Category: دلیل

  • خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    خدا، ملٹی ورس، سائنس اور الحاد – ارمغان احمد

    میری زندگی کی اہم ترین تحاریر میں سے ایک تحریر اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہو۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کم از کم میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ورنہ شاید یہ مضمون آپ سمجھ نہ پائیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ اس تحریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، یہ سب چیزیں دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر انگریزی میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔
    اور آخری عرض شو آف کی غرض سے نہیں کی جا رہی بلکہ ماڈرن شکوک سے بھرپور ذہن کی تسلی کے لیے کی جا رہی ہے کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، مسلمان بھی ہوں مگر آپ ہی جیسا عام سا اور گناہگار سا مسلمان، جو بہت سی کوتاہیاں کرتا ہے، نماز میں بھی سستی کرتا ہے، موقع ملے تو جمعہ پڑھ لیتا ہے۔ زندگی میں کبھی کسی مدرسے میں گیا نہ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہا، نہ کبھی کسی سلسلے میں بیعت ہوا، ایک زمانے میں خدا کے حوالے سے شکوک کا بھی شکار رہا لیکن کبھی ملحد یا اگناسٹک ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی جو کیو ایس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس وقت یورپ کی ایک ٹاپ یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں، گوروں کے ہی سکالرشپ پر۔ پورے ایک ماہ بعد میرا فائنل ڈیفنس ہے، داڑھی بھی نہیں رکھی زندگی میں کبھی، زیادہ تر اپنے کیمپس میں شارٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا جا سکتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی انتہا پسند، متشدد یا دہشتگرد تنظیم سے کبھی تعلق رہا ہے نہ ہمدردی بلکہ بساط بھر ہمیشہ ان کی مذمت اور انکار ہی کیا ہے۔ فرقہ واریت سے بھی کوسوں دور ہوں۔ غرض یہ کہ سو فیصد مادی قسم کا عام سا مسلمان ہوں۔

    معذرت اس طولانی تمہید کے لیے مگر یہ ضروری تھی تاکہ میرا قاری آگاہ ہو سکے کہ یہ بات کرنے والا شخص کون ہے۔ اب آ جائیں بات پر۔ آپ نے سنا ہوگا ایٹم کے بارے میں؟ اس میں الیکٹران ہوتے ہیں، پروٹان ہوتے ہیں۔ الیکٹران کا ایک خاص میس (کمیت) ہوتی ہے، اس پر ایک خاص چارج ہوتا ہے، دنیا کا ہر میٹر (مادہ) انہی الیکٹرانز اور پروٹانز سے مل کے بنا ہے۔ اسی طرح کائنات میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ ہوتا ہے جسے کیپیٹل جی سے فزکس کی ایکویشنز میں ظاہر کیا جاتا ہے، ایک اور پلانک کا کانسٹنٹ ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کی ذہن میں یہ سوال آیا کہ ٹھیک ہے الیکٹران پر اتنا چارج ہوتا لیکن اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا میس اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور اگر یہ چارج کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے روشنی کی رفتار اتنی ہوتی ہے خلا میں مگر اتنی ہی کیوں ہوتی ہے؟ کچھ اور ہوتی تو کیا ہوتا؟

    اس بارے میں تھوڑی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ کائنات کی تخلیق یعنی بگ بینگ کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ ان تمام کانسٹنٹس کی ویلیوز کا فیصلہ ہوگیا۔ اگر ان میں سے کسی کی بھی ویلیو (قدر) میں معمولی سی بھی تبدیلی کی جائے تو یہ کائنات اس شکل میں موجود نہ ہوتی، زمین ہوتی نہ ستارے، اور نہ ہم ہوتے۔ شاید زندگی موجود ہوتی مگر کسی اور شکل میں، شاید ہم سمجھ ہی نہ پاتے کہ وہ زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ شاید ایک ایک ستارے کے بجائے دو دو ستاروں کے جوڑے بن جاتے، غرض یہ کہ چونکہ ان کانسٹنٹس کی بےشمار ویلیوز ممکن ہیں، اس لیے بےشمار شکلیں ہماری کائنات ہماری یونیورس کی بھی ممکن ہوتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کانسٹینٹس کی ویلیوز بہت ہی فائن ٹیونڈ اور احتیاط سے چنی گئی ہیں۔

    اب کائنات کو کچھ دیر کے لیے ادھر ہی چھوڑ دیں۔ سائنس کے مطابق بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک اتفاقیہ امر تھا، اتفاقاً زمین بن گئی، اتفاقاً اس میں زندگی کے لیے سازگار ماحول بن گیا، اتفاقاً ہی زندگی پیدا ہوئی، اتفاقاً ہی ارتقاء کا عمل شروع ہوا، پھر اتفاقاً انسان بن گئے، غرض یہ کہ پوری دنیا اور ہماری پیدائش تک سب کچھ ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔

    اب بہت دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ سائنس ایک طرف کہتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا محض ایک اتفاق تھا اور دوسری طرف یہ کہتی ہے کہ بگ بینگ کے شروع کے سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں کچھ ایسا ہوا کہ ہر کانسٹنٹ کی ایک خاص ویلیو بن گئی، اور وہ اتنی ہی تھی جو اس کائنات کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کے لیے ضروری تھی۔ کیا آپ تضاد تک پہنچ رہے ہیں؟ کوئی بات نہیں، اگر نہیں بھی پہنچ رہے۔ میں اسے لکھنے لگا ہوں
    ”تمام اتفاقات کی ماں یعنی بگ بینگ خود ایک اتفاقی امر نہیں تھا.“
    کیسا رہا؟
    اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے وقت کوئی ذہانت بھرا ذہن حرکت میں آیا، جس نے کچھ ایسا کیا کہ ہر کانسٹنٹ کی ویلیو فائن ٹیون ہو گئی، ورنہ کوئی چیز اگر محض ایک بار ہو اور پہلی بار میں ہی آئیڈیل ویلیو پر ”اتفاقاً“ پہنچ جائے، یہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔ لیکن اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے یا ایک خالق کو مان لیا جائے۔ یہ چیز روایتی طور پر سائنسدانوں کے لیے تسلیم کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔

    اس لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ایک نئی تھیوری پیش کی جاتی ہے، اسے کہتے ہیں، ”تھیوری آف ملٹی ورس“۔ ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ۔ اس نظریے کے مطابق صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ اربوں کائنات ہیں، اور ہر وقت بن رہی ہیں۔ ہر وقت بگ بینگ ہو رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئے نئے جہان وجود میں آ رہے ہیں، ہر جہاں میں ان کانسٹنٹس کی اپنی ویلیوز ہیں، اس لیے ہر یونیورس مختلف ہے اور اتفاقاً وجود میں آ رہا ہے۔ یوں سائنسدان یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی حادثاتی طور پر اتفاقاً وجود میں آ گئی۔

    اب اس تھیوری کے مسائل کیا ہیں؟
    1۔ یہ ایک تھیوری ہے محض۔
    2۔ ہم اپنی کائنات کے آخری سرے پر ہی نہیں جا سکتے تو کسی اور میں کیسے جائیں گے؟
    3۔ جو سائنسی آلات ہماری کائنات میں چلتے اور درست ریڈنگ دیتے ہیں، اگر ہم کسی اور کائنات میں چلے بھی جائیں تو وہاں کے اپنے کانسٹنٹ ہوں گے، یہ وہاں نہیں چلیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا کے مادے کا وہاں محض داخل ہونا ہی اس دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔
    4۔ اس تھیوری کو درست یا غلط ثابت کرنا کم از کم اب تک سائنسی طور پر ناممکن ہے۔
    5۔ اس تھیوری کو بھی مذہب کی طرح ایک ”یقین“، ایک بیلیف کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے مگر ایک سائنسی حقیقت نہیں کہا جا سکتا“

    سائنس کی ہی زبان میں، سائنسی طریق کار کے ہی مطابق، ان کانسٹنٹس کی اوریجن کے بارے میں معلومات کے مطابق اس وقت سائنسی صورتحال یہ ہے کہ یہ کائنات کسی ہستی کی تخلیق ہے، جس نے ان کانسٹنٹس کی وہ ویلیو رکھی جو زندگی کے لیے ضروری تھی، اور یہ صورتحال تب تک جوں کی توں رہے گی جب تک کہ تھیوری آف ملٹی ورس سائنسی طور پر درست ثابت نہیں ہو جاتی۔

    اب مضمون کے آخر میں مذہبی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے ایک ازمپشن میں بھی پیش کرنے لگا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تھیوری آف ملٹی ورس درست بھی ثابت ہوگئی تو اس سے مذہب یا خدا کا انکار ممکن نہیں ہو پائے گا؟
    کیوں؟
    ویسے تو ہر مذہب میں ہی اس طرف اشارے موجود ہیں مگر قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ
    [pullquote]وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين[/pullquote]

    اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
    [pullquote]الحمدللہ رب العالمین[/pullquote]

    تعریف اس اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
    یاد رہے دو یا تین جہانوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ”تمام جہانوں“ کی بات ہو رہی ہے۔ نجانے کتنے ہیں؟

    اس تمام گفتگو اور علم کے بعد کم از کم میں اس رائے کا حامل ہو چکا ہوں کہ سائنسی طور پر بھی کہ خدا ہے تو سہی۔ اس کا انکار کرنا اس وقت تک سائنسی طور پر ممکن نہیں۔ باقی کس مذہب کی خدا کی تشریح سچی ہے، اس پر پھر بحث و مکالمہ ہو سکتا ہوگا مگر سائنسی طور پر اس وقت خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا کم از کم۔ لیکن سائنس تو نہیں البتہ خدا کا انکار کرنے والے بہت دلچسپ مخمصے میں پھنس چکے ہیں۔
    1۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست تسلیم نہیں کرتے تو منطقی طور پر خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
    2۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست مانتے ہیں یا ثابت بھی کر دیتے ہیں تو اس کا ذکر تو پہلے ہی تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے۔

    اور آخرکار مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں،
    اگر خدا نہیں ہے تو اسے ماننے یا نہ ماننے والے، دونوں کو مرنے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑے گا، اور اگر ہے تو ”نہ ماننے والیاں دے نال ہونی بڑی پیڑی اے اگلے جہان وچ“۔ شکریہ

    نوٹ: اگر کسی دوست نے اعتراض یا کوئی سوال کرنا ہو تو پہلے یو ٹیوب پر ”Theory of multiverse and God“ سرچ کر لیں۔ کسی جرنل یا پیپر کا لنک اس لیے نہیں دے رہا کیونکہ اس سے سمجھنا عام لوگوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا۔

  • قوم بنانے کا بندوبست ہے؟ کیا ہم تیار ہیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    قوم بنانے کا بندوبست ہے؟ کیا ہم تیار ہیں؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے Murphy’s Law، اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ جو خرابی ممکن ہے، وہ واقع ہو کر رہے گی.
    یعنی کسی کام کی پلاننگ، تخمینہ، اس کے اجراء اور اس کی راہ میں حائل دشواریوں کا اندازہ قائم کرتے وقت یہ اصول پیش نظر رہے کہ غلطی کی گنجائش صفر ہے. کسی بھی صورت خود کو تساہل کا موقع نہ دیں اور ہمہ وقت چوکنا اور تیار رہیں. نیز، زیر نظر معاملہ کے ضمن کسی بھی طرح چُوک جانے کے بعد خوش قسمتی یا بچت کے ہرگز کوئی امید نہ رکھیں.
    ہوشیار، مستعد اور خبردار رہنے کے لیے مرفیز لا سے بہتر کوئی فارمولا نہیں.

    پاکستان اس وقت جس علاقائی جنگ میں گھرا ہوا ہے وہ اسی مرفیز لا کے کلیہ پر پاکستان پر تھوپی گئی ہے. جہاں جہاں، جیسے جیسے اور جتنا جتنا نقصان پاکستان کو پہنچایا جا سکتا ہے، اسے میں کچھ کمی نہ رہنے پائے. دہشت گردی، بدامنی، افواہ سازی، بد دلی، بین الاقوامی پریس میں معاندانہ کوریج، سفارتی کشمکش یا پھر سرحدی جھڑپیں (جیسا کہ ان دنوں لائن آف کنٹرول پر جاری ہیں) …. سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جس سے پاکستان کی مشکیں کسنے کا عمل جاری ہے.

    دشمن کا حقیقی مقصد نہ کسی شیعہ کو مارنا ہے، نہ سنی کو…. اصل ہدف ہے فرقہ وارانہ منافرت و فسادات. اس کے لیے اِس کو بھی مارا جائے گا اور اُس کو بھی. دیوبندی / بریلوی خلیج نظر آئے گی تو اسے بھی یوں ہی نہیں جانے دیا جائے گا اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے وہاں بھی خونریزی کی جائے گی. اسی طرح دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ سے زیادہ جانی نقصان والے ٹارگٹ چنے جائیں گے تاکہ حکومت اور عوام، یا پھر سیکورٹی اداروں اور عوام کے مابین عدم اعتماد کو ایک مستقل عامل بنا کر رکھا جائے. نہ پنجابی سے غرض ہے نہ بلوچ و سندھی سے. نہ خیبر پختونخوا سے لگاؤ ہے نہ کراچی والوں سے. ہر وہ واردات یا طریقہ واردات روا ہوگا جس کی بدولت علاقائی عصبیت کو ہوا دی جا سکے.
    ان تمام باتوں کی تہہ میں ”ام المقاصد“ یہ ہے کہ قوم کو اس قدر وساوس میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ بحیثیت ایک قوم کے عمل اور ردعمل کی صلاحیت کھو بیٹھے.

    ہمارے ہاں 14 سال کی مسلسل کوشش سے اب وہ اس قابل تو ہو چلے ہیں کہ کسی بات کو بھی عوامی پذیرائی کا مرکز بنا دیں. اب تو عمران خان صاحب کوئی دھرنا نہیں دے رہے تھے، پھر شاہ نورانی دھماکے سے نواز شریف صاحب کو کیا فائدہ پہنچانے کی کوشش ہوئی؟ یا ان دنوں تو نواز شریف صاحب کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر کنٹرول لائن پر لاشوں کے مسلسل تحفے کس کے بچاؤ کے لیے ہیں؟ یہ ضرور ہے کہ سی پیک کا افتتاح ضرور تھا، اگلی صبح جب بلوچستان میں واقع درگاہ کو نشانہ بنایا گیا. اصولاً یہ بات ہمارے لیے زیادہ اہم اور ناقابل فراموش ہونا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اندرونی سیاست سے ان واقعات کی توجیہ تلاش کرنے لگیں.

    اگر مرفی لا پر جنگ مسلط کی جا سکتی ہے تو اس کا دفاع بھی صرف اسی کلیہ سے ممکن ہے. ہر وہ طریقہ جس سے دفاع ممکن بنایا جا سکتا ہے، اسے بروئے کار لایا جائے.
    سیکورٹی ایجنسیز ہوں یا حکومت …. ان کا فوکس جہد مسلسل کے بجائے دعوے کرنے اور داد و تحسین سمیٹنے پر زیادہ محسوس ہوتا ہے. ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ ابھی تو ہم القاعدہ کی باقیات سے ہی نمٹ رہے ہیں جو ایک سیاسی ایجنڈے کو لے کر چل رہی تھی جبکہ ہمارے سامنے ایک نیا غنیم داعش کی صورت لا اتارا جا رہا ہے. یعنی جنگ کا ابھی تو محض ایک محاذ کچھ قابو آیا ہے جبکہ یہ تو چومکھی لڑائی ہے. داعش نہ صرف سیاسی عزائم رکھتی ہے بلکہ اس نے اس مقصد کے لیے معاشی اہداف کو ٹارگٹ کرنے کا طریقہ اپنایا ہے. تیل کا مرکز موصل ہو یا پھر شام کا جنوبی علاقہ، اور اب افغانستان اور بلوچستان سب نقشہ ہمارے سامنے ہے.

    یہ سب سنگین ترین چیلنجز ہیں تاہم ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ پاکستان ان سے نبرد آزما ہو کر ایک مضبوط علاقائی طاقت اور خود اعتماد قوم بن کر ابھرے. تاہم اس سب کے لیے ہمیں کچھ محنت کرنا ہوگی، چند اور تیروں کا اپنے ترکش میں اضافہ کرنا ہوگا.

    حکومت کا کام ہے کہ وہ ہر صورت گورننس کو بہتر بنائے تاکہ عوام میں مایوسی اور بددلی کا خاتمہ ہو سکے. امن و امان کی صورتحال کو سول سٹرکچر کے ماتحت بہتر بنایا جائے اور بلوچستان میں بھی سب معاملات پولیس کے سپرد ہوں. لیویز کا نظام ختم کر کے سب کو اے ایریا بنایا جائے. نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر پر جنرل جنجوعہ کے بجائے ذوالفقار چیمہ صاحب یا مسعود شریف خٹک صاحب کو لگایا جائے. ہمیں اجیت دوول کی طرح وہ بندہ چاہیے جو مجرم کے دماغ سے بھی سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو. پولیس کی بیک گراؤنڈ والے افسران اس صلاحیت سے مالامال ہوتے ہیں کیونکہ پورے کیریئر میں انہیں جرائم کو قریب سے دیکھنے اور پھر مجرموں کو پکڑنے کے حوالہ سے براہ راست تجربہ ہوتا ہے.

    سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ابھی تک صرف یہاں تک پہنچ پائے ہیں کہ ساٹھ سے ستر فیصد حملوں کو پہلے سے روک پاتے ہیں، بقایا حملے ہو تو جاتے ہیں لیکن بعد میں ٹریس ہو جاتے ہیں. یہ کافی نہیں. ہمیں کم از کم 90 فیصد حملے وقت سے پہلے روکنا ہوں گے. نقصان کا احتمال اتنا بڑھانا ہو گا کہ دشمن حملہ کرنے سے پہلے دس بار سوچے.
    یہ جنگ پاکستان کی حدود کے اندر جاری ہے. اسے دھکیل کر سرحد پار واپس کرنا ہوگا. بھارت کوئی بڑا فوجی حملہ نہیں کرے گا. کنٹرول لائن پر فائرنگ جاری رہے گی. مقصد پاکستان کو زچ کیے رکھنا ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی جواز نہ بن پائے. یہ ایک مسلسل دباؤ ہے جس کا سامنا صرف جوابی فائر سے ممکن نہیں. کیا ہم بھارت کو کہیں اور مصروف کر سکتے ہیں؟ یہ اس وقت کا اہم ترین اسٹریٹیجک سوال ہے.

    اس جنگ کو لڑنے اور پھر جیتنے کی دو بنیادی شرائط ہیں ……. گورننس اور منکر نکیر کے درجہ کی انٹیلی جنس. یہ سب ہمیں ایک بڑی اور مضبوط قوم بنانے کا بندوبست ہے ….. کیا ہم تیار ہیں ؟؟؟

  • فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات – خطبہ جمعہ مسجد نبوی

    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے11-صفر -1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں ’’فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات‘‘ کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ فرقہ آرائی مذموم عمل ہے اس سے اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ، تفرقہ پروری منافقوں کی صفت ہے، شرک کی صورت میں سب سے بڑا تفرقہ پیدا ہوا، لوگوں کو متحد کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے، اسلام نے انتشار کی عارضی اور معمولی صورتوں کو بھی اچھا نہیں سمجھا اور اختلافات کا باعث بننے والے تمام امور سے روکا، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، پھر انہوں نے کہا کہ: گروہ بندی ذلت اور خفت ہے، تنازعات بدی اور بلا ہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کیلیے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ: مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کے لیے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔

    پہلا خطبہ:
    یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:
    اللہ کے بندو! کماحقہ اللہ سے ڈرو اور تقوی الہی راہِ ہدایت اور اس سے تصادم کا راستہ بدبختی ہے۔
    مسلمانو!
    اللہ تعالی نے آدم کو پیدا کیا اور اپنی عبادت کیلیے زمین پر انہیں خلیفہ بنایا، تو اولاد آدم دس صدیوں تک اللہ تعالی کی وحدانیت اور محبت پر متحد رہی، پھر شیطان نے انہیں پھسلا کر دینِ الہی اور اللہ کی ا طاعت سے منحرف کر دیا، ایک امت رہنے کے بعد بکھرنے لگے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، لیکن شیاطین نے ان کے پاس آ کر انہیں دین سے گمراہ کر دیا ) مسلم
    تو اللہ تعالی نے ان کے بکھرنے پر مذمت فرمائی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تا کہ ان میں اتحاد اور حق بات پر ان کے دل متحد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]كَانَ النَّاسُ أمَّۃ وَاحِدَۃ فَبَعَثَ اللہ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ [البقرة: 213][/pullquote]

    اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو چنا اور ان میں انبیائے کرام اور رسولوں کو بھیجا؛ لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور کتابِ الہی کو پس پشت ڈال کر گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی. ابن حبان
    اور آپ ﷺ نے اس امت میں تفرقہ بازی رونما ہونے کی خبر دی، عہدِ نبوت سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے، گروہ بندیاں اور اختلافات بڑھتے جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا. احمد
    نبی ﷺ نے فرقہ آرائی سے خبردار فرمایا تا کہ مشیتِ الہی میں جس کے لیے سلامتی لکھی ہوئی ہے وہ فرقہ واریت سے بچ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اپنے آپ کو فرقوں میں بٹنے سے بچاؤ. ترمذی
    اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کو گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
    [pullquote]وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[/pullquote]

    اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
    نیز اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا دیا کہ اس کا راستہ ایک ہی ہے، لہذا جو بھی کتاب و سنت سے متصادم راستہ ہوگا وہ شیطان کا راستہ ہے، جو کہ مخلوق کو رحمن سے دور کرتا ہے، اللہ تعالی نے اقامت ِ دین اور گروہ بندی سے دوری کی تاکیدی نصیحت تمام اقوامِ عالم کو اسی طرح فرمائی جیسے انبیائے کرام کو فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِہ نُوحًا وَالَّذِي أوْحَيْنَا إلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہ إبْرَاھيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيہ[/pullquote]

    اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کردیا ہے جسے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیجا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندیاں مت کرنا۔[الشورى: 13]
    اللہ تعالی نے گروہ بندی اور تفرقہ پردازوں کی مذمت فرمائی:
    [pullquote]وَإنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ[/pullquote]

    اور بیشک جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی بد بختی میں پڑ گئے۔[البقرة: 176]
    تفرقہ پردازوں کی کیفیت بیان کرنے کے لیے فرمایا:
    [pullquote] كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْھمْ فَرِحُونَ[/pullquote]

    جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر اترا رہا ہے ۔[المؤمنون: 53]
    گروہ بندی کے لیے تگ و دو منافقوں کی صفات میں سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ[/pullquote]

    اور کچھ لوگوں مسجد بنائی نقصان پہنچانے کےلیے ، کفر کےلیے اور مؤمنوں میں پھوٹ ڈالنے کےلیے۔[التوبہ: 107]
    اور مزید یہ بھی فرمایا کہ منافقین اسی پر پروان چڑھتے ہیں:
    [pullquote]تَحْسَبُھمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُھمْ شَتَّى[/pullquote]

    تم انہیں متحد سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل جدا جدا ہیں۔[الحشر: 14]
    فرقہ واریت جاہلوں کی خصوصی صفات میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص بھی اطاعت سے رو گردانی کرے اور اجتماعیت سے نکل جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا. مسلم
    اللہ تعالی نے فرقہ آرائی میں ملوث لوگوں سے مشابہت اور ان کی ڈگر پر چلنے سے منع فرمایا اور کہا:
    [pullquote]وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَھمُ الْبَيِّنَاتُ [/pullquote]

    اور ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔[آل عمران: 105]
    اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو دھڑے بندیاں کرنے والوں سے لا تعلق قرار دیا اور فرمایا:
    [pullquote]إنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَھمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْھمْ فِي شَيْءٍ[/pullquote]

    بےشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ڈھڑوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔[الانعام: 159]
    فرقہ واریت میں ملوث لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخالف اور مومنوں کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہ الْھدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِہ جَھنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[/pullquote]

    جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
    سب سے بڑا اختلاف رب العالمین کی وحدانیت سے انحراف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَانْ فَعَلْتَ فَانَّكَ إذًا مِنَ الظَّالِمِينَ[/pullquote]

    اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے [يونس: 106]
    بالکل اسی طرح بدعات ایجاد کرنا خیر المرسلین ﷺ کی اتباع سے دوری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے. متفق علیہ
    حکمرانوں اور حکومتی قائدین کے خلاف بغاوت، ملکی قیادت سے قیادت چھیننے کےلیے اختلاف بہت بڑی خرابی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا، اور جو شخص اجتماعیت کو چھوڑنے کی حالت میں مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے. احمد
    تمام معاشروں میں اہل علم افراد ہی قابل اتباع ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں الفت ڈالنے اور ان میں باہمی اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد ہوتی ہے، اگر وہی آپس میں چپقلش رکھیں تو یہ ان کی باتوں کو مسترد کرنے کا باعث بنتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا معاذ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: آسانی کرنا تنگی میں مت ڈالنا، خوشخبریاں سنانا، متنفر مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اختلاف مت کرنا. متفق علیہ
    اسی طرح حق بات میں اختلاف سے منع کرتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک تمہارے دل مانوس رہیں اور جب [قراءت میں اختلاف کی وجہ سے ] اختلاف ہونے لگے تو اٹھ جاؤ. متفق علیہ
    نماز کےلیے الگ الگ دھڑے بنانا اور اکٹھے با جماعت نماز ادا نہ کرنا شیطان کے غلبہ پانے کی صورت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: کسی بھی بستی یا بادیہ میں تین افراد نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان پر غالب ہے، اپنے آپ کو اجتماعیت سے جوڑے رکھو؛ کیونکہ بھیڑیا دور نکلنے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ ابو داود
    بلکہ نبی ﷺ نے بکھر کر نماز کے انتظار کو بھی اچھا نہیں سمجھا، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ [نماز پڑھانے کے لیے]داخل ہوئے تو ہمیں ٹولیوں کی شکل میں [نماز کا انتظار کرتے ہوئے]دیکھ کر فرمایا: (کیا ہے کہ میں تمہیں ٹولیوں میں دیکھ رہا ہوں!؟). مسلم
    نبی ﷺ نے صف بندی کرتے ہوئے نمازیوں کو اختلاف سے روکا اور اختلاف کرنے والوں کو چہروں میں بگاڑ اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کی وعید سنائی؛ کیونکہ ظاہری طور پر بگاڑ کا پیدا ہونا اندرونی بگاڑ کا باعث ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: تم ضرور صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تعالی تمہارے چہروں میں بگاڑ پیدا کر دے گا. مسلم
    نماز میں امام کی مخالفت بھی اختلاف کے ان مظاہر سے ہے جن سے اسلام نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک امام اقتدا کے لیے مقرر کیا گیا ہے؛ لہذا امام کی مخالفت مت کرو. بخاری

    اسلام نے جس طرح دینی امور میں اختلاف سے روکا ہے اسی طرح دنیاوی امور میں بھی اختلافات سے روکا ہے؛ چنانچہ کھانے کے لیے اکٹھے ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور الگ الگ کھانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے، جیسے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ: ہم کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: لگتا ہے تم کھانا اکٹھے نہیں کھاتے، انہوں نے کہا: بالکل ایسے ہی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھانے کے لیے اکٹھے بیٹھو اور اس پر بسم اللہ پڑھو، تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی. ابو داود
    دورانِ سفر رفقائے سفر سے بکھر جانے کو شیطانی راستہ قرار دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے. ابو داؤد
    معاشرے کے افراد کی باہمی قطع تعلقی اور بے رخی سے منع فرمایا اور بتلایا کہ: جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں، تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ چپقلش ہو، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے: ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو، ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو. مسلم
    نبی ﷺ نے تعصب اور جاہلانہ نعروں سے بھی منع فرمایا: ایک انصاری شخص نے آواز لگائی: اے انصاریو! تو دوسرے نے صدا لگا دی: اے مہاجرو! تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو؛ انہیں ترک کر دو یہ بدبودار ہیں. متفق علیہ

    اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے درمیان اختلاف پسند نہیں ہے، لہذا لوگوں میں اختلافات غیر اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں، شرعی اصولوں نے یہ واضح طور پر کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جو گروہ بندی اور اختلاف کا باعث بنے، بلکہ ادیانِ رسالت میں ممنوعہ چیزوں کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے، چنانچہ ہر اس چیز کو منع کر دیا گیا جو مسلمانوں میں اختلافات کا باعث بنے، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، نیز اللہ تعالی نے باہمی اتحاد قائم کرنے اور اختلافات سے بچانے کےلیے اچھی سے اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا اور بری گفتگو سے روکا، فرمان باری تعالی ہے:
    [pullquote]وقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي ھيَ أحْسَنُ إنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَھمْ[/pullquote]

    اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے۔ [الاسراء: 53]
    اختلاف کا سب سے بڑا موجب شرک ہے، شرک اختلاف پرور اور معبودانِ باطلہ میں اضافے کا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31) مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَھمْ وَكَانُوا شِيَعًا[/pullquote]

    اور مشرکوں کی طرح مت ہو جانا [31] جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور دھڑوں میں بٹ گئے۔[الروم: 31، 32]
    کتاب و سنت سے مکمل روگردانی یا کچھ حصے کو مان لینا اور باقی مسترد کر دینا تنازعات اور تصادم کا راستہ ہے
    [pullquote]وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إنَّا نَصَارَى أخَذْنَا مِيثَاقَھمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِہ فَاغْرَيْنَا بَيْنَھمُ الْعَدَاوَۃ وَالْبَغْضَاءَ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَۃ} [/pullquote]

    جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی [المائدة: 14]
    متَشابہ نصوص کی ٹوہ لگانا گمراہی اور سب کیلیے آزمائش ہے:
    [pullquote]فَامَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِھمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہ مِنْہ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃ وَابْتِغَاءَ تَاوِيلِہ[/pullquote]

    جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متَشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے [آل عمران: 7]
    شبہات اور شہوات کے دروازے میں قدم رکھنے کی وجہ سے کئی اقوام تباہ ہو گئیں اور نسلوں میں اختلافات ڈال دیے۔
    شیطانی راستوں پر چلنے کا نتیجہ اختلاف ہی ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
    [pullquote]وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِہ [/pullquote]

    اور مختلف راستوں پر مت چلو یہ تمہیں اللہ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔[الانعام: 153]
    کوئی بھی قوم سرکشی کرے تو وہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَابَ إلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَھمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَھمْ[/pullquote]

    جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے علم آ جانے کے بعد ہی اختلاف کیا صرف آپس میں سرکشی کی وجہ سے. [آل عمران: 19]
    جس اختلاف کی بنیاد بھی ہوس پرستی، تعصب، سرکشی اور تقلید، حمیت، گروہی تعصب ہو تو وہ فرقہ آرائی کا راستہ ہے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’فرقہ آرائی اور اختلاف عام طور پر بد ظنی اور ہوس پرستی سے جنم لیتے ہیں.‘‘
    حصولِ دنیا کے لیے بڑھ چڑھ کر دوڑ دھوپ کرنا عداوت اور بغض کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں دنیا ایسے ہی فراوانی کے ساتھ دے دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دی گئی، پھر تم بھی انہیں کی طرح بڑھ چڑھ کر دنیا کے لیے آگے بڑھو گے، اور یہی دنیا تمہیں بھی تباہ کر دے گی جیسے سابقہ اقوام کو دنیا نے تباہ کیا) متفق علیہ
    جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اپنے آپ کو ملت سے پیوستہ رکھو، اور الگ ہونے سے بچاؤ؛ کیونکہ شیطان تنہا کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دو افراد سے دور رہتا ہے. ترمذی

    ابلیس کا چہیتا چیلا بھی وہی ہے جو امت میں سب سے زیادہ تفریق پیدا کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بےشک ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اور اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، ان میں سے شیطان کا قریبی وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہو، ان چیلوں میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا تو ابلیس اسے کہتا ہے: تو نے کچھ نہیں کیا! پھر ایک اور آ کر کہتا ہے: میں نے اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میاں بیوی میں تفریق نہیں ڈال دی. ابلیس اس کے قریب ہو کر کہتا ہے: تو سب سے اچھا ہے. مسلم
    دینی امور میں اختلاف، ہوس پرستی اور گمراہ نظریات اللہ کے راستے اور دینِ الہی سے روکتے ہیں، اسی کی وجہ سے انبیائے کرام کے راستے اور منہج سے انحراف پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ سب انبیائے کرام نے دینِ الہی کے قیام اور حق بات پر باہمی اتحاد کا حکم دیا نیز تفرقہ سے روکا، اور جب اختلاف پیدا ہو جائے، متخاصم لوگوں کا دین خطرے میں پڑ جاتا ہے، انہیں کتاب و سنت سے تعلیمات لینے کی برکت سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان پر ہوس غالب آ جاتی ہے، علم و ہدایت کا تسلط ختم ہو جاتا ہے، گروہ بندی سے دلوں میں کدورت اور رابطہِ اخوت منقطع ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: تم اختلاف میں مت پڑو وگرنہ تمہارے دل گدلے ہو جائیں گے. مسلم
    گروہ بندی دشمنی اور بغض کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللہ عَلَيْكُمْ إذْ كُنْتُمْ أعْدَاءً فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ[/pullquote]

    اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔[آل عمران: 103]
    کوئی بھی قوم بٹ جائے تو کمزور اور ناتواں بن جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْھَبَ رِيحُكُمْ[/pullquote]

    تنازعات میں مت پڑو وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔[الانفال: 46]
    اور اگر کسی قوم میں گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کے ان سے ناراض ہونے کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلَى أنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أوْ مِنْ تَحْتِ أرْجُلِكُمْ أوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ[/pullquote]

    آپ کہہ دیں کہ وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے [الانعام: 65]
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یعنی تمہیں خواہشات اور اختلافات کا مزہ چکھا دے.
    اختلافات کی فوری سزا دشمنوں کے مسلط ہونے کی صورت میں ملتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو وعدہ دیا ہوا ہے کہ: ان کے اپنے نفسوں کے علاوہ بیرونی کوئی دشمن مسلط نہیں کیا جائے گا جو انہیں تہس نہس کر دے، چاہے ساری دھرتی کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو جائیں، یہاں تک یہ خود ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے گیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگے گے. مسلم

    تنازعات، اختلافات اور تفرقہ بازی سے حق تباہ ہوتا ہے، دینی اقدار منہدم ہوتی ہیں اور یہ مشرکین کی مشابہت بھی ہے، یہ گمراہی پھیلنے اور جہالت پر مبنی باتیں پھیلنے کا ذریعہ ہیں، ان میں ملوث ہو کر دینی احکام پر عمل، دین کی تعلیم اور دعوت شدید متاثر ہوتی ہیں، بلکہ دینی شعائر معطل ہو جاتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دیگر نیک سرگرمیاں معدوم ہو جاتی ہیں، اختلافات کے باعث نعمتیں زائل ہوتی ہیں، نبی ﷺ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی تو آپ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتلانے کے لیے نکلے، [باہر] دو آدمی جھگڑ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلانے کے لیے نکلا تھا، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین اٹھا لی گئی. بخاری
    اگر گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ بڑے سنگین جرائم کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے، جن کی وجہ سے قتل و غارت اور خون بہہ سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]وَلَوْ شَاءَ اللَّہ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِھِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْھُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا[/pullquote]

    اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے۔ لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا [البقرة: 253]
    اختلافات کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: اختلافات مت کرو؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلافات کیے تو تباہ ہو گئے. بخاری

    آخرت میں اختلافات کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
    [pullquote]يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوہ وَتَسْوَدُّ وُجُوہ فَامَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوھھمْ أكَفَرْتُمْ بَعْدَ إيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ[/pullquote]

    اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو [آل عمران: 106]
    ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و فرقہ واریت والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے. اللہ تعالی کا ہاتھ ملت اور اجتماعیت کے ساتھ ہوتا ہے، اور جو کوئی ملت سے بیزار ہو کر تنہا ہو گا اسے جہنم میں بھی تنہا ہی ڈالا جائے گا۔

    ان تمام تر تفصیلات کے بعد:
    مسلمانو!
    گروہ بندی ذلت اور خفت ہے، تنازعات بدی اور بلا ہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کے لیے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے ۔ عقلمند انسان اختلافات سے رو گردانی کر کے کتاب و سنت پر کار بند رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے، یہی نبی ﷺ کی امت کو انتشار اور اختلاف سے خلاصی کے لیے نصیحت ہے۔
    [pullquote]يَاأيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا أطِيعُوا اللہ وَأطِيعُوا الرَّسُولَ وَأولِي الْامْرِ مِنْكُمْ فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوہُ إلَى اللہ وَالرَّسُولِ إنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأحْسَنُ تَاوِيلًا[/pullquote]

    اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔ [النساء: 59]
    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

    دوسرا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

    مسلمانو!
    جو شخص بھی کتاب و سنت اور آثار صحابہ کا جس قدر تابعدار ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ کامل ہوگا، وہ شخص اتحاد، ہدایت، اللہ کی رسی کو تھامنے والا اور فرقہ واریت، اختلافات سمیت فتنوں سے بھی اتنا ہی دور ہوگا۔
    اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو یک زبان بنا دے، ان کے دلوں میں الفت ڈال دے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کروا دے، مخلوق کیلیے بہتری دین اور حق بات پر متحد ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہوگی، اللہ تعالی نے تمام مؤمنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
    [pullquote]إنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إخْوَۃ[/pullquote]

    بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10]
    اور اسی طرح نبی ﷺ کے ہاں مؤمنوں کی باہمی محبت، شفقت اور پیار کی مثال ایک جسم جیسی ہے، ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو اس کا سارا جسم بے خوابی اور بخار کسی سی کیفیت میں رہتا ہے. مسلم
    ایک اور جگہ فرمایا: ایک مؤمن اپنے دوسرے مؤمن بھائی کے لیے دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے. متفق علیہ
    باہمی اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، جو کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خاص فضل و کرم کے ساتھ عنایت فرماتا ہے:
    [pullquote]وَألَّفَ بَيْنَ قُلُوبِھمْ لَوْ أنْفَقْتَ مَا فِي الْارْضِ جَمِيعًا مَا ألَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِھمْ وَلَكِنَّ اللہ ألَّفَ بَيْنَھمْ[/pullquote]

    ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے [الانفال: 63]
    مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کے لیے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔
    یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
    إنَّ اللہ وَمَلَائِكَتَہ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيہ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
    اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الاحزاب: 56]
    [pullquote]اللھم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، [/pullquote]

    یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور سخاوت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!
    یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا اللہ! اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
    یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! ان کے علاقوں کو امن و امان اور ایمان والا بنا، یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! ہماری سرحدوں کو پر امن بنا، ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، انہیں ثابت قدم بنا، اور دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما، یا قوی! یا عزیز!
    یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنی رضا کیلیے مختص فرما، یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے اور نفاذِ شریعت کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!
    یا اللہ! تو ہی اللہ ہے اور تیرے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! رحمت کی بارش ہو، عذاب والی نہ ہو، گرانے یا پانی میں غرق کرنے والی یا آزمائش میں ڈالنے والی بارش نہ ہو، یا ارحم الراحمین!
    یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اگر تو ہمیں نہ بخشے تو ہم خسارہ پانے والوں میں ہو جائیں گے۔
    اللہ کے بندو!
    [pullquote]إنَّ اللہ يَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاحْسَانِ وَإيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْھى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ[/pullquote]

    اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
    تم عظیم و جلیل اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے۔

    (مسجد نبوی ﷺ میں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ کے اس خطبہ جمعہ کا ترجمہ شفقت الرحمن نے کیا ہے. جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ایم ایس تفسیر کے طالب علم ہیں اور ادارہ ترجمہ، مسجد نبوی میں بطور اردو مترجم فرائض انجام دے رہے ہیں. مسجد نبوی ﷺ کے خطبات کا ترجمہ اردو دان طبقے تک پہنچانا ان کا مشن ہے. ان کے توسط سے دلیل کے قارئین ہر خطبہ جمعہ کا ترجمہ دلیل پر ملاحظہ کرتے ہیں.)

  • کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    کیا عمران خان ڈونلڈ ٹرمپ بن سکتے ہیں؟ محمد عامر خاکوانی

    پچھلے دو تین ماہ سے مسلم لیگ ن کے رہنما، کارکن اور میڈیا میں ان کے حامی لکھاری بڑے شدومد سے عمران خان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے تشبیہ دے رہے تھے۔ اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈاؤن کی دھمکی کے بعد زیادہ جوش وخروش سے عمران اور ٹرمپ میں مماثلت ڈھونڈی جانے لگی تھی۔ اس وقت تک ن لیگ والوں کا یہ خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضحکہ خیز شخصیت ہے اور الیکشن ڈے کے بعد وہ ناکامی کی ایک علامت بن کر سامنے آئے گا۔ ٹرمپ کی ممکنہ ناکامی کو عمران خان کے خلاف بطور حربہ استعمال کرنے کی سوچ بھی کہیں کارفرما تھی۔ معلوم نہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر ٹرمپ کی کامیابی سے کیا قیامت گزری ، مگراب ٹرمپ کا طعنہ دینا ختم ہوچکا ہے۔

    عمران خان کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ موازنے میں ویسے حرج کوئی نہیں، اب تو خیر وہ جیتے ہوئے گھوڑے ہیں تو ہر کوئی ان کی مثال دینا چاہے گا۔ دو تین باتیں تو دور سے ہی مشترک نظر آ رہی ہیں۔ دونوں ہی منہ پھٹ اور تیزدھار تبصرے کرنے کے شائق ہیں۔ ٹرمپ نے بھی بہت سے ایسے تبصرے کر رکھے ہیں ،جنہیں پڑھ یا سن کر حیرت ہوتی ہے۔ ادھر اردو محاورے کے مطابق خان صاحب کی زبان کے آگے بھی خندق نہیں۔ اکثر وہ بولنے کے بعد ہی اس پر غور فرماتے ہیں، پھر ان کے ساتھیوں کو تاویلیں دے کر بات سنبھالنا پڑتی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزام رہا کہ وہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر خطاب نہیں کرتے۔

    ایک آدھ اور کامن پوائنٹ بھی ڈھونڈا جا سکتا ہے، مگر دیانت داری سے جائزہ لیں تو نومنتخب امریکی صدر اور پاکستان کے اپوزیشن لیڈر میں بڑا واضح فرق موجود ہے۔ کئی اہم امور پر دونوں کی آرا ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اعلانیہ قسم کے نسل پرست ہیں، ان کی انتخابی مہم پر بھی وائٹ مین سپرمیسی (سفید فام کی بالا دستی) کے اثرات نمایاں رہے ۔عمران خان کی سیاست میں نسل پرستی یا قوم پرستی کے جذبات موجود نہیں۔ پھر ٹرمپ کی تیز زبان کا نشانہ معاشرے کے کئی طبقات بنے، تارکین وطن پر وہ گرجتے برستے رہے، اسلاموفوبیا کا شکار نظر آئے، میکسیکو سے آنے والوں پر تیر برساتے رہے، خواتین ان کے خاص کرم کا نشانہ بنیں، ٹی وی اینکرز کے حوالے سے نہایت معیوب جملے کہہ ڈالے۔ ایسی باتیں جن کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ عمران خان کے زبانی حملوں کا ہدف سیاسی نظام، سٹیٹس کو کی روایتی سیاست کرنے والی جماعتیں، خاص کر حکمران جماعت اور شریف خاندان ہے۔ ایک میڈیا گروپ اور الیکشن کمیشن پر بھی برستے رہے اور بلاسوچے سمجھے پینتیس پنکچر والی بات اعلانیہ کہہ ڈالی، یہ ادراک کیے بغیر کہ اگرالزام درست ہو، تب بھی اسے ثابت کیسے کیا جا سکتا ہے، بعد میں پھر معذرت کرنا پڑی۔ ٹرمپ کے برعکس خواتین کے حوالے سے خان کا رویہ بہت شائستہ اور مہذب رہا۔ ان کے حوالے سے کبھی کوئی عامیانہ بات بھی نہیں کی۔

    عمران خان کے حوالے سے ان کے مداحین اور حامی البتہ یہ دعا ضرور کر سکتے ہیں کہ جس نہج پر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں کامیابی حاصل کی، اسی طرح تحریک انصاف کے قائد بھی میدان مار لیں۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے روایتی ماڈلز کی نفی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بے پناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز STORIES SUCCESS موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں۔ سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی تھی۔ نتیجہ مگر ہر ایک کی امیدوں کے برعکس نکلا۔

    ٹرمپ ایک اینٹی ہیرو ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار۔ جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر منفی امیج کے باوجود ہیلری کلنٹن کے سحرانگیز امیج کو پاش پاش کیا اور ان کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔ ہنستی مسکراتی دیوی ہار گئی اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔

    اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔ کیا ہیلری کلنٹن کی مانند ان ”کامیاب سیاستدانوں“ کو شکست دی جا سکتی ہے؟ جواب میں ہاں کہا جا سکتا ہے، تاہم اس کے ساتھ کئی اگر مگر بھی ہیں۔

    ٹرمپ نے عام امریکیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دیہات، چھوٹے شہروں، پسماندہ ریاستوں میں مقیم امریکی جو پچھلے دو تین عشروں سے ترقی کی شاہراہ پر دوسروں سے پیچھے رہ گئے تھے۔ بے روزگاری، غربت اور محرومی کے سائے جن پر منڈلا رہے تھے۔ ٹرمپ نے ان کے لیے فراموش لوگوں (Forgotten Peoples) کی اصطلاح استعمال کی۔ وہ انتخابی ایجنڈا سیٹ کیا، جس نے ان کے دل جیت لیے، انہیں متحرک کیا اور الیکشن کے دن دیوانہ وار باہر نکلنے پر آمادہ کیا۔ انہی لوگوں نے ہیلری کلنٹن سے یقینی جیت چھین لی۔ ایسے فراموش لوگوں کی تعداد پاکستان میں امریکہ سے بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں بھی محرومی اور مسائل کی کمی نہیں۔ کراچی، لاہور، پنڈی جیسے شہروں میں بھی ہزاروں لاکھوں لوگ ایسی زندگی گزار رہے ہیں، جس میں کوئی رس، ذائقہ یا خوشی نہیں۔ چھوٹے شہروں کے مسائل بے پناہ ہیں، ملک کے کئی علاقوں میں دیہات کے لوگ ایک صدی پرانی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، انصاف اور امن عامہ کو وہ ترس رہے ہیں۔ ان کی اگلی نسلوں کے لیے اعلیٰ تعلیم، سستا علاج اور باعزت روزگار ایک خواب بن چکا ہے۔ عمران خان ان فراموش شدہ لوگوں کے دلوں کی آواز بن سکتا ہے۔ خان نے کرپشن کو بڑے زوردار طریقے سے ہدف بنایا اور اسے نیشنل ایجنڈا بنا دیا۔ الیکشن اصلاحات پر اس نے بھرپور طریقے سے بات کی۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، روزگار، تھانہ کچہری کے معاملات، پٹواریوں کے مظالم اور سسٹم کی بے حسی کو اب ایجنڈا بنانے کی ضرورت ہے ۔

    عمران خان اگر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے عام پاکستانی کے مزاج، جذبات اور خواہشات کا ادراک کرنا ہوگا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف انداز کی سوچ ہوسکتی ہے۔ اندرون سندھ کا رہنے والا، جنوبی پنجاب کے باسی، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حرماں نصیب لوگ، حتیٰ کہ سنٹرل پنجاب کے عام آدمی کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ ان سب کو سمجھنا، انہیں بھرپور انداز میں اٹھانا اور ایک اچھا ٹھوس پلان دینے کی ضرورت ہے۔ ووٹر کو علم ہونا چاہیے کہ اگر عمران خان کو جتوایا گیا تو ملک میں کیا تبدیلی آئے گی؟ اسے یقین ہوجائے کہ ایسی صورت میں نظام بدل جائے گا، تھانہ، کچہری، پٹوار کے مظالم ختم ہوجائیں گے، انصاف ملنے لگے گا اور کاشت کار کی جھکی کمر ایک بار پھر سیدھی ہوجائے گی … ایسی صورت میں ٹرمپ جیسا معجزہ پاکستان میں بھی تخلیق ہوسکتا ہے۔ جب عام آدمی دل وجاں سے کسی کی حمایت میں اٹھے، تب مخالف کی میڈیا مینجمنٹ، اربوں کی انتخابی مہم، سسٹم کی سپورٹ بھی کام نہیں آتی۔ تب کامیابی کی مثالیں دھندلا جاتیں اور جگمگاتے پیکر اپنے رنگ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے یہ ایک مثبت بات تو سیکھ سکتے ہیں ۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کیوں کامیاب ہوئے؟ محمد عامر خاکوانی

    ڈونلڈ ٹرمپ کیوں کامیاب ہوئے؟ محمد عامر خاکوانی

    ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن کامیابی سے دنیا بھر میں حیرت کی لہر دوڑ گئی ہے، خود امریکہ میں لاکھوں لوگ ابھی تک شاک کی سی کیفیت میں ہیں۔ جس دوست سے وہاں بات ہو، وہ یہی بتاتا ہے کہ ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ٹرمپ کے امریکہ میں رہنا پڑے گا، مگر اب ایسا ہوگیا ہے۔ امریکہ ہی نہیں، اب دنیا بھر کو ٹرمپ سے واسطہ پڑے گا، کس پر کیا گزرتی ہے، یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مختلف تبصروں اور جائزوں میں ان ممالک کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے، جن کے حوالے سے امریکی پالیسی زیادہ سخت ہونے کا امکان ہے، پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ اس بحث کو سردست ہم الگ رکھتے ہیں کہ اس کے لیے مستقبل میں شاید بہت مواقع ملیں۔ اس وقت تو اہم ترین سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ حیران کن کامیابی کیسے ممکن بنائی؟ اس کے ساتھ ضمنی سوال یہی ہے کہ اس کامیابی سے ہمارے ہاں کیا سیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے میڈیا کا ایک حصہ بڑے زور شور سے پاکستانی سیاست کے ایک اہم ترین کھلاڑی کو ہدف بناتے ہوئے اسے پاکستانی ٹرمپ قرار دے رہا تھا۔ یہ حلقہ تو شاید اس لیے ایسا کر رہا تھا کہ اس وقت تک ٹرمپ کی امریکہ میں شکست یقینی سمجھی جا رہی تھی اور مسٹر ٹرمپ بےوقوفی، اجڈ پن اور بدتمیزی کا ایک آئیکون بن چکے تھے، پاکستانی سیاسی لیڈر کو ٹرمپ قرار دے کر انہیں ویسا ہی ایک آئیکون بنانا مقصود تھا۔ اب معلوم نہیں کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھی وہ حلقے ٹرمپ کا طعنہ دیتے ہیں یا اب کوئی نئی حکمت عملی تشکیل دی جائے گی۔ ٹرمپ کی کامیابی میں چند فیکٹرز ایسے ہیںِ جن سے ہمارے ہاں بھی کوئی اگر چاہے تو سیکھ سکتا ہے، ضروری نہیں کہ صرف وہی ایسا کرے جسے ٹرمپ ہونے کا طعنہ ملا بلکہ جن کی پارٹیاں دھوپ میں رکھی برف کی طرح تحلیل ہورہی ہیں، وہ بھی نئے سرے سے دال دلیہ کر سکتے ہیں۔

