ہوم << بدصورت آئینہ - اُم ماریہ کاظمی

بدصورت آئینہ - اُم ماریہ کاظمی

وہ واحد انسان جس نے اسے کبھی خوب صورت کہا، وہ اُس کی ماں تھی۔

وہ ہمیشہ منتظر رہی، کہ کوئی صنفِ مخالف سے بھی اُسے سراہے۔ چاہے۔ لڑکپن، نوجوانی وقت ہی ایسے ہوتے ہیں کہ دل میں ارماں کھلتے ہیں، اور منتظر رہتے ہیں، کسی ان سنی بات کے،ان دیکھی نظر کے۔ وہ آئینہ کے سامنے گھنٹوں کھڑی رہتی، سجتی، سنورتی، عید تہوار سہیلیوں کے ساتھ گھومتی، شادی بیاہ میں جاتی، رشتہ داروں کے گھر دعوتیں، اس کی ہم عمر لڑکیوں کو کوئی ستائشی نگاہ، تعریفی جملہ، ڈھکے چھپے اشارے مل ہی جاتے مگر وہ۔۔منتظر رہ جاتی۔

لوگ کہتے تھے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں سے مختلف ہے، یہ کہتے ہوئے وہ مسکراتے بھی تھے، وہ سوچتی تھی کہ اس مسکراہٹ میں وہ بات کیوں نہیں جو اس کی سہیلیوں کو ملنے والی مسکراہٹوں میں ہوتی ہے۔جب بڑی پھپھو کے منجھلے بیٹے گھر آتے ہیں تو آپی کو دیکھ کر مسکراتے ہیں، اس مسکراہٹ میں کیا خاص بات ہے جو اسے بہت اچھی لگتی ہے۔وہ روز شام کو اچھے کپڑے پہنتی جب ٹیوشن پڑھنے جاتی، وہاں محلے کے بہت سے لڑکے بھی آتے، مگر اس کی طرف کوئی نگاہ بھی نہ کرتا۔ اگر کبھی کوئی غلطی سے کربھی لیتا، تو اس میں جو مسکراہٹ ہوتی، وہ اس کی تشنگی مٹا نہ پاتی۔

اور اب اس کے بیاہ کی باتیں ہونے لگیں۔ لوگ آنے جانے لگے۔ وہ ہر بار پہلے سے زیادہ سجتی، سوچتی کہ پچھلی بار کیا کسر رہ گئی تھی جو اب پوری کرلے۔ اس کی ماں ، بہنیں، بھابیاں، کوئی کسر نہ چھوڑتیں مہمانوں کی خاطر داری اور اُس کی طرف داری میں، مگر نصیب کے تالے کی کنجی جس کے پاس تھی، وہ نہ مل رہا تھا۔

پھر ایک دن وہ مل گیا۔ماں نے اُس کی بلائیں لیں، دعائیں دیں اور اس گھر میں بھیج دیا جو پہلے ہی اس کے جہیز سے بھر چکا تھا۔اُسے یقین تھا کہ آج اُسے وہ سب ضرور سننے کو ملے گا جن کے لیے اس کے کان ترس رہے ہیں ، جس کے لیے اس کے بھائیوں کے کندھوں پر قرضے کا بوجھ آن پڑا ہے، اور جس کی خاطر ایک نئی چمچماتی گاڑی اس نئے گھر کے باہر کھڑی ہے۔ عجیب بات ہوئی۔ رات سے صبح ہوگئی، وہ سب ہوا جو ہوتا ہے، مگر وہ نہ ہوا جو وہ چاہتی تھی۔حالانکہ وہ پچھلے تین دن سے گھنٹوں پارلر میں گزار رہی تھی، مگر قابلِ تعریف پھر بھی نہ ٹہری۔ رات گزری، دن گزرا، اور پھر دن رات گزرتے چلے گئے۔ وہ پورے دن اور تمام رات کوشش کرتی کہ کوئی اُسے سراہے، فقط ایک نگاہ، وہ بات، جس کی منتظر وہ کب سے ہے، اُسے مل جائے۔مگر اُسے تو کچھ اور ہی ملتا رہا۔ قاعدے، طریقے، اصول،طعنے، ناراضگی اور بچے۔

یکے بعد دیگرے چار بچوں میں اُسے وقت کا ہوش رہا نہ اپنا۔ گھر، ذمہ داری اور شوہر کے نخرے اُٹھاتے اُٹھاتے وہ کب باجی سے آنٹی کہلائی جانے لگی، اُسے احساس ہی نہ ہوا۔ مگر رات کو جب وہ بستر پر لیٹتی، تو ایک ستارہ چپکےسے اُس کی آنکھ میں آسماتا۔کانوں میں کوئی رس گھولتا، اور وہ سمجھ نہ پاتی کہ یہ کون سی کمی ہے جس کا مداوا نہیں ہوپارہا۔ مگر وہ اتنا سمجھ چکی تھی کہ عورت کا دل اس کے کانوں سے جڑا ہے اور مرد کا دل اُس کی آنکھوں سے۔ شاید اسی لیے وہ اپنے شوہر کے دل تک پہنچ پائی تھی نہ اس کے دل تک کسی نے آنے کی کوشش کی تھی۔وہ اب بھی اُس نگاہ کی منتظر تھی جو بڑی پھپھو کے منجھلے بیٹے اس کی آپی پر ڈالتے تھے۔

