی چلانے کی کوشش کی جائے تو وہ جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت ہوتی چلی جائے گی اور اس جمہوری فسطاییت کو رواں رکھنے والے راہ نما انفرادی و اجتماعی سوچ کو آگے بڑھانے اور نئے تصورات کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے بذاتِ خود اسٹیٹس کو کے جوہڑ کا حصہ ہو جائیں گے اور خبر بھی نہ ہو گی کہ جسے وہ جمہوریت بتا رہے ہیں وہ بادشاہت و پیشوائیت کی طرح جامد و ساکت شے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

    جمہوریت کو ہر وقت منا کے رکھنا پڑتا ہے۔ نخرے سہنے پڑتے ہیں۔نازک بدن ہوتی ہے۔ آپ زیادہ سختی سے پیش نہیں آ سکتے۔ مکمل توجہ مانگتی ہے۔ مسلسل لا پروائی برتی جائے تو اشاروں کنایوں اور رویوں سے وقتاً فوقتاً ناپسندیدگی کا اظہار کرتی رہتی ہے اور اگر تب بھی کوئی مسلسل اکتاہٹ برتے اور رویہ نہ بدلے تو پھر نرم و نازک حسین و مہربان دکھائی دینے والی اسی جمہوریت کو ڈائن یا ٹکیائی کا روپ دھارنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔

    بادشاہت ہو کہ پیشوائیت۔ان کے ہوتے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ آواز بلند ہونے پر جوتے پڑیں گے لہذا انھیں اس بیگانگی زدہ نظام سے زیادہ توقعات بھی نہیں ہوتیں۔لیکن جمہوریت میں چونکہ ہر شخص کو احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کے حقوق و فرائص برابری کے ہیں لہذا جب اسے برابری کی لت لگ جاتی ہے تو ذرا سی بھول چوک اور اغماض بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور اس کی جمہوری انا کو اگر مسلسل ٹھیس پہنچتی رہے تو پھریہی انا اس سے پلٹ کر وار بھی کروا لیتی ہے۔عام آدمی بہت عجیب ہوتا ہے۔وہ اپنے رہنماؤں سے جتنا پیار کرتا ہے اتنی ہی نفرت بھی کر سکتا ہے اور نفرت اندھے فیصلے کروا لیتی ہے۔

    لہذا یہ ذمے داری جمہوریت اور مساوات کا جھنڈا بلند کرنے والوں کی ہے کہ وہ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے تباہ کن خبط سے بچتے ہوئے عوام سے اپنے براہِ راست ناطے کے تار میں برقی رو مسلسل چیک کرتے رہیں اور عوام کو غصے اور نفرت کے راستے پر جانے سے پہلے ہی روک لیں۔جیسے گھر کے بڑے اپنے ناراض جذباتی بچوں کو سمجھا بجھا کر اور ان کے مزاج کی تبدیلی اور اتھل پتھل کے بنیادی اسباب سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی غیر عاقلانہ قدم اٹھانے سے روک لیتے ہیں۔

    اگر بروقت ایسا نہ ہو تو پھر کوئی بھی ذہین و تیز طرار موقع پرست مجمع باز نباض جمہوریت کے میلے میں محسن کی وضع قطع بنا کے در آتا ہے اور طبقاتی و اجتماعی محرومیوں کو راتوں رات ختم کرنے، لوگوں کو اچھے دن لوٹانے، پرانی عظمتیں بحال کرنے اور بے بس کر دینے والے پھٹیچر نظام کے ڈھونگ سے نجات دلانے کا سفوف بیچنے لگتا ہے۔بھیڑ جوق در جوق جمع ہونے لگتی ہے۔اس کے کانوں کو اجنبی مسیحا کی وہ تمام باتیں بھلی لگنے لگتی ہیں جو وہ اپنے روائیتی راہ نماؤں کے منہ سے سننے کو عرصہ ہوا ترس چکی ہے۔

    چنانچہ یہ بھیڑ ’’ایک رات میں جنسی قوت بحال‘‘ جیسی مارکیٹنگ کے سحر میں آ  کر ساحر کے پیچھے چل پڑتی ہے اور ساحر اپنی بانسری سے خوابوں کی مدھر دھنیں نکالتا مست بھیڑ کو کہیں بھی لے جا سکتا ہے اور جب لوگوں کی آنکھ کھلتی ہے تو عموماً وہ خود کو ایک اصلی باتصویر فسطائیت کے پنجرے میں قید پاتے ہیں۔ جمہوریت سے راتوں رات جان چھڑائی جا سکتی ہے مگر فسطائیت جان لیے بغیر نہیں ٹلتی۔ اور پاپولرازم کے جادو گر لبادے میں چھپی فسطائیت تو اپنے ساتھ کئی نسلوں کا مستقبل بھی باندھ کے لے جاتی ہے۔

    مثال کے طور پر جب جرمن جمہوریت کا عوام کے اصل مسائل سے ناطہ ٹوٹ گیا تو اسی نظام سے ہٹلر کا ظہور ہوا اور وہ شدید بحران زدہ جرمن معاشرے کو عظیم آریائی عظمت کے اڑن گھوڑے پر بٹھا کے لے گیا۔ اس سے پہلے اٹلی میں مسولینی پیدا ہو گیا مگر جرمن اشرافیہ کے بوڑھے کانوں میں خطرے کی کوئی گھنٹی نہیں بجی۔

    مصر میں جمال عبدالناصر عربوں کی تاریخی عظمت کی رتھ پر سوارراتوں رات نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے مصر کی نوآبادیاتی مزاج کی اسیر جمہوری اشرافیہ کی عشروں پے پھیلی مسلسل ناکامی اور اختیار کی میوزیکل چئیر گیم میں عام مصری کو تماشائی کے کردار سے زیادہ کچھ بھی نہ دینے کا سیاسی جرم کلیدی سبب تھا۔اور پھر جمال ناصر تو نہ رہا مگر اس کا کھانچہ سلامت رہا جس میں سادات، مبارک اور سیسی فٹ ہوتے چلے گئے اور انھوں نے عرب قوم پرستی کی چادر بھی اتار پھینکی۔

    گورے سے آزادی دلانے والی کانگریس کے احسان مند بھارتی عوام  پورے ساٹھ برس انتظار کرتے رہے کہ کانگریس انھیں روزمرہ مسائل سے کسی حد تک ہی سہی مگر آزادی دلا دے گی۔عوام نے ایمرجنسی کو بھی برداشت کر لیا، خاندانی سیاست کو بھی برداشت کرتے رہے، سترکے عشرے میں جنتا پارٹی اور پھر نوے کے عشرے میں واجپائی کی شکل میں سسٹم کو خبردار بھی کرتے رہے۔

    حتیٰ کہ اکیسویں صدی کے دس برس میں بھی کانگریس کے کھونٹے سے بندھے رہے مگر جب انھیں پکا یقین ہوگیا کہ کانگریس عمر رسیدہ، جامد اندھی و بہری ہوچکی ہے تو پھر انھوں نے اس پارٹی کا ہاتھ پکڑ لیا جسے انیس سو چوراسی میں صرف چار سیٹیں ملی تھیں اور انیس سو چھیانوے میں لوک سبھا کی اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود کوئی بڑی جماعت اس کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھی۔مگر لبرل و سیکولر اور پلورل اقدار کے جھنڈا برداروں نے ان عوامی وارننگز کو بھی حسنِ اتفاق ہی سمجھا۔

    وہی مودی جسے بیشتر بھارتی گجرات کے قاتل کے طور پر پہچانتے تھے۔یہی مودی دو ہزار چودہ میں پورے دیش کو اپنے پیچھے لگا کے لے گیا۔اب یہ اچھا ہوا کہ برا اس پر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر برسوں ڈبیٹ ہو سکتی ہے مگر عوام اندھے بہرے جمہوری ناٹک سے اس قدر تنگ آ چکے تھے کہ مودی چھوڑ کالا چور بھی آجاتا تو اس کے ساتھ چلے جاتے۔اب ’’ اچھے دن‘‘ آئیں نہ آئیں ان کی بلا سے۔

    برطانیہ کی جمہوری اشرافیہ کو آج سے نہیں ہمیشہ سے ناز رہا کہ اس نے ایسا جمہوری میکینزم  وضع کر لیا ہے جو عوام کی دھڑکنیں گننے کے لیے بہترین ہے۔مگر بریگزٹ کے نتائج نے بیچ چوراہے میں بتا دیا کہ وہ برطانوی جمہوری نظام جس کی دنیا بھر نے فخریہ نقالی کی وہ بھی اسٹیٹس کو کے جوہڑ میں دھنس چکا ہے۔آنکھیں ہیں مگر صرف وہی دیکھ سکتا ہے جو دیکھنا چاہتا ہے۔کان ہیں مگر اسے اپنے سوا کوئی سنائی نہیں دیتا۔

    آٹھ نومبر کو امریکا میں بھی یہی ہوا۔ہاں یہ وہی امریکی ہیں جنہوں نے آٹھ برس پہلے بارک اوباما کو صدر بنا کے تاریخ رقم کی اور ایک بار نہیں دو بار منتخب کیا۔مگر ان آٹھ برس میں ایسا کیا ہوا کہ یہی امریکی تین سو ساٹھ ڈگری پر گھوم گئے۔تو کیا کروڑوں لوگ راتوں رات پاگل ہوگئے ؟ ہاں یہ پاگل ہوگئے کیونکہ ماں نے بچوں کی چیخ  سننے اور پھر سمجھنے کے بجائے کانوںمیں روئی ٹھونس لی تھی۔ایک آؤٹ سائیڈر آیا، مسکرایا ، ہاتھ پکڑا، گلے لگایا اور لے گیا۔اب خورد بین لے کر اسبابی دانشوری بھگارتے رہئیے۔

  • ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    ڈاکٹر عشرت العباد کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا – قادر خان

    قادر خان افغان گورنر سندھ پاکستان کے صوبہ سندھ کی صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اس کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کرتا ہے اور عموما یہ ایک رسمی عہدہ ہے یعنی اس کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہوتے۔ تاہم ملکی تاریخ میں متعدد بار ایسے مواقع آئے ہیں جب صوبائی گورنروں کو اضافی و مکمل اختیارات ملے ہیں خاص طور پر اس صورت میں جب صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہو، تب انتظامی اختیارات براہ راست گورنر کے زیر نگیں آ جاتے ہیں۔ 1958ء سے 1972ء اور 1977ء سے 1985ء کے فوجی قوانین (مارشل لا) اور 1999ء سے 2002ء کے گورنر راج کے دوران گورنروں کو زبردست اختیارات حاصل رہے۔ سندھ میں دو مرتبہ براہ راست گورنر راج نافذ رہا جن کے دوران 1951ء سے 1953ء کے دوران میاں امین الدین اور 1988ء میں رحیم الدین خان گورنر تھے۔ سندھ کے آخری گورنر عشرت العباد خان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ لیکن اب سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بن گئے ہیں۔

    گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان پاکستان کی تاریخ کے وہ واحد گورنر ہیں جو طویل ترین عرصہ سے اس عہدے پر فائز ہیں۔تقریباً 14 سال گورنر سندھ کے عہدے پر فائز رہنے والے عشرت العباد ایشیا کے دوسرے اور دنیا بھر میں تیسرے طویل المدتی گورنر ہیں۔عشرت العباد خان 2 مارچ 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ڈاؤ میڈیکل کالج سے کیا جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے اسٹوڈنٹس ونگ اے پی ایم ایس او کے اہم لیڈر کے طور پر ابھرے۔سنہ 1990 میں انہیں صوبائی وزیر برائے ہاؤسنگ اور ٹاؤن پلاننگ بنایا گیا۔ اس وقت انہیں ماحولیات اور صحت کی وزارت کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ سنہ 1993 میں وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی جو قبول ہوگئی۔ بعد ازاں انہیں برطانوی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔سنہ 2002 میں انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے گورنر سندھ نامزد کیا گیا جس کے بعد 27 دسمبر کو وہ گورنر منتخب ہوگئے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین گورنر تھے۔ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اپنے عہد گورنری کا عرصہ خاموشی سے گزارا اور اس دوران انہوں نے کسی قسم کے سیاسی معاملے میں مداخلت سے پرہیز کیا تاہم کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کے منحرف رہنما اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے ان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جس کے بعد پہلی بار عشرت العباد ٹی وی چینلز پر ذاتی دفاع کرنے کے لیے پیش ہوئے۔انہوں نے مصطفیٰ کمال پر جوابی الزامات بھی لگائے تاہم انہوں نے حکومت پر توجہ دینے کے بجائے اس قسم کے سیاسی معاملات میں ملوث ہونے پر شرمندگی اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔عشرت العباد فن و ادب کے دلدادہ تھے اور شہر میں ہونے والی ادبی و ثقافتی تقریبات میں بطور خاص شرکت کیا کرتے تھے۔

    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی 1 دسمبر 1937ء کو لکھنؤ, حیدر آباد، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے پندرہویں منصف اعظم تھے۔ وہ 1 جولائی 1999ء سے 26 جنوری 2000ء تک منصف اعظم رہے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی نے ابتدائی تعلیم لکھنئو سے حاصل کی۔ 1954ء میں انہوں نے جامعہ ڈھاکہ سے انجنیئرنگ میں گریجویشن کی۔ جامعہ کراچی سے انہوں نے 1958ء میں وکالت کی تعلیم حاصل کی۔جسٹس سعید الزماں صدیقی 1999 میں چیف جسٹس سپریم کورٹ تھے، جنرل ریٹائرڈ مشرف نے جب فوجی بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔

    نئے چیف الیکشن کمشنر کے موقع پر انھیں مسلم لیگ ن کا انتہائی قریبی سمجھا گیا تھا ۔ اسی وجہ سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات میں نئے چیف الیکشن کی تقرری کیلئے مشاورت پر پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ کی جانب سے تجویز کیا گیا جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کا نام مسترد کر دیا تھا۔نامزد گورنر سندھ ، میاں نواز شریف کے انتہائی قریب احباب میں یاد کئے جاتے ہیں ۔ہائی کورٹ حملہ کیس میں جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی میاں نواز شریف کے سب سے بڑے حمایتی تھے۔ جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی اپنی دور عدلیہ سے متنازعہ چلے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ ہائی کورٹ میں صدارتی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار سعید الزمان صدیقی کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تھی۔ ایک سابق ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے دائر اس پٹیشن میں درخواست کی گئی تھی کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی کو نااہل قرار دیکر ان کے کاغذاتِ نامزدگی رد کر دیے جائیں۔ سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عبدالوہاب عباسی نے اپنی اس درخواست میں وفاقی حکومت، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کو فریق بنایا۔ ان کا موقف تھا کہ انیس سو نوے میں سندھ ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کی تقرریوں کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں اور اس سلسلے میں انہوں نے بھی درخواست جمع کرائی تھی۔ ان کے مطابق تحریری اور زبانی انٹرویو کے بعد ان کا نام میرٹ لسٹ میں چوتھے نمبر پر آیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے ان امیدواروں کی فہرست منظوری کے لیے حکومت سندھ کو بھیجی۔ حکومت نے امیدواروں کی عمر پر اعتراضات لگا کر سمری واپس کردی۔بعد میں جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا گیا اور جسٹس سعید الزمان صدیقی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہونے کے بعد جسٹس سعید الزمان صدیقی نے جلد بازی میں رجسٹرار کے پاس موجود ناموں میں تین نام اپنی پسند کے شامل کرکے ان کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کے طور پر تقرری کی سفارش کردی۔ عبدالوہاب عباسی کے مطابق یہ عمل انصاف اور میرٹ کی خلاف ورزی تھا، جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پانچ سال کے بعد جب جسٹس عبدالحفیظ میمن چیف جسٹس تعینات ہوئے تو انہوں نے ان کی اپیل پر 1990ء کی میرٹ لسٹ کے مطابق انہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج مقرر کیا۔ درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ کے دوبارہ حلف لینے والے ایک جج اور ایک سیشن جج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جسٹس ریٹائرڈ سعید الزمان صدیقی ان کے ساتھ انصاف کرتے تو وہ بھی آج ہائی کورٹ کے جج ہوتے۔ سابق صدر مشرف کے استعفے کے بعد صدر کے عہدے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف زرادری، مسلم لیگ ن نے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی اور مسلم لیگ ق نے مشاہد حسین کو امیدوار نا مزد کیا تھا۔ سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔سعید الزمان صدیقی آصف علی زرداری کے مقابلے میں ن لیگ کے صدارتی امیدوار تھے۔

    سبکدوش ہونے والے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد 1992 میں لندن آئے تھے ۔اور 1999تک برطانوی حکومت سے الائونس لیتے رہے ، اور برطانیہ نے انھیں برطانوی شہریت دے دی تھی ۔گورنر بننے کے بعد ایسی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی کہ گورنر نے برطانوی شہریت واپس کردی ہو، جس پر مصطفی کمال کا یہ دعوی حقیقت نظر آیاہے کہ ان کے پاس ابھی بھی برطانوی شہریت ہے ، اسی وجہ سے وہ گورنر کا نام ای سی ایل سی میں ڈالنے کا تواتر سے مطالبہ کررہے تھے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد کا الاونس اسکینڈل اس وقت سامنے آیا تھا جب برطانیہ میں تفتیشی اداروں نے ان کے خلاف غلط کلیم وصول کرنے پر تحقیقات شروع کردیں تھی ۔کیونکہ وہ اپنے بھائی ڈاکٹر محسن العباد خان کے شمالی لندن Edgwareکے گھر میں رہتے ہوئے 244پونڈ فی ہفتہ دس ماہ تک گورنر سندھ ہونے کے باوجود لیتے رہے تھے ۔جب برطانوی تفتیش کاروں نے اس الاوئنس کی تحقیقات شروع کیں تو ڈاکٹر عشرت العباد کی بیوی نے باقاعدہ برٹش گورنمنٹ کو لکھ کر دیا کہ وہ اب مزید الائونس نہیں لینا چاہتے ، ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد نے برطانیہ میں نہ ہونے کے باوجود جتنے الاونس پناہ گزیں کے حیثیت سے اضافی الاونس لئے تھے ، وہ واپس کردیئے تھے۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد برطانیہ چھوڑنے کے بعد گورنر بننے کے بعد بھی دس مہینے تک غیر قانونی طور پر 1000پونڈز ماہانہ لیتے رہے تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یہ کلیم کیا ہوا تھا کہ ان کے چار بچوں میں سے تین بچے اب بھی وہیں رہتے ہیں ، جو گھر اصل میں ان کے بھائی کا تھا ، جس سے برٹش حکومت کو بھی بے خبر رکھا گیا تھا۔

    ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی برطانیہ میں کافی جائیدادیں ہیں جو انھوں نے کرائے پر دے رکھی ہیں، اور ان کی نگرانی اب بھی ڈاکٹرشہزاد اکبر نامی شخص کرتا ہے جو 2003ء سے ڈاکٹر عشرت العباد کی کئی جائیداوں کا نگراں بنا ہوا ہے اور اب بھی ڈاکٹر عشرت العباد کے مکانات کا مشترکہ freeholders ہے۔ ڈاکٹرشہزاد اکبر نے ڈاکٹر محسن العباد خان کے ساتھ مل کر لندن میں گورنر سندھ کے لیے جائیداد سب سے پہلے 1999ء میں حاصل کی تھی۔ کراچی کی سیاست میں ایک بار پھر ہل چل پیدا ہوچکی ہے ۔مصطفی کمال کیونکہ گورنر سندھ ہیں ، عمومی طور پر ڈاکٹر عشرت العباد انٹرویوز دینے سے پرہیز کرتے رہے ہیں، مصطفی کمال نے دھواں دار الزام تراشیوں کرکے گورنر سندھ کو متنازعہ بناکر گیند حکومت کی کورٹ میں ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہ اور گورنر سندھ کو ہٹانے میں مصطفی کمال کو کامیابی مل گئی ہے ۔ماضی میں گورنر سندھ کو ایم کیو ایم سے تعلق ہونے کی بنا پر پی پی پی حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں بھی مسلسل گورنر سندھ مقرر رکھنے جانے کے سبب پی پی پی کے کئی رہنما اس بات سے ناراض تھے کہ پرویز مشرف کے تعینات گورنر کی جگہ دوسرے فرد کو گورنر بنانا چاہیے ، لیکن آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے باعث ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے پر فائز رہے ۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت اور ایم کیو ایم سے مفاہمت کی ضرورت نہ ہونے کے باعث گمان یہی غالب تھا کہ ایم کیو ایم کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو ہٹا دیا جائے گا ، لیکن حیرت انگیز طور پر ان ہی کو گورنر رکھا گیا ۔ایم کیو ایم کراچی آپریشن میں جب مسائل کا شکار ہوئی اور گورنر سندھ ماضی کی طرح ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دے سکے ، تو الطاف نے گورنر سے لاتعلقی اختیار کرکے استعفی کا مطالبہ کردیا ۔ مائنس الطاف کے بعد پاک سر زمین پارٹی کے بہترین موقع تھا کہ اگر گورنر ان کا ساتھ دیتے تو پاک سر زمین پارٹی ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنما اور ذمے داروں کو شمولیت پر راضی کرسکتی تھی ، لیکن نائن زیرو کے قریب ایم کیو ایم کے جوائنٹ انچارج کے گھر سے اسلحے کی کھیپ بر آمد ہونے کے بعد گورنر نے مکمل طور پر پاک سر زمین پارٹی کو جواب دے دیا ،۔گورنر سندھ پر موجودہ الزامات کو درست یا غلط ثابت کرنا اب حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ برطانوی حکومت سے دریافت کرے کہ گورنر سندھ دوہری شہریت رکھتے ہیں یا نہیں ۔اگر رکھتے ہیں تو یہ پاکستان کے حساس اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھاکہ مصطفی کمال کے انکشافات ان سے کیوں پوشیدہ رہے ۔

    حکومت کی جانب سے دوہری شہریت اور دیگر الزامات پر گورنر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے اچانک گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد پر الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی ۔ اس سے قبل بھی متحدہ نے پریس کانفرنس کرکے گورنر سندھ سے نومبر2015میں استعفی کا مطالبہ کیا تھا۔ڈاکٹر عشرت العباد 2002سے گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے 2015میں گورنر سندھ سے استعفی طلب کرنے پراُس وقت ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی وجوہات کچھ یوں بیان کی تھیں کہ” گورنر سندھ عشرت العباد کے رویئے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام نہیں دے رہے ، بقول فاروق ستار ، عشرت العباد کارکنان کے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ، وہ مسلسل خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں” ۔اس وقت سیاسی حلقوں میں یہ بات سرگرم تھی کہ ایم کیو ایم نے گورنر کے خلاف اس لئے یہ بیان دیا ہے کیونکہ 16سال بعد صولت مرزا کو پھانسی دی گئی تھی اور عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے صولت مرزا کے ان سنگین الزامات کو دبانے کیلئے کوشش کی گئی تھی جو صولت مرزا نے اپنی پھانسی سے قبل ویڈیو بیان میں ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کے اوپر لگایا تھا ۔پھر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کے وقت بھی گورنر سندھ بے خبر رہے۔پاک سر زمین پارٹی بننے کے بعد ایک عوامی تاثر یہی تھا کہ پاک سر زمین پارٹی کی پشت پناہی گورنر سندھ کررہے ہیں ، اس لئے سابق لندن گروپ کی جانب سے لاپتہ یا گرفتار کارکنان کے اہل خانہ کو پاک سر زمین پارٹی کے دفتر بھیجا جاتا کہ مصطفی کمال اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں ، وہ بازیاب کرالیں گے ، مصطفی کمال نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی بازیاب کرایا ، جو گرفتاری کے ڈر سے ،یا لندن گروپ چھوڑنے کے بعد باعزت زندگی گزارنے کے لئے روپوش تھے ، یا کچھ کارکنان ایسے بھی تھے جو تحقیقات کے لئے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے پاس تھے ،جن پر الزامات ثابت نہیں ہوئے انھیں مصطفی کمال نے رہا بھی کرایا ، جس کی سب سے بڑی مثال عید الفظر کو 19 ایسے افراد کو اہل خانہ سے ملوایا گیا ، جو کئی سالوں سے اپنے اہل خانہ سے رابطے میں نہیں تھے۔پاک سر زمین پارٹی میں متواتر لندن گروپ کے اہم رہنمائوں کی شمولیت اور پھر22اگست کی تقریر کے بعد مائنس الطاف ہونے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی تجدید ہوئی ، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار پھر بھی اپنی پارٹی کو مسائل سے نہ نکال سکے ، اسی دوران لندن منی لانڈرنگ کیس کا الطاف کے حق میں فیصلے کے بعد طیارہ اغوا کیس کی متنازعہ شخصیت کی جانب سے پریس کانفرنس الیکڑونک میڈیا کی گئی ، جس کے بعد لندن گروپ نے ایم کیو ایم پاکستان کو مسترد کردیا اور کراچی بھر میں الطاف کے حق میں وال چاکنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ذرائع کے مطابق پاک سر زمین پارٹی کیلئے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا کہ لندن گروپ کی جانب سے کراچی میں دھواں دار پریس کانفرنس بھی کی جاسکتی ہے ،اور الطاف کے حق میں وال چاکنگ بھی کی جاسکتی ہے۔؎

    دوسری جانب ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ گورنر سندھ نے پکڑے جانے ایم کیو ایم لندن کے گرفتار کارکنان کی پشت پناہی سے معذرت کرلی تھی ،اور رینجرز اور پولیس کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا واضح پیغام دے دیا تھا ، جس کے بعد پاک سر زمین پارٹی نے باقاعدہ گورنر سندھ پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی۔لیکن ماضی کی طرح کوئی ثبوت عوام کے سامنے نہیں لا سکے ۔پاک سرزمین پارٹی کی تمام تر توجہ ایم کیو ایم کے اہم رہنمائوں و ذمے داروں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا رہا ہے، گورنر سندھ اور پرویز مشرف کے عقب میں ہونے کا تاثر عام تھا ، جس وجہ سے لندن گروپ کے کئی ذمے دار و رہنما پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہوئے ، لیکن گرفتار کارکنان اور چھاپے بند نہ ہونے کی وجہ سے گورنر سندھ کو دوبارہ نومبر2015کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جب الطاف نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا تھا۔اب پاک سر زمین پارٹی کا اتنے عرصے خاموش رہنے کے بعد گورنر کے خلاف توپوں کا رخ کرلینا کا بنیادی سبب ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ نائن زیرو سے اسلحے کی کھیپ ملنے کے بعد گورنر سندھ خود کو ایک جانب رکھنا چاہتے تھے ۔اس لئے پاک سر زمین پارٹی کی جانب سے لفاظی کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے۔