    میڈیا کی اپنی حدود ہیں
    مین سٹریم میڈیا کو اپنی قوت پر بڑا ناز رہا ہے۔ پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر کے بڑے میڈیا ہاؤسز اس خبط کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ بادشاہ گر ہیں، اور حکومتیں اتار اور لا سکتے ہیں۔ کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے، اگرچہ اس میں بھی کئی دوسرے فیکٹرز کار فرما رہتے ہیں، مگر زیادہ کریڈٹ میڈیا کو مل جاتا ہے۔ میڈیا کی مگر کچھ محدودات ہیں، ایک خاص حد سے زیادہ وہ پلے نہیں کر سکتا، اس پر بہت زیادہ تکیہ کرنا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ میڈیا ایک خاص تاثر بنا دیتا ہے، مختلف اینکرز، خبروں اور رپورٹوں کے ذریعے کسی لیڈر یا جماعت کا مخصوص امیج بنایا یا مسخ کیا جاتا ہے۔ اس تاثر کی چادر میں شگاف کیے جا سکتے ہیں، اگر عقلمندی اور ہوشیاری سے تیر چلائے جائیں۔ پھر میڈیا کے اندر بھی ایک تقسیم ہوتی ہے، مکمل یا نیم آمریت والے ممالک چھوڑ کر ہر جگہ کم وبیش ایسا ہے، اس تقسیم اور اندرونی تضادات سے سیاستدان اگر سمجھدار ہوں تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مختلف ریجنز میں میڈیا کا مختلف انداز کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ جیسے پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو اردو اخبار یا چینلز اندرون سندھ بالکل بیکار ہیں، وہاں سندھی اخبارات اور چینل کا اثر بہت گہرا ہے۔ جنوبی پنجاب میں نیوز چینلز کا اثر سنٹرل پنجاب سے مختلف ہے، بلوچستان اور کے پی کے کا اپنا تناظر ہے۔ اسے سنجیدگی سے سمجھنے اور پھر ایکسپلائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس لیے زعم ان میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ سوشل میڈیا کی حدود خاصی کم ہیں، اس کا حقیقی زندگی میں اثر بھی زیادہ نہیں، جنرل مشرف اس سامنے کی بات کو سمجھنے سے قاصر رہے تھے۔ اگرچہ یہاں پر بھی منظم مہم چلائی جائے تو کسی حد تک تاثر بن سکتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر لہریں چلتی رہتی ہیں، ایک کےگزر جانے کے بعد اس کے نقش زیادہ دیر باقی نہیں رہتے۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح کی اینٹی میڈیا کامیابی ہے۔ امریکہ کے تمام بڑے میڈیا گروپس ہیلری کے ساتھ اکٹھے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے، مگر اس بار ہوگیا تھا۔ یہ سب بڑے مگرمچھ اس وقت الٹ چکے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جو نقصان ہوگیا، اس کی تلافی کیسے ہو۔ یہی تجربہ پاکستان میں بھی دہرایا جا سکتا ہے، صرف میڈیا کے ٹرینڈز اور اس کی فالٹ لائنز کو سمجھنا ہوگا۔

    کامیابی کے ماڈلز کی نفی
    ٹرمپ کی کامیابی ایک طرح سے کامیابی کے تمام جگمگاتے ماڈلز کی ناکامی ہے۔ کامیابی کا لٹریچر امریکہ میں بےپناہ شائع اور فروخت ہوتا ہے، اب وہی لٹریچر ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ کامیاب بنیے، کروڑ پتی بننے کے نسخے، کامیاب ترین زندگی کیسے گزاری جائے، اپنی شخصیت کو پراثر بنایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ امریکی سیاست میں بھی مختلف کامیابی کے ماڈلز SUCCESS STORIES موجود ہیں۔ صدارتی امیدوار ان کو فالو کرتے ہیں، جیسے ہیلری کلنٹن نے کیا۔ ان کو دیکھنے سے لگتا ہے کہ وہ بنی ہی کامیاب ہونے کے لیے ہیں، سجی سجائی، نفیس، تراشا ہوا پیکر، خوبصورت انگریزی، مرتب گفتگو، شائستگی، تحمل، دلنواز مسکراہٹ، تجربہ کار ٹیم، آزمودہ سیاسی حربے۔ یہ ایک اور کامیابی کی داستان معلوم ہو رہی تھی، آئیڈیل لیڈی، ایک یقینی جیت جس کا انتظار کر رہی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو پاکستانی سیاست پر بھی نظر دوڑا سکتا ہے۔ اسے وہ چہرے نظر آئیں گے جو ایسے ہی مرتب، چمکتے چہروں، صاف لباس، تجربہ کار مشیروں، آزمودہ سیاسی حربوں سے آراستہ اور طاقتور دوستوں سے مزین سیاسی نیٹ ورک کے مالک ملیں گے، کامیابی جن کے دروازوں پر دستک دیتی آئی، جن کی کامیابی پر شرطیں لگائی جا سکتی ہیں۔
    دوسری طرف ٹرمپ ایک اور اینٹی ماڈل ہیں۔ غیر مہذب، کرخت، درشت لہجے میں بات کرنے والے، جھگڑالو، تیز مزاج، برداشت نہ کرنے والے، مخالف پر سیدھے اور تیز حملے کرنے والے، ناتجربہ کار، جنہوں نے کوئی بھی سیاسی عہدہ آج تک حاصل نہیں کیا، ہاں کچھ ادارے اچھے طریقے سے چلائے، اپنے کاروباری ادارے۔ کامیابی کی داستانوں کا سحر پاش پاش کرنے والی ایک کتاب ہمارے نوجوان دوست عاطف حسین نے لکھی ہے، کامیابی کا مغالطہ۔ اس ایک کتاب نے کامیابی کی درجنوں فسوں خیز کتابوں، لیکچرز کا نشہ اڑا دیا۔ ٹرمپ نے بھی اپنی تمام تر خامیوں، تمام تر اینٹی ہیرو امیج کے ساتھ وہی کچھ ہیلری کلنٹن کے ساتھ کیا۔ کامیابی کا ماڈل تباہ ہوگیا اور رف اینڈ ٹف ٹرمپ جیت گئے۔

    کرشمہ کیسے تخلیق ہوا؟
    ٹرمپ کی کامیابی ایک کرشمہ، معجزہ کی طرح ہے، مگر یہ انسانہ کرشمہ ہے، جسے تخلیق کیا گیا۔ ٹرمپ کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے، یہ اس کا کارنامہ ہے۔ جو ٹرمپ کی طرح کرشمہ تخلیق کرنا چاہتا ہے، اسے بھی ایک خاص پیٹرن میں کام کرنا ہوگا۔
    ٹرمپ نے اصل کام یہ کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نبض پر اپنی انگلیاں رکھ کر ان کے دلوں کی خواہش کو بھانپ لیا اور وہی بیانیہ اختیار کیا جو ان کی آواز تھی۔ عام امریکی، خاص کر چھوٹے شہروں، پسماندہ علاقوں میں رہنے والے جن کے مسائل خاصے بڑھ چکے تھے، مشی گن، وسکانسن، اوہائیو، پنسلوانیا ٹائپ ریاستیں جہاں صنعتیں پہلے تھیں، پھر سست رفتار امریکی معیشت کے باعث وہاں سے منتقل ہوگئیں، کچھ باہر چلی گئیں، مقامی لوگ پریشان حال ہوگئے۔ ٹرمپ نے ان سب کو بہتر معیشت، بہتر مستقبل کی امید دلائی۔ یہ بتایا سمجھایا کہ میں نے اچھے طریقے سے اپنے ادارے چلائے ہیں، میں ملک بھی اچھے طریقے سے چلاؤں گا، اور عام امریکی کے مفادات سب سے مقدم رکھوں گا، ایک طرح سے سب سے پہلے امریکہ والی سوچ۔ یہ بات ان لوگوں کے دلوں میں اتر گئی ، وہ دیوانہ وار باہر نکلے اور ہیلری کلنٹن کی تمام ترانتخابی مہم ، میڈیا کے پروپیگنڈے اور کامیابی کے ماڈل کو بہا کر لے گئے۔ ٹرمپ کا فوکس بڑا پرفیکٹ رہا، اسے معلوم تھا کہ اس نے کن کے لیے بات کرنی ہے، انھی نکات پراس کی توجہ مرکوز رہی، اس نے یہ نہیں دیکھا کہ ایسے بولڈ، جارحانہ سٹانس سے کچھ اور طبقے ناراض ہوجائیں گے، مسلمان، کالے، ہسپانوی حلقے اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ اس نے اچھی طرح تجزیہ کیا کہ اکثریت سفید فام امریکیوں کی ہے، جو تارکین وطن سے ناراض اور برہم ہیں، جنھیں امریکی حکومت کی سپرپاور والی پالیسیوں سے اب چڑ ہونے لگی ہے، ان کے نزدیک ان کی معیشت، زندگی زیادہ اہم ہے، بجائے دنیا بھر کے مسائل حل کرنے اور نیٹو پر اربوں ڈالر کی رقوم خرچ کرنے سے۔ ٹرمپ نے ان تمام فیکٹرز کو ایکسپلائیٹ کیا۔ اس نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے لیے ایسے پرکشش نعرے لگائے جو ان کی توجہ کھنچنے میں کامیاب رہے۔ ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے درمیانہ اور خوشحال طبقہ بھی متوجہ ہوا۔ نسل پرستی کے جذبات کو بھی استعمال کیا، میل شاونزم کو بھی اچھے طریقے سے برتا، یہ احساس بھی لوگوں کو دلایا کہ کالے تو باہر آ کر ہیلری کو جتوا دیں گے، اگر تم لوگ باہر نہ آئے تو ایک بار پھر محروم رہ جاؤ گے ۔

    ٹرمپ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے ہیلری کلنٹن کو سٹیٹس کو کا حصہ ثابت کر دیا۔ یہ بات اچھے طریقے سے امریکی ووٹروں کو سمجھا دی کہ ہیلری تو اسی روایتی امریکی نظام کا حصہ ہے، اس کے جیتنے سے کوئی بڑی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ یہ تو پچھلے پچیس تیس سال سے چلتے معاملات کو اسی انداز میں چلائے گی۔ اگر تبدیلی چاہتے ہو تو میرے جیسے بولڈ اور دبنگ شخص کو جتواؤ۔ اگرچہ مجھے کوئی سیاسی تجربہ نہیں، میرا انداز زیادہ شائستہ اور مہذب نہیں، بولتا بدتمیزی سے ہوں، اپنے مخالفین سے رعایت نہیں برتتا، ان پر تند و تیز حملے کرتا ہوں، مگر میں بہرحال اس سٹیٹس کو کا حصہ نہیں رہا، میں کوئی روایتی سیاستدان نہیں ہوں، سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتیں یا گروہ بھی میرے اتحادی نہیں ہیں، اپنی ناتجربہ کاری کے باوجود چونکہ میں تبدیلی لانے میں مخلص ہوں، میں کچھ کر دکھانا چاہتا ہوں، اس سسٹم کو ہلاجلا کر، اس میں شگاف پیدا کر کے عام آدمی کی زندگی بہتر بنانا چاہتا ہوں، اس لیے مجھے ہی حکمران بناؤ۔ نو نومبر کے دن امریکی ووٹروں نے دنیا کو بتلا دیا کہ انہوں نے ٹرمپ کی یہ دلیل اور یہ بیانیہ قبول کر لیا۔ اسے موقع مل گیا۔ اب ٹرمپ پرفارم کر پائے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے، مگر اس کا فیصلہ دوتین برس بعد ہی ہوسکے گا۔

    پاکستان میں بھی کوئی چاہے تو ٹرمپ کی کامیابی سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ یہ جان سکتا ہے کہ کس ہوشیاری اور سمجھداری سے ٹرمپ نے امریکی سیاست کے تضادات سے فائدہ اٹھایا، روایتی اور منظم سیاست کا حصہ نہ ہونے، منفی پبلسٹی اور بد تمیزی کا آئیکون بننے کے باوجود کس طرح کامیابی کے آئیڈیل ماڈل کو پاش پاش کیا جا سکتا ہے، کامیابی کا ہما جن کے سروں پر ہمیشہ بیٹھا کرتا ہے، ان سے الیکشن کس طرح چھینا جاتا ہے۔ یہ سب سیکھا جا سکتا ہے، اگر کوئی سیکھنے والا ہو۔

  • شعرِاقبال کی حقیقی قدروقیمت پر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا نقطۂ نظر – سید متین احمد

    شعرِاقبال کی حقیقی قدروقیمت پر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا نقطۂ نظر – سید متین احمد

    سید متین احمد اردو کے معروف نقاد جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے کلاسیکی اردو غزل میں شعریات کے دو بنیادی پہلو شمار کیے ہیں، یعنی علمیاتی (Epistemological) اور وجودیاتی (Ontological)؛ اول الذکر پہلو میں شعر کی مضمون آفرینی، خیال آرائی اور دیگر معنوی جہات کو دیکھا جاتا ہے، جبکہ ثانی الذکر پہلو میں شعر کے صوری محاسن کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ کلاسیکی عہد کے گزر جانے کے بعد شعر کے علمیاتی اور معنوی معاییر میں ہمیں ایک نئے بُعد (Dimension) کا اضافہ ملتا ہے، جسے ”پیغام“ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اردو تنقید کے عناصرِ ثلاثہ، یعنی آزاد، حالی اور شبلی سے شروع ہوتا ہے، اور جس کا اوجِ کمال علامہ اقبال کی شاعری ہے۔ 1857ء کے زوال کا اثر محض ہمارے سیاسی وجود تک باقی نہیں رہا، بلکہ اس نے تہذیب کی جملہ جہات کو متاثر کیا جس نے مسلمانوں میں بالعموم احیا و تجدید کا ذہن پیدا کیا کہ وہ کس طرح اپنی عظمتِ رفتہ کا سراغ پھر سے لگائیں اور قومِ آوارہ، سوئے حجاز عناں تاب ہو جائے۔ اقبال کا عہد ایک غیر معمولی تغیر سے گزر رہا تھا، جہاں نقوشِ کہن کی جگہ تہذیبِ جدید کی فتح مندیاں سایہ فگن ہو رہی تھیں اور علامہ راشد الخیری کے بقول صورتِ حال یہ تھی کہ پکی محل سرا ہو یا ٹوٹا ہوا گھر، بڑا شہر ہو یا چھوٹا ساگاؤں، دیوار و در سے بھی ترقی کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، معلوم ہوتا تھا کہ ملکۂ مغرب کی سواری اپنے وطن سے روانہ ہو کر دریائی مسافت طے کر رہی تھی اور کوئی دم جاتا تھا کہ شرقی حدود میں داخل ہو۔ اس سیم تن دلہن کی اقبال مندی کا نظارہ دیکھنے کے لیے مرد عورت تک سارے جھگڑے بھول کر اور گھر کے دھندے چھوڑ کر اس کے استقبال کی تیاریوں میں مگن تھے، ہر شخص اپنی کینچلی بدلے فلاح و بہبودی کے گل دستے ہاتھوں میں تھامے راتیں سحر اور مہینے دن بسر کیے جاتے تھے۔ علامہ اقبال اگرچہ خود استادگانِ فرنگ سے فیض یاب تھے اور ان کے خمستانِ تہذیب سے مدتوں سیراب ہوئے تھے، لیکن یہ کسی کا فیضانِ نظر تھا، سعادتِ ازلی کی یاوری تھی یا نہاں خانۂ دل میں چھپا وہ نورِ فطرت تھا جس نے اس سیلابِ بلاخیز کے سامنے ”رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور“ کے مصداق [pullquote]يَكَادُ زَيْتُھَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ[/pullquote]

    کا منظر پیش کیا۔ ”بانگِ درا“ میں موجود نظم ”ایک آرزو“، ایک سالک کی ابتدائی بےچینی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پہلا شعر ہی دیکھیے :
    دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
    کیا لطف انجمن کا ، جب دل ہی بجھ گیا ہو!

    اللہ کے اولیا کے حالات میں ملتا ہے کہ ان کی سیر الی اللہ کا سفر ابتدا میں ایک بے چینی سے ہوتا ہے، ان کا دل دنیا کی رونقوں سے بالاتر ہو کر کسی ابدی حقیقت کی تلاش میں کھویا جاتا ہے، سوال کی خلش بیدار ہوتی ہے، طلب کی کسک بے قرار کرتی ہے، وہ خلوت کے گوشوں اور تنہائی کے ویرانوں کا شائق ہوتا ہے، وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے ازدحام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقامِ عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آ جائے تو اپنے ان سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لیے وہ ہمہ وقت تشنہ اور بے قرار ہے۔ جب شام کی دلہن سنہری سرخی لگا کر نمودار ہوتی ہے، ندیا کا صاف پانی چھماچھم بہتا ہوا سہانی جلترنگ چھیڑتا ہے تو ”ایک آرزو“ کے سالک کو اپنی تمنا کا جواب ملتا محسوس ہوتا ہے۔ ذرا اس بے قراری کا موازنہ کیجیے ”المنقذ من الضلال“ والے امام غزالی ؒ کے ساتھ جس نے اپنی تلاشِ حق کے سفر کی سرگزشت میں کہا ہے کہ کبھی یہ سوچتا کہ بغداد سے نکل جاؤں اور جاہ و ثروت کے ان احوال سے دست کش ہو جاؤں، کبھی موانع آ گھیرتے، ایک قدم آگے بڑھاتا تو دوسرا پیچھے ہٹاتا، اگر کسی صبح عقبیٰ کی طلبِ صادق دل میں کروٹ لیتی تو شام کو جنودِ شہوت ہلہ بول دیتے۔ ایک طرف دنیا کی خواہشات بغداد ہی میں رہ جانے پر مجبور کرتیں اور دوسری طرف داعیۂ آخرت کوچ! کوچ! پکارتا۔ زندگی اور کائنات کی حقیقت کو پانے کی یہ بے چینی اصل میں ان انسانوں میں پیدا ہوتی ہے جو قدرت کی طرف سے بلند فطرت کا عطیہ لے کر دنیا میں آتے ہیں۔ انھیں لفظ کے بجائے معنیٰ، مجاز کے بجائے حقیقت اور قشر کے بجائے مغز کی جستجو ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نبوت ملنے سے پہلے اسی تلاشِ حقیقت کے بے قرار جذبے سے آبادیوں سے دور حرا کی تنہائیوں میں تعبد یا تحنث میں مصروف ہوجاتے اور بالاخر ایک شاہدِ ربانی نے آکر حقیقتِ منتظر کا مژدہ سنا دیا ہے۔ ایک غیر پیغمبر لیکن حقیقت کا متلاشی انسان ساری عمر اسی طلب کے لذت میں گزار دیتا ہے اور موت کے بعد اس ابدی حقیقت کو پانے سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ اقبال کے سیر الی اللہ کے اس ابتدائی پس منظر کو سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان کی فطرت کے حقیقی رخ کا اندازہ لگایا جائے۔

