Blog

  • نانا جی مجھے آپ پہ فخر ہے – ڈاکٹر ہارون الرشید

    نانا جی مجھے آپ پہ فخر ہے – ڈاکٹر ہارون الرشید

    ہارون1

    سن ۱۹۱۴ میں ڈیرہ غازی خان جیسے بر صغیر کے دور دراز علاقے میں ایک انتہائی غریب خاندان میں آنکھ کھولنے والے محمدرمضان خان مریدانی وہ واحد پاکستانی تھے جن سے ملاقات کی غرض سے مشہور امریکی نابینا ماہر تعلیم اور سماجی رہنما ہیلن کیلر ( بی اے کے نصاب میں شامل ) نے کراچی کا سفر کیا۔ ۱۹۵۴ میں ہیلن کیلر کا پاکستان کا سفر بہت اہمیت کا حامل تھا اور اس نوزائدہ سلطنت میں ڈیرہ غازیخان کے ماہر خصوصی تعلیم رمضان خان مریدانی سے ان کی ملاقات کو اس وقت کے معروف انگریزی اخبارات نے پہلے صفحے پہ شہ سرخیوں کی زینت بنایا۔

    بعد ازاں محمد رمضان خان ہیلن کیلر کی دعوت پر حکومت پاکستان کے فیصلے کے مطابق امریکہ تشریف لے گئے اور نیو یارک کے ہیلن کیلر انسٹیٹیوٹ میں اہم زمہ داریوں پہ فائز ہوئے اور قریب قریب دو سال نیو یارک میں قیام کیا۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا کے دیگر کئی ملکوں میں خصوصی تعلیم کے ادارے قائم کرنے پہ مامور رہے۔ ۱۹۶۰ میں امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک کی شہریت کی پیشکشوں کو ٹھکرا کر اپنے وطن کی خدمت کرنے پاکستان واپس تشریف لے آئے اور ساہیوال ، لاہور اور ڈیرہ غازیخان میں خصوصی تعلیم اور معذور بچوں کے لئیے تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا۔

    پاکستان کے قیام سے قبل ڈیرہ غازیخان جیسے انتہائی پسماندہ علاقے میں دیگر نا مساعد حالات کے باوجود پڑھ لکھ کر اپنے شعبے میں اسطرح کی مہارت حاصل کرنا جسے بین الاقوامی سطح پر سراہا جائے نا ممکن اور معجزاتی عمل لگتا ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں کسی حکومتی فورم یا میڈیا میں ان کو سراہنے کے سلسلے میں نہ صرف بخل سے کام لیا گیا بلکہ انہیں فراموش کر دیا گیا یا شاید اس کی وجہ بھی یہ رہی کہ وہ چکا چوند اور نمائشی کارکردگی کے قائل ہی نہ تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ڈیرہ غازی خان منتقل ہو گئے تھے۔

    ہارون
    مرحوم رمضان خان مریدانی میرے نانا تھے اور ہمارے پورے خاندان اور علاقے کے لئیے مشعل راہ کا درجہ رکھتے تھے۔
    ۱۹۷۸ میں میری پیدائش سے تقریبا سات ماہ قبل کینسر کے مرض سے لڑتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اس بار عید کے موقع پہ گھر گیا تو دو تصویریں خستہ حالت میں ملیں ساتھ ہی پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ نئی نسل کو بھی آشنائی حاصل ہوکہ دنیا میں سپیشل ایجوکیشن کے فروغ کے لئیے جانے مانے کردار کا تعلق پاکستان اور ڈیرہ غازیخان سے تھا۔
    نانا جی مجھے آپ پہ فخر ہے۔

  • انسانیت کا سب سے بڑھ کر نقیب مسلمان کو ہونا چاہیے  –  ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    انسانیت کا سب سے بڑھ کر نقیب مسلمان کو ہونا چاہیے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ”انسانیت“ کی ترکیب کو لبرل دوست جن معنوں اور جس مقصد کے لیے بھی استعمال کریں وہ ان کا فعل ہے، لیکن خدا کا ماننے والا اس حوالہ سے کم حساس یا بے نیاز قطعی نہیں ہو سکتا، بلکہ سچ پوچھیے تو اس بارے سب سے زیادہ متفکر ہونا ہی ایک مسلمان کو چاہیے۔

    اللہ تبارک تعالیٰ نے بغیر لگی لپٹی رکھے ہمیں آگاہ کر دیا :
    اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے۔ (البقرۃ : 30)

    یعنی انسان کی تخلیق اور پھر اس کی خلافت ارضی پر سوال ہی یہ اٹھایا گیا کہ اس میں تو ایک بنیادی سقم ہے، یہ زمین میں قتل و غارت گری کا سامان کرے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے بالکل متضاد ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطالعہ سے ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ کا طریق تو اصلاح اور امن ہے، وہ خونریزی سے سخت بےزار ہے۔

    اگر کوئی لبرل کہے کہ خدا ایک ہے تو کیا ہم اس ڈر سے دو کہنا شروع کر دیں کہ کہیں ہمیں کسی بے دین کا ساتھی نہ سمجھ لیا جائے؟ خدا تو ایک ہی ہے، الحمدللہ، کہنے والے کی نیت اس کے ساتھ۔

    اسی طرح انسانیت کی بقا اور بھلائی کا سب سے بڑھ کر نقیب ایک مسلمان کو ہونا چاہیے کہ سب اس کے رب کی مخلوق ہیں اور وہ اپنے رب کا اس دنیا میں نمائندہ ہونے کا دعویدار۔

    پھر یہ بھی کہ اس پر یہ اعتراض کیا جا چکا کہ وہ تو خون بہانے والا ہے۔ ہمیں تو اپنے رب کا اپنے بندوں پر وہ مان سربلند رکھنا ہے جب اس نے اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے بہت شان سے فرمایا …

    ”جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے…!!!“

  • نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ   –  فیض اللہ خان

    نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ – فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nیقیناً آپ میں سے بیشتر احباب نے برہان الدین وانی کا تذکرہ آج سے پہلے زیادہ نہیں سنا ہوگا، ویسے ہمارے اپنے مسائل ہی اتنے گھمبیر ہیں کہ وانی و کشمیر کو کیوں اور کون توجہ دے یا یاد رکھے؟

    جب ہماری اکثریت شمس الحق افغانی و اشرف ڈار اور علی محمد ڈار جیسے مجاہدین کو نہیں جانتی، پھر ایسے میں وانی تو کل کا بچہ تھا جسے جوان ہوئے بمشکل چند ہی برس گزرے تھے۔۔۔

    یہ لگ بھگ ڈیڑھ دو برس پرانی بات ہے کہ سوشل میڈیا پہ بندوقیں سنبھالے کچھ کاری ضرب لگانے والے خوبرو نوجوانوں کی تصاویر پوسٹ کی گئیں۔ بے داغ شباب اور ہند کی غاصب فوج سے پنجہ آزمائی کا عزم رکھنے والے حزب المجاہدین کی نئی نسل کے عسکریت پسندوں کی تصویروں اور ویڈیوز نے کشمیر و ہند میں ہلچل مچادی۔ برہان الدین وانی ان ویڈیوز میں مرکزی حیثیت کا حامل نوجوان تھا، جس کی مختصر گفتگو نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی۔ وادی میں وانی وانی ہونے لگی۔ پاکستان کے کشمیر سے جڑے حلقوں میں اسے گہری دلچسپی سے دیکھا گیا۔ یہ تمام نوجوان کشمیر سے ہی تعلق رکھتے تھے جو صرف تصاویر ہی نہیں کھنچواتے تھے، بلکہ ہندی افواج کی کھال کھینچنے کا بھی عزم و ارادہ رکھتے تھے۔۔۔

    ہندی افواج نے وانی اور ساتھیوں کی تلاش شروع کردی، لیکن کامیابی نہ ملی۔ وانی جیسے تو دلوں کے حکمران ہوتے ہیں۔ سو ہر کشمیری کا گھر وانی کی جائے پناہ قرار پایا۔ اس دوران یہ شیر صفت ہندی افواج پہ جھپٹتے پلٹتے اور پلٹ کر پھر جھپٹتے، موت کا یہ کھیل جاری تھا۔ یہاں تک کے کئی سپاہیوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد گزشتہ دنوں وانی ایک فوجی مقابلے کے بعد اپنی منزل مراد کو پاگئے جس کے لیے وہ بیتاب تھے، بیقرار تھے اور کئی بار خواہش کا اظہار کرچکے۔۔۔

    وانی کا جنازہ فقید المثال تھا۔ آزادی کے متوالے اس جذبے سے شریک ہوئے کہ دلی سرکار کے چودہ طبق روشن ہوگئے، یہاں تک کہ سرینگر میں کرفیو لگاکر ہی جان بخشی ہوئی۔۔۔

    کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کشمیری ہم سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟ جرات و استقامت کے روشن ستارے سید علی گیلانی کو کبھی سنا ہے؟ اس کی روداد قفس پڑھی ہے؟ اس کے علم، عمل اور جدوجہد سے آگاہ ہونے کی کوشش کی؟ اس بوڑھے کی آواز میں نجانے کیاجادو ہے کہ پورے کشمیر میں آزادی کا الاؤ بھڑکادیتا ہے۔ وانی جیسے نوجوان اسی سید گیلانی کے مکتب آزادی کے شاہین ہیں جو پاکستان سے محبت کی آگ دل میں لیے ہند سے ٹکراتے ہیں۔۔۔

    کتنی حیرت کی بات ہے نا کہ کشمیری عید ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ کرکٹ میچ ہو تو وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں دھماکے ہوں کشمیری و ترک مغموم ہوجاتے ہیں۔۔۔

    اتنی محبت؟ ایسی تو شاید ہم بھی نہ کریں اس دیس سے، جس کی کبھی قدر نہ کی۔۔۔

    کشمیر سے عشق میرے رگ و پے میں ہے۔ کئی پیارے دوست وہاں ردائے خاک اوڑھے سوتے ہیں۔ 2000ء میں وادی نیلم شادرہ اور مظفر آباد میں گزارا وقت ہمیشہ کے لیے ذہن میں جگہ بنا گیا ہے۔ وہ بھیگتی شام نہیں بھولتی جب دریائے نیلم کے کنارے لکڑی کے مکان میں دوستوں کے ساتھ رکے تھے۔۔۔

    یہ وہی کشمیری ہیں جنہیں ایک زمانے میں بزدلی کے طعنے دئیے جاتے تھے۔ آج جہاد آزادی کی شاہراہ پہ یوں گامزن ہیں کہ تاریخ پہ نظر رکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں۔۔۔

    ہند نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دی، کشمیری سلجھے و تعلیم یافتہ ہیں، اچھا روزگار یا کاروبار کرتے ہیں۔ بظاہر ہند میں انہیں کوئی مشکلات نہیں اور اگر وہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم وادی میں لہرانا ترک کردیں تو ہندی حکمران ان کے پیر دھو دھو کر پینے کو تیار ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ جذبہ عشق و مستی نے انہیں پاکستان کا دیوانہ بنارکھا ہے۔ باجود اس کے کہ ہم بدعنوان ہیں، سست ہیں، ترقی معکوس کا شکار ہیں، تعلیمی کارکردگی قابل افسوس ہے، معاشی ناہمواری کا سفر مدت سے مقدر ہے، لیکن ان دیوانوں کی محبت کا کیا کریں؟ جو ہر پل مملکت خداداد پاکستان پہ مرمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔

    پاکستان کا پرچم، سرینگر کی گولیوں سے اٹی گلیوں میں ہندی افواج کے سامنے لہرانا گویا ان کا جنوں ہے جس کی قیمت لہو کا خراج دے کر ادا کرنے کے باوجود جنوں جنوں ہی رہا، کم نا ہوا۔۔۔

    عالمی دباؤ برداشت سے باہر ہوا تو پاکستان نے کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ اٹھالیا اور یہ تب ہوا جب ایک لاکھ کشمیری جانیں قرباں کرچکے، لاکھوں زخمی و لاپتا ہوئے۔ بیوہ عورتیں و یتیم بچے کشمیری معاشرے میں نمایاں ہوئے اور ایک خون آلود تاریخ رقم ہوچکی۔۔۔

    آزادی کا یہ جوش ہند کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کو تیار ہے۔ تحریک کی پشت سے پاکستان کے پیچھے ہٹنے کے بعد ہند مطمئن تھا کہ اب اس کا خاتمہ دنوں کی بات ہے، مگر یہ دن یوں طویل ہوئے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کشمیر کے باسیوں نے اپنے خون سے وہ شمع روشن کی ہے کہ اسے بجھانا ان کے بس ہی میں نہیں رہا اور یہی وہ آزادی کا عشق ہے جو اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا۔۔۔

