یہ دلکش و منور اور پُرکشش چہرہ اور سراپا پنجاب کے لگ بھگ نو سو مردانہ و زناتہ کالجز کے ہزاروں اساتذہ کے بلا شرکت غیرے مسلّمہ قائد اور راہنما پروفیسر رانا اصغر علی مرحوم کا ہے۔جنہوں نے کم و بیش ربع صدی تک کالج اساتذہ کی فعال اور بھرپور قیادت کا حق ادا کیا اور ان کے دلوں پر راج کیا ، جو دلوں کو کرلے فتح،وہی فاتحِ زمانہ
میں نے جب 1985 میں بطور لیکچرر سرکار کی نوکری کا آغاز کیا تو رانا اصغر مرحوم میدانِ سیاست میں قدم رکھ چکے تھے،مگر ابھی پنجاب لیکچررز ایسوسی ایشن ۔PLA کی صدارت پر متمکن نہ ہوئے تھے،تاہم اس کے مرکزی راہنماؤں میں سر فہرست ضرور تھے۔ مجھے ان دنوں نہ پی ایل اے کی خبر تھی،نہ سیاسی مسائل کا ادراک اور نہ ہی اس جدوجہد کی اہمیت کا احساس۔بس ایک فکری اجتماعیت تھی ،جس کی آخری صفوں میں میں بھی شامل تھا ۔ان ہی دنوں پی ایل اے کے انتخابات کا اعلان ہوا،تو کالجز میں ہلچل مچی اور قائدین کے دوروں اور پرجوش خطابات سے ان کی پرسکون موجوں میں اضطراب رونما ہوا. تقاریرمیں کچھ وعدے،کچھ وعیدیں،کچھ بلند بانگ دعوے ،کچھ ایک دوسرے کے پرخچے اڑانے،اپنی کامیابیوں اور مخالف گروپ کی ناکامیوں کے تذکرے اور کچھ خطابت کے جوہر اور کچھ لفظی وار اور خواب ۔ دونوں جوانب سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر جوں جوں انتخاب کا دن قریب آیا،ووٹرز سے گھر گھر رابطوں کا سلسلہ عروج پر پہنچا۔۔مقامی قائدین کاغذ قلم تھامے اور سر جوڑے جمع ضرب تقسیم کرتے دن رات مصروف رہتے۔ ان انتخابی سرگرمیوں کا ہر قدم اور مرحلہ میرے لیے بہت معلومات افزا اور دلچسپ ہوتا۔میں خاموش تماشائی بنا سنتا اور دیکھتا رہتا۔ الیکشن کے نتائج کے مطابق ایک دلکش شخصیت رانا اصغر نے جیت کر زمام کار سنبھالی تو وہ شخص بے شمار لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ کسی انتخابی اجلاس یا فتح کے بعد کسی استقبالیہ میں رانا اصغر کے نپے تُلے،مسجع و مقفی اور مدلل و متأثرکن خطابات اور اعداد و شمار کے سلسلے سنے تو دور کسی بنچ پر بیٹھا یہ نوخیز لیکچرر لفظوں سے گھائل اور شخصیت کا اسیر ہوگیا ۔
رانا اصغر مرحوم کی سیاسی خدمات پر ان کے یمین و یسار رفقاءِ کار یقینا بصراحت و وضاحت روشنی ڈالیں گے،مجھے تو ان کی شخصیت کے سحر کا تذکرہ کرنا ہے،جس سے میں بہت متاثر ہوا اور ہمیشہ رہا۔میرے نزدیک وہ کالجز کی سیاست اور اساتذہ کرام کے مفادات کی طویل جدوجہدکا نہ صرف استعارہ بلکہ ایک افسانوی کردار ہیں. میرا قوی تأثر ہے کہ رانا اصغر جیسی قیادت ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور ان جیسی شخصیت کا جادو جگانا بھی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں۔یقیناً ان کے بعد تحریک اساتذہ کے قائدین کی خدمات بھی مثالی اور بے نظیر ہیں ،اور اساتذہ کی شان و شوکت، وقار اور مفادات کے تحفظ کے لیے اہم سنگ میل ہیں، تاہم رانا اصغر کی جدوجہد میرے نزدیک ایک ایسا خواب ہے،جس نے تعبیر پائی اور ایک افسانہ،مگر زندہ و جاوید اور ناقابل فراموش زریں عہد بن کر کم و بیش پچیس سال تک ان گنت لوگوں کو اپنا دیوانہ بنائے رہا، ایک اٹل حقیقت اور ایک بے مثل کردار ہے۔