    علامہ اقبال کو عموما فلسفی، شاعر ، مفکر اور تجدیدی فکر رکھنے والے سیاسی مفکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن اقبال کی ان تمام جہات سے برتر اور فائق حیثیت اس کے ایمان کے داعی کی ہے۔ اقبال کی اس جہت کو سب سے زیادہ جس شخصیت نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، وہ شاید مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت ہے۔ فکرِ اقبال پر علماء کی طرف سے حصہ ڈالنے میں غالبا سب سے بڑا حصہ ندوی علما کا ہے۔ سب سے پہلے اقبال پر اس حلقے میں سے مولانا عبدالسلام ندوی ؒنے ”اقبال کامل“ لکھی جس کو فہمِ اقبال کے تین ابتدائی ستونوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اصل میں تخلیق کے بجائے ایک نہایت حسین تالیف ہے جس میں 1948ء سے پہلے پہلے اقبال کی زندگی میں جو کچھ شائع ہوا تھا، اس میں سے تحریروں اور افکار کا ایک عمدہ انتخاب عمدہ تصنیفی حسن کےساتھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ اقبال کی حیات وفکر کے جملہ گوشے آسان الفاظ میں سامنے آجاتے ہیں۔

    اس حلقے سے دوسری کتاب مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے عربی میں ”روائع اقبال“ کے نام سے لکھی، جس کا اردو ترجمہ ندوہ ہی کے ایک فاضل مولوی شمس تبریز خان نے ”نقوشِ اقبال“ کے نام سے کیا۔ اقبال کے شعر کے ایمانی اور پیامی پہلو پر لکھنے کے لیے چوں کہ محض الفاظ کا علم کافی نہیں، جب تک اقبال کے دل کا سوز وگداز ، نالۂ نیم شب اور خداوندِ باری کے سامنے تڑپنے پھڑکنے کا کچھ حصہ مصنف کو نہ ملا ہو، اس لیے اس پہلو کو قدرتی طور پر مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت نے عمدگی سے نمایاں کیا ہے، کیوں کہ وہ خود وقت کے اعلیٰ شیوخ اور اہلِ دل کے تربیت یافتہ بزرگ تھے۔ اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف اقبال کی فکر سے آگہی ملتی ہے، بلکہ پڑھنے والے کو دل کا سوز و گداز بھی میسر ہوتا ہے اور یہ وہ گوہرِ بےبہا ہے جو آج کے مادیت پرستی اور نظارۂ مجاز کی کشتہ محفل میں دولتِ کونین لٹا کر بھی ملے تو ارزاں سودا ہے۔ چناں چہ کتاب کے اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب ماہر القادری نے لکھا: ”مولانا علی میاں نے علامہ اقبال کی نظموں اور شعروں کے انتخاب میں بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے اس خریطۂ جواہر سے سب سے زیادہ تابناک لعل وگہر چنے ہیں۔ فاضل مصنف نے جس حسنِ نزاکت اور دیدہ وری کے ساتھ اشعارِ اقبال کی تشریح و ترجمانی کی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابنِ تیمیہ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے۔ اقبال پر بڑی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر یہ کتاب اس مجاہد عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے ”مردِ مؤمن“ کا مصداق ہے۔ اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ”نقوشِ اقبال“ میں خود اقبال کی فکر اور روح اس طرح گھل مل گئی ہیں، جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی۔“

    شعرِ اقبال کا وہ اصل ایمانی اور پیامی پہلو، جو آج کے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، واضح کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں:
    ”اقبال کو پسند کرنے کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں اور ہر شخص اپنی پسند کے مختلف وجوہ بیان کر سکتا ہے۔ انسان کی پسند کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی فن پارے کو اپنے خوابوں کا ترجمان اور اپنے دل کی زبان پانے لگتا ہے۔ انسان بہت خود بین و خود پسند واقع ہوا ہے۔ اس کی محبت و نفرت اور دلچسپیوں کا مرکز بڑی حد تک اس کی ذات ہی ہوتی ہے۔ اس لیے اسے ہر وہ چیز اپیل کرتی ہے، جو اس کی آرزوؤں کا ساتھ دے سکے اور اس کے احساسات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ میں بھی اپنے آپ کو اس کلیہ سے الگ نہیں کرتا۔میں نے کلامِ اقبال کو عام طور پر اسی لیے پسند کیا ہے کہ وہ میری پسند کے معیار پر پورا اترتا اور میرے جذبات اور محسوسات کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ وہ میرے فکر و عقیدہ ہی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں، بلکہ اکثر میرے شعور اور احساسات کا بھی ہم نوا بن جاتا ہے۔ سب سے بڑی چیز جو مجھے ان کے فن کی طرف لے گئی، وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا حسین امتزاج ان کے شعر اور پیغام میں ملتا ہے اور جس کا ان کے معاصرین میں کہیں پتا نہیں لگتا۔ میں بھی اپنی فطرت اور طبیعت میں ان تینوں کا دخل پاتا ہوں۔ میں ہر اس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیارانہ بڑھتا ہوں، جو بلند نظری، عالی حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیرِ کائنات اور تعمیر انفس و آفاق کے لیے ابھارتا ہے، جو مہر و وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمانی شعور کو بیدار کرتا ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت و ابدیت پر ایمان لاتا ہے۔ میری پسند اور توجہ کا مرکز وہ اس لیے ہیں کہ وہ بلند نظری، محبت اور ایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدہ ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گذشتہ کے لیے سب سے فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کے عظیم داعی ہیں۔“
    اقبال کے شعر کا یہ وہ پہلو ہے جو انھیں کسی روایتی شاعر یا ادیب کی پہچان سے ہٹا کر انھیں اصحابِ دعوت کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اگرچہ ان کے یہ پہلو بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں، لیکن ان پہلوؤں کی حیثیت ضمنی ہے۔ وہ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:
    مری نواے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
    کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ

    اقبال کی سیاسی فکر کو تھوڑی دیر کے لیے موجودہ عالمی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں کسی درجے میں irrelevant بھی قرار دے دیا جائے، یہ ان کی شخصیت کی حقیقی عظمت کا پہلو شاید نہ ہو جس کے نتیجے میں فکرِ اقبال کی عصری معنویت سے انکار کیا جا سکے؛ بلکہ اقبال کی حقیقی پہچان یہ ہے کہ حیات وکائنات کے راز ہاے سربستہ کی جستجو میں وہ ابتدا میں ایک طلبِ صادق کے حامل سالک کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اس غور و فکر، آہ و بکا اور تڑپ کے نتیجے میں اللہ طرف سے انھیں دردِ دل کا حقیقی گوہر عطا ہوتا ہے جس سے ان کے پیغام میں ایمان کی ابدی دعوت کا وہ عنصر شامل ہوتا ہے جو نہ صرف آج کے انسان کی ضرورت ہے بلکہ ہر عہد کے انسان کی۔یہ ایمانی دعوت غیر اللہ سے بے نیازی، اہلِ ثروت سے استغنا، تعریف وشہرت کی حرص سے دوری جیسے اوصاف کو اپنے اندر سموئے ہے۔ اس میں اللہ کو پانے کی سچی تڑپ اور حبیبِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے در سے لو لگانے کی پکار ملتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے پہلو سے آج کا انسان جتنا مفلس اور تہی دامن ہے، جتنا شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔

  • علامہ محمد اقبال ؒ، تہذیبی کشمکش کا فیصلہ کن کردار – پروفیسر ڈاکٹر ساجد خاکوانی

    علامہ محمد اقبال ؒ، تہذیبی کشمکش کا فیصلہ کن کردار – پروفیسر ڈاکٹر ساجد خاکوانی

    گزشتہ صدی کا آغازاس وقت ہوا جب تقریباََ پوری دنیا پر سامراج اپنے استبدادی پنجے پوری طرح گاڑھ چکا تھا۔ فرد کو غلامی سے نکالنے والی انسانیت کی دعوے دار تہذیب، مشرق سے مغرب تک کم و بیش کل اقوام عالم کو اپنی معاشی، تہذیبی، دفاعی اور تعلیمی غلامی میں بری طرح جکڑ چکی تھی۔ اقدار کی تبدیلی سے ذہنی غلامی تک اور تہذیب و ثقافت کی نام نہاد تجدید سے جمہوری سیاسی نظام کی تاسیس تک آسیب زدہ سائے اور مقروض لہجے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔ قوموں کی خرید و فروخت میں غداروں کی پرورش کرنے والے ’’غم خواران انسانیت‘‘ تباہ کن ہتھیاروں کی دوڑ میں اس قدر آگے نکل چکے تھے کہ دو بڑی بڑی جنگیں قبیلہ بنی نوع آدم کے دروازے پر دستک دیا چاہتی تھیں۔ بظاہر چھٹی صدی عیسوی کا منظر نامہ ایک بار پھر پیش نظر تھا اور اب کی بار جہالت ایک نئے روپ میں سامنے تھی۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور بے پناہ علوم و معارف کی حامل دنیا میں کہ جہاں راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو چکی تھیں، اس تہذیبی یلغار کے سامنے بند باندھنے کے لیے کسی نظریہ، کسی فکر اور کسی نظام عمل میں دم خم نہ تھا، حالانکہ ماضی قریب میں مشرق بعید کے ممالک بالشویک انقلاب کا مکروہ چہرہ دیکھ چکے تھے، تاہم یہ انقلاب بھی اقتصادی میدان میں تو سرمایاداری کا مقابلہ کر پایا لیکن تہذیبی میدان میں ہاتھ بلند کر کے مغرب کا حاشیہ بردار ہی ثابت ہوا۔

    اسلامی نظام حیات ایک بار پھر اپناحق قیادت لے کر دنیا کے سامنے آیا اور سلام ہوں خاتم النبیین ﷺ پر کہ جن کی امت کی کوکھ دور غلامی میں بھی سرسبز و شاداب رہی۔ ابلیس سے ابوجہل تک جس طرح منبر و محراب سے طاغوت کو للکارا جاتا رہا، اس بارگی بھی اسی وحی الہی کی حقانیت نے مغربی تہذیب کے ایوانوں میں صدائے حق بلند کی اور یہ کارنامہ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کا ہے جو اسلام کے نمائندے کے طور پر مغرب اور اہل مغرب کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہے۔ علامہ محمد اقبال دور غلامی میں جنم لینے والے امت مسلمہ کے عظیم فکری و نظریاتی رہنما تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان اہل فکر و عمل تین گروہوں میں تقسیم تھے، ایک گروہ حالات سے مایوسی کا شکار ہو کر مدارس و خانقاہوں میں گوشہ نشینی اختیار کر چکا تھا اور اس گوشہ نشینی میں ہی اپنی اور نسلوں کی بقا کو مضمر سمجھتا تھا، دوسرا گروہ یورپی مغربی سیکولر یلغار سے اس قدر مرعوب ہو چکا تھا کہ ایمان و عقائد کو بھی نہ چھوڑنا چاہتا تھا اور مغرب کے ساتھ بھی قدم ملا کرچلنا چاہتا تھا کیونکہ اس گروہ کو اپنے مفادات بہت عزیز تھے، اہل سیاست کی اکثریت اسی گروہ سے تھی۔ علامہ محمد اقبال ؒ اپنے وقت کے تیسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے جس نے مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، وہ اگرچہ غلام قوم سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا ذہن کبھی غلام نہیں رہا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ملت کو آزادی کا درس دیتے رہے اور بار بار بکریوں کے گلے میں پلنے والے شیر کو جو اپنے سینگ نہ ہونے اور پاؤں میں کھروں کے بجائے پنجے ہونے پر افسردہ رہا کرتا تھا، اسے بتاتے رہے کہ ساتھ کی جھیل میں جا کر اپنی شکل دیکھو اور اپنا آپ پہچانو، تم محافظت میں گھاس چرنے اور شکار ہونے کے لیے نہیں ہو بلکہ اس دنیا کی حکمرانی تمہارا طرہ امتیاز ہے جس کا حق تم ایک شاندار ماضی میں تاریخ کے ان مٹ اوراق میں رقم کر چکے ہو۔

    علامہ محمد اقبال ؒ نے سوئی ہوئی ملت کو اس اسلوب میں للکارا کہ مشرق سے مغرب تک امت مسلمہ میں بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ ملت جو غیروں کے سامنے ذہنی پسماندگی کا شکار تھی، کلام اقبال کے باعث اعتماد نفسی پانے لگی، جس قوم کا اپنا آپ کہیں کھو گیا تھا، اسے فکر اقبال کے آئینے میں اپنا تابناک ماضی اور روشن مستقبل نظر آ گیا۔ امہ کو دوست اور دشمن کی تمیز مل گئی، اپنے اور غیر کا فرق میسر آ گیا اور نوجوانوں کو اک تازہ ولولہ ملا کہ اندھیرے میں بھٹکنے والے گروہ نے ’’قوم‘‘ کی پہچان پا کر منزل آشنائی اختیار کر لی۔ تہذیبی یلغار جو اپنی پوری قوت سے امت پر حملہ آور تھی، علامہ محمد اقبال ؒ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ خاص طور پر یہ کہ وہ دور سے حملہ کرنے والے سپاہی نہ تھے بلکہ مغرب کے قلب میں بیٹھ کر اور خاص طور پر لندن جیسے شہر میں رہ کر انہوں بنظر غائر ان کی تہذیب کا مطالعہ و مشاہدہ کیا تھا، وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو انگریزی زبان بولنے کو خلاف اسلام سمجھتے تھے بلکہ وہ انگریزوں سے بڑھ کر انگریزی دان تھے، اور اس زمانے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے خم ٹھونک کر ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے برملا اس بات کا واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
    جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

    علامہ محمد اقبال ؒ کی دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو تہذیبی مکالمہ آج کے دانشوروں کو نظر آ رہا ہے، علامہ محمد اقبال ؒ نے کم و بیش ایک صدی قبل اس کا اندازہ لگا لیا تھا اور صرف اندازہ ہی نہیں لگایا تھا بلکہ ایسے پرزور طریقے سے اس تہذیبی کشمکش میں اپنا کردار ادا کیا تھا کہ دیانت دار اہل مغرب آج بھی ان کے دلدادہ ہیں اور جرمنی جیسے یورپی ملک میں ان کے نام سے بعض جگہیں بھی منسوب ہیں اور وہاں کی جامعات نے ’’اقبال چیئر‘‘ کے نام سے ان کے افکار کا مطالعہ بھی شروع کر رکھا ہے۔علامہ اقبال کے نشتر صرف غیروں پر ہی نہ چلے بلکہ انہوں نے اپنوں کی بھی خوب خبر لی۔گزشتہ سطور میں جن دو طبقات کا ذکر ہوا، ایک وہ جو گوشہ نشینی اختیار کر گیا اور دوسرا وہ جو مرعوبیت کا شکار ہو گیا، علامہ محمد اقبال ؒ نے دونوں کو اپنی قلم کی نوک پر رکھا اور امت پر سخت وقت کا انہیں ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے دونوں طبقوں کو نصیحت کی کہ ایک گوشہ نشینی یعنی مدرسوں اور خانقاہوں سے نکلے اور دوسرا ذہنی غلامی سے آزاد ہو اور دونوں مل کر امت کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیں کہ ایک کے پاس دینی علوم کی امانت ہے تو دوسرا عصری علوم سے واقفیت رکھتا ہے، علامہ محمد اقبال ؒ دین و دنیا کی تفریق پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

    علامہ محمد اقبال ؒ نے مسلمانوں کے ماضی کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے زوال کی بہت ساری وجوہات کو اپنے کلام میں جگہ دی اور اس کے اگرچہ متعدد حل دریافت کیے لیکن آپ نے بہت زیادہ زور ’’اجتہاد‘‘ پر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک زمانے کے عالی دماغوں نے اپنی بہترین ذہنی استعداد کے باعث آنے والی کئی صدیوں میں پیش آمدہ مسائل کا ادراک کر کے تو قبل از وقت ان کا حل پیش کر دیا تھا، اس کے اگرچہ مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن تیار شدہ حل مل جانے کے باعث آنے والی صدیوں کے علماء کی اجتہادی فکر ماند پڑتی گئی اور رہی سہی کسر دور غلامی نے پوری کر دی اوراس طرح گویا صدیوں سے سوکھ جانے والا فکر نو کا یہ چشمہ نہ صرف یہ کہ خشک سے خشک تر ہوتا گیا بلکہ اس پر اتنی گرد بیٹھ گئی کہ نسلوں سے جمے ہوئے پتھروں میں یہ اپنا مقام بھی گم کر بیٹھا، کسی نے اسے تلاش کرنے کی جستجو بھی کی تو وہ پتھر اسی کے گلے پڑ گئے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے اجتہاد کا دروازہ کھولنے پر بہت زور دیا۔ ان کے منظوم کلام میں اس کا ذکر بہت کم ہے یا صرف استعارات کی شکل میں موجود ہے تاہم ان کے خطبات میں اس پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے، انہوں نے اجتہاد پر سیر حاصل بحث کی اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے طریق کار کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اوریہ بات ثابت کی ہے کہ وحی الہی اور سنت رسول اﷲﷺ نے تازہ ہوا کے لیے جس روشن دان کو وا کیا تھا، اس کو بندکر دینے سے پیدا ہونے والا حبس ہی امت کی غلامی کا سبب ہے اور جب تک اس ہوا دان کو نہ کھولا جائے گا اور کمرے کی سڑاند باہر نہ جائے اور فکر نو کے جھونکے جب تک اندر نہ آئیں گے، تب تک سیاسی آزادی حاصل کر بھی لی تو ذہنی غلامی باقی رہے گی۔