    سید مودودی کے مکتب کے فیض یافتہ وانی جیسے شیر دل ماتھے پہ کلمہ طیبہ کی پٹی سجائے ہندو پاک کو پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان سے ان کی محبت زمین کی نہیں بلکہ نظریئے کی بنیاد پہ ہے۔ عظمتوں والے رب ذوالجلال کی قسم! اس نظریئے کو کوئی اسلامی یا غیر اسلامی طاغوت شکست نہیں دے سکتا۔۔۔

    کیا سید علی گیلانی کے نعرے پاکستان سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ کے سوز نے آپ کے قلب کو پاش پاش نہیں کیا؟؟

    سرگوشیاں کرتے ہمالہ کے کہسار، سلگتے چناروں سے کہہ رہے ہیں کہ اس دھرتی کے فرزندوں کا جذبہ، ہند کی ظلمت سے سورج کو رہائی دلا کر ہی رہے گا۔۔۔

    بحر ہندو خلیج بنگال کا اضطراب نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ لایا ہے، ہے کوئی اس پیغام کو سمجھنے والا؟

  • عبد الستار ایدھی سے ملاقات  –  حافظ صفوان

    عبد الستار ایدھی سے ملاقات – حافظ صفوان

    hafiz safwanاللہ کی توفیق سے اکتوبر 2007ء میں مستورات کی جماعت میں کراچی جانا ہوا۔ 22 یوم کی اس تشکیل میں کئی اہم اور بڑے لوگوں سے تبلیغی ملاقات ہوئی جن میں جناب مشتاق احمد خاں یوسفی، ڈاکٹر مولانا عبد الشہید نعمانی، جناب ابراہیم عبد الجبار، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، جناب حنیف محمد، ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی، مفتی محمد تقی عثمانی، جناب ابو سعادت جلیلی، ڈاکٹر طاہر مسعود، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، محترمہ سیدہ فرحت فاطمہ رضوی اور ان کے میاں جناب زوار حسین صاحب، ڈاکٹر سید خالد جامعی، جناب معراج جامی اور جناب امراؤ طارق کے علاوہ جناب عبد الستار ایدھی بھی شامل تھے۔ (کئی نام ابھی ذہن سے اتر رہے ہیں۔) جناب جنید جمشید کی مسجد میں بھی تشکیل ہوئی جہاں ان سے اور ان کے والد سے ملاقاتیں رہیں۔ ان کے محلے میں جس گھر میں مستورات ٹھہریں، وہاں بیان اور مستورات کی نصرت کے لیے محترمہ روبینہ اشرف بھی تشریف لائیں، اگرچہ مجھے بعد میں فون پر بتایا۔

    ان سب لوگوں سے ملاقاتیں کرانے کے لیے میرے عزیز دوست جناب سلمان سعد خان نے بہت وقت نکالا۔ اللہ انھیں بہت جزائے خیر دے۔

    اکتوبر 2005ء والے زلزلے کے وقت ہم لوگ ہری پور میں تھے۔ اس زلزلے کی سالگرہ انہی دنوں میں آئی چنانچہ کراچی کے لوگ ہم سے زلزلے کا احوال سنتے رہتے تھے۔

    اللہ کی توفیق سے ہم لوگوں نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے عملی اقدامات کیے تھے اور اس میں فوج اور ایدھی والوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان دنوں میں ایدھی والوں کے ساتھ کام کرکے اندازہ ہوا کہ ان کے بارے میں پھیلائی گئی بہت سی باتیں بالکل غلط ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ لوگ مخصوص مذہبی لوگوں کی پارٹی ہیں یا مغربی ایجنڈہ رکھتے ہیں اور یتیم بچوں کو غیر ممالک میں سپلائی کرتے ہیں، وغیرہ۔ یہ بات تو تب پتا چلی کہ بالاکوٹ سے زلزلہ زدگان کے کافی سارے بچے اغوا کر لیے گئے اور بچوں کو گود لینے والوں کے لیے فوج نے فوری طور پر ایک خصوصی سیل بنایا۔ مختلف غیر سرکاری نیز مذہبی تنظیموں اور مدارس کے لوگ صرف یتیم بچوں بچیوں کے لیے لڑتے اور ایک دوسرے سے بچے چھینتے تھے اور اس پر گولیاں بھی چلتی رہیں۔ بچوں سے بھرے کئی ڈالے اور سوزوکیاں علاقہ غیر اور مختلف اطراف میں جاتی پکڑی گئیں۔ ان دنوں ہمیں معلوم ہوا کہ بردہ فروش کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ اللہ معاف کرے۔

    زلزلہ زدگان کی بحالی کا ابتدائی کام کئی مہینے چلا۔ یہاں مجھے ایدھی کے کام کا اندازہ ہوا کہ یہ لوگ کس دیانت داری سے بچوں کو اغوا سے بچاتے رہے اور انھیں فوج کے پاس پہنچانے کا بندوبست کرتے رہے۔

    لیکن ایدھی والوں کی دیانت داری کا پہلا اندازہ مجھے اس سے بھی پہلے ہوا تھا۔ زلزلے سے اگلے دن جب ہم دوست مظفر آباد جانے لگے تو وہاں سے ہمارے دوست مرحوم سید افتخار حسین شاہ صاحب کا فون آیا کہ آتے وقت کھانے پینے کا سامان مت لائیے بلکہ صرف کفن لائیے۔ یہاں سب سے زیادہ کمی کفن کے کپڑے کی ہے۔ ہم ہری پور سے نکلنے لگے تو دیکھا کہ میزائل چوک پر واقع ایدھی سنٹر میں زلزلہ زدگان کے لیے کفن کا کپڑا دینے کی اپیل کا بڑا سا چارٹ لگا ہوا ہے۔ میں زندگی میں پہلی بار ایدھی سنٹر کے اندر گیا اور پوچھا کہ ہمیں مظفر آباد کیا لے کر جانا چاہیے۔ انھوں نے بھی کفن کا نام لیا۔ مجھے ایدھی والوں سے درست اطلاع ملنے پر خوشی ہوئی اور اندازہ ہوا کہ یہ لوگ صرف چندہ بٹورنے کے لیے نہیں بیٹھے۔

    لیکن ابھی تک ایدھی والوں کے بارے میں یہ بات ذہن میں تھی کہ یہ لوگ فلاں فلاں گمراہ فرقے کے ہیں اور انسانی اعضا بیچنے اور بم دھماکے کرانے میں خود ملوث ہیں۔ ہمیں یہ باتیں ہفت روزہ تکبیر کے ذریعے معلوم ہوئی تھیں۔ اس میں صداقت بھی ہوگی کیونکہ تکبیر ایک معتبر جریدہ ہے لیکن مجھے ہری پور اور مضافاتی علاقوں یعنی ایبٹ آباد اور مظفر آباد وغیرہ میں کئی مہینے ان لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ظاہر ہے کہ میں اپنے تحفظات کی وجہ سے ان چیزوں کی ٹوہ میں ضرور لگا رہا تھا۔

    ایدھی والوں کی زلزلہ زدگان کے لیے دیانت دارانہ خدمت کا دوسرا اندازہ اس وقت ہوا جب یہ بات ہر طرف پھیل چکی تھی کہ سارے پاکستان سے زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی امداد کے ٹرک غائب ہونے لگے ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ صوبہ سرحد میں داخل ہوتے ہی ٹرکوں کے سودے ہونے لگے۔ یہ بہت اندوہناک صورتِ حال تھی اور ساری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہونے لگی۔ اس موقع پر بھی فوج نے اپنے جوان تعینات کیے جو یہ سامان زلزلہ زدگان تک پوری ذمہ داری سے پہنچاتے تھے۔ ایدھی والوں کے لوگ اس کام میں فوج کے شانہ بشانہ تھے ورنہ ان علاقوں میں اچانک اگ آنے والی بہت کی رفاہی تنظیمیں اور مدارس باہروں باہر یہ سامان وصول کر لیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ افغان مارکیٹیں بھی کھل گئی تھیں جہاں یہ سامان فروخت ہوتا تھا۔

    امدادی سامان کے ٹرک غائب کرنے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دو تین دن میں اینٹیں کھڑی کرکے اور ٹی آئرن کی چھت ڈال کر اور دو چار تمبو لگا کر چند بے آسرا خاندان ٹھہرا لیے جاتے اور بتایا جاتا کہ یہ بالا کوٹی یا مظفر آبادی بے گھر خاندان ہیں اور یہ ہمارا مدرسہ یا تنظیم ہے، یہ امداد ہمیں دی جائے تاکہ ان لوگوں پر خرچ کی جا سکے۔ پنڈی اور حسن ابدال سے ہی ان ٹرکوں کو گھیر کر لایا جاتا یا ان کو وہیں بیچ کھوچ دیا جاتا جس کا میں عینی گواہ ہوں۔

    یہ زلزلہ رمضان شریف میں آیا تھا اور یہ ساری لوٹ مار بھی رمضان کے مہینے میں ہوتی رہی۔ اس مکروہ کام میں چھوٹے موٹے پرچونیوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے مگرمچھ بھی شامل تھے۔

    القصہ کراچی کی تشکیل میں جب جناب عبد الستار ایدھی کے پاس جانے کا مشورہ ہوا تو ان کے ادارے کی ہری پور، ایبٹ آباد اور مظفر آباد برانچز کے کام کو براہ راست دیکھنے کا یہ عملی تجربہ میرے پاس تھا۔ اگرچہ کچھ مقامی ساتھی اس ملاقات کے حق میں نہ تھے لیکن میرے اصرار پر راضی ہوگئے. ہم پہنچے تو ظہر کا وقت داخل ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ دفتر کے لوگ یہی سمجھے کہ ہم چندہ دینے آئے ہیں یا کچھ اور کام ہے تاہم میں نے جب ایدھی صاحب سے چند منٹ لینے کا عرض کیا تو عملے کے لوگ ہمیں دفتر میں لے گئے۔ سلام دعا ہوئی۔ میں نے ہری پور سے آنے کا عرض کیا تو یکسو ہوکر بیٹھے اور کچھ سوالات کیے۔ میں نے زلزلہ زدگان کی بحالی کے کام کے دوران میں جو کچھ خود کیا اور جیسا ایدھی والوں کو کرتے دیکھا تھا بیان کر دیا۔ خوش ہوئے۔ ان کے دفتر میں قرآن مجید بھی رکھا ہوا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ چائے پانی کا موقع ہی نہ تھا۔ ان کا بھی روزہ تھا اور ہمارا بھی۔

    اب میں نے موقع پاکر تبلیغی جماعت کے ساتھ آنے کا ذکر کیا۔ کہنے لگے بڑا اچھا کام ہے۔ ان کے لیے یہ بات حیرت کا سبب ہوئی کہ زلزلہ زدگان کے لیے تبلیغ والوں نے بھی کام کیا ہے۔ بہت دعائیں دیں اور بہت خوش ہوئے۔
    ہم نے اجازت چاہی تو کہنے لگے نماز پڑھا دو۔ مولوی اور پوچھ پوچھ!! میں نے فوراً ہامی بھری اور ہم تینوں ساتھیوں نے جلدی سے وضو کیا۔ ایدھی صاحب پہلے سے وضو سے تھے۔ ان کے دفتر میں دری بچھی تھی اسی پر نماز پڑھائی۔

    میں سوچ رہا تھا کہ آج ایک آغا خانی کو نماز پڑھاؤں گا، لیکن ایدھی صاحب نے مجھے شدید مایوس کیا کیونکہ وہ آغا خانی نہیں نکلے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔

  • با خضر کس نہ گفت کہ عمرت دراز باد  –  عزیز ابن الحسن

    با خضر کس نہ گفت کہ عمرت دراز باد – عزیز ابن الحسن

    aziz ibnul hasanایدھی سے کون کہے کہ تیری عمر دراز ہو، وہ تو اس ابدی زندگی کا در عبور کر چکے جو لاکھوں کےلیے باعث رشک ہے۔

    بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے مرنے پر ان کے لیے دُعائے بخشش کرنے کو جی نہیں چاہتا، اس لیے کہ وہ اس احتیاج سے اتنے آگے جا اور بلند ہوچکے ہوتے ہیں کہ بخشش و نجات کا درجہ تو انہیں اول قدم پر ہی مل جانا متصور ہوتا ہے۔ اس کا یقین اور اطمینان تو همیں ان کی طرزِ زندگی میں ہی ہوجاتا ہے۔ ان کے لیے دست دعا بلند کرنا در حقیقت اپنے لیے سامان نجات کرنا ہوتا ہے۔ آئیے ایدھی صاحب کے لیے دعا کرکے ان کی بلندی درجات اور اپنے لیے نجات کا بہانہ پیدا کرلیں:
    باین بہانہ مگر عمر خود دراز کنیم
    ایدھی صاحب نے اپنے لیے جو ”میدانِ ملازمت“ چنا تھا ہمارے ماضی قریب میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تنہا آدمی نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے اداروں اور حکومتوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایدھی میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں تھا۔ اسے نہ صلے کی پروا تھی نہ ستائش کی تمنا۔ اسکی زندگی ”نیکی خود اپنا انعام“ کے اصول پر تھی۔ وہ حکومتی تعاون کے بغیر جیا اور زرداروں اور سرکاروں کے بغیر مر گیا مگر پاکستانی قوم کے لیے ایک بینظیر مثال بن گیا اور دنیا میں ہمارا سر ہمشیہ کےلیے فخر سے بلند کرگیا۔

    ملک و قوم کے لیے جان دے دینا یقیناً ایک بڑا اور مستحسن کارنامہ ہوتا ہے، مگر عام لوگوں کےلیے بےنام لوگوں کے لیے جینا اور مسلسل جیتے رہنا بے غرضی سے جینا، بلا امتیازِ رنگ و نسل مذہب و ملت جینا، زخمیوں بیماروں، بھوکوں اور ننگوں کے لیے جینا صرف زندوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کٹی پھٹی لاوارث و مسخ شدہ لاشوں کےلیے جینا، یتیم و لاوارث بچوں کے لیے جینا، بے کسوں بے بسوں اور بے حسوں کے لیے جینا نہایت نہایت نہایت، اے حضراتِ گرامی! بے حدو بے نہایت مشکل جینا ہوتا ہے۔ ایدھی صاحب نے اپنے لیے ایسی ہی زندگی پسند کی اور اسے لازوال مثال بنادیا۔ اس ملک میں سماجی خدمت کے میدان میں جو بھی اٹھا، ان کے بعد ہی اٹھا اور انہی کے نقوش پا پر چلا۔

    ایدھی صاحب آپ کی زندگی کو سلام۔ آپ کی پُرعظمت خدمت گزاری کو سلام۔
    آپ کی سادگی سادہ دلی سادہ بیانی اور سادہ کلامی کو سلام۔
    جن چند جوڑے کپڑوں میں آپ نے 88 سالہ زندگی گزاردی ان کی دھجیوں کو سلام۔
    آپ کی کم خوراکی اور مثالی صحت کو سلام۔
    آپ کے خلوص دیانت اور راستبازی کو سلام۔

    مولانا ڈاکٹر عبدالحئ ایک نہایت پتے کی بات کہا کرتے تھے۔ ”تم دنیا میں اپنے لیے جو میدان بھی منتخب کروگے اس میں تمہیں مسابقت اور مقابلہ درپیش ہوگا۔ صرف خدمت کا میدان ایسا ہے جو تمہیں ہمیشہ خالی ملے گا جہاں تمہارا رقیب کوئی نہیں۔ تمہارا حریف تمہارا راستہ کاٹنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یاد رکھو! دنیا میں سارے جھگڑے مخدوم بننے میں ہیں خادم بننے میں کوئی خطرہ نہیں، جھگڑا نہیں ہے۔“ ایدھی صاحب نے اپنے لیے یہی میدان منتخب کیا۔ خادم بننے کا میدان۔ وہ مخدوم نہیں خادم تھے۔ خادم انسانیت، مسیحائے ملک و قوم۔

    اے الله ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ تونے ہمیں عبدالستار ایدھی جیسا انسان دیا اور دکھایا جو اپنی ظاہری وضع قطع رہن سہن، اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے کے رنگ ڈھنگ میں بھی گزرے زمانے کے تیرے نیک دل درویشوں فقیروں اور صوفیوں سنتوں کی طرح کا تھا۔ انہی کی طرح اس نے بھی اپنی ایک خانقاہ سجائی، نرالی خانقاہ اور پھر اسے ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔ اس خانقاہ کا فقیر عبدالستار ایدھی تھا جس کی صبح کا آغاز نماز کے بعد تلاوت قران سننے سے ہوتا اور اس کے بعد وہ سات بجے اپنے دفتر میں آکر بیٹھ جاتا اور پھر خدمت خدمت اور صرف خدمت۔ رات گیے تک انسانوں کی خدمت! صوفی عبدالستار ایدھی نے تصوف کے جزو اعظم خدمت کو اپنی خانقاه کا سرنامہ بنالیا تھا۔

    لاریب! ایدھی اس دور میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا زندہ نمونہ تھا۔

  • روشنی کا استعارہ   –   محمد عامر خاکوانی

    روشنی کا استعارہ – محمد عامر خاکوانی

    11866265_1085617161465765_1795389247132538024_n ایدھی صاحب کے رخصت ہونے سے دل پر گہرا اثر پڑا۔ پچھلے دو دن سے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر خیالات منتشررہے۔دنیا میں آنے والے ہر شخص نے جانا ہے، استثنا کسی کوحاصل نہیں، بعض لوگ مگر ایسے ہوتے ہیںکہ ہم ان کے مرنے کا تصور تک نہیں کر پاتے ۔ ہمیں لگتا ہے کہ جیسے زمانے بیت جائیں گے، مگر یہ روشن کردار ایسے ہی دنیا میں جگمگاتے رہیں گے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایسے ہی ایک شخص تھے۔ ایثار اور قربانی کا پیکر، عزم وہمت کا استعارہ ۔ پچھلے کچھ برسوں سے وہ علیل تھے، چند ماہ پہلے کسی نے ایدھی صاحب کی عیادت کی تو اگلے روزتصاویر شائع ہوئیں۔ دیکھ کر دھچکا سا لگا۔ ایدھی صاحب بہت کمزور ہوچکے تھے۔ دھان پان تو وہ شروع سے تھے، مگر علالت کے باعث وزن زیادہ کم ہوگیا اور ان تصویروں میں ڈھانچا سا لگ رہے تھے، ان کے چہرے کا سپاٹ تاثر دیکھ کر مزید دکھ ہوا۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ اب مہلت زیادہ نہیں رہی۔ لاشعوری طور پر ہم تمام لوگ شائد اس خبر کے لئے تیار تھے، مگر اس کے باوجود ایدھی صاحب کے دنیا سے چلے جانے کا سوچنا بھی محال لگتا تھا۔

    قس بن ساعدہ دور جہالیت کا مشہور عرب شاعر اور سحر طراز مقرر گزرا ہے۔اس کی فصاحت وبلاغت اور زبان پر قدرت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ قس بن ساعدہ کا ایک مشہور مرثیہ ہے، جو اس نے اپنے دو بھائیوں کے مرنے پر ان کی قبروں پر کھڑے ہوکر پڑھا، کہتا ہے:
    ” گزشتہ بھولی بسری صدیوں میں ہمارے لئے آنکھیں کھولنے والی باتیں پوشیدہ ہیں
    جب میں نے دیکھا کہ موت کی طرف جانے کا راستہ تو ہے ،لیکن لوٹنے کا راستہ نہیں
    اور یہ کہ میری قوم کا ہر چھوٹا بڑا اس کی طرف ضرور جاتا ہے
    جو یہاں سے چلا جاتا ہے، وہ لوٹ کر واپس میرے پاس نہیں آتا ، جور ہ گئے، انہیں دوام نہیں
    میں نے یقین کر لیا کہ میرا بھی ضرور وہی انجام ہونا ہے، جو ان سب کا ہوا۔“

    عبدالستار ایدھی بھی ہم میں نہ رہے۔ یہ افسوسناک ، تلخ حقیقت ہم سب کو ماننا ہی پڑی۔ان کے انتقال کی رات پورے ملک پر گویا سناٹا سا چھا گیا۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر واضح محسوس ہور ہاتھا کہ پورا ملک اچانک ہی یوں سوگوار ہوگیا، جیسے ان کا اپنا بہت پیارا، قریبی عزیز دنیا چھوڑ گیا ہو۔ وہ ایک منفرد انسان تھے، منفرد ماضی، حال اور مستقبل کے مالک۔ یقین واثق ہے کہ باری تعالیٰ اپنے اس نیک بندے کو منفرد مقام سے نوازے گا۔جس نے اپنی تمام زندگی خالق کائنات کے بندوں کی خدمت میں گزار دی ، اس کا صلہ بھی اس کام کے شایان شان ہوگا، ان شاءاللہ۔

    تاریخ کی کتب میں آتا ہے، ایک غزوہ کے لئے اسلامی لشکر روانہ ہوچکا تھا، حضرت ابوذر غفاریؓکچھ تاخیر سے روانہ ہوئے، ان کا اونٹ بھی کمزور تھا، اسی وجہ سے وہ پیچھے رہ گئے۔ آخر انہوں نے اونٹ کو اس کے حال پر چھوڑا ، اپنا سامان کمر پر لاد ا اور پیدل ہی چل پڑے۔ حضور اکرم ﷺ لشکر سے پوچھ چکے تھے کہ ابوذر غفاری کہاں ہیں؟ ان کا نہ ہونا سرکار ﷺکو شاق گزر رہا تھا۔ اتنے میں دور سے لگا کہ کوئی گرد وغبار میں اٹا ہوا پیدل چلتا آ رہا ہے۔ صحابہؓ پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ عالی مرتبتﷺ نے فرمایا،( جس کا مفہوم ہے)یہ ابوذر ہیں، یہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اور قیامت کے روز تنہا ہی اٹھائے جائیں گے۔ حضرت ابوذر ؓ بھی اتنی دیر میں قریب پہنچ گئے ، انہیں دیکھ کر سب صحابہ خوش ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ جب ان کاآخری وقت آیا تو وہ شہر سے دور ایک ایسی جگہ مقیم تھے، جہاں صرف ان کی بوڑھی اہلیہ ہمراہ تھیں، ایک بکری تھی،جس کے دودھ سے دونوں گزارا کر لیتے۔آخری وقت قریب آیا تواہلیہ نے کہا کہ میں کیسے آپ کے کفن دفن کا انتظام کروں گی، حاجیوں کے قافلے بھی اب جا چکے، کسی نے یہاں سے نہیں گزرنا۔ حضرت ابوذرؓنے دھیرے سے جواب دیا ، تم میری میت والی چارپائی راستے میںلٹا دینا، اللہ انتظام کرنے والا ہے ۔ انتقال کے بعد اہلیہ نے ویسا ہی کیا۔ وہ منتظر تھیں کہ کوئی غیبی مدد ملے۔ اتنے میں دور سے گردوغبار اٹھا اور ایک قافلہ نمودار ہوا۔ قافلے والوں کو بھی اس ویرانے میں کسی کے ملنے کی توقع نہیں تھی۔بمشکل اونٹوں کو روکا گیا۔بزرگ خاتون نے کہا ’یہ ابوذرؓ رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا جنازہ ہے۔ قافلے میں صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی موجود تھے۔ آپ سامنے آئے، گریہ کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ہر بات درست نکلی ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ کے اس قول کو دہرایا کہ ابوزر تنہا مریں گے اور قیامت کے روز تنہا اٹھائے جائیں گے۔

    مولانا عبدالستار ایدھی بھی اسی قافلے کے ایک سپاہی تھے، جنہوں نے ہمارے نبی اور صحابہ کے اسوہ کی پیروی کی۔ حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ سے انہوں نے یہ سیکھا کہ بندگان خدا کی مشکلات کم کرنا، ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ، ان کے زخموں پر مرہم رکھنا افضل کام ہے۔ ایدھی خود کہتے تھے ” میں ایک سیدھا سادا مسلمان ہوں، مذہب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، مگر اتنا معلوم ہے کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے اورمسلمان کا فرض ہے کہ انسانیت کے دکھ درددور کئے جائیں ، میں اسی میں لگا رہتا ہوں۔“رب تعالیٰ سے یہی امید رکھنی چاہیے، یہی دعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے اس امتی کے ساتھ شاندار سلوک روا رکھے اور روز قیامت ان کو اپنے خاص ، پسندیدہ بندوں کی صف میں اٹھائے۔ آمین۔