رانا صاحب سیاستدان تو یقیناً تھے ہی،مگر ملکی سیاستدانوں کی طرح غبی،کم ظرف،کم علم،کم عقل اور جاہل و مفاد پرست نہ تھے،ایک پڑھے لکھے،صائب فکر،متحمل مزاج اور مہذب ،مدبر و دور اندیش سیاست دان تھے ۔۔پختہ سیاسی فکر کے حامل اور بے لوث خدمت و بے غرض قیادت کا نشان۔ اپنی سیاسی جدوجہد کے ہر نشیب وفراز سے آگاہ،ہر مسئلے اور انفرادی و اجتماعی تقاضوں سے باخبر،اپنے مؤقف کے لیے ہر دلیل و جواز سے لیس،قوت استدلال بھی اور قوت بیان بھی ۔بڑے سے بڑے حاکم وقت اور صاحب اختیار کے سامنے بھرپور اعتماد،بلند حوصلے اور کامیابی کے یقین کے ساتھ بیٹھتے۔اخلاص کے ساتھ لفظوں کا جادو چلاتے اور دلائل و محکمانہ قواعد کے انبار لگا دیتے،اور مذاکرات کی میز کی دوسری جانب بیٹھے افسروں کو کسی خوف ،مرعوبیت اور مداہنت و مفاد طلبی کے بغیر مجبور کر دیتے کہ وہ قائد اساتذہ رانا اصغر کے مؤقف کو تسلیم کرلیں۔ رانا صاحب کے پاس جہاں بے لوثی،اخلاص اور دلائل کی قوت ہوتی،وہیں ایک طرف ان کی ستائش اور صلے سے بے رغبتی ان کے مؤقف اور بیان کی قوت کو بڑھا دیتی تو دوسری طرف ہزاروں مخلص،وفادار اور جان و مال نثار دوستوں اور کالج اساتذہ کی حمایت انہیں مزید مضبوط و مستحکم کرتی۔
رانا اصغر صاحب کی 25 سالہ جدوجہد کے دوران کامیابیوں کی فہرست یقیناً طویل ہوگی،مگر مجھے دو بنیادی کامیابیاں سب پر حاوی و بھاری لگتی ہیں۔ یہ ان کا اپنی کمیونٹی پر وہ عظیم احسان ہے،جو کبھی بھلایا جاسکے گا، نہ اس کے اعتراف سے صرفِ نظر کیا جاسکے گا ۔
ایک ۔۔۔چار درجاتی فارمولے کا اجراء ۔۔جس کے ذریعے گریڈ سترہ اور اٹھارہ میں ریٹائر ہونے والے کالج مرد و خواتین اساتذہ کو گریڈ بیس تک رسائی کے تیز مواقع ملے۔ یہ منزل جلد حاصل ہوئی نہ آسانی سے۔ ایک طویل اور صبر آزما مدبرانہ اور چومکھی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھی،جسے رانا اصغر مرحوم جیسے زیرک اور ہردلعزیز قائد کی قیادت اور مدبرانہ راہنمائی میں یقینی بنایا گیا ۔ دوسرا ۔۔۔یہ کہ رانا صاحب نے حکمت و تدبیر کے ساتھ پنجاب لیکچررز اور پروفیسرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور سینیئر و جونیئرز کی دو علٰیحدہ ایسوسی ایشنوں کو یکجا کیا۔ پی پی ایل اے کی بنیاد رکھی اور اسے فعال کیا۔
رانا اصغر صاحب کو اپنی اس سیاسی جدوجہد میں بلاشبہ ووٹوں کے ذریعے شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ،مگر سلام ہے اس عظیم شخص پر کہ اس نے بڑے دل سے شکست کو نہ صرف تسلیم کیا،بلکہ اساتذہ کی خدمت کے مشن کو نہ چھوڑا، دل شکستہ ہوئے،نہ مایوسی اور دل گرفتگی کو قریب پھٹکنے دیا۔ یقیناً ان کی ہر مساعی کا محور اللہ کی رضا کا حصول اور اس کی مخلوق کی مدد تھا،سو اس راہ میں مایوسی اور بے دلی کا کوئی کام تھا،نہ عمل دخل۔ جب وہ اقتدار میں ہوئے تو اپنے مخالفوں سے کمیونٹی کے مفاد کے لیے تعاون حاصل کیا،اور جب اقتدار میں نہ ہوئے تو اپنے مخالفوں کے ساتھ اپنے اصولوں اور تحریکی پالیسی کے دائروں میں رہتے ہوئے تعاون سے بھی کبھی گریز نہ کیا۔
رانا صاحب مرحوم کے اس مثبت کردار نے انھیں کالج اساتذہ کا ہر دل عزیز بنا دیا کہ ہر دو صورتووں میں مؤثر و توانا کردار و آواز رانا صاحب کی ہی رہی۔اور ربع صدی تک پنجاب کے کالجز میں رانا اصغر کا ہی طوطی بولا۔اور سب ہی کی سیاست اور قیادت کے ہیولے ان کی شخصیت اور شاندار و جاندار قائدانہ کردار کے سامنے ماند پڑگئے