حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ”دانش مؤمن کی گمشدہ میراث ہے“۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر کسی شخص کا کوئی سامان گم ہوگیا ہو، اور وہ کہیں اسے اچانک نظر آجائے، تو وہ تیزی سے اس کی طرف لپکے گا۔ یعنی مؤمن کی صفت یہ ہوئی کہ وہ عقل و دانش کی طرف تیزی سے لپکتا ہے۔
”گمشدہ میراث“ ہوتی کیا ہے؟
یہ مجھے اس واقعے سے سمجھ آیا جو میرے کراچی کے دوست معین بھائی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی کے حالات بہت زیادہ خراب تھے۔ چوری ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کا دور دورہ تھا۔ موٹر سائیکل کا چھن جانا، گاڑی کا غائب ہو جانا اور سرِعام لٹ جانا عام تھا۔ ایک دن معین بھائی اپنے آفس گئے اور پارکنگ میں اپنی نئی ہنڈا موٹرسائیکل کھڑی کر کے اندر چلے گئے۔ جب واپس باہر نکلے تو دیکھا کہ موٹر سائیکل غائب ہے۔ ان کو اپنی نئی موٹر سائیکل کی چوری کا بڑا صدمہ ہوا۔ بہت تلاش کیا، ایف آئی آر بھی درج کروائی، لیکن موٹر سائیکل کا کچھ پتہ نہ چلا۔ رو دھو کے صبر کیا اور دوسری موٹر سائیکل لے لی۔
کہنے لگے کہ ایک دن میں اس پر کہیں جا رہا تھا تو اچانک دیکھا کہ میرے آگے آگے دو لڑکے ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے جا رہے ہیں اور وہ میری وہی گمشدہ موٹر سائیکل تھی۔ جیسے ہی میں نے یہ دیکھا تو تیزی سے اس کی طرف لپکا کیونکہ وہ میری گمشدہ میراث تھی۔ لیکن میں جیسے ہی قریب پہنچا تواندازہ ہوا کہ وہ دونوں لڑکے جرائم پیشہ اور غنڈے قسم کے لگ رہے ہیں۔ قوی امکان تھا کہ ان کے پاس اسلحہ بھی ہو۔ میں کافی دیر ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا، لیکن میری اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ان کو روک کر یہ کہہ سکوں کہ یہ موٹر سائیکل میری ہے، مجھے واپس کرو۔ ڈر رہا تھا کہ کہیں مجھے گولی ہی نہ مار دیں۔
معین بھائی کہتے کہ میں اس موٹر سائیکل کو دیکھ کر اس قدر بے چین ہوا کہ خوف کے باوجود بڑی دیر تک ان بدمعاشوں کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ میں یہ بھی بھول گیا کہ مجھے کہاں جانا تھا۔ وہ بھی کافی دیر یونہی اِدھر اُدھرگھومتے رہے۔ بالآخر مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں انہیں شک نہ ہو جائے کہ میں ان کا تعاقب کر رہا ہوں اور وہ مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ میں نے بڑے بوجھل دل اور بڑی مشکل سے یہ فیصلہ کیا کہ واپس ہو جاؤں اور ان غنڈوں کو اپنی موٹر سائیکل لے جانے دوں۔ کہتے ہیں کہ میں واپس تو آگیا اور وہ موٹر سائیکل مجھے پھر کبھی ملی بھی نہیں، لیکن جس وقت وہ مجھے نظر آئی تھی، اس وقت میں اپنی اس گمشدہ میراث کی طرف اس شدت سے لپکا تھا کہ اس شدت سے میں زندگی میں کبھی کسی چیز کی طرف نہیں لپکا ہوں گا۔
معین بھائی نے جب یہ قصہ سنایا تو مجھے اچھی طرح سمجھ میں آ گیا کہ دانش مؤمن کی گمشدہ میراث کیسے ہوتی ہے … یعنی عقل و دانش اور علم و حکمت کی جو بھی بات ہوگی، مؤمن اسے اپنی ملکیت، اپنی وراثت سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کیلئے تیزی سے اس کی طرف لپکے گا۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ عقل اس کی میراث ہے، دانش اس کی جائداد ہے۔ لوگ جس طرح اپنے مال سے محبت کرتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی طرف لپکتے ہیں، مؤمن بالکل اسی طرح علم و حکمت کی طرف لپکتا ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کو جس طرح کا مؤمن مطلوب ہے، وہ ایک عقل مند و دانش مند انسان ہے۔
دانش و حکمت ہی وہ سرمایہ ہے کہ جس کی بدولت انسان دنیا و آخرت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ چنانچہ علم و دانش کی طرف تیزی سے بڑھیں اور اسے ایسے حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ جیسے وہ ہمارا ایسا گمشدہ مال ہے جو ہمیں اچانک دوبارہ نظر آگیا ہو۔
تبصرہ لکھیے