    ہمارے ہاں یہ عجب دستور ہے کہ کوئی روشن پیکر رہنے ہی نہیں دیتے،ہر اجلے چہرے پر کیچڑ اچھالتے اور پھر خود ملامتی کر کے خوش ہوتے ہیں۔بڑے عرصے کے بعد ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو ایدھی صاحب کے انتقال پر افسردہ دیکھا۔ ہر ایک ان کے لئے دعا گو تھا، ہر ایک زبان پر اپنی تمام زندگی خدمت خلق کے لئے وقف کرنے والے انسان کے لئے تحسین کے الفاظ تھے۔ ہمارے ہاں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ہم نے تو اپنی زندگی میں پہلی ایسی مثال دیکھی۔ ایدھی صاحب کوزندگی میں بھی بے پناہ عزت ملی ۔ ہمارے معاشرے کو مردہ پرست کہا جاتا ہے، مگر ایدھی صاحب کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ انہیں وہ سب کچھ ملا جو ہمارے جیسا تیسری دنیا کا ملک یا معاشرہ دے سکتا ہے۔ زر کی تو ایدھی صاحب کے نزدیک اہمیت ہی نہیں تھی، نوٹوں کی بھری بوریاں وہ ردی کاغذ سمجھتے تھے ۔ محبت، عزت ، قدر بچتی ہے تو وہ پاکستانیوں نے ایدھی صاحب سے بے پناہ کی۔ بڑے سرکاری ایوارڈز سے لے کر نجی سطح پر بے شمار اعزازات دئیے گئے، سینکڑوں انٹرویوز ان کے ہوئے، دنیا بھر میں پزیرائی ملی۔

    پاکستانیوں نے ایدھی کے نام کو ایسی کریڈیبلٹی دی کہ ان کی اپیل پر کروڑوں روپے جمع ہوجاتے۔ ہر ایک کو ان پر اعتماد تھا۔ ان کے مخالفین اور حاسدین بھی تھے، ان کی اڑائی کہانیاں، سازشیں، حاسدانہ حرکتیں سب بے کار اور فضول ثابت ہوئیں۔ انتقال کے بعد بھی ایدھی صاحب کا ان کے شایان شان رخصتی ملی۔آرمی چیف کا جنازے میں شامل ہوناا ور ملک وقوم کے اس محسن کو شاندار ٹریبیوٹ پیش کرنا ہر ایک کو اچھا لگا۔ قائداعظم کے بعدو ہ دوسرے سویلین ہیں جنہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایدھی صاحب اس کے مستحق تھے۔ ایک اور اچھی بات یہ بھی ہوئی کہ ایدھی صاحب نے اپنے کام کو اگلی نسل کے ہاتھ میں سونپ دیا تھا۔ فیصل ایدھی کے تیور بھی اپنے عظیم باپ عبدالستار ایدھی جیسے ہی ہیں۔سماجی ورکر اور گلوکار شہزاد رائے نے یہ درست کہا کہ اب ہمیں فیصل ایدھی کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ ایدھی کے عظیم مشن کا جھنڈا اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایدھی صاحب کے نام کو زندہ رکھنے ، ان کی تکریم کے لئے وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جس کا جدید دنیا میں دستور ہے۔ نو جولائی کو چیریٹی ڈے قرار دینے کی تجویز آئی ہے، کسی بڑے ائیر پورٹ ، تعلیمی ادارے اور مرکزی وصوبائی دارالحکومت کی ایک ایک سڑک کو ان کے نام سے منسوب کرنا چاہیے۔

    سب سے بڑھ کر یہ کہ ایدھی صاحب کے جذبے ، خدمت خلق کے جھنڈے کو ہاتھ میں تھامنا چاہیے۔ اس راہ پر چلنے والوں کا دنیا وآخرت میں بڑا اجر ہے، صرف کمر باندھ کر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اخوت، الخدمت، غزالی سکول ٹرسٹ، پی اوبی، ہیلپ لائن ، کاوش اور اس طرز کے اچھے سماجی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے، یہ سب ایدھی صاحب کے کام کی ایکسٹینشن ہی ہیں۔ اسی چشمے سے انسپائریشن لے کر نجانے کتنے مزید چشمے پھوٹے ہیں، پھوٹتے رہیں گے۔ایدھی صاحب کا اس ملک اور قوم پر سب سے بڑا احسان یہی انسپائریشن دینا ہے۔ ان کے جانے کے بعد بھی یہ انسپائریشن باقی رہے گی۔

  • ”پوسٹر بوائے“ – جدوجہد آزادی کا نیا استعارہ – اُسامہ عبدالحمید

    ”پوسٹر بوائے“ – جدوجہد آزادی کا نیا استعارہ – اُسامہ عبدالحمید

    usama abdul hameed
    مقبوضہ وادی کشمیر کے عوام نے شاید اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستانی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوام ان کی جہدِ آزادی کی اخلاقی اور سفارتی حمایت تو جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن بدلتے عالمی تناظر میں کچھ محاذوں پر شاید اب تعاون کبھی ممکن نہ ہوسکے۔ اب جو کچھ کرنا ہے، کشمیری عوام کو کسی بیرونی امداد کی توقع کیے بغیر ازخود کرنا ہے۔ اس حقیقت کے ادراک نے کشمیریوں کے اندر اپنے پاؤں پہ کھڑے ہوکر غاصب قوت کو للکارنے کی جرات پیدا کردی۔ کشمیری نوجوان ہزاروں کی تعداد میں غلامی کا شکنجہ توڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ گزشتہ چند برس سے جدوجہد آزادی کشمیر کے اندر ایک نئی تیزی اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ کبھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں بھارت کی شکست پر کشمیری نوجوان دیوانہ وار پاکستانی پرچم لہرانے نکل کھڑے ہوئے تو کبھی حریت کانفرنس کی اپیل پر نام نہاد الیکشن کا بائیکاٹ کرکے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے میں کامیاب رہے۔

    حیران کن امر یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں سے جھٹک کر تحریک آزادی کی جدوجہد میں جی جان سے شامل ہوئے اور تحریک مزاحمت میں نئی روح پھونک دی۔ برہان مظفر وانی اسی دستے کی اگلی صفوں میں شامل ایک بانکا نوجوان تھا جو چند روز پہلے سرینگر سے پچاسی میل جنوب میں واقع کوکر ناگ میں بھارتی آرمی اور وادی کی پولیس کے ایک مشترکہ آپریشن میں مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوا۔

    ستمبر 1994ء میں پلوامہ کے علاقے ترال کے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولنے والے برہان وانی نے ہوش سنبھالا تو اس کے اردگرد کی زندگی اپنے معمول کے مطابق انتہائی پرسکون انداز میں چل رہی تھی۔ وانی کا اول و آخر عشق کرکٹ تھا۔ علاقے بھر میں وہ اپنی جارحانہ بلے بازی کے سبب مشہور ہوا۔ مخالف بائولروں کے چھکے چھڑانے والے برہان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایک روز اس انداز سے دنیا کی منظم ترین فوج کی ناک میں دم کردے گا کہ اس کے سر کی قیمت لاکھوں روپے مقرر کرنی پڑے گی۔

    تاہم اس کی زندگی میں ایک فیصلہ کن موڑ 2010 ءمیں آیا جب وادی میں تعینات بھارتی فوج کے ایک سپاہی نے برہان کے بھائی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ قریب موجود 16 سالہ برہان یہ منظر دیکھتے ہی فیصلہ کرچکا تھا کہ اب اسے بلا اور گیند چھوڑ کر بندوق اور گولی سے کھیلنا ہے۔ اس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر لی۔

    وانی صرف کھیل کا شوقین ہی نہیں تھا بلکہ پڑھائی میں بھی نمایاں تھا۔آٹھویں جماعت میں 90فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے اس ہونہار طالبعلم کو حریت پسندوں سے تعلق کی پاداش میں میٹرک کے امتحان سے صرف ایک ہفتہ پہلے گورنمنٹ ہائی سکول ترال سے خارج کر دیا گیا۔ اگرچہ اس کے والد اسی سکول کے ہیڈماسٹر تھے تاہم افسران بالا کے دبائو کے سبب وہ اپنے بیٹے کی مدد کرنے سے معذور تھے۔ اس جھٹکے نے برہان کے سامنے اس کی منزل مزید واضح کر دی اور اب وہ یکسو ہوکر جدوجہد آزادی کی راہ کا راہ رو بن گیا۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ وانی نے عسکری جدوجہد کے چھے سالہ دور میں ایک آدھ کے علاوہ خود کسی عسکری کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ تاہم اپنی تخلیقی صلاحیت اور منصوبہ سازی کے شاہکار ذہن کی بدولت اس نے بھارت سرکار کو ایسے ایسے زخم دیئے کہ اس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کردی گئی۔ وانی نے ہندوستانی فوج اور املاک پر کئی کامیاب حملوں کی پلاننگ کی تاہم اس نے اپنی اصل قوت سوشل میڈیا کو بنایا۔ تقریری صلاحیت اس کے اندر بے پناہ تھی۔ چنانچہ وہ چھوٹے چھوٹے آڈیو اور ویڈیو کلپ بناتا اور ان کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو جہد آزادی کا عملی حصہ بننے کی دعوت دیتا۔ ان کلپس کو وہ فیس بک اور وٹس ایپ جیسی سماجی ویب سائٹس پہ پوسٹ کرتا۔ شخصیت تو اس کی دلآویز تھی ہی ،سونے پہ سہاگہ اس کی گفتگو ہوتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے کیرئر کی فکر سے بے پروا ہوکر اسلحہ تھامے نکلتے رہے۔

    بھارتی میڈیا نے خود اعتراف کیا ہے کہ وانی نے جنوری 2015ء سے جولائی 2016ء تک صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں سینکڑوں نوجوانوں کو بھارتی فوج کے مقابل لا کھڑا کیا۔ یہ سوشل میڈیا پہ اس کی طاقت ہی تھی کہ جیسے ہی اس کی شہادت کی اطلاع عام ہوئی، بھارتی حکومت اور فوج کے بڑے بڑے سورما ایک دوسرے کو ٹوئٹر پہ ایسے مبارک باد دے رہے ہیں جیسے کوئی ملک فتح کرلیا گیا ہو۔ ٹوئٹر پہ ان مبارک بادی پیغامات میں چار وناچار برہان کی ہیبت اور طاقت کا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے۔

    wani 02

    وانی چھوٹے ویڈیو پیغامات میں بھارتی فوج کو دھمکیاں بھی دیتا۔ اس کے علاوہ اس نے پہلے دن ہی سے اپنی دلکش تصاویر پوسٹ کرنا شروع کیں جن میں اکثر وہ بندوق اٹھائے کھڑا ہوتا تھا۔ یہ تصاویر آن کی آن میں سوشل میڈیا پہ وائرل ہوجاتیں اور نوجوان اس کی جانب کھنچے چلے آتے۔ وہ کبھی اپنا چہرہ چھپانے کے لیے ماسک کا استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس کی انھی سرگرمیوں کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے اسے حزب کے ”پوسٹر بوائے“ کا خطاب دیا۔

    بھارتی فوج کے کئی اعلیٰ افسران نے اعتراف کیا ہے کہ وانی کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اترتی تھی چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی برہان کو اپنا راہبر ماننے میں فخر محسوس کرتے تھے۔

    برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر وادی میں جنگل کی آگ کی مانند پھیلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وادی میں ہنگامے پھوٹ پڑے جنھیں ریاستی مشینری 18 جانیں لینے کے بعد بھی کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ لاکھوں کشمیریوں نے اپنے محبوب رہنما کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق سرینگر کی وسیع و عریض عید گاہ میں جگہ اتنی کم پڑگئی کہ 9 جولائی کو لگ بھگ چالیس مرتبہ وانی کی نماز جنازہ ادا کرنا پڑی۔ وادی کے مختلف حصوں میں ہزاروں لوگوں نے جو غائبانہ جنازے پڑھے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ جنازے کے موقع پہ عیدگاہ کے باہر کشمیری خواتین روایتی کشمیری گیت گاکر اپنے شہزادے کو الوداع کر رہی تھیں۔ جبکہ اس موقع پہ حزب المجاہدین نے 21 گولے فائر کرکے وانی کو سلامی پیش کی۔ وانی کے والد نے بھارتی اخبار ”دی ہندو“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوسٹر بوائے اب اپنے رب کے حضور پیش ہوچکا ہے اور انھیں اللہ سے اس کے لیے بہترین جزا کی امید ہے۔

