ہوم << تعلیم کا کاروبار اور بچوں پر اثرات - ناصر محمود

تعلیم کا کاروبار اور بچوں پر اثرات - ناصر محمود

ناصر محمود یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تعمیر و ترقی اور تربیت میں تعلیم بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھر چاہے تعمیر فرد کی ہو یا ملت کی، ترقی اپنی مقصود ہو یا ملک کی اور تربیت خاندان کی کرنی ہو یا معاشرے کی، تعلیم ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو انسان کو شعور کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ تعلیم تربیت اور اخلاق کے عملی مظاہرے کی طرف پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ متعلقہ فرد یا قوم کا آنے والا کل کیسا ہو گا۔ آج دنیا میں ترقی یافتہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں حکمرانی کے منصب پر فائز کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی کا سرسری جائزہ لینے پر ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس ساری چمک دمک اور شان کے پیچھے بنیادی طور پر تعلیم کا نظام ہی کھڑا ہے۔ جو ایسے شہری تیار کرتا ہے جو حقیقی معنوں میں فرض شناس اور اخلاق کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ صحیح تعلیم جہاں انسان کو انسانیت سیکھاتی ہے وہیں حب الوطنی کا لازوال درس بھی دیتی ہے۔ قانون کی افادیت کا پرچار کر کے اس کے احترام پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں تعلیم ہو، تعلیم کے نام پر دکان نہ چلائی جا رہی ہو۔
تعلیم جہاں ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے وہیں ہر شہری کا بنیادی حق بھی ہوتی ہے اور اسی لیے مہذب قومیں تعلیم کو کبھی بھی کاروبار اور تجارت کا ذریعہ نہیں بناتیں، ماسوائے ان کے جن کو اپنے کل سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے ہماری ملکی تاریخ تعلیم کے معاملے میں کچھ خاص نہیں رہی اور نہ ہی آج تک کسی نے اس پر توجہ دینے کی زحمت گوارہ کی ہے۔ سب سے پہلے ہم نے اپنی تعلیم کو دینی اور دنیوی کہہ کر تقسیم کی بنیاد رکھی اور پھر تو گویا تعلیم کی مختلف انواع کا بازار ہی سج گیا۔ جس میں ہر کسی نے اپنی "دکان" کھولنی شروع کر دی۔ دینی تعلیم جہاں فرقون میں بٹی وہیں عصری تعلیم نے بھی گروہون اور طبقوں کی شکل اختیار کرلی اور بنیادی طور پر دو ایسے نظام سامنے آئے جن کی "پیداوار" مجموعی طور پر نہ تو ایک دوسرے کو برداشت کرتی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کی جگہ لے سکتی ہے۔ ایک دوسرے کو ’’آزاد خیالی‘‘ کا طعنہ دیتا ہے تو دوسرا پہلے کو بنیاد پرست اور منافرت کا پیامبر گردانتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور ان کے نفاذ کے نام پر دینی مدارس کا آغاز کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج ملک میں انقلاب آجاتا ہے تو ہزاروں مدارس مل کر بھی اپنے لاکھوں فضلاء میں سے ایسے گنتی کے لوگ بھی مہیا نہیں کر پائیں گے جو اسلامی حکومت کو اسلامی تقاضوں کے مطابق چلا سکیں اور دنیا میں اپنی نئی پہچان بنا سکیں۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مل کر بھی کوئی ایسا نظام وضع نہیں کر سکے جو ایک مسلمان کو اس قابل بنا دے کہ وہ کم از کم اپنے دینی فرائض ہی ٹھیک سے ادا کر سکے۔
سرکاری سکولوں اساتذہ نے جب عملا تعلیم اور تربیت کو شجرِ ممنوعہ قرار دے کر تنخواہوں پر نظر رکھ لی تو "بیوپاری" میدان میں اترے اور تعلیم کا ایسا کاروبار شروع کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جو تعلیم تربیت کی طرف پہلا قدم تھی وہ اتنی منافع بخش تجارت بنی کہ جس میں صرف آمدن ہی آمدن تھی اور نقصان کا ذرا سا بھی اندیشہ نہ تھا۔ دنیا جہان کے مہذب معاشرون میں تعلیم اور صحت کے اداروں کو غیر منافع بخش ادارہ کے طور پر لیا جاتا ہے اور چونکہ دونوں براہِ راست معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کے لیئے رجالِ کار بھی خاص طور پر تیار کیئے جاتے ہیں جو مجموعی طور پر بلامبالغہ انسانی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں۔ لیکن ہم نے نہ صرف یہ کہ ان دونون اداروں کو منافع کی فلک شگاف بلندیوں تک پہنچا دیا بلکہ افراد بھی وہ استعمال کرنے شروع کر دیئے جو کسی بھی طرح اس کام کے اہل نہیں تھے۔ پہلے انگریزی اور اردو میڈیم کا نعرہ لگا اور پھر کسی نے آکسفورڈ اور کیمبرج کے نام پر ’’دکان‘‘ کھولی تو کسی نے امریکن اور برطانوی نظام کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ کسی نے امیروں کو نشانہ بنایا تو کسی نے متوسط طبقے کو تاڑ لیا۔ اسی دوران کچھ اور بیوپاری اٹھے اور جب ان کو اپنی دال گلتی نظر نہ آئی تو انہوں نے ’’دینی ماحول میں عصری تعلیم‘‘ کا نعرہ لگا کر ایک نیا بازار سجا لیا اور اسلام کا تڑکا لگا کر وہی بیچنے لگے جو دوسرے لیے بیٹھے تھے۔
