ایک خستہ حال کمرے میں ایک بوسیدہ چارپائی پر، ہلنے جلنے سے قاصر، ایک نحیف و نزار عورت بےسہارا پڑی تھی۔ اس کے چہرے سے کینسر کے درد نے زندگی کی ساری رونق چھین لی تھی۔ اس کی ایک آنکھ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو چکی تھی، اور دوسری سے بھی بس دھندلا سا دکھائی دیتا تھا۔ وہ 80 سالہ سلطانہ تھی — ایک بیوہ، ایک ماں، ایک مظلوم عورت، جو اب زندگی کے آخری سانس گن رہی تھی۔
یہ وہی سلطانہ تھی، جس نے اپنی ساری عمر محنت، صبر اور برداشت میں گزار دی، مگر ساری دنیا کے اتنے وسائل کے باوجود نہ اسے زندگی میں ایک چھت ملی، نہ مرنے سے پہلے اطمینان۔ وہ ایک کرائے کے مکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھی، جہاں دوا کے لیے پیسے نہیں ہوتے، اور کرائے کی پرچی ہر مہینے کے آخر میں ایک نیا زخم دیتی تھی۔
اس کا شوہر دو سال پہلے کینسر ہی کے باعث مر چکا تھا۔ ساری عمر امیروں کی خدمت میں لگا رہا۔ کبھی بھینسوں کا دودھ نکالتا، کبھی گوبر صاف کرتا، اور آخرکار اسی غربت کے بوجھ تلے زمین میں دفن ہو گیا — بغیر کسی اپنے گھر کے۔
مگر سلطانہ کے دل میں جو سب سے بڑا درد تھا، وہ صرف غربت نہیں تھی، بلکہ وہ ناانصافی تھی جس نے اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔
اس کے والد کے انتقال کے وقت پچاس ایکڑ زرعی زمین تھی۔ شریعت کے مطابق، اور ملکی قانون کے مطابق، بہن کا بھی اتنا ہی حق تھا جتنا بھائی کا۔ اگر بھائیوں کو دو دو ایکڑ ملے، تو بہن کو بھی ایک ایکڑ ملنا چاہیے تھا۔ مگر اس کے حصے میں صرف ایک جملہ آیا:
"بیٹیاں تو مہمان ہوتی ہیں، ان کا کیا حصہ؟"
اور جب کبھی سلطانہ نے حق مانگا، تو جواب یہی ملا:
"یہ سب قسمت ہے… مقدر میں جو لکھا ہو وہی ہوتا ہے۔"
سلطانہ سوچتی، "قسمت…؟ یا تمہاری خود غرضی؟ لوگ کتنی آسانی سے اپنے ظلم کو بھی خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔"
آج اس کے وہی بھائی ان زمینوں پر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کبھی کبھی چند ہزار روپے دے دیتے ہیں، کبھی پرانا کپڑا، مگر وہ بہن، جس نے بچپن ان کے ساتھ کھیلا، آج بے سہارا ہے، بیماری کے بوجھ تلے دبی ہوئی۔
عید، رمضان، یا کوئی تہوار آتا، تو امیر ہمسائے فطرہ یا زکات دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے۔ مگر سلطانہ کا دل ہمیشہ ایک سوال کرتا:
"کیا زکات سے کسی کو گھر ملتا ہے؟ یا صرف زندہ رہنے کی اذیت لمبی ہوتی ہے؟"
اس کا شوہر تو چلا گیا، یہ غم دل میں لیے کہ وہ اپنی بیوی کو ایک چھت نہ دے سکا۔ اور اب سلطانہ بھی جانے کو تیار ہے۔ صرف ایک خواہش باقی ہے:
"مرنے کے بعد کم از کم دو گز زمین تو میری اپنی ہو۔ کاش دنیا میں مجھے میرے حق کا وہ ایک ایکڑ بھی کبھی ملا ہوتا… کاش!"
اور وہ خاموش ہو جاتی۔ جیسے ہر زخم بول کر تھک چکا ہو، اور اب صرف قبر کی مٹی میں جواب تلاش کرنا باقی ہو۔
تبصرہ لکھیے