  • امام ابن تیمیہؒ ایک مطالعہ-			فضل ہادی حسن

    امام ابن تیمیہؒ ایک مطالعہ- فضل ہادی حسن

    10929198_936951229648955_6554040637456884104_n

    ہمارے ہاں آج کل امام ابن تیمہ کے حوالے سے بحث چل نکلی ہے۔ یہ کہا گیا کہ ابن تیمہ کے فتاویٰ مسلم دنیا میں جاری شدت پسندی کا باعث بنے ہیں، داعش کی فکر کے پیچھے بھی ابن تیمہ کے ان فتاویٰ کا نام لیا جا رہا ہے۔ امام کے ایک فتویٰ کا ذکرخاص طور سے آیا ہے میبنہ طور پر جس میں بیٹے کو مشرک باپ کی گردن مارنے کا کہا گیا۔ ابن تیمیہ کے حوالے سے اس بحث میں دونوں اطراف سے خاصا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ امام صاحب کا دفاع کرنے والے جوش جذبات میں قدرے تیکھا انداز بھی اختیار کر لیتے ہیں، یہی حال ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والوں کا ہے۔ زیر نظر مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ مصنف نے اس مسئلے پر کوئی فوری پوزیشن لینے کے بجائے پورے ایشو کو گہرائی سے دیکھنے، سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے امام ابن تیمہ کی شخصت، اس زمانے کے معروضی حالات ، امام صٓاحب کی غیر معمولی علمی فکری صلاحیت اور مختلف اہم ترین امور پر ان کے اختیار کردہ موقف کو تفصیل سے بیان کیا اور مدلل انداز میں بعض معروف مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص بات تحریر کا سلیس اور علمی شائستگی سے معمور ہونا ہے۔ فضل ہادی حسن آج کل ناروے میں ایک اسلامک سنٹر (اسلامک کلچرل سنٹر) سے وابستہ ہیں۔ ”یونیورسٹی آف اوسلو ناروے“ کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ انہوں نے نہایت متانت اور عمدگی سے اس پورے موضوع کا احاطہ کیا ہے۔ (ادارہ دلیل)

    لاہور کے ایک معروف دینی مدرسے میں دورانِ تعلیم طلبہ کرام ہمارے (چند دوستوں) بارے میں ایک خاص رائے رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جن کے ساتھ علیک سلیک اور اٹھنا بیٹھنا زیادہ تھا۔ ایک موضوع پر ہماری ڈسکشن ہورہی تھی۔ میں نے ابن تیمیہ کا حوالہ دیا، بس نام لیتے ہی انہوں نے ایک لفظ (تفردات ابن تیمیہ) کہہ کر سب کچھ ”رد“ کردیا۔ علم دین کے آخری درجات پر پہنچنےو الے دوستوں سے لے کر عام افراد تک اس مزاج کو میں لاعلمی اور ”غیر تحقیقی مزاج“ ہی کہہ سکتا ہوں۔

    ہدف تنقید و مورد الزام ابن تیمیہ کیوں؟

    ابن تیمیہؒ کا شمار ان نابغہ روزگار میں ہوتا ہے جنہیں اپنے دور سے لے کر آج تک لوگوں نےتنقید کا نشانہ بنایا۔ میں آج کچھ ذکر (سوانخ عمری نہ سمجھا جائے) ان کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس وقت ابن تیمیہ کے بارے میں جاری بحث کوسمجھنے میں آسانی ہو۔ نیز میرا یہ مضمون اجمالی اور اشاروں پر مشتمل ہوگا جس میں کچھ واقعات کی طرف کنایتاً توجہ دلائی ہے، جن دوستوں کو تاریخ، اسلام اور آئمہ کرام و سلف صالح کے بارے میں کچھ واقفیت ہے تو اس مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

    کیا ابن تیمیہ اکیلے اہل مذہب اور مخالفین دونوں کا نشانہ بنے ہیں یا کچھ اور نام بھی ہیں؟ یقیناً لمبی فہرست ہے۔ اپنے وقت کے جلیل القدر لوگ جن میں صحابہ کرام اور تابعین بھی شامل ہیں، ان کے بارے میں کیا کیا الفاظ استعمال نہیں ہوئے۔ عبداللہ بن زبیرؓکے خون کو جائز قرار دینے والے، حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اوراس کا حکم جاری کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ کلمہ گو ہی تھے۔ سعید بن مسیبؒ کو کس نے نشانہ بنایا تھا؟ کیا امام ابوحنیفہ ؒمسلمان علماء کے ہدف تنقید کا مستحق نہیں ٹھہرے تھے؟ ان کے لیے ”زندیق“ تک کا لفظ کہنے والا کوئی اور نہیں بلکہ وقت کے منبر ومحراب کے جانشین تھے۔ افراط وتفریط یا جذبات کے دریا میں غوطہ زن لوگوں نے امام نسائی کی پٹائی کیوں کی تھی؟ جب رسول اللہ ﷺ کے داماد اور خلیفہ رابع کے مناقب لکھنے پر اسی دمشق میں لوگوں نے ’’امام نسائی‘‘ کو زدوکوب کیا تھا، جسے کئی سو سال بعد ابن تیمیہ نے فتنہ تاتار سے کسی حد تک محفوظ رکھا تھا۔

    کیا کیا لکھوں، جس غزالی پر ہم فخر کرتے ہوئے ان کی مالا جھپتے ہیں، وقت کے کچھ علماء نے انہیں بھی نہ بخشا تھا۔ عطّار ہو، رومی، رازی، ابن سینا ہو، یا فارابی، بہت کم ایسے نام ہوں گے جن پر پوری اُمت کا اتفاق ہوا ہو۔ بلکہ جس ”صحیح بخاری“ کو ہم قران کے بعد مستند کتاب سمجھتے ہیں، اس کے مصنف ومرتب کے ساتھ کیسا رویہ رکھا گیا تھا؟ ان پر زمین کیوں تنگ کردی گئی تھی؟ ہمارے لیے یہ المیہ سے کم نہیں کہ تاریخ میں کوئی بڑی شخصیت جو باقیوں سے ممتاز اور بڑے مقام پر فائز ہو، غیرمعمولی اور خداداد صلاحیتوں اور حیران کن ذہن کے مالک ہوتے ہیں، ان کے بارے میں دو فریق ضرور بن جاتے ہیں۔ ایک معتقدین اور دوسرا ناقدین، ہر گروہ تعریف و تنقیص میں حد درجہ غلو و مبالغہ اور شدت پسند بن جاتا ہے۔

    یہی رویہ ابن تیمیہ کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ ابن تیمیہ اپنے زمانے کے لیے صرف ایک مجدد نہیں بلکہ وقت کے سپرپاور اور طاغوت سے ٹکر لینے اور ’’تاتاری یلغار‘‘ کو روکنے کا نام ہے۔ انہوں نے باطل کے سامنے جھکنے کے بجائے بے باکی سے ’’کلمہ حق‘‘ کہہ دیا اور اگر مقابلہ کی نوبت آئی ہے تو میدان کارزار پہنچ گئے۔ ان کا یہی ’مجاہدانہ‘ کردار دراصل تنقید کا سبب بنا ہے۔

    حالات کا ستم

    اب ہم تاریخ کے مجدّین (متجدد نہیں) کی بات کرتے ہیں۔ مجدد در اصل اپنے معاشرہ کے لیے ایسی تخلیقات یا علمی انقلاب کا باعث بنتا ہے، جس کا ادراک معاصرعلماء نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ مجدین کا علم اور ان کی سوچ اور ذہانت باقی لوگوں سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر ابن تیمیہ کی بات کریں تو وہ خداد صلاحتیوں کے ساتھ علمی سطح کے بلند مقام پر فائر تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں جو رائے اختیار کی، وہ تقلید سے ہٹ کر ”اجتہاد“ کی بنیاد پر تھی۔ اور مجتہد کی سوچ عام ’’مفتی صاحب‘‘ سے کئی درجہ بلند ہوتی ہے، اس لیے ان کوسمجھنے میں مشکل آتی ہے اور پھرلاعلمی میں فتویۃ بازی کا عمل بھی شروع کرتے ہیں۔ ابن تیمیہ وقت کے مجدد اور ایسا نام تھا جن کے بارے میں آغاز ہی سے تنقید و تنقیص اور الزامات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اور آج تک ان کے فتوئوں اور آرا پر تنقید سے بڑھ کر انہیں گمراہی کا ذریعہ اور سبب گردانا جارہا ہے۔

    اگر فقہی مسلک کی بات ہو تو میر ا تعلق فقہ حنفی سے ہے جبکہ امام ابن تیمیہ فقہ حنبلی کے امام و مجتہد تھے، لیکن میرا یہ تعلق مجھے ان کا مخالف یا اتفاق کرنے میں رکاوٹ نہیں بن رہا ہے اور نہ ہی ان کے علمی کارناموں اور ذخیرہ سے استفادہ کرنے سے روکتا ہے۔ بلکہ میرے دل میں ان کے لیے اسی طرح کا احترام موجود ہے جو امام ابوحنیفہ ؒ سے لے کر عبد الحئی لکھنوی ؒاور شیخ الہندؒ کے لیے ہے۔

    ابن تیمیہ :علمی زندگی

    یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ابن تیمیہ حنبلی المسلک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مجتہد بھی تھے۔ ان کی آرا و فکر پر ”تقلید جامد“ کی چھاپ نہیں پڑی تھی، بلکہ بعض مسائل میں انہوں نے اجتہادی رائے اختیار کی ہے۔ کئی مواقع پر تو ان کی رائے جمہور علماء و فقہاء کی رائے سے مختلف بھی تھی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا اور 190 ڈگری پر قرآن وحدیث اور سلف صالحین کی مخالفت کی ہو۔ ابن تیمیہ نے ایک ایسے زمانے میں آنکھ کھولی تھی کہ ایک طرف تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف معاشرہ سکڑنے لگا تھا۔ جمود کے گہرے بادل چھانے لگے تھے۔ اسی دور میں اجتہاد ایک بند دروازہ قرار پایا تھا۔ ڈائیلاگ اور علمی مجالس بھی کافی حد تک غیر علمی ہوچکی تھیں۔ ابن تیمیہ نے اس جمود کو توڑنے اور ایک علمی و فکری بیداری کا بیج بُودیا تھا۔

    ان کا علمی مقام اور ذہانت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف دس برس کی عمر میں انہوں نے نحو، صرف، ادب اور بلاغت سے فراغت حاصل کی تھی۔ بچپن میں ہی قرآن حفظ کیا تھا۔ صرف سترہ کی عمر میں فتویٰ دینے کے قابل بن گئے تھے، اور 20 سال کی عمر میں پہنچے سے پہلے پہلے انہوں نے تصنیف وتالیف شروع کی تھی۔ اس زمانے میں بھی حفظ حدیث کا رواج تھا۔ انہوں نے امام حمیدی کی تصنیف ’’الجمع بین الصحیین‘‘ سب سے پہلے زبانی یاد کی تھی۔ ان کے ہم عصر علماء کہتے ہیں کہ بچپن ہی سے ابن تیمیہ نے کتب کو زبانی یاد کرنے کا سلسلہ شروع رکھا تھا۔ نیز استنباط کرنے اور استدلال کرنے میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ وہ صرف ایک عام عالم نہیں، بلکہ مفسر، محدث، فقیہ، سیاسی مدبر اور قائد بھی تھے۔ ان کی کتب کی فہرست بہت لمبی ہے۔ 80 کے قریب چھوٹی بڑی کتب ہیں، جن میں مجموع الفتاویٰ (فتاویٰ ابن تیمیہ) زیادہ مشہور ومعروف اور ان کی رائے و فکر کی صحیح نشاندہی اور سمجھنے کے لیے ایک شاہکار کتاب ہے۔

    ان کی ذہانت کے بارے میں مزید تفصیل لکھنے کا وقت نہیں، کہ مضمون کی طوالت سے بچنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ ڈر بھی محسوس کررہا ہوں کہ کہیں مجھے بھی ان کی تعریف و توصیف پر ’’غالی اور مبالغہ‘‘ کرنے والا نہ سمجھا جائے۔

    ابن تیمیہ، سیاسی وسفارتی زندگی:

    جس زمانے میں ابن تیمیہ پیدا ہوئے تھے، اس وقت فتنہ تاتار یا ’تاتاری یلغار ‘نے پوری دنیا اور بالخصوص مسلم امت پر ایک وحشت برپا کی تھی۔ چھ سال کی عمر میں فتنہ تاتار کی وجہ سے وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے۔ تاتاریوں نے ایک طرف مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تھا تو دوسری طرف مسلمانوں کی فکری و علمی ذخیروں کو تباہ اور مراکز کو مٹانے کی ٹھان لی تھی۔ ایسے دور میں جب انہوں نے بچپن گزارا تھا تو انہوں نے حالات سے بہت کچھ سیکھا۔ اور اس زمانے میں مسلمانوں کو درپیش چند اہم مسائل کو وہ اچھی طرح جان چکے تھے۔ اس وجہ سے ان کی کتب، فتاویٰ اور آرا پر ”حالات اور ماحول“‘کا اثر تھا جس سے ان حالات کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں سے چند بڑے مسائل یہ تھے:

