فاٹا میں ریاستی رٹ کی بحالی تقریبا مکمل ہونے کو ہے، مگر اس دوران غیر ملکی ریڈیو چینلز اور بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کو یہاں پروپیگنڈہ کرنے میں آزادی حاصل رہی، یہ غیر سرکاری تنظیمیں بیرونی ایجنڈے کے فروغ کے لیے سرگرم رہیں، کسی کو کینیڈا سے ڈیل کیا جاتا رہا تو کوئی جرمنی سے، یورپی اداروں نے اس دوران جاسوسی بھی کی جس کی ایک رپورٹ خود برطانوی نشریاتی ادارے نے چند روز قبل جاری کی ہے. محرومی کا شکار قبائلی جوان براہ راست ٹارگٹ تھے اور ہیں، مصنوعی چکاچوند اور چمک کے ذریعے ان کی برین واشنگ کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے. فاٹا کے اکثر علاقے الیکٹرونک میڈیا کی سہولت سے محروم ہیں، آج بھی اخبارات اور ریڈیو معلومات اور خبروں کا بنیادی ذریعہ ہیں. ان علاقوں میں ریڈیو کی اہمیت آج بھی ہے، اسی وجہ سے مغربی میڈیا اور بیرونی ممالک کے ریڈیو چینلز نے فاٹا میں اس پر فوکس کیا ہوا ہے. انتہائی فعال ان چینلز کی نشریات پورے دن جاری رہتی ہیں۔ ان پروگرامات میں اکثر کا ٹارگٹ آڈینس قبائلی نوجوان ہیں، غیر محسوس طریقے سے بےحیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جارہا ہے. جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ختم ہوتا ہے، یہ ریڈیو جاگ اٹھتے ہیں اور گانے بجانے اور گفتگو کے نام پر قبائلی معاشرے میں رائج جوائنٹ فیملی سٹسم پر ضرب لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
سال میں دو تین بار اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی جانا ہوتا ہے ، اس بار بھی جانا ہوا. یہاں بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ یہی غیر ملکی ریڈیو چینلز ہیں، ہمیں بھی ریڈیو کے چینلز کے ذریعے خبریں سننا پڑیں. ایک ہفتے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ایک منظم سازش کے تحت قبائل میں پروپیگنڈے اور ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے. ہر چینل کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو بیکار اور لغویات کی جانب لایا جائے اور مزید احساس کمتری میں مبتلا کیا جائے، محرومیوں کو ہوا دی جائے. کیا پیمرا اس سنگین سازش سے بےخبر ہے؟ ان کی نشریات پر کوئی چیک اینڈ بیلنس کیوں نہیں ہے؟ پاکستانی ریڈیو چینلز بھی ان سے متاثر ہیں اور قبائلی نوجوانوں میں آگاہی وشعور کے بجائے بیرونی چینلز کی پیروی کرتے ہوئے ٖفضول پروگرامات نشر کرنے میں مصروف ہیں. ریڈیو فاٹا میں اہم تبدیلی لاسکتا ہے اور اس کے ذریعے تعلیم اور رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے. کئی نوجوان ہر وقت ریڈیو لیے نظر آئے، پوچھنے پر بتایا کہ اب عادت بن گئی ہے. ایک اور عجیب بات سامنے آئی، جمعہ کے دن ایک بجے سے دو بجے تک خصوصی فرمائشی پروگرامات ان چینلز سے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کے پسندیدہ گانے نشر کیے جاتے ہیں، نوجوان اپنا نام ریڈیو پر سننے کے لیے انتظار کرتے ہیں، اس طرح ہزاروں نوجوانوں کی جمعہ کی نماز رہ جاتی ہے.
اس ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چند برس پہلے قبائلی علاقوں میں سولر توانائی سے چلنے والے لاکھوں ریڈیو سیٹ تقسیم کیے گئے، وہ بھی بالکل مفت، تاکہ شمسی توانائی والے یہ سیٹ آسانی سے ان کے ایجنڈے کے فروغ میں معاون ثابت ہوں. اس کے بعد آگاہی و امداد کے نام پر غیر سرکاری تنظیمیں سرگرم کی گئیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے. ان کی آڑ میں کئی غیر ملکی ادارے پختونستان کی تحریک کو فعال کرنے کے لیے سرگرم ہیں، نوجوان خصوصی نشانے پر ہیں، ورکشاپس، سیمینارز، بڑی تنخواہیں، اعلی سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں. آزادی رائے کے نام پر انھیں گمراہ کیا جارہا ہے، نا پختہ ذہن کے نوجوان بیرونی ایجنڈے کو سمجھنے سے قاصر ہیں. انڈیا سمیت کئی ممالک اس سازش میں ملوث ہیں. اس وقت افغانستان کے صوبہ جلال آباد میں گریٹر پشتونستان منصوبے پر نہایت ہی سرگرمی کے ساتھ کام ہورہا ہے. فاٹا و خیبر پختونخوا سے تقریباً 2500 پڑھے لکھے بیروزگار پختون نوجوان جلال آباد میں مقیم ہیں، جبکہ کئی پڑے لکھے نوجوان کابل میں میڈیا سے منسلک ہوچکے ہیں اور ان کے اندر پاکستان کے خلاف اتنا زہر بھرا جارہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا. اس منصوبے کے مرکزی کرداروں میں ایک بڑی لسانی جماعت کے چند رہنما اور کچھ دوسرے رہنما اور این جی اوز کے کارندے شامل ہیں. خاموشی سے اس سازش پر زور و شور سے کام ہو رہا ہے، را فنڈز مہیا کر رہی ہے جبکہ افرادی قوت افغان انٹیلیجنس این ڈی ایس فراہم کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی ادارے اس سنگین سازش کو کیوں محسوس نہیں کر رہے؟ مغربی ریڈیو چینلز کے ذریعے کیا جانے والا پروپیگنڈہ ملکی سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے. را اور این ڈی ایس کی سازشوں کے سدباب کے لیے چیک اینڈ بیلنس مزید ضروری ہوگیا ہے. یہ قبائلی نوجوان ملک کی ترقی کے لیے قیمتی سرمایہ بن سکتے ہیں، ان کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کا فرض ریاست کا ہے. قبائل کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جائیں، ریاستی توجہ کی فوری ضرورت ہے. قبائل آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں، دوسری طرف برہمداغ بگٹی کا تازہ ویڈیو بیان آپ کے سامنے ہے جس میں اس نے مودی کے بیان کو بلوچ عوام کے لیے اچھا قرار دیا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ فاٹا میں بھی دشمن کی سازش کامیاب ہو، دشمن ہمارے لیے گڑھے کھود رہا ہے، بچنا ہم نے خود ہے، وقت کم ہے اور دشمن چاروں طرف پھیل چکا ہے، فوری طور پر غور کرنے اور لائحہ بنانے کی ضرورت ہے۔
تبصرہ لکھیے