ہوم << ایدھی صاحب اور ہیومن ازم کی حقیقت - رضوان اسد خان

ایدھی صاحب اور ہیومن ازم کی حقیقت - رضوان اسد خان

news-1468224303-8955_largeایدھی صاحب تو چلے گئے اپنا حساب دینے. ان کے ذہن میں "انسانیت" کا جو کوئی بھی تصور تھا اور جن معنوں میں انہوں نے اسے اپنا مذہب قرار دے رکھا تھا، وہ سب اب ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے، ہمیں اس پہ رائے دینے کا کوئی حق نہیں. البتہ جس بات پہ خاموشی ہمارے لیے جرم قرار پاتی ہے وہ ہے لبرل طبقے کا انہیں اون کر کے اس کی آڑ میں "انسانیت" کی اس تعریف اور مفہوم کو عام کرنا جو کہ فی زمانہ مغرب میں رائج ہے. اور اس کا ہرگز اس "انسانیت" سے کچھ لینا دینا نہیں جس کا سب سے بڑا داعی خود ہمارا اپنا دین ہے.
یہ والی مذموم "انسانیت" دراصل اردو ترجمہ ہے "ہیومن ازم" کا.
ماڈرن ہیومن ازم کی عالمی تنظیم 1952 میں معرض وجود میں آئی اور ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں اس نئے دین کے خدوخال واضح کیے گئے. اسی "ورلڈ ہیومنسٹ کانگریس" کے 2002 کے پچاسویں یوم تاسیس پر جاری کردہ 7 نکاتی "ایمسٹرڈیم ڈکلئیریشن" کے نکتہ نمبر 5 کے مطابق:
"Humanism is a response to the widespread demand for an alternative to dogmatic religion. The world’s major religions claim to be based on revelations fixed for all time, and many seek to impose their world-views on all of humanity. Humanism recognises that reliable knowledge of the world and ourselves arises through a continuing process of observation, evaluation and revision."
15977 "ہیومن ازم، اصول و قواعد فراہم کرنے کے دعویدار کسی بھی مذہب کے متبادل کی وسیع پیمانے پر طلب کا جواب ہے. دنیا کے بڑے مذاہب خدائی وحی کی بنیاد پر قائم ہونے کے دعویدار ہیں اور اکثر یہ چاہتے ہیں کہ اپنی تعلیمات کو پوری انسانیت پر مسلط کریں.(اس کے برعکس)ہیومن ازم تسلیم کرتا ہے کہ دنیا اور ہمارے اپنے بارے میں حقیقی علم مشاہدے، تجزیے اور اعادے کے ایک مسلسل عمل سے ہی جنم لے سکتا ہے."
اس کے آغاز کو یورپ کے تاریک دور کے اختتام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے. اس دور میں بھی ا س کے مفہوم پر ویسی ہی بحثیں ملتی ہیں جیسی آج کل ہمارے یہاں شروع ہیں، کہ آیا یہ مذہب مخالف تحریک ہے یا موافق. اس لحاظ سے اس کی تعریف میں تاریخی طور پر کافی ابہام رہا ہے.
مگر آج کل جب لفظ ہیومن ازم انگریزی میں کیپٹل "H" کے ساتھ لکھا جاتا ہے تو اس سے مراد "سیکولر ہیومن ازم" ہی ہوتا ہے. اور اس "عقیدے/فلسفے" کے مطابق انسانیت، اخلاقی معیارات بنانے اور ان پہ چلنے کے لیے کسی مذہب یا خدا کی محتاج نہیں...!!!
اس "دین" کی سب سے بڑی داعی تنظیم اسوقت "انٹرنیشنل ہیومنسٹ اینڈ ایتھیکل یونین" کے نام سے 38 ممالک میں کام کر رہی ہے جس میں 117 مختلف منطقی، الحادی، نیچری، فری تھنکر اور سیکولر تنظیمیں ضم ہیں.
اس عالمی تنظیم کے دستور (جو ایمسٹرڈیم ڈکلئیریشن سے ہی ماخوذ ہے) کی ایک شق کے مطابق یہ خدا کے تصور سے آزاد (Non-theistic) ہے اور حقیقت کے مافوق الفطرت نکتہ نظر کی منکر...!!!
الغرض سیکولرازم، مغربی جمہوریت، لبرل اکانومی (کیپٹل ازم کا مستقبل کا تصور) اور لبرٹیرئین ازم (Libertarianism) کی طرح ہیومن ازم یا "انسانیت" بھی لبرل ازم کے فلسفے کا شاخسانہ ہے جسے باقی متذکرہ "ازمز" کی طرح دیدہ ذیب پیکنگ میں (بالخصوص) اسلام اور اس کی پابندیوں سے جان چھڑانے کے لیے مارکیٹ کیا جا رہا ہے.
اسلام خالق اور مخلوق کا سب سے خوبصورت رشتہ بصورت "عبد اور معبود" پیش کرتا ہے. اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قران میں اللہ نے جہاں بھی اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ قربت کا اظہار فرمایا ہے، وہاں ان کے لیے "عبد" کا لفظ استعمال کیا ہے حتی کہ جو کلمہ ہمارے دین کی بنیاد ہے اس میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول اللہ کے ساتھ ساتھ "عبداللہ" ہونے کا اقرار کرتے ہیں.
اب یہ اللہ کی مکمل اور غیر مشروط "غلامانہ" اطاعت جو ایک مسلمان کا فخر ہے، جو نظام اسے قابل نفرت بنا کے پیش کرے اور اس سے نجات کا داعی ہو، اس کافرانہ نظام کو "Satanism" یا "شیطنت" کہنا زیادہ مناسب ہے، نہ کہ "ہیومن ازم" یا "انسانیت"..!!!

Comments

Click here to post a comment