Category: پاکستانیات

  • خوشیوں کا ملک : عبدالکریم کریمی

    خوشیوں کا ملک : عبدالکریم کریمی

    عبدالکریم کریمی
    شام ہو رہی تھی۔ دن بھر آفس کے کاموں میں تھکاوٹ و بوریت کی وجہ سے کچھ دیر سستانے اپنے بیڈ روم میں نیم دراز تھا مگر کم بخت نیند تھی کہ آنکھوں سے کوسوں دُور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے مجبوراً اسٹیڈی روم کی طرف جانا پڑا کہ کہیں کوئی ناول ہی پڑھ کر بوریت سے چھٹکارا حاصل کروں۔ صدیق سالک کا ناول ’’پریشرککر‘‘ اُٹھائے، ابھی ایک دو صفحات ہی پلٹا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ اُٹھاکے دیکھا تو اسلام آباد میں زیر تعلیم میرے ایک عزیز کا مسیج تھا۔ مسیج پڑھ کے نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ صدیق سالک کے ’’پریشرککر‘‘ کی طرح میں بھی اپنی زندگی کے ’’پریشرککر‘‘ میں جلتا رہا۔ مسیج یہ تھا:
    ’’کون کہتا ہے کہ پاکستان میں غم ہیں؟
    خوشیاں بھی تو بہت ہیں، یعنی لائٹ آنے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بازار میں شاپنگ کے بعد زندہ گھر واپس آنے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بس میں سیٹ ملنے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مسجد سے نکلتے وقت چپل ملنے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بس سے اُترنے کے بعد اپنی جیب میں پیسے دیکھنے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    گھر میں واپس آنے کے بعد موبائل نہ چھن جانے کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    خوشیوں کا ملک پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    آئی لو پاکستان۔‘‘
    قارئین! یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان! جس کے بارے میں ایک طالب علم کس طرح معنی خیز و مضحکہ خیز خیالات رکھتا ہے۔ وہ پاکستان، جس کی بنیاد قائد اعظمؒ نے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہاں وہ پاکستان، جس کا خواب شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہاں وہ پاکستان آج زر اور زمین کے چند پجاریوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہوا ہے۔ ہوس کے پجاری قوم کو کیا دیں گے؟ ہوس کی کوئی حد نہیں۔ یہ ہوس ہی تھی جس نے شداد سے جنت تعمیر کروائی اور قارون سے خزانے جمع کروائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ ہوس ہی تھی جس نے فرعون کو خدائی کے زعم میں مبتلا کیا اور اس گمان کے تسلسل کے لئے اس سے سینکڑوں معصوم اور بے گناہ جانوں کا قتل عام کرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ظلم کی کوئی حد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ بھائی کو بھائی سے مرواتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نسلوں کی نسلیں ختم کرواتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    شہروں کے شہر تباہ کرواتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اصل میں ہوس اور ظلم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔
    ہوس طلب کرتی ہے اور ظلم اس کی مانگ کا انتظام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہوس نت نئی فرمائشیں کرتی ہے اور ظلم ان فرمائشوں کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی حکمت عملیاں وضع کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور ظلم کبھی تھکتا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہوس کا صرف جسم ہوتا ہے اور ظلم دِل سے محروم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ہوس کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے، چنانچہ جو اس کے پاس ہے یہ اسے نہیں دیکھتی اور دور کی چیزوں پر نظریں گاڑ کر مزید کا نعرہ بلند کرتی ہے .یہ ہوس ہے جو انسان کو انسانیت کی اعلیٰ و ارفع منزل تک پہنچنے سے روکتی ہے اور یہ ظلم ہے جو انسان کو جہالت کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے. ہوس انسان کو اپنی دوستی کا فریب دیتی ہے اور پھر جونک بن کر اس کے ساتھ یوں چپکتی ہے کہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہتی ہے۔ ظلم اپنے آپ کو مضبوط ہتھیار کے طور پر پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ جس کے پاس میں ہوں اسے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی لیکن جونہی انسان بے بس ہوتا ہے ظلم کا ہتھیار کند ہوجاتا ہے۔
    قارئین! پاکستان کو بنے ستر سال ہونے کو ہے لیکن آج حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو ترقی پذیر ملک بھی نہیں کہہ سکتے۔ تنزلی کی طرف اس کا سفر تیزی سے جاری ہے۔ آج اس قدر مہنگائی ہے جس کا چند برس قبل تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لوڈشیڈنگ نے زندگی کے ہر شعبے کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ہے۔ امن کی ناقص صورتحال نے زندگیوں پر سے بھروسا ہی ختم کر دیا ہے۔ دیگر ممالک ہماری حدود میں من مانیاں کر رہے ہیں اور ہم مہر بلب ہیں۔ اس ساری صورت حالات اور تمام مصائب کی وجہ یہی دو امراض ہوس اور ظلم ہیں۔ پاکستان کو نصیب ہونے والے تمام حکمران ان ہی دو امراض میں مبتلا رہے ہیں۔ وہ ہوس کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ظلم کے ہتھیار سے پوری قوم کا شکار کرتے رہے ہیں۔
    موجودہ حکمرانوں اور سیاست دانوں پر نظر ڈالیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے اثاثوں کا جائزہ لیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی دولت کا شمار ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی جائیدادوں کا حساب آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کتنے گھر ہیں اور کن کن ممالک میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی کوٹھیاں ہیں اور کتنے فلیٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے زرعی فارمز ہیں اور کتنی حویلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی گاڑیاں ہیں اور کن کن اقسام کی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنے بینک اکاؤنٹس ہیں اور دُنیا کے کس کس حصے میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندازہ ممکن ہی نہیں کیونکہ بہت کچھ ہے اور بے شمار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال بڑھانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ سوجتا ہی نہیں۔ دولت کی کثرت نے ان کا یہ حال کر رکھا ہے کہ اس کی چکاچوند میں انہیں کچھ بھی نظر آنا بند ہوگیا ہے ماسوائے دولت کے۔ اُنہوں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ہوس کی تو کوئی حد نہیں ہے لیکن زندگی کی حد تو ہے۔
    یہ صحیح ہے کہ دولت و جائیداد کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے بلکہ آسائشات کا ہونا اور بے شمار ہونا ہی ان کی زندگی میں لطف پیدا کرتا ہے لیکن کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ جوں ہی موت کا گھنگرو گلے میں بجتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ یہی چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت پکارتی ہے تو انسان پیچھے مڑکر دیکھ ہی نہیں پاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی ساتھ لے کر نہیں جاسکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خالی ہاتھ اس مٹی کے گھر میں جانا پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا رقبہ بھی بے حد تھوڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں نہ اے سی ہوتا ہے اور نہ ہی جگمگاتی روشنیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا گھر جہاں مستقل لوڈشیڈنگ رہتی ہے۔
    تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی اور نہ کسی کی بے جا طرف داری کرتی ہے۔ کیا ایسے حکمرانوں کو کامیاب کہا جاسکتا ہے جو خالی ہاتھ دُنیا میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی دُنیا سے رخصت ہوگئے اور جو موقع اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کیا تھا کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرکے تاریخ میں اپنا اچھا مقام بنالیں اور اپنے نام کو امر کرلیں وہ موقع انہوں نے گنوا دیا کہ ساری عمر وہ دولت سے کھیلتے رہے جو آخر میں ریت ثابت ہوئی اور ہاتھوں سے پھسل گئی۔
    تاریخ میں اپنا نام اچھے الفاظ میں لکھوانا، لوگوں کے دلوں کو ہمیشہ کے لئے مسخر کر لینا یہ موقع ہرکسی کو نہیں ملتا اور جس کو ملتا ہے وہ بے حد خوش نصیب ہوتا ہے۔ اب اس بات کا انحصار اس کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاکر ہمیشہ کے لئے زندۂ جاوید ہوجائے یا موقع گنواکر گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے۔
    اس دُبلے پتلے سے شخص کو دیکھئے جسے دُنیا قائداعظم ؒ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ چاہتا تو ساری عمر دولت سے کھیل سکتا تھا لیکن اس نے ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر زندگی گزاری اور جب وہ دُنیا سے رخصت ہوا تو خالی ہاتھ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دُعاؤں کی دولت اس کے ساتھ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنسوؤں کے چراغ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اس کی قبر میں آج بھی روشنی دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آٹے، چینی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے مسائل میں پھنسی ہوئی قوم کو آج بھی اس بات کی پروا ہوتی ہے کہ اس کے قائد کی تصویر کسی ایوان سے اُتر تو نہیں گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے جو اس کے خلاف بولنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کون ہے جو اس کی عزت خلقِ خدا کے دلوں سے کم کرسکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں اس عظیم انسان نے جو عزت کمائی، محبت کا جو بینک بیلنس اکٹھا کیا، وہ بھی کم ہونے والا نہیں کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
    موجودہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اللہ تعالیٰ نے موقع فراہم کیا ہے کہ ملک و قوم کی خدمت کریں۔ عوام کے مسائل حل کریں۔ ان کے مصائب کے بوجھ کو کم کریں۔ ملک کی خاطر خلوص اور حب الوطنی سے کام کریں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ حکمران اور سیاستدان ہوس سے اپنا دامن چھڑالیں۔ بے غرض اور خلوصِ دِل سے وطن کے مسائل کو حل کریں تو ہمیشہ کے لئے قوم کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ تاریخ میں سنہرے حروف سے اپنا نام لکھوا سکتے ہیں لیکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو دولت اکھٹی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو صرف اپنی ہوس کے غلام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر، فیکٹریاں، محل، زرعی فارمز، بینک اکاؤنٹس، بھوک اور دہشت گردی سے مرتی قوم کی طرف تو یہ آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ ان کے زخموں کے مرہم کے طور پر ان کے پاس صرف بیانات ہیں اور یہ کھوکھلے بیانات عوام کے غم کا مداوا نہیں لیکن آخر کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کب تک میرے مذکورہ عزیز کی طرح ہر طالب علم جو ہمارے مستقبل کے امین ہیں۔ تذبذب کا شکار رہیں کہ کیا اس ملک میں ان کا مستقبل روشن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
    یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور انسان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ سرزمین پاکستان کو شاد و آباد رکھے اور اس پاک دھرتی کو ہوس پرست قیادت سے محفوظ رکھے۔ آمین!

