ہوم << سعودی عرب کی تاریخ و ترقی کی داستان - میاں عتیق الرحمن

سعودی عرب کی تاریخ و ترقی کی داستان - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن اسلام کا آغاز جزیرہ نمائے عرب یا موجودہ سعودی عرب سے ہوا جہاں آپﷺ مبعوث ہوئے۔ آج سے 270 سال پہلے 1745ء میں موجودہ سعودی عرب کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب محمد بن سعود اور محمد بن عبد الوہاب کے درمیان طویل گفت وشنید کے بعد باہمی جدوجہد کا معاہدہ قرار پایا۔ اس معاہدے میں طے ہوا کہ حکومتی انتظامات کی ذمہ داری محمد بن سعود اور ان کا قبیلہ اور اصلاح عقائد کی ذمہ داری محمد بن عبد الوہاب اور ان کا قبیلہ ادا کرے گا۔
1811ء میں محمد علی پاشا مصری نے شام اور عراق میں شکست کھانے کے بعد اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے اپنے بیٹے احمد طوسی کو سعودی عرب پر حملے کے لیے بھیجا مگر وہ محمد بن سعود کے بھائی اور فوجی کمانڈر عبداللہ بن سعود سے وادی صفراء میں شکست کھا گیا۔ 1818ء میں محمد علی پاشا نے اپنے دوسرے بیٹے ابراہیم پاشا کو فوج دے کر بھیجا، اس نے درعیہ کا محاصرہ کیا، چھوٹی موٹی لڑائیوں کے بعد مقامی آبادی میں عام لوگوں کی قتل وغارت سے بچاؤ کی خاطر عبداللہ بن سعود نے سرنڈر کر دیا۔ اس سے محمد علی پاشا کو فوجی برتری تو حاصل ہو گئی مگر وہ سعود خاندان کی عوامی طاقت ختم کرنے میں ناکام رہا۔ اگلے 84 سال میں آل سعود کی حکومت میں اتار چڑھاؤ آتا رہا. جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لیے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندان ایک دوسرے سے متصادم ہو تے رہے۔ 1820ء میں محمد بن سعود کے بھائی مشاری بن سعود، محمد علی پاشا کی قید سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ واپس آئے تو لوگ دوبارہ ان کے زیر سایہ رہنے کے لیے تیار ہوگئے اور ان کی بیعت کرلی مگر درعیہ پہنچنے پر دوبارہ گرفتار کر لیے گئے اور اسی سال فوت ہو گئے۔
مشاری بن سعود کے پکڑے جانے کے بعد ان کی طرف سے ریاض کے نامزد امیر اور ان کے بھتیجے ترکی بن عبد اللہ بن سعود (دوسری نسل) منظر عام پر ‏آئ. ،1822ء میں ترکی بن عبد اللہ نے سلطنت کو منظم کرنے کی کوششیں شروع کیں، 1824ء میں مصری اور عثمانی ان کے ہاتھوں مغلوب ‏ہوئے، تو سعود خاندان کے باقی گرفتار افراد کو رہائی کے بدلے سازش کا حصہ بننے کے لیے ورغلایا. 1834ء میں ان کے آزاد کردہ آل سعود کے ایک فرد مشاری بن عبد الرحمن نے اپنے ماموں اور ریاض کے امیر ترکی بن عبد اللہ کو شہید کر دیا. درعیہ اور چالیس دن ریاض کا امیر بنا رہا مگر 40 دنوں بعد ہی فیصل بن ترکی بن ‏عبد اللہ (تیسری نسل) نے عوامی حمایت سے اسے مار بھگایا۔ اس کے بعد پھر محمد علی پاشا نے اسماعیل بک اور خالد بن سعود کو‏ساتھ ملا یا اور انہی کو استعمال کرکے ‏1836ء میں دوبارہ حملہ کیا اور بغیر کسی رکاوٹ کے ریاض فتح کر لیا. خالد بن سعود کی وجہ سے فیصل بن ترکی نے کوئی مزاحمت نہ کی اور گرفتار دے دی۔ پھر خالد بن سعود نے عثمانی ‏طاقت کے سائے میں حکومت کی۔ جب 1840ء میں برطانیہ سے معاہدہ کے بعد محمد علی پاشا نے سعودی عرب سے فوجیں نکال لیں تو پھر خالد بن ‏سعود کی گرفت بھی کمزور ہو گئی. 1843ء تک فیصل بن ترکی بھی قید سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے، 1844ء ‏میں وہ ریاض پہنچے اور سعودی سلطنت کو پھر سے منظم اور مستحکم کرنے لگے. 1865ء میں انھوں نے وفات پائی تو دوبارہ لڑائی جھگڑے شروع ہو ‏گئے۔ ترکوں نے مشرقی صوبے الاحساء پر قبضہ کر لیا، برطانیہ نے خلیج کی چھوٹی حکومتوں کا محاصرہ کر لیا، محمد بن عبد اللہ بن رشید المعروف آل ‏رشید نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور نجد کی حکومت پر قبضے کا منصوبہ بنا لیا ۔عبد الرحمن بن فیصل (چوتھی نسل ) اپنی استطاعت کے مطابق ان کا مقابلہ کرتے رہے مگر وقتی طور پر کامیاب نہ ہو سکے اور آل رشید نے حکومت پر قبضہ کر لیا، یہیں سے آل رشید اور آل سعود کے درمیان جھگڑا شروع ہوا، جریملاء کے مقام پر دونوں کی لڑائی ہوئی جس میں آل ‏رشید جیت گئے ، تو فیصل اپنے خاندان کے ساتھ احساء سے ہوتے ہوئے قطر گئے اور وہاں سے دولت عثمانیہ کے گورنر سے کویت میں پناہ کی درخواست ‏کی ،جو قبول ہوئی اور وہ کویت چلے گئے. یوں 1892ء میں یہ دور بھی اختتام کو پہنچا۔
حالیہ سعودی ریاست کا قیام شاہ عبدالعزیز آل سعود کے ہاتھوں عمل میں آیا، 1902ء میں عبد الرحمن کے بیٹے عبد العزیز ‏‏(پانچویں نسل) ریاض واپس آئے اور آل سعود کو منظم کیا، سلطنت سعودیہ کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد اس میں اضافہ کرتے رہے۔ ‎1902‎ء میں عبدالعزیز بن عبد الرحمن نے حریف آل رشید سے ریاض شہر واپس لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دے کر جدید سعودی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اپنی فتوحات کا ‏سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد، مکہ مکرمہ اور ‏مدینہ منورہ سمیت باقی علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز آل سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری ‏‏1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے ذریعے برطانیہ نے مملکت حجاز و نجد کے تمام مقبوضہ علاقے عبدالعزیز آل سعود کے سپرد کر دیے۔ 1932ء میں مملکت کانام ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ رکھ دیا گیا۔ مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور ‏مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔ عبد العزیز آل سعود نے سعودی عرب کی بنیاد رکھنے کے بعد 1953ء تک حکومت کی. پھر یہ سلسلہ ان کے بیٹوں میں منتقل ہو گیا اور ان کے بعد اب تک آنے والے 6 بادشاہ انہی کے بیٹے تھے. سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ولی عہد اور نائب ولی عہد مقرر کرکے سعودی قیادت کی نئی جہت متعین کر دی ہے۔
سابقہ ادوار میں عموما سعودی حکومت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر پرفارمنس ادا کرنے کا ہوتا تھا، یعنی جو واقع ہو رہا ہے اس کو بہتر کرنے کے اقدامات کیے جائیں مگر اب طرز حکومت کو یکسر تبدیل کر کے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ جو مستقبل میں ہوگا اسے کیسے حل کیا جائے گا اور اس سے کیسے نمٹا جائے گا؟ اس کے لیے کابینہ اور محکموں میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ حکومتی اداروں کو ترقی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کو سعودی شہریوں کی ضروریات کے مطابق سہولیات اور خدمات فراہم کرنے کا کہا گیا. وزارت تربیت اور وزارت اعلیٰ تعلیم کو ایک ہی وزارت تعلیم کے تحت کرکے تعلیم کے ذریعے بہتر تربیت کے بندوبست پر ارتکاز کیا گیا ہے، اسی طرح سعودی وزارت عمل اور وزارت سوشل افیئر کو وزارت عمل و سوشل ڈیویلپمنٹ بنا کر سماجی بہتری سے سماجی ترقی کے سفر کو شروع کیا گیا ہے. اعلیٰ تعلیم، میڈیا اور امن وامان کی سپریم کونسلز کو یکجا کرکے شہریوں کی بہترین تعلیم وتربیت کے ذریعے میڈیا اور امن وامان کو راہ راست پر لانے پر کام شروع ہو گیا ہے۔ محمد بن سعود یونیورسٹی کی شاخوں کو سعودی عرب کے ہر شہر تک پھیلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر 3 بلین ریال خرچ کیے جا رہے ہیں۔ ہر ضرورت مند شہری کو درعیہ میں مفت گھر، بیرون ملک تعلیم کےلیے بڑی تعداد میں سکالر شپس اور بیرون ملک حکومتی خرچ پر علاج جیسے اقدمات نے موجودہ سعودی حکومت کو عوام میں از حد مقبول بنا دیا ہے۔ عالم اسلام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا شعور بیدار کرنے کے لیے مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں خدمات کے اعتراف میں ایک میوزیم بنایا گیا ہے۔
حجاج کرام کی سہولت اور آسانیوں کے پیش نظر مسجد الحرام کے صحن کی ‏توسیع، زمین دوز راستوں کا قیام، بلڈنگ سروسز، پہلے رنگ روڈ، مسجد حرام کی تین منزلہ عمارت، سینٹرل سروسز آڈیٹوریم، بجلی پیدا کرنےکے لیے نئے جنریٹرز کا قیام، ریزرو پاور جنریٹر، پانی ٹھنڈا کرنے کا ‏منصوبہ، حرم ‏مکی میں جمع ہونے والے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے سمیت کئی دوسرے منصوبہ جات شامل ہیں۔اس کے ساتھ مسجد قبا اور مسجد نبوی کی توسیع کے منصوبے شروع کیے گئے۔ نئے بجٹ میں تعلیم پر خاص توجہ دی گئی ہے، شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے زیراہتمام منعقدہ دوسری عالمی کانفرنس میں یونیورسٹی کی مرکزی عمارت ‏میں توسیع کا سنگ بنیاد رکھا گیا، اور ساتھ ساتھ ملک کے ہر شہر میں اس کی شاخوں کے قیام کی منظوری بھی دی جس کے لیے تین ارب 235 ملین ریال کی رقم مختص کی گئی۔ ریاض میں قائم کردہ سائنس اور ٹیکنیکل سروسز کے شعبوں میں تعلیم دینے والی الیکٹریکل یونیورسٹی کے لیے مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور ‏یونیورسٹی کی توسیع کے لیے آٹھ ارب 590 ملین ریال کا بجٹ منظور کیا۔ شاہ سلمان عبدالعزیز نے ایک بہت بڑے فلاحی منصوبے شاہ سلمان ریلیف سینٹر کو ایک ارب ریال کے فنڈ سے ‏قائم کیا ہے۔ مدینہ منورہ میں شہزادہ محمد بن عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے کا قیام بھی ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس ہوائی اڈے کی ‏تکمیل کے بعد سالانہ 80 لاکھ مسافر سفر کرسکیں گے۔
آل سعود کی جہود و مساعی کی بدولت سعودی عرب میں آج ‏‎99.99‎‏ فیصد لوگ مسلمان ہیں اور معاشی طور پر مستحکم ہیں. سعودی عرب میں کئی پرائیویٹ اداروں نے سروے کروایا، غریب ترین آدمی بھی ایک دن میں کم از کم 17 ڈالر کما لیتا ‏ہے جو امریکہ کی 15 ڈالر کی کم از کم اجرت سے زیادہ ہے۔ سعودی عرب کے موجودہ سربراہ شاہ سلمان بن عبد العزیز نے سابقہ سعودی فرما رواؤں کی روش خدمت کو آگے بڑھاتے ہوئے عام سعودی شہریوں کی فلاح وبہبود سے لے کر عالم ‏اسلام کی خیر و بھلائی کے بہت سے منصوبے جاری کیے ہوئے ہیں۔ ایک سال کے عرصہ میں بہت سے انقلابی اقدامات کیےگئے ہیں جو مستقبل میں سعودی عرب کو نئی بلندیوں تک پہنچانے کے ساتھ عالم اسلام کے لیے بہت مفید اور کار آمد ہوں‌گے۔

Comments

Click here to post a comment