آج عملی طور پر سرکاری سکول غربت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر طبقوں کے لیئے گالی کی حیثیت رکھتا ہے تو پرائویٹ سکول فیشن کی طرح ہماری رگوں میں اتر چکا ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچے کسی پرائویٹ سکول میں پڑھیں پھر چاہے فیس کے لیے خود کو ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔ اور اس کی بنیادی وجہ ہماری ’’ناک‘‘ کے ساتھ ساتھ وہ احساسِ کمتری بھی ہے جو ہماری رگوں میں بیٹھ چکا ہے۔ غیر شعوری طور ہم یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ترقی کے لیے پرائیویٹ سکول کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی اتنی ہی ضروری ہے پھر چاہے مادری زبان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑیں۔ یہی وہ احساس کمتری ہے جس کے تحت والدین ’’امی ابو‘‘ کے بجائے ’’ممی پاپا‘‘ کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ بچے کو شکریہ کے بجائے ’’تھینک یو‘‘ سکھاتے ہیں اور اللہ حافظ کے بجائے ’’بائے بائے اور ٹاٹا‘‘ کہلوانے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔ سکولوں نے تجارت کو مضبوظ کرنے کے لیے ایسا جال بن رکھا ہے کہ جو معصوم ابھی ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتا اس کو سکول میں داخل کروانا پڑتا ہے۔ جو عمر لاڈ اٹھوانے کی ہوتی ہے اس میں بستہ اٹھوا دیا جاتا ہے۔ جس پھول نے ابھی ٹھیک سے رشتوں کو نہیں پہچانا ہوتا اس کو آدھا دن پابندی کے ساتھ اجنبیوں کے بیچ گزارنا پڑتا ہے۔ جو نونہال ابھی کھیل کا مطلب بھی نہیں جانتا اسے ’’ہوم ورک‘‘ کے نام پر غیر محسوس اذیت دینی شروع کر دی جاتی ہے۔ اور سکول میں حالت یہ ہوتی ہے کہ جو بچہ ابھی اپنی مادری زبان بھی ٹھیک سے نہیں بول پاتا اس کو ’’ٹوئنکل ٹوئنکل‘‘ اور ’’ماما ماما یس بے بی‘‘ رٹوانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ ذہنی غلامی کی انتہا یہ ہے کہ جو معصوم ذہن ابھی اپنی اصلی زبان کا ذخیرہ الفاظ بنا رہا ہے سکول میں اس سے جو گفتگو کی جاتی ہے اس کا زیادہ تر حصہ انگریزی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور جب بچہ طوطے کی طرح چند جملے رٹ لیتا ہے تو والدین بھی گویا پھولے نہیں سماتے قطع نظر اس سے کہ غیر شعوری طور پر بچے کے ذہن میں کیا ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔
آج کے نونہالوں سے اگر دن کا نام پوچھا جائے تو انگریزی میں بتاتے ہیں، گنتی گنوائی جائے تو انگریزی میں گنتے ہیں اور اگر اردو کا مطالبہ کیا جائے تو اٹک جاتے ہیں۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ تعلیم کے نام پر معصوم پھولوں کو، شعور ملنے سے پہلے ہی، ذہنی طور پر ایک مکمل اجنبی معاشرے کا غلام بنا دیتے ہیں۔ اور اس پر بس نہیں بلکہ اکثر سکول تو تقریبا ہر سال یونیفارم بدل دیتے ہیں اور نئے یونیفارم کے لیے کسی مخصوص دکان کا پتہ مہیا کر دیا جاتا ہے۔ سٹیشنری کے نام پر مخصوص دکانوں سے پیکٹ بنوائے جاتے ہیں اور سلیبس کے نام پر ایک الگ دکان سجائی جاتی ہے۔ تربیت کے نام پر اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین بھی معصوم پھولوں کو اپنی قومی اور مادری زبان اور ان کی محبت سے محروم کر دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک میں ان کی ترقی اور عروج ان کی اپنی زبان اور اسی زبان میں تعلیم کی مرہونِ منت ہے۔ دنیا میں کوئی ایک بھی قوم ایسی نہیں جس نے کسی اجنبی زبان کی بنیاد پر ترقی کی ہو۔ جن ملکوں میں جانے کے لیے آج ہم ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو تعلیم کے نام پر اپنی نسل کو کسی اجنبی زبان اور معاشرے کا غلام بنا رہا ہو۔ افسوس کہ جسمانی آزادی حاصل کرنے بعد بھی ذہنی طور پر ہم ابھی تک غلام ہی ہیں۔ یہ غلامی ہمارے لاشعور میں بیٹھ چکی ہے اور ہم بڑے اطمینان سے نہ صرف یہ کہ اس کو ہضم کر رہے ہیں بلکہ تعلیم کے نام پر بڑی ’’ایمانداری‘‘ سے آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کر رہے ہیں۔ جو قوم بھی تعلیم اور تربیت کو تجارت بنا لیتی ہے وہ کبھی بھی دنیا میں کوئی قابلِ ذکر مقام حاصل نہیں کر پاتی۔ تعلیم جو ایک مقدس فریضہ تھی، ہم نے اس کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیا اور امید یہ رکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ محبِ وطن اور ایماندار نسل کی صورت میں نکلے گا۔ اب تو شاید دیوانے بھی ایسے خواب نہ دیکھتے ہوں۔ تعلیم جب تک تعلیم رہے مفید ہوتی ہے اور جب کاروبار بن جائے تو یہی تعلیم کسی بھی معاشرے کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ اور افسوس کہ ہمارا وطن اس زہر کی منڈی کا روپ اختیار کر چکا ہے۔