ہوم << "خامشی کا فیلسوف" الفارابی کی خود نوشت -اخلاق احمد ساغر

"خامشی کا فیلسوف" الفارابی کی خود نوشت -اخلاق احمد ساغر

مقام: دمشق
وقت: شبِ وفات کے لمحات

رات کی چادر کچھ زیادہ ہی گہری ہو چکی ہے۔ شاید آسمان میرے جانے کے لیے تیار ہو رہا ہے۔ میں یہاں تنہا لیٹا ہوں مگر میرے ارد گرد میرے خیالات ہیں، سوالات ہیں، وہ الفاظ ہیں جو میں نے عمر بھر کہے، اور وہ جو کہنے سے رہ گئے۔ مجھے اپنے کمرے کی وہ کھڑکی یاد آتی ہے، جو بغداد کے مدرسے میں میرے حجرے کو روشنی دیا کرتی تھی۔ اس روشنی میں میں نے ارسطو کی "ما بعد الطبیعیات" پڑھی تھی اور پھر کئی راتیں اس روشنی سے لڑتے گزریں، کیوں کہ وہ کتاب سوالات تو پیدا کرتی تھی، جواب کم دیتی تھی۔ شاید یہی علم کی سب سے سچی پہچان ہے۔

میری عمر ڈھل چکی ہے، لیکن میرے خیالات کا سورج ابھی مکمل غروب نہیں ہوا۔ میں، محمد بن محمد بن طرخان الفارابی، آج اپنی زندگی کی آخری رات گزار رہا ہوں۔ میری روح کے دریچے اب کھلنے کو ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ جاتے جاتے اپنے چند خیالات، اپنے سفر اور اپنے سچ کو ان الفاظ میں قید کر جاؤں۔

ترکستان کی سرزمین پر پیدا ہوا، جہاں مٹی سخت تھی، لیکن خواب نرم۔ میرے والد سپاہی تھے، مگر میرے دل میں تلوار سے زیادہ قلم کی چمک تھی۔ بغداد آیا، علم کا سمندر پایا، اور پھر خود اس میں ڈوب گیا۔ منطق، فلسفہ، موسیقی، طبیعیات، سب کچھ جاننا چاہا – کیونکہ میرے نزدیک علم عبادت تھا۔"

میں نے افلاطون اور ارسطو کو پڑھا، ان کے خیالات میں سانس لی۔ مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میں مشرق کے درد کو بھی ان میں شامل کروں۔ اسی لیے میں نے شہرِ فاضلہ کا تصور پیش کیا – ایک ایسا معاشرہ جو عقل، اخلاق اور انصاف کی بنیاد پر ہو۔

لوگ مجھے 'المعلم الثانی' کہتے ہیں، پہلا تو افلاطون تھا۔ مگر میں ہمیشہ ایک طالبعلم رہا۔ میں نے اپنے شاگردوں کو صرف علم نہیں دیا، ان کے دل میں سوال رکھ دیے۔

آج، جب میری سانسیں تھک چکی ہیں، میں یہی سوچتا ہوں: کیا میری تحریریں آئندہ زمانوں کے اندھیروں میں چراغ بن سکیں گی؟ کیا کوئی اور بھی یہ سوچے گا کہ علم، مذہب اور سیاست کو ایک ساتھ کیسے جیا جا سکتا ہے؟

میری خواہش ہے کہ مجھے صرف ایک فلسفی نہ کہا جائے، بلکہ ایک ایسا انسان سمجھا جائے جس نے خامشی میں سب سے بلند آواز سنی، عقل کی آواز۔

میں جا رہا ہوں، لیکن شاید میری سوچ رہ جائے۔

سوانحی خاکہ: الفارابی
پورا نام: ابو نصر محمد بن محمد الفارابی
پیدائش: 872ء، فاراب (ترکستان، موجودہ قزاقستان)
وفات: 950ء، دمشق
مخصوص پہچان: فلسفی، منطق دان، موسیقار، مترجم
لقب: "المعلم الثانی" (دوسرا معلم – افلاطون کے بعد)

خصوصی کارنامے:
ارسطو کی کتب کی تشریحات
"المدینۃ الفاضلہ" (شہرِ فاضلہ) کا نظریہ
منطق، سیاست، اخلاقیات، موسیقی اور ما بعد الطبیعیات پر علمی خدمات
فلسفیانہ مقام: یونانی فلسفے اور اسلامی فکر کے درمیان پل
زبانیں: عربی، فارسی، ترکی، یونانی
خصوصی حوالہ: فلسفے اور مذہب کے باہمی ربط پر گہری تحقیق