  • ریاست خاموش تماشائی  : سیدراصدف

    ریاست خاموش تماشائی : سیدراصدف

    پاکستان میں ایک وزارت مذہبی امور ہوتی ہے… جس کا معزرت کے ساتھ بنیادی کام کسی ٹریول ایجنسی سے زیادہ کا نہیں ہے…
    حج اور عمرہ کے انتظامات کے علاوہ یہ وزارت کسی قسم کے متاثر کن کام سے عاری نظر آتی ہے……
    کیا امریکی مسلمان حج کرنے نہیں جاتے.. کیا بھارت سمیت دیگر غیر مسلم ممالک سے مسلمان حج اور عمرہ کرنےنہیں جاتے…؟؟؟
    کیا وزارت مذہبی امور کا صرف یہ کام رہ گیا ہے…؟؟؟
    اس خطے سے انگریز تو چلا گیا..مگر بدقسمتی سے اپنا طرز حکمرانی چھوڑ گیا… یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو… آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر حکمران نے اس فارمولہ کو اپنایا ہے…. جتنا زیادہ مسلکی ، سیاسی اور معاشرتی حوالے سے ، عوام تقسیم در تقسیم رہے گی.. اتنا زیادہ حکمرانی ہموار ہو گی…..
    آپ سوشل میڈیا دیکھ لیجیے….ہر دوسرا پاکستانی مفتی ہے… ہیٹ سپیچ کا کھلم کھلا مظاہرہ تمام ہی مسالک کی جانب سے کیا جاتا ہے… مگر کوئی کاروائی کرنا والا نہیں ہے… ریاست کی سب سے بڑی ناکامی کا منہہ بولتا ثبوت…. جو جتنا زیادہ دوسرے مسلک کو تنقید کا نشانہ بنائے گا اتنا بڑا مومن تصور ہو گا…
    فرقہ ورانہ اختلاف کیا آج سے ہیں…؟؟ کئی سو سالوں سے جاری ہیں…وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت اور افسوس ناک بہودگی کا اضافہ ہو گیا ہے….. کیونکہ علما کی طرف سے کسی قسم کے موثر اقدامات کی مثال نہیں ملتی.. متنازعہ و غیر مستند تاریخ نسل در نسل کاپی پیسٹ ہوتی آ رہی ہے…
    آئین پاکستان کہتا ہے کہ.. جو کہ مسلمان ہونے کی بنیادی شرط بحکم اسلام بھی ہے… !
    ہر وہ پاکستانی مسلمان ہے جو، اللہ اور رسول صلی علیہ وسلم پر ایمان لائے..تمام انبیا ، فرشتوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو.. ختم نبوت یعنی حضرت محمد رسول صلی علیہ پر نبوت کا خاتمہ مانتا ہو….
    ادھر سوشل میڈیا پر ، یہ بھی کافر وہ بھی کافر…. اس کیا فائدہ ہو گا؟؟؟؟ یقینا صحابہ اکرام کی عزت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے… مگر مدعا یہ ہے کہ.. یہ اختلاف آج کے نہیں ہیں…

    ایک طرف آپ آئین کو بھی مانتے ہیں.. دوسری طرف آئین کی خلاف ورزی بھی… دیکھیے..لوجیکل بات ہے کہ.. اگر آئین کی رو سے کوئی مسلمان ہے تو اسے کیسے خارج کر سکتے ہیں..؟؟؟؟
    جب یہ تعریف شامل کی جا رہی تھی تب کیوں اعتراض نہ ہوا..؟؟
    اگر دلائل مضبوط ہیں.. تو نعرہ بازی اور، عسکری تنظیموں کی آڑ لیے بغیر ، دوبارہ سے قانون کا سہارا لیا جائے…. جیسے فتنہ قادیانیت پر لیا گیا تھا…
    کافر کافر میں مشغول مکتبہ کے ، علما حضرات اسمبلی کا حصہ ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں…
    ایک ترمیمی قرداد پاس کی جائے کہ… مسلمان وہ ہے جو رسول پاک صلی علیہ وسلم کے تمام اصحاب پر ایمان رکھتا ہو… نیز وہ تمام فرقہ ورانہ گمراہ کن کتب، جس میں حقائق مسخ شدہ پیش کیے گئے ہوں ان تمام پر پابندی لگا دی جائے… جھگڑا ہی ختم…. ہمت کریں.. کب تک عام پاکستانی ایک دوسرے کو ہلاک اور شہید کرتے رہیں گے….
    آئین پاکستان کی رو سے کسی قسم کا خلاف اسلام کام نہیں ہو سکتا ہے..
    چلیں آپ چھوٹے موٹے اختلاف سائیڈ پر رکھیے…. کچھ کام کھلم کھلا سراسر اسلام سے متصادم ہیں… ریاست خاموش تماشائی ہے….
    آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے خلاف اسلام اور اساس پاکستان و دیگر حساس قومی ایشوز پر بولنا آزادی رائے تصور نہیں ہو گا…. عمل درآمد کدھر ہے…؟؟؟
    فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور برداشت لازم ہے… لیکن وہ عقائد اور مشقیں جو سراسر اسلام سے متصادم ہیں… ان کو کنٹرول کرنا اسی ٹریول ایجنسی کا کام ہے جو ورازت مذہبی امور کے نام سے اسلام آباد میں بیٹھی ہے….
    اب آپ آئین کے آرٹیکل 20 پر آئیے…..
    اس آرٹیکل کے تحت ہر مذہب کو امن ایمان اور اخلاق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ، اپنے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کی آزادی ہو گی… تمام مذاہب اپنے ادارے قائم کر سجتے ہیں…
    یہ آرٹیکل بہت عمدہ ہے..اور مذاہب کے درمیان برداشت tolerance کے لیے موثر ہے.. یہ ہی طرز ہمیں تاریخ اسلام سے بھی ملتی ہے…..

    مگر مدعا یہ ہے کہ.. عیسائی، سکھ اور دیگر مذاہب کے لیے تو یہ بہترین ہے… مگر مثال کے طور پر قادیانیت کے لیے یہ غیر موثر ہے…. اسی شق میں یہ اضافہ ہونا چاہیے کہ مذہبی آزادی یقینا مکمل ہے لیکن اسلام سے متصادم قطعی نہ ہو….
    سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ ایس ایم آر 1718 1993کے مطابق بھی قادیانی اپنے مذہب کی اشاعت نہیں کرسکتے… جو کہ بدقسمتی سے جاری ہے…مذہب قادیانیت سرے سے ہی اسلام سے متصادم ہے…

    مدعا یہ ہے کہ.. پہلے تو ہر شخص کو انفرادی سطح پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھانا ہر مسلک کے علما کا کام بھی ہے کہ.. ہمارا ایمان اختلافات پر بات کیے بغیر بھی مکمل ہے… ہمارا کام قرآن و سنت کے تابع اپنی زندگیاں گزارنا ہے…….
    ہم سے ہمارے اعمال پر سوال ہو گا… جن اختلافات پر آپ لوگ کھپ رہے یں..وہ ہمارے ایمان کا حصہ نہیں ہیں…

    ددوسرا مدعا قانون پر عمل درآمد ہونا ہے.. جب ہم کہتے ہیں کہ.. ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ اسلام سے متصادم نہیں ہے تو بالکل نہیں ہے…. مسئلہ صرف نفاد نہ ہونے کا ہے.. اسی طرح جہاں ترمیم کی ضرورت ہے وہاں موثر ترمیم سے بھی نظریں چرائی جاتی ہیں….

    آرٹیکل 33 کے تحت مملکت ، افراد کے درمیان عصبیت کی حوصلہ شکنی کرے… کسی قسم کی نسلی، صوبائی ، فرقہ ورانہ، سیاسی، علاقائی عصبیت سے روکے…

    آپ ذرا غور کیجیے…. ہمارے حکمرانوں کی طرز حکمرانی ہی آرٹیکل 33 کی نفی ہے… عوام کو درج بالا تمام امور میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی جاری و ساری ہے….

    یقین کیجیے پاکستان کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل ممکن نہ ہو… مسئلہ صرف حکمرانوں کی نیت میں اخلاص کی بدترین کمی کا ہے… ہم عوام ان بدنیتوں پر اندھا اعتماد کیے جاتے ہیں… جو خود تو محفوظ ہیں.. مگر کتنے پاکستانی ان کو محفوظ رکھنے کا صدقہ ہوئے….

    آئیں ہم سب عہد کرتے ہیں کہ.. ہم پاکستانی اپنے لیول پر عصبیت کا شکار نہ ہوں گے…. ہم اس بات پر اتفاق کریں گے.. جو ہم مشترک ہے..اور بطور مسلمان ہر اس عمل، اور بات سے اجتناب کریں گے جو اسلام سے متصادم ہے….. ہم بطور معاشرہ اس بہترین اکثریت کو پہنچیں گے جس کے بعد، ویسے ہی حکمران دینے کا وعدہ ہے…..