    قیادت کے رہنمائی ساتھ ساتھ علامہ محمد اقبال ؒ نے عوام میں احساس بیداری کی روح پھونکی اور فرد کو اپنی’’خودی‘‘ کی نگہبانی کا درس دیا اور قوم کے ایک ایک فرد کو یہ باور کرایا ’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘۔ ان کا کلام سن کر افراد قوم اپنے اندر ایک نیا انسان جنم لیتے ہو ئے محسوس کرتے اور غلامی کی طویل رات نے ان کے اذہان کو جس طرح زنگ آلود کر دیا تھا اور ان کے رویوں پر جس طرح صدیوں کی میل جم چکی تھی، اور عدم قیادت نے انہیں جس طرح تقسیم در تقسیم کر کے غیروں کی گود میں جا بٹھایا تھا اور کتنے ہی اہل دانش تھے جو اس ناسمجھی میں دشمنوں کے ہاتھوں کھیل کر اپنوں کی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپتے چلے آرہے تھے، علامہ محمد اقبال ؒ کی فکر تازہ نے انہیں خوب خوب مانجھنے کا کام کیا اور وہ علامہ کی ایک ایک نظم کے ساتھ چمکتے گئے اور صاف ستھرے ہوتے چلے گئے۔ یہ درست ہے کہ علامہ محمد اقبال ؒ نے قوم میں جذباتی فضا پیدا کر دی تھی، اگرچہ یہ بھی ایک مشکل کام تھا جو ہر کسی کے بس میں نہ تھا لیکن علامہ نے جذبات میں آگ لگا کر قوم کو محض چھوڑ نہیں دیا تھا بلکہ خطبہ الہ آباد میں ایک نئی ریاست کا تصور دے کران کے جذبات کی سمت بھی متعین کر دی تھی۔ پھر کتنا بڑا احسان کیا انہوں نے مسلمانان ہندوستان پر کہ مایوس ہو کر انگلستان جا بیٹھنے والے محمد علی جناح ؒ کو خصوصی خط لکھ کر واپس بلایا اور یہ علامہ محمد اقبال ؒ کا خلوص اور مردم شناسی تھی کہ ان کی مساعی سے قوم کوکھوٹے سکوں کے درمیان سے ایک ’’قائداعظم‘‘ میسر آ گیا، اور اﷲ تعالی نے ایک مرد قلندر کا خواب دوسرے مرد قلندر کے ہاتھوں پورا کر دیا۔ علامہ محمد اقبال ؒ زندہ رہتے تو قائداعظم کبھی تنہائی کا درد محسوس نہ کرتے لیکن یہ خدائی فیصلے ہیں، اور انہیں چیلنج کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی روکا جاسکتا ہے کہ بار الہ اپنے رازوں سے خود ہی آگاہ ہے اور بہتر جانتا ہے اور بہتر ہی کرتا ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے تحریک پاکستان کو ایسی چابک لگائی تھی کہ پھر یہ تحریک گویا آج تک زندہ ہے اور مجاہدین کشمیر اسی تحریک کی باقیات ہیں جو تخلیق پاکستان کے بعد سے آج تک تکمیل پاکستان کے لیے سرگرم عمل ہیں، کوئی قیادت ان کا ساتھ دے یا نہ دے، ملک و قوم ان کی دستگیری کریں یا نہ کریں، وسائل اور حالات موافق ہوں کہ مخالف، علامہ محمد اقبال ؒ سے شروع ہونے والا یہ قافلہ سخت جاں اﷲ نے چاہا تو منزل پر پہنچ کر ہی دم لے گا۔

    جس طرح علامہ کی فکر کی ہم رکابی میں یہ ملک آزاد ہوا اور بچھڑے ہوئے مسلمان یک جان قوم بنے،اسی طرح علامہ کی فکر میں ہی ہماری بقا ہے۔ علامہ کے افکار کو پس پشت ڈال کر ہم ایک بار پھر غلامی کی اندھیر غار میں جا پڑیں گے،دوسروں کے محتاج ہو جائیں گے اورہماری قوم غداروں کی پرورش میں خود کفیل رہے گی۔ فکراقبال کو اپنانے کے نتیجے میں ہم اپنا وجود دنیا سے منوائیں گے، سخت کوشی اور خودی کی نگہبانی سے مشرق سے ایک بار پھر طلوع ہو کر تو دنیا بھر کو اپنی کرنوں سے منور کر دیں گے، ایک بار پھر حرم کی نگہبانی مسلمانوں کا مقدر بنے گی، اتحاد و یگانگت اور پیار و محبت کے پھولوں سے یہ گلشن آشنائے بہار ہوگا، مسجد قرطبہ ایک بار پھر مسلمانوں کی جبینوں سے آباد ہو گی اور انسانیت کو مادیت اور جنسیت سے نجات میسرآئے گی، اور کچھ بعید نہیں کہ تاریخ کا یہ سفر ایک بار پھر ماضی کی شاندار روشوں میں امت مسلمہ کا ہم رکاب بن جائے اور دنیا کی امامت کا تاج حاملین قرآن کے ماتھے کا جھومر بنے، ان شاء اﷲ تعالی۔
    خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
    سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

  • دہشت گردی کا جرم اور اسلامی قانون – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    دہشت گردی کا جرم اور اسلامی قانون – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق بعض اہل علم نے یہ رائے پیش کی ہے کہ دہشت گردی کا جرم حرابہ کی تعریف میں داخل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:
    ”قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہو جائے تو اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم و برہم کر دے، لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اغواء، زنا، تخریب ترہیب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں“۔

    مولانا اصلاحی نے یہ رائے آیت حرابہ کی تفسیر کے ضمن میں پیش کی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے قرار دیا تھا کہ رجم کی سزا زانی محصن کے لیے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو زنا کو عادت یا پیشہ بنائیں یا زنا بالجبر کا ارتکاب کریں۔ ان کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے:
    ”محاربہ اور فسادفی الارض، یعنی اللہ اور رسول سے لڑنے اور ملک میں فساد بر پا کرنے کے معنی ان آیات میں یہی ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور پوری جرأت و جسارت کے ساتھ اس نظام حق کو درہم بر ہم کرنے کی کوشش کرے جو شریعت کے تحت کسی خطہء ارض میں قائم کیا جا تا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی حکومت میں جو لوگ زنا بالجبر کا ارتکاب کریں یا بدکاری کو پیشہ بنالیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بد معاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں یا اپنی دولت و اقتدار کے نشے میں غریبوں کی بہو بیٹیوں کو سر عام رسوا کریں یا نظم حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قتل و غارت، ڈکیتی، رہزنی، اغوا، دہشت گردی، تخریب، ترہیب اور اس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں وہ سب اسی محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرم قرارپائیں گے“۔

    یہ رائے ایک نئی اپچ کہلائی جاسکتی ہے مگر، جیسا کہ ہم دوسرے مقام پر تفصیل سے واضح کرچکے ہیں، اس کو قبول کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی قانون کے پورے ڈھانچے کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنے کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جس قانونی نظام کو مسلمان اہل علم نے صدیوں کی محنت سے تعمیر کیا اور اس کے اندرونی تضادات کے ختم کرنے کی جستجو کی، اس کے قانونی اثرات کی توضیح میں عمریں صرف کیں، اس کے اندر رہتے ہوئے دہشت گردی کے جرم کی جگہ اور حیثیت معلوم کی جائے۔

    فقہاء نے جس طرح اسلام کا فوجداری قانونی نظام تعمیر کیا ہے اس کے مطابق فساد فی الأرض کی ایک خاص قسم کو ہی حرابہ کہا جاسکتا ہے۔ مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کی آرا کو بنیاد بناتے ہوئے مشہور کیس ”بیگم رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان“ میں وفاقی شرعی عدالت نے زنا بالجبر کو حرابہ قرار دیا اور سوال اٹھایا:
    ”کسی کے مال پر ہاتھ ڈالنا اگر محاربے کی تعریف میں شامل ہے تو کسی کی عزت لوٹ لینا اس میں کیوں شامل نہیں ہوسکتا؟ آخر ایک انسان کے پاس عزت و عفت سے بڑا سرمایہ اور یوں کسی کی عصمت دری کرنے سے زیادہ فساد اور کیا ہوسکتا ہے؟“
    عدالت نے یہاں عزت و عفت کو ”سرمایہ“ قرار دیا ہے۔ ادب اور بلاغت کے لحاظ سے یہ کہنا شاید مناسب بھی ہے اور جذبات کو اپیل بھی کرتا ہے، لیکن قانونی لحاظ سے اسے سرمایہ قرار دینے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدالت نے یہ بحث نہیں کی کہ اسے مال متقوم سمجھا جائے گا یا غیر متقوم؟ اگر غیر متقوم ہو تو اس کو حرابہ کے تحت کیسے لایا جاسکتا ہے؟ اور اگر متقوم ہو تو کیا یہ بھی ماننا پڑے گاکہ اس سرمائے کے اتلاف پر ضمان بھی عائد کیا جائے گا؟ اگر ہاں تو اس تقویم کا معیار کیا ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات اور بھی پیدا ہوتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ اندرونی تضادات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے۔

    ہم نے ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے حدود جرائم اور سزاؤں کے نظام پربحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ حدود سزائیں تو صرف بعض مخصوص جرائم کی مخصوص سزائیں ہیں جو صرف اسی وقت دی جاسکتی ہیں جب وہ جرائم ایک مخصوص ضابطے کے تحت ثابت کیے جائیں۔ نیز ان جرائم کے سلسلے میں ملزموں کو بعض مخصوص اضافی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں، جن کی بنا پر ان سزاؤں کا نفاذ شاذ و نادر ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ سزائیں فقہاء کی تقسیم کے مطابق حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ان کے لیے ایک مخصوص قانون ہے۔ فرد کے حقوق پر عدوان کو فقہاء نے تعزیر کا نام دیا ہے اور اس کے لیے حدود کی بہ نسبت ہلکی شرائط رکھی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک نہایت محدود دائرے سے تعلق رکھنے والی سزائیں ہیں۔ وہ جرائم جن کا اثر چند افراد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ ان سے متاثر ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر جو فساد فی الأرض کا باعث بنتے ہوں، ان کو فقہاء نے ”حقوق الامام“ یعنی حکمران کے حقوق سے متعلق قرار دے کر ”سیاسۃ“ کے قاعدے کے تحت حکمران کو ان کے تدارک، سد باب اور ان کے لیے سزائیں تجویز کرنے کے اختیارات دیے۔ فی الحقیقت یہی سیاسہ کا تصور ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے جرم کے خلاف شرعی قواعد کی روشنی میں مناسب قانون سازی کی جاسکتی ہے۔
    علامہ ابن عابدین شامی اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    [pullquote]فالسیاسۃ استصلاح الخلق بارشادھم الی الطریق المنجی فی الدنیا و الآخرۃ۔[/pullquote]

    (پس سیاسۃ سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا و آخرت میں نجات دینے والا راستہ دکھاکر ان کی اصلاح کی جائے۔ )
    ابن نجیم نے یہی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
    [pullquote]و ظاھر کلامھم ھھنا أن السیاسۃ: ھی فعل شیء من الحاکم لمصلحۃ یراھا و ان لم یرد بذلک الفعل دلیل جزئی۔[/pullquote]

    (یہاں فقہاء کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ سیاسۃ سے مراد حاکم کا وہ اقدام ہے جو وہ کسی مصلحت کی بنیاد پر اٹھائے خواہ اس مخصوص فعل کے لیے کوئی خاص نص نہ پائی جائے۔)

    یوں سیاسۃ کا تصور کا فی وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ تاہم بالخصوص فوجداری قانون کے حوالے جب اس اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہ سزائیں ہیں جو حاکم شرعی قواعد کی روشنی میں فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے مقرر کرتا ہے۔ اس قاعدے کے تحت حکمران کو صرف سزا دینے ہی کا اختیار حاصل نہیں ہے بلکہ جرائم کی روک تھام کے لیے بھی وہ مناسب احتیاطی اقدامات (preventive measures) اٹھاسکتا ہے۔ چنانچہ فقہائے احناف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نصر بن حجاج کی مدینہ سے جلاوطنی کے اقدام کو بھی سیاسۃ قرار دیتے ہیں کیونکہ اگرچہ نصر نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا لیکن اس بات کا قوی اندیشہ وجود میں آگیا تھا کہ اس کے حسن کی وجہ سے کوئی خاتون فتنے میں پڑ جائے گی۔

    تاہم یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ حکمران کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ اسے عدل کے متعلق اسلامی قانون کے قواعد عامہ کے تحت ہی اس اختیار کا استعمال کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس کے اقدام کو سیاسۃ ظالمۃ قرار دیا جائے گا اور اس حکم کا ماننا جائز نہیں ہوگا۔ حموی کہتے ہیں:
    [pullquote]السیاسۃ شرع مغلظ، و ھی نوعان: سیاسۃ ظالمۃ، فالشریعۃ تحرمھا، و سیاسۃ عادلۃ تخرج الحق من الظالم و توصل الی المقاصد الشرعیۃ، فالشریعۃ توجب المصیر الیھا و الاعتماد فی اظھار الحق علیھا۔ و ھی باب واسع۔[/pullquote]

    (سیاسۃ سخت سزا کو کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک سیاسۃ ظالمۃ جسے شریعت حرام ٹھہراتی ہے اور دوسری سیاسۃ عادلۃ جو ظالم سے مظلوم کا حق حاصل کرتی ہے اور مقاصد شریعت کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے، پس شریعت اس سیاسۃ پر عمل کو واجب ٹھہراتی ہے اور حق کے غلبے کے لیے اس پر انحصار کو لازم کرتی ہے۔ اور اس سیاسۃ کا باب بہت وسیع ہے۔ )
    یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اہم جرائم کا تذکرہ کیا جائے جن کے لیے احناف سیاسۃً سزائے موت کے قائل ہیں۔
    ایک یہودی کی سزائے موت کا ذکر روایات میں اس طرح آیا ہے:
    [pullquote]ان یھودیا رضخ رأس جاریۃ فی أوضاخ فامر رسول اللہ ﷺ بان یرضخ رأسہ بین حجرین۔[/pullquote]

    (ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر پتھروں سے کچل دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے۔ )

    احناف کا مؤقف ہے کہ یہ سزا قصاص نہیں تھی کیونکہ قصاص کے اثبات کے لیے مجرم کا اقرار یا اس کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت ضروری ہوتی ہے، جبکہ اس قتل کے مجرم کو سزا واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر سنائی گئی تھی۔ اسی لیے احناف قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں سمجھتے۔ شمس الائمۃ سرخسی اس روایت کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
    [pullquote]و تاویل الحدیث أنہ أمر بذالک علی طریق السیاسۃ، لکونہ ساعیا فی الأرض بالفساد، معروفا بذلک الفعل۔ بیانہ فی ما روی أنھم أدرکوھا و بھا رمق، فقیل لھا: أ قتلک فلان؟ فأشارت برأسھا لا۔ حتی ذکروا الیھودی فأشارت برأسھا أن نعم ۔ و انما یعد فی مثل تلک الحالۃ من یکون متھما بمثل ذلک الفعل معروفا بہ۔ و عندنا اذا کان بھذہ الصفۃ، فللامام أن یقتلہ بطریق السیاسۃ۔[/pullquote]

    (اور حدیث کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے ایسا سیاسۃ کے طریق پر کیا کیونکہ وہ یہودی زمین میں فساد کا مرتکب تھا اور اس کے لیے معروف بھی تھا۔ اس کی وضاحت اس روایت میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس خاتون کو دیکھا تو اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا فلاں نے تمہیں قتل کیا؟ تو اس نے سر کے اشارے سے کہا کہ نہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس یہودی کا نام لیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں اسی کا نام لیا جاتا ہے جو اس قسم کے کام کے لیے بدنام اور مشہور ہو۔ اور ہمارے نزدیک جب وہ اس صفت کا حامل ہو تو حاکم کو اختیار ہے کہ اسے بطریق سیاسۃ قتل کردے۔)

    لواطت کے جرم کو بھی امام ابوحنیفہ زنا کے بجائے سیاسۃ کے تحت لاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا اس جرم کی سزا کی نوعیت پر اختلاف تھا۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ لواطت کے مرتکبین کو آگ میں جلایا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ غیر محصن ہوں تو سو کوڑے دیے جائیں اور محصن ہوں تو رجم کیا جائے۔ جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ کسی بلند مقام سے لڑھکایا جائے اور پھر پتھر مارے جائیں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ سب سے زیادہ بدبودار جگہ میں قید کیے جائیں یہاں تک کہ بدبو کی وجہ سے وہ مر جائیں۔ سرخسی امام ابوحنیفہ کے موقف کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
    [pullquote]الصحابۃ اتفقوا علی ان ھذا الفعل لیس بزنا، لانھم عرفوا نص الزنا، و مع ھذا اختلفوا فی موجب ھذا الفعل، و لا یظن بھم الاجتھاد فی موضع النص۔ فکان ھذا اتفاقا منھم أن ھذا الفعل غیر الزنا، و لا یمکن ایجاب حد الزنا بغیر الزنا۔ بقیت ھذہ جریمۃ لا عقوبۃ لھا فی الشرع مقدرۃ ، فیجب التعزیر فیہ یقینا۔ و ما وراء ذلک من السیاسۃ موکول الی رأی الامام، ان رأی شیئا من ذلک فی حق فلہ أن یفعلہ شرعاً۔[/pullquote]

    (صحابہ کا اس پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے، کیونکہ وہ زنا کے نص سے واقف تھے اور اس کے باوجود اس فعل کی سزا میں ان کا اختلاف ہوا، اور ان کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کریں گے۔ ان کی جانب سے اس امر پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے۔ اور زنا کی حد کا غیر زنا کی سزا کے طور پر دینا ممکن نہیں۔ پس یہ فعل ایسا جرم ہوا، جس کے لیے شرع میں کوئی مقررہ سزا نہیں۔ لیکن اس میں سزا دینا یقینا ضروری ہے۔ اب اس سے آگے جو سیاسۃ ہے، وہ حاکم کی رائے کے سپرد ہے۔ اگر وہ کسی حق میں ایسی کوئی رائے رکھے تو شرعاً اسے اختیار ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔)