    موجودہ سیاسی صورتحال نواز حکومت کیلئے ایک شٹ اپ کال تھی،۔وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کوبعض وزرا ء کی جانب سے غیر ذمے درانہ بیانات و عمل کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا اورموجودہ حکومت مسلسل غلطیاں کر رہی تھی ، جیسے وہ بتدریج درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔نواز حکومت نے گورنر سندھ کو برطانوی شہریت ہونے کے باوجود نہیں ہٹایا تھا، نواز حکومت اہم معاملات میں الجھی ہوئی تھی جس میں تازہ ترین معاملات حساس نوعیت کے ہیں ۔جیسے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی دوہری شہریت کے باوجود وزیر اعظم کی جانب سے نہ ہٹائے جانا ، انگریزی اخبار کے رپورٹر کی جانب سے شائع خبر کا علم کا ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے لاپرواہی، پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کی جانب سے عسکری قیادت اور سول قیادت کا ایک صفحے پر نہ ہونے کا متنازعہ بیان اور سب سے اہم نیشنل ایکشن پلان کے مطابق حکومت کی جانب سے تعاون میں مسلسل کمی اور برطانیہ میں موجود عسکری اداروں اور پاکستان کے خلاف دشنامی بیانات دینے والا الطاف کے خلاف موثر کاروائی میں ناکامی شامل ہے ۔ تمام معاملات میں عسکری ادارے کی رٹ کو چیلنج کیا گیا لیکن سول حکومت کی جانب سے عسکری ادارے کے تضحیک کرنے والوں کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی۔

    مقتدر حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ جب مصطفی کمال کی جانب سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ گورنر سندھ عشرت العباد، برطانوی شہریت رکھتے ہوئے حساس میٹنگز میں شریک ہوتے رہے ہیں تو را کے ایجنٹ الطاف کے ساتھ تعلقات ہونے پر کیا کیا راز افشا ہوئے ہوں گے ، یہ ایک حساس معاملہ تھا کیونکہ الطاف اور ایم کیو ایم را کے لیے کام کر رہے ہیں ، اس لئے گورنر کی وابستگی بھی ’ را ‘ ایجنٹ کے ساتھ ہونے کے باوجود کوئی کاروائی نہ کیا جانا، نواز حکومت کی ایک فاش غلطی گردانا جارہا ہے۔ کراچی آپریشن پر اس سے اثرات نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں اور ماضی کی طرح ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حالیہ فرقہ وارانہ واردتوں میں اضافہ بھی اسی خدشے کو جنم دے رہا تھا کہ را کے ساتھ تعلقات رکھنے والے الطاف سے وابستگی اور اہل تشیع و اہل سنت کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافے میں یقینا گورنر سندھ کا بھی کوئی اہم کردار رہا ہوگا ۔ خاص طور پر برطانوی شہریت نہ چھوڑنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اگر کوئی برا وقت آتا ہے تو وہ دوبارہ برطانیہ چلے جائیں گے ۔ اس لئے اب ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوگا ۔ حساس ادارے اس بات پر یقینی متفکر ہوتے ہیں کہ برطانوی شہریت کا حامل شخص ان کی اہم میٹنگز میں شریک ہوتا رہا ، یہاں معلومات کے فقدان کا بھی بڑا اہم عنصر شامل ہے ۔کیونکہ متعلقہ اداروں نے درست انکوئری نہیں کی ۔ اس کی ایک مثال شرمیلا فاروقی کا سزا یافتہ ہونے کے باوجود مسلسل وزیر اعلی کی ،مشیر و زارت کی مشیر رہیں ، لیکن یہ معاملہ سامنے نہیں آسکا کہ شرمیلا فاروقی سزا یافتہ ہیں ۔ قانون کے مطابق سرکاری عہدہ نہیں لے سکتی ، اسی طرح گورنرسندھ کا بھی یہی معاملہ رہا کہ برطانوی شہریت اور الطاف کے ساتھ تعلقات بحال رہنے کے باوجود وزیر اعظم کیلئے مسائل پیدا ہوچکے تھے ۔ اس لئے انھوں نے پنامہ لیکس کا معاملہ عدالت میں جانے ، متنازع خبر پر کمیشن بنا کر اور ان ڈاکٹر عشرت العباد کو محفوظ راستہ دے کر مقتدور حلقوں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اب یقینی طور پر گورنر سندھ پاکستان میں نہیں رہیں گے بلکہ لندن اپنی ایجوئر میں واقع ملکیت مینشن میں رہیں گے۔

    جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کی حوالے سے کوئی جماعت کسی قسم کا بھی تحفظات کا اظہار کرے ، لیکن نواز شریف حکومت کو گورنر تعینات کرنے کا استحقاق حاصل ہے ۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے عہدے داران و لیگوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگیا ہے ، اب ان کے لئے گورنر ہائوس کے دروازے کھل جائیں گے ، اور سندھ کی سیاست میں مسلم لیگ ن کا کردار اب حقیقی معنوں میں شروع ہوگا ۔ کیونکہ اس سے قبل سندھ میں مسلم لیگ ن کا واضح کردار نہیں تھا ، جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی محاذ آرائی سے گریز کریں گے ، مسلم لیگ ن کے گورنر ہونے کی حیثیت سے اب کراچی میں لیگی کارکنان میں ایک جوش و خروش پیدا ہو چکا ہے اور انھوں نے کافی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے نئے گورنر کے ساتھ چلنا فی الوقت کافی صبر آزما ہوگا ۔ لیکن اختیارات کا منبع چونکہ وزیر اعلی ہوتا ہے اس لئے انھیں گورنر سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا ۔تاہم سندھ کی صوبائی سیاسی صورتحال میں بتدریج تبدیلی واقع ہوگی ۔ ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور پی ایس پی کیلئے اب گورنر کارڈ کھیلنا ختم ہوگیاہے۔ سندھ میں اب ایک سیاسی دور شروع ہوگا۔

  • روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    روشن خیالی کے شاخسانے-ڈاکٹر صفدر محمود

    Safdar Mahmood

    موضوع قدرے سنجیدہ اور علمی نوعیت کا ہے امید ہے آپ اسے برداشت کرلیں گے کیونکہ مقصد قارئین کی ذہنی تربیت بھی ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل روشن خیالی کا بڑا چرچا ہے جو میرے نزدیک مذہبی شدت پسندی بلکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ردعمل ہے۔ ردعمل کے اپنے تقاضے اور اپنی قوت ہوتی ہے جو کبھی کبھی اسے بے لگام بھی کر دیتی ہے۔ اس صورتحال نے ہمارے ہاں روشن خیالی کی تحریک کو ابھارا ہے جو اپنے طور پر خوش آئند پیش رفت ہے بشرطیکہ یہ روشن خیالی مادر پدر آزادی کی علمبردار نہ ہو اور مذہبی و اخلاقی روایات سے فرار کا ملفوف ایجنڈا نہ ہو یہ کشمکش تاریخ کا حصہ ہے اور دنیا کے ہر معاشرے کو کسی نہ کسی منزل پر اس کشمکش سے گزرنا پڑا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اجتہاد کو اسلام کی روح اور بقا کا راز قرار دیا تاکہ اسلام زندگی کے بدلتے تقاضوں کا ساتھ دے سکے اور اجتہاد کے لئے بنیادی اصول بھی واضح کر دیا۔ وہ اصول ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت کی حدود کے اندر جائز ہے اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے انحراف کرنے والا اجتہاد قابل قبول نہیں۔

    ہمارے ہاں روشن خیالوں کے نمایاں دو گروہ ہیں اول وہ جو اپنی روشن خیالی کو اسلامی و دینی حدود کا پابند سمجھتے ہیں اور دوم وہ جو روشن خیالی کو ان حدود سے ماورا سمجھتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک ڈاکٹر صاحب کو دوبار ٹی وی پروگراموں میں یہ کہتے سنا کہ ہمیںمذہبی احکامات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہئے اس طرح کی روشن خیالی الحاد کی حدوں کو چھوتی ہے چنانچہ اس سے وہی لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے بالاتر آزادی کے طلب گار ہیں۔ یہ لوگ اسے روشنی کہتے ہیں جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے تاریکی اور الحاد کہتا ہے کیونکہ جہاں مذہب کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے الحاد کی راہیں کھلتی ہیں ان حضرات کے نزدیک ہر قسم کی قانون سازی اور آزادی روشن خیالی کی راہیں کھولتی ہے جن میںجنسی آزادی، ہم جنس پرستی، پینے پلانے وغیرہ کی آزادیاں بھی شامل ہیں۔ کچھ اس کا کھلے الفاظ میں کچھ دبے انداز میں اور کچھ ملفوف انداز میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ چند ایسے مسلمان ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں جہاں ان کے بقول مساجد کے ساتھ ساتھ مے خانے، قحبہ خانے اور ناچ خانے بھی موجود ہیں جبکہ دین دار روشن خیالوں کا بہانہ یہ ہے کہ ایسی مثالیں ہمارا رول ماڈل نہیں، ہمارا رول ماڈل اسلامی معاشرہ ہے جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار کی جاتی ہیں

    دینی حدود سے ماوراء روشن خیالی کے مکتبے سے ایک ماڈ ریٹ روشن خیال طبقے نے جنم لیا ہے جو باقاعدہ یہ تحریک چلا رہا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ اور عقیدہ ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یعنی مذہب اور سیاست زندگی کے الگ الگ خانے یا شعبے ہیں اس بیانیہ کی تہہ میں وہی خواہش پوشیدہ ہے کہ ملکی نظام کو انہی اصولوں سے آزاد کروا کر ہر قسم کی آزادی حاصل کی جائے مذہب اور سیاست کو ا لگ الگ سمجھنے والے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے ورنہ تو ایسا بیانئے ہی جاری نہ کریں ان کو اگر سمجھا یاجائے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور میں تو سیاست اسلامی اصولوں کے تابع تھی اور اسلامی ریاستی زندگی کا حصہ تھی تو وہ اجتہاد کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ ہر اسلامی ملک میں سیاست مذہبی اصولوں کے تابع ہوتی ہے ان اصولوں سے ماورا نہیں۔ یہ روشن خیال گروہ اپنی فکر یا بیانئے کا جواز دو حوالوں سے دیتا ہے۔