دنیا کی نظروں میں اُس کے پاس سب کچھ تھا۔ ااچھا گھر، صحت مند بچے ،وفادار شوہر، خیال رکھنے والے بہن بھائی، ماں باپ کی دعائیں، مگر وہ سوچتی تھی، کہ کیا اچھے نصیب کی دعاوں میں کسی محبوب کی محبت بھی شامل ہوتی ہے؟ اور اگر نہیں، تو ماں باپ اپنی اولاد کو محبت ملنے کی دعا کیوں نہیں دیتے؟اگر یہی کچھ، سب کچھ ہے تو پھر وہ کیا کچھ ہے جس کی اُس کو کمی ہے۔ اگر اسی سب پر بس ہے تو بنانے والے نے یہ جذبات، احساسات بنائے ہی کیوں؟یا کم از کم عورت جیسی شے کو کیوں دیے کہ جن کو مرد صرف اپنی خوشی کے لیے بنائی گئی مخلوق سمجھتے ہیں۔اور اس کا تو کہیں ذکر ہی نہیں کہ دل کے ارمان بھی کوئی شے ہیں اور ان کی ذمہ داری بھی کسی پر ہے یا اس کی بازپرس ہوگی۔ تو ان پر تو کسی سے کوئی سوال بنتا ہی نہیں۔ وہ سوچتی رہتی، کہ سارے سوال مجھ ہی سے کیوں ہوں گے؟ خدا نے مجھے انسان کے بجائے مشین کیوں نہ بنایا اور اگر انسان بنا ہی ڈالا تو دل اور جذبات سے عاری کیوں نہ رکھا۔

ایک دن ہمت کرکے اُس نے یہ سوال شوہر سے کرہی ڈالا، کہ زوج کی ستائش گناہ تو نہیں، کبھی تو،کوئی تو بات، کوئی ادا، کوئی شے اچھی لگی ہوگی۔پھر کیا شے مانع ہے؟اُس کے شوہر نے حیرت سے اُسے دیکھا، اور پھر یہ حیرت کی نگاہ حقارت میں بدلتی گئی۔وہ نگاہ، اُس کی آنکھوں میں ٹہر سی گئی، وہ لفظ اس کی سماعتوں میں اٹک سے گئے، "کیا کروں؟ سب تو کررہا ہوں، تمہارے لیے، بچوں کے لیے، تم سے بے وفائی بھی نہیں کی، سچ ہے کہ عورتیں بڑی ناشکری ہوتی ہیں اور اسی لیے جہنم عورتوں سے بھری ہوگی۔ بھئی تمہارے ساتھ میں شوہر بن کے ہی رہ سکتا ہوں، محبوب بن کے نہیں۔ جاو۔۔۔جاکے آئینہ دیکھو۔"

اگلے دن وہ شوہر اور بچوں کو گھر سےرخصت کرنے کے بعد پورے دن محض آئینہ دیکھتی رہی۔ بہت غور سے، تفصیل سے، گزرتی عمر کا ثبوت بالوں اور ڈھلکتی جلد میں دیکھا۔ آئینہ میں جو نظر آرہی تھی، وہ شاید ایسی نہ تھی کہ کوئی نگاہِ اُلفت اس پر ڈالے۔ اگر آئینہ سچا ہے، تو پھر جھوٹا کون؟ اُس کی ماں ؟ مگر ماں کی آنکھوں میں اُس نے جو محبت دیکھی تھی، اس میں کھوٹ بالکل نہ تھا۔ پھر کھوٹ کہاں تھا؟ کیا تھا؟کیا آئینہ میں؟

ہاں شاید آئینہ میں کھوٹ تھا، وہ وہی کچھ دکھارہا تھا جو اُس کے اندرتھا، بدصورتی، شاید لوگ بھی اس آئینہ کی طرح تھے، وہ بھی وہی کچھ دیکھتے تھے جو ان کےاپنے اندر تھا، بدصورتی، وہ الجھ کر رہ جاتے اُس کی چھوٹی آنکھوں، بھدی ناک اور موٹے ہونٹوں میں، وہ دیکھ ہی نہ پاتے کہ اس کے پاس خوبصورت دل ہے، اخلاق ہے، وفا ہے اور محبت ہے۔ وہ غور سے دیکھتی رہی، آئینہ بدصورت تھا، پھر اُس کے کانوں میں اپنی ماں کی آواز گونجی، "ارے دیکھو تو، میری بیٹی کتنی خوبصورت لگ رہی ہے!"
(ختم شد)

Comments

Avatar photo

ام ماریہ کاظمی

ام ماریہ کاظمی صحافت و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کے بعد ہفت روزہ اخبار جہاں میں بطور سینئر سب ایڈیٹر کام کرنے کے دوران فیچرز اور بچوں کی کہانیاں لکھیں، کئی صفحات کی انچارج رہیں۔ ان کی تحاریر مختلف رسائل اور ویب سائٹس کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ سماجی مسائل، نفسیات اور لوگوں پر اثرانداز ہونے والے مسائل ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ ان پر بلاگ، فیچر اور تاثراتی تحاریر کے علاوہ افسانہ نگاری بھی کرتی ہیں۔

Click here to post a comment