    اسی طرح احناف کے نزدیک زانی غیر محصن کے لیے جلاوطنی کی سزا حد میں شامل نہیں ہے اور جن بعض روایات میں زانی غیر محصن کو جلاوطن کردینے کی سزا کا ذکر آیا ہے اسے وہ سیاسۃ پر محمول کرتے ہیں۔ بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے:
    [pullquote]و لا یجمع فی البکر بین الجلد و النفی الا أن یری الامام فی ذلک مصلحۃ، فیغربہ علی قدر ما یری۔[/pullquote]

    (غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوڑوں اور جلاوطنی کو جمع نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ اگر امام کو اس میں مصلحت نظر آئے تو وہ اسے جس مدت تک مناسب سمجھے جلاوطن کرسکتا ہے۔ )
    اس عبارت کی شرح میں ہدایۃ میں اس طرح کی گئی ہے:
    [pullquote]و ذلک تعزیر و سیاسۃ، لأنہ قد یفید فی بعض الأحوال، فیکون الرأی فیہ الی الامام۔ و علیہ یحمل النفی المروی عن بعض الصحابۃ رضی اللہ عنہم۔[/pullquote]

    (یہ جلاوطنی بطور تعزیر و سیاسہ کے ہوگی کیونکہ بعض حالات میں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ پس اس معاملے میں حتمی فیصلہ امام کا ہے۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے جلاوطنی کی جو سزا مروی ہے اسے اسی پر محمول کیا جائے گا۔ )

    اسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقے پر مباشرت کی صورت میں دی جانے والی سزائے موت کو بھی احناف سیاسۃ قرار دیتے ہیں۔ یہی حکم عادی چور، جادوگر، داعی زندیق اور دیگر مفسدین کا ہے جن کے فساد کے خاتمے کے لیے اور لوگوں کو ان کے شر سے بچانے کے لیے انہیں سزائے موت دینا ضروری ہوجاتا ہے۔

    ہماری رائے میں عرنیین، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو وحشت ناک طریقے سے قتل کیا اور مال مویشی لوٹ کر بھاگ نکلے، کو دی جانے والی سزا بھی سیاسۃ ہی کی نوعیت کی تھی۔ پہلے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے، پھر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں۔ اس کے بعد انہیں گرم صحرائی علاقے میں پھینک دیا گیا۔ پھر اسی حالت میں وہ سسک سسک کر مر گئے۔ اس سزا کو سیاسۃ قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کے اقرار یا ان کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت کے بجائے واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر یہ سزا دی گئی تھی۔ نیز ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کے بعد ان کے بار بار مانگنے کے باوجود ان کو پینے کے لیے پانی نہیں دیاگیا، نہ ہی ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی۔ مزید برآں، قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں ہے۔

    پس دہشت گردی کے جرم سے نمٹنے کے لیے مسلمان حکمران کو سیاسۃ کے قاعدے کے تحت قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وہ شرعی قواعد اور ضوابط کا خیال رکھے گا کیونکہ اگر اس نے ان حدود سے تجاوز کیا تو وہ سیاسۃ ظالمۃ کا مرتکب ہوگا۔

    (جہاد ، مزاحمت اور بغاوت سے اقتباسات)

  • علمِ نبوت کی کرنیں اور جدید سائنس – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    علمِ نبوت کی کرنیں اور جدید سائنس – پروفیسر مفتی منیب الرحمن

    مفتی منیب الرحمن جدید میڈیکل سائنس کی ارتقا کا عمل جاری وساری ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سفر کہاں جا کر ختم ہوگا یا کبھی ختم ہوگا بھی یا نہیں۔ لیکن جس سطح تک یہ ارتقائی عمل اب تک پہنچ چکا ہے، اُس کی اساس ہمیں بخوبی علمِ نبوت میں نظر آتی ہے اور احادیثِ مبارکہ کا ذخیرہ اس پر شاہدِ عدل ہے۔ انسانی رنگت، شکل و شباہت، اَعضاء کی ساخت، مزاج کے تنوُّع اور نسَب کے جانچنے کے حوالے سے سائنس دانوں نے قانونِ توارُث کو متعارف کیا، اس میں Mandel,LvonPoalov اور Calvin Hall کے نام قابلِ ذکر ہیں اور ڈی این اے بھی اِسی کا تسلسل ہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بےشک اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو جب پیدا کیا، تو پورے کُرَۂ ارض سے ایک مُشتِ خاک لی، تو مٹی کی جتنی رنگتیں اور قِسمیں ہیں، وہ سب بنی آدم کی رنگتوں اور مزاج میں ڈھل گئیں۔ سو بنی آدم میں سرخ، سفید، سیاہ اور ملی جلی رنگتوں کے افراد موجود ہیں۔ اِسی طرح بعض مٹی نرم ہوتی ہے، بعض سخت، بعض درمیانی خاصیت کی اور اِسی طرح کوئی مٹی اپنی اصل کے اعتبار سے خبیث، کوئی پاکیزہ اور کوئی درمیانی خاصیت کی ہوتی ہے، (طبقات الکبریٰ لابن سعد:30)‘‘۔ سو مٹی کے یہ خواص انسانی مزاج میں ڈھل گئے۔

    پس انسانوں میں بھی آپ کو ہر طرح کے مزاج والے ملیں گے، نرم خو بھی ہوتے ہیں، معتدل مزاج بھی ہوتے ہیں، اکھڑ، اَڑیَل اور دُرُشت مزاج بھی ہوتے ہیں۔ اِسی طرح بنی آدم میں بدطینت، اَخلاقِ رذیلہ و خبیثہ کے حامل اور اخلاقِ حمیدہ سے مزیّن ہر طرح کے افراد ملتے ہیں۔ الغرض اصل خِلقتِ آدم تو مٹی سے ہے اور وہ قطرۂ آب جو انسان کے وجود کا نقطۂ آغاز ہے، ان تمام خصوصیات کا حامل ہے اور یہ سب چیزیں انسانوں میں منعکس نظر آتی ہیں۔ حدیث پاک میں ہے:
    ’’ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک وسلم)، میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹے نے جنم لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اُس نے جواب دیا: جی ہاں!، آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں؟ اُس نے عرض کی: سرخ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو وہ (یعنی سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ) کہاں سے آ گیا؟ اُس نے عرض کی: شاید کسی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ قیاس فرماتے تھے اور اس میں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حیوانات میں بعض نسلی خصوصیات پر مبنی قانونِ توارُث جاری ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے، اِسی طرح انسانوں میں بھی یہ قانون ِ فطرت جاری و ساری ہے۔ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً وہ شخص سفید رنگ کا تھا، تو اُسے اپنے سیاہ فام بیٹے کے بارے میں شُبہ ہوا کہ کہیں اس کا نسب مشتبہ تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے اپنی پاکیزہ الہامی بصیرت سے اُس کے شک و شبہے کو دور فرما دیا اور درج ذیل حدیثِ مبارک میں اس کی مزید وضاحت ملتی ہے:
    علی بن ابی رباح اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا؟ اُس نے جواب دیا، میرے ہاں جو بھی پیدا ہوگا بیٹا ہوگا یا بیٹی، آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ (صورت میں) کس سے مشابہ ہوگا؟ اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! (صلی اللہ علیک و سلم)، یقینا اپنے باپ یا ماں میں سے کسی کے مشابہ ہوگا، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ) جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ (اپنی قدرت سے) اُس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان تمام رشتوں (یعنی اُن کی صورتوں) کو حاضر فرما دیتا ہے، (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ’’وہ جس صورت میں چاہتا ہے، تمہارے وجود کی تشکیل فرما دیتا ہے. (المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔

    غور کا مقام ہے کہ اُس دور میں جسے دورِ جہالت کہا جاتا ہے، نورِ نبوت کے سوا، جو وحیِ الٰہی کا منبع ہے، کسی اور صاحبِ علم و دانش کی بصیرت و فراست کے بارے میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ وہ اتنی گہرائی اور گیرائی کی حامل ہو اور علم کی ایسی کرنیں بکھیر دے کہ جن تک جدید دور کے ذی عقل و ذی شعور انسانوں کی صدیوں بعد جزوی رسائی ہوئی ہو۔ یہ مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ بچے کی صورت نہ باپ کے مشابہ ہے اور نہ ماں کے، اِسی سبب بعض لوگ صحتِ نسب کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے علمِ نبوت کے فیض سے اِس مسئلے کو کم و بیش سوا چودہ سو سال پہلے حل فرما دیا ۔ اس مسئلے کی مزید تصدیق و تصویب اس حدیثِ پاک سے ہوتی ہے. ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ کا رُخِ انور مسرّت و شادمانی سے دمک رہا تھا۔آپ ﷺ نے فرمایا: (عائشہ!) تمہیں معلوم ہے کیا ہوا؟ زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید چادریں اوڑھ کر اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ اُن کے سر (اور بدن کا بالائی حصہ) ڈھکا ہواتھا اور پاؤں کھلے تھے۔ اس اثنا میں بنو مُدلِج کاایک قیافہ شناس مُجَزَّزْ مُدْلِجِی آیا، اچانک اُس کی نظر دو لیٹے ہوئے اشخاص پر پڑی (جن کے صرف پاؤں نظر آ رہے تھے)، تو اُس نے کہا: یہ پاؤں ایک دوسرے سے ہیں، یعنی یہ آپس میں باپ بیٹا ہیں. (صحیح مسلم: 1459)‘‘۔

    حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والے چار نفوس میں شامل ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنّیٰ تھے، جب آپ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا، تو انہوں نے آزاد ہوکر اپنے ماں باپ اور خاندان کے پاس جا کر رہنے کے بجائے، رسول اللہ ﷺ کی دائمی غلامی کو ترجیح دی۔ انہوں نے ایک حبشی عورت بَرَکہ، جن کی کنیت اُمِّ اَیمَن تھی، سے شادی کی اور اُن سے اُن کے فرزند اسامہ پیدا ہوئے۔ حضرت اسامہ کا لقب ’’حِبُّ رسولِ اللّٰہ‘‘یعنی ’’رسول اللہ ﷺ کا محبوب‘‘ تھا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کو ایک ہی سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے تھے، عربی میں اونٹ یا گھوڑے پر سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کو ردیف کہتے ہیں۔ وہ رنگت میں سیاہ فام لگتے تھے۔ باپ سے رنگت کے فرق کی وجہ سے کسی بدنیت شخص نے اُن کے نسب پر شک ظاہر کیا، اس سے رسول اللہ ﷺ کو رنج ہوا ۔لہٰذا جب مُجَزَّزْمُدْلِجِی نے قیافے کی بنا پر محض دونوں کے پاؤں دیکھ کر انہیں باپ بیٹا قرار دیا، تو آپ ﷺ کو نہایت مسرت ہوئی۔ شرعاً تو ان کا نسب پہلے ہی ثابت تھا، مگر قرائن کی شہادت سے اس کو تقویت ملی، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ شہادت کا اصل معیار تو شریعت ہی کا رہے گا، تاہم قرائن کی شہادت اس کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہیں۔

    موسمیاتی تغیر: آج کل موسمیاتی تغیر کا عالَمی چیلنج درپیش ہے۔ Global Warming یعنی عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافہ ایک خطرے کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ سو ماحولیاتی حرارت میں کمی یا کم از کم اسے موجودہ حد تک برقرار رکھنے کے لیے ایک مفید حکمت عملی شجرکاری اور جنگلات میں اضافہ ہے۔ عالمی ماہرین کسی بھی ملک کی زمین میں جنگلات کا ایک کم از کم تناسب ضروری سمجھتے ہیں۔ جنگلات اور درخت موسم کو بہتر رکھنے، زلزلوں اور طوفانی بارشوں میں زمین کے کٹاؤ کو روکنے کا باعث بنتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے اس فعل کو نیکی کا درجہ دیا اور اس کے ثمرات کو صدقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
    (1) ’’جو شخص کوئی درخت لگائے یا فصل کاشت کرے، پھر اُس سے کوئی انسان یا پرندہ یا درندہ یا چوپایا کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے. (مسند احمد:15201)‘‘۔
    (2) ’’جو بھی مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اُس درخت سے جو کچھ کھایا جائے، وہ اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو اُس سے چوری ہوجائے، اور جو درندے اُس سے کھا لیں، وہ (بھی) اُس کے لیے صدقہ ہے اور جو پرندے اُس سے کھا لیں، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہے، اور کوئی شخص اُس میں سے کم کرے گا، وہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوجائے گا. (مسلم: 1552)‘‘۔
    (3) ’’اگر قیامت سر پہ کھڑی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کسی درخت کا کوئی قلم یا پودا ہے، اگر وہ کھڑا ہونے سے پہلے اُسے زمین میں لگا سکتا ہے، تو ضرور لگا لے.(ادب المفرد:479)‘‘۔

    یہ انسان کی فطرت ہے اور اس کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کاشت کی ہوئی فصل، لگایا ہوا باغ اور بویا ہوا پودا جب کامل ہوجائے، تواپنی محنت کا سارا ثمر وہ اپنے دامن میں سمیٹ لے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا کوئی دانہ، کوئی پھل، کوئی پھول، کوئی سبزی الغرض کوئی بھی چیز ضائع ہوجائے۔ لیکن شجر کاری وہ شعبہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے نیت کے بغیر ہی انسان کو اجر کا حق دار قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے صدقے سے تعبیر فرمایا ہے۔ اُس میں سے کوئی چیزانسان، حیوانات، چرند، پرند، درندے حتیٰ کہ حشراتُ الارض کھائیں یا چوری ہوجائے یا کوئی کمی ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ اُس پر بھی اُسے اجر عطا فرماتا ہے۔ انسان کے لگائے ہوئے درخت کی چھاؤں میں کوئی راحت پالے تو یہ بھی صدقہ ہے، کوئی پرندہ اُس کی شاخوں میں آشیانہ بنا لے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ جو دین اتنا ماحول دوست ہو، انسان نواز ہو، اللہ کی ہر مخلوق کے لیے وسیلۂ رحمت ہو، حتیٰ کہ اللہ کی زمین کی برقراری اور شادابی کے لیے سہارا ہو، اُس کے ماننے والوں کے وطن میں جنگلات تباہ و برباد ہوتے رہیں، زمین درختوں کے سائبان سے بےلباس ہوجائے، اِسے دنیا و آخرت کی محرومی کے سوا اور کس چیز سے تعبیر کیا جائے۔ اس کی اہمیت کا بیان زبانِ نبوت ہی فرما سکتی ہے کہ تمہارے ہاتھ میں قلم یا شاخ ہے اور قیامت سر پہ کھڑی ہے، تب بھی اٹھنے سے پہلے اسے زمین میں لگا سکتے ہو تو لگا لو۔

    کلوننگ: کسی جاندار کے وجود کے ایک خَلیے (Cell) سے دوسرے جاندار کے پیدا کیے جانے کے جدید سائنسی نظریے کو کلوننگ کہتے ہیں، جیسا کہ سائنس دانوں نے اپنے دعوے کے مطابق ایک بھیڑ کے خَلیے سے ’’ڈولی‘‘ نامی دوسری بھیڑ پیدا کی۔ الحمدللہ! قرآن کریم نے ماں باپ دونوں کے واسطے کے بغیر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش، عورت کے واسطے کے بغیر حضرت آدم کے وجود سے حضرت حوا کی پیدائش اور مرد کے واسطے کے بغیر حضرت مریم کے وجود سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا حوالہ دے کر روزِ اول سے بتا دیا ہے کہ یہ تمام صورتیں نہ صرف ممکن ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وجود میں آچکی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    (1)’’بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم کی سی ہے، جسے اس نے مٹی سے بنایا، پھر (اسے) فرمایا: ہوجا، سو وہ ہوگیا، (آل عمران:59)‘‘۔
    (2)’’(اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (الاعراف:189)‘‘۔
    (3)’’فرشتے نے کہا: میں تو صرف تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تمہیں ایک پاکیزہ بیٹا دوں، مریم نے کہا: میرے ہاں بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ کسی بشر نے مجھے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتے نے کہا: (مَشِیْئَتِ باری تعالیٰ) اِسی طرح ہے، آپ کے رب نے فرمایا: یہ مجھ پر آسان ہے تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بنا دیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں طے شدہ امر ہے، (مریم: 19-21)‘‘۔
    (4)’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا (Spouce یعنی حواکو) پیدا کیا اور اُن دونوں سے بہ کثرت مَردوں اور عورتوں کو (زمین میں) پھیلا دیا، (النساء:1)‘‘۔
    یہی بات حدیث پاک میں بیان کی گئی ہے، فرمایا:’’عورتوں کے ساتھ خیرخواہی کرو، کیونکہ (کائنات کی پہلی) عورت کو (آدم) کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی کی سب سے اوپر والی ہڈی ٹیڑھی ہے، پس اگر تم ان کو (زاویۂ قائمہ کی طرح) سیدھا کرنے لگو گے، تو توڑ دوگے اور اگر تم اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہےگی، سو عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو. (صحیح بخاری:3331)‘‘۔

    ہماری دینی بہنیں اس حدیث کو سن کر ناگواری محسوس کرتی ہیں کہ انہیں ٹیڑھا کہا گیا ہے۔ دراصل رسول اللہ ﷺ نے طبائع اور مزاجوں کے تفاوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ عورت کو سو فیصد اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ اس کے مزاج کے ساتھ مطابقت (Adjustability) پیدا کرو۔ ظاہر ہے کہ مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر فریق کو دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی ہوتی ہے، سو خاندانی نظام کو استوار رکھنے کے لیے مرد کو بھی جھکنا پڑے گا، اکڑ کر رہنے سے ٹکراؤ تو ہو سکتا ہے، مطابقت نہیں ہوسکتی اور خاندان بکھر جاتا ہے، جو منشائے ازدواج کے خلاف ہے۔

