انسانی تاریخ میں کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جو صرف جغرافیائی حد بندیوں تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کی بازگشت عالمی ضمیر کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ غزہ کی صورتحال بھی ایسا ہی ایک المیہ ہے جو نہ صرف سیاست اور جنگ کی حرکیات کو آشکار کرتا ہے بلکہ انسانیت کی اجتماعی بے حسی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ آج، جب دنیا جدیدیت کے بلند بانگ دعوے کرتی ہے، غزہ کی سرزمین پر بکھری لاشیں، بھوک سے تڑپتے بچے اور تباہ شدہ بستیاں اس ترقی یافتہ انسانی شعور کو آئینہ دکھا رہی ہیں۔ یہ محض ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی امتحان ہے، جس میں عالمی ضمیر کی شکست واضح نظر آتی ہے۔
انسانیت کے زخموں پر ایک اور ضرب
غزہ کی تاریخ ایک نہ ختم ہونے والے ظلم اور مزاحمت کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں ہر نسل نے اپنے ہی خون میں نہا کر زندگی کا آغاز کیا، جہاں ہر گھر جنگ کے ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے، اور جہاں ہر دل میں امید اور مایوسی کی جنگ جاری ہے۔ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی انسانی مسئلہ ہے، جس میں معصوم زندگیاں طاقت اور تسلط کی بے رحم سیاست کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
عالمی ضمیر کی خاموشی
یہ سوال بارہا اٹھتا ہے کہ عالمی ضمیر کہاں ہے؟ وہ قوتیں جو انسانی حقوق اور انصاف کے علَم بردار بنتی ہیں، کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ جدید دنیا کے مہذب ممالک، جو انصاف کے سب سے بڑے دعویدار ہیں، کیوں ایک نسل کشی پر نظریں چُرا رہے ہیں؟ یہ وہی دنیا ہے جو انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر جنگیں چھیڑتی ہے، مگر جب ظلم کا شکار فلسطین کے بے گناہ لوگ بنتے ہیں تو ان کے لیے عالمی اخلاقیات بے معنی ہو جاتی ہیں۔
انصاف اور طاقت کی ازلی کشمکش
غزہ کی صورتحال ہمیں انصاف اور طاقت کے درمیان ازلی کشمکش کی یاد دلاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت ہمیشہ انصاف پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہے، مگر ہر عہد میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو انصاف کی شمع جلائے رکھتے ہیں۔ آج کا سوال یہ نہیں کہ کون جیتے گا، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت انسان اپنی اجتماعی اخلاقیات اور انصاف کی اقدار کو زندہ رکھ سکیں گے؟ اگر دنیا نے غزہ کی صدائیں نہ سنیں، تو یہ انسانی شعور کی سب سے بڑی ناکامی ہوگی۔
سوشل میڈیا اور عوامی بیداری
جہاں ایک طرف حکومتیں خاموش ہیں، وہیں دوسری طرف عوامی سطح پر ایک تحریک جنم لے رہی ہے۔ سوشل میڈیا وہ ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے مظلوموں کی آواز گونج رہی ہے۔ یہ وہ عہد ہے جہاں سچائی کو دبانا ممکن نہیں، جہاں ایک تصویر، ایک ویڈیو یا ایک تحریر دنیا کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑ سکتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا چراغ ہے، مگر اندھیرے کے خلاف ایک بڑی جنگ کی شروعات ہے۔
ضمیر کی گونج یا خاموشی کی موت؟
یہ وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، ورنہ تاریخ اپنے صفحات پر لکھ دے گی کہ جب انسانیت کو مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تب دنیا نے اپنی نظریں موڑ لیں۔ غزہ محض ایک شہر نہیں، بلکہ ایک کسوٹی ہے، جس پر دنیا کی اخلاقی بنیادوں کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ اگر ہم نے اس دستک کو نہ سنا، تو یہ خاموشی صرف غزہ کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوگی۔
نہایت اعلی اور قابلِ فکر مضمون مضمون نگار محترم نعیم اللہ باجوہ صاحب نے بڑی مہارت سے عالمی ضمیر خصوصاً مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے غزہ کا قیامت خیز المیہ مسلمانوں کو اپنے مجموعی مفاد کے لیے اتحاد میں آنے کا پیغام دیتا ہے