    اول اقلیتوں کے حقوق دوم دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر قتل و غارت۔ مشکل یہ ہے کہ مغرب کے فریب میں مبتلا ان حضرات نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ اسلامی نظام حکومت میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ رہی مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی یا فرقہ واریت تو اسلام ان کی نفی کرتا ہے اور قرآن مجید تفرقہ پھیلانے والوں کو سختی سے منع کرتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت بنیادی طور پر عالمی سیاست کا شاخسانہ ہیں اور ہم اپنے حکمرانوں کی کم بصیرتی اور عالمی قوتوں کی غلامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ملک اور اس خطے میں دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت روس کی افغانستان میں آمد کے بعد شروع ہوئی جب گرم پانیوں تک روسی یلغار کے خطرے کو روکنے کے لئے شروع کیا گیا جس میں بعض برادر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ چنانچہ ضیاء الحق کے دور میں جہادی کلچر کوکھلی چھٹی دے دی گئی اور دنیا بھر کے ممالک سے جہادی گروہوں کو خوش آمدید کہا گیا۔ شیعہ سنی فسادات اوردہشت گردی کے پس پردہ عالمی قوتیں تھیں جنہوں نے اپنے مقاصد کے لئے دولت اور اسلحہ دے کر ہمارے بعض مذہبی گروہوں کو استعمال کیا۔

    چاہئے یہ تھا کہ افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد غیر ملکی جہادیوں کو واپس بھجوا دیا جاتا اور ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جاتا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ امریکہ نے افغانستان پر حملوں کی بارش کردی۔ ان گروپوں اور نیٹ ورکوں کا امریکہ پر تو بس نہیں چلتا تھا، انہوں نے انتقام لینے کے لئے پاکستان کو نشانہ بنایا اور دہشت گردی کا جال پھیلا دیا، ہندوستان نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت کا تعلق مذہب سے جوڑ کر مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دینا اور قومی و سیاسی زندگی سے الگ کر دینا جائز نہیں۔ کچھ معصوم دانشور قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے یہ مطلب نکالتے ہیں حالانکہ اس تقریر کی روح فقط یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کوبرابر کے حقوق ملیں گے، مذہب کسی بھی شہری کی زندگی میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔

    آخر یہ دانشور قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر سے اس تقریر کو الگ کر کے کیوں پڑھتے ہیں؟ خود قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی قوم کے لئے براڈ کاسٹ میں پاکستان کو پرائمر اسلامی ریاست قرار دے کر بحث کے دروازے بند کردیئے تھے۔ پاکستان و ہند کے مسلمانوں میں علامہ اقبال سے بڑا مفکر پیدا نہیںہوا۔انہیں مفسر قرآن کا مقام حاصل ہے۔ ذرا دیکھئے وہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کے حوالے سے اپنے مشہور عالم خطبہ الٰہ آباد 1930ء میں کیا کہتے ہیں ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے اجزاء ہیں…. کیا واقعی ہی مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ آپ چاہتے ہیں ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا وہی حشر ہو جو مغرب میں مسحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے توبر قرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کرلیں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا…. اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نظام سے الگ نہیں۔ میں نہیں سمجھتا کوئی مسلمان ایک لمحے کے لئے بھی ایسے نظام سیاست پر غور کرنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اسلام کے اصولوں کی نفی کرے‘‘۔ (اقبال کا خطبہ الٰہ آباد)
    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

  • ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    ٹرمپ نے وہ کہا جو اوبامہ اور بش نے ہمارے ساتھ کیا-انصار عباسی

    Ansar-Abbasi-1

    تجزیے، سروے، پیشن گوئیاں اور اندازے سب ہار گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔ امریکیوں نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا جس کے بارے میں امریکا میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک متعصب، منفی، بدکردار اور بدزبان شخص ہے جو مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے اور اگر ایسا شخص امریکی صدر بن گیا تو امریکا میں اقلیتوں کے لیے خطرہ ہو گا اور وہاں شدت پسندی زور پکڑے گی۔ پی پی پی کی رہنما شیری رحمان سمیت ہمارے کچھ لوگوں کی رائے میں امریکا ٹرمپ کی جیت کے بعد مایوسی کی حالت میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی اکثریت نے ایک ٹرمپ کو اُس کی تمام تر خرابیوں کے ساتھ اپنا صدر منتخب کیا اور وہ اس انتخاب پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں بہت سو لوگ صدمہ میں ضرور ہیں۔ اُن کے لیے ہیلری کلنٹن تو جیسے پاکستان کی کوئی اپنی امیدوار تھیں اور ٹرمپ کوئی دشمن۔ چند ہفتوں پہلے میں نےسوشل میڈیا میں امریکی صدارتی امیدواروں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف اُس سے زیادہ کیا کچھ کر سکتا ہے جو خصوصاً 9/11 کے علاوہ بش اور ابامہ نے کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل و غارت بش اور ابامہ کے ادوار میں ہوا۔

    ٹرمپ اس سے زیادہ بُرا کیا کرے گا۔ ٹرمپ سے پہلے امریکا نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں تباہی و بربادی پھیلا دی جس میں ہمارے ـ’’اپنی‘‘ ہیلری کلنٹن کا بھی ان جرائم میں اہم حصہ رہا۔ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ دھوکہ دیا، استعمال کیا۔ 9/11 کے بعد ہمارے ملک کو دہشتگردی کا نشانہ بنوایا، یہاں ڈرون حملے کیے اور سینکڑوں افراد بشمول عورتوں اور بچوں کو مارا، ایبٹ آباد حملہ کیا، سلالہ میں ہمارے کئی فوجیوں کو شہید کیا، پاکستان میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کے نیٹ ورک کو مضبوط کیا اور یہاں افراتفری پھیلانے کا سامان پیدا کیا۔ اب ٹرمپ اس سے زیادہ پاکستان کو کیا نقصان پہنچائے گا۔ تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیری مزاری نے کیا خوب کہا کہ ہیلری وہ شیطان ہے جسے ہم جانتے ہیں جبکہ ٹرمپ وہ شیطان ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ خاص بات یہ کہ دونوں (ہیلری اور ٹرمپ)پاکستان ہو یا مسلمان اُن کے خیر خواہ نہیں۔ ٹرمپ اور دوسروں میں جو فرق ہے وہ صرف اتنا کہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت اُس کی زبان پر ہے جبکہ دوسروں نے اپنے اندر چھپا کر رکھی ہے۔ اس لیحاظ سے تو ٹرمپ دوسروں سے بہتر ہے کیوں کہ جو اُس کے دل میں ہے وہ اس کی زبان پر بھی ہے۔ٹرمپ اپنی زبان سے مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کوامریکا میں داخل نہیں ہونے دے گا، وہ کہتا ہے کہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام پر سخت نظر رکھے گا تا کہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں نہ جائے اور یہ بھی کہ وہ ہندوٗں اور بھارت کا دوست ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ ابامہ اور بش نے اپنے اقدامات سے ثابت نہیں کیا۔

    نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان کے اندر دہشتگردی کی لعنت کو دھکیلا۔ پاکستان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ پہلے افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اب مکمل طور پر اپنا جھکائو بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف کر دیا۔ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو شک کی نظر سے ہی امریکا دیکھتا رہا جبکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف نیوکلئیر انرجی تعاون کا معاہدہ کیا بلکہ اُسے نیوکلئیر سپلئیرز گروپ میں شامل کرنے کے لیے اپنی مہم چلا رہا ہے۔ جو کچھ ابامہ اور ہیلری نے بھارت کے لیے گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا اُس کو ٹرمپ نے زبان دی۔ ہاں اس الیکشن میں جیت سے امریکیوں کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا جس پر ٹرمپ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے۔ امریکیوں کے بارے میں اب بہت سوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ وہ بہت شاندار اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ امریکی ووٹرز نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ امریکی انتظامیہ کے مسلمان اور اسلام مخالف تعصب اور پالیسیوں کا امریکی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ امریکی لوگ تو بڑے غیر متعصب ہوتے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتنے کے بعد کیا کریں گے اس پر بحث بعد میں ہو گی لیکن اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ اُن کی جیت نے امریکی ووٹرز کے اندر کے بغض خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو سب پر ظاہر کر دیا۔

    میری ذاتی رائے میں جو امریکا میں ہوا وہ اچھا ہوا۔ ٹرمپ کی جیت امریکا کو اُسی طرح کمزور کرسکتی ہے جس طرح Brexit کے نتیجے میں برطانیہ اور یورپ کو خطرات کا سامنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کمزور امریکا اور منقسم یورپ مسلمانوں پر پہلے جیسا ظلم ڈھانے کے قابل نہیں ہوں گے اس لیے امریکی الیکشن نتائج اور Brexit سے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس ماحول میں مسلمانوں کو بھی ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے، اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کوتاہیوں کو دور کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہم امریکا و یورپ کی غلامی میں ہی اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے دھوکہ میں پڑے رہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک آپس میں تعاون اور رابطوں کو بڑھائیںتاکہ غیروں کی سازشوں کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔

  • سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    سڑکوں کو سپریم کورٹ بنا دیں-جاوید چوہدری

    566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480

    آپ پرسوں کی مثال لے لیجیے‘ پولیس نے کراچی میں دو لوگ گرفتار کر لیے‘ ایک پر اختلافی تقاریر کا الزام تھا اور دوسرے پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا‘ گرفتاری سے اگلے دن پچاس ساٹھ لوگ ملیر میں اکٹھے ہوئے اور نیشنل ہائی وے بند کر دی‘ آدھ گھنٹے میں ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہو گئیں‘ ریلوے کی مین لائین بھی قریب تھی‘ پاکستان ایکسپریس گزری‘ ہجوم نے ٹرین پر پتھراؤ شروع کر دیا‘ انجن کے شیشے ٹوٹ گئے‘ ٹرینوں کی آمدورفت بھی رک گئی‘ ہجوم کی وجہ سے دکانیں‘ پٹرول پمپس اور گھروں کی کھڑکیاں دروازے بھی بند ہو گئے۔

    پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کیے لیکن وہ ملزمان کی باعزت رہائی کے بغیر سڑک کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ عوام اس دوران دفتروں اور گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے‘ نیشنل ہائی وے پر سو کلو میٹر تک ٹریفک بلاک تھی‘ اسکول وینیں بھی پھنس گئیں اور ایمبولینسز بھی سٹک ہو کر رہ گئیں‘ مسافروں کی فلائیٹس بھی مس ہو گئیں اور نوکری کے لیے انٹرویو دینے والے انٹرویو بھی نہ دے سکے‘ ڈیلیوری ٹرک بھی پھنس گئے اور ٹرالر اور کنٹینر بھی الجھ گئے‘ ہزاروں گاڑیوں نے لاکھوں ٹن دھواں پیدا کیا اور یہ مہلک دھواں بھی آبادیوں کے پھیپھڑوں میں جذب ہو گیا‘ میڈیا پہنچا اور اس نے عوام کو لائیو تھیٹر دکھانا شروع کر دیا۔

    یہ سلسلہ ساڑھے آٹھ گھنٹے چلتا رہا‘ پولیس نے اس دوران تین بار مذاکرات کیے لیکن یہ تینوں مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے‘ پولیس نے 13 گرفتار مظاہرین بھی سڑک کی ایک لین کھولنے کی شرط پر رہا کر دیے مگر احتجاجیوں نے رہائیوں کے باوجود سڑک نہ کھولی یہاں تک کہ ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج پر مجبور ہو گئی‘ شیلنگ کی دیر تھی‘ مظاہرین بھاگ کر گلیوں میں غائب ہو گئے‘ پولیس نے پیچھا کیا‘ چند نوجوانوں نے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا مگر یہ سلسلہ بھی ایک آدھ گھنٹے میں ختم ہو گیا‘ تاہم پولیس کو ٹریفک بحال کرنے میں چار گھنٹے لگ گئے‘ ساڑھے آٹھ گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹرینیں بھی بحال ہو گئیں لیکن اس دوران لوگوں کو جو کوفت‘ پریشانی اور تکلیف ہوئی‘ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

    یہ کیا ہے؟ یہ اس ملک کے ایک شہر کا ایک دن کا ایک واقعہ ہے‘ آپ اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا ملک کی تمام بڑی سڑکیں چیف جسٹس‘ آئی جی‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور پارلیمنٹ بن چکی ہیں‘ ملک میں جب بھی جس کا بھی دل چاہتا ہے یہ سڑک پر لاش رکھ کر ٹریفک بلاک کر دیتا ہے‘ یہ دو ٹائر لاتا ہے‘ سڑک کے درمیان رکھتا ہے‘ آگ لگاتا ہے اور نامنظور‘ نامنظور‘ گو‘ گو کے نعرے لگانے لگتا ہے اور یوں چند سیکنڈ میں بیچارے شہری اپنے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں‘ مریض ایمبولینس میں مر جاتے ہیں‘ مسافر فلائیٹس سے رہ جاتے ہیں‘ بچے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے‘ دفتر جانے والے دفتر‘ گھر جانے والے گھر اور مارکیٹ جانے والے مارکیٹ نہیں پہنچتے اور لوگ نوکریوں‘ امتحانوں اور ڈاکٹروں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

    آپ کسی دن شہر کی کسی مرکزی سڑک پر نکل جائیں آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی تماشا ضرور ملے گا‘ لوگوں کو پولیس تنگ کرتی ہے تویہ مرکزی سڑک پر سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں‘ لوگ جج تک اپنی فریاد پہنچانا چاہتے ہیں تویہ سڑک پر لیٹ جاتے ہیں اور یہ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں‘ یہ اپنی کچی نوکری کو پکا کرنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنے پے اسکیل کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اگر اپنے مریض کا بروقت آپریشن کرانا چاہتے ہیں تو یہ شہر کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے‘ میڈیا آئے گا‘ کیمرے اور مائیک لگیں گے اور ان کا کام ہو جائے گا لیکن ان کے کام کی وجہ سے جن ہزاروں لوگوں کو تکلیف پہنچی وہ کہاں جائیں‘ وہ کہاں فریاد کریں‘ یہ شاید ان لوگوں کا مسئلہ نہیں‘ عام لوگ خواہ جہنم میں چلے جائیں ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    آپ لاہور کی مال روڈ کو دیکھ لیجیے‘ یہ روڈ دس برسوں سے احتجاج کا شکار ہے‘ یہ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور اساتذہ کی احتجاج گاہ بن چکی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ‘ فیض آباد‘ ایکسپریس وے اور فیصل ایونیو بھی اکثر کسی نہ کسی دھرنے کا ہدف رہتی ہے‘ کراچی کی نیشنل ہائی وے اور شاہراہ فیصل پر بھی ٹائر جلتے بجھتے رہتے ہیں‘ کوئٹہ میں لاشیں سڑکوں پر رکھنے کا رواج عام ہے اور آپ اگر ذرا سی ریسرچ کریں گے تو آپ کو پشاور کی سڑکیں بھی احتجاج کا شکار نظر آئیں گی‘ آپ کسی دن جی ٹی روڈ کا جائزہ بھی لے لیں آپ کو یہ بھی جگہ جگہ سے بند ملے گی‘ آپ کو اس کے کسی نہ کسی پورشن پر کوئی نہ کوئی دھڑا قابض نظر آئے گا‘ یہ کیا ہے‘ یہ کیوں ہے اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں‘ کیسے؟

    کیا یہ سچ نہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف علی زرداری تک پاکستان پیپلزپارٹی نے تمام بڑی سیاسی کامیابیاں سڑکوں پر حاصل کیں‘ بھٹو کا سیاسی کیریئر ٹرین سے شروع ہوا تھا‘ یہ ایوب خان کی کابینہ سے نکلنے کے بعد ٹرین میں سوار ہوئے‘ ہر ریلوے اسٹیشن پر تقریر کی اور لاہور پہنچتے پہنچتے لیڈر بن گئے‘ اس دن ریلوے کا سارا شیڈول خراب ہو گیا تھا‘ ٹرینیں پانچ پانچ گھنٹے لیٹ تھیں‘ ایوب خان کے خلاف پوری تحریک سڑکوں پر پروان چڑھی‘ مشرقی پاکستان بھی سڑکوں پر بنگلہ دیش بنا‘ بھٹو کے خلاف تحریک نے بھی سڑکوں پر جنم لیا۔

    جنرل ضیاء الحق کو بھی سڑکوں نے الیکشن کرانے پر مجبور کیا‘ میاں نواز شریف کو بھی سڑکوں نے صنعت کار سے سیاستدان بنایا‘ بے نظیر بھٹو بھی سڑکوں کے ذریعے مشرق کی بیٹی بنی‘ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی سڑکوں پر پروان چڑھی‘ جنرل مشرف کا یونیفارم بھی سڑکوں نے اتارا‘ آصف علی زرداری بھی سڑکوں کے ذریعے دبئی منتقل ہوئے‘ عمران خان کو بھی سڑکوں نے قائد تبدیلی بنایا اور میاں نوازشریف بھی اب سڑکوں کی وجہ سے پانامہ کے شکنجے میں آئے ہیں لہٰذا عوام جب یہ دیکھتے ہیں ہمارے سیاستدان سڑکیں‘ ریلوے ٹریک اور شہر بند کر کے عظیم قائدین بن جاتے ہیں۔

    یہ سڑک سے وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر پہنچ جاتے ہیں تویہ بھی سڑکوں کو امرت دھارا مان لیتے ہیں‘ یہ بھی فیل ہونے کے بعد سڑک بلاک کرتے ہیں اور پورا امتحانی نظام تبدیل کرا دیتے ہیں‘ یہ سڑک بلاک کر کے کچی نوکریوں کو پکا کرا لیتے ہیں‘ یہ اپنی تنخواہیں بڑھا لیتے ہیں‘ یہ اپنی معطلی ری ورس کرا لیتے ہیں‘ یہ ایس ایچ او‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کو فارغ کرا دیتے ہیں‘ یہ قاتل کو گرفتار کرا دیتے ہیں اور یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس پر مجبور کر دیتے ہیں‘ عوام سمجھتے ہیں سڑکیں ہماری عدالت‘ پولیس اسٹیشن‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم‘ صدر اور پارلیمنٹ ہیں‘ عوام کے یہ خیالات غلط بھی نہیں ہیں۔