    کتے کے منہ کے جراثیم: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈالے (یعنی زبان سے چاٹے)، تو اُسے پاک کرنے کے لیے سات مرتبہ دھویا جائے، جن میں سے پہلی مرتبہ اُسے مٹی سے مانجھا جائے(بخاری:168)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتے کے منہ سے نکلنے والے جراثیم موذی ہوتے ہیں اور اُن سے بچاؤ کے لیے احتیاط نہایت ضروری ہے، آج کل مٹی کی جگہ کیمیکل یا واشنگ پاؤڈر استعمال کیے جاتے ہیں۔ حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کے لعاب کا تریاق مٹی میں ہے اور شاید مٹی میں ایسا دافع عفونت (Antiseptec) مادہ ہوتا ہے جو کتے کے جراثیم کے برے اثرات کا خاتمہ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے کہا: خشک مٹی پاک ہے اور اُس پر کوئی کپڑا بچھائے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میرے لیے مٹی کو پاک کردیا ہے، (سنن ابودائود:489)‘‘۔

    ماہرین بتاتے ہیں کہ کتا جب فُضلہ خارج کرتا ہے تو اُس کے ذرّات اُس مقام کے اطراف کے بالوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں، پھر اُن میں موذی جراثیم (Viruses) پیدا ہوتے ہیں اور کتا جب اُس مقام کو چاٹتا ہے، تو وہ جراثیم اُس کے لعاب میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کتا جب باؤلا ہوجاتا ہے، تو اُس کے لُعاب (Spittle) میں Lyssaviruses پیدا ہوجاتے ہیں اور اگر اُن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو اُس سے Rabies کی بیماری پیدا ہوتی ہے، علامات (Symptoms) ظاہر ہونے کے بعد یہ بیماری تقریباً ناقابلِ علاج ہوتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس آخری مرحلے کے بعد اب تک طبی دنیا میں صرف پانچ مریضوں کا شفایاب ہونا ریکارڈ پر ہے۔ اس بیماری کے بعد دماغی اعصاب (Neuro Nerves) متاثر ہوتے ہیں اور Hydrophobia یعنی پانی سے خوف کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور مریض شدید پیاس کے باوجود پانی نہیں پی پاتا۔ ابتدائی مراحل میں اگر زخم کو اچھی طرح Antibiotic سے دھو لیا جائے اور Immunoglobulin کے انجکشن دے دیے جائیں، تو بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ سرِ دست کوئی ایسا میڈیکل ٹیسٹ ایجاد نہیں ہوا کہ اس بیماری کو ابتدا ہی میں Diagnose کیا جاسکے، جدید تحقیق کے مطابق یہ چھ ہفتے سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے میں نمودار ہوسکتی ہے، البتہ پوسٹ مارٹم میں تشخیص ہوسکتی ہے۔

    یہ علمِ نبوت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ﷺ نے دینی و اَخلاقی تعلیمات کے ذریعے اِن مہلک جسمانی امراض اور اَخلاقی عوارض کے علاج تجویز فرمائے۔

    کلمات کی تاثیر: قرآن مجید کی سورہ المائدہ:4 میں تربیت یافتہ اور سِدھائے ہوئے کتوں کے ذریعے حلال جانور کے شکار کے جواز کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، کتبِ فقہ میں اس کے تفصیلی احکام اور شرائط موجود ہیں، حدیثِ پاک میں ہے:
    حضرت عدی بن ابی حاتم نے نبی ﷺ سے عرض کی: ہم لوگ کتوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں (یعنی اس کا حکم کیا ہے؟)، نبی ﷺ نے فرمایا:’’جب تم نے بسم اللہ پڑھ کر اپنے شکاری کتے کو چھوڑا اور اس نے شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو کھالو اور اگر اُس نے خود کھا لیا تو پھر تم مت کھاؤ، کیونکہ اُس نے اِس جانور کو اپنے لیے شکار کیا ہے۔اور اگر اُس کے ساتھ دوسرے شکاری کتے بھی مل جائیں، جن پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اور انہوں نے اُس شکار کو روکے رکھا اور مار ڈالا، تو تم اس کو نہ کھاؤ، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ ُان میں سے کس کتے نے اِس شکار کو مار ڈالا ہے،(بخاری:5484)‘‘۔

    اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے مقدس نام میں ایسی معنوی اور روحانی تاثیر موجود ہے، جس کے سبب اللہ کے نام پر چھوڑے ہوئے اور سِدھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہو جاتا ہے، حالانکہ کتے کے لعاب کا حکم آپ حدیثِ پاک میں پڑھ چکے ہیں کہ اُس کی پاکیزگی میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے، لیکن شکاری کتے پر بسم اللہ پڑھنے کی برکت سے شریعت نے کتنی رعایت دی۔ بعض ماہرین نے اس کا حسّی سبب بھی بتایا ہے اور علامہ ابن حجر نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ جب کتا شکار کے پیچھے دوڑتا ہے، تو اُس کے منہ کا لعاب خشک ہوجاتا ہے اور وہ جب شکار کو پکڑتا ہے تو اُس کا لعاب شکار کو آلودہ نہیں کرتا۔ الفاظ کی روحانی تاثیر کو تو سبھی مانتے ہیں، عربی شاعر نے کہا ہے:
    جَرَاحَاتُ السَّنَانِ لَھَا الْتِیَامُ وَلَا یَلْتَامُ مَاجَرَحَ اللِّسَانُ
    ترجمہ: تیر کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ مُندَمِل (Recover) ہو جاتے ہیں، لیکن زبان کا لگا ہوا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ میں تاثیر ہے۔ اچھی نیت سے پیار بھرے الفاظ سن کر انسان کا قلب مسرور ہوجاتا ہے اور روح کو سکون ملتا ہے، جبکہ نفرت انگیز الفاظ سُن کر دل پر چوٹ لگتی ہے اور روح سے ٹِیسیں اٹھتی ہیں۔ سو اگر کوئی شیطانی کلمہ روح کو بےچین کرسکتا ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کی صداقت میں کوئی شبہ رہ جاتا ہے؟۔’’سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے، (الرعد:)‘‘۔ اور حدیثِ پاک میں ہے:’’دو کلمے اللہ کو پسند ہیں، جو پڑھنے میں نہایت سہل ہیں اور (قیامت کے دن) میزانِ عمل میں وہ بھاری ہوں گے اور وہ یہ ہیں:’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘(بخاری:7563)‘‘

    ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:’’میں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پست قد کے بارے میں طعن کیا، تو نبی ﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) تم نے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اُسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے، تو وہ اُسے بھی بدمزہ کردے، (سنن ترمذی: 2502)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اور برے کلمات کی تاثیر ہوتی ہے اور وہ انسان کے ذہن پر مُثبت یا منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    (1)’’اچھی بات کہنا اور (کسی کی غلطی سے) درگزر کرنا اُس صدقے سے بہتر ہے جسے بعد میں جِتلا کر اذیّت پہنچائی جائے اور اللہ بےنیاز، نہایت حِلم والا ہے اور اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور (ذہنی) اذیت پہنچا کر ضائع نہ کرو. (البقرہ:263-64)‘‘۔
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پاکیزہ بات صدقہ ہے (یعنی کسی کو اچھی بات کہنے پر بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے) ، (بخاری:2891)‘‘۔ جب رسول اللہ ﷺ نے بدشگونی کی مذمت فرمائی، تو فرمایا: نیک فال لینا بہتر ہے، سوال ہوا: یارسول اللہ! نیک فال کیا ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ پاکیزہ بات جسے کوئی سنے (اور خوش ہو)، (بخاری:5754)‘‘۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ (بےہودہ بات کہنے کے بجائے) چپ رہے. (6018)‘‘۔

  • اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان انکم ٹیکس کے گوشواروں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ ہر سال وکیل اس ملک کے سرمایہ داروں کا ٹیکس بچانے کے لیے ایسے ایسے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشوارے کے بارے میں آج کے ایک اخبار میں ایک مشہور آڈٹ فرم کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف کے ٹیکس گوشواروں میں کسی بھی قسم کی کوئی لاقانونیت نہیں پائی جاتی اور یہ عین انکم ٹیکس قانون کے مطابق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ آڈٹ کمپنی خواہ وہ کس قدر قابل اعتماد کیوں نہ ہو، کی کوئی رپورٹ اس وقت تک قانون میں اعتماد کا درجہ نہیں رکھتی جب تک اس کام پر مامور سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل یا انکم ٹیکس آڈٹ کے افسران اس کی تصدیق نہ کریں۔ اس لیے کہ تمام آڈٹ فرمیں مختلف کمپنیوں کے آڈٹ اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے نامکمل کاغذات کو مکمل کرائیں، اور ان کی خامیاں دور کریں۔ ان کمپنیوں کا خرچہ وہ سرمایہ دار خود ادا کرتے ہیں البتہ وہ رپورٹ قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے جو کسی عدالت یا حکومتی محکمہ کی جانب سے انکوائری کےلیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طور پر پیش کی جائے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ کہ آڈٹ رپورٹ کی حیثیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، جو ایک اخبار میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی۔

    آئیں اب دیکھتے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف کے 2011ء میں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں کیا تھا جس کی پانچ سال بعد ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم سے تصدیق کروائی گئی۔ اس گوشوارے میں ملک کے غریب و بےنوا سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا نہ کوئی ذاتی کاروبار ہے اور نہ ہی آمدن کا کوئی ذریعہ۔ وہ لندن سے اپنے بیٹے (جن کا نام درج نہیں) سے 1،29،836،905 تقریبا تیرہ کروڑ روپے منگواتے ہیں، جن میں سے وہ اپنی زیرکفالت مریم نواز کو 31،700،1080 یعنی تین کروڑ روپے گفٹ کر دیتے ہیں اور اپنے ایک بیٹے حسن نواز کو بھی 19،459440 یعنی تقریبا دو کروڑ روپے عنایت کر دیتے ہیں۔ میں نے مریم نواز کو زیرکفالت اس لیے لکھا ہے کیونکہ اس انکم ٹیکس کے گوشوارے میں ایک خانہ ہے جس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے (اثاثے جو آپ کی بیوی، نابالغ بچوں یا دیگر زیرکفالت افراد کے نام پر ہیں)، اس خانے میں مریم نواز کے نام پر ایک زرعی جائیداد دکھائی گئی ہے جس کا کوئی نام مقام نہیں ہے، لیکن اس کی مالیت 24،851،526 روپے یعنی تقریبا ڈھائی کروڑ روپے بتائی گئی۔

    ایک سال کے بعد خیال آیا کہ یہ زرعی زمین جو مریم نواز کے نام پر ہے، اس کا علیحدہ گوشوارہ جمع کروایا جائے، کہ کہیں لوگ یہ سوال نہ کرنے لگیں کہ باقی دو بچوں کو کوئی جائیداد نہیں دی، کس قدر ناانصاف باپ ہے۔ یوں مریم نواز نے 2012ء میں پہلی دفعہ نیشنل انکم ٹیکس نمبر حاصل کیا اور اپنے باپ سے جو تین کروڑ روپے گفٹ کے طور پر لیے تھے، اس میں سے زمین کی قیمت 24،851،526 روپے واپس کر دیے، گویا باپ کے دیے گئے پیسوں کی صورت تحفے کو زمین کے طور پر بدل دیا۔ ان سارے تحفوں کے بارے میں اس وقت ایک بےچاری اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر نے نوٹس جاری کیا کہ یہ ساری دولت جو بیٹے سے باپ اور پھر باپ سے بیٹے اور بیٹی کو دی گئی ہے، اگر یہ کراس چیک کی صورت نہیں ہے تو یہ گفٹ یا تحفہ شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ آمدنی شمار ہوگی جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس گستاخی پر اس خاتون کو جو سزا بھگتنا پڑی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

    یہ ہے اس گوشوارے کی مختصر سی کہانی جس کو ایک عام سی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی اگر پڑھے تو اسے حیرت و استعجاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وہ میاں محمد نواز شریف جس کے چوہدری شوگر مل میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے حصص ہیں، رمضان شوگر ملز اور حدیبیہ پیپرز میں حصے ہیں، وہ پہلے پیسے منگواتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لندن کے کسی کاروبار کا منافع حاصل کر رہا ہے، اور پھر یہ ”غریب آدمی“ اس میں سے بیٹے بیٹی کو کروڑوں روپے گفٹ کر دیتا ہے، اور اسی سے بیٹی باپ کو زمین کے پیسے ادا کرتی ہے، مگر کیونکہ انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کراس چیک کے بغیر رقم دراصل آمدن شمار ہوتی ہے، (یہ وہی زرعی اراضی ہے جس کا انکار مریم نواز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کر چکی ہیں) اس لیے سوال اٹھتا ہے مگر جواب کے بجائے بےچاری اسسٹنٹ کمشنر پر نزلہ گرا دیا جاتا ہے. یہ میاں محمد نوازشریف صاحب جن کا کوئی ذریعہ آمدن اس قابل نہ تھا کہ گزارا ہو سکے، اور وہ اپنے بیٹے سے پیسے منگوانے پر مجبور تھے، وہ اس شریف خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کے خلاف 16مارچ 1999ء کو لندن کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ حدیبیہ پیپرز، میاں شہباز شریف، میاں محمد شریف اور میاں عباس شریف کے خلاف التوفیق انوسٹمنٹ فنڈز نے جو قرضہ واپس لینے کا دعوی کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت ہے اور رقم ادا کی جائے۔ 5 نومبر 1999ء تک قرضہ ادا نہ کیا گیا تو عدالت نے شریف خاندان کے چار فلیٹ قرضے کے بدلے میں اٹیچ کر دیے جو لندن میں واقع ہیں۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جن کی ملکیت کے بارے میں ہر کوئی مختلف تاریخیں بتاتا ہے۔ میاں محمد شریف کی ملکیت سے فلیٹ براہ راست بچوں کو منتقل ہو گئے اور میاں محمد شریف نے اس دنیاوی دولت کی طرف اپنی درویشانہ خصلت کی وجہ سے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔

    یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ایک جائیداد ہے، ایک گوشوارہ انکم ٹیکس ہے، جوابدہی کرنا ہو تو جس تاریخ سے یہ خاندان اقتدارکی راہداریوں میں آیا ہے، اس دن سے آج تک سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان کیسے ہو گئی؟ یہ صرف پانامہ لیکس کا معاملہ نہیں، پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ پاکستان کا مستقبل اور ترقی صرف اور صرف ایک بنیادی تصور میں پوشیدہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے جو انکم ٹیکس، منی لانڈرنگ یا کرپشن ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس ملک کے ہر طاقتور کا گریبان پکڑ کر سوال کریں، اور اگر وہ نہ کریں تو عدالت اس پر مجبور کرے، اگر عدالت بھی کچھ نہ کرے، اور اس ظلم پر خاموشی رہے تو یہ ملک کو بربادی کی گہری کھائی میں پھینکنے کے مترادف ہوگا۔

    سوال کیا جاتا ہے کہ عدالت کی حدود کیا ہیں؟ یہ معاملہ تو پارلیمنٹ کا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ عام آدمی کرپشن، منی لانڈرنگ یا انکم ٹیکس چوری کرے تو یہ ایک جرم ہے لیکن سیاستدان ایسا کرے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انتقام ہے، کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ عام آدمی بددیانتی، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرے تو مجرم اور چور جبکہ کوئی سیاستدان کرے تو سیاسی الزام۔ عدالت پر صرف ایک ہی بات لازم ہے کہ وہ عام آدمی اور صاحب حیثیت کے درمیان عدل کرتے ہوئے فرق کو ختم کر دے۔ کیا نیب کو بلا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمھارے قانون کے مطابق جس شخص پر الزام ہو، اسے خود اپنی صفائی میں بتانا ہوگا کہ یہ الزام غلط ہے۔ مریم نواز کو نیب قوانین کے تحت پانامہ پیپرز لا کر دکھانا ہوگا کہ اس میں اس کا نام نہیں بلکہ بھائیوں کا نام ہے۔ ایف آئی اے کو بلا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمھارے سامنے پاکستان کے خاندان نے ملک کے باہر اثاثے بنائے، جبکہ ان کا وہاں کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، تم روز منی لانڈرنگ پر عام آدمی کو پکڑتے ہو، تم تحقیق و تفتیش کرکے بتاؤ۔ انکم ٹیکس کے حکام کو بلا کر پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک نئی گاڑی خریدنے پر تمھارا انسپکٹر عام آدمی کا جینا حرام کر دیتا ہے، تم نے گذشتہ برسوں میں اس قدر تیزی سے بڑھنے والے کاروبار کے بارے میں کیا کیا۔ اگر یہ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے تمام ادارے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم میں یہ ہمت و جرات نہیں کہ ہم قانون پر عملدرآمد کر سکیں تو کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ان تینوں اداروں کے تمام اہلکاروں کو بیک جنبش قلم سزا سنا دے، تمام اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ جو ادارے اپنے بنیادی مقصد یعنی کرپشن، منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری کا خاتمہ کرنے سے انکار کرتے ہیں، ان کے ”وجود مسعود“ کی اس ملک کو کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے میں عدالت اس اداروں کی غیرموجودگی میں اپنی مدد کےلیے دنیا کے کسی بھی آزاد تفتیشی ادارے کی مدد لے سکتی ہے۔ لیکن شاید اس کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان تینوں اداروں کو ختم کرنے کی وارننگ دے کر دیکھیں، خوف سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی، ہزاروں اہلکار نوکری بچانے اور جیل سے بچنے کےلیے ثبوت ہاتھوں میں لے کر عدالت کی جانب بھاگیں گے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آئین کے آرٹیکل 184 کو کھرچ دینا چاہیے۔