غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے ناجائز صہیونی ریاست نے ظلم کی انتہا کر دی ہے۔ عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے نہتے شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 51 ہزار سے زائد بے گناہ شہری اسرائیلی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جبکہ 1 لاکھ 15 ہزار سے زیادہ شہری زخمی ہیں۔
امریکی پشت پناہی میں اسرائیل نے ہسپتالوں، اسکولوں، پناہ گزین کیمپوں اور آبادیوں کو نشانہ بنا کر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کے 36 میں سے 21 ہسپتال ہی کسی حد تک فعال ہیں لیکن سارے ہی ہسپتال بمباری سے متاثر ہو چکے ہیں۔
فلسطین میں ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر پوری دنیا میں اضطراب اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ سمیت پوری دنیا میں انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے شہریوں نے انسانیت سوز مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروائے ہیں۔
اسلامی ممالک میں بھی غزہ کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کے لیے عوام نے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے بڑے احتجاجی مظاہرے کیے جن میں یمن، بنگلہ دیش، پاکستان اور ایران سر فہرست ہیں۔
لیکن غزہ کی صورت حال پر مسلمان حکمرانوں کا کردار امت مسلمہ کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ جنوبی افریقہ ایک غیر مسلم ریاست ہونے کے باوجود اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرتا ہے اور فلسطین میں جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اسرائیل کے خلاف کیس جیت لیتا ہے۔
56 اسلامی ممالک کی حکومتیں اور افواج کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام دینے سے تاحال محروم ہیں۔ بلکہ اکثریتی اسلامی ممالک امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے غزہ میں جاری بربریت پر اسرائیلی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔
اسرائیل کے مظالم وقت کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ناجائز ریاست کے ذمہ داران کی جانب سے غزہ کے بعد خطے کے دیگر اسلامی ممالک کی طرف پیش قدمی کرکے گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا اظہار کیا جا چکا ہے۔
اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور افواج پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ جن مشکلات سے آج اہل فلسطین گزر رہے ہیں مستقبل قریب میں مرحلہ وار دیگر اسلامی ممالک بھی ایسی ہی مشکلات سے دو چار ہوں گے۔
جید علماء کرام و مفتیان عظام کے جاری کردہ فتاوی کے مطابق اسلامی ممالک کی حکومتوں اور افواج پر غزہ کے نہتے انسانوں کی مدد اور جہاد فرض ہو چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ احتجاج اور مذمت سے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ جن اسلامی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں وہ فورا اپنے سفیر واپس بلائیں اور دہشت گرد ریاست کے سفارتی عملے کو ملک بدر کریں۔ او آئی سی اور اقوام متحدہ میں تمام مسلم ممالک واضح ، دو ٹوک اور مشترکہ موقف اپنائیں۔
اسرائیل سے تجارت کرنے والے تمام اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ احتجاجا تجارتی تعلقات منقطع کریں اور تیل سمیت دیگر اجناس کی سپلائی معطل کر دیں اور پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر کے اس ناجائز ریاست پر دبائو ڈالیں تاکہ اسے نہتے فلسطینیوں پر مزید مظالم سے باز رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اب محض مذمت اور احتجاج سے کام نہیں چلے گا عملی اقدامات اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
تبصرہ لکھیے