Category: نئے لکھاری

  • نفاذ اسلام ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے – بلال احمد

    نفاذ اسلام ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے – بلال احمد

    بلال احمد آج کل ہر ایک ناصح برائے دیگراں بنا ہوا ہے، لوگ خود تو نیک عمل کرتے نہیں، البتہ دوسروں کو نصیحت کرنے میں تیزی دکھاتے رہتے ہیں. زبانی تبلیغ کار بےخیر ہے کیونکہ صرف قول مؤثرنہیں ہوتا، کردار اصل اور مؤثر قوت ہے، لہذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اسلامی معاشرت، اسلامی عقائد اور اسلامی افکار کا علم حاصل کرے اور پھر اس کا عملی نمونہ بن جائے۔

    اسلام کی بنیاد علم پر ہے، اس لیے پہلی اور فوری ضرور علم حاصل کرنا ہے اور یہ ایک مسلمان کے لیے فریضہ ہے.
    علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ بنیادی دینی علوم جو انسان کی روزمرہ کی زندگی کے لیے ضروری ہیں، ان کو اتنا عام اور سہل الحصول بنا دیاجائے کہ کوئی بھی مسلمان دین سے نا آشنا نہ رہے. ضروری نہیں کہ ہر مسلمان کو بھر پور معلومات ہونی چاہیے، صرف اتنا علم جس سے اس کی زندگی اسلام کے مطابق ڈھل جائے، اگر کوئی کسی دینی معاملےمیں مشکل کا شکار ہے تو اس کو چاہیے کہ علمائے دین سے رابطہ کرے۔

    اس کے ساتھ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں دین کے علم کی لگن پیدا کی جائے تاکہ وہ دینی علوم کو سیکھیں. دور حاضر میں والدین بچوں کو دنیاوی علوم کی بلندیوں پر تو پہنچا رہے ہیں، اگرچہ کسی حد تک یہ بھی ضروری ہیں، لیکن وہ دینی علوم جو انسان کو حقیقی معنوں میں انسان بناتے ہیں، عموما والدین خود بھی ان سے ناآشنا ہوتے ہیں اور اولاد بھی ناآشنا رہتی ہے.

    ہم حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان دن بدن پستی کی طرف جار ہا ہے اور سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ زندگی گزارنے کا جو نظام اس کو اسلام نے دیا ہے، وہ اس کو جانتا ہی نہیں۔ اگر والدین ہیں تو کما حقہ اولاد کے حقوق نہیں جانتے، اوراگر اولاد ہے تو اسے والدین کے حقوق معلوم نہیں۔ الغرض معاشرے کے افراد اسلامی نظام زندگی سے بےخبر اور مقصد سے عاری ہیں۔ خدارا اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پیش کریں اور دل کے اندر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے لگن پیدا کریں۔ جب دل میں یہ لگن پیدا ہو جائے گی تو یقینا آپ علمائے دین سے رجوع کریں گے، جب ایک مسلمان دینی تقاضوں سے آگاہ ہو جائے گا تو اس کا اطلاق وہ اپنی عملی زندگی پر کرنے کے قابل ہوگا، اس طرح سے ماحول اور معاشرے میں خود بخود اصلاح کے رجحانات پیدا ہو جائیں گے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے جب تک ماحول ٹھیک نہیں کیا جائےگا اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں، اور ماحول اسی صورت میں سنور سکتا ہے جب پوری قوت اور فرض شناسی سے کام لیا جائے اور اس کی ابتداء سب سے پہلے اپنے گھر سے اور خود سے کی جائے. ہر مسلمان کے لیے یہ لازم ہے کہ اپنے گھر کے امور اور معاملات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالے۔ حلال رزق کو اپنی زندگی کے لیے لازم جانےاور حرام کی کمائی سے دور بھاگے۔

    جب امت کا ہر فرد اس پر عمل کرے گا تو اس طرح سے اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ اپنے آپ ہی ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ جب مسلمان اچھی طرح دینی رنگ میں ڈھل جائیں گے تو پھر حکومت کا کام معمولی رہ جائے گا۔ اس لیے اسلامی نظام کا نفاذ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ امت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

  • طلبہ کی بدتہذیبی – اسامہ امین

    طلبہ کی بدتہذیبی – اسامہ امین

    اسامہ امینبہت افسوس سے یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے ہاں پڑھے لکھے جاہلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ ان پڑھ جاہلوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، اور بد تہذیبی سے باز نہیں آتے ہیں. یوں تو گھروں سے حصولِ علم کے لیے نکلتے ہیں مگر نکلتے ہی عوامی املاک کا نقصان کرنا شروع کر دیتے ہیں، مثال کے طور پر اگر ڈرائیور نے بس نہ روکی تو اس کے شیشے توڑ دیے تو کبھی ڈرائیور پیٹ ڈالا. یہ کہاں کا انصاف ہے. زیادہ مسئلہ ہے تو اپنا بندوبست کر کے گھروں سے نکلیں، بسیں اور ڈرائیور حضرات آپ کی جاگیر تو نہیں ہے. آج اجتماع پر جانے کے لیے نکلے تو راستے میں دو دفعہ یہ واقعہ پیش آیا. پڑھنے جانے والے ”جاہلوں“ نے بس غنڈہ گردی سے روکنے کی کوشش کی حالانکہ بس پر تبلیغی اجتماع کا بینر بھی آویزاں تھا. عقل کے کوروں نے بس پر پتھر بھی جڑ دیا.

    روز اخبارات میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ آج طالب علموں نے بس پر بیٹھنے نہ دینے کی وجہ سے بس میں توڑ پھوڑ کی. جہاں ڈرائیور کا داؤ لگتا ہے، وہاں وہ کام دکھا دیتے ہیں. یوں جھگڑے بڑھتے جاتے ہیں.
    بعض اوقات تو طلبہ سڑک کے درمیان میں آ جاتے ہیں اور حادثات کا سبب بن جاتے ہیں اور سارے کا سارا قصور غریب ڈرائیور کا بن جاتا ہے کہ وہ تیز چلا رہا تھا. بندہ پوچھے سڑک کے درمیان آخر آتے کیوں ہیں.
    اس سوچ کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسے طلبہ ملک کی ترقی کا کیسے حصہ بنیں گے؟ اچھے طریقے سے علم حاصل کریں اور اس ملک کی شان بڑھائیں. اپنی حالت نہیں بدلیں گے تو ملک کی کیسے بدلے گی.

    حکومت سے التماس ہے کہ میٹرو اور موٹرویز سے کچھ توجہ ہٹا کر ان پر بھی نظر کرم کر دیجیے. ان کے لیے الگ روٹ اور بسوں کا سسٹم چلا دیجیے، آپ کو ادھر سے بھی ٹھیکوں اور بسوں کی خریداری میں سے کچھ بچ ہی جائے گا. فارن کنٹریز میں طالب علموں کو طرح طرح کی سہولیات میسر ہیں اور وطن عزیز میں ٹرانسپورٹ کا ہی کوئی پراپر نظام موجود نہیں ہے. حکومت کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے.

  • گھریلو کاموں میں دلچسپی کا راز – ام سائح

    گھریلو کاموں میں دلچسپی کا راز – ام سائح

    سارہ صبح سے لگی ہوئی ہو، اپنے کمرے کی صفائی تک تم سے نہیں ہوتی، آپی تمہاری دو دن کے لیے آئی ہے، بجائے آرام دینے کے ان سے ہی پورا گھر صاف کرواؤگی. امی نے اچھا خاصا جھاڑ دیا.
    امی کر تو رہی ہوں، اپنے کمرے کی صفائی میں لگے ہوئے دیکھ ہی نہیں پائی کہ آپی لاؤنج اور کچن کی صفائی کے بعد کھانا پکانے میں مصروف ہیں، اور میرا حال یہ تھا کہ ایک اپنے کمرے کی صفائی میں آدھا دن گزار دیا، امی کے ڈانٹنے پر احساس ہوا کہ جاکر ان کا ہاتھ ہی بٹا لوں، کچن جاکر دیکھا تو دل باغ باغ ہو گیا، آپی نے تو کھانا پکانے کے ساتھ کچن بھی چمکا دیا تھا، آپی! یہ آپ کیا پڑھتی رہتی ہیں اور کون سی جادو کی چھڑی ہے جو گھماتی ہیں تو جھٹ سے سارے کام ہو جاتے ہیں.

    سارہ! پہلے میں بھی تمہاری طرح سارا دن کام میں گزار دیتی تھی، پر کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، چلو فریش ہو لیں بعد میں سکون سے بیٹھ کر بتاتی ہوں. تھوڑی دیر بعد دونوں بہنیں ساتھ بیٹھیں تو آپی نے کہا، اب سنو میں کیسے سارے کام خوش دلی سے بغیر تھکاوٹ کے کرلیتی ہوں، ایک دن میں قرآن پاک کی سورہ الاسراء تلاوت کے دوران اس آیت پر پہنچی
    وان من شيء إلا يسبح بحمده ولكن لا تفقھون تسبيحھم؛
    ترجمہ اور نہیں ہے کوئی چیز مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کر رہی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے.
    اس آیت نے مجھ پر سوچ کے نئے در وا کردیے میں پورا دن اس آیت کے پر غور کرتی رہی کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، پھر جب صفائی کرنے لگی تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ یہ میز صوفے دیواریں ہر چیز تسبیح کر رہی ہے، اور مجھے لگا ان کو یہ دھول مٹی ناگوار گزر رہی ہوگی، اللہ تبارک و تعالٰی کی تقدیس بیان کرتے ہوئے، اور میرا ہاتھ غیر ارادی ہر چیز کو صاف کرتا گیا یہاں تک کہ کھانا بناتے ہوئے مصالحہ جات کے ڈبوں اور کچن کبینٹ بھی ساتھ ساتھ صاف ہوگئے، اس دن بہت سارا کام کیا اور تھکن بھی محسوس نہیں ہوئی اور جہاں تک تمھارا یہ سوال کہ کام کے وقت کیا پڑھتی رہتی ہیں، تمہیں یاد ہے نا جب خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر کے کاموں کے لیے خادمہ کی درخواست کرنے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں تشریف لائیں تو انھوں نے خادمہ کے بجائے ان کو یہ تسبیحات سبحان اللہ 33بار، الحمدللہ33بار، اور اللہ اکبر 34بار پڑھنے کو کہا، اس کے بعد کبھی ان کو پریشانی نہ ہوئی کیونکہ ان کو ایک نسخہ کارگر مل گیا تھا، بالکل اسی طرح میں بھی کام کرتی ہوں تو ساتھ ساتھ یہی کلمات پڑھتی ہوں، کام وقت پر ہوجاتے ہیں، اور مجھے اپنے چڑچڑے پن سے بھی نجات مل گئی.
    شکریہ آپی! آپ نے تو میرا مسئلہ ہی حل کردیا. میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا اور اٹھتے ہوئے رخ جھاڑن اٹھانے کی طرف اور نظر کمرے کے کونے کے جالے کی طرف تھا.

  • میں اس مسلک سے ہوں. محمد کاشف

    میں اس مسلک سے ہوں. محمد کاشف

    آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب و آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا جھگڑا اور تفرقہ بازی ہے .
    ورنہ عددی کثرت اور مال واسباب سے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی کثرت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے , دور جدید کے فتنہ پرور لبرل اور سیکولر ذہن کے حامل افراد عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے معاملے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں , جس سے مسلمانوں میں نفرت , فرقہ واریت اور جھگڑے پروان چڑھ رہے ہیں .
    جبکہ اسلام ایک بھائی چارے محبت اور اخوت کا دین ہے جو پورے عالم کیلئے محبت کا پیغام لے کے آیا ,
    ارشاد باری تعالیٰ ہے .
    ” بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ” الحجرات : ۱۰ .
    اس آیت میں نفرتوں کے تمام بت توڑ دیے گئے . جس کے بعد اسلام نے صرف مساوات کی بنیاد پر بہترین معاشرہ تشکیل دیا .
    لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمان گروہوں , فرقوں اور مسلکوں میں بٹتے گئے .
    ” اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگر اس کے بعد کے ان کے پاس علم آ گیا آپس کی ضد کی وجہ سے ” الشوری:ٰ ۱۶
    آج ہم اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں کہ کسطرح لوگ ایک دوسرے کی ضد کی بنا پر مسلکوں میں بٹ رہے ہیں اور علم کا غلط استمال کر رہے ہیں یعنی ایک دوسرے کی تذلیل عروج پہ ہے اور اسے اصلاح کا نام دیا جاتا ہے.
    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
    ” لا تغلو فی دینکم ” .
    ترجمہ : اور دین میں غلو نہ کرو : النساء : ۱۷۷.
    اصل میں موجودہ دور میں غلو فرقہ بازی کا سبب ہے , اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہیں .
    فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنے حاملین کو مخطی یعنی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گناہ گار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا جیسے اہل باطل سے رکھا جاتا ہے آج کے دور میں غلو کی واضع مثالیں ہیں , بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اسطرح دیتے ہیں جیسے غیر مسلم کو دی جاتی ہے .
    اسی طرح ایک دوسرے پر فتوے لگانا بھی نامناسب فعل ہے جو کہ آج کل ایک ٹرینڈ بن گیا ہے , جو کہ جھگڑوں اور فسادات کی اصل وجہ ہے جبکہ نبی اکرم ص. نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے .
    ” میں اس شخص کو پہلے جنت کی بشارت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے ”
    سنن ابی داؤد , فی “حسن” الاخلاق عن ابی امامته
    اب اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا کسی کو کافر کہنا ٹھیک ہوگا ؟
    جو اپنے مسلک کے نارے لگاتا پھرے وہ ٹھیک ہوگا ؟
    مجھے فخر ہے میں اہلسنت ہوں , مجھے فخر ہے میں بریلوی ہو مجھے فخر ہے میں اہلحدیث ہوں , مجھے فخر ہے میرا تعلق فلاں مسلک سے ہے یہ کہاں کا دین ہے؟
    مزہ تو تب ہے جب بندہ کہے مجھے فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔
    مگر ہر کوئی اپنے مولوی کی بات پہ ڈٹ گیا , جیسا کہ اقبال نے کہا.
    گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا,
    کہاں سے آئے صدا لاالاالہ اللہ.
    کسی مولوی یا امیر کے کہنے پہ آپس میں نفرتیں پال لینا یہ کہاں کا دین ہے .
    جس دن ہم خود قرآن وحدیث سے رجوع کریں گے اس دن نہ تو ہمارا کوئی مسلک ہوگا نہ فرقہ اور ہر جگہ محبت و اخوت ہوگی.
    ” تم آپس میں چمٹ جاؤ اللہ کی رسی سے اور فرقے میں نہ پڑو ” ال عمران :۱۰۳.
    تو ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں آپس میں پیار سے رہیں دین اسلام کو اس کے تقاضوں کے مطابق پہنچائیں اس کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں اور پھر یہی کوشش ایک متحد امت بنائے گی . ان شاء اللہ

  • چائے کی تاریخ. عامر احمد عثمانی

    چائے کی تاریخ. عامر احمد عثمانی

    چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی
    *مختلف ممالک میں چائے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سبز چائے مقبول ترین قسم شمار کی جاتی ہے۔
    *دنیا میں سبز چائے کی اتنی اقسام وانواع پائی جاتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔
    *یہ چائے کولیسٹرول کم کرنے، امراض قلب وجگر سے حفاظت اور ہاضمے کی درستگی کا اہم ذریعہ ہے۔
    چائے ہماری روز مرہ زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے۔ دن کا کھانا ہو یا رات کا دسترخوان، مہمان کی خاطر مدارت کرنی ہو یا یارانِ محفل کی دلجوئی ولجمعی کا لحاظ رکھنا ہو، کوئی خوشی کی تقریب ہو یا غم کا موقع چائے پیش کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ ناشتہ تو چائے کے بغیر ایسا ہی لگتا ہے جیسے گاڑی ہو اور اس میں پیٹرول نہ ہو۔ یہ توچولی دامن کے ساتھی ہیں۔ امیر ہو یا غریب سب آپ کو اس روایت کی پیروی کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں اس مشروبِ گرم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرمی ہو یا سردی چائے نوشی کا تسلسل بدستور جاری رہتا ہے اور اس کے پینے میں کوئی ناغہ ہرگز برداشت نہیں کیاجاتا۔ ایک سروے کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ چائے کا زیادہ شوقین ہوتا ہے۔ کیوں کہ چائے میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو وقتی طور چستی، پھرتی اور نشاط پیدا کرتے ہیں۔ لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے ہمارے ذہن اس کے اتنے عادی بن چکے ہیں کہ اگر وقت پر چائے نہ ملے تو جسم تھکن محسوس کرنے لگتا ہے اور اعصاب ٹھوٹے پھوٹنے لگتے ہیں۔ برصغیر میں چائے کا چسکہ انگریز کی مرہونِ منت ہے۔ اس نے سب سے پہلے ہندوستانی لوگوں کو مفت چائے پلاکرانہیں اس کا عادی بنایا۔ پھر اس کی تھوڑی سی قیمت مقرر کرکے تجارت شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قیمت بڑھتی چلی گئی اور برصغیر کے لوگو ں کی عادت بنتی چلی گئی۔
    چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔ اور اس دریافت کا سہرا ایک چینی بادشاہ کے سر جاتا ہے جس نے علاج کی غرض سے جڑی بوٹیوں کے ساتھ چائے کے پودے کی بھی دریافت کی۔ چائے کا پودا ایک ایسی جھاڑی پر مشتمل ہوتا ہے جو سدا بہار ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں اس جھاڑی کے پتے کو ایک ٹکیہ کی شکل دی جاتی اور اس ٹکیہ کو پیس کرادرک اور مالٹے کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس چورے کو نمک کے ساتھ استعمال کیا جانے لگااور پھر چین سے ہوتا ہوا یہ مشروب ترکی اور ہندوستان تک پہنچا۔ چائے میں سب سے پہلے دودھ کا استعمال چنگیز خان نے کیاجس نے چائے کو پہلی مرتبہ بطورِ پتی استعمال کیا۔
    چائے کی ایک اور قسم جسے ’’سبز چائے‘‘ کہا جاتا ہے، بعض قوموں اور قبیلوں کے نزدیک اس سبز چائے کا شمار اہم ترین مشروبات میں ہوتاہے۔ لیکن ہر قوم و قبیلہ کے قہوہ پیش کرنے کا انداز دوسرے سے مختلف اور جدا ہے۔ بعض تاریخی روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قہوہ چائے کی ابتداء حبشہ (موجودہ ایتھوپیا واقع براعظم افریقہ) کے’’ کافا‘‘ نامی علاقے سے ہوئی۔ اس کے بعد میلاد کے نویں سال قہوہ چائے رفتہ رفتہ حبشہ سے یمن کی طرف منتقل ہونے لگی۔ یمن منتقل ہونے کے بعد قہوہ چائے دھیرے دھیرے دنیا کے مشرقی ممالک میں مقبول ہوتی چلی گئی اور مشرقی ممالک میں قہوہ خانے قائم ہونا شروع ہوئے۔ یمنی شہر ’’بندقیہ‘‘ کے تاجروں نے قہوہ چائے کا کاروباروسیع کرتے ہوئے اسے جنوبی یورپ کے علاقوں میں میں بھیجنا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سال 1615ء میں قہوہ یمن سے یورپ کی طرف منتقل ہوا ۔ چلتے چلاتے یورپ کے شمال وجنوب میں قہوہ چائے کا ڈنکا بجتا چلا گیا اور قہوہ چائے پھیلتی چلی گئی۔ یورپ کے بعد قہوہ چائے امریکا اور دوسرے ممالک میں میں بھی کاشت کی جانے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی پیداوار ا پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور چائے کی مختلف اور متعدد اقسام کی کاشت کا عمل شروع ہوگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ البیان کی رپورٹ کے مطابق اگر پوری دنیا میں پھیلے قہوہ چائے کی اقسام اور اس کی تیاری کے مختلف طریقوں اور پیش کش کے مختلف سلیقوں کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا۔
    محمد غسان جو ملک یمن کے علاقے ’’شارقہ ‘‘ کے ’’لوید‘‘ نامی مشہور قہوہ خانے میں کام کرنے والا ہے وہ کہتا ہے: ہمارے ہاں ترکی اور مختلف عربی قسم کی قہوہ چائے بنائی جاتی ہے لیکن لوگوں کا سب سے زیادہ شوق سے عربی قہوہ پیتے ہیں۔ اس کی بہ نسبت ترکی ودیگر قہوہ جات کے کی طرف لوگ بہت کم مائل ہوپاتے ہیں۔ محمد غسان کا مزید کہنا ہے کہ عربی قہوہ کا معاملہ اب ہمارے ہاں بالکل ایسا ہی بن چکا ہے جیسا ابتداء میں سادہ قہوہ کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے یہاںیہ ثقافت چل پڑی ہے کہ بڑے سے بڑے مہمان کے لئے اچھے سے اچھا عربی قہوہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رواج قاہرہ، استنبول اور مختلف عرب سوسائیٹیز اور صحراوں میں رائج ہے۔براعظم افریقہ کے شمالی شہر الجزائر کی ثقافت سبز قہوہ پیش کرنے کی ہے جو مہمانوں کے سامنے تازہ تر کھجوروں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ، معمر اور بزرگ حضرات کے سامنے سب سے پہلے گرم گرم قہوہ پیش کیا جاتا ہے، جو انتہائی مقبول روایت ہے۔
    چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔
    سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذیل حصّوں کے سرطان یا کینسر کو جو کہ بہت خطرناک بیماری ہے روکتی ہے:مثانہ ۔ چھاتی یا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ یا شریان ۔ پھیپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ یا پروسٹیٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔
    سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھیروسکلیروسیس ۔ انفلیمیٹری باویل ۔ السریٹڈ کولائیٹس ۔ ذیابیطس ۔ جگر کی بیماریوں میں بھی مفید ہے ۔ ریح یا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی یورَیٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔

  • انسان اور غلطی – رانا محمد اقبال

    انسان اور غلطی – رانا محمد اقبال

    رانا محمد اقبال اقبال تم اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ تمہیں میرے جیسا مینیجر ملا ہے، تمہیں پتہ ہے آج مجھے تمہاری شکایت ملی ہے،
    جی میں آپ کو خود ہی بتانے والا تھا لیکن اس سے پہلے ہی آپ نے مجھے فون کر کے بُلا لیا۔

    اقبال میں حیران ہوں کہ لوگ کس طرح کسی کی ایک چھوٹی سی غلطی کو اجاگر کرتے ہیں اور مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لیکن جب اللہ پاک کی طرف سے انہیں ڈھیل ملی ہو تو پھر ہم کون ہوتے ہیں اُن کا احتساب کرنے والے، ایسے لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔
    دو روز پہلے تم میڈیکل کی غرض سے گئے، گزشتہ روز تمہاری گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا اور آج تم پھر 20 منٹ دیر سے پہنچے، تمہاری آج کی غلطی کی وجہ سے میں کیسے تمہاری مدد کر سکوں گا۔ جبکہ شکایت لگانے والے کا انداز دیکھو کہ جیسے وہ تمہارا خیرخواہ ہے اور تمہاری بہت فکر کرتا ہے۔

    اُس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ

    اقبال ایک اچھا لڑکا ہے اور اپنی فیلڈ میں بھی ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اُس میں مذید سیکھنے اور کچھ نیا کرنے کی جستجو بھی ہے اور وہ کوشش بھی کرتا رہتا ہے لیکن یہ کتنی بُری بات ہے کہ وہ ڈیوٹی پر دیر سے پہنچتا ہے، آپ پوچھتے کیوں نہیں اُسے، اُسے سمجھائیے کہ اُس کی یہ عادت اس کے لیے بڑی پریشانی کھڑی کر سکتی ہے، نہ صرف اُس کیلئے بلکہ کل کو آپ کو بھی پوچھنے والے کھڑے ہو جائیں گے، اور آج آپ کو اُسے سبق دینا چاہیے۔

    دیکھو اقبال، کس طرح تمہاری ایک غلطی کو تمہاری عادت بنا کر بتایا، یہ اُس کی ڈیوٹی نہیں ہے لیکن خیرخواہی کا ڈھونگ وہ اپنے لیے ہمدردی حاصل کرنے کو اور تمہارے لیے پریشانی کھڑی کرنے کا طریقہ ہے اور مجھے واقعی خوشی ہوتی کہ اگر یہ بات صرف مجھ سے کی گئی ہوتی لیکن یہ بات اور چار چھ لوگوں سے کرنا اور اُن لوگوں سے کرنا جو مجھ سے بھی پوچھنے کی حیثیت رکھتے ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خیرخواہی نہیں ہے بلکہ پریشانی پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ ہے۔

    یہ پروفیشنل لائف ہے اقبال میاں، لوگ معاف نہیں کرتے، بتاتے اور سکھاتے نہیں ہیں، سبق دیتے ہیں، لیکن کبھی تم ایسا نہ کرنا کہ تمہاری وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو، اور ایسی باتوں سے پریشان بھی مت ہونا کہ یہ تمہاری مثبت توجہ کو منفی سوچ میں مبذول کرنے واسطے کافی ہوں گی، پہلے سے لگے خط کو مت چھیڑو، نہ مٹانے کی کوشش کرو، کسی کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں جتنا ٹائم ضائع کرو گے اگر اتنا ٹائم اپنی بہتری واسطے خرچ کرو تو یقینا تم سیدھے راستہ پر ہو گے اور جلد کامیابی سے ہمکنار ہو پاؤ گے۔ اپنا رستہ تم خوب بنانا جانتے ہو سو اپنے متعین رستے پر چلتے رہو، راہ میں آنے والی رکاوٹیں بہت ہوں گی لیکن بہت سی رکاوٹوں سے سامنا کرنے کے بجائے انہیں نظرانداز کرنا ضروری ہوتا ہے، پر یہ لوگ پتہ نہیں کیوں عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں، لیکن اچھائی کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی عمل نہ کرنا ہی اُن کی تنزلی کا سبب بنتا ہے، اب ہم سکول کالج میں نہیں رہے کہ ہمیں پڑھایا، سکھایا اور بتلایا جائے، پریکٹیکل لائف ہے میاں، پرفیشنل بنو، خود اپنی خامیاں ڈھونڈو اور ان سے چھٹکارا پاؤ۔ ایک چھوٹی سی غلطی ساری محنت پر پانی پھیرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ کوشش کرو کہ چھوٹی چھوٹی خامیاں دور کرو کہ یہ آنے والے وقت میں بڑی خامیوں اور پریشانیوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ کوشش کرنا چاہیے کہ کسی کو منفی بات کرنے کا موقع میسر نہ ہو سکے۔

    سر! اگر میرے رب کی منشا نہ ہو تو کسی کی کیا مجال کہ کچھ کر سکے؟
    اور ایک گہری خاموشی کے ساتھ، منہ میں پنسل دبائے مینیجر صاحب مجھے تکتے رہے۔

  • جوائنٹ فیملی سسٹم کی بڑی خرابیاں – لائبہ خان

    جوائنٹ فیملی سسٹم کی بڑی خرابیاں – لائبہ خان

    جوائنٹ فیملی سسٹم میں بہت ساری خرابیاں ہیں .ان سب خرابیوں کو تحریر کرنا ایک مشکل کام ہے. اس لیے اس تحریر میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی صرف بڑی بڑی خرابیاں تحریر کروں گی.
    ‏1. سیاہ و سفید کا مالک صرف اور صرف فیملی کا بڑا ہوتا ہے جو کہ غلط ہے.
    ‏2. فیملی کا بڑا غلط فیصلہ بھی کرے تو سب کے لیے ماننا لازم ہے.
    ‏3. بڑے کے کسی غلط فیصلے سے اختلاف کرنے والا باغی شمار ہوتا ہے.
    ‏4. اگر بڑے کے بچے کسی بھی وجہ سے نہ پڑھ سکیں تو باقی بھائیوں کے بچے بھی نہیں پڑھ سکیں گے.
    ‏5. شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی کی رائے لینے کا کوئی تصور نہیں.
    ‏6. آپ اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے خواہشات بھی پورے نہیں کر سکتے.
    ‏7. بچوں کے بہت سارے حقوق ادا نہیں کیے جاتے.
    ‏8. سب سے بڑی خرابی یہ کہ اسے اسلامی کہا جاتا ہے مگر یہ کہاں سے اسلامی ہے.

  • ہم میں سے خود ہر ایک مسیحا ہے – عمر خالد

    ہم میں سے خود ہر ایک مسیحا ہے – عمر خالد

    عمر خالد کہتے ہیں سچائی ایسی طاقت ہے جو انجام میں سرخرو ہوتی ہے، جھوٹ اپنی دلفریبی کے باوجود شکست کھاجاتا ہے، سچ و صداقت کی روح میں ایسی جذب و کشش ہے جو پتھر دلوں کو موم کردیتی ہے، جھوٹ و بدیانتی سے پھوٹنے والی لہریں وحشت و نفرت کی آبیاری کرتی ہیں۔ سچائی سے محبت کی اور جھوٹ سے نفرت کی فطری صلاحیتیں روز اول سے انسانی شعور کا حصہ ہیں، سطح زمین کی اگلی پچھلی تمام تہذیبیں اس صداقت کی روشنی میں قانونِ زندگی تشکیل دیتی ہیں، اقدار و اخلاق کی صبحِ روشن اسی مہر تاب کی کرنوں سے آباد ہے۔ سچائی درحقیقت حقائق کشائی کا نام ہے، ایمانداری، دیانتداری، قانون کی پاسداری ، الغرض تمام انسانی اعمال کی تشکیل میں حقائق بیانی ہی سچ و صداقت کی مکمل تصویر ہے۔

    مذکورہ باتیں معلومات میں نیا اضافہ نہیں، بچپن سے پچپن تک یہی سنتے سناتے زندگی گذر جاتی ہے، لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سچائی و صداقت کے مطلوبہ معیار پر ہم رتی برار ہی اترتے ہوں ورنہ بحیثیت قوم پستی کی گہرائیوں میں جی رہے ہیں، تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، پیہم محرومیوں نے صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے، ناگفتہ بہ حالات سے مایوسی میں اضافہ ہی ہوا، ہم کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں جو اَلہ دین کا چراغ اپنی قبا سےبرآمد کرے اور چٹکی بجا کر سارے مسائل حل کردے، ناامیدی کے بھنور میں پھنسے اِس بھول کا شکار ہیں کہ ہم میں سے خود ہر ایک مسیحا ہے، ہر فرد کی مسیحائی اس کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہے، تبدیلی کی نوید حقیقت میں رونما ہوسکتی ہے، لیکن ہمارا مسیحا خوابیدہِ غفلت ہے، اسے فقط معمولی جنبش کی ضرورت ہے، پھر انقلاب و تبدیلی کی ایسی داستان رقم ہوگی جسے سنہری حروف سے زینت بخشی جائے گی۔

    ہر انسان کی طرح ہم بھی یہ بات بھول گئے کہ خود کو سچائی کے پیکر میں ڈھالنا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے، فرد سے معاشرہ پیدا ہوتا ہے، لیکن جب یہی فرد جھوٹ و خیانت کا اشتہاری بن جائے ، اور فریب و غبن کا متعدی مرض اسی کردار سے پھیلنا شروع ہوجائے ہو تو زوال کا آغاز ہوجاتا ہے، اس کی مثال ہوبہو اس مزمن مرض کی طرح جس کا شکار زندگی کے آخری لمحات میں اپنی بیماری سے آگاہ ہوتا ہے ، اور جب یہی کیفیت وبائی صورت اختیار کرلے تو پھر سوائے ماتم کدے کو رونق بخشنے کے یا کسی مسیحا کے انتظار میں وقت بتانے کے کوئی کام سود مند نہیں رہتا۔ ہماری سچائی کی قیمت چند کھوٹے سکوں سے زیادہ نہیں، ہماری صداقت کا نشہ متاع دنیا کی دلفریبی میں کافور ہوجاتا ہے، ہم میں ادنی و اعلی، امیر غریب، الغرض ہر طبقہ اپنی بساط بھر کوشش سے سچائی و صداقت کی نیلامی میں کوشاں ہے، کہیں پر تکلف طریقے سے، کہیں نام کی تبدیلی سے، گلی گلی میں جھوٹ و خیانت کابازار قائم ہے، جہاں ہر شکل میں انسانی اقدار کی تذلیل کی جارہی ہے ۔

    دردمندانِ قوم کی اس متعدی مرض کی کسک سے بلبلارہے ہیں، لیکن انسان اپنی بےحسی میں مدہوش اس حقیقت کو فراموش کرچکا ہے، اور جب تک انسان خود کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا ممکن نہیں کے عزت و سرفرازی نصیب ہو ، کیونکہ یہی سنت خداوندی ہے قوموں کے رویے پر۔

  • نئی پود میں رومانویت پسندی کے بڑھتے رجحانات – عمر خالد

    نئی پود میں رومانویت پسندی کے بڑھتے رجحانات – عمر خالد

    عمر خالد جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے تبدیلی کے نت نئے مظاہر سامنے آتے جارہے ہیں، ایک وقت تھا جب انٹینا والے لمبے موبائل کا استعمال کرنا فخریہ کام سمجھا جاتا تھا، لیکن آج ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایسے محیر العقول کارناموں کا ڈھیر لگادیا ہے کہ انسانی عقل و فکر کو داد دینی پڑتی ہے، آسائش و وسائل کے ساز و سامان بام عروج کو پہنچ چکے ہیں، انگشت کی معمولی جنبش سے معلومات کا جہاں آباد ہوجاتا ہے، ہر سہولت گھر بیٹھے دستیاب ہوجاتی ہے، لیکن ان تمام مثبت پہلوؤں کے باوجود اس کے منفی اثرات سے نئی نسل محفوظ نہیں رہی۔

    نومولود اپنی زندگی کے کچھ ہی بہاریں دیکھ پاتا ہے کہ اس کے ہاتھوں میں سمارٹ فون در آتا ہے، پھر تھوڑے ہی عرصہ میں موبائل، آئی پیڈ، تھری ڈی گیمز وغیرہ بچے کی سوچ و فکر کو ایک مخصوص شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں، ایسے بچے عموما واقعاتی دنیا میں خود اعتمادی سے محرومی کا شکار رہتے ہیں اور دنیاوی حقائق کا سینہ تان کر مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے، اپنے ہم جولیوں سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں، حقائق سے سمجھوتہ خال خال ہی کہیں نظر آئیں گے، اس کے برعکس ہر لمحہ جذباتی اور لمبے خوابوں کا شکار رہتے ہیں، مقصد جلد بازی رومانویت کی نذر ہوجاتا ہے، محنت و کوشش لایعنی جبکہ سستی و کاہلی محبوب ہوجاتے ہیں۔

    اس رومانویت پسند کے تناظر میں مختلف کارٹونز کے الگ الگ اثرات ظاہر ہوتے ہیں، ڈوریمون، چھوٹا بیم، وغیرہ جیسے کارٹونز بچوں کی نفسیاتی ساخت پر غیر معمولی اثرات چھوڑتے ہیں جس کی تباہ کاریاں عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ نمایاں ہوتی رہتی ہیں۔

    ماں باپ ہونے کے ناطے بچے کی جمسانی ہی نہیں روحانی و نفسیاتی تربیت بھی ذمہ داری ہے، اولاد کو قدم قدم پر محبت و پیار دینا ہوگا، زندگی کے حقائق سے آشنائی، مشکل حالات میں ثابت قدمی، بےبسی میں حوصلہ افزائی کرنا ایسا امید افزا تریاق ہے جو مایوسی کے اثرات کا سرے سے خاتمہ کردیتا ہے، مایوسی وہ دشمن ہے جس کی جڑیں رومانویت پسند ی کی روشنی میں نشونما پاتی ہیں، جس کا آخری نتیجہ خود کشی یا پاگل پن کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی اولاد کی تربیت میں معمولی کوتاہی اسے غلط نہج پر لے جاسکتی ہے۔

  • چھوٹی سی نیکی – رؤف احمد

    چھوٹی سی نیکی – رؤف احمد

    کچھ دن پہلے کی بات ہے، میں نے بستر پر جانے سے پہلے حسب معمول کمرے کی بتی بند کر دی. ایک دم سے گہرا اندھیرا چھا گیا، مگر اس میں کوئی چیز چمک رہی تھی، غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اینڈرائیڈ فون کی چارجنگ والی لائٹ ہے، خیر میں بستر پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ اس کی ٹمٹماہٹ بڑھ گئی اور مزید کچھ دیر گزری تو مجھے اس ٹمٹاتی روشنی میں کمرے کی اس طرف والی دیوار نظر آنے لگی جدھر فون رکھا تھا۔ یہ تو تھی ایک بات اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔

    بات کچھ یوں ہے کہ ہماری چھوٹی سی نیکی جس کی ہمارے سامنے قدر و قیمت ہے ہی نہیں اور نہ ہم اس کی طرف غور کرتے ہیں، وہ بھی تاریک کمرے (معاشرے) میں اس ٹمٹماتی روشنی کا کام کرتی ہے اور آگے چل کرہمارے لیے آسانی کا باعث بنے گی۔ آپ کی چھوٹی نیکیاں جن کوآپ سرِ راہ چلتے ہوئے گنوا دیتے ہیں اور دھیان نہیں دیتے. ان میں راستے میں چلتے ہوئے لوگوں کو سلام کرنا، اگر کوئی تکلیف دینے والی چیز نظر آئے تو اس کو پاؤں کی ٹھوکر سے ہی سہی سائیڈ پر کر دینا۔ اگر کہیں کوئی شخص مصیبت میں اٹکا ہوا نظر آ جائے تو فوراََ سے پہلے اس کی مدد کے اسباب تلاش کرنا کہ کس طرح اس کو اس مصیبت سے نکالا جائے نہ کہ فون لے کر ویڈیو بنانا شروع ہو جائیں یا ویسے ہی باقی تماش بینوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں. کل آپ پر بھی ایسا وقت آ سکتا ہے، آج کسی کے ساتھ بھلائی کی ہوگی تو کل کو اس کا بدلا ملے گا، پھر نہ کہنا کہ میں زندہ جلتا رہا اور معاشرہ میری تصویر بناتا رہا۔ کسی نے یونہی نہیں کہا کر بھلا سو ہو بھلا۔
    ہمارا کام ہے بھلائی کی دعوت دینا کیوں کہ یہ بھی ایک نیکی ہے!