  • انتہا پسند دانشور , سیاستدان اور میرا نظریہ : محمد عمر فاروقی

    انتہا پسند دانشور , سیاستدان اور میرا نظریہ : محمد عمر فاروقی

    img_20160607_215404_222

    مجھے مار ڈالو میرے ٹکڑے ٹکڑے کردو مجھے جتنی اذیت دے سکتے ہو دے دومجھے تختہ
    دار پر جھلا دو مگر میرے ایک نظریے کو بچا لوجس کے لیے ہم نے جانیں دیں جس
    میں پاکستان کا مطلب لا اله الا الله کچھ لوگ ان شہیدوں کے خون کو ہائی جیک
    کرنا چاہتے ہیں
    الله کی قسم ایک دن الله کی عدالت لگے گی اور تم سب سے پوچھ ہو گی اے نظریہ
    پاکستان پر شب خون مارنے والو…مذہبی جذبات بھڑکا کر اقتدار کی راہ ہموار
    کرنے والو…ان شہداء نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کیا ہندوستان میں میٹرو بس نہ
    ملتی؟؟؟…یونیورسٹی سکول و کالج نہ ملتے؟؟؟…موبائل کورٹس اور کرکٹ نہ
    ملتی؟؟؟
    ہندوستان میں کس چیز کی کمی تھی؟؟؟
    کیوں ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے؟؟؟کیوں خاندان کٹ گئے؟؟؟عزت و عصمت کو جھونک
    کر,جائیدادیں داؤ پر لگا کر,رشتہ دار چھوڑ کر,کٹے ہوئے لاشے چیل اور کوؤں کے
    حوالے کر کے,کیوں ؟؟؟
    لاکھوں لوگوں کی شہادتوں کی بولی لگانے والو اب کہتے ہو یہ ملک سیکولرازم کے
    نام پر بنا تھا ڈوب کے مر جاؤ .ہمارے شہیدوں کا مزاق اڑایا ہے تم نے الله
    تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا
    سندھی لوگ سنھ میں چلے جاؤ, بلوچی الگ ہو جاؤ پشتون اپنے پٹھانوں میں چلے جاؤ
    پنجابی پنجاب میں چلے جاؤ بےشرمی کا لبادہ اوڑھنے والو کبھی تاریخ میں دیکھا
    کہ سندھی,بلوچی,پٹھان ,پنجابی ایک ہی منزل کی طرف کیوں ہجرت کی؟؟؟سندھ
    کیلیے؟؟؟پنجابیوں نے اپنے ہم زبان سکھوں کو چھوڑا پنجاب کیلیے؟؟؟انڈیا میں
    میوزیکل کنسرٹس نہ ملتے؟؟؟ ناچ گانا یہ عدالتیں یہ پولیس اور مسجدیں نہ
    ملتیں؟؟؟
    وہاں کیالوگ حج کو نہیں جاتے؟؟؟اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم تعداد میں زیادہ نہ
    ہوتے؟؟؟
    یہ آپ کے بھاشن سننے کے لیے ہجرت کی تھی؟؟؟ خون نچوڑنے کےلیے سیاستدان کم تھے
    کیا؟؟؟ایک اثاثہ تھا وہ بھی نوچ رہے ہو؟؟؟مذہب کو تو بخش دو
    موم بتیاں لے کر کس چیز کا انتظار ہو رہا ہے؟؟؟شہیدوں کا ماتم کر رہے ہو یا
    پاکستان کو جلانا ہے؟؟؟تم چاہتے کیا ہو؟؟؟یہاں شراب, کباب, رباب ہو؟؟؟ مبارک
    ہو تمہارا مقصد پورا ہو گیا ہے اب جان چھوڑ دو ہماری
    ایک صاحب ٹی وی شو میں بیٹھ کر بولتے ہیں اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟؟؟
    میرے بس میں ہوتا تو اس کی زبان کھینچ لیتا اور اسکو بتاتا کہ حکمران طبقہ بھی
    تیری ہی کلاس سے تعلق رکھتا ہے بے غیرتی کی کوئی حد ہوتی ہے تبصرہ کرنے والے
    لوگ ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتےاور اپنی
    عزت کو چھپا کر بیٹھے ہیں
    کچھ دانشور ایسے بھی ہیں جن کے زیرِعتاب اکثر عام عوام اور مولوی ہی رہتے ہیں
    اس دانشور سے بندہ پوچھے 1947 سے لے کر آج تک کس مولوی کو آپ نے حکومت دی
    ہے؟؟؟آپ کی اسمبلی میں کتنے مولوی ہیں ؟؟؟پھر بھی الزام مولویوں پر
    حکومت آپ کی عدالتیں آپ کی اور اساتذہ بھی آپ کے اور تبصرہ کرتے وقت مولوی ہر
    چیز کا ذمہ دار.حد ہو گئی ہے یار.اگر طارق جمیل امن کی بات کرے تو پابندی اگر
    حافظ سعید فلاح کا کام کرے تو دہشت گرد…
    آپ ہی کا بنایا ہوا قانون ہے ناں اسمبلی میں جانے کے لیےصرف بی اے پاس اور
    نوجوانوں کے لیے NTS جہاں ماں باپ اپنی زندگی کی کمائی انجئنیر اور ڈاکٹر
    بنانے میں جھونک دیتے ہیں اور دوسری طرف عالم اور مولانا بننا بلکل فری…
    آپ اگر بزنس کا پڑھائیں تو فیس اور مولانا سے سود کا پوچھنا ہو تو فتوی’مفت
    اگر آپ کسی گورے کا حوالہ دیں تو تاریخ اور اگر مولوی کسی صحابہ پیغمبر کا
    حوالہ دے تو دقیانوس
    1947 سے لے کر اب تک کتنا سفر کیا ہے ان کیڑے مکوڑوں نے جاننا چاہتے ہو تو غور
    سے پڑھو
    پہلے لوگ کپڑا دوکان پر بیچتے تھے اب یہ بیچتے ہیں کیٹ واک میں جہاں یہ خود
    عورتوں کو کپڑا پہنا کر چیک کرتے ہیں بس ان کی جدیدیت یہیں پر آکر ختم ہو جاتی
    ہے
    یہ دو ٹکے کے دانشور جو موٹے موٹے شیشے کی عینکیں لگا کر ٹی وی پر آکر چند رٹے
    رٹائے جملے بول کر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں پہلے کسی بھی قندیل کو ساتویں
    آسمان پر بٹھاتے ہیں اور جب حادثہ پیش آئے تو موم بتیاں لے کر کھڑے ہو جاتے
    ہیں آپ کو یاد ہو گی وہ ملتان کی کرکٹر اس کا خون بھی ان لوگوں کے سر ہے
    مولوی بےچارے آپ سے کیا مانگتے ہیں چند قانون جی ہاں صرف چند قانون
    ہمارے پیارے نبی محمد صلی الله عليه وسلم ,صحابہ کرام اور اہل بیت کی شان میں
    گستاخی نہ ہو
    آپ دوسری عدالتوں کے ساتھ ایک شرعی کورٹس یا فوجی کورٹس بھی بنا دو ہمارا دل
    چاہے تو ہم اس عدالت میں جائیں جہاں مرنے کے بعد انصاف ملتا ہے یا شرعی کورٹس
    میں
    باقاعدہ امام کو گریڈ دیا جائے اور علماءکو قانون سازی میں شامل کیا جائے
    ہمارا نصاب ایک کرکے اس میں %70 اسلامیات کو شامل کیا جائے وغیرہ وغیرہ
    وزیراعظم پی ایچ ڈی اور عالم ہو
    کرپشن کا قانون سزائے موت ہو
    ممبر قومی اسمبلی ایم فل ہو اور عالم ہو
    جتنی دیر تک یہ معیا رقائم نہ کیا گیا برے لوگ ہی سامنے آئینگے
    کیونکہ خوش کن سے خوش کن فلسفہ,دلچسپ سے دلچسپ نظریہ,خوش آئند سے خوش آئند
    دلیل ہر وقت ہر شخص پیش کر سکتا ہے لیکن جو چیز ہر وقت ہر شخص نہیں پیش کر
    سکتا وہ ہے عمل.جتنی دیر تک گفتار کے غازی لوگوں کو ہم دانشور اور کردار کے
    غازی کو ہم پس پشت ڈالتے رہیں گے ہمارا انجام یہی ہوتا رہے گا

  • شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

    شہر کراچی میں بہائے جانے والے ناحق خون کا ذمہ دار کون؟ : رجب علی

    رجب علی
    شہر قائد جس کی روشنیاں بحال کرنے کے دعوں میں حکومت اور کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ پیچھے نہیں رہنا چاہتا ہے،، ہر ادارہ اور حکومت عوام سے داد وصول کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ ہم نے اس شہر کی روشنیاں بحال کیں، ورنا تو پہلے کے حالات اس قدر پر آشوب تھے کہ نہ پوچھیے، 2013میں قتل و غارت گری کی سالانہ یومیہ شرح 7.6 تک پہنچ گئی تھی اس طرح 2013کے دوران قتل و غارت کی 2700سے زائد وارتیں ہوئی تھی لیکن کوئی حکومتی نمائندہ یا قانون نافذ کرنے والاے ادارے کے سربراہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ شہر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،، حکومتی اعلیٰ عہدیدار تمام زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہر میں روز چند افراد کا قتل کوئی تشویشناک بات نہیں ہے ۔یہ وہی شہر تھا جہاں صبح سے رات تک اسپتالوں میں فائرنگ کے زخمی اور مقتولین کی لاشوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا،، اگست 2010 میں ایک ایک دن میں سو سو لاشیں بھی اس شہر میں اٹھائی گئی تھیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا تھا کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کیسی کوششیں تھی جن سے روز بروز حالات خراب ہوتے جا رہے تھے لیکن جنہیں حالات پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کرنے تھے وہ تمام حکام چین کی بانسری بجا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس وقت شہر میں شہریوں پر چھوٹے بڑے تمام ہتھیار استعمال کئے جا رہے تھے، اس وقت تو کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ بھائی اس شہر میں اینٹی ائر کرافٹ گن سمیت دیگر بھاری ہتھیار لسانی فساد کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں، لیکن عزیز آباد میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے چند قدم کے فاصلے پر مکان کے تہہ خانے سے بڑی تعداد میں جنگی اسلحہ سمیت بڑے اور چھوٹے ہتھیار برآمد ہونے پر سب حیرت زدہ نظر آرہے ہیں،کیوں؟؟؟؟

    یہاں ایسا لگتا ہے جیسے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کالعدم پیپلز امن کمیٹی جسے ”لیاری گینگ وار“ کا نام دیا جاتا ہے سے علیحدہ دکھایا گیا اسی طرح اب ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کو بھی دو مختلف جماعتیں ظاہر کئے جانے کی کوشش ہورہی ہے،، حکام کیوں حقائق بتانے سے گریزاں ہیں،، پچھلے دور میں شہر کی تمام سیاسی جماعتوں ، کالعدم تنظیموں اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں نے مل کر اس شہر کا امن تباہ کیا تھا لیکن آج سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہوئے ہیں ،، آج امن و امان کے قیام کے تمام دعوے دار اس وقت خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر آپ نے یہ تسلیم کر لیا کہ پچھلے دور میں حالات اس قدر بگڑے ہوئے تھے تو ان تمام زمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے تھا جو ان حالات کے زمہ دار تھے ، ان زمہ داروں میں آج شہر کا دورہ کرتے ہوئے عوام میں گل مل جانے والوں سمیت سیاست دانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان بھی شامل ہیں، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔۔۔۔کیا روز قیامت ان زمہ داروں سے سول نہیں کیا جائے گا کہ اختیار ہونے کے باوجود تم نے کچھ نہیں کیا اور شہر کی سڑکوں ، گلی، محلوں میںبے گناہوں کا خون بہتا رہا، اگر تم بے اختیار تھے تو مثتفی کیوں نہیں ہوئے اور گھناﺅنا کھیل کیو ں دیکھتے رہے ؟؟؟

    یہ بات تو طے ہے کہ اس شہر میں ایسے مہلک ہتھیار شہریوں پر استعمال کئے جاتے رہے ہیں جسکی روشنی میں ہمیں اس بات پر تحقیقات کرنی چاہیے کہ ناجانے شہر قائد میں عزیز آباد جیسے مزید کتنے تہہ خانے موجود ہیں، جہاں مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں چھپائے گئے ہیں ۔۔ یہاں ایک بات پر حیرت ہے کہ گزشتہ برس نائن زیرو اور اطراف میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھرپور آپریشن کیا ،کئی پرانے خطرناک دہشت گرد بھی پکڑے گئے اور رہنماﺅں کو بھی گرفتار کیا گیا ،، لیکن کیا ان گرفتار ملزمان سے تفتیش بھی کی گئی تھی یا وہ صرف ڈرامہ تھا؟۔ اگر تفتیش کی گئی تھی تو کیا ان خطرناک دہشت گردوں کو بھی یہ نہیں معلوم تھا کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ بغل میں چھپایا گیا ہے، یہ وہ سول ہیں جو عام آدمی کے زہن میں اٹھ رہے ہیں۔۔

    یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ملنے والے جنگی ہتھیار کی خرید اری کیا کوئی آسان کام ہے،، کیا یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں،، کیا عام طور پر یہ ہتھیار اسلحہ فروخت کرنے والی دکانوں پر مل جاتے ہیں ۔تو ان تمام سوالوں کا جواب ہے نہیں۔ نہ ہی یہ ہتھیار کسی اسلحہ ڈیلر سے خریدے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے ہتھیار اسلحہ کی کسی دکان پر موجود اور وہاں حاصل کئے جاسکتے ہیں، ملنے والے ہتھیاروں میں نیٹو ، امریکی ساختہ، بھارتی ساختہ، چائنہ ساختہ سمیت دیگر ہتھیاروں کے علاوہ سرکاری ہتھیار بھی موجود ہیں ،، سرکاری ہتھیاروں کے حوالے سے تو کہا جاسکتا ہے کہ چھینے گئے ہوں گے لیکن دیگر ہتھیار تو باقائدہ خرید کر دوسرے ممالک سے منگوائے گئے ہوں گے اور یہ ہتھیار زمینی، ہوائی یا پھر سمندری راستے سے ہی لائے گئے ہوں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا اسلحے کا ذخیرہ یہاں تک پہنچا کیسے تھا ۔ویسے تو گزشتہ برس نائن زیرو پر رینجرز کے آپریشن سے قبل تک یہ علاقہ ، شہر کے بعض علاقوں کی طرح علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا ، نائن زیرو کے اطراف تمام گلیوں کو عوام کے لئے بند رکھا گیا تھا، صرف یہاں رہنے والے ہی ان گلیوں سے گزرنے کا حق رکھتے تھے ، تو ممکن ہے کہ ایسے وقت میں یہاں اسلحہ کی یہ کھیپ لائی گئی ہو گی،، اس حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ ذوالفقار لاڑک سے جب سوال کیا گیا کہ اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ یہاں کیسے پہنچ گئی تو وہ کہنے لگے کہ جیسے پورے شہر میں اسلحہ پہنچا ویسے ہی یہاں بھی پہنچا ہوگا ،، ڈی آئی جی نے جواب تو مختصر دیا لیکن یہاں ہماری تحقیقات کی تصدیق بھی کر دی گئی کہ اب اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایسے تہہ خانے مزید کہاں کہاں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

  • پسماندہ علاقوں میں انصافیوں کا راج : شمس الرحمن کوہستانی

    پسماندہ علاقوں میں انصافیوں کا راج : شمس الرحمن کوہستانی

    شمس الرحمن
    وہ ارض و کوہستاں جہاں معدنیات ، جنگلات، جڑی بوٹیاں ،زرعی اجناس ، برقی پیداوار ،سیاحت ، قدرتی حسن ، حسین حیاتیات کی بہتات تو ہے مگر حکمرانوں کی دلچسپی نہیں ۔ اُن کی دلچسپی ہے توذاتی مالی معاملات اور مفادات میں جہاں سے انہیں اگلے الیکشن کیلئے کمائی ملے ۔ پسماندہ علاقوں کے پوشیدہ خزانے او روسائل یہاں کے غریبوں کے زندگیاں بدلنے کی ضمانت مگر نااہل حکمرانوں نے اب تک ان وسائل کو بروئے کار لانے کاشائد سوچا نہ ہو۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام امید کی کرن لیکر تحریک انصاف کی حکومت کا جشن منارہی تھی کہ اُن کی زندگیوں میں تبدیلی آئے گی مگرپولیس اور تعلیم کے علاوہ دیگر زندگی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔پسماندہ علاقوں کی بیوروکریسی سب اچھا ہے کی پالیسی پر عمل پیراں ہے اور جواب طلبی کے مواقع پر غلط بیانی سے ایک پل بھی نہیں کتراتی ۔ڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ گزشتہ روزایک پسماندہ علاقہ پٹن کوہستان میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک نے کوہستان کی ضلعی انتظامیہ سے صحت کے مسائل پر پوچھا تومتعلقہ ڈی ایچ او نے سب اچھا ہے کی رٹ لگائی تو پی ٹی آئی کے کارکن نے داسو کے ہسپتال میں ایک انجکشن اور گولی نہ ہونے کی شکایت کرکے کچا چٹھا کھول دیاگو کہ سوال حقیقیت پر مبنی نہ سہی مگر اس اہم معاملے کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا۔ اس پسماندہ صوبے کے دور افتادہ علاقے میں انصافیوں کی حکمرانی میں بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں اور نوکریاں بکنے کی گواہی خود تحریک انصاف کے کارکن دے رہیں ۔ ٹھیکوں میں اقرباء پروری اور گھپلوں کی بھی سخت بازگشت ہے ۔ جس کا اظہار آج پٹن کے سرکٹ ہاوس میں خود انصافیوں نے اپنی حکومت کے سامنے کھل کر کیا۔

    صحت اور تعلیم کے مسائل پر جب راقم نے صوبے کے چیف ایگزیکٹیو سے سوال کرنے کی سعی کی تو ساتھ بیٹھے مشیروں نے ٹال دیا اور جواب نفی میں سرہلا تے ہوئے ملا ،راقم کو ضمیر نے جھنجوڑدیا، صحافی ہوں عوامی مسلئے پر خاموش نہیں رہ سکتا وقت کے حکمرانوں سے سوا ل کر نا فرض ہے چاہے جس کی قیمت کچھ بھی چکانی پڑے!ہماری بچیوں کے مسقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ہماری ماوں بہنوں کو سہولیات سے محروم رکھنے والوں کو بے نقاب کیا تو صوبے کے چیف ایکزیکٹو نے نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کی۔
    یہ عجیب بات ہے کہ جب کوئی مسلہ بیان ہو گا تو ایکشن لیاجائیگا ، یہ حکام جو سالہا سال ہمارے پبلک کے ٹیکس پر تنخواہ لیتے ہیں اُن کا کام عوامی مسائل کا ادراک ہے جس کا بیشتر کو علم ہی نہیں۔ ان میں بیشتر تو صرف تنخواہ لینے پسماندہ علاقوں میں آتے ہیں ۔

    اہم بات یہ ہے کہ ہم نے جن لوگوں کو منتخب کیا ان کا محور اپنی ذات ہے اور انہیں عوام کی بہت کم فکر ہے ۔ ایک بات یہاں واضح کردوں کہ کوہستان کی تاریخ میں پہلی بار پٹن اصلاحی کمیٹی نے اتفاق کی صورت میں دو ممبران اسمبلی چنے جن کا نصب العین دو مقاصد تھے ، ایک پورے کوہستان کو بجلی کی فراہمی اور دوسرا لوئیر کوہستان کا قیام ۔ تاحال دونوں مقاصد ادھورے ہیں ۔آزاد تجزیہ اگر کیا جائے تو عوام کی اکثریت منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے نالاں ہے اور ہر کوئی بیزار نظر آتاہے ۔ منتخب نمائندوں کا اپنی اصلاحی کمیٹی کو بھی بائی پاس کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔جو سپاسنامہ تیار کیا گیا اس پر مقامی لوگوں نے جلسے کے بعداعتراضات اُٹھائے۔

    خیر یہاں بات پسماندہ اضلاع اور علاقوں کی محرومیوں کی ہے۔عمران خان نے بارہا کہا کہ سڑکوں کی تعمیر سے کمیشن بنتے ہیں قومیں نہیں بن سکتیں، ان کا موقف رہاہے سرمایہ اپنی قوم پر لگائیں ۔ مگر پسماندہ اضلاع میں اُن کی حکومت نے انسانوں پر بھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ یہاں پر فنڈز لیپیس ہوجاتے ہیں استعمال ہی نہیں ہورہے مقامی لوگوں کا موقف ہے کہ جو فنڈز استعمال ہورہے ہیں وہ اُن کے چہیتوں کے ذریعے ہورہے ہیں جن سے کوئی پوچھنے والا نہیں اُس میں میرٹ اور انصاف کہاں؟ گزشتہ روز پٹن کے بڑے جلسے سے قبل وزیراعلیٰ کو اپنے سابق ساتھی اور حکومت کے موجودہ سینئر وزیر سکندر شیرپاو کے اعلان کی زیادہ فکر ہوئی انہوں نے اُس کے اعلان کی تکمیل کیلئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہا کہ نہروں پر زیادہ پیسے لگائیں جس سے زیادہ زمینیں آباد ہوں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ بلدیات کو جو 80کروڑ روپے ملے ہیں وہ اُن کے قریبی دوست اور کوہستان سے سابق ایم این اے کی مشاورت سے استعمال کریں۔

    شایدانصاف کی راج نیتی کو صرف تصویر کا ایک رُخ دکھایا گیا ہے ۔ خٹک صاحب شائد بھول چکے ہیں پسماندہ ضلع کوہستان کے چھتیس یونین کونسل دیگر بھی ہیں جن میں بسنے والوں کے بھی مسائل ہیں ۔ آپ نے تیسری بار پٹن کا دورہ کیا ، آپ نے بڑے بڑے اعلانات بھی کئے۔آپ نے ہائی سکول پٹن کو سکنڈری سکول کا درجہ دیکر احسن اقدام کیا، آپ وہاں پر سڑکیں بھی بنائیں آپ پٹن کو گل و گلزار کردیں ہم آپ کے احسان مند ہیں کیونکہ پٹن بھی ہمارا ہے ۔ مگر دیگر علاقوں کو بھی توجہ دیناآپکا فرض ہے ناں! آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں سیلاب اور زلزلوں نے بستیاں اُجاڑ دی ہیں؟ آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں ملبے میں دبے بائیس افراد کی جگہ کو حکومتی بے بسی کے باعث اجتماعی قبرستان قراردے دیا گیاہے؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں کوئی کالج یونیوسٹی فعال نہیں یہاں کا بچہ بچہ سکول کی فیس کو ترستا ہے ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں کی عوام بجلی سے محروم ہیں؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ بنکڈ، رانولیا، دوبیر، کولئی ، پالس، جلکوٹ ،شناکی ، کندیا ، سیو،کیال ، پٹن اور جیجال کے سیلاب متاثرین بے یار ومد د گار ہیں اور بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ یہاں میٹرک کے بعد نوجوان مزدوری پہ مجبور ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے درگاہیں نہیں؟
    آپکو نہیں معلوم کہ اس جدید دور میں بھی یہاں کی نسل ٹیکنکل ایجوکیشن سے محروم ہیں ؟
    آپ کو شائد نہیں معلوم کہ ہماری مائیں اور بہنیں لیڈی ڈاکٹرز کیلئے ترس رہی ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ پیچیدہ امراض میں ہماری مائیں اور بہنیں علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی پیش نظر راستوں پر جان دے بیٹھتی ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ ہماری بچیاں تعلیم سے محروم ہیں ؟
    آپ کو نہیں معلوم کہ پسماندہ علاقوں کی پگڈنڈیاں ، راستے اور سڑکیں ملیامیٹ ہیں ؟
    آپ بخوبی جانتے ہیں داسو ڈیم میں متاثرین اپنی جائیدادوں سے محروم ہورہے ہیں اُن کے انتہائی جائیز مطالبات ہیں جن کو آپ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ؟
    یہاں جو دو ممبران اسمبلی ہیں ایک شیر کاشیدائی جوآزاد بھی جیت کر شیر کا ہوگیا اور دوسرا قوموں کی لڑائی میں مصروف ہے۔ اگر آپ اچھے حکمران ہیں اور حقیقی منصف ہیں تو آپ اس قوم سے خود انصاف کریں اور آپکو ان کے مسائل کا ادراک ہونا چاہیے ۔آپ حق حکمرانی ادا کریں ورنہ آپکا حال بھی ماضی کے سیاستدانوں جیسا ہوگا۔آپ میری اس ناقص تحریر کو اپنے لئے تنقید نہیں اصلاح سمجھئے گا ! میرا خدا گواہ ہے اس کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں ! یہ ہر پسماندہ علاقے کے فرد کی پکار ہے ۔
    کسی نے کیا خوب کہا تھا ۔۔۔۔
    بے نام سے سپنے دکھلا کر ۔۔۔ اے دل ! ہرجائی نہ پھسلا کر
    یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔۔۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔
    ناں ڈرتے ہیں ناں نادم ہیں ۔۔۔۔ ہاں کہنے کو وہ خاد م ہیں
    یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔۔۔ اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
    یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا۔۔۔ اے چاند یہاں نہ نکلا کر۔
    اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین ۔

  • کالا باغ ڈیم اور اعتراضات :عبدالرؤف سمرا

    کالا باغ ڈیم اور اعتراضات :عبدالرؤف سمرا

    آج کل سننے میں آرہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کو دوبارہ بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے منہ سے سننے میں آیا ہے کہ نواز خکومت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بات خوش آئند ہے۔ کالاباغ ڈیم ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے انتہائی ناگزیر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ منصوبہ 1953ء سے آج تک سیاسی شعبدہ بازوں کی مفادپرستی کا شکار ہوتا آیا ہے۔ ہر حکومت کے دور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ایشو اٹھایا جاتا ہے مگر پھر مفاد پرستی آڑے آجاتی ہے۔کالاباغ ڈیم کو تعمیر کرنے کا منصوبہ 1953ء میں بنایا گیا تھااور یہ دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم سے 120میل گہرائی کی طرف کالا باغ کے مقام سے صرف 12 میل کی دوری پر بنایا جانا تھا۔ کالا باغ ڈیم کو اس لئے بھی بنایا جانا تھا کہ اس کی مدد سے دریائے سندھ کے پانی کو قابو کیا جا سکے۔اور اس سے زرعی مقاصد اور توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ قومی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہے۔ اس منصوبہ پر ابتدائی طور تحقیقاتی کام 1953ء میں شروع کیا گیا تھا۔
    بڑی محنت لگن اور جستجو کے بعد ہمارے ماہرین نے 1975ء میں اس عظیم منصوبے کے لئے کالا باغ کے قریب کی جگہ کا انتخاب کیا تھا۔منصوبہ بہت بڑا تھا اور حکومت پاکستان کے پاس فنڈز کی کمی تھی اور قومی معیشت کے لئے منصوبہ ضروری بھی تھا اس فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 1982ء میں اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے (UNDP)نے کالا باغ ڈیم کی رپورٹ تیار کرنے کے لئے فنڈ فراہم کیا ۔ اس کے بعد رپورٹ کی تیاری کا کام شروع ہوا اور کئی ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے مل کر تقریبا ً سات سال کی عرق ریزی کر کے ایک ارب دس کروڑ روپے کی لاگت سے رپورٹ تیار کی جو بالآخر جون 1988ء میں مکمل ہوئی۔
    اس وقت کے ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے اس منصوبے کو ملک پاکستان کے لئے نہایت مفید قرار دیا تھا اور پاکستان کی ترقی کے لئے اس منصوبے کوخوب سراہا تھا۔کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی وجہ سے پاکستان کی عالمی فورم پر خوب شاوابھی ہوئی تھی۔ ملکی وغیر ملکی ماہرین کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ چھ سال کی قلیل مدت میں تیار ہونا تھا اور اس منصوبے پر 128 ارب روپے لاگت آنی تھی۔ماہرین کا اندازہ تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو سالانہ 33ارب20کروڑ روپے کی آمدنی متوقع تھی۔ اور اس منصوبے کی بدولت حاصل ہونے والی بجلی سے سالانہ تقریباً 25ارب روپے زر مبادلہ کمایا جاسکتا تھا۔ کالاباغ ڈیم منصوبے کے مطابق ڈیم کے دو سپل وے تعمیر کئے جانے تھے اور ہر ایک سپل وے کے دس درے ہونے تھے اور ہر ایک سپل وے سے تقریباً 12لاکھ کیوسک فٹ پانی کے اخراج کی گنجائش رکھی گئی تھی۔کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ایک کثیرالمقاصد منصوبہ تھا اس سے نہ صرف زراعت کے میدان میں ترقی کے مواقع ملتے بلکہ بجلی کی بھی بھاری مقدار حاصل ہونی تھی اور یہ ملک کا پہلابرقی توانائی منصوبہ ہونا تھاجس کی بدولت ملک پاکستان کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل جاتی۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے 35سے 40ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہونا تھے۔
    کالاباغ ڈیم سے جو بجلی پیدا ہوتی وہ پاکستان کی موجودہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد سے دوگنی ہوتی۔لیکن کچھ مفاد پرست حکمرانوں نے مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپنا کر اس منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا۔کالا باغ ڈیم منصوبے کی جونہی رپورٹ مکمل ہوئی اسے سیاسی بنیادوں پہ تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر کئی اعتراض کئے گئے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوتا گیا۔کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر سیاسی مفاد پرستوں نے یہ اعتراض کیا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا حالانکہ کالاباغ ڈیم کی جھیل میں زیادہ سے زیادہ پانی بھر جانے کی صورت میں بھی جھیل کا پانی نوشہرہ سے 16میل دور نیچے کی طرف ہونا تھا یہ بھی اعتراص تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے صوابی ‘ مردان ‘پبی اور نوشہرہ کی زرعی اراضی سیم کا شکار ہوجائے گی جبکہ ڈیم کی جھیل کی عمومی بلندی سطح سمندر سے 525فٹ ہے اور زیادہ سے زیادہ 915فٹ ہوگی جب کہ مردان کی زمین سطح سمندر سے 970 فٹ ‘ پبی کا علاقہ962فٹ اور صوابی 1000فٹ بلند ہے یعنی جھیل کی سطح ان علاقوں سے 50سے100فٹ نیچے ہوگی اور پانی کے بہاؤ کا قدرتی اصول ہے کہ پانی کبھی اونچائی کی طرف نہیں بہہ سکتااس طرح یہ اعتراص بھی ان کا فضول ہے۔ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے لاکھوں ایکڑ قابل کاشت اراضی اور ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔یہ بات بھی ان کی کسی صورت درست نہ تھی۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ ڈیم کی تعمیر سے 85 ہزار افراد متاثر ہوں گے حالانکہ اس سے قبل منگلا اور تربیلا بند کی تعمیر سے بے گھر ہونے والے افراد کی آبادکاری کا جان جوکھوں کا کام مکمل کیا جاچکاہے۔ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ سرحد اور پنجاب کے لئے جن نہروں کی تجویز ہے ان کے باعث سندھ کو نقصان ہوگا۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی جگہ تھرمل بجلی گھر کیوں تعمیر نہیں کئے جاتے۔یہ بھی اعتراض تھا کہ کالا باغ ڈیم کی جگہ بھاشا ڈیم تعمیر کیا جانا چاہئے۔
    یہ تمام اعتراضات صرف اور صرف سیاسی عناد اور مخالفانہ پالیسی کے حامل ہیں۔جب کہ اس کے برعکس یہ منصوبہ فنی اور اقتصادی اعتبار سے ہر طرح سے قابل عمل ہے۔اگر عالمی بنک جیسا بین الاقوامی معتبر ادارہ بھی اس منصوبے کو قابل عمل قرار دیتا ہے تو پھر سیاسی شعبدہ بازوں کو اس پر مخالفت زیب نہیں دیتی۔لہذا مسلم لیگ کی حکومت کو چاہئے کہ ان تمام اعتراضات کو بالائے طاق رکھ کر اس منصوبے کی تعمیر پر فی الفور کام شروع کرادے تاکہ مسلم لیگ نواز کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ وجاوید رہ جائے۔

  • ریسکیو، شعور و آگاہی اور اقدامات کی ضرورت – راؤ غلام مصطفی

    ریسکیو، شعور و آگاہی اور اقدامات کی ضرورت – راؤ غلام مصطفی

    استحکام سے مالامال ادارے ہی ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں مستحکم اداروں کی بدولت ہی عوام انصاف اور ریلیف کے ثمرات سے مستفید ہو سکتی ہے استحکام کے فقدان کا شکار ادارے ملک و ملت کو ترقی و خوشحالی سے روشناس نہیں کروا سکتے ایسے اداروں میں بیٹھے عملہ کی جانب سے پیدا کی گئی خودساختہ پیچیدگیوں کے دو پاٹوں میں عوام پس کر رہ جاتی ہے اور پھر انصاف اور ریلیف سفارش اور پیسہ کے سامنے سرنگوں ہو کر سربازار بکتا ہے اور یہی عوامل اداروں میں عدم استحکام کے باعث ملکی ترقی و خوشحالی اور امن کے راستہ میں حائل ہو کر ملک و قوم کو پسیوں میں دھکیلتے ہیں آپ اس سر زمین پر قائم سرکاری اداروں کے پیچ و خم پر نظر دوڑائیں تو آپ ان اداروں کے پیچیدہ اعدادو شمار سے بخوبی واقف ہو جائیں گے.
    پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آپ بنظر غائر مطالعہ کر لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سابقہ ادوار میں جن حکمرانوں نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ادارے اور پراجیکٹس لانچ کئے ان اداروں اور پراجیکٹس میں آپ کو خال خال ہی ایسی مثالیں ملیں گی جن کو آنے والی حکومتوں نے دوام بخشا یہ بھی آپ اپنی خوش قسمتی سمجھیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ریسکیو 1122 جیسے ادارہ کو لانچ کیا جو کہ صحیح معنوں میں اپنے اغراض و مقاصد کی روشنی میں عملی طور پر عوام کو بر وقت ریلیف فراہم کر رہا ہے اور میں موجودہ حکومت کا عوام پر احسان سمجھوں گا کہ جنہوں نے اس ادارہ ریسکیو 1122 کے خدو خال کو قائم رکھا۔

    انسانی حیات حادثات کا مجموعہ ہے نجانے کب، کہاں اور کیسے انسان حادثات کا شکار ہو جائے اور بروقت امداد نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن گئے موجودہ حالات میں جہاں انسان کو قدرتی آفات یا زمینی سانحات کا سامنا رہتا ہے ایسے حالات میں اگر بروقت امداد نہ ملے تو آپ انسان کی بے بسی اور لاچاری کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں.
    8 اکتوبر 2005ء کو اس ملک کی دھرتی پر آنے والے ہولناک زلزلہ کی تباہ کاریوں اور قیامت صغریٰ بپا ہونے سے جانی و مالی نقصانات کے پیش نظر ایسا نظام رائج کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں انسانیت کا دفاع اور ایسے قدرتی آفات کے نتیجہ میں پھیلنے والی تباہ کاریوں کے آگے بند باندھا جاسکے پاکستان کی اس سرزمین سے ریسکیو 1122جیسے ادارہ کو ایمرجنسی ایکٹ کے تحت 2006ء میں لانچ کیا گیا دن کی چکا چوند روشنی کو یا رات نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی ہو آندھی ہو یا طوفان زمینی سانحات ہوں یا قدرتی آفات موسم کی قید سے آزاد ریسکیو 1122 کا ادارہ ہمہ وقت مدد کیلئے تیار کا نعرہ بلند کرتے ہوئے احساس تحفظ اور پر امن معاشرہ کے جذبہ سے سرشار اپنی سروس کو جاری رکھے ہوئے ہے یقینا ایسے ادارہ کا قیام کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا پاکستان کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی، میڈیکل اسٹاف کوئی تربیتی نظام اور ادارہ موجود نہ تھا اس ادارہ کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈاکٹر رضوان نصیر نے بیڑہ اٹھایا اور اس چیلنج کو سر آنکھوں پر لیا میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر رضوان نصیر نے اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تاریخ رقم کی جس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ڈاکٹر رضوان نصیر نے ثابت کیا کہ عزم صمیم اور جذبوں کے سامنے مشکلات دم توڑتی ہیں انہوں نے صوبائی دارالحکومت پنجاب کے دل شہر لاہور میں 80 لاکھ پر مشتمل نفوس کیلئے چھ ریسکیو اسٹیشنز،14ایمبولینسز اور 200 ریسکیو کی مدد سے اس سروس کی بنیاد رکھی صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنا کر عوام کو ریسکیو 1122 کی شکل میں تحفہ دے دیا یہ سروس اب تک لاکھوں متاثرین کو ریکارڈ سات منٹ دورانیہ کے ریسپانس ٹائم سے ریلیف فراہم کر چکی ہے یہ تمام مثالی پرفارمنس ریسکیو کے جذبے موثر نظام اور مانیٹرنگ سسٹم کی بدولت ممکن ہوا اب یہ سروس پنجاب کے 36 اضلاع میں بلا تفریق متاثرین کو ریلیف فراہم کررہی ہے اور 2017ء تک یہ سروس پنجاب بھر کی تحصیلیوں کی سطح پر بھی اپنی سروس کا آغاز کر دت گی

    اس ادارہ کی محنت اور خدمت کے جذبہ کے تحت نہ صرف عوام نے اس ادارہ کو اعتماد کی دولت سے مالامال کی بلکہ اس کاکردگی کو ملک بھر میں بے حد پذیرائی سے نوازا گیا ایسے ادارہ کا قیام اس وطن عزیز کے باسیوں پر احسان عظیم سمجھتا ہوں لیکن یہ ادارہ جو کہ ایک تحریک کی شکل میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے ہمارے درمیان موجود ہے عوام شعور کے فقدان کے باعث اس سروس کے اغراض و مقاصد اور اس سروس سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے صحیح معنوں میں اس کو استعمال کرنے سے قاصر نظر آتی ہے عوام کو چاہئے کہ اس ادارہ کا استعمال صحیح موقعوں پر کرے کچھ باتیں میں قارئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ہمیں اس سروس کے صحیح استعمال کا ادراک ہو سکے جب آپ ایمرجنسی سروس 1122 پر کال کریں تو اپنا پورا نام اور ایڈریس کے ساتھ ایمرجنسی کے متعلق پوری معلومات آپریٹر کو فراہم کریں بعض اوقات ادھوری کال کے باعث ریسکیو آپ کو سروس مہیا کرنے سے مشکل سے دو چار ہو جاتا ہے ریسکیو 1122کو زیادہ ایمرجنسی کالز سورج ڈھلنے کے بعد موصول ہوتی ہیں کوشش کریں کہ سورج ڈھلنے کے بعد اپنے بچوں کو گاڑی یا موٹر سائیکل نہ دیں کیونکہ روشنی کم ہونے کی وجہ سے سامنے سے آنیوالی گاڑیوں کی تیز روشنی کے باعث ڈرائیونگ کے متعلقہ احتیاطی تدابیر ممکن نہیں ہو سکتیں سامنے آنیوالی گاڑی یا جانور کے باعث بچے بروقت فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور حادثہ ہو جاتا ہے ایک بات جس کا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آپ کو راستے میں کوئی چھوٹی ایمرجنسی نظر آئے تو آپ کو چاہئے کہ ریسکیو بلانے کی بجائے خود اسے نزدیکی ہاسپٹل لے جائے تا کہ بڑی ایمرجنسی کو ڈیل کیا جاسکے اور ایسی ایمرجنسی بھی سامنے آتی ہیں کہ مریض پہلے سے بیمار ہوتا ہے اور ریسکیو کو کال کر دی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے حکومت اور محکمہ ریسکیو 1122 کو چاہئے کہ عوام کو آگاہی دینے کیلئے مہم اور پروگرامز کا ضلع کی سطح پر انعقاد کرے

    اس ادارہ کے حوالہ سے ریسکیو اور عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں حکومت سے بھی دل بستہ چند گزارشات ہیں کہ ان پر عمل کر کے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھاتے ہوئے اس سروس کو مزید فعالیت سے ہمکنار کرے حکومت کو چاہئے کہ مصروف شاہرائوں پر بنے پٹرول پمپ کے سامنے کٹ یا یو ٹرن نہ دئیے جائیں بلکہ تھوڑے فاصلے پر دئیے جائیں تا کہ گاڑی کی رفتار میں کمی کے باعث حادثات سے بچا جاسکے اور عوام کیلئے گلیوں اور محلوں کی نمبرنگ کی جائے تا کہ ایمرجنسی کالر کو صحیح لوکیشن کا اندازہ ہو سکے بڑے شہروں میں اچھی اور کشادہ سڑکوں کے باعث ریسکیو کی گاڑیاں زیادہ عرصہ تک سروائیو کر سکتی ہیں جبکہ پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں معیاری سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں زیادہ دیر اپنی اصل حالت برقرار نہیں رکھ سکتیں اور ایسی گاڑیوں کی تبدیلی جلد از جلد ممکن بنائی جائے پسماندہ اضلاع میں ٹیکنیکل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو ادارہ میں دوسرے ضلعوں سے بھرتی ہونے والے اپنی ٹرانسفر کروا لیتے ہیں اور ادارہ اپنے مقاصد کے مدارج طے نہیں کر پاتا حکومت کو چاہئے کہ بھرتی ہونے والے ریسکیو کی ٹرانسفر پر کم از کم تین سے پانچ سال تک کیلئے پابندی لگائی جائے تاکہ نفری کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے دو سال قبل حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ 45 کلومیٹر سے کم فاصلہ پر ریسکیو اسٹیشن قائم نہ کیا جائے میں سمجھتا ہو ں کہ ہر 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ریسکیو اسٹیشن قائم کرنے چاہئیں تا کہ ان اضلاع کی تحصیلوں اور قصبات کو ریسکیو کی سروس مہیا ہو سکے اگر کسی ضلع کی شہری آبادی کو ریلوے لائن تقسیم کرتی ہے تو اس ضلع کی شہری آبادی کو دو ریسکیو اسٹیشن دینے چاہئیں تاکہ ریلوے پھاٹک بند ہونے کی صورت میں متاثرین کو بروقت امداد مل سکے

    حکومت کو چاہئے کہ ادارہ کی فعالیت کے پیش نظر ریسکیو عملہ کیلئے ضلع کی سطح پر دفتری سہولیات کے فقدان کے باعث رہائشی کالونیاں بنائی جائیں عوام ادارہ کی ترقی، خوشحالی اور نیک نامی کیلئے دعا گو ہے اس ادارہ کے حوالہ سے عوام اور حکومت سے گزارشات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر ان پر عملدرآمد کرلیا جائے تو پھر شاید اس ادارہ کو استحکام بخشنے میں ہم بھی کردار ادا کر سکیں اگر ہم شعور و آگاہی کے زینے طے کرتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھائیں اپنی گاڑیوں، گھروں اور کام کرنے والی جگہوں پر آگ بجھانے کا آلہ اور فرسٹ ایڈ کا سامان رکھ لیں تو پھر یقین جانئے کہ اس ملک کا ہر فرد احساس ذمہ داری اور جذبہ سے سرشار چلتا پھرتا ریسکیو ہو گا۔

  • کشمیر کا مسئلہ – محمد عتیق الرحمن

    کشمیر کا مسئلہ – محمد عتیق الرحمن

    عتیق الرحمن

    پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے کو لے کر ایک دوسرے پر جنگی ہتھیار آزمانے کی مکمل تیاریاں ہوچکی ہیں۔بھارت کے قبضہ میں کشمیر میں کرفیوکے نفاذ کو 94دن ہوچکے ہیں ۔سری نگر کی جامع مسجد میں مسلسل 13ویں جمعہ کی نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے ۔بھارتی جارحیت اس قدر بڑ ھ چکی ہے کہ پہلے 12سالہ جنید کوشہید کیا گیا پھر ا س کے جنازے پر شیلنگ کی گئی جس سے کئی کشمیری زخمی ہوگئے ،عینی شاہدین کے مطابق شیلنگ اس قدر شدید تھی کہ جنید کے تابوت کوکچھ دیر کے لئے زمین پررکھنا پڑا۔سری نگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کی جانب مارچ کرنے والے کشمیریوں پر بھارتی فورسز نے شیلنگ کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن کا استعمال کیا جس سے 100سے زائد افراد شہید ہوئے ۔دوسری طرف کشمیر میں سینکڑوں طلبا ء نے اعلان کردہ امتحانی شیڈول کے خلاف سرینگر کے مضافاتی علاقے لاوے پور میں احتجاجی مظاہرہ کیا ،شرکانے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’’پہلے مسئلہ کشمیر کا حل،پھر امتحانات ‘‘درج تھا ۔اب تک 110سے زائد کشمیری شہیدجبکہ 15ہزار سے زائد زخمی اور 700کے قریب کشمیر ی اپنی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں ۔کشمیری طلباء نے بھی آزادی تحریک میںشامل ہوکر اعلان کردیا ہے کہ پہلے آزادی ہوگی پھر امتحان ہونگے ۔

    کشمیر کے مسئلے سے نظریں ہٹانے کے لئے اڑی حملہ ہوا جس کے بعد سرجیکل سٹرائیک ڈرامے کا اعلان ہوا جس کے متعلق بھارت کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔جسے پہلے تو میڈیا نے خوب اچھا لاجس کی وجہ سے بھارت میں ’’کامیاب سرجیکل سٹرائیک ‘‘پر خوشیاں منائی گئی لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا جوش ٹھنڈے ہوئے ،لوگوں نے سوچا تو یہ ایک ڈرامہ ہی لگا ۔بھارت نے جس علاقے میں سرجیکل سٹرائیک کا دعوی کیا وہاں کے رہائشی کہتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول کے اس طرف پہاڑی علاقہ اس طرح کا ہے کہ ہیلی کاپٹر وغیرہ کا آنا ممکن نہیں اور اگر کوئی سرحد پارکرنا چاہے تو کرنہیں سکتا اوراگر کرلے تو واپس جاناممکن نہیں ۔پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ ملکی وغیر ملکی صحافیوں کو لیکر لائن آف کنٹرول پہنچے اور دورہ کروانے کے ساتھ ساتھ مبینہ سرجیکل سٹرائیک کی جگہ کا علاقہ دکھایا،لوگوں سے صحافیوں کی ملاقاتیں کروائیں تاکہ صحافیوں تک اصلیت پہنچ سکے ۔جب کہ سرجیکل سٹرائیک کا دعوی کرنے کے باوجود بھارت اب تک ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔بھارتی سیاست دان سرجیکل سٹرائیک کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رہنما سیتارام یچوری نے کل جماعتی کانفرنس میں ثبوت دکھائے جانے کے دعویٰ کا انکار کیا کہ ہمیں ایسے کوئی بھی ثبوت نہیں دکھائے گئے ۔نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اور عام پارٹی کے سربراہ اروندکیجری وال نے کہا کہ سرجیکل سٹرائیک پر دنیا کا میڈیا پاکستان کا ہم آواز بنا ہوا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم کو چاہئے کہ صحافیوں کو ایل اوسی پر لے جائیں اور سرجیکل سٹرائیک کے حوالے سے ثبوت فراہم کریں۔

    اُڑی حملہ ٹھیک اس وقت ہوا جب پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنا تھا ،یہ ایک طرح سے پاکستان پر دبائوڈالنا تھا اور دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا ۔پاکستان کوتنہا کرنے کی خواہش میں بھارت اپنے ہی لوگو ں کو بے وقوف بنا رہاہے ۔سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ تورچا لیا لیکن اس کے بعد ہونے والی بحث سے چھٹکارہ پانا بھارتی وزیر اعظم کے لئے مشکل ہورہاہے ۔کامیابی کی طرف گامزن سی پیک منصوبہ سے بھارت وپاکستان دشمن عناصر کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد طاقتوں کا توازن تبدیل ہوجائے گا ۔بھارتی بوکھلاہٹ کی وجہ امریکہ ،روس ،چین اوراو آئی سی کی طرف سے ملنے والے پیغام بھی ہیں ۔جن میں زور دیا گیا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کو پیچھے ہٹنے کاکہا گیا ہے اور جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم نے کسی ملک کا نام لئے بغیر انہیں یاددلایا ہے کہ بھارت نے کس کس موقع پر ان کی مددکی تھی ۔جنگ مسائل کا حل نہیں ہوتی لیکن جب دشمن جنگ مسلط کردے تو پیچھے ہٹنا مسلمان کی بہادری کے خلاف ہوتا ہے ۔پاکستان بھارتی جارحیت کے باوجود صبر وتحمل سے کام لے رہا ہے ۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے ، پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی اسے حل کرنا چاہتا ہے ۔
    اس وقت عالم اسلام کو پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوکر کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس کے بعد دوسرے مسائل پر ہم سب ایک زبان ہوکر دنیا کو اپنی بات منواسکیں ۔ فلسطین کا مسئلہ جہاں یہودیوں کی من مانی وعالمی سازشوں کی مرہون منت ہے وہیں عالم اسلام کے انتشار کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے ۔اب وقت ہے اتحاد کا ،بھائی چارے کا ،کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا تاکہ دنیا کو پیغام مل سکے کہ کشمیر کی پشت پر پورا عالم اسلام کھڑ اہے ۔

  • کشمیر کی اہمیت  اور ہم  : عبداللہ عالم زیب

    کشمیر کی اہمیت اور ہم : عبداللہ عالم زیب

    عبداللہ عالم زیب
    کچھ دن قبل تحریک جوانان ِپاکستان کے چیئرمین اور جناب جنرل حمید گل مرحوم کے فرزند ارجمند جناب عبد اللہ حمید گل صاحب سے مسئلہ کشمیر کی بابت گفت وشنید ہورہی تھی باتوں باتوں میں ،
    میں نے عبداللہ گل صاحب سے عرض کیا کہ روس جیسی سپر پاور کو ہم نے افغانستان سے مار بھگایا لیکن ستر سال ہونے کو ہیں ہم سے کشمیر کامسئلہ حل نہیں ہو پا رہا آخر وجہ کیا ہے ۔۔۔۔؟؟
    فرمانے لگے ؛ کہ سن 1962ءمیں جب جنرل ایوب خان نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت ان سے چینی حکام نے کہا کہ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کشمیر آپ کے لیئے کتنا اہم ہے ۔۔ ؟
    اس کی آزادی میں ہم اپ کا بھر پور ساتھ دیں گے تو صدر صاحب کہنے لگے کہ میں سوچ کر بتادوں گا کہ کشمیر ہمارے لیئے کتنا اہمیت رکھتا ہے ۔۔ پاکستان آمد کے بعد ان کی طرف سے کوئی جواب نہ مل سکا ۔
    اسی طرح محترمہ بینظیر صاحبہ جب وزیر اعظم تھی تو انہوں نے کشمیر کے ایشو پر ایک اجلاس کا اہتمام کیا اجلاس میں جنرل حمید گل صاحب مرحوم سے ان کی رائے پوچھی گئی تو جنرل صاحب نے بی بی مرحومہ سے وہی سوال دہرایا کہ : بی بی یہ بتایا جائے کہ کشمیر آپ کے لیئے کتنا اہم ہے ۔۔۔؟؟تو بی بی نے کہا کہ جنرل صاحب کشمیر ہمارے لیئے اہم ہے لیکن اسلام آباد ہمارے لیئے کشمیر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
    ساتھ بیٹھے نوجوان تجزیہ نگار جناب شعیب مغل صاحب سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پالیسی کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے ایک بڑی ہی پیاری مثال سے بات سمجھائی ۔
    کہنے لگے کہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی پالیسی بندر بانٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، جس طرح بندر ایک روٹی پر دوبلیوں کے بیچ فیصلہ کرتے کرتے ساری روٹی خود کھا گیا ، بعینہ اسی طرح اقوام متحدہ بھی مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تنازعہ میں بندر بانٹ سے کام لے رہی ہے ،
    قارئین کرام : بدقسمتی سے زمین کے بعض خطے یا خطوں میں آباد بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دوسرے ممالک کا سیاسی دارومدار ہوتا ہے ، ان خطوں یا ان لوگوں کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر یا ان کو حق آزدی دلانے کا نعرہ لگا کر وہ معاشرے کی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ، اور جب معاشرے کی ہمدردی حاصل ہوجائے تو ان کی سیاست کو چار چاند لگ جاتے ہیں ، بات کو مزید واضح کرنے کی خاطر عرض کرتا چلوں کہ مسئلہ کشمیر پر شاید ہم نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا گوارا نہیں کیا ، اس لیے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اباء واجداد بھی یہی سنتے سنتے دنیا سے چلے گئے کہ : مسئلہ کشمیر ، مسئلہ کشمیر ۔ ۔ ۔ ۔
    اب ہم بھی یہ بات سن سن کر مانوس ہوگئے ہیں اسی لیئے تو کبھی بھی اس کے بارے میں جاننے ، اس مسئلے کو سمجھنے یا اسے حل کرنے کے بارے میں ہم نےسوچنے ، یا اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
    لیکن اگر ہم انصاف کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کا جائزہ لیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کا حل ہمیں ناممکن دیکھائی دے رہا ہے ۔
    کشمیری عوام کی آزادی کے لیئے جد وجہد بلا شبہ قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے ، لیکن ہمار ا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے نا ۔۔۔۔؟
    میرے خیال میں ہم اس لیے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں کہ شاید کشمیر کا مسئلہ حل کر کے ہمیں دنیا کی ہمدردی ( جو ہم کشمیر کے نام پر حاصل کر رہے ہیں ) سے محرومی کا خوف ہے ۔
    یا شاید اس مسئلے کے حل سے پاکستان وہندوستان کی سیاست پر برا اثر پڑنے کا خدشہ ہے ۔۔۔۔
    یا شاید ہمیں کشمیر کی اہمیت کا اب تک صحیح اندازہ نہیں ، صرف نعرو ں کی حد تک ہے کہ : کشمیر بنے گا پاکستان، پاکستان سے رشتہ کیا ؟؟ لا الہ لا اللہ محمد رسول اللہ
    یا صرف اتنا ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ ،، ۔ کشمیر پاکستان کا بازو ہے
    تعجب تو یہ ہے کہ ہماری شہ رگ کسی اور کے پاس ہے اور ہم زندہ بھی ہیں ، ہمارا بازو کٹا ہوا ہم سے الگ ہے اور ہم خود کو مکمل تصور بھی کرتے ہیں ، ، ،
    اسی لیے تو آ ج تک ہمارے حکمرانوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کشمیر ہمارے لیئے کتنی اہمیت رکھتا ہے ،
    مجھے تو یہی سمجھ آرہاہے کہ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں کشمیر میں آئے روز شہادتوں پر کوئی سروکار نہیں ، اس لیئے تو آج تک ہم نے اس مسئلے کو مسئلہ ہی رہنے دیا ۔
    یہ اور بات ہے کہ کشمیر جل رہا ہے ، ماؤں ، بہنوں کی عصمت لوٹی جارہی ہے ، نوجوان شہید ہورہے ہیں ، بہت سارے معذور ہورہے ہیں ، انڈین آرمی ظلم کی ہر حد سے تجاوز کر رہی ہے ۔۔۔۔
    یہ اور بات ہے کہ بارود برستے ہوئے بھی وہ پاکستان کا جھنڈا ہاتھ سے گرنے نہیں دیتے ۔ ۔ ۔ ۔
    یہ اور بات ہے کہ جب بھی ان کا احتجاج ہوتا ہے یا وہ کوئی ریلی نکالتے ہیں تو وہ صرف ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان ۔۔۔۔۔۔
    یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کو پاک پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کرتے ہیں ، ، ، ، ،
    یہ اور بات ہے کہ وہ ہم سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اور ہم ہیں کہ ہمیں آج تک کشمیر کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہورہا ہے ۔
    شاید ہمارے گھر محفوظ ہیں اس لیئے ہمیں کشمیریوں کے گھر جلنے کا کچھ احساس نہیں ،
    سب کے گھر جلنے کا کچھ تو مجھے غم ہو محسوس ۔ ۔ ۔۔ میرے گھر کو بھی ذرا آگ لگا دی جائے

  • بارے کچھ پاکستان کے بیاں ہو جائے: محمد عازب

    بارے کچھ پاکستان کے بیاں ہو جائے: محمد عازب

    پاکستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ ایک پنجابی اور دوسرے غیر پنجابی۔ یہاں بادشاہی نظام قائم ہے ،جس میں عوام میڈیائی پروپگینڈہ اور ذہنی غلامی کے ذریعے، دھاندلی شدہ بادشاہ چنتی ہے۔ جس کے اوپر فوج کا سپاہ سالار حکومت کرتا ہے۔ بادشاہ اور سپاہ سالار دونوں اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ بادشاہ عوام کی گالیاں کھاتے ہیں۔ اور سپاہ سالار ٹیکس۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عوام اس دوران بس جوتے کھانا پسند کرتی ہے۔
    پاکستانی عوام بحیثیتِ مجموعی کافر ہے۔ اس کو بہتر سمجھنے کے لئے مختلف فرقوں سے ایک دوسرے کے بارے میں آرائ لی جا سکتی ہیں۔ آللہ تعالی نے دنیا کے تمام لوگوں کی مغفرت یا عذاب کا ٖفیصلہ بروزِ قیامت کرنا ہے۔ مگر پاکستان کی معاملے میں نرمی برتی اور اس کا فیصلہ علما کے ہاتھ میں دے دیا ۔ اب وہ اپنی مرضی، موڈ اور افرادی قوت کے زور پر، کسی کو بھی کافر یا مسلمان کر سکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ ،میں ربی اول کی محفل میں جانے پر کافی عرصہ کافر کافر پھرا۔ پھر گڑگڑا، گڑگڑا کر “رفعِ الیدین” کیا تو معافی ملی۔ اس ہی طرح میرا ایک دوست، نماز کے بعد سلام نا پڑھنے کی وجہ سے کافی عرصہ مسندِ غیر مسلم پہ فائز رہا۔ اور دینا کا بدترین کافر قرار پایا۔ پھر شعیوں کے شدید احتجاج پر ان کا لقب واپس لوٹایا گیا۔
    ہم پاکستانی کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں۔ اتنے زیادہ کے کتے، بلیاں، چوہے، گدھے بھی کھا جاتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ہم کو بتایا نا جائے۔ پاکستانی عوام کی مرغوب غذا کرپشن اور دھوکا دھڑی کا پیسا ہے۔ بعض لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، کیوں کہ ان کو رشوت کے پکوان کا چسکا لگ جاتا ہے۔ پاکستانی حکمران ، جو حرام کا مال عوام جمع کرتی ہے، اس کو ان سے لے کر، اپنے حرام مال کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح یہ فوڈ سائیکل چلتا رہتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نا ہوگا کہ، فوڈ چین میں یہاں سب سے اوپر پاکستانی افواج برجمان ہیں۔ جو سب کچھ کھا سکتے ہیں، اور ان کو کوئی نہیں کھا سکتا۔ آپ ان کو “اینیمل فوڈ سائیکل” کا ببر شیر سمجھ لیں۔
    لباس کے معاملے میں ہم کوئی خاص ضد نہیں کرتے۔ ہاں شلوار قیمض پہنے والوں کو جاہل اور ملا ضرور سمجھتے ہیں۔ شلوار قمیض کے ساتھ اگر اونچی شلوار، بڑے کھلے بال اور کھلا گریبان ہو تو، آپ کا مزاج اور حال چال ڈرون سے پوچھا جائے گا۔ ہاں اگر آپ خاتوں ہیں، تو یہی حلیہ آپ کو کسی بھی نوکری کے لئےانتہائی قابل ثابت کر سکتا ہے۔ خیر، یہ تو شہروں کا معاملہ ہے۔ گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں میں کم عمر بچوں کو کپٹرے پہنانا، خاص کر کہ شلوار، معیوب اور اصراف سمجھا جاتا ہے۔ بڑے ہونے پریہی بچے اپنی حسرت پورے تھان کی شلوار بنا کرمٹاتے ہیں۔ مگر اکثر بزرگ اپنی کمزور یادوں میں نوجوانوں کے بچپن کے قصے ضرور دبا کر رکھتے ہیں۔ اور ہر اس جگہ اور فرد کے سامنے اس کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں، جہاں ان کی عزت کی جاتی ہو۔ بات ہو اگر خواتین کی تو، دو قسم کی خواتین پائی جاتی ہیں۔ ایک، جو خوبصورت ہیں۔ دوسری، وہ جو پردہ کرتی ہیں۔
    پاکستان کی معیشت کوئی خاص مضبوط نہیں۔لیکن چونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، اور ناقص منصوبہ بندی کے سبب ہماری برآمدات کم ہیں۔ لہذا، ہم پوری دنیا میں دہشت گرد سپلائی کرتے ہیں۔ ویسے بھی دہشت گردوں کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں۔ دینا بھر میں آبادی کم کرنے کے لئے ضبط حمل کی ادویات کے استعمال پر ضرور دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں لوگ ادویات کے استعمال کو پسند نہیں کرتے۔ اس لئے ہماری آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ ایک حکومتی عہدیدار خاتون نے ٹی وی پہ بیٹھ کر، دو دن کی چھٹی بتائی تھی۔
    ہمارا سب سے بڑا دشمن انڈیا ہے۔ اور اس کے ساتھ امن کی بات کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ وحی کب اتری؟ تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے۔ امید یہی ہے کہ، تاریخ دان کو بھی خاموش کر دیا گیا ہوگا۔ ویسے یہ انڈیا بھی اتنا سیدھا نہیں۔ کبھی ہمارا پانی بند کر دیتا ہے، تو کبھی دنیا بھر میں ناقطہ۔ پھر ہم مشترکہ ابو امریکہ سے اس کی شکایت کر دیتے ہیں۔ ابو امریکا، ان ماں باپوں میں سے پرگز نہیں ہے، جو بچوں میں برابری کرتے ہیں۔ بلکے اپنی سفید چمڑی کے باوجود اس کو کالا کلوٹا مودی پسند ہے۔ ہمارا، سرخ سفید، انار دانہ، قسم کا نواز شریف ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ابو امریکہ کی دو بیویاں ہیں۔ ایک سعودیہ عرب اور ایران۔ اور یہ دونوں آپس میں سلوک بھی سوکنوں والا کرتے ہیں۔ سوکنوں کی اس لڑائی میں اکثر پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑ جا تا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایک سوتیلا بھائی افغانستان بھی ہے۔ اس کی مثال اس بچے کی سی ہے، جسے گود لے کر پالو۔ مگر بڑا ہونے پر آپ کو ہی آنکھ دکھاتا ہے۔
    لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے بنانے والے محمد علی جناح تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ محمد علی جناح نے اچھے ٹھیکداروں سے پاکستان نہیں بنوایا۔ سمنٹ، سریا کی کمی نے، 71ئ میں ہی آدھی عمارت گرا دی۔ باقی بچی کچی عمارت کا پلسٹر بھی جگا جگا سے اکھڑ رہا ہے۔ کہیں سیپیج اور لیکیج کا مسئلہ ہے۔ ایک دو جگہ جہاں سے خطرہ تھا کہ بلڈنگ گر سکتی ہے۔ وہاں بجائے لیپا پوتی اور سہاروں کہ، ایٹم بم کو ٹیڑھا کر کے کھڑا کر دیا ہے۔ اب پوری عمارت بس اس کے زور پہ کھڑی ہے۔ ویسے اتنا بتاتا چلوں۔ جس دن یہ ایٹم بم چل گیا نا۔۔۔۔
    ہماری عمارت تو گری گری، آگے پیچھے، سب بھی جائیں گے۔