    ملک میں جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ سڑکیں کریں گی اور جب الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن اور پانامہ لیکس پر لارجر بینچ سڑکیں بنوائیںگی تو پھر عوام انصاف کے لیے لاشیں سڑکوں پر کیوں نہیں رکھیں گے‘ یہ تنخواہوں میں اضافے کے لیے سڑکیں بلاک کیوں نہیں کریں گے اور یہ پے اسکیل‘ نوکری کی بحالی اور مستقل ملازمت کے لیے سڑکوں پر پٹیشن دائر کیوں نہیں کریں گے ‘یہ ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے۔

    ہمارے پاس اب دو آپشن بچتے ہیں‘ ہم سڑکوں کو اپنا آئین‘ قانون‘ ضابطہ‘ عدالت‘ سسٹم اور اقتدار اعلیٰ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ آئیں‘ یہ جتنی دیر سڑک بلاک رکھ سکیں ‘ یہ جتنے لوگوں کو بنیادی حقوق‘ سکون اور آرام سے محروم کر سکیں ان کے اتنے مطالبات مان لیے جائیں‘ انھیں اتنا انصاف دے دیا جائے یا پھر ہم یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

    سپریم کورٹ حکم جاری کرے ملک کا جو بھی شہری‘ لیڈر یا ادارہ کوئی مرکزی شاہراہ بند کرے گا ریاست اسے مجرم سمجھے گی‘ یہ اس کے خلاف پوری فورس استعمال کرے گی‘ یہ اس سے املاک اور شہریوں کی تکلیف کا ہرجانہ بھی وصول کر ے گی اور جو شخص ہجوم کو لیڈ کرے گا وہ سرکاری عہدے کے لیے ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کرے حکومت ملک میں درجن بھر تحریر اور تقسیم اسکوائر بنا دے‘ عوام نے جتنا احتجاج کرنا ہے یہ وہاں جا کر کریں لیکن انھیں سڑک بلاک کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا‘ یہ راستہ نہیں روک سکیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان یہ کام بہت آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ ایک حکم جاری کریں گے اور عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا اور اگر چیف جسٹس کے پاس وقت نہیں ہے تو پھر یہ مہربانی فرما کر سڑکوں کو سپریم کورٹ کا درجہ دے دیں‘ یہ شاہراہوں کو فل بینچ ڈکلیئر کر دیں‘ لوگ سڑکوں پر آئیں اور اپنے فیصلے کرا لیں‘ نہ وکیل کا خرچہ اور نہ تاریخ پر تاریخ‘ بس دو ٹائر جلیں‘ دس گھنٹے ٹریفک بلاک ہو اورلوگوں کے مطالبات منظور ہو جائیں‘ بات ختم‘ انصاف ہو گیا۔

  • اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست، معاشرے میں موجود تضادات، تعصبات،گروہی اختلافات حتیٰ کہ ذاتی اور خاندانی دشمنیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا نام جمہوریت ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے کو دو یا دو سے زیادہ انتہاؤں میں تقسیم نہ کر دیا جائے جمہوری نظام کا پودا ثمر آور نہیں ہو سکتا۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی تعصبات جمہوری طرز سیاست میں کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔ اگر معاشرے میں نظریاتی اور اعلیٰ انسانی مقاصد کے حصول کی سوچ میں اختلاف رکھنے والے اکثریت میں ہوں گے تو انتخابات اور پارٹی سیاست میں بھی ویسی ہی سوچ غالب رہے گی۔

    ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بےلگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں، وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔

    گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے، وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کو ایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔

    امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں، انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔

    دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ’’مُلا‘‘ کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا، لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب کو اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔

    بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جبکہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔

    امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر  پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ”Existance of Endurance” ’’یعنی برداشت کا وجود‘‘ قرار دیتی ہے۔

    اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ’’تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔ تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہے کہ ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ’’امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ‘‘ لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا  شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔

  • سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    سراج الحق:اقبال کا مردِ کوہستانی-ڈاکٹرحسین احمد پراچہ

    Hussain

    سینیٹر سراج الحق نے اپنی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ یہ دلچسپ داستان دردانگیز بھی ہے اور فکرانگیز بھی۔ ان کی داستان حیات پڑھتے ہوئے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے خودی، خودداری، خوئے دلنوازی، خوش خلقی، دلداری، فقیری میں شاہی اور شاہی میں فقیری اور راہبری و راہنمائی کا درس کلام اقبال سے لیا ہے۔ اقبال کی شاعری آفاقی بھی ہے اور ایمانی بھی۔ ان کے سارے اعجاز کلام کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کو ان کے رخشندہ و تابندہ ماضی سے روشناس کرانا اور جوانوں کو مسلمانوں کا سنہری دور یاد دلا کر انہیں اس تابناک ورثے کی طرف بلانا ہے۔ اسی لئے تو علامہ فرماتے ہیں۔

    کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

    امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے ملاقات ہو تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایک کھرا اور سچا انسان ہے جسے تصنع اور بناوٹ چھو کربھی نہیں گزری۔ اس میں احساس کمتری ہے اورنہ ہی وہ احساس برتری کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں کو یاد کر کے مسکراتا اور اپنی کامیابیوں پر کبھی نہیں اتراتا۔ سراج الحق نے صوبہ خیبرپختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلع دیر کے ایک گائوں میںابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت ننھے منے سراج الحق کے پاس اسکول کتابیں لے جانے کے لئے بستہ نہیں تھا اور یہی سراج الحق 2002میں جب متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اپنے صوبے کا وزیر مالیات بنا تو اس نے اپنی کیبنٹ اور اسمبلی سے پہلا حکم یہ پاس کروایا کہ اب اس صوبے کے پرائمری اسکول جانے والے ہر بچے کی کتابیں اور بستے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت دے گی تاکہ آج کا کوئی سراج الحق بستہ نہ ہونے کی بنا پر افسردہ و غمزدہ نہ رہے۔ سراج الحق نے ایم ایم اے کے دور حکومت میں ایسی ہی عوام دوست پالیسیاں بنائیں۔ دوسری بار 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد ہوا ایک بار پھر صوبائی وزیر مالیات کا قلمدان سراج الحق کے سپرد کیا گیا۔ ان کے دوست تو دوست ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی دیانت و امانت کی قسم کھاتے ہیں۔ ان کے دونوں ادوار حکومت اور اب جماعت کی امارت میں ہر وقت ان کے مداحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ اس ہجوم کا سبب بھی پیر و مرشد علامہ اقبال بیان فرما گئے ہیں؎

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مرد خلیق

    سراج الحق پیر مغاں تو نہیں مگر مرد خلیق ضرور ہیں۔
    ان کی شخصیت کلام اقبال اور فکر مودودی کا دلنواز مجموعہ ہے۔ یہ غالباً اسی خوش خلقی اور دلنوازی کا کرشمہ تھا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران جماعت اسلامی نے دو بڑے بھرپوراجتماع کئے۔ ایک اضاخیل نوشہرہ خیبرپختونخوا میں منعقد ہوا کہ جس میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر ہونے والے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ افراد موجود تھے۔ اس اجتماع عام کی خاص بات یہ تھی کہ قدامت پسند اقدار کے حامل صوبے سے بھی ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کا دوسرا اجتماع چند روز پہلے لاہور میں منعقد ہوا جس میں صرف جماعت اسلامی پنجاب کے مرد ارکان و کارکنان نے شرکت کی۔ یہ تعداد بھی بیس ہزار سے کیا کم ہوگی۔ جناب سراج الحق نے اخباری دنیا کو اجتماع کی کارروائی دیکھنے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ؎

    دیدہ کے بود مانند شنیدہ

    فی الواقع جماعت اسلامی کے اجتماعات نظم و ضبط اور باہمی ایثار کے اعتبار سے مثالی ہوتے ہیں۔میں لاہور کے اجتماع میں تھوڑی دیر کے لئے ہی جاسکا۔ جب میں پنڈال میں پہنچا تو سینیٹر سراج الحق ہی خطاب کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ ہمیں منتخب کریں گے تو پھر آپ کو گلیوں محلوں میں گیٹ لگانے، اپنے چوکیدار مقرر کرنے، ٹھیکری پہرہ دینے اور راتوں کو جاگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر آپ گہری پرسکون نیند سوئیں گے اور ہم پہرہ دیں گے۔ لوگ جماعت اسلامی کی بات غور سے سنتے ہیں اور ان کے پاکستان میں ستر سالہ ماضی کو دیکھ کر ان کی ہربات پر یقین بھی کرتے ہیں مگر انتخاب کے وقت انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ عوام الناس سے پوچھیں کہ آپ سچے اور کھرے نمائندوں کو ووٹ کیوں نہیں دیتے تو ان کے جواب کا مفہوم بقول غالب یہ ہوتا ہے؎

    جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی

    جماعت اسلامی کے زعماء سے پوچھیں کہ جماعت کو عوامی پذیرائی کیوں نہیں ملی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دروازے عوام کے لئے کھلے ہیں۔ جماعت کے دروازے تو یقیناً کھلے ہوں گے مگر ان دروازوں پر اتنے ’’پہریدار‘‘ بیٹھے ہوتے ہیں کہ بیچارے عوام اندر آتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ شاید لوگوں کو جماعت کے کڑے تنظیمی مدارج سے ڈر لگتا ہے۔ جماعت اسلامی گہرے غور و فکر سے کام لے اور سوچے کہ ترکی، تیونس اور مصر وغیرہ میں اسلامی تحریکوں نے اپنے سیاسی چراغ فکر مودودی سے روشن کئے ہیں مگر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی چراغ میں روشنی کیوں نہیں۔ جناب سراج الحق کی قیادت میں جماعت اپنی سیاسی و انتخابی تاریخ کا بنظر عمیق جائزہ لے کہ ہر معاملے میں حقیقت پسندی کے باوجود جماعت اسلامی 1970 سے لے کر 2013 تک انتخابی تخمینے میں خوش گمانی کا کیوں شکار ہو جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کو جناب سراج الحق کی صورت میں ایک ایسی قیادت ملی ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا تھا؎

    تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
    حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
    دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرمائے
    فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

    احساس زیاں ایک بڑی دولت ہے اور سراج الحق اس لحاظ سے ایک بہت دولت مند شخص ہے۔ انہوں نے اپنی کہانی اپنی زبانی میں نہایت فراخدلی سے 2002 میں بننے والی متحدہ مجلس عمل کو بہت سراہا ہے۔ پھر نہ جانے کیوں جماعت نے ایم ایم اے سے کٹی کرلی۔ غالباً اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب جماعت دوسرے ممالک میں کامیاب اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے تنظیمی اور سیاسی شعبوں کو الگ الگ کرے اور عوام کے لئے حقیقی معنوں میں اپنے دل کے دروازے کھول دے۔ جماعت اسلامی انتخابی تخمینے میں خوش خیالی کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لے۔ اگر متحدہ مجلس عمل کا ماڈل کامیاب تھا تو اس کے دوبارہ احیاء میں تردد کیوں؟ جماعت اسلامی کو نئی سیاسی و انتخابی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں اقبال کا مرد کوہستانی سینیٹر سراج الحق کلیدی ہی نہیں انقلابی کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے برحق کہا تھا؎

    فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
    یا بندئہ صحرائی یا مردِ کوہستانی

  • انہیں ان پڑھ ہی رکھئے-مریم گیلانی

    انہیں ان پڑھ ہی رکھئے-مریم گیلانی

    Maryam Gilani

    لائوژو نے کہا تھا کہ ”اگر آپ کی سمت درست نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کے سفر کا اختتام وہیں ہو جہاں سے آپ نے اس کا آغاز کیا تھا۔” لائوژو کی بات درست تھی۔ اس کا احساس جانے کیوں ہر روز ایک نئی صورت میں ہوتاہے۔ پاکستان کی منزل کیا ہے اس کا فیصلہ تو شاید ہم اب تک نہیں کرسکے۔ ہر پالیسی بنانے والے کے ‘ حکومت کرنے والے کے اپنے خواب ہیں اور وہ اپنے خوابوں کی مرضی کی ہوا کا رخ اس کشتی کے بادبان کو دینا چاہتا ہے اور پھر اس ملک کے لوگ ہیں۔ ان کے اپنے خواب ہیں’ اپنی خواہشات ہیں اور اس سب کا حاصل۔ اک الجھن’ بے چینی’ سراسیمگی اور کون جانے اس میں ہمارے خواب کہاں دھول میں جا ملتے ہیں۔ ہم کن پریشانیوں کے دھاگوں میں الجھ جاتے ہیں۔ہم نے آج تک اپنا راستہ تلاش نہیں کیا۔ ہم اپنا راستہ تلاش کر نہیں سکتے کیونکہ راستہ تلاش کرنے کے لئے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ روشنی علم سے حاصل ہوتی ہے اور ہم تو اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے’ حکومت کرنے والے دونوں ہی اس بات کو نظر انداز کئے چلے جاتے ہیں۔

    شاید اس لئے کہ لوگوں کا شعور بیدار ہونا شروع ہوگیا تو ان لوگوں کے لئے مشکلات ہونے لگیں گی جو ابھی تک اسی گمراہی کے گھوڑے پر سواری کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جس کی معیشت کی مضبوطی کی داستانیں سناتے حکمران تھکتے نہیں۔ لوڈشیڈنگ آدھی کرنے کا اعلان بھی اس جانب اشارہ کرے گا کہ موجودہ حکمرانوں نے وہ کمال کر دکھایا ہے جو ایک عرصے سے فوجی آمر بھی نہ کرسکے تھے اور ہم بے چارے ان پڑھ لوگ ان کے بتائے ہوئے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھ کر رہ جائیں گے۔

    ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اعداد و شمار کے مطابق بارہ ہزار فرضی سکول ہیں جن میں سے پانچ ہزار فرضی سکول سندھ میں ہیں جبکہ قریباً ایک سے ڈیڑھ ہزار فرضی سکول بلوچستان میں ہیں۔ بقیہ تعداد پنجاب اور خیبر پختونخوا کے فرضی سکولوں پر مشتمل ہے۔ نحیف اندازے یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں قریباً 40ہزار فرضی استاد بھی ہیں جن میں سے پندرہ ہزار فرضی استاد تو صرف صوبہ بلوچستان کے اعداد و شمار میں شامل ہیں۔ پورے پاکستان میں 20ملین بچے تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں جن میں سے ایک ملین سے زائد تو صرف بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا آئین اپنے باشندوں کے تعلیم کی حق کی بات کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25-A تعلیم تک مفت رسائی کو پاکستان کے ہر شہری کا حق سمجھتا ہے۔ پنجاب میں 460 سکولوں کی عمارتیں ایسی ہیں جو تعلیم کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔بلوچستان میں 900عمارتیں ایسی ہی ہیں اور تین لاکھ طالب علموں کی جعلی رجسٹریشن ان 900 عمارات کے ضمن میں موجود ہے۔ ملک کے کل بجٹ میں سے 84 بلین تعلیم کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ رقم کل بجٹ کا بمشکل دو فی صد ہے۔ بچے کیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں’ تعلیم حاصل کرتے بھی ہیں یا نہیں حکومت اس بارے میں چنداں فکر مند نہیں۔ وہ تو اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اور عوام کو بھی انہی الجھنوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ اس پریشانی کا شکار ہیں کہ شریف فیملی عدالت عالیہ میں کیا جوابات جمع کروا رہی ہے۔ اپنے اثاثہ جات کی کیا توجیہہ بیان کر رہی ہے۔ عمران خان عدالت میں موجود ہیں تو تسبیح پر کیا پڑھ رہے ہیں اور عدالت کے رد عمل پر کیسا محسوس کرتے ہیں۔ شیخ رشید کی انگریزی میں تقریر کیسی رہی۔ ان سب باتوں میں الجھے لوگوں کو بھلا یہ کون سکھائے گا کہ انہیں اپنے لئے کونسے راستے منتخب کرنے ہیں۔ اپنے مسائل کا حل کیا تلاش کرنا ہے۔ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ ایک ایسا ملک جہاں تعلیم کے بجٹ کی حیثیت آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں وہاں بھلا عوام سے یہ توقعات کیسے وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ درست لوگوں کا انتخاب کریں گے۔ اتنا تو میں معلوم ہے کہ بد عنوانوں کو حکمران نہیں ہونا چاہئے لیکن جہاں لوگوں کو ہندسوں کا علم نہ ہو وہاں کتنے ارب کس نے کمائے اور کتنے کروڑ کس کو تحفہ کئے’ اس تحفے کی کیا ضرورت تھی یا کیا راستہ تھا یہ سمجھنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی اپنے ہاتھ میں اکٹھے پچاس ہزار تھامے نہیں ہوتے ان کے لئے اربوں کھربوں کا کھیل سمجھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ ان لوگوں کو ان پڑھ ہی رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ دراصل معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے۔

    حکومت کی پالیسی بالکل درست ہے۔ یہ ان پڑھ لوگ ہیں’ انہیں ان پڑھ ہی رکھنا ضروری ہے۔ یہ ان پڑھ رہیں گے تو نہ سمجھ سکیں گے کہ منی لانڈرنگ کیا ہے’ ان کے لئے کیوں نقصان دہ ہے اور نہ ہی انہیں اس کے احتساب کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ یہ لوگ تو عمران خان کے جلسوں اور نواز شریف کی جمہوریت بچانے کی کوششوں کو ہی اپنی بصیرت سے تولتے رہیں گے۔ انہیں تو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ کیوں ہے اور اس کا اصل حل کیا ہونا چاہئے۔ سوچتے ہی رہیں گے اور کچھ سمجھ نہ آئیں گی۔ ان لوگوں کا کچھ نہ سمجھ سکنا ہی بہتر ہے اور وہ وعدے جو سمجھ آتے ہوں ان کا ہاتھ تھام کر پولنگ بوتھ تک آجانا ہی اچھا ہے۔ سو انہیں ان پڑھ ہی رکھا جا رہا ہے اور جب تک یہ حکمران رہیں گے ہم جیسے لوگوں کو’ عوام کو ان پڑھ ہی رکھا جائے گا۔ محکمہ تعلیم اتنا ہی بیمار اور نحیف رہے گا’ اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