بچپن کے رنگ، کہانیاں اور کہاوتیں بھی عجیب نرالے ہیں۔
سنتے تھے کہ چمگادڑ کے پاس نہ پھٹکو، کیونکہ اگر یہ کان میں چلی گئی تو سونے کا ڈھول بجانا پڑے گا تب ہی نکلے گی۔
ہم سب بچے چمگادڑوں سے ڈرتے رہتے اور اگر کہیں کبھی کبھار بھولے سے کوئی کہیں دور دیوار یا چھت پہ چپکی نظر آجاتی تو فوراً کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے۔
ہائے معصومیت۔۔۔۔!
بھلا چمگادڑ کو کیا پڑی کہ ہمارے کانوں میں گُھسے۔
آج یونہی خیال آیا کہ سازشی اور منفی باتیں بھی چمگادڑیں ہی تو ہیں۔ کالی، ڈراؤنی، خوفناک اور چپک جانے والی۔
ایک بار کانوں میں گھس جائیں تو کبھی نہیں نکلتی، بلکہ دل میں گھر کر لیتی ہیں اور چمگادڑوں کی طرح بچے دینے لگتی ہیں۔
پھر چاہے وضاحتوں کے کتنے ہی سونے کے ڈھول بجائیں، یہ نہیں نکلتیں اور نہ ہی دل صاف ہوتا ہے۔
لوگوں کے کانوں میں سازشی و منفی باتوں کی چمگادڑیں نہ گُھسائیں کیونکہ یہ کبھی نہیں نکلتیں۔
کیا خوب لکھتی ہیں، انکی ایک ایک بات میں ان گنت سبق چھپے ہوتے ہیں، جتنی اچھی لکھاری ہیں اس سے زیادہ اچھی انسان اور دوست ہیں