    1۔ مسلم دنیا پر تاتاری یلغار۔

    2۔ مسلم دنیا پر مغربی حملے (یا صلیبی جنگیں، ابن تیمیہ کی پیدائش صلیبی جنگوں کے چوتھے دور کے آغاز میں ہوئی تھی۔

    3۔ داخلی فتنے و مسائل، فقہی مسائل جن میں سے چندایک مسلمانوں کے درمیان افراط و تفریط کا باعث بن گئے تھے۔ نیز مملوک اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی خرابی اور کشیدگی سمیت دیگر مسائل بھی شامل تھے۔

    ان مسائل کا ادراک ابن تیمیہ کو بہت اچھی طرح ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے عام علماء کی طرح اپنا فرض منصبی عبادات تک محدود نہیں سمجھا تھا، بلکہ سیاسی معاملات و مہمات میں باقاعدہ حصہ لینا بھی علماء کی ذمہ داریوں میں سے سمجھتے ہوئے بنفس نفیس حصہ بھی لیا تھا۔ جب ان کی عمر ابھی 18-19 سال تھی تو ہلاکو خان کے بیٹے نے شام پر حملہ کرکے حمص پر قبضہ کرلیا تھا جس کے اثرات دمشق میں حالات کی ابتری اور غارت گری کی صورت میں رونما ہونے لگے۔ اس موقع پر ابن تیمیہ خود ’غازان / قازان‘ (بعض کتب میں غین کے ساتھ جبکہ بعض نے قاف کے ساتھ لکھا ہے) کے پاس پہنچ گئے اور اس نے امن و امان پر بات کی، حتیٰ کہ ’امن‘ کا فرمان بھی لے کر آئے تھے۔ بلکہ جب تاتاری افواج نے بیت المقدس اور اس کی اطراف میں پہنچ کر لوگوں کو گرفتار کرلیے تو ابن تیمیہ نے غازان کے سپہ سالار سے ملاقات کرکے بہت سارے قیدیوں کو چھڑاکر بہترین سیاسی سفارتکاری کا ثبوت دیا تھا۔ اس واقعہ کے چند سال بعد پھر ’غازان بن ہلاکوخان ‘ نے شام پر حملے کی تیاری شروع کی تو ابن تیمیہ نے ایک طرف جہاد کی تیاری شروع کرنے کی ترغیب دی اور دوسری طرف غازان سے مل کر اسے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کردیا، لیکن ایک سال بعد پھر تاتاری فوجیں حملہ کرنے جمع ہوگئیں تو ابن تیمیہ مسجد و خانقاہ میں بیٹھنے کے بجائے فوری طور پر مصر پہنچ گئے۔ وہاں حکمران طبقہ کو جہاد کی تیاری اور سینہ سپر ہونے کی ترغیب دی، بلکہ بڑی ہمت اور بے باکی کے ساتھ بادشاہ کو غیرت دلائی کہ اگر تم اسلام کی حمایت نہ کروگے تو اللہ کسی اور کو بھیجے گا۔ اور اس آیت کی تلاوت کی۔

    ترجمہ: ”اگر تم پیٹھ دکھاؤ تو خدا تمھارے بدلے اور قوم بھیجے گا اور وہ تمھاری طرح (بزدل) نہ ہوں گے۔( سورہ محمد 38)
    ان کی اس کامیاب سیاسی و سفارتی گفتگو سے سلاطین سمیت عام لوگ بھی متاثر ہوئے، یہاں تک مشہور امام ابن دقیق العید بھی ان کی جرات اور بہترین استنباط پر حیران رہ گئے۔

    ابن تیمیہ کی بے باک اور دلیرانہ سفارتکاری پر ان کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ جب غازان خان کے سپہ سالار (جس کا نام قتلو خان لکھاگیا ہے) کے ساتھ کسی معاملہ پر بات کرنے گئے تو سپہ سالار نے مذاق اور استہزا کے طور پر کہا کہ ” آپ کیوں آئے؟ کسی کو بھیجتے، میں خود حاضر ہوتا۔“ تو ان کا جوا ب تھا کہ ”نہیں! موسیٰؑ فرعون کے پاس خود جاتے تھے، فرعون موسی کے پاس نہیں آتا تھا۔‘‘

    ابن تیمیہ، سوشل و سماجی زندگی:

    امام ابن تیمیہ گوشہ نشین علماء میں سے نہیں تھے، بلکہ اس وقت کے لحاظ سے عامۃ الناس کی فلاح و بہود کے لیے دستیاب سہولتوں اور وسائل کا استعمال کرنا بھی جانتے تھے۔ اس زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا کہ ”مفتی“ بن کر لوگوں کی اصلاح کے لیے مرد وزن کی تمیز میں اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا جاسکے، اور نہ وہ کوئی ”ملّا و قاری“ یا مقری تھے کہ محض مسند پر بیٹھ کر وعظ و نصیحت کے نام پر زبان و قلم تلوار کی طرح چلاکر آرا و فکر کا بے رحمی سے مضحکہ اُڑایا جاتا رہے۔ بلکہ قوم کی خدمت اور رہنمائی کے لیے تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی اور خدمت میں اس قدر مصروف ہوگئے تھے کہ ذاتی زندگی کی کوئی فکر ہی نہ رہی۔

    ابن تیمیہ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے تھے کہ مسلمان مختلف قومیتوں کا مجموعہ تھے۔ نیز سیاسی طور پرایک اضطراب اور خوف ووحشت کا دور تھا۔ تاتاری یلغار ہو یا صلیبی جنگ، مسلم دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے جن میں اخلاق و عادات اور ان کی فطرت کے ساتھ مسلمان علاقوں میں ثقافتی، تہذیبی و تمدنی اختلاط شامل تھا۔ اس وجہ سے اجتماعی زندگی اور معاشرہ مکمل طور پر غیر منظم و غیر مربوط ہوگیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے تباہی سے دوچار ہونے جارہا ہو۔ ایسے دور میں ابن تیمیہ نے مسلم معاشرہ کے خدوخال اور اسلامی اخلاق پر خصوصی توجہ دے کر اصلاح کا کام بھی کیا۔ ثقافتی یلغار کی وجہ سے دینی امور میں ”نئی چیزوں“ کی شمولیت پر صحیح اور غلط کی وضاحت اور تمیز کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت وہ اپنی سماجی و سوشل صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی طور پر میدان عمل میں نکل آئے۔ محض گفتار کا غازی بننے پر اکتفا نہیں کیا تھا۔

    ابن تیمیہ ،فتنہ تاتار سے ٹکر:

    جس طرح ہم نے عرض کیا کہ وہ سیاسی وسفارتی زندگی میں بہت سرگرم رہے اور علماء کے بارے میں بھی وہ اس کے قائل تھے کہ انہیں اس میں باقاعدہ حصہ لینا چاہیے۔ اسی وجہ سے جتنا ان سے ہوسکتا تھا، تاتاریوں کے ساتھ گفت وشنید اور مذاکرت کے ذریعہ معاملات حل کرنے کی کوشش کی، لیکن جب تاتاری یلغار اور ہلاکو خان کے بیٹے غازان خان طاقت کے نشہ میں بدمست ہاتھی کی طرح شام کو تاراج کرنے نکلا، تو ابن تیمیہ کی کامیاب سفارت کاری کے بعد سلطان ناصر نے تاتاری فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک فیصلہ کن جنگ کی صورت میں تاتاری فوجیں شکست سے دوچار ہوئیں (یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے تاتاری یلغار کا مقابلہ کرکے انہیں ان کی فتوحات یا تباہی پھیلانے کو بریک لگائی تھی) ابن تیمیہ اس جنگ میں کوئی ”شیخ الاسلام“ و علامہ کے بجائے ایک دلیر اور بہادر سپاہی کے روپ میں نظرآئے اور کردار کے غازی کا رول ادا کردیا۔ اس جنگ میں کامیابی اور قوم کا جوش وجذبہ بیدار کرنے کا سہرا انہی کے سر جاتا ہے۔

    فتاویٰ ابن تیمیہ، مشرق و مغرب کی نظر میں

    امام ابن تیمیہ تاریخ اسلام کی ان شخصیات میں شامل ہیں، جن پر مشرق ومغرب دونوں کے باسیوں نے ”نقد“ کی ہے بلکہ اس میں کسی حدتک کافی غلو کا شکار بھی رہے ہیں۔ امام ابن تیمیہ کوئی فرشتہ یا نبی نہیں ہیں، کہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہی نہ ہوئی ہو یا وہ معصوم عن الخطا تھے۔ یہ دعویٰ وہ خود یا ان کے شاگرد بلکہ آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ہے، لیکن ایسے الزامات جو ان کی فکر وکتب سے لاعلمی اور بالخصوص ان کے فتاویٰ کے پس منظر کو جانے بغیر لگائے جائیں، قطعاً نامناسب ہیں۔ اس پر مستزاد انہیں دہشت گردی اور پھر آج کی داعش اور دیگر عسکریت پسندوں کے ”ہیرو“ اور ان کے ”فکری راہنما“ کے طور پر پیش کرنا علمی بدیانتی وخیانت کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں کتنے ہی ایسے گروہ ہیں جو قرآن مجید کی مختلف آیات پیش کرکے ان کی من مانی تشریح کرتے ہیں تو کیا قرآن مجید کو یہ الزام دیا جائے گا؟ (نعوذباللہ)

    کوئی ایک سال پہلے اوسلو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ساتھ اقوم متحدہ کے آرڈیننیس responsibility to protect یعنی (R2P) اور humanitarian intervention کی روشنی میں شام اور لیبیا کے مسئلہ پر ایک ارٹیکل لکھ رہا تھا تو انہوں نےماردین کانفرنس (منعقدہ مارچ 2010ء ترکی۔ کانفرنس ابن تیمیہ کے ایک فتویٰ کی Re-visit کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی) کے بارے میں پوچھا، یعنی ابن تیمیہ کا مشہور فتویٰ ”ماردین“ جس میں کرہ ارض کے بارے میں اسلامی تصور، دار الاسلام اور دارالکفر کی روشنی میں اہل ماردین (وہ علاقہ ہے جہاں ”حیران“‘ واقع ہے جو ابن تیمیہ کی جائے پیدائش ہے) نے پوچھا تھا کہ ہمارے علاقے کاحکم کیاہے؟ آیا یہ دارالاسلام ہے یا درالکفر؟ کیا یہاں سے ہجرت کرنا لازم ہے اور یہاں رہنے والے منافق ہوں گے یا نہیں؟

    اس سوال کی ضرورت اس وقت اس لیے پیش آئی تھی کہ ماردین میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لیکن غلبہ اورحکمرانی غیر مسلموں کی تھی۔ ابن تیمیہ نے اس علاقے کے لیے دارا لاسلام اور دارالکفر سے ہٹ کر ایک نئی اصطلاح استعمال کی تھی کہ ’’ يعامل المسلم فيـــها بـــما يستحقه، ويعامل الخارج عن شريعة الإســـلام بــــما يستحقه‘‘ یعنی مسلمانوں کے ساتھ معاملہ ان کے مطابق (یعنی اسلام ) ہوگا جس کے وہ مستحق ہیں اور غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ ان کی طرح، یعنی دونوں کا الگ الگ معاملہ ہوگا۔ اگر ان کا رویہ اچھا ہے تو اچھا رویہ رکھا جائے اور معاندانہ ہے تو اسی طرح رویہ رکھا جائے۔

    یہ مشہور فتویٰ الگ بحث کا متقاضی ہے، لیکن بدقسمتی سے اس فتویٰ کی آخری سطر میں وہ ’’تحریف یا تبدیلی ‘‘ ہوئی ہے جس میں عربی کا لفظ ’’یعامل الخارج‘‘ کو ’’یقاتل الخارج‘‘ سے تبدیل کردیا گیا اور اسی فتویٰ کو القاعدہ و دیگر تنظیموں نے اپنے لیے حملہ کرنے اور قتل کے جواز کے طورپر پیش کردیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ لفظ کی یہ تبدیلی جو تباہ کن ثابت ہورہی ہے، وہ کافی دیر بعد کی تبدیلی ہے، جب آج سے تقریباً 110 سال پہلے 1327ھ میں فرج اللہ الکردی نے فتاویٰ ابن تیمیہ کی تخریج میں نقل کی ہے، جسے بعد میں شیخ عبد الرحمن القاسم نے بھی ”مجموع الفتاویٰ“ میں نقل کیا ہے اور یہی بعد میں مشہور ہوا ہے، حتیٰ کہ اس وقت کافی طباعتوں میں موجود ہے۔ (میرے خیال میں نئی تخریج شدہ اور طباعت ہوسکتی ہے) حالانکہ ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد ابن مفلح کے علاوہ دیگر سے ’’یعامل‘‘ ہی منقول ہے۔ ابن مفلح نے اپنی کتاب ’’آداب الشریعۃ‘‘ (جلد اول صفحہ 212) میں نقل کیا ہے۔ ’’یعامل‘‘ کے لفظ کے ساتھ مکتبہ ظاہریہ میں موجود واحد مخطوطہ (یعنی ہاتھ سے لکھا ہوا) میں نمبر 2757 کیساتھ مکتبہ اسد، دمشق میں موجود ہے۔ اسی طرح اسی لفظ کے ساتھ ’’الدرر السنۃ فی اجوبۃ السنیۃ‘‘ 248/12 میں نقل ہوا ہے۔جبکہ مشہور مصری عالم شیخ رشید رضا نے ’’مجلہ المنار‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔

    اب اندازہ لگائیں کہ تشدد پسند، داعش اور القاعدہ یا دیگر گروہوں نے اس فتویٰ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن اصل فتویٰ اور حقیقت کچھ اور تھی۔ اب اگر کوئی عالم اس فتویٰ کو سمجھے بغیر اور بلاتحقیق اپنے حق اور مقصد کے لیے استعمال کررہا ہو تو کیا یہ عالمانہ اور محققانہ طرزِ عمل کہلاسکتا ہے؟ نیز دار الاسلام اور دار الحرب کا معاملہ ائمہ کرام کے ہاں ایک اختلافی اور اجتہاد ی مسئلہ ہے جس پر کوئی بھی قطعی دلیل یا نص موجود نہیں، بلکہ ائمہ نے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے فہم وفراست سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے کےبعد کے مسائل میں سے ہے۔ اس لیے مسئلہ میں اختلاف آرا کے ساتھ ساتھ زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے اس پر بھی اثر پڑسکتا ہے، جس پرحتمی رائے قائم کرنا میرے علم کے مطابق مناسب نہیں ہے۔

    اسی طرح قتل والد (مشرک) کے حوالے سے ابن تیمیہ کا فتویٰ، کس تناظر میں تھا اور ہمارے لوگ اس سے کیا مطلب سمجھ بیٹھے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اصل فتویٰ کیا تھا اور کچھ لوگ اسے کس طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اصل فتویٰ جو ابن تیمیہ کے مجموع الفتاوی (14/478)میں نقل ہے:

    ترجمہ: ”اگر والد اپنے بیٹے کواللہ کےساتھ شرک کی طرف بلاتا ہے تواس کی بات نہیں مانی جائے گی، بلکہ بیٹا اپنے والد کو منع بھی کرے اور انہیں توحید کی طرف حکم بھی دے، کیونکہ یہ والد کے ساتھ حسن سلوک‘ کے زمرے میں آتا ہے اور اگر وہ پھر بھی مشرک ہے تو اسے مار سکتا ہے، لیکن علماء کا اس کی کراہت کے بارےمیں اختلاف ہے)“

    کیا ابن تیمیہ کا مقصود یہ تھا کہ ہر غیر مسلم والد کو قتل کیا جاسکتا ہے؟ یا بالفاظ دیگر ابن تیمیہ کے نزدیک مشرک والدکا قتل ”مباح“ ہے اور کیا مشرک اور باقی غیر مسلموں کا معاملہ ایک جیسا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً کوئی بھی ذی فہم اور علم رکھنےو الا فرد اسے کبھی ”ترغیب“ نہیں سمجھے گا۔ بلکہ ابن تیمیہ نے کبھی بھی والد کا خون ”مباح“ نہیں سمجھا ہے، بلکہ ان کی کتب میں کئی جگہوں پر والدین (بے شک مشرک کیوں نہ ہو) کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے ملے گا۔ ابن تیمیہ کی مشہور کتاب ”جامع المسائل“ میں لکھتے ہیں (فوصاه سبحانه بوالديه، ثم نهاه عن طاعتهما إذا جاهداه على الشرك، فكان في هذا بيان أنهما لا يطاعان في ذلك وإن جاهداه، وأمر مع ذلك فصاحبهما في الدنيا معروفا، 4/275)

    ترجمہ: ”بیٹے کو اللہ نےوالدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے۔ پھر ان کی تابعداری سے منع کیا ہے اگر والدین شرک کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ پھر یہاں والدین کی تابعداری نہیں ہوگی بے شک وہ دباؤ ڈالیں، اور اس کے باوجود اللہ نے ان کے ساتھ دنیا میں نیک برتاؤ کا حکم دیا ہے۔‘‘

    اس کے بعد ہم کیسے ابن تیمیہ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ”مشرک“ والد کے قتل کے بارے میں جواز کے قائل تھے؟ اس سلسلے میں مزید ایک دو حوالے ذکر کرنا چاہتا ہوں تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔ مشہور حنفی عالم الکاسانی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ”کسی بھی مسلمان کے لیے مکروہ اور ناجائز ہے کہ وہ اپنے محارب والد (جو جنگ کرنے آیا ہو) کو قتل کرنے میں پہل کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”وصاحبهما في الدنيا معروفا“ (سورہ لقمان15) کہ ”دنیا میں نیک برتاؤ کیا کرو۔“ علامہ کاسانی پھر آگے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کافر والدین کے ساتھ بھی نیک برتاؤ کرنے کا، اور والدکو قتل کرنے میں پہل کرنا نیکی کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔“ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع” (7/ 101)

    میری طالب علمانہ رائے اور مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ ابن تیمیہ قرآن کے مفسّر تھے۔ ان کی وفات کے بعد مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوب کے ممالک تک ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا تھا کہ ’’الصلوٰۃ علی ترجمان القرآن‘‘۔
    قرآن میں والدین سے حسن سلوک کی بار بار تلقین اور ’’ وإن جاهداك على أن تشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما وصاحبهما في الدنيا معروفا ‘‘کو سمجھنے اور تفسیر و تشریح کرنے کے باوجود ابن تیمیہ عمومی طور پر کیسے غیرمسلم والدین(مشرک) کے قتل کا فتویٰ دے سکتے ہیں؟ جبکہ مسلمان والدین کا قتل تو بطریق اولیٰ عدم جواز اور حرام ہے۔ یا للعجب!!

    خلاصہ کلام

    اگر فتویٰ یا کتب سے متاثر ہونے اور دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کے محاسبے اس طرح ہونے لگیں کہ فلاں شخصیت اور کتاب سے وہ متاثر ہوئے تھے تو پھر تو مطالبہ دور تک پہنچے گا۔ سید موودوی، سید قطب اور ابن تیمیہ سے بات آگے بھی نکل سکتی ہے اور بہت دور تک جاسکتی ہے۔ پھر تو تبع تابعین اور تابعین سے آگے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر سوال شروع ہوسکتے ہیں۔ اگر یہی رویہ برقرار رہتا ہے تو یہ مطالبہ پھر انبیاء کرام علیہم السلام اور کتب میں سے ’’قرآن‘‘ تک پہنچ سکتا ہے۔ وہاں پہنچ کر کیسے دفاع کریں گے اور کس طرح دین سے وابستگی کو مصلحت پسندی کے چنگل سے آزاد کرسکیں گے؟

    اردو زبان میں علامہ ابن تیمیہؒ کی زندگی، حالات وعہد کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے بہت سی کتب ہیں لیکن شیخ محمد ابو زھرہ کی کتاب ”ابن تیمیہ“ اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”تاریخ دعوت وعزیمت جلد دوم“ زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔ مطالعہ کا مشورہ دیتا ہوں۔

  • ایدھی کیلے دعا ءِ مغفرت، تازہ بحث اور اسلام  حافظ یوسف سراج

    ایدھی کیلے دعا ءِ مغفرت، تازہ بحث اور اسلام حافظ یوسف سراج

    13006698_1120626147982743_4328716347595490718_n

    ایدھی کے اسلام کے حوالے سے جو بحث سوشل میڈیا پر چل نکلی ہے۔ اس سے مجھے تولگاکہ ایدھی کی موت بھی کہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش ہی نہ ہو۔خیر، میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے بعض پاکستانی بھائیوں کی اسلام کے بارے حساسیت کامظہر ہے۔ بہرحال اس حوالے سے چند گزارشات اور کچھ اسلامی حوالے ذہن میں آئے ہیں ۔ آئیے ان پر نظر ڈالتے ہیں:
    1۔ایدھی کے ابا مسلمان تھے ۔ مجیب الرحمٰن شامی صاحب
    ایدھی ایک مسلمان تھا،اس کی داڑھی اور اسلامی نام عبدالستار ہونے کے علاوہ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے اپنے کالم میں لکھاکہ ان کے اجداد کئی برس پہلے ہندو سے مسلمان ہوگئے تھے اور اسی باعث برادی سے مسلمان ہونے والے ان کے باپ داد نے اپنے نام کے ساتھ ’مومن لکھنا ‘ شروع کر دیا تھا۔ جو بعد میں ہوتے ہوتے میمن ہوگیا۔ آج کراچی میں آباد اسی برادری کو میمن برادری کہا جاتاہے۔
    2۔ایدھی خود بھی اللہ کو مانتا تھا۔ ارشاد عارف صاحب
    ایدھی خود بھی اللہ کو مانتا تھا۔ اس کی زندگی کے علاوہ اس کا ثبوت ایک ثقہ صحافی جناب ارشاد عارف کے کالم سے بھی مل جاتاہے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ کسی نے ایدھی سے نوبل انعام کے حوالے سے بات کی تو اس نے جواب میں فرمایا ، میں نے یہ کام نوبل انعام کے لئے نہیں ، اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے۔ میرا اللہ راضی ہو جائے یہی میرے لئے نوبل انعام ہے۔
    3۔ایدھی قادیانی ،نہیں نمازی تھا۔رعایت اللہ فاروقی صاحب
    ایک فورم پر سوال اٹھایا گیا کہ کیا کسی نے اسے نماز پڑھتے دیکھا؟ اس کا چشم دیدجواب ایک مزید مذہبی ثقہ صحافی جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب نے بڑی وضاحت کے ساتھ دیا۔ انھوں نے کراچی میں ختم نبوت کے دفتر کی ایک قدرے آبادی سے ہٹ کے واقع مسجد میں ایدھی صاحب کو باجماعت اور کبھی لیٹ ہونے کی صورت میں اکیلے نماز پڑھتے متعدد بار دیکھا۔انھوں نے ایدھی صاحب کو متعدد علماکے جنازوں میں بھی دیکھا۔انھوں نے واضح کیا کہ ایدھی صاحب مسلمانوں کے حنفی مکتبِ فکرکے مطابق نماز اد اکرتے تھے۔ (واضح رہے آخری اطلاعات کے مطابق یہ مکتبِ فکربھی نہ آغا خانی ہے اور نہ قادیانی۔یہاں تک کہ وہابی یا شیعہ تک نہیں!یہ صرف حنفی ہے۔)
    4۔ایدھی کی داڑھی ۔آصف محمود صاحب اور آپ سب صاحبان
    ایدھی نے داڑھی رکھی تھی (جیساکہ آپ کو تصویر میں بھی نظر آتی ہے۔ویسے داڑھی سکھ بھی رکھتے ہیں مگر ان کے سکھ ہونے کے بارے میں میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ۔آپ کے پاس ہو تو شیئر کیجئے گا۔)اسی بنا پر جیسا کہ معروف اینکر ، کالمسٹ اور مصنف آصف محمود صاحب نے اپنے کالم میں لکھاکہ وہ اسی داڑھی کی بنا پر خود کو چھوٹا موٹا مولوی سمجھتے تھے۔انھوں نے چھوڑ جانے اور سونا لیکر فرار ہونے والی بیوی کے بارے میں فرمایاکہ اس نے ایک مولوی ہی سے شادی کرناتھی ،تو مولوی تو میں بھی تھا۔(مزیدواضح رہے کہ ایدھی کو کئی بار مختلف ائیر پورٹس پر روکا گیا۔ جس کی وجہ خود ایدھی صاحب نے اپنی داڑھی کو قرار دیا۔ایدھی نے کم ازکم زندگی میں تو اس کے باوجود داڑھی نہیں کٹوائی ۔ قبر کی کی کوئی بریکنگ نیوز آپ کے پاس ہو تو از راہِ کرم اس قومی امانت کو جلد طشت از بام کیجئے گا۔ )
    اب رہی یہ بات کہ ایدھی نے مختلف موقعوں پر انٹرویوز میں کچھ ایسی باتیں کیں جن سے اسلام کے بارے میں بعض حساس یا دوسروں سے زیادہ بہتر مسلمانوں کو لگا کہ معاملہ مشکوک ہے تو اس سلسلے میں چند مزید گزارشات ہیں۔ (گزارشات در گزارشات!)
    پہلی بات۔ ایدھی ایک ان پڑھ آدمی تھے ۔ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے ۔وہ بس ایک عملی کارکن تھے او ردین کے بارے واجبی معلومات رکھنے والے تھے۔
    دوسری بات۔ ایدھی ایک جولی اور مذاق کے عادی شخص تھے ۔ جیساکہ آصف محمود صاحب کا کالم اس بات کی گواہی دیتاہے۔یہ کالم یہی دلیل پر ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔
    تیسری بات۔ ایدھی صاحب اپنے مشن سے اتنے کمٹڈ تھے کہ انھیں سوائے اس مشن کے کچھ اورصاف نظر نہ آتاتھا۔ خدمت میں ان کی منزل تصوف کی زبان میں ’فنا فی الشیخ ‘والی تھی ۔(سلفی احباب ناراض نہ ہوں ۔وہ اسے کسی اور اصطلاح میں ترجمہ کر کے پڑھ لیں۔)
    آخری بات۔ اب آپ اس سیاق میں دیکھئے ۔(بلکہ آپ کو تو خیر یہ نہیں دیکھنا چاہئے ۔ یہ دراصل کسی حساس اور اعلیٰ مقام والے عالم کے کرنے کا کام ہے۔ آپ کوتو صرف دوسروں کو مسلمان کرنے تک محدود رکھنا چاہئے۔) ایک واجبی تعلیم رکھنے والا ، ایک مذاق پسند آدمی اور ایک خدمت میں جنون کے درجے تک پہنچا ہوااللہ رسول کو ماننے والا شخص اگر کوئی بات کرتاہے تو اسے اسی سیاق میں کیوں نہ دیکھاجائے ۔ویسے بھی ایک مو من کومثبت اور حسن ظن والے زاویۂ نگاہ ہی کو ترجیح دینی چاہئے ۔ جہا ں تک بھی تاویل ہو سکے۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اور مسلمان علماء و ائمہ نے کسی بھی شخص کے کچھ بنیادی اسلامی اور انسانی حقوق ابھی تک غصب ہونے سے بچا رکھے ہیں۔ اللہ انھیں جزا دے۔مثلا ایسا کچھ کہنے والے سے اس کے الفاظ کی وضاحت لی جائے گی اور الفاظ کے پسِ پردہ نیت پوچھی جائے گی،یہاں تک کہ اگر کوئی اپنے صریح لفظوں کے بارے بھی کہہ دے کہ میرا ان سے وہ مطلب نہیں تواس ضمن میں اس کی بات قبول کی جائے گی۔
    سوشل میڈیا پر بعض جیالہ صفت احباب کی طرف سے ایدھی کی چند مشہورخلاف اسلام کاروائیاں یہ بیان ہورہی ہیں:
    وہ نماز نہیں پڑھتاتھا۔ وہ خدمت کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا۔ اس نے حج نہیں کیا تھا۔ اس نے آنکھیں عطیہ کر دیں ۔ا س نے اپنے ہی کپڑوں میں دفن ہونا پسند کیا۔ اس نے قبر پہلے سے کھدوا رکھی تھی۔ وہ غیر مسلموں کا بھی علاج کرتاتھا۔وہ قادیانی تھا۔وغیرہ وغیرہ۔
    جن چیزوں کی تصریح ہوگئی۔ ان کے علاوہ کے بارے میں مسلمانوں کوحسنِ ظن رکھنا چاہئے ۔ مثلاً حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ دو جوڑے کپڑے اور کبھی نہ تنخواہ لینے والے کو اس سے مستثنی ٰ سمجھا جا سکتاہے۔ جہاں تک خدمت کو ترجیح دینے کی بات ہے،تو کسی کام میں کھب اور کھپ گئے شخص پر کبھی ایسا وقت بھی آجاتاہے کہ وہ ’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا‘ ہوئی کی کیفیت میں پہنچ جاتاہے۔اس کیفیت میں مبتلا ہونے اور شعائر اسلام کا انکار کرنے میں زمیں آسمان کا فرق ہے۔ یہاں اس کے خیالات کی و اعمال کی بات نظریاتی یا اعتقادی سے زیادہ عملی اور انفرادی ہوجاتی ہے۔ممکن ہے آپ کو یاد ہو جب جہاد کا موسم چل رہاتھا تو جوش میں آکے بعض مقرر یہاں تک کہہ دیتے تھے کہ دینی مدارس نے ہمیں کیا دیا ہے؟ ان کے سلوگن ہوتے تھے کہ مرے ہاتھوں سے کتابیں گر جاتی ہیں۔ (حالانکہ ان میں دینی کتابیں ہو سکتی تھیں۔)وغیرہ وغیرہ ۔تو جیسے انھیں برداشت کیا ویسے ایدھی صاحب کو بھی تھوڑی سی گنجائش دے دیجئے۔ جب کہ زندگی میں آپ نے صراحت مانگی نہیں ،اور اب وہ آپ کے بجائے اللہ کے سپرد ہیں۔اپنی قبر کی جگہ سیدہ عائشہؓ نے بھی خاص کر رکھی تھی جو بعد میں سیدنا عمرؓ پر ایثار کر دی۔ کفن سیدنا ابو بکرؓ نے بھی اپنے استعمال کی پرانی چادروں میں لینے کی وصیت کی تھی۔سیدہ عائشہ نے کچھ کہاتو فرمایا،نئے کپڑوں کی زندوں کو زیادہ ضرورت ہے۔آنکھوں کو عطیہ کرنے کے حوالے سے فقہا باہم مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ کچھ خلاف ہیں تو کچھ حق میں ۔ جب ایسی صورت ہو تو فتوی ٰ نہیں لگایا جاتا۔پسندیدہ فتوے کو مان لیا جاتاہے۔(جاری ہے)

  • ایدھی  –  یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد – ہمایوں مجاہد تارڑ

    ایدھی – یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد – ہمایوں مجاہد تارڑ

    humayoon

    گزشتہ کل کا وہ منظر دیدنی تھا، جب لاوارثوں ،یتیموں اور بے نام شیر خواروں کے سروں پر محافظت و نگہبانی کا سائبان تان لینے والا ،ستم رسیدہ او راشک ریز،بے آسرا عورتوں کی اشک شوئی کرنے والا ، ان کے پیراہن دریدہ کی بخیہ گری کرنے والا ، سینہ فگار بوڑھوں کی غم گساری ودلجوئی کرنے ، اور بلا تفریق عقیدہ و مذہب بے گورو کفن پڑی لاشوں کے لیے گورو کفن ارزاں کرنے والا انّیس توپوں کی سلامی ، اربابِ اختیار کی جانب سے تسلیم و نیاز، چہار اطراف سے امڈتی ، بے قابو ہوتی خلقت کے بے کراں جذبات کاٹھاٹھیں مارتا سمندر اور ہمارے باوقارآرمی چیف کیطرف سے عاجزانہ و باوقار سلیوٹ ایسے تمغے اپنے سینے پہ سجائے منوں مٹی تلے اتار دیا گیا ۔ تب دیکھتی آنکھوں نے دیکھا کہ یکا یک وہ مٹی کراچی کے طول و عرض سے چن چن کر لائے ڈھیروں پھولوں تلے دب چُھپ کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

    یہ نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط اس کٹھن ریاضت و لگن کا صلہ تھا جس دوران وہ ستم زدگاں لوگوں کے دلوں کو فرحت بخشنے والے چمنستان کھلاتا رہا۔یہ ایک کارِ دشوار تھا جو اپنی فصیل انا سے لڑھک کر بھیک مانگنے اور مانگتے رہنے کا متقاضی تھا۔کوئی روگ پال لینے اوراسے دائماً نبھانے میں کچھ فاصلہ حائل ہے—شاید اتنا جتنا زمین آسمان کے بیچ! یہ کارِ دشوار تھا جس میں گاہے انگلیوں کی پوروں سے لہو رسنے لگتا ہے، تب بھی ملبہ اُٹھانا پڑتا ہے۔ جن افتاد زدگاں کی ذمّہ داری کا بوجھ اُٹھایا جاتا ہے، ان خاطر ہمہ نوع مسائل کے کوہ گراں کا سامنا رہتا ہے۔حاسدین اور بد خواہوں کی جانب سے سنگ ہائے الزام اور تیر ہائے دشنام کا سامنا اس پہ مستزاد ہے۔نوع بہ نوع مسائل کی اونچی نیچی سنگلاخ راہوں پر چلتے چلتے پاؤں میں آبلے پڑ جاتے ہیں۔ زخمیوں کو اٹھاتے اٹھاتے کندھے شل ہونے لگتے اور آنکھیں رت جگوں سے سلگنے لگتی ہیں۔ یوں ہمّت شکن ساعتیں گھیر لیتی، اور اعصاب چٹخا دیا کرتی ہیں۔مگر ایدھی کی کتابِ زندگی گواہ ہے کہ کوئی مشکل،دشنام طرازی کا کوئی سا طوفان بھی اس کی ارفع خیالی کو، اس کے جذبے کے بانکپن کو گہنا نہ سکا۔ وہ دُھن کا پکا تھا۔ اس نے فرض شناسی کی تابندہ تاریخ رقم کی۔

    لیکن مجھے کہنے دیں کہ دل تھوڑا حزیں بھی ہے، ایک اور منظر کے احاطہِ نگاہ ہونے پر۔
    جیسا کہ اسامہ عبدالحمید نے بھی اپنے کالم میں ذکر کیا کہ کل جب پوری دنیا اس درویش کو خراج تحسین پیش کرنے کو سوشل میڈیا پر ٹویٹس اور نت نئی پوسٹوں کی یلغار کیے دے رہی تھی، وہیں بعض نادانوں کی جانب سے ایدھی مرحوم کے مذہبی نظریات کو گرفت کرتی پوسٹوں کی بھی ایک پوری کھیپ امڈنا شروع ہو گئی۔یعنی جس شخص نے عمر بھر ان لوگوں کی خدمت کی، بلا تفریقِ عقیدہ و مذہب، وہ اس کے وقتِ رخصتی اسکے عقائد کی ٹوہ میں لگے ہوئے تھے۔اب ظاہر ہے، بہت سے لوگوں نے اس پر احتجاج کیا اور انہیں تلخ و شیریں زبان میں سمجھانے کی اپنے تئیں کوشش کی۔ ایسی ہی ایک ادنٰی سی کوشش میں بھی کرنا چاہوں گا، اگرچہ الفاظ کسی سے مستعار لیتے ہوئے کہ مجھے فیس بک پر ابھرنے والے ان لفظوں کی اثر آفرینی پر قدرے زیادہ اعتماد محسوس ہوا۔ معروف سکالر طفیل ہاشمی صاحب کا ایک سٹیٹس شیئر کیے دے رہا ہوں۔ آپ نے لکھا:
    ” دہشت گردی کرنے والے مقدس ہیں. برا کون؟ لاشیں دفنانے والا۔
    بدکار تو پوتر ہیں ۔گنہ گار کون ؟تمہارے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا۔
    کوڑے کے ڈرم میں اپنا گناہ انڈیلنا جائز ھے۔ حرام کیا ھے ؟اسے زندگی ،عزت ،تعلیم دینا۔
    بوڑھے ماں باپ کو گھر سے نکالنا تمدن کا تقاضا ھے۔ بد تہذیب کون؟ انہیں ٹھکانا دینے والا۔
    بیٹیوں کو بیچنا بیویوں کو مارنا شرعی حق۔ گمراہ کون؟ انہیں تحفظ دینے والا۔
    مار کر برہنہ لاشیں سڑکوں پر پھینک دینا جہاد۔ مردود کون؟ انہیں کفن پہنانے والا۔
    کیا آپ نے کبھی سوچا ؟
    ہر شہر میں دوڑتی ہوئ ایدھی ایمبولینس سروس زندگی بانٹتی تھی۔
    جھولے محروم جانوں کو ماں باپ کا تحفظ دیتے۔
    اولڈ ہوم خدا کے عذاب کے سامنے بند باندھتے۔
    بیٹیوں اور بیویوں کو شیلٹر دے کر طوائف بننے سے روکا گیا۔
    ایک ناخواندہ شخص نبی امیؐ کے نقش قدم پر چلتا ہوا محروم طبقات کے لئے سراپا رحمت بن گیا ۔”

    آخر میں ذوقِ طبع کے لیے پیر نصیرالدین نصیرؔ مرحوم کا ایک شعر پیش خدمت ہے:
    جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارے
    یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد