Category: انتخاب

  • گورنر عشرت العباد کی سبکدوشی – سیّد محمّد اشتیاق

    گورنر عشرت العباد کی سبکدوشی – سیّد محمّد اشتیاق

    سیدمحمد اشتیاق بھلا ہو نئے محب وطن اور متحدہ سے منحرف شدہ پاک سر زمین پارٹی کے بانی رہنما مصطفی کمال کا کہ انہوں نے 14سال بعد، معصوم و فرشتہ صفت پاکستانی حکمرانوں اور مقتدر اداروں کو، بذریعہ پریس کانفرنس اور انٹرویو لفظی طور پر آگاہ اور قائل کیا کہ 14 سال سندھ کا گورنر رہنے والا شخص دراصل رشوت العباد ہے اور قومی مجرم ہے۔ مصطفی کمال کے ا نکشافات کے بعد، مقتدر حلقوں کی طرف سے گورنر سندھ کے لیے بے اعتنائی کا اظہار تو محسوس کیا جا رہا تھا جو بالآخر گورنر سندھ کی تبدیلی پر منتج ہوا۔

    سبکدوشی کے بعد سابق گورنر کے احتساب کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ سیاستدانوں کی وہ کھیپ جو سیاسی منحرف ہونے کا وسیع تجربہ اور ذوق و شوق رکھتی ہے، مصطفی کمال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، معصوم و فرشتہ صفت حکمرانوں، قانون ، احتساب اور عدل و انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو ، اپنی سابقہ جماعت کے رہنماؤں کی بدعنوانیوں سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں گے تاکہ حکمرانوں اور عوام کی جان بدعنوان عناصر سے چھوٹے اور حکمران اپنی وفادار، تجربہ کار عمر رسیدہ شخصیات کے تجربے سے مزید فائدہ اٹھائیں اور مقتدر سیاسی جماعت کے نوجوان و جوان سیاستدانوں کو بھی پتا چلے کہ وفاداری اور قربانی دینے کا صلہ بالآخر مل ہی جاتا ہے، بس ذرا اپنی صحت کا خیال رکھیں کیونکہ اس طرح کے مواقع عموما اور فی زمانہ طویل العمری میں ہی میسر آ رہے ہیں۔

    سبکدو ش کیے جانے والے گورنر سندھ کا مستقبل جیل کی سلاخیں ہیں یا کسی اور جماعت میں شامل ہوں گے، یہ تو سب سے بہتر ملک کی وہ طاقتور شخصیات ہی بتا سکتی ہیں جو سیاستدان بنانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ فی الوقت تو سندھ کے عوام کو اپنی توجہ نئے گورنر (جو جلد ہی حلف اٹھانے والے ہیں) کی طرف مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے وسیع تجربے سے، صحت کے رہنما اصول کے ساتھ، وفاداری اور قربانی دینے کے اصول بھی خصوصی طور سے سیکھے جائیں لیکن ان اصولوں کو استعمال صرف اس وقت کیا جائے، جب وطن عزیز کو اس کی ضرورت ہو، ویسے بھی عوام کو ادھر ادھر قربانی دے کر کون ساگورنر یا کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگ جانا ہے۔

  • پردہ اٹھتا ہے! ماہر القادری

    پردہ اٹھتا ہے! ماہر القادری

    یہ مضمون بہت سوں کو حیرت میں ڈال دے گا،کسی کسی خوش فہم کو شاید پوری طرح یقین بھی نہ آئے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں اصلیت کتنی ہے اور “سخن طرازی” سے کس حد تک کام لیا گیا ہے! بہت سے لوگ سوچ میں ڈوب جائیں گے کہ ہم یہ کیا پڑھ رہے ہیں،جن باتوں کا سان گمان بھی نہ تھا، وہ باتیں بے نقاب ہو کر سامنے آرہی ہیں،عجیب بلکہ عجیب تر انکشاف! مگر لوگوں کی حیرت واقعات کو تو نہیں بدل سکتی،کوئی سر سے پیر تک چاہے حیرت میں ڈوب ہی کیوں نہ جائے اس طرح غرقِ حیرت ہوجانے سے حقیقت اور واقعیت تو نہیں چھپ سکتی،اربابِ نظر کی خدمت میں میری مخلصانہ گزارش ہے کہ وہ حیرت اور خوش فہمی،عقیدت اور حسنِ ظن سے اگر بالکل خالی الذہن نہیں ہوسکتے تو کم سے کم اس کے غلبہ اور شدت کو کم کر کے اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔
    مولانا ابوالکلامؔ آزاد کے سفرِ عراق و ایران اور مصر میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں کچھ باتوں کی بھنک جب راقم الحروف کے کان میں پڑی تو مجھے خود بہت تعجب ہوا،شروع شروع میں دل کو کسی طرح یقین ہی نہ آتا تھا کہ اتنا بڑا آدمی خود اپنے بارے میں اس قسم کی غلط بیانیوں سے کام لے سکتا ہے،دل بہت دن تک یہی تاویلیں کرتا رہا کہ بڑے آدمیوں کے بارے میں کچھ غلط اور بے سروپا باتیں بھی مشہور ہوجاتیں ہیں بلکہ مشہور کردی جاتی ہیں،کیا عجب ہے کہ یہ باتیں بھی اسی قبیل کی ہوں۔۔۔۔سب سے پہلے دہلی کے مشہور علمی ماہنامہ”برہان” میں مولوی مہر محمد خاں صاحب شہابؔ مالیرکوٹلوی کا ایک مضمون میری نظر سے گزرا،اس مضمون کے پڑھنے کے بعد خیال ہوا کہ ان باتوں کو اب تہمت و الحاق یا محض افواہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،معاملہ اب زبان و گوش تک ہی محدود نہیں رہا،بات خامہ و قرطاس تک آپہونچی ہے۔
    مگر سنی سنائی باتوں پر جھٹ سے فیصلہ کر دینا بے احتیاطی ہی نہیں،بے دانشی اور ناانصافی بھی ہے،لہذا ابھی تک میں نے کوئی قطعی رائے قایم نہیں کی لیکن ہاں! یہ ضرور ہوا کہ شروع شروع میں جن باتوں نے مجھے غرقِ حیرت کردیا تھا اس حیرت میں کمی آگئی،یہ باتیں بہرحال تحقیق طلب تھیں اور میں نے جستجو شروع کر دی اسی عرصہ میں مشہور صحافی اور انشاپرداز جناب رئیس احمد جعفری کا ایک مقالہ “فاران” میں چھپنے کے لئے آیا،یہ مقالہ مولانا ابوالکلام آزادؔ کے سفرِ عراق و ایران کے متعلق تھا ،جس میں اس بات کو کنایوں،اشاروں اور استعاروں سے ہٹ کر، دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا کہ مولانا آزادؔ کے عراق و ایران کی سیاحت و سفر کا واقعہ ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا،میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اس مضمون کو اپنے رسالے میں فوراً چھاپ دیتا کہ اس طرح کچھ نہ ہوگا تو کم سے کم لوگوں کو گرمئ محفل اور بحث و سخن کے لئے تو مسالہ مل جائے گا،مگر “فاران” کا ایک ایک صفحہ اس کا شاہد ہے کہ میں نے سستی شہرت کے لئے اس قسم کی بےاحتیاطیوں کا ارتکاب نہیں کیا،گرمئ محفل اور ہنگامہ آرائی میرے پروگرام میں شامل نہیں ہے،مسلمان اور پھر انکے ۔۔واہی تباہی باتیں منسوب کردینا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے،”فاران” اس روشِ عام سے ہمیشہ بچ کر چلا ہے اور اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔
    میں ابھی واقعات کی چھان بین ہی کر رہا تھا کہ اتنے میں سہ روزہ “مدینہ”(بجنور) (مورخہ17اگست1951ء) کا ایک شمارہ نظر سے گزرا،جس میں اخبار مدینہ کے ایڈیٹر نے مولانا ابوالکلام آزادؔ سے مل کر بعض مسائل پر بالمشافہہ گفتگو کی تھی اور اس میں مولانا کے سفرِ عراق کا بھی ذکر آیا۔۔۔۔اب تک اس سلسلہ میں بہت سی باتیں میرے علم میں آچکی تھیں اور میں چاہتا تو ان معلومات اور اطلاعات کو منظرِ عام پر لے آتا مگر ضمیر نے اس کی اجازت نہ دی،دل نے کہا اور وجدان نے اس کی تائید کی کہ مولانا ابوالکلام آزادؔ جن سے ان واقعات کا تعلق ہے،خود ان سے استفسار اور تحقیق کرنا ضروری ہے،چوں کہ یہ ان کی ذات کا معاملہ ہے اس لئے صاحبِ ممدوح بہتر طریقہ پر روشنی ڈال سکیں گے،چنانچہ میں نے ایک نیازنامہ مولانا موصوف کی خدمت میں 31اگست1951ء کو رجسٹری کے ذریعہ روانہ کیا،جسے بلفظہ درجِ ذیل کیا جاتا ہے:

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    صاحب المجدد الکرم دامت معالیکم!
    السلام علیکم و علیٰ من لدیکم!جناب والا سے چند ضروری باتیں دریافت طلب ہیں:
    ۱ ۔مکہ مکرمہ آپ کا مولد بتایا جاتا ہے مگر آپ کا منشاء کونسا مقام ہے؟
    ۲۔”الہلال” کے سرورق پر “المکنی بابی الکلام الدہلوی” چھپتا رہا ہے،”دہلی” کی مرزبوم سے آپ کی کیا نسبت اور کیا تعلق ہے؟
    ۳۔کیا “قصور(پنجاب) سے آپ کا کوئی خاندانی تعلق ہے؟
    ۴۔”غبارِ خاطر” میں آپ نے مصر،ایران،شام اور عراق کے سفر کا ذکر فرمایا ہے یہ سفر آپ نے کس سنہ اور کس ماہ یا مہینوں میں فرمایا تھا؟
    ۵۔(الف) مسٹر مہادیو ڈیسائی(آنجہانی) نے آپ کے حالاتِ زندگی لکھے ہیں،جن کا اردو ترجمہ مسٹر آصف علی نے کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ آپ نے جامعہ ازہر میں تعلیم پائی تھی،براہِ کرم مطلع فرمایا جائے کہ آپ کس سنہ میں جامعہ ازہر کے طالبِ علم رہے ہیں؟
    (ب) آپ کے زبانی حوالہ کی بنیاد پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آپ کی شیوخ جامعہ ازہر سے علمی صحبتیں رہی ہیں،اس سلسلہ میں بھی سنہ کی ضرورت ہے۔
    جناب والا کی گوناگوں مصروفیات کو دیکھتے ہوئے مختصر سے مختصر عریضہ لکھا گیا ہے تاکہ جناب کم سے کم وقت میں جواب عنایت فرما سکیں،ان پانچ سوالوں کے لئے زیادہ سے زیادہ پانچ سطروں کے لئے(بلکہ اس سے بھی کم) جناب کو زحمت کرنا ہوگی۔
    یقین ہے کہ جواب سے ضرور مفخر فرمایا جائے گا!
    نیاز کیش:ماہرؔ القادری

    دو ہفتہ سے کچھ زائد میں نے جواب کا انتظار کیا،جب اٹھارہ دن تک جواب نہ آیا تو میں نے یاددہانی کے لئے دوسرا عریضہ(پہلے رجسٹرڈ خط کا نمبر (193) اور دوسری رجسٹری کا نمبر (908) ہے!) مولانا ابوالکلام آزادؔ کی خدمت میں 18ستمبر 1951ء کو رجسٹری کے ذریعہ ہی بھیجا،جس کی یہ عبارت ہے:

    گرامی منزلت دامت معالیکم!
    ہدیہ سلام و رحمت!میں نے ایک رجسٹرڈ نیازنامہ 31اگست کو خدمتِ گرامی میں گزرانا تھا اس کے جواب کے لئے چشم براہ ہوں،براہِ کرم جواب جلد عنایت فرمایا جائے۔
    والسلام
    نیازمند:ماہرؔ القادری

    انقلابِ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان دونوں حکومتوں میں ڈاک کا انتظام زیادہ اچھا نہیں رہا،اس لئے میں نے بہ نظرِ احتیاط مولانا آزادؔ کی خدمتِ گرامی میں دونوں خط رجسٹری کے ذریعہ حاضر کئے تھے کہ گم ہونے کا امکان باقی نہ رہے،میں بہت دنوں تک انتظار کرتا رہا کہ اب جواب آتا ہے،تب جواب آتا ہے مگر افسوس ہے کہ اس باب میں مجھے مایوس ہی ہونا پڑا،پہلے خط کو لکھے ہوئے ساڑھے تین ماہ ہوچکے لیکن مولانا ممدوح کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
    مولانا ابوالکلام آزادؔ یقیناً عظیم شخصیت کے مالک ہیں اس سے انکار بلکہ اس میں شبہ کرنے کی جرات بھی کوئی نہیں کرسکتا مگر مراسلت و گفتگو کا ایسا معاملہ ہے کہ اس میں رتبہ،منصب اور مراتب کا امتیاز روا نہیں رکھا جاتا،اکابر،اصاغر کے خطوں اور نیاز ناموں کے جواب بھی عنایت فرما دیا کرتے ہیں اور ان کو اپنی محفلوں میں بار پانے کی اجازت بھی عنایت فرماتے ہیں،اگر ایسا نہ ہو اور بڑے آدمی صرف اپنے ہی جیسے بڑے آدمیوں سے ربط ضبط رکھنا پسند کریں اور چھوٹے آدمیوں کو لائقِ خطاب اور سزاوارِ التفات ہی نہ سمجھیں تو پھر بڑے آدمیوں کی زندگی خود ان کے لئے اجیرن بن کر رہ جائے،اس لئے کہ قریوں،قصبوں،شہروں اور ملکوں میں بڑے آدمی تو گنتی ہی کہ ہوتے ہیں اور کہیں کہیں تو ایک آدھ ہی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ اپنے گھروں میں بند بیٹھے رہیں کہ جب ان کے جوڑ کا کوئی آدمی آئے گا اسی وقت لب ہائے مبارک کو جنبش ہوگی،اگر بڑے آدمیوں کا یہی دستور رہتا تو تمدن اور ترقی،فیض و استفادہ،علم و اطلاع تحقیق و تفحص کی سعادتوں سے دنیا محروم رہتی۔
    گاندھی جی کی مصروفیات کا بھلا کوئی ٹھکانا تھا اور ان کی شخصیت تو روزولٹ،چرچل اور اسٹالن سے بھی بلند تھی مگر وہ بھی معمولی معمولی لوگوں کے خطوں کا جواب دیا کرتے تھے،مسٹر کلیم الرحمٰن (جو منٹو سرکل ہوسٹل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نگران تھے) مجھے ایک خط دکھایا تھا جو مسٹر ولبھ بھائی پٹیل آنجہانی نے ان کے ایک استفسار کے جواب میں بھیجا تھا،یہ خط دراصل گاندھی جی کے نام روانہ کیا گیا تھا اس مکتوب کا دفتری تعلق چونکہ سردار پٹیل نائب وزیراعظم حکومت سے تھا اس لئے مہاتما جی نے وہ خط مسٹر پٹیل کے پاس بھیجدیا اور مسٹر پٹیل نے مکتوب نگار کو جواب دیا اور خط پر خود ان کے دستخط ثبت تھے حالانکہ اس کام کو سردار پٹیل کے سکریٹری بھی انجام دے سکتے تھے۔
    شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی،امیر شکیب ارسلان،عوام کے خطوں کا جواب دیا کرتے تھے،”برنارڈشا” اپنی انتہائی ادبی اور علمی مصروفیات کے باوجود خطوں کے جواب دینے میں بخیل نہیں تھا اور ظاہر ہے خط لکھنے والوں میں رڈیارڈ کپلنگ،ایچ جی ویلز اور چرچل جیسی شخصیت کے لوگ کہاں ہوسکتے تھے!میری سادگی پر شاید لوگ ہنسیں گے کہ میں نے لفافہ نہیں ایک جوابی کارڈ علامہ اقبالؔ مرحوم کی خدمت میں بھیجا،یہ میرے اوائل شباب کا واقعہ ہے میں ان دنوں اپنے وطن (کسیر کلاں،ضلع بلند شہر) میں تھا،اقبالؔ نے خود اپنے ہاتھ سے جواب لکھ کر روانہ فرمایا،مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے آٹھ دن کے اندر اندر جواب آگیا تھا۔۔۔۔سنا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو خطوں کا جواب دینے میں خاص طور پر فیاض واقع ہوئے ہیں۔
    میں یہ بھی مانتا ہوں کہ بعض خطوں کے جواب نہیں دیئے جاتے،یعنی ایسے خطوط جن سے خواہ نخواہ کی چھیڑ اور نزاع مقصود ہو،یا جن کے جواب میں مکتوب الیہ کو بہت زیادہ کاوش کی ضرورت اور فرصت درکار ہو اور سرسری طور پر جواب دینے سے الجھنیں پیدا ہونے کا خطرہ ہو یا مکتوب نگار کے بارے میں مکتوب الیہ کو اس کا علم ہو کہ وہ اس سے کد،دشمنی اور عداوت رکھتا ہے اور اس مرسلت،گفت و شنید اور نامہ و پیغام کا مقصد کسی فتنہ کو ہوا دینا ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر میرا خط اس طرح کا خط نہیں تھا مولانا ابوالکلام آزادؔ نے مجھ خاک نشین اور ہیچمدان کا شاید نام بھی نہیں سنا ہوگا،میرا خط ان کے پاس بالکل ایک اجنبی شخص کی تحریر کی حیثیت سے پہونچا،میں نے ان سے کوئی علمی مسئلہ بھی دریافت نہیں کیا کہ اس کے لئے طویل فرصت درکار ہوتی اور نہ میں نے ان کے کسی علمی،ادبی،سیاسی اور مذہبی نظریہ پر کوئی تنقید لکھ کر ان کی خدمت میں بھیجی کہ اس کا سرسری جواب بہت سے فتنوں کا باعث ہوسکتا تھا،میرے استفسار کے جواب کے لئے مولانا ابولکلام آزادؔ کو ذرا سی بھی زحمت گوارا کرنے کی ضرورت نہ تھی،تین چار منٹ میں جواب لکھا یا لکھوایا جا سکتا تھا،مولانا موصوف حکومتِ ہند کے وزیر تعلیم ہیں،مددگاروں،کام کرنے والوں اور ماتحتوں کی ہر قسم کی سہولت بھی ان کو میسر ہے۔۔۔یہ باتیں اہم اس لئے تھیں کہ زبانوں سے نکل کر کاغذ پر آچکی تھیں ان کی حیثیت محض “افواہ” کی نہیں رہی تھی،یہ بات مولانا آزادؔ کے علم میں تھی،اس صورت میں غلط فہمی رفع کرنے کے لئے میرے سوالوں کا جواب دینا اور زیادہ ضروری تھا کہ جواب نہ دینے اور سکوت اختیار کرنے سے غلط فہمیاں اور مضبوط اور شاخ در شاخ ہوجائیں گی۔
    پھر یہ بات بھی نہیں ہے کہ مولانا آزادؔ خطوں کے جواب دینے میں فطرتاً بے پروا واقع ہوئے ہوں اور خطوں کا جواب نہ دینا اور اس معاملہ میں بے نیازی برتنا ان کی عادت ہو “غبارِ خاطر” کے مقدمیں خود مولانا کے پرائیوٹ سکریٹری محمد اجملؔ صاحب نے لکھا ہے:
    “مولانا کو سینکڑوں خط لکھنے اور لکھوانے پڑتے ہیں۔”
    میں نے اوپر جو کچھ کہا ہے وہ مفروضات اور قیاس آرائیاں نہیں ہیں یہ واقعات ہیں جو بتاتے اور ظاہر کرتے ہیں کہ میرے نیاز نامہ کے جواب دینے سے مولانا ابوالکلامؔ کا پہلو تہی کرنا یقیناً “معنیٰ خیز” ہے اور مولانا آزادؔ نہیں چاہتے کہ ان چیزوں پر گفتگو ہو،یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں اور واقعات بے نقاب ہوں۔
    میں عند اللہ اور عندالناس ہر ذمہ داری سے بری ہوں کہ تحقیق و استفسار کی جو ممکنہ کوشش میرے بس میں تھی وہ کرچکا مولانا آزادؔ کی خدمت میں عریضہ اسی غرض کے لئے بھیجا تھا کہ یہ باتیں محض غلط اندیشی اور غلط فہمی پر اگر مبنی ہیں تو وہ اس کا ازالہ فرمادیں گے،اس سے اور اچھی کیا بات ہوسکتی ہے کہ کسی بڑے آدمی کی ذات اور شخصیت کے بارے میں کوئی غلط فہمی اس کے جیتے جی لوگوں میں پیدا ہو اور اس کو وہ خود دور کر دے مولانا آزادؔ کو زندگی ہی میں اس کا موقع ملا مگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے ،کیوں؟ اس کا جواب آپ کو آگے ملے گا،شاید اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانے ہی میں وہ اپنی بہتری سمجھتے ہیں۔

    چند گزارشیں:

    دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں،کیا عجب ہے کہ کوئی صاحب میری اس تحریر کو مسلم لیگ اور کانگریس کی کشمکش کا انتقامی نتیجہ قرار دیں،خدا جانتا ہے کہ لیگ اور کانگریس کی کشمکش سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اور مولانا آزادؔ کو خدانخواستہ بدنام کرنے اور انکی بلند شخصیت کو مجرور کرنے کے لئے یہ کام کرنا تھا تو اس کا سب سے زیادہ مناسب وقت تقسیم ہند کا زمانہ تھا جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے بہت سے جوشیلے کارکن ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھال رہے تھے،یہ بحث میں اس وقت چھیڑتا تو ایک طبقہ میں مقبولیت حاصل ہوسکتی تھی مگر اس قسم کی ضمیر فروشانہ مقبولیت کا تصور نہ اس وقت میرے ذہن میں تھا اور نہ اب ہے ،اس طرح کی اوچھی باتوں سے مجھے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔
    ہندوستان بٹ گیا،پاکستان بنے ہوئے بھی چار سال ہوچکے،لیگ اور کانگریس کی نزاع کبھی کی ختم ہوچکی،ہندوستان میں جو مسلمان رہتے ہیں تقسیم ہند سے قبل چاہے ان کی روش کچھ بھی رہی ہو مگر اب وہ مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے پاکستانی مسلمانوں کے تمام مظلوم بھائیوں سے ہمدردی ہے اور وہ کسی کے بارے میں برا جذبہ نہیں رکھتے۔۔۔۔۔اگر میں پاکستان کے بجائے ہندوستان میں ہوتا اور ان واقعات کا انکشاف ہوتا تو میں وہاں بھی اس انکشاف کو منظرِ عام پر لے آتا۔
    کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اس انکشاف کی آخر کون سی ضرورت محسوس ہوئی!اس کے جواب میں عرض ہے کہ اسی وقت چونکہ یہ واقعات منکشف ہوئے اس لئے ان کو ظاہر کیا جارہا ہے اگر وہ اس سے پہلے معلوم ہوجاتے تو اسی وقت ان کو آشکار کردیا جاتا اور ہر وہ بات جو کسی واقعہ کی غلطی ظاہر کرتی ہو اس کے لئے کسی موسم وقت اور زمانہ کی قید نہیں ہے سوائے اس صورت کے جبکہ اس کے اظہار سے کسی بڑے فتنہ کے پیدا ہونے کا اندیشہ اور کسی وقومی،دینی اور اخلاقی نقصان کا خطرہ ہو۔
    آگر کوئی شخص اس بات کا اعلان کرے کہ “ماہرؔ القادری شراب پیتا ہے ” تو اس کے بارے میں کئی طرح کی رائیں ہوں گی،کوئی کہے گا کہ مسلمان کے کسی گناہ اور اخلاقی کمزوری کا اس طرح افشا نامناسب ہے،چھپانا،چسم پوشی سے کام لینا اور نظرانداز کردینا ہی بہتر ہے ،جو کوئی بندوں کے عیب چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں کو چھپائے گا ،کہیں سے آواز آئے گی کہ ممکن ہے کہ اپنی زندگی کے پچھلے دور میں ماہرؔ شراب پیتا ہو اور اس نے اب شراب خواری سے توبہ کرلی ہو،کیا کہنے والا اپنی آنکھ سے ماہرؔ کو شراب پیتے ہوئے دیکھ آیا ہے،کوئی کہے گا کہ فاسق اور فجار اسی قابل ہیں کہ ان کو رسوا کیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت اور نصیحت ہو۔۔۔۔۔غرض اس باب میں لوگوں کی مختلف رائے ہوں گی مگر اکثریت کا رجحان “پردہ پوشی” کی جانب ہی ہوگا،مگر میں یہ کہوں کہ میں نے دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پائی ہے اور حضرت مولانا انورؔ شاہ مرحوم نے اپنے ہاتھ سے میرے سر پر دستارِ فضیلت باندھی ہے” حالانکہ میں نے دیوبند کے مدرسہ میں کبھی تعلیم نہیں پائی اور جب وہاں میں نے پڑھا ہی نہیں تو دستارِ فضیلت اور سندِ تکمیل کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ہاں!تو میری اس غلط بیانی کے سلسلہ میں سب کی ایک رائے ہی ہوگی،دو یا اس سے زیادہ رائیں ہو ہی نہیں سکتیں،جو شخص واقفِ حال ہوگا اس کا فرض ہوگا کہ وہ میری اس غلط بیانی کی تردید کرے!میری اخلاقی کمزوریوں کے اعلان و اظہار اور میری غلط بیانی کی تردید کی نوعیت ایک جیسی نہیں ہے،اس کا حال ایسا ہی ہے جس طرح تاریخی غلطیوں اور علمی فروگزاشتوں پر احتساب کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔اب اگر کوئی شخص کسی کی شخصیت اور ذات و صفات پر ایمان بالغیب رکھتا ہو اور اس نے یہ طے ہی کر لیا ہو کہ “میں فلاں شخصیت کے بارے میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتا ،کیسی ہی روشن دلیلیں کیوں نہ لائی جائیں مگر میری عقیدت اور حسنِ ظن میں کمی نہیں آسکتی تو اس ذہنیت کے افراد کو افسوس ہے میں مطمئن نہیں کرسکتا اور ان کی دشنام طرازیوں کو میں پہلے ہی معاف کئے دیتا ہوں،میرے مخاطب وہ اہلِ حق اور اربابِ بصیرت ہیں جو “حق” کو شخصیتوں سے بلند سمجھتے ہیں۔

    خاموش سفر(؟) :

    جامعہ ازہر قاہرہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کے تعلیم پانے کی سب سے پہلی اطلاع مسٹر مہادیو ڈیسائی کی کتاب کے ذریعہ لوگوں تک پہونچی،مہادیو ڈیسائی(آنجہانی) کے نام اور کام سے لکھے پڑھے لوگ ناآشنا نہیں ہیں،وہ گاندھی جی کے نہایت معتمد علیہ رفیق شریک کار اور پرائیوٹ سکریٹری تھے،گاندھی جی کے صحافتی کاروبار انھی سے زیادہ تر متعلق تھے،مسٹر ڈیسائی انگریزی کے بہت اچھے انشاپرداز بھی تھے،انھی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی “لائف”
    MAULANA ABULKALAM AZAD
    THE PRESIDENT OF THE INDIAN NATIONAL CONGRESS
    A BIOGRAGHICAL MEMOIR
    BY
    MAHADEV DESAI

    لکھی ہے،اس کتاب پر “پیش لفظ”FOREWARD خود مہاتما گاندھی نے تحریر فرمایا ہے،یہ پیش لفظ بہت زیادہ مختصر ہے کل چھ سطریں ہیں اور ۱۸ مئی ۱۹۴۰ء تاریخ درج ہے،ایک صفحہ سے کچھ کم کا دیباچہ بھی ہے جس کے لکھنے والے مسٹر ہوریس الگزنڈر ہیں۔۔۔۔۔یہ اٹھاسی ۸۸ صفحوں کی کتاب ہے جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کے واقعات کے ساتھ ساتھ بہت سے سیاسی مباحث بھی آگئے ہیں جن کا یہاں تذکرہ کیا جائے گا تو میں اپنے موضوع سے بہت دور چلا جاؤں گا،مولانا آزاد کے جو سوانح حیات اس کتاب میں درج ہیں ان کا مآخذ مولانا موصوف کی خود نوشت سوانح عمری “تذکرہ” اور خود ان کی زبان سے سنے ہوئے حالات ہیں۔
    اس کتاب کے صفحہ ۸ پر یہ عبارت ہمیں ملتی ہے:
    (ترجمہ:)
    “سرسید احمد خاں نے قدامت پرستی کی طاقتوں کے خلاف مہم شروع کردی اور انگریزی اور جدید سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مسلم قوم سے پرجوش اپیل کی،میرے (یعنی مولانا ابوالکلام آزاد کے) والد بہرحال اس چیز کو گوارا نہ کرسکتے تھے،انھوں نے مجھے اور میرے بھائی کو قدیم طرز پر تعلیم دلائی،اس لئے میرے لئے کسی انگریزی اسکول میں بھیجے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا،وہ چاہتے تھے کہ میں کسی نہ کسی طرح فاضل ترین علماء کی جماعت میں اپنا نام پیدا کروں،لہذا انھوں نے مجھے ۱۹۰۵ء میں اپنے ذاتی مصارف سے مصر بھیجا تاکہ قاہرہ کی مشہور یونیورسٹی الازہر میں عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکوں،میں وہاں دو سال تک متعلم رہا اور ۱۹۰۷ء میں ہندوستان واپس آیا”

    اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۰۵ء میں مصر تشریف لے گئے اور دوسال یعنی ۱۹۰۷ء تک وہاں قیام فرمایا۔۔۔۔۔اب میں اپنی تحقیق کی بنا پر مولانا موصوف کی زندگی کی مصروفیت کے چند سال تاریخی سنین کے ساتھ یہاں پیش کرتا ہوں،میری اس تحقیق کا نقطہء آغاز ۱۹۰۲ء ہے!
    جولائی ۱۹۰۲ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کلکتہ میں موجود تھے،اسی مہینہ میں شاہ ایڈورڈ ہفتم کے جشنِ تاج پوشی کے سلسلہ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا جس میں مولانا موصوف نے بھی مدحیہ قطعے پڑھے تھے۔۔۔۔فرماتے ہیں:
    شد تخت نشیں بہ تخت انگلینڈ
    خوش بخت شد است بحتِ انگلینڈ
    یعنی ایڈورڈ شاہ ذی جاہ
    شد تخت نشیں بہ عزت و جاہ

    ہوئی لندن میں از فضل الٰہی
    نہایت شان سے جب تاج پوشی
    کہا آزادؔ نے بڑھ کر ادب سے
    مبارک شاہ کو اب تاج پوشی

    اس مشاعرہ کے صدر جناب رنجور عظیم آبادی تھے اور مولوی غلام یسین آہؔ نے تقریر کی تھی،اخبار “الپنج” بانکی پور(مورخہ ۵جولائی۱۹۰۲ء)میں اس مشاعرے کی کاروائی تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔
    ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ءمیں مولانا آزادؔ کلکتہ سے “لسان الصدق” نکالتے تھے،۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۶ء میں الندوہ کے ایڈیٹر رہے اور ۱۹۰۶ء کے بعد ۱۹۰۸ء تک “الوکیل” (امرتسر) کی ادارت مولانا ممدوح سے متعلق رہی۔۔۔۔یہ ہے ۱۹۰۲ء سے لیکر ۱۹۰۸ء تک مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ہندوستان میں قیام اور ان کی مصروفیات کی تفصیل!مسٹر مہادیو ڈیسائی نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی ان سنین سے کسی طرح مطابقت نہیں ہوتی،دو چار مہینہ کا فرق اور اختلاف ہوتا تو اسے کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر فِٹ کیا جاسکتا تھا مگر یہاں تو دوسال کی مدت کا فرق ہے جس کی کوئی توجیہ اور تاویل ہماری سمجھ میں نہیں آتی،مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ جن دوسالوں میں مولانا آزادؔ کا قاہرہ میں قیام بتایا جاتا ہے ان میں وہ الندوہ اور الوکیل کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
    مولانا ابوالکلام آزادؔ نے “تذکرہ” میں اپنے خاندان کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے خانوادے میں مدتوں ارشاد و تصوف کی شمعیں روشن رہی ہیں،اس لئے ان سنین اور واقعات کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے مولانا کے خاندانی تصرفات ہی سے مدد لی جاسکتی ہے،یعنی یہ فرض کرلیا جائے کہ مولانا آزادؔ بہ وقتِ واحد ہندوستان میں بھی موجود تھے اور قاہرہ کے جامعہ ازہر میں بھی تعلیم پارہے تھے۔۔۔۔۔۔اس کے سوا اور کوئی تاویل،توجیہ اور تطبیق ہمارے ذہن میں نہیں آتی۔
    کسی شخص سے اظہارِ واقعہ میں کسی سبب سے بھول چوک ہوجائے اور وہ اس کا ایچ پیچ کے ساتھ نہیں،صاف اور واضح لفظوں میں اقرار کرلے تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا ہے لیکن غلط بیانی کو صحیح اور درست ثابت کرنے کی کوشش جب بھی کی جائے گی،کچھ اور غلط بیانیوں کا اضافہ ہوجائے گا،یہی چیز یہاں مشاہدہ میں آرہی ہے۔
    مولانا ابوالکلام آزاد کے سفر مصر و عراق کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور یہ باتیں تحریر تک میں آگئیں تواس حاشیہ آرائی کی ضرورت محسوس کی گئی،۱۶فروری۱۹۴۹ء کا “نیا ہندوستان” ہمارے سامنے ہے،جس میں ایک مضمون کا عنوان “امام الہند” ہے،اس مضمون کے شروع میں یہ نوٹ درج ہے:
    “کئی سال کی کوشش و محنت سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح حیات کا حصہ اول مرتب کیا گیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ بے انتہا مصروفیت کے باوجود امام الہند نے ہمارے مرتب کردہ سوالات کے تحریری و زبانی ضوابات بھی ازراہِ کرم عنایت فرمائے لیکن جب ترتیب کے بعد اس کی اشاعت کا سوال آیا تو امام الہند نے سختی سے روکا اور فرمایا کہ کسی شخص کی سوانح حیات مکمل طور پر زندگی میں مرتب نہیں ہوسکتی ،اس لئے فی الحال اس ارادہ کو ملتوی کردیا جائے،اس کا ایک حصہ ہدیہ ناظرین کیا جارہا ہے اور ان شاءاللہ کبھی کبھی پیش ہوتا رہے گا۔۔۔۔شاہدؔ شیروانی”
    اس شذرہ کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات کا آغاز ہوتا ہے،اس مقالہ کے دوسرے پیراگراف کے شروع کے جملے یہ ہیں:
    “آپ کا بچپن مکہ اور مدینہ میں بسر ہوا،مدینہ میں ان کے والد کا مکان دینی تعلیم کا ایک بہت بڑا مرکز تھا،ابتدائی تعلیم آپ نے والد سے حاصل کی آپ نے قاہرہ کی مشہور عالم یونیورسٹی الازہر میں میں بھی تعلیم حاصل کی ہے،چودہ سال کی عمر میں آپ نے جامعہ الازہر میں علوم مشرقی کا نصاب پورا کرلیا تھا۔۔۔۔”
    یہاں پہونچ کر “کر لیا تھا” پر یہ نشان (؂۱) ثبت ہے اور ذیل کا فٹ نوٹ درج ہے،جسے بلفظہ نقل کرتے ہیں:
    “یہ غلط ہے کہ مولانا نے جامعہ ازہر قاہرہ میں تعلیم پائی ہے،مسٹر آصف علی کی طرح دوسرے سوانح نگاروں مہادیوڈیسائی وغیرہ نے بھی دھوکا کھا ہے،۱۹۰۶ء میں مصر وغیرہ گئے تھے،ظاہر ہے کہ اس وقت ۱۸سال کی عمر تھی اور ہندوستان کی صحافتی و علمی دنیا میں اپنے معرکۃ الارا مضامین کی بدولت کافی شہرت و وقعت حاصل کرچکے تھے،تکمیل تعلیم ۱۵،۱۶ سال کی عمر میں ہی ہوچکی تھی،یہ ضرور ہے کہ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کی طرح اکابر جامعہ ازہر اور مفتی محمد عبدہ کے “دارالعلوم” کے شیوخ سے استفادہ کیا اور ان کی علمی مجالس کی زینت بنے،اس کی تحقیق ۲۳جنوری ۱۹۴۷ء کی ایک ملاقات میں خود امام الہند سے کرچکا ہوں،اس سفر میں برادرِ گرامی غلام یسین آہ مرحوم بھی امام الہند کے ساتھ تھے مگر وہ عراق سے واپس آگئے اور مولانا ۱۹۰۷ء میں ایک سال کی سیر و سیاحت کے بعد واپس ہوئے۔۔۔شاہد شیروانی”
    مولانا ابوالکلام آزاد کے سفرِ مصر کا واقعہ تو مسٹر مہادیو ڈیسائی کی کتاب اور جناب شاہد خاں شیروانی کے اس شذرہ میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے،لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا ان میں دو زبردست اختلافات موجود ہیں۔ایک سنِ تاریخ کا اختلاف اور دوسرا مقصد سفر اور وہاں کی مصروفیات کا اختلاف!مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے کہ مولانا ۱۹۰۵ء میں مصر تشریف لے گئے تھے اور شاہد شیروانی اس سفر کا سنہ۱۹۰۶ء بتاتے ہی،ڈیسائی لکھتے ہیں کہ مولانا جامعہ ازہر میں عربی کی تعلیم پانے کی غرض سے گئے تھے اور دوسال تک اسی سلسلہ میں وہاں قیام کیا اور شاہد شیروانی کا بیان ہے کہ مولانا نے جامعہ ازہر میں سرے سے تعلیم ہی نہیں پائی ہاں!یہ ضرور ہے کہ “اکابر جامعہ ازہر اور مفتی محمد عبدہ کے دارالعلوم کے شیوخ سے استفادہ کیا اور ان کی علمی مجالس کی زینت بنے۔۔۔۔”
    یہ عجیب و غریب اختلاف اور تضاد ہے،عجیب و غریب ہم اس بنا پر کہہ رہے ہیں کہ مسٹر ڈیسائی اور شاہد شیروانی نے جو کچھ لکھا ہے خود مولانا ابوالکلام آزاد کی زبان سے سن کر لکھا ہے،آخر ہم ان دونوں میں سے کس کے بیان کو صحیح سمجھیں۔۔۔۔ایک واقعہ یا ایک بات بہت سے راویوں سے جب سنی جاتی ہے یا اصل شخص اور اس کے راویوں کے درمیان مدت اور زمانہ کے اعتبار سے فرق اور طول ہوتا ہے تو اس قسم کے اختلافات کے لئے گنجایش نکل سکتی ہے،مگر یہاں تو راویوں کا سلسلہ ہی درمیان میں نہیں ہے،اصل شخص کہتا ہے اور سننے والا روایت کرتا ہے اور یہ روایتیں اس شخص کی زندگی ہی میں پھیلتی ہیں،اس اعتبار سے روایات کا یہ تضاد اور اختلاف یقیناً عجیب و غریب ہے
    مسٹر مہا دیو ڈیسائی کی کتاب ۱۹۴۰ء میں شائع ہوئی تھی،ناممکن ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے اسے نہ پڑھا ہو،جب وہ لکھی جارہی تھی اس کا بھی مولانا کو علم تھا،مسٹر ڈیسائی نے مولانا کے سفرِ مصر کے سلسلہ میں اگر کوئی غلط بات لکھ دی تھی تو اس کی ہاتھ کے ہاتھ تردید کردینی چاہیئے تھی،مگر نہیں کی گئی۔۔۔۔جب یہ بات موضوعِ بحث بنی تو ۱۹۴۷ء میں اس کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا اسے شاہد شیروانی کے حوالہ سے اوپر درج کیا جاچکا ہے۔
    یہ تو مولانا ابوالکلام آزاد کے سفرِ مصر کی داستان رہی،اب عراق،ایران اور لبنان کے سفر کا حال سنئے۔۔۔۔
    “شکر کے معاملہ میں اگر کسی گروہ کو حقیقت آشنا پایا تو وہ ایرانی ہیں اگرچہ چائے کی نوعیت کے بارے میں چنداں ذی حس نہیں مگر یہ نکتہ انھوں نے پالیا ہے،عراق اور ایران میں عام طور پر یہ بات نظر آئی تھی کہ چائے کے لیے قند کو جستجو میں رہتے تھے اور اسے معمولی شکر پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ قند صاف ہوتی ہے اور وہی کام دیتی ہے جو موٹے دانوں کی شکر سے لیا جاتا ہے،نہیں کہہ سکتا کہ اب وہاں کیا حال ہے؟”(غبارِ خاطر صفحہ ۱۷۹،۱۸۰)
    قند اور چائے کے بعد،موسم کا ذکر فرماتے ہیں:
    “غالباً ۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ بمبئی میں مرزا فرصت شیرازی صاحب آثار العجم سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا وہ برسات کا موسم پونا میں بسر کر کے لوٹے تھے اور کہتے تھے کہ پونا کی ہوا کے اعتدال نے ہوائے شیراز کی یاد تازہ کردی
    اے گل بہ تو خر سندم تو بوئے کسے داری!
    میرا ذاتی تجربہ معاملہ کو یہاں تک نہیں لے جاتا لیکن بہرحال شیراز میں مسافر تھا اور مرزا موصوف صاحب البیت تھے و صاحب البیت ادری بما فیہا!” (غبارِ خاطر ۱۹۳،۱۹۴)
    شیراز کے بعد لبنان کا ذکر آتا ہے،لکھتے ہیں:
    “لوگ گرمیوں میں پہاڑ جاتے ہیں کہ وہاں کی گرمیوں کا موسم بسر کریں،میں نے کئی بار جاڑوں میں پہاڑوں کی راہ لی کہ وہاں جانے کا اصلی موسم یہی ہے،متنبیؔ بھی کیا بے ذوق تھا کہ لبنان(اگر متنبیؔ کا اور حافظ کے شعروں کا ذکر کرنا تھا تو اس کے لئے لبنان اور شیراز و قزوین کی سیر و سیاحت کی افسانہ طرازی سے ہٹ کر،دوسرا پیرایہ بھی مولانا اختیار فرما سکتے تھے،مولانا آزاد فطرتاً خوش ذوق اور نفاست پسند واقع ہوئے ہیں،ایران کے چمن زاروں کی سیرونظارگی کو اس پر شاہد بنانے کی کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی۔ماہرؔ) کے موسم کی قدر نہ کرسکا میری زندگی کے چند بہترین ہفتے لبنان میں بسر ہوئے ہیں۔”(غبارِ خاطر صفحہ ۱۹۸)
    ایران کے چمن زاروں میں مرغانِ خوش الحان کی نغمہ سنجی کا افسانوی احوال پڑھنے کی چیز ہے:
    “حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک شخص نے شیراز یا قزوین کے گل گشتوں کی سیر نہ کی ہو وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ حافظ کی زباں سے یہ شعر کس عالم میں ٹپکے تھے:
    بلبل بہ شاخِ سرو بہ گلبانگ پہلوی
    می خواند دوش درسِ مقامات معنوی
    یعنی بپا کہ آتشِ موسیٰ نمود گل
    تا از درخت نکتہ تحقیق ۔۔۔۔
    مرغانِ باغ قافیہ سنجدو بذلہ گو
    تا خواجہ مے خورد بہ غزلہائے پہلوی
    یہ جو کہا کہ مرغانِ باغ “قافیہ سنجی” کرتے ہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہے،واقعہ ہے میں نے ایران کے چمن زاروں میں ہزار کو قافیہ سنجی کرتے خود سنا ہے۔(غبارِ خاطر صفحہ ۲۳۶)

    گمنام سیاحت

    جہاں تک ہماری تحقیق اور معلومات کا تعلق ہے،ایران،عراق اور لبنان کے سفر کا ذکر “غبارِ خاطر” کی تصنیف پہلے اور کہیں نہیں ملتا،مسٹر ڈیسائی نے اپنی کتاب میں سفرِ مصر کا تو ذکر کیا ہے اور مولانا آزاد کے زبانی بیان کے حوالہ سے کیا ہے مگر عراق،ایران اور لبنان کی سیر و سیاحت کا کہیں ذکر تو کیا نام تک نہیں لیا۔احمد نگر کے قلعہ میں جب مولانا نظر بند تھے اور “غبارِ خاطر” کے خطوط لکھ رہے تھے،اس زمانہ میں عراق،ایران اور لبنان کے سفر کا ایکاایکی کس طرح کشف ہوگیا،اس سے پہلے لبنان کے پہاڑوں کے مناظر اور شیراز و قزوین کے چمن زاروں میں مرغانِ خوش الحان کی نغمہ سنجیاں،آخر مولانا کے قلب و دماغ کے کس گوشہ میں بند تھیں۔۔۔شاید اسیری اور قید و بند میں حافظہ ضرورت سے زیادہ تیز،حساس اور جدت طراز ہوجاتا ہے۔
    مصنفوں اور انشاپردازوں کی یہ عادت ہے کہ جب انھیں کوئی سفر درپیش آتا ہے تو وہ کسی نہ کسی عنوان سے غیر ممالک کی سیر و سیاحت کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور وہ انشاپرداز جو رسالوں اور اخباروں کے ایڈیٹر بھی ہوں وہ تو اپنے سفر کے ذکر سے باز آ ہی نہیں سکتے۔
    علامہ شبلی نعمانی نے مصر اور ترکی کا سفر فرمایا تو اس سفر کا حال کتابی صورت میں شائع کیا،رائیس الاحرار مولانا محمد علی مرحوم اور مولانا سید سلیمان ندوی کے سفرِ انگلستان کا حال ان کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے،سر شیخ عبدالقادر مرحوم کا سفرنامہ ہماری نظر سے گزرا ہے،اور تو اور پیسہ اخبار کے ایڈیٹر مولوی محبوب عالم انگلستان گئے تھے تو ان تک نے اپنے سفر کے حالات لکھ کر چھپوائے تھے،بڑے آدمیوں کے ساتھ اپنا ذکر مناسب نہیں سمجھتا مگر ضرورت آپڑی ہے تو عرض کرتا ہوں کہ میں نے ۱۹۳۳ء میں عراق کا سفر کیا تھا اور وہاں سے واپس آکر درجنوں مضامین لکھے اور “بغداد کے چمن میں ایک شام” کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی جو میرے مجموعہ کلام میں موجود ہے!آخر مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے سفر اور سیاحت کا ذکر کیوں نہیں فرمایا اور جو ذکر ان کے حوالہ سے لوگوں تک پہنچا ہے وہ چند سال کی مدت کے اندر ہی کا ہے،اتنی مدت تک ان واقعات پر سکوت اور گمنامی کے پردے آخر کس لیے پڑے رہےاور ان مشاہدات اور واردات کو “شدید راز” کی طرح کیوں چھپایا گیا۔
    الندوہ،الوکیل اور الہلال کے صفحات مولانا آزاد کے ذکر سے آخر کیوں خالی ہیں اور یہ کس قسم کی گمنام سیاحت اور چپ چاپ سفر ہے کہ ان کے معاصرین اور دوستوں کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی،نہ اس زمانے کے یا بعد کے کسی اخبار میں مولانا کے سفر کا کوئی حال،اطلاع،خبر یا تفصیل چھپتی ہے اور نہ مولانا ہندوستان میں اپنے کسی دوست اور عزیز کو مصر،عراق،ایران اور لبنان سے کوئی خط لکھتے ہیں۔۔۔۔اور پھر حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ مولانا آزاد اپنی خودنوشت سوانح عمری “تذکرہ” میں اپنے بارے میں اور تو سب کچھ لکھتے ہیں مگر اس سیر و سیاحت کا حال نہیں لکھتے۔
    بعض لوگ یقیناً اس طرح کے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی جبلت پر تواضع اور انکسار کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ اپنے بارے میں بہت ہی کم کہتے ہیں،مگر مولانا آزاد کا “تذکرہ” گواہ ہے کہ وہ منکسرالمزاج لوگوں میں سے بھی نہیں ہیں،اپنے خاندان اور اپنے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے،بڑے آدمیوں میں سے شاید بہت ہی کم نے اپنے متعلق اتنا کچھ لکھا ہو،پھر جو شخص “چائے” کے ذکر میں صفحے کے صفحے لکھ سکتا ہے اور پرندوں کے تذکرے کو ایک مستقل باب میں پھیلا سکتا ہے،(“غبارِ خاطر” میں یہ تمام تفصیل ہوجود ہے!ماہرؔ) وہ مصر،عراق،ایران اور لبنان کی سیاحت کرتا ہے اور اس کی زبان بالکل گنگ اور اس کا قلم قطعاً ساکن رہتا ہے اور سیر و سیاحت کے حالات قلم بند کرنے کا کوئی ولولہ ہی اس کے اندر پیدا نہیں ہوتا،ایک مدت گزر جانے کے بعد ذکر بھی فرمایا تو اس قدر تشنہ بلکہ استعاروں اور افسانوی انداز میں کہ پڑھنے والے سیر و سیاحت پر مطلع بھی ہوجائیں اور بات زیادہ کھلنے بھی نہ پائے!
    حیرت ہے کہ مولانا آزاد ایران کا سفر کریں،شیراز اور قزوین بھی جائیں،اور وہاں کی صرف چائے،قند اور مرغانِ چمن کی نغمہ سنجی کا یوں ہی سا ذکر کے رہ جائیں،کیا پارس کے اکابر،علماء،مشاہیر،آثارِ قدیمہ،کتب خانے،بازار،علمی درسگاہیں،بیستون،رکنا باد،گلگشت،مصلا اور سب سے بڑھ کر سیاسی حالات۔۔۔۔۔ان میں سے کوئی چیز بھی موضوعِ نگارش اور اور عنوانِ اظہار بننے کے قابل نہ تھی ان میں سے ہر “عنوان” سرسری نہیں تفصیل کا محتاج بلکہ مستحق تھا۔۔۔مولانا آزاد فارسی شاعری سے غیر معمولی شغف رکھتے ہیں اس ذوق کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ فارسی شعر استعمال کرنے کے لئے نثر میں تمہید باندھتے اور زمین ہموار کرتے ہیں مگر ایران جاکر وہاں کے کسی شاعر(رہا مرزا فرصتؔ شیرازی کا ذکر،سو ان سے مولانا بمبئی میں پہلے ہی مل چکے تھے۔ماہرؔ) سے نہیں ملتے،اور جو ملتے ہیں تو اس کا ذکر نہیں فرماتے،یہ سکوت بھی قیامت کا سکوت ہے!
    کسی واقعہ کی تحقیق کے دو ذریعے ہیں روایت اور درایت،ہم نے ان دونوں ذریعوں سے کام لیا ہے،اور ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ مولانا آزادؔ کے مصر،عراق،ایران اور لبنان کا سفر ایک افسانہ نگار کی شوخیء فکر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

    دلی۔۔۔یاکھیم کرن

    مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں جب راقم الحروف نے خط بھیجا تھا،تو میں واقعات کی تحقیق ہی کر رہا تھا،واقعات پوری طرح کھلے نہ تھے اور یہ تحقیق نامکمل تھی،بہرحال تحقیق کا سلسلہ جاری رہا اور بہت سی دوسری باتیں بھی معلوم ہوئیں جن کا ذکر نہ کروں گا تو یہ مضمون ادھورا رہ جائے گا۔
    مولانا آزاد اپنے کو الہلال میں “دہلوی” لکھا کرتے تھے مگر دہلی نہ ان کا مولد ہے اور نہ ان کا منشاء ہے،مسٹر مہادیو ڈیسائی نے لکھا ہے(اور جو لکھا ہے اس کا مآخذ مولانا آزاد کا “تذکرہ” اور ان کا زبانی بیان ہے) کہ مولانا ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور دس سال تک وہیں رہے،۱۸۹۸ء میں ان کے والد مولانا خیرالدین کلکتہ میں آکر مقیم ہوگئے اور مولانا آزاد بھی ان کے ساتھ چلے آئے اور کلکتہ ہی میں درسِ نظامی کی تکمیل کی۔۔۔دہلی سے مولانا آزاد کی وجہِ نسبت یہ البتہ ہوسکتی ہے کہ بقول مسٹر ڈیسائی ان کے والد دہلی میں رہتے تھے،۱۸۵۷ء کے آشوبِ غدر کے بعد انھیں دہلی چھوڑنی پڑی اور اپنے مرید نواب یوسف علی خاں والی رامپور(نواب یوسف،مولانا آزاد کے والدِ بزرگوار مولانا خیرالدین کے مرید اور عقیدت مند تھے یہ بھی تحقیق طلب ہے!)کے پاس چلے گئےاور نواب صاحب نے مولانا خیرالدین کے بمبئی جانے کا انتطام کردیا،بمبئی سے وہ مکہ چلے گئے۔
    عرض کرنا یہ ہے کہ مولانا نے اپنے خاندان حالات کے سلسلہ میں بہت کچھ لکھا ہے مگر انہوں نے کھیم کرن کا نام نہیں لیا،اس مضمون کے پڑھنے والے متحیر ہوں گے کہ یہ کھیم کرن کیا بلا ہے؟سنئے،قصور(مغربی پنجاب) سے امرت سر ریل کےذریعہ جاتے ہوئے ایک قصبہ کھیم کرن پڑتا ہے مولانا آزاد کے دادا جن کا نام عمردین اور عرف “چھیکڑی” تھا کھیم کرن ہی میں بودوباش رکھتے تھے،مولانا خیرالدین کے بڑے بھائی یعنی مولانا آزاد کے تایا کا نام امام دین تھا،عمر دین نے کھیم کرن کی سکونت ترک کردی تھی،مگر اس کا پتا نہ چل سکا کہ وہاں سے وہ پھر کس جگہ جاکر بس گئے،مولانا آزاد کی جب شہرت ہوئی تو وہاں کے لکھے پڑھے لوگ آپس میں کہا کرتے تھے کہ ہماری بستی کے عمردین کے پوتے نے اتنا نام پیدا کیا ہے!کوئی چاہے تو کھیم کرن جاکر اس واقعہ کی آج بھی تحقیق کرسکتا ہے۔

    رکن المدرسین

    مولانا آزاد نے اپنے “تذکرہ” میں لکھا ہے کہ ان کے اسلاف کو “رکن المدرسین” کا معزز عہدہ شاہانِ مغلیہ نے عطا فرمایا تھا(اس وقت تذکرہ میرے سامنے نہیں ہے،اپنے حافظہ کے اعتماد پر روایت بالعنیٰ کررہا ہوں)۔۔۔۔۔۔اپنے محدود مطالعہ پر اکتفا اور اعتماد نہ کرتے ہوئے میں نے متعدد حضرات سے جو ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں “رکن المدرسین” کے بارے میں دریافت کیا مگر سب نے لاعلمی ظاہر کی،ہر ایک نے یہی کہا کہ کسی تاریخ کی کتاب میں اس نام کا کوئی علمی عہدہ ہماری نظر سے نہیں گزرا،میں عرض کرتا ہوں کہ اول تو “رکن المدرسین” کی یہ ترکیب ہی غلط ہے،”رکن العلم” یا اسی قبیل کی کوئی ترکیب ہونی چاہئے تھی،”رکن المدرسین” کا انگریزی ترجمہ
    Pillar of teachers
    صحیح ہے،مگر مسٹر مہادیوڈیسائی نے انگریزی ترجمہ میں اصل لفظ کی معنوی غلطی کو دور کرتے ہوئے اس کا ترجمہ
    Pillar of learnings
    کیا ہے۔۔۔اس کے علاوہ اگر شاہانِ مغلیہ کے یہاں واقعی “رکن المدرسین” کوئی معزز علمی عہدہ اور منصب تھا تو مختلف زمانوں میں اس عہدہ کے زیادہ مستحق عبدالنبی،مخدوم الملک،ملا عبدالقادر بدایونی،ابوالفضل،فیضیؔ،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،ملا جیون،ملا عبدالحکیم سیالکوٹی،ملا نظام الدین اور حضرت شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم اور دوسرے علماء و اکابر تھے۔

    “الہلال” کے مضامین

    سہ روزہ “مدینہ” (بجنور) کا ۱۷ اگست ۱۹۵۱ء کا شمارہ میرے سامنے ہے صفحہ(۲) پر جو “اداریہ” ہے اس عنوان ہے:
    “خانقاہِ عظمتِ اسلام”
    راجدھانی میں امام الہند کے چند لمحے
    اس مضمون میں “مدینہ” کے ایڈیٹر نے مولانا آزاد سے اپنی ملاقات کا حال تفصیل کے ساتھ لکھا ہے،جس کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے:
    “۱۹۴۷ء میں مولانا حیدرزمان صدیقی صاحب کی کتاب “اسلامی نظریہ سیاست” مکتبہ دین و دانش بانکی پور(پٹنہ) سے شائع ہوئی ہے،مولانا سید سلیمان ندوی نے اس کا دیباچہ لکھا،دیباچہ کے حاشیہ پر ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ “الہلال” میں چونکہ مضمون نگاروں کے نام نہیں لکھے جاتے تھے،اس لئے الہلال کے مضمونوں کے مجموعے شائع کرنے والوں نے بلا تحقیق ہر مضمون کو مولانا ابوالکلام صاحب کی طرف منسوب کردیا حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔۔”الحریۃ فی الاسلام” “تذکار نزولِ قرآن”،”حبشہ کی تاریخ کا ایک ورق”،”قصص بنی اسرائیل”،مشہدِ اکبر”(یہ ان چند مضامین میں سے ایک مضمون ہے جس پر “الہلال” کو ناز ہے!ماہرؔ) وغیرہ میرے مضامین ہیں۔
    ۱۹۵۰ء میں مکتبہ علم و حکمت بہار شریف (پٹنہ) نے سید صاحب کے مضامین کا حصہ اول شائع کیا ہے اس مجموعہ میں وہ مضمون شامل ہے جسے “الہلال” ایجنسی لاہور نے کئی سال پہلے “حقیقتِ الصوم” نامی پمفلٹ کی شکل میں شائع کیا تھا۔۔۔۔میں نے (یعنی ایڈیٹر اخبار مدینہ نے) اس بات کا ذکر کیا تو مولانا(آزاد) نے فرمایا۔۔۔”ہاں!سید سلیمان صاحب نے میرے ساتھ “اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے چھ مہینہ تک کام کیا ہے،وہ ترجمے بھی کرتے تھے اور مضامین بھی لکھتے تھے،خیر اگر وہ مضامین کو اپنا بتاتے ہیں تو میری طرف سے آپ مدینہ میں اعلان کردیجئے کہ وہ مضمون سیدصاحب کا ہے،کچھ مضامین اگر میرے نام کے نہ ہوئے تو میرے بھائی!اس میں میرا بگڑتا کیا ہے؟”
    “آخری جملہ کہہ کر مولانا(آزاد) نے اپنے مخصوص انداز میں جس کی گونج اظہارِ بےنیازی کے موقعہ پر سنائی دیتی ہے ایک قہقہہ لگایا اور پھر سگریٹ کا ایک کش لیا۔۔۔”
    اخبارِ مدینہ کے اداریہ کا جو اقتباس اوپر درج کیا گیا ہے اس سے معاملہ کی نوعیت شاید قارئین سمجھ گئے ہوں گے،اور نہ سمجھے ہوں تو ان کو سمجھانے کے لئے میں تفصیل پیش کئے دیتا ہوں
    مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار “الہلال” جب نکلتا تھا تو دوسرے اہلِ علم اور اربابِ قلم بھی مولانا موصوف کے شریکِ کار اور معاونین تھے،غیر زبانوں کے مضامین کے اردو ترجمے کا کام بھی انجام دیتے تھے اور اپنے اوریجنل مضامین بھی لکھتے تھے،ان مضامین پر عام طور سے ترجمہ کرنے اور لکھنے والوں کا نام درج نہیں ہوتا تھا۔
    ناشرین نے الہلال کے مضامین کا انتخاب کتابی صورت میں جب شائع کیا تو انھوں نے ہر اس مضمون کو جس پر کسی مترجم اور مصنف کا نام نہ تھا مولانا ابوالکلام آزاد ہی کا مضمون سمجھا اور ان سے منسوب کردیا،بےچارے ناشرین کی اس میں کوئی غلطی نہ تھی،خود مجھے بھی اسی طرح کا دھوکا ہو چکا ہے،جب آصفیہ ہائی اسکول حدرآباد دکن کی لائبریری سے “الہلال” کا پورا فائل میں نے لیکر پڑھا تو جن مضامین پر کسی کا نام نہ تھا ان کو میں نے مولانا آزاد ہی کے زورِ قلم اور کاوشِ تحقیق کا نتیجہ سمجھا۔
    ہوسکتا ہے “الہلال” کے مضامین کے یہ مجموعے مولانا ابوالکلام آزاد کی نگاہ سے نہ گزرے ہوں اور وہ اس سے بے خبر رہے ہوں مگر ان مضامین کے سلسلہ میں مولانا موصوف نے اخبار”مدینہ” کے فاضل مدیر کو جس انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے،اس کی کم سے کم مولانا آزاد سے توقع نہ تھی۔۔۔۔اتنی بلندی،اتنی پستی!حیرت اور افسوس بھی!
    مولانا سید سلیمان ندوی نے مولانا آزاد کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا تھا بلکہ انھوں نے الہلال کے مضامین کے مجموعے شائع کرنے والوں کو ٹوکا تھا “مدینہ” کے ایڈیٹر جب ان باتوں کو مولانا آزاد کے علم میں لائے تھے تو اس کا جواب یہ ہونا چاہیئے تھا کہ “جن مضامین کا سید صاحب نے حوالہ دیا ہے وہ واقعی انھی کے ہیں” یہ بات کسی ایچ پیچ طنز اور ابہام و تشابہ کے بغیر دوٹوک انداز میں کہہ دینی چاہیئے تھی اور مولانا آزاد اگر اپنے احساسِ برتری اور وقار و تشخص کا اظہار بھی ضروری سمجھتے تو اس جواب کے ساتھ اس قسم کے لفظوں کا اضافہ بھی فرماسکتے تھے۔۔”سید صاحب کے جو مضامین الہلال میں چھپے ہیں،میری ذات سے ان کی نسبت میرے لئے ذرا بھی باعثِ فخر نہیں ہے۔۔!۔۔۔۔۔۔مگر جواب میں فرمایا یہ گیا۔۔۔۔”خیراگروہمضامینکواپنابتاتےہیںتومیریطرفسےآپمدینہمیںاعلانکردیجئےکہوہمضمونسیدصاحبکاہے،کچھمضامیناگرمیرےنامکےنہہوئےتومیرےبھائی!اسمیںمیرابگڑتاکیاہے!”
    مولانا آزاد کا یہ جواب اپنی جگہ ایک عجیب و غریب قسم کا مغالطہ ہے،جیسی ضرورت آن کر پڑے “انکار” اور “اقرار” “نفی” اور “اثبات” کے دونوں پہلو پیدا کئے جاسکتے ہیں،جواب صاف بھی ہے،اور گول مول بھی ہے،یہ سلیمان ندوی پر طنز بھی ہے اور اپنی فیاضی اور فراخدلی کا ثبوت بھی ہے کہ “وہ مضامین ہیں تو میرے،مگر سید صاحب اپنے بتاتے ہیں تو ان کے ہی سہی۔۔۔۔”اور پھر آخری جملہ فرما کر مولانا آزاد ایک قہقہہ لگاتے ہیں!
    اس پوری بحث کو ذہن میں رکھ کر اب ذرا علامہ شبلی نعمانی کے دو خط ملاحظہ فرمائیے،جو مولانا عبدالسلام ندوی کے نام لکھے گئے تھے:
    ۔۔۔۔۔۔۔تم الہلال میں جاؤ مضائقہ نہیں یہ شرط کرلو کہ تم الہلال میں جذب نہ ہوجاؤ۔اس میں جو کچھ لکھو اپنے نام سے لکھو ورنہ تمھاری زندگی پر بالکل پردہ پڑجائے گا اور آئندہ ترقیوں کے لئے مضر ہوگا۔
    شبلیؔ۔۔۔الہ آباد ۳مارچ۱۹۱۴ء
    (مکاتیب شبلیؔ،حصہ دوم،مکتوب نمبر۵،صفحہ۱۵۲)
    2
    ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے مضامین دیکھتا ہوں،مولوی ابوالکلام صاحب اجازت دیں تو نام لکھا کرو(“مولوی ابوالکلام صاحب اجازت دیں” اس جملہ کے تیور اور اس کا پس منظر ملاحظہ کیجئے!ماہرؔ) ایسے مضامین گمنام ٹھیک نہیں،اس سے کیا فائدہ کہ ایک شخص کی زندگی گم ہوجائے،تمہاری قوت اور نمود سے بہرحال ہماری سوسائٹی کو فائدہ ہوگا۔
    شبلیؔ،اعظم گڑھ ۵۔اکتوبر۱۹۱۴ء
    (آٹھواں خط،صفحہ نمبر ۱۸۰)

    ان خطوں کو خوب غور سے پڑھئے اور پھر مولانا آزاد کے اس جواب پر ایک نگاہ ڈالیئے جو “مدینہ” کے ایڈیٹر کے استفسار پر انھوں نے دیا ہے،اس کے بعد فیصلہ خود آپ ہی پر چھوڑتا ہوں،اپنی زبان سے کیا کہوں!اس خصوص میں اتنا عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ “الہلال” میں بےنام کے مضامین جو چھپتے تھے ان کے بارے میں علامہ شبلیؔ مشتبہ ضرور تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مضمون نگاروں کا نام لکھا جائے تاکہ جس کی جو محنت اور کام ہے وہ اسی سے منسوب ہو،مولانا آزاد کے مزاج اور طبیعت کو بھی علامہ شبلیؔ نعمانی اچھی طرح جانتے پہچانتے تھے،چنانچہ شبلیؔ نے جس مغالطہ سے لوگوں کو بچانے کے لئے عبدالسلامؔ ندوی کو خطوط لکھے تھے،اس مغالطہ میں لوگ مبتلا ہو کر رہے،اس مغالطہ کو خود مولانا ابوالکلام آزاد دور فرما سکتے تھے مگر انھوں نے اس کو اور پیچ در پیچ بنا دیا اور اس کو قہقہوں اور سگریٹ کے کشوں میں اڑا دیا۔

    جزبہء فخر و ناز

    میں نے جو کچھ اوپر لکھا ہے وہ نہ تو معاذاللہ “وحی و الہام” ہے اور نہ “حرفِ آخر” ہے کہ اس پر کسی قسم کا اضافہ و ترمیم ممکن ہی نہیں ہے،جو باتیں میری تحقیق میں آئیں،وہ میں نے بیان کردیں اور خدا جانتا ہے کہ میں نے کسی قسم کی تلبیس اور تحریف یا غلط بیانی سے کام نہیں لیا،کوئی صاحب میری غلطیوں پر مجھے مطلع فرما دیں اور میں مطمئن ہوجاؤں تو “فاران” ہی کے صفحات پر اس کا اعلان کروں گا اور اپنی غلطی اور تحقیق کی کمزوری کو مان لوں گا۔
    مجھ تک اس تحقیق کے دوران جس قدر واقعات پہنچے ہیں،ان میں سے صرف چند واقعات میں ضبطِ تحریر میں لایا ہوں کہ اپنے اطمینان کی حد تک میں نے ان کو معتبر سمجھا،باقی بہت سی باتوں کو میں نے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔مثلاً “تذکرہ” میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے اسلاف میں سے ایک بزرگ کو رفیع الدین سلامی کا شاگرد بتایا ہے اور لکھا ہے کہ یہ (رفیع الدین سلامی) علامہ سخاوی کے شاگرد تھے اور اپنی کتاب “۔۔۔الامع فی اعیان قرن التاسع” میں سخاویؔ نے ان کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔۔مگر ادبی عربی کے ایک بہت بڑے عالم اور ماہر نے مجھ سے کہا کہ میں نے علامہ سخاویؔ کی اس کتاب کو بہت غور و خوض کے ساتھ پڑھا لیکن رفیعؔالدین سلامی کا نام مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔
    جس نے بھی “تذکرہ” کو پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ “تذکرہ” انشاپردازی کے کمال کے علاوہ بہت سے تاریخی واقعات اور علمی مسائل کے حوالے کثرت کے ساتھ ملتے ہیں جو بلاشبہ مصنف کی وسعتِ مطالعہ پر دلالت کرتے ہیں،مولانا آزاد نے لکھا ہے کہ میں “تذکرہ” کو اپنے حافظہ اور یادداشت کی بنا پر مرتب کررہا ہوں۔۔۔۔۔مگر مجھ سے ایک نہایت ثقہ شخص نے بیان کیا کہ “محی الدین صاحب قصوری(جن کو مولانا آزاد نے “عزیزی” لکھا ہے)نے خود مجھ سے کہا کہ آزادؔ جب رانچی میں نظر بند کر کے بھیجے گئے ہیں تو شروع شروع میں بےشک ان کے پاس کتابیں نہ تھیں مگر بعد میں ان کے پاس کتابیں بھیجوا دیں گئیں (کہنے والے کا مقصد غالباً یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن چند کتابوں کا مولانا آزاد نے “تذکرہ” نے ذکر فرمایا ہے،ان کے علاوہ دوسری کتابیں بھی فراہم کردی گئی تھیں۔ماہرؔ) اور “تذکرہ” کی تصنیف کے زمانے میں وہ کتابیں مولانا کے پاس موجود تھیں”
    اس قسم کے بہت سے واقعات کا تذکرہ میں نے نہیں کیا کہ یہ صرف سماعی ہیں اور ان کی مزید تحقیق کے ذرائع مجھے میسر نہ آسکے۔۔۔۔۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی باتیں مولانا آزاد سے آخر ظہور میں کیوں آئیں!اس کا جواب میں نہ دوں گا کہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہے،مسٹر ڈیسائی جنھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے سوانح حیات لکھے ہیں جن کا اوپر ذکر آچکا ہے،انھوں نے جب مولانا آزاد کی خودنوشت “لائف”(تذکرہ) کو پڑھا اور مولانا کی زبانی ان کے حالات سنے تو مسٹر ڈیسائی کے قلم سے یہ جملے بےساختہ ٹپک پڑے:
    (ترجمہ)
    “کہا جاسکتا ہے کہ “فخرِ جائز” جو ایک شریف و اعلیٰ خانوادے اور علمی عظمت کی پیداوار ہے،مولانا صاحب کے خون میں دوڑ رہا ہے اور درحقیقت ایک حیثیت سے تو مولانا اپنے مفخر اسلاف پر بھی سبقت لے گئے۔۔۔۔۔۔”
    مسٹر ڈیسائی،مولانا آزاد کا احترام کرتے تھے سیاسی میدان میں وہ ایک دوسرے کے ہم خیال اور رفیق کار تھے،اس لئے انہوں نے بڑے محتاط انداز میں
    “Legitimate pride”
    یعنی “فخرِ جائز” کہا ہے اوراس طرح ڈیسائی جی نے مولانا آزاد کے مزاج و طبیعت سے واقفیت اور نفسیات شناسی کا ثبوت دیا ہے،بس یہی “جزبہء فخر” ہے جو اپنے ظہور کے لیے طرح طرح کے کالبدا اختیار کرتا ہے جس کی چند جھلکیاں اوپر دکھائی جاچکی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات میں ایسی خوبیاں بلاشبہ موجود ہیں جن پر ان کا فخر کرنا بجا ہے مگر ان کے نیاز مندوں کو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس “بابِ مفاخر” میں کچھ “افسانے” بھی شامل ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ہوتا!

  • الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    فرحانہ صادق “صاب اب میرا کام ہو جائے گا نا”
    اس نے دیوار کی طرف رُخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی.
    “ہاں ہاں بھئی ”
    میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں.
    پھر میں پیسے لینے کب آؤں ؟
    دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اور پھر جھٹک کر لپیٹ لیا.
    “پیسے ملنے تک تمھیں ایک دو چکر تو اور لگانے ہی پڑیں گے. کل ہی میں مالکان سے تمھارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں”
    میں نے شرٹ کے بٹن لگائے، ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم کے دروازے سے باہر جھانک کر آس پاس احتیاطاً ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا.
    ویسے تو نیا چوکیدار وقتا فوقتا چائے پانی کے نام پر میری طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی رقم کے بدلے میں میرا خیر خواہ تھا مگر پھر بھی میں کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا تھا.
    “پھر میں کل ہی آجاؤں” وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی.
    ” کل نہیں ! ! ! ”
    میں روز اس طرح یہاں آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا، اس لیے بس آہ بھر کر رہ گیا.
    ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں. میں نے نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولتے ہوئے سوچا
    ” ارے سنو ! ! تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہے.”
    وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ہوگئی.
    ” اسے اتار کر سیدھی کرلو. میں چلتا ہوں. پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا. اور ہاں احتیاط سے، کوئی دیکھ نہ لے تمھیں.
    زیمل خان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا. تین ہفتے پہلے فیکٹری میں داخل ہونے والے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت میں ٹانگ پر گولی کھا کر گھر میں لاچار پڑا ہوا تھا. مالکان اس کے علاج کے لیے پچاس ہزار دینے کا اعلان کر کے بھول گئے تھے. سو اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی. میں نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام میں اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دے دیا.
    عمر! عمر!
    اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے عقب سے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی. اس کے اور میرے گھر لوٹنے کا وقت تقریبا ایک ہی تھا اور کبھی کبھار تو ہم اسی طرح اکھٹے گھر میں داخل ہوتے تھے. وہ ایک چھوٹے بینک میں کلرک تھی.
    “ایک خوشخبری ہے ” قدرے فربہی مائل وجود کو سنبھالے وہ تیزی سے اوپر آرہی تھی
    خوشی سیے اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں
    ” مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انھوں میرے پروموشن کی بات ہے.”
    دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالی
    “انہوں نے کہا ہے تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہوجائے گا”
    “ارے واہ ! مبارک ہو ” میں نے خوش دلی سے اسے مبارکباد دی
    ” تمھیں پتا ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں، اور وہ آصفہ ہے نا، وہ بھی میرے حق میں نہیں مگر مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں. کیوں نہ ہوں؟ میں اتنی محنت جو کرتی ہوں اور ویسے بھی ….
    وہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے چلی گئی
    میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہورہا تھا کہ اچانک میری نظر اس کی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں میں الجھ گئی.

  • مذہبی جنگیں: یورپ سے مشرقِ وسطیٰ تک

    مذہبی جنگیں: یورپ سے مشرقِ وسطیٰ تک

    جدید سیاسی اسلام تقریباً ایک صدی قبل مصر میں سامنے آیا اور اب یہ مسلم دنیا کو نئے سرے سے مرتب کررہا ہے۔ اسلام اِزم کا نام پانے والے اس مضبوط نظریے کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی آزادی اور عظمت کا دار و مدار ریاست کی جانب سے شریعت نافذ کیے جانے پر ہے، جیسا کہ اسلامی تاریخ کے اکثر ادوار میں ہوتا رہا ہے۔ اسلام پسندوں کی محاذ آرائی شریعت کو مسترد کرنے والے مسلمانوں اور اُنہیں اس استرداد پر اکسانے والے غیر مسلموں کے ساتھ ہے۔ کبھی معتدل اور کبھی متشدد ہوتی اس محاذ آرائی کے بطن سے ۱۹۵۲ء میں مصر اور ۱۹۷۹ء میں ایران کے انقلاب نے جنم لیا، اور ۲۰۰۱ء میں القاعدہ کے حملوں، ۲۰۱۱ء کی عرب بہار اور خود کو اسلامی ریاست کہلانے والی داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے ابھرنے کا سبب بھی یہی ہے۔

    مسلمانوں میں اس تفریق کا سبب اسلام نہیں ہے۔ اصل مسئلہ مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا یہ اختلاف ہے کہ مذہب کو معاشرتی قوانین اور اداروں کی تشکیل میں کتنا حصہ ملنا چاہیے۔ زیادہ تر مسلمان، چاہے وہ شدت پسند ہوں یا نہ ہوں بہرحال جہادی یا انقلابی نہیں ہیں۔ لیکن بہتر عوامی نظام کے حوالے سے جاری کشمکش نے انہیں منتشر کرکے ایسی مخاصمتوں میں ڈال دیا ہے جو سمجھوتا نہیں ہونے دیتیں۔ نتیجہ مسائل کی نہ سلجھنے والی ایک ایسی گُتھی کی صورت میں نکلا ہے جس میں ہر ایک، دوسروں کو الجھا رہا ہے۔

    مغربی دانشور اور پالیسی ساز ایک عرصے سے اس تنازع کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں لیکن اب تک انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ اسلامی فلسفۂ قانون، الٰہیات اور تاریخ کے ماہرین نے سیاسی اسلام پر بلاشبہ بہت کام کیا مگر وہ اسے ایک انوکھی چیز ہی سمجھتے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ اسلام اِزم محض اسلامی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ’’ازم‘‘ بھی لگا ہوا ہے۔ یہ عوامی زندگی کو ترتیب دینے والا ایسا نظریہ اور لائحۂ عمل ہے جس کا دیگر نظریات کی طرح تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ مغرب سے زیادہ نظریات دنیا کے کسی خطے نے پیدا نہیں کیے، لہٰذا بہتر ہوگا کہ آج کے مشرقِ وسطیٰ کو سمجھنے کے لیے مغرب اپنی نظریاتی کشمکش کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لے۔

    درحقیقت آج مسلم دنیا کے کچھ حصے ۴۵۰ برس قبل کے مذہبی جنگوں میں گِھرے شمال مغربی یورپ سے پُراَسرار مماثلت رکھتے ہیں۔ آج کی طرح اُس وقت بھی مذہبی سرکشی کی لہر نے ایک بڑے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا اور مختلف ممالک کو تباہ کرتی ہوئی بہت سے دیگر ملکوں کو ٹوٹ پھوٹ کے خطرات سے دوچار کرگئی۔ صرف ۱۵۶۰ء کی دہائی میں فرانس، نیدرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کو پروٹسٹنٹ فرقے کی ایک شاخ کیلوِن اِزم (Calvinism) کے ماننے والوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کیلون ازم اکیسویں تو کجا انیسویں صدی کے پریسبائی ٹیرئین (Presbyterian) لوگوں جیسا بھی نہیں تھا۔ کیتھولسزم (Catholicism)، لُوتھرینزم (Lutheranism) اور دیگر عیسائی نظریات کی طرح جدید ابتدائی کیلون ازم بھی محض مذہبی احکامات کا مجموعہ نہ تھا بلکہ ایک مکمل سیاسی نظریہ بھی تھا۔ اس نظریے کا ارتقا ایسے وقت میں ہوا جب یورپ کا سماجی معاشی نظام کسی حد تک رومن کیتھولِک کلیسا نے اپنے ہی اصولوں پر استوار کیا تھا، اور کیلون اِزم نے اسی کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اُن دنوں کسی نظریے کو اپنانے کا مطلب مذہبی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر وابستہ ہونا بھی تھا لہٰذا مذہبی جنگیں بلاشبہ سیاسی جنگیں بھی تھیں۔

    یہ بغاوتیں ریاست کو کسی ایک مسیحی فرقے کی سرپرستی پر مجبور کرنے کے لیے جاری ۱۵۰ سالہ کشمکش کا حصہ تھیں اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ نظریاتی پیشواؤں نے اثر و رسوخ بڑھانا چاہا، مخالفت کو بے دردی سے کچلا گیا، وقتاً فوقتاً مذہب کے نام پر قتلِ عام کیا گیا اور بیرونی قوتیں کسی نہ کسی دھڑے کی حمایت کرتے ہوئے جھگڑے میں کود پڑیں۔ یہ طوائف الملوکی بالآخر دردناک تیس سالہ جنگ پر منتج ہوئی جس کے دوران مقدس رومی سلطنت (Holy Roman Empire) کا مرکز کہلانے والے جرمنی کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی فنا ہوگئی اور جب یہ بحران ختم ہوا تو دو اور نظریاتی جنگیں شروع ہوگئیں: ایک اٹھارہویں صدی میں بادشاہت اور آئینی بالادستی کے درمیان اور دوسری بیسویں صدی میں لبرل ازم اور کمیونزم کے مابین۔

    نظریاتی کشمکش کے ان تین ادوار میں مغربی ممالک معاشرتی نظم کی خاطر منقسم رہے اور یہی ادوار آج ہمیں بہترین سبق دیتے ہیں۔ عمومی نظر سے دیکھا جائے تو مغربی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا حالیہ بحران نہ تو اپنی شدت میں بے نظیر ہے اور نہ ہی اس کے سیدھے سادے طریقے سے حل ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ماضی کے باعظمت نظریات کی طرح سیاسی اسلام نے بھی علاقائی تنازع کو ہوا دے کر اس سے تقویت حاصل کرلی ہے اور اب مستحکم ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کو جس طرح کی نظریاتی مسابقت کا سامنا ہے، اس میں سب کی جیت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ ایسے نظریے یا تو مخالف نظریات کو نشوونما دیتے ہیں یا پھر انہیں اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ ایسا عموماً تبھی ہوتا ہے جب تنازع اپنے اندر بیرونی طاقتوں کو گھسیٹ لیتا ہے اور علاقائی نظم از سرِ نو مرتب ہوتا ہے۔ یہ اسباق مشرقِ وسطیٰ کو درپیش حالیہ چیلنجوں سے نمٹنے کا نسخہ تو نہیں بتاتے لیکن اتنا اشارہ ضرور دیتے ہیں کہ خطے کو لاحق عوارض نئے نہیں ہیں اور ریاستیں اور ان کے رہنما تشدد کو کم کرنے اور انسانی بہبود کے موافق حالات پیدا کرنے کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔

    یورپ میں کیلون سے لے کر مشرقِ وسطیٰ میں ہوبز تک

    کہاوت مشہور ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی نہیں ہے بلکہ اس کی بازگشت گونجتی رہتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی اسلام کا ابھرنا اپنی وضع میں انوکھا واقعہ ضرور ہے مگر اس نے جو راستہ اختیار کیا اور جس طرح کے بحران کو جنم دیا وہ مغرب کے اپنے ماضی ہی کی بازگشت ہے۔ مسلم دنیا میں سیاسی اسلام اور لادینیت کی لڑائی اب پیچیدہ ہوچکی ہے مگر سوال یہ ہے کہ معاشرے میں کون بالادست ہے اور اس سوال کا دار و مدار قانون کے مآخذ اور اس کے متن پر ہے۔ اسلام پسندوں کا اصرار شریعت پر ہے، یعنی قانون کی تشکیل قرآن و حدیث کے مطابق ہوگی۔ لادین طبقہ کہتا ہے کہ قانون کی بنیاد انسانی عقل اور تجربے پر ہونی چاہیے، کچھ کہتے ہیں کہ اس میں اسلام کا کوئی حصہ نہیں ہے، کچھ کے نزدیک تھوڑا بہت عمل دخل قابلِ قبول ہے۔

    مشرقِ وسطیٰ میں لادینیت نے یورپی نوآبادیاتی نظام کے ساتھ قدم جمائے۔ آزادی کے بعد مسلمان اشرافیہ کی اکثریت نے اسے اس لیے اپنا لیا کیونکہ طاقتور یورپی ریاستوں نے خلافت کہلانے والی سلطنتِ عثمانیہ کو ہزیمت کے ساتھ شکست دی تھی۔ لیکن پھر لادینیت کو اسلام اِزم کا ایک دھچکا لگا۔ یہ درست ہے کہ اسلام پسند اپنے نظریے کہ ساتھ ’’ازم‘‘ نہیں لگاتے اور اسے وہی اسلام بتاتے ہیں جو اپنی ابتدا میں تھا لیکن ان کے نظامِ عقائد کے بہت سے مآخذ جدید ہیں۔ بیسویں صدی کے ربعِ ثانی کے دوران اسلام پسندوں نے اس خیال سے مزاحمتی تحریکیں منظم کیں کہ لادین دورِ حکومت میں متقی مسلمان بن کر رہنا مشکل ہے۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں اس خیال نے مزید تقویت حاصل کی اور اسلام پسندوں نے ریاست کی جانب سے شریعت کے نفاذ کی وکالت شروع کردی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی تک لادینیت کو سبقت حاصل تھی مگر ۱۹۶۷ء میں لادین مصر کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست، ۱۹۷۹ء کے ایرانی انقلاب اور ۹۱۔۱۹۹۰ء کی خلیجی جنگ نے پانسہ سیاسی اسلام کے حق میں پلٹ دیا۔

    ایک اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیاسی اسلام کی جیت ہوچکی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج کا مسلمان نہ تو پورا لادین ہے اور نہ ہی پکا اسلام پسند، لیکن مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا عام مسلمان اب شدت پسندی کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے۔ پیو تحقیقی مرکز (Pew Research Center) کی ۲۰۱۳ء میں کرائی گئی رائے شماری بتاتی ہے کہ مصر، عراق، اردن، مراکش اور فلسطینی علاقوں کی غالب اکثریت شریعت کو ملکی قانون کے طور پر نافذ دیکھنا چاہتی ہے۔ ۲۰۱۲ء کے ایک گیلپ سروے نے ظاہر کیا کہ مصر، لیبیا، شام، تیونس اور یمن میں خواتین بھی مردوں ہی کی طرح شریعت کی حامی ہیں۔ اسلام پسندوں میں بھی مذہب کے عوامی زندگی میں عمل دخل اور حکومت میں علما کے کردار سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں، لیکن اس کے باوجود آزاد خیال حکمرانوں نے بھی اسلام ازم کے کچھ خیالات کو تسلیم کرلیا ہے۔

    اس پیش قدمی کے باوجود، سیاسی اسلام ابھی تک اپنی بقا کے بارے میں غیریقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ شروع شروع میں بیرونی مبصرین نے اسے جدیدیت سے مطابقت نہ رکھنے والا خیال کہہ کر رد کیا، آج کے ماہرین ایک دوسرے کو یقین دلا رہے ہیں کہ داعش جیسے جہادی گروہوں کی جانب سے خودکش حملوں اور سر قلم کیے جانے سمیت مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی تشدد کی یہ لہر سیاسی اسلام کے چل چلاؤ کی نشانی ہے۔

    پھر بھی نظریاتی کشمکش کے حوالے سے یورپ کی اپنی تاریخ مشرقِ وسطیٰ کو یہ کلیدی سبق دیتی ہے کہ اسلام اِزم کو اتنا بے وقعت بھی نہ سمجھا جائے۔ یورپ میں مذہبی جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر ایک فرسودہ نظریے کو غیر اہم سمجھنا کیوں بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی دشمنی لوگوں کے جان اور مال کو برباد کررہی تھی، اس وقت کی جنگوں میں کئی مواقع ایسے آئے، جب منطق اور ترقی نے بظاہر دشمنیوں کو ختم کرنے میں مدد دی۔ ایسا کئی دفعہ ہوا، مثلاً ۱۵۵۵ء میں جرمن علاقوں کے مذہبی حق رائے دہی پر رضامندی کے وقت اور ۱۵۹۰ء کی دہائی میں جب فرانسیسی مذہبی جنگوں کے بعد پروٹسٹنٹ ولندیزی جمہوریہ (Protestant Dutch Republic) نے کیتھولک ہسپانیہ سے آزادی حاصل کی تو لگا کہ بحران ٹل گیا ہے۔ شہزادے، اشرافیہ، شہری کونسلیں اور ان کی رعایا بظاہر پائیدار امن پر یکسو ہوگئے تھے۔ عملیت پسند سیاسی فراست نے عنان سنبھال کر ایک نئے یورپ کی امید باندھ دی تھی جہاں ریاستوں کو نظریاتی مفادات کے بجائے مادی مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔

    لیکن یورپ سے نظریاتی تشدد کا خاتمہ نہ ہوسکا کیونکہ اسے ہوا دینے والا بالادستی کا بحران جوں کا توں کھڑا تھا۔ بہت سے یورپی باشندے یہی سوچتے تھے کہ مستقل سیاسی استحکام کے لیے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے۔ جب تک وہ ایسا سمجھ رہے تھے، اس وقت تک کوئی بھی ذرا سی چنگاری انہیں دوبارہ شدت پسند مخالفانہ گروہوں میں منتشر کرسکتی تھی۔ اور ۱۶۱۸ء میں بالکل ایسا ہی ہوا جب بوہیمیا میں پروٹسٹنٹ بغاوت نے یورپ کو تیس سالہ جنگ میں جھونک دیا۔ اُس صدی کے آخر میں جب تک یورپیوں نے مذہب کو سیاست سے الگ نہیں کردیا، اس وقت تک مذہبی عقائد اپنی شعلہ فشاں طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔

    نظریات کو بے وقعت سمجھنے کی ذرا مختلف مثال نسبتاً حالیہ زمانے میں سامنے آئی جب بیسویں صدی میں عالمی سطح پر لبرل ازم اور کمیونزم کا ٹاکرا ہوا۔ ۱۹۳۰ء کی دہائی کے معاشی بحران (Great Depression) نے بہت سے مغربی دانشوروں کو یہ باور کرا دیا کہ آزاد خیال جمہوریت ایک ایسا تصور تھا جس کا زمانہ اب گزر چکا ہے۔ مرکزیت پسند جابر ریاستیں عارضی طور پر نئے معاشی و سماجی بحران سے اچھی طرح نمٹنے لگیں جسے دیکھ کر بہت سے مفکرین کمیونزم کے شیدا ہوگئے۔ کچھ نے جوزف اسٹالن کے زیرِ اقتدار سوویت یونین کا دورہ کرکے اسے کھلے عام سراہا جہاں صنعت کاری تیزی سے ہورہی تھی اور مزدور کبھی ہڑتال نہیں کرتے تھے۔ ان جذبات کو امریکی صحافی لنکن اسٹیفنز نے یوں قلم بند کیا: ’’میں مستقبل میں ہوکر آچکا ہوں اور یہ تجربہ کامیاب رہا!‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ آخر میں آزاد خیال جمہوریت نے انگڑائی لی اور کامیاب ہوگئی۔

    بات یہ نہیں ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسلام ازم کی کامیابی یقینی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ خود کو بہت کچھ سمجھنے والے لوگ کبھی کبھی متبادل سیاسی نظام کو نظر انداز کرتے ہیں جس کے نتائج سنگین بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اسلام کے سخت جان ہونے کا ایک راز یہ بھی ہے کہ باہر سے دیکھنے والوں نے اس نظام کو ہمیشہ کمتر سمجھا ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر کسی نظریے کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوجائے تو وہ زیادہ عرصے زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ۱۹۳۰ء کی دہائی میں لبرل جمہوریت کے ساتھ ہوا اور آج اسلام ازم کے ساتھ ہورہا ہے۔ سیاسی اسلام کامیابی کی دوڑ سے باہر ہونے نہیں جارہا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اپنی دوسری فتح حاصل کرلے۔

    خدا کے نام پر؟

    بہت سے پرانے مسابقتی نظریات کی طرح سیاسی اسلام میں بھی یک رنگی نہیں ہے۔ اسلام پسند ایک شریعت کا اتباع تو کرتے ہیں لیکن ان میں بہت سی شاخیں ہیں، مثلاً سُنّی اور شیعہ، شدت پسند اور اعتدال پسند، قوم پرست، بین الاقوامیت کے داعی اور سامراجیت کے حامی تک موجود ہیں۔ اس تنوع نے مغرب میں اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شدت پسند تحریکوں کی حوصلہ شکنی کے لیے جدید اعتدال پسند اسلام ازم کو قبول کرلینا چاہیے یا نہیں۔ جو لوگ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں، اُن کے نزدیک اسلام ازم پورے کا پورا مغرب دشمنی پر مبنی ہے۔ جن لوگوں کا جواب اثبات میں ہے وہ کہتے ہیں اسلام ازم خود اندرونی طور پر منقسم ہے۔

    اس بحث میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ کسی بھی نظریے کے مخالفین اس میں موجود دراڑوں کے ذریعے اپنے حق میں پنپنے والا تنازع اندر داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری مغربی تاریخ میں بیرونی طاقتوں نے بارہا ’’تقسیم کرو اور جیت لو‘‘ کے حربے آزمائے جن کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے اور کبھی کبھار ایسی کوششیں انہی کے گلے بھی پڑگئیں۔ مذہبی جنگوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس طویل تنازع نے یورپ پر حاوی نظریات میں پھوٹ ڈال دی اور نتیجتاً پنپنے والے کچھ ضمنی افکار اصل نظریات پر ہی غالب آگئے۔ پروٹسٹنٹ ازم کی ابتدا لوتھرینزم کے طور پر ہوئی جو فوراً ہی سوئٹزرلینڈ میں زوئنگلین ازم (Zwinglianism) اور جرمنی میں انا باپتزم (Anabaptism) کی شکل میں نمودار ہوا اور پھر فرانس میں اس نے کیلون ازم اور انگلستان میں اینگلیکن (Anglican) روپ دھار لیا۔ کیلون ازم اور لوتھرینزم کے پیروکار آپس میں بار بار لڑے اور کسی بھی کیتھولک گروہ سے زیادہ ایک دوسرے کے دشمن ثابت ہوئے۔ مقدس رومی سلطنت پر حکمراں ہیبس برگ (Habsburg) خاندان نے ان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ لیکن آخر میں بہرحال یہ حکمت عملی ناکام ہوئی کیونکہ کیلون ازم کمزور نہیں پڑا بلکہ اس نے تیس سالہ جنگ کے دوران لوتھرینزم کے ساتھ مشترکہ محاذ بنا لیا۔

    بیرونی طاقتوں کے لیے یہی ترکیب باقی بچتی ہے کہ وہ کسی نظریے کے مقابلے میں دیگر نظریاتی عناصر کو اپنی جانب مائل کریں اور انہیں مدد و حمایت فراہم کریں۔ ایسا کرنا آسانی کے ساتھ ممکن ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سوویت اثر و رسوخ محدود کرنے کی خاطر امریکی صدر ہنری ٹرومین نے یہ معلوم کرنے میں بڑی چابکدستی دکھائی کہ مغربی یورپ میں بائیں بازو کی کون سے جماعتیں امریکی اتحادی بن سکتی ہیں۔ وہ اس درست نتیجے پر پہنچے کہ اٹلی کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ سوویت یونین کی حمایت اور امریکی مارشل پلان کی مخالفت میں متحد ہیں۔ ٹرومین نے پھر عیسائی جمہوریت پسندوں (Christian Democrats) کا ہاتھ تھام لیا اور انہیں ۱۹۴۸ء کا اہم انتخاب جیتنے میں مدد دی۔ البتہ فرانس میں ٹرومین کو یہ اندازہ ہوا کہ سوشلسٹ کمیونزم کے مخالف ہیں لہٰذا ان کے ساتھ معاہدہ کرکے فرانس کو امریکا کا مشکل مگر پائیدار اتحادی بنالیا۔

    بیرونی طاقتوں کی یہ کھلی اور چھپی مداخلت بالادستی کے طویل ہوتے بحران کی ایک اور واضح نشانی ہے۔ اسلام ازم اور لادینیت کے حالیہ ٹکراؤ میں بھی بہت سے بیرونی کرداروں نے یا تو خود کو دیگر ریاستوں کے اندرونی معاملات میں الجھا لیا ہے یا پس پردہ رہ کر فوجی مداخلت کرڈالی ہے۔ ان بیرونی مداخلتوں پر کچھ لوگوں نے تنقید بھی کی ہے۔ خاص طور پر افغانستان، عراق اور لیبیا میں امریکی مداخلت کو ایسی غیرمنطقی مہم جوئی قرار دیا گیا جو مؤثر ریاستی سرگرمیوں کے دائرے میں نہیں آتی۔ لیکن درحقیقت کسی بھی عظیم طاقت کی جانب سے دوسرے ملک کی حکومت کو بچانے یا گرانے کے لیے قوت کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ بیرونی مداخلتیں کسی بھی نظریاتی کشمکش کا لازمی جز ہوتی ہیں، انہیں علیٰحدہ، بے وقوفانہ یا غیر متعلق نہیں کہا جاسکتا۔ پچھلے ۵۰۰ برس کے دوران ایسی ۲۰۰ سے زائد مداخلتیں ہوچکی ہیں جو زیادہ تر بالادستی کے علاقائی بحران کے دوران کی گئیں اور یہی اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ہورہا ہے۔

    اس طرح کی کشمکش کے دوران پیدا ہونے والی گہری خلیج بار بار ہونے والی اس مداخلت کی وجوہات جاننے میں مدد دیتی ہے۔ نظریاتی تنازعات کے باعث اکثر اتنا سخت معاشرتی تناؤ پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنوں کے بجائے ان غیروں کے طرف دار ہوجاتے ہیں جن سے ان کے خیالات ملتے ہیں۔ یہی ٹکراؤ بیرونی کرداروں کے ساتھ قوموں اور ملکوں کی دوستی یا دشمنی کا تعین کرتا ہے۔ مرکزیت ان بڑی طاقتوں کو حاصل ہوتی ہے جو کسی بھی فریق کو بالادست بنانے کی حیثیت رکھتی ہوں۔ ادھر بیرونی کرداروں کے لیے اس طرح کے بحرانات نئے دوست بنانے یا نئے دشمنوں کو ابھرنے سے روکنے کا ایک موقع ثابت ہوتے ہیں۔

    ضروری نہیں کہ مداخلت کاروں کا تنازع سے کوئی مذہبی مفاد وابستہ ہو، کبھی کبھی مادی مفادات بھی اس کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ البتہ کچھ مواقع پر نظریاتی اور مادی مفادات مل کر مداخلت کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً ۲۰۱۱ء میں عرب بہار کے دوران سنی اکثریتی سعودی عرب نے بحرین میں شیعی انقلاب روکنے کے لیے فوج بھیج کر نہ صرف شیعہ اسلام کا راستہ روکا بلکہ شیعہ اکثریتی ایران کے لیے بھی دروازے بند کردیے۔ کچھ ہی عرصے بعد ایران نے شام میں مداخلت کرکے بشار الاسد کی اس لیے مدد کی تاکہ سنی باغی کامیاب ہوکر سعودی عرب کے طرف دار نہ ہوجائیں۔ اس طرح کی کارروائیوں نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اب ناعاقبت اندیش نظریاتی ریاستیں وجود میں آکر علاقائی استحکام کو تباہ کریں گی۔ مثلاً کچھ مبصرین کو خدشہ ہے کہ ایران نے اگر جوہری ہتھیار بنالیے تو وہ انہیں مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن ناپید کرنے کے لیے استعمال کرکے ایک بڑی تباہی کو دعوت دے سکتا ہے۔

    تاریخ ایسے خدشات پر کوئی فیصلہ تو صادر نہیں کرتی البتہ یہ ضرور بتاتی ہے کہ ایک ریاست بیک وقت نظریاتی اور منطقی ہوسکتی ہے۔ نظریہ پرستوں کی حکومت کے سامنے علاقائی توازن کو یکسر تبدیل کرنے جیسے نظریاتی مقاصد ہوسکتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے وہ منطقی اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ ایسے اقدامات میں اس مرحلے پر پسپائی اختیار کرلینا بھی شامل ہے جب جارحیت بہت مہنگی پڑنے لگے اور ہر اس موقع پر مداخلت بھی ہوسکتی ہے جب جغرافیائی سیاست اس کی اجازت دے۔

    مذہبی جنگوں کے دوران پلاٹی نیٹ (Palatinate) نامی جرمن خطے کا طرزِ عمل ان دونوں ممکنات پر محیط رہا۔ وہاں کے حکمران عسکریت پسند کیلوینسٹ (Calvinists) تھے جنہوں نے مقدس رومی سلطنت سمیت پورے یورپ سے کیتھولک اجارہ داری ختم کرنے کی بھرپور جدوجہد کی۔ انہوں نے کیتھولک طاقتوں کا زور توڑنے کے لیے بارہا پروٹسٹنٹ اتحاد تشکیل دیے اور کیلوینسٹوں کی مدد کے لیے کئی مواقع پر فرانس اور نیدرلینڈ فوج بھیجی۔ سولہویں صدی میں بڑے عرصے تک ان کے مقاصد نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی بھی رہے کیونکہ جب کبھی انہیں طاقتور ہیبس برگ کی جانب سے سخت مزاحمت ملی یا پروٹسٹنٹ ساتھیوں نے سرد مہری دکھائی تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ مگر پھر کیتھولک حکومت کے حامل بوہیمیا خطے کے کیلوینسٹ باغیوں نے جب پلاٹی نیٹ حکمران فریڈرک پنجم کو دعوت دی کہ وہ ہیبس برگ حاکم کو شکست دے کر ان کا بادشاہ بن جائے تو اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔ ۱۶۱۹ء میں اس نے بوہیمیا پر اپنے اقتدار کا دعویٰ کیا حالانکہ ہیبس برگ حکمرانوں کے ردعمل کا خدشہ بھی تھا اور زیادہ تر یورپی پروٹسٹنٹ بھی کھلے بندوں اس کی حمایت سے کترا رہے تھے۔ بالآخر خدشہ درست ثابت ہوا جب ہیبس برگ خاندان نے فریڈرک کی فوج کو کچل ڈالا اور پلاٹی نیٹ تک رسائی حاصل کرکے وہاں پروٹسٹنٹ ازم کا بھی گلا گھونٹ دیا۔ یہ تیس سالہ جنگ کے ابتدائی اقدامات تھے۔

    جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا!

    طول پکڑنے والے تمام علاقائی نظریاتی تنازعات کی طرح اسلام ازم اور لادینیت کی جنگ بھی ایک روز ختم ہوجائے گی۔ لیکن یہ کس انداز میں ہوگا اور مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے کیا امکانات ہیں، یہ البتہ ایک کھلا سوال ہے۔

    مغربی تاریخ بتاتی ہے کہ بالادستی کے بحران عموماً تین طریقوں سے ٹلتے ہیں: یا تو کوئی فریق فیصلہ کن فتح حاصل کرلے، یا برسرِ پیکار فریقین کے نزدیک تنازع غیر متعلق ہوجائے، یا پھر کوئی ایسی حکومت قائم ہو جو متصادم نظریات کو بظاہر ناممکن نظر آنے والے انداز میں مربوط کردے۔ حالیہ تنازع میں پہلا منظرنامہ تو ابھرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام ازم میں یک رنگی نہیں ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ فتح کی صورت میں شیعہ سنی، اعتدال پسند اور شدت پسند، جمہوری یا بادشاہی، کون سا طبقہ سبقت حاصل کرے گا۔ تاہم دیگر دو منظرناموں کو قابل غور قرار دیا جاسکتا ہے۔

    ایسے مشرقِ وسطیٰ کا تصور بظاہر محال ہے جو بالادستی کے موجودہ بحران پر قابو پالے، تاہم ماضی میں مغرب کا ایک بحران اسی انداز میں حل ہوا۔ ابتدائی جدید یورپ مذہبی کشمکش پر قابو پانے میں اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ وہاں نئی حکومتوں کے قیام نے نظریاتی اختلافات کو غیر مؤثر کردیا تھا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقے اپنے اپنے عقائد پر جمے رہے لیکن انہوں نے مکمل بالادستی کا خیال چھوڑ کر ریاست اور کلیسا کے مابین جدائی کو تسلیم کرلیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایسا ہوسکتا ہے اگر مسلمانوں کے عوام اور خواص قانون اور عوامی زندگی پر اسلامی عقائد لاگو کرنے کے معاملے کو زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائے رکھیں۔ تاہم اگر مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے۔

    دوسرا راستہ یہ ہے کہ متصادم نظریات ایک دوسرے کے اداروں اور طور طریقوں کو کسی حد تک اپنا کر ایک ہی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ یورپ میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا جب ۱۷۷۰ء کی دہائی سے لے کر ۱۸۵۰ء کی دہائی تک یہ براعظم بادشاہتوں میں منقسم تھا۔ بادشاہ چاہتے تھے کہ اقتدار وراثت کی طرح حصے میں آئے جبکہ جمہوریت پسند منتخب حکومتوں کے خواہاں تھے۔ دونوں تصورات ابتدا میں متحارب دکھائی دیے اور بادشاہتیں جمہوری بغاوتوں کو کچلنے میں مصروف رہیں۔ لیکن جبر کے اس دور کے بعد یورپی بادشاہوں نے متوسط طبقے کے ساتھ ایک سودا کرلیا۔ برطانیہ کی دیکھا دیکھی آسٹریا، فرانس، اٹلی اور پرشیا (Prussia) میں نئی طرز کی حکومتیں قائم ہوگئیں اور پارلیمانی قدغنوں اور وسیع عوامی حقوق کی حامل بادشاہت کے اس نظام کو ’’آزاد قدامت پسندی‘‘ (liberal conservatism) کا نام دیا گیا۔

    اس کہانی کا حتمی تاریخی سبق یہ ہے کہ کسی بھی نظریے یا متعدد نظریات کی کامیابی کا دار و مدار اکثر ریاستی طاقت کے حصول پر ہوتا ہے۔ یورپ میں آزاد قدامت پسندی برطانیہ کی مرہون منت ہے جس نے عملی طور پر اسے نافذ کردکھایا۔ وہاں طویل عرصے تک ایسی آئینی بادشاہت رہی جس نے روایت اور تجدید کو یکجا کردیا۔ برطانیہ بلاشبہ دنیا کی کامیاب ترین ریاست رہی جس کے پاس سب سے بڑی معیشت، وسیع و عریض سلطنت اور ایک مثالی طور پر مستحکم سماجی نظام رہا۔ اس کے مخلوط طرزِ حکومت کو پورے براعظم میں اپنالیے جانے کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھی کہ عملاً یہ نظام قابلِ نفاذ ثابت ہوگیا تھا۔

    مسلم دنیا میں بھی اس سے ذرا مختلف مخلوط حکومت نے اپنا استحکام ظاہر کیا ہے جسے بسا اوقات ’’اسلامی جمہوریت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین ایک عرصے سے یہی سمجھتے رہے ہیں کہ جمہوریت اور اسلام ازم موروثی اعتبار سے متضاد ہیں مگر کچھ اسلام پسندوں اور جمہوریت کے حامیوں نے مختلف ممالک میں ان دو نظاموں کو فکری اور عملی سطح پر یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۳ء تک مصر میں اخوان المسلمون کے سیاسی بازو حزب حریت و عدالت (Freedom and Justice Party) نے کٹھن حالات میں خود کو ایک ایسی معتدل قوت کے طور پر ظاہر کیا جو مذہبی اور نظریاتی تنوع کو برداشت کرسکتی تھی۔ یہ کوشش بالآخر ناکام ہوئی کیونکہ صدر مرسی نے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیے اور فوج نے انہیں معزول کردیا۔ جب سے اب تک مصر میں سرے سے جمہوریت ہی ناپید ہے لیکن اگر دوبارہ تجربے کا موقع ملے تو یہ ملک اپنے حجم اور استعداد کے اعتبار مثالی ریاست بن سکتا ہے۔

    اسلام ازم اور جمہوریت کو ایک لڑی میں پرونے کی زیادہ کامیاب مثال تیونس میں النہضہ نامی سیاسی جماعت نے قائم کی جس نے کھلے عام اسلام ازم کی بات کرنے کے باوجود ۲۰۱۴ء میں جمہوری انتخابات کرادیے۔ تیونس اتنی بڑی ریاست نہیں کہ مثال بن سکے لیکن یہ عرب بہار کے نتیجے میں ابھرنے والا سب سے روشن ستارا ہے جو کم سے کم ممکنات سے آگاہ ضرور کردیتا ہے۔

    زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ خطے کے دو طاقتور ترین مسلم ممالک یعنی ایران اور ترکی کی سیاسی ترجیحات کیا ہیں۔ دونوں ہی ممالک عرب نہیں ہیں لیکن علاقائی اثر و رسوخ کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ سرکاری طور پر جمہوریہ کہلانے والا ایران ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد سے خود کو اسلام ازم کا عملی معیار قرار دیتا ہے جہاں کسی حد تک مسابقتی انتخابات تو ہوتے ہیں مگر حتمی اختیارات رہبر معظم خامنہ ای ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر عرب بہار کے بعد ایران نے شام میں صدر بشار الاسد کی جس طرح حمایت کی، اُس سے سنی عربوں کی غالب اکثریت اس سے متنفر ہوگئی ہے اور اس کے مثالی ریاست بننے کے امکانات دھندلا گئے ہیں۔ اور پھر ۲۰۰۹ء کے مشکوک انتخابات کے بعد ایسا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کہ اس کے ہمسائے اب اس کی تقلید کریں۔ گویا جب تک ایران اسلام ازم کی مثال بنا رہے گا، اسلام ازم مشکل میں رہے گا۔

    ترکی کی کہانی البتہ مختلف ہے۔ سرکاری اعتبار سے لادین کہلانے والا یہ ملک مسلسل اسلام پسندی کی جانب مائل ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں ترکی نے خود ایک نئی اور مربوط اسلامی جمہوریت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ حکمراں ترقی و انصاف پارٹی کو انتخابات میں مسلسل فتح ہورہی ہے جس کی باگ ڈور صدر رجب طیب ایردوان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ جماعت اس طرزِ حکومت کو ’’اسلامی‘‘ کے بجائے ’’قدامت پسند‘‘ قرار دیتی ہے لیکن یہ نظام بہرحال اسلامی جمہوریت کی ہی ایک شکل ہے۔ عرب بہار کی ابتدا میں ہی ترکی خطے کے عوام کے دلوں میں گھر کر چکا تھا اور اب اپنا دائرئہ اثر مسلسل بڑھا رہا ہے۔ لیکن جب بات ہو مخلوط اسلامی جمہوری حکومت کی تو پھر اس نظام میں اتنی رعنائی نہیں رہتی جس کی بڑی وجہ ایردوان کا آمرانہ طرزِ عمل ہے۔ ترکی ایک مثالی مخلوط حکومت کا نمونہ پیش کرسکتا ہے مگر فی الحال وہاں پرانے انداز کی شخصی آمریت جمہوری عنصر پر غالب آرہی ہے۔

    لڑائی کی وجوہات

    ماضی کے بہت سے نظریاتی تنازعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ مبصرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں بحران کی اصل وجہ نظریاتی ہے بھی یا نہیں۔ بہت سے ناقدین دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے یورپی اور اب امریکی سامراجیت نے مسلمانوں کی تضحیک کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی سطح پر اپنا مستقبل خود تعمیر کرنے کی ان کی صلاحیت بہت محدود کردی ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی خطے میں عسکری موجودگی اور اسرائیل کی حمایت کو بڑھتی ہوئی خونریزی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کے دلائل اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دنیا تو طاقت سے محروم مضطرب افراد اور گروہوں سے بھری ہوئی ہے اور امریکی اجارہ داری تقریباً ساری دنیا میں ہی ہے۔ لیکن پھر بھی مشرقِ وسطیٰ میں جیسی مسلسل بدامنی، جبر، دہشت گردی، سفاکیت اور بیرونی مداخلت ہے، ویسی دنیا میں شاید ہی کہیں اور ملے۔

    کچھ لوگ غربت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے پاس دولت اور مواقع ذرا زیادہ ہوتے تو بحران ٹل جاتا۔ مگر دنیا کے بہت سے غریب معاشرے اس دلیل کو بھی کالعدم کردیتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر مشرقِ وسطیٰ کی اوسط درجے کی ریاستوں سے زیادہ بدحال ہیں مگر ایسی افراتفری سے بچے ہوئے ہیں۔ اگر غریبی ہی سب سے بڑی وجہ ہوتی تو افریقی صحرائے اعظم سے متصل ممالک دہشت گردی، انقلابی لہروں اور بیرونی مداخلت کا اس سے کہیں زیادہ شکار ہوتے۔ شواہد ہمیں کسی اور نتیجے تک پہنچا رہے ہیں: یعنی بے طاقتی اور غربت بلاشبہ کلیدی عناصر ہیں مگر مشرقِ وسطیٰ آج کل جس صورت حال سے دوچار ہے، وہ اُسی وقت پیدا ہوسکتی تھی جب یہ دونوں عناصر علاقائی سطح پر بالادستی کے ایک طویل بحران سے منسلک ہوجائیں۔

    اچھی خبر یہ ہے کہ شاید امریکا دیر پا انداز میں معتدل حکومت چلانے والے ملکوں اور جماعتوں کی حمایت کرے گا، چاہے ان کا نظام مکمل طور پر لادین نہ بھی ہو۔ مگر بری خبر یہ ہے کہ یہ سب ہونے کی صرف توقع ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ طاقتور امریکا بھی خطے کے تمام مسائل حل نہیں کرسکتا۔ چونکہ ہر فریق امریکی مداخلت کو متعصبانہ قرار دے گا، اس لیے امریکا کے لیے اپنے مفادات کا تحفظ ہی بہتر ہے۔ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو کبھی کبھی کچھ جگہوں پر طاقت کے استعمال کی متقاضی ہوگی۔ مگر جیسا کہ مذہبی جنگوں کے دوران سلطنت عثمانیہ جیسی عظیم مسلم طاقت بھی سولہویں صدی میں عیسائیوں کے اختلافات ختم نہیں کراسکی تھی، ویسے ہی آج کے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کوئی بیرونی کردار امن نہیں لاسکتا۔ صرف مسلمان خود ہی اپنے نظریاتی اختلافات کو دور کرسکتے ہیں۔

    (مترجم: حارث رقیب عظیمی)

    John M. Owen IV
    “From Calvin to the Caliphate”.
    (“Foreign Affairs”. May/June 2015)

  • لڑکیوں کے لیے تعلیم ضروری تو ہے مگر!  –  رئیس فاطمہ

    لڑکیوں کے لیے تعلیم ضروری تو ہے مگر! – رئیس فاطمہ

    ”میرا بس چلے تو آیندہ پانچ سال کے لیے لڑکیوں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی پابندی لگوادوں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے غصے اور جھنجھلاہٹ سے کہا۔

    ’’آپ بالکل صحیح فرمارہے ہیں۔ میں بھی آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔

    میں نے حیرت سے دونوں شخصیات کو دیکھا اور وجہ جاننا چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے بڑے کرب سے کہا۔ ’’اس لیے کہ لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں ڈگری پہ ڈگری لیے جاتی ہیں اور جب ان کے معیار کے مطابق رشتہ نہیں ملتا تو قسمت کو کوستی ہیں۔ اعتراض مجھے اس لیے بھی ہے کہ شادی کو ڈگری سے کیوں مشروط کردیا گیا ہے؟ لڑکی اگر ماسٹر ڈگری ہولڈر ہے تو لڑکے کا بھی برابر کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ یہیں سے بگاڑ شروع ہوتا ہے، نتیجہ یہ کہ بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘

    اور آپ کیا کہتے ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا۔

    ’’میں بھی ڈاکٹر صاحب کا ہم خیال ہوں۔ میری بیگم کی تعلیم شادی کے وقت صرف انٹر تھی اور میں اس وقت گریڈ 17 کا لیکچرر۔ میری والدہ نے بہت سوچ سمجھ کر یہ رشتہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی لڑاکا، جھگڑالو اور بدتمیز گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی کے مقابلے میں آسیہ اس لیے اچھی لگی کہ اس نے ایک مہذب ماحول میں پرورش پائی تھی۔ بیٹیاں ماں کا عکس ہوتی ہیں اور آسیہ واقعی بہت سمجھ دار اور دھیمے مزاج کی مالک تھی۔ اس نے میری والدہ، والد اور دونوں بہنوں سے اس طرح تعلقات رکھے کہ اس کی شرافت اور محبت کی بنا پر فوراً ہی اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔

    میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ برسوں سے بہت پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں نے کبھی اس بات کو ایشو نہیں بنایا کہ لڑکی بھی انھی کے برابر پڑھی لکھی ہو۔ خدا جانے یہ خناس کیوں لڑکیوں اور ان کے والدین کے دماغ میں سما گیا ہے کہ بہرصورت داماد نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ ملازمت کا حامل بھی ہو۔ اور اپنا ذاتی مکان بھی ہو، نوکری سرکاری ہو اور اکلوتا ہو تو کیا کہنے۔ شادی کے بعد علیحدہ گھر میں رہنا بھی ضروری ہے۔ یہی آج کل لڑکی والوں کی ڈیمانڈ ہے۔ اور اسی لیے کنواریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ طلاق کی شرح میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ بھی ہو رہا ہے۔‘‘

    اچانک ڈاکٹر صاحب نے بیچ میں لقمہ دیا۔ دونوں پریشان تھے اور صحیح تھے۔

    ”دراصل اس ملک میں سب کچھ بغیر کسی پلاننگ کے ہوتا ہے۔ خاص طور سے تعلیمی میدان میں یہ وبا حد سے زیادہ ہے۔ ایک زمانے میں لوگ اپنی ذاتی دلچسپی اور صلاحیت کی بنا پر کسی شعبے کا انتخاب کرتے تھے۔ پھر اچانک خدا جانے کیوں سائنس کی تعلیم کی طرف مائل ہوگئے۔ وہ بھی طب کے شعبے کی طرف۔ ہر لڑکا اور ہر وہ لڑکی جس نے انٹر سائنس کرلیا۔ وہ صرف ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ میں نے جن کالجوں میں بھی پڑھایا، وہاں لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی تعداد پری میڈیکل میں بہت زیادہ تھی۔ پھر ہوا یوں کہ بغیر کسی تحقیقی رجحان کے مالی منفعت کے لحاظ سے ڈاکٹری کا پیشہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کی بھی اولین ترجیح رہی۔ لیکن اس بھیڑ چال کا نتیجہ یہ ہوا کہ M.B.B.S ڈاکٹروں کی ایک کھیپ تیار تو ہوگئی۔ مگر ان کے لیے سرکاری ملازمتیں نہیں تھیں۔ پھر یہ ریوڑ ڈاکٹروں کی زبوں حالی اور بے روزگاری دیکھ کر انجینئرنگ کے شعبے کی طرف مڑ گیا۔ اب پری میڈیکل کا ایک سیکشن اور پری انجینئرنگ کے چار چار سیکشن کالجوں میں بنانے پڑے۔ لیکن یہاں بھی وہی طلب اور رسد کے توازن کے بگاڑ کی بنا پر سارے کا سارا ریلہ کامرس کی تعلیم کی طرف مڑ گیا۔ اور پھر MBAاور کمپیوٹر سائنس کی طرف طلبا و طالبات نے دوڑ لگادی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی عالمی معیار پہ پوری نہیں اترتی۔ اور بھلا اترے بھی کیوں؟ یہ مال بنانے کی فیکٹریاں ہیں، جہاں نقل، سفارش اور جعلی ڈگریوں کا گٹھ جوڑ ہے اور خوب ہے۔“

    لیکن جس خرابی کی طرف ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب اور پروفیسر صاحب نے توجہ دلائی تھی وہ آج کا اہم مسئلہ ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں میں داخلے کی بنیاد صرف میرٹ ہوتی ہے۔ عموماً لڑکیاں نمبر زیادہ ہونے کی وجہ سے داخلہ حاصل کرلیتی ہیں۔ اس طرح تناسب بگڑ جاتا ہے۔ 80 فیصد لڑکیاں محض وقت گزاری کے لیے تعلیمی استعداد بڑھاتی رہتی ہیں، جبکہ لڑکوں کو یہ نقصان ہوتا ہے کہ انھیں یا تو تعلیم چھوڑنی پڑتی ہے، یا پھر خاندان کی کفالت اور باپ بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے نوکری کرنی پڑتی ہے۔ لڑکیاں ماسٹرز کرکے رشتوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ لیکن بوجوہ ان کے من پسند رشتے جب نہیں ملتے تو پھر فرسٹریشن جنم لیتا ہے۔

    ذرا گہرائی میں جاکر کھلی آنکھوں سے دیکھیے تو ہوش اڑا دینے والے واقعات جنم لیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کی دونوں صاحبزادیاں ڈبل ایم اے ہیں۔ رشتے آتے تھے، مگر لڑکیوں کی ترجیح وہی تھی، آفیسر گریڈ، اعلیٰ تعلیم اور اپنا مکان، نتیجہ؟ دونوں کی شادی کی عمریں نکل گئیں تو وہ والدین سے بغاوت کر بیٹھیں۔ تفصیلات بتانا ممکن نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ بے چارے پروفیسر صاحب لڑکیوں کی تعلیم ہی سے برگشتہ ہوگئے۔ اور ہمارے ڈاکٹر صاحب جن کے لیے ’’مسیحا‘‘ کا لفظ زیادہ بھلا لگتا ہے، وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ صرف ایک بہن شادی شدہ باقی کنواری۔ تینوں بہنیں کسی رشتے کو خاطر میں نہ لاتی تھیں، ایک وکیل، ایک جج، ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر۔ والدین بھائی بھاوج اور بڑی بہن کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تینوں اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص سے شادی پہ راضی نہ ہوئیں۔ پھر عمریں ڈھلنے لگیں اور ایسے رشتے آنے لگے جن کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا، یا وہ ذمے داریوں کی بھرمار کی وجہ سے وقت پہ شادی نہ کرسکے تھے۔

    ایسے میں کراچی کے ایک کالج کی پرنسپل کی مثال دینا چاہوں گی۔ وہ بھی آئیڈیل اور معیار کے چکر میں ریٹائرمنٹ تک جاپہنچیں۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انھوں نے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے صاحب جائیداد شخص کا رشتہ بخوشی قبول کرلیا جن کی بیوی کا ایک سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ دونوں بیٹے اور دونوں بیٹیاں سب شادی شدہ تھے۔ تب بہوؤں، بیٹوں اور بیٹیوں نے باہم مشورے سے سابق پرنسپل سے والد کا نکاح کروادیا۔ کالج کا اسٹاف حیران تھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے تو خاتون کسی کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں اور اب یہ کہ نانا دادا بن جانے والے صاحب سے برضا و رغبت شادی کے لیے تیار ہوگئیں۔ یہ کیونکر ہوا؟ تب انھوں نے دل گرفتہ لہجے میں اپنی ان چند قریبی ساتھیوں کو بتایا (جو خود بھی غیر شادی شدہ تھیں) کہ وہ بھی لیکچرر بننے کے بعد بہت اونچی ہواؤں میں اڑ رہی تھیں، کسی رشتے میں ماں باپ نقص نکال دیتے، کسی کو وہ خود ریجیکٹ کردیتیں، آہستہ آہستہ ان کی مانگ میں چاندی اگنے لگی۔ اور دونوں چھوٹی بہنوں کے رشتے آنے لگے، ان کا حشر سامنے تھا، بہنیں بھی ناخوش رہنے لگیں اور انھیں اپنے راستے کا پتھر سمجھنے لگیں۔ پھر گھر والوں نے ان کی پرواہ کیے بغیر دونوں بیٹیوں کی شادیاں انٹر اور بی اے کے بعد ہی کردیں۔ یہ اپنے گریڈ میں مست۔ پھر والدین کا بھی انتقال ہوگیا، بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، وہ اپنی فیملی میں مست ہوگئے۔

    تب انھیں احساس ہوا کہ شادیاں انسانوں سے ہوتی ہیں، ڈگریوں اور عہدوں سے نہیں۔ قصور وار ان کی والدہ زیادہ تھیں جنھوں نے بیٹی کے دماغ میں بٹھادیا تھا کہ روئے زمین پر کوئی اس کے قابل نہیں۔ اب تنہائی کے جنگل میں اکیلے پن نے انھیں اپنی غلطی کا احساس دلایا۔ تب انھوں نے یہ رشتہ برضا و رغبت قبول کیا۔ کسی ساتھی نے یہ بھی کہا کہ اس عمر میں شادی تو کرلو گی، لیکن اولاد کہاں سے لاؤگی؟ تب کسی دوسری پروفیسر نے کہا کہ بڑھاپے میں اصل ساتھی میاں بیوی ہی ہوتے ہیں۔ بچے ہیں بھی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ سب اپنے اپنے گھونسلے بنا لیتے ہیں۔ آنگن ان کی چہکار کے لیے ترستا ہے۔ آج کئی سال ہوگئے ہیں اس شادی کو۔ سابقہ پرنسپل اپنے سوتیلے بیٹے کی فیملی کے ساتھ اوپر کی منزل میں رہائش پذیر ہیں۔ عید بقر عید پر سارے بچے انھی کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی دستر خوان لگتا ہے۔ خاتون نے رشتے توڑنے اور شوہر کے خاندان سے نفرت کے بجائے محبتوں کی کیاری لگا کر پھول اگائے۔
    (بشکریہ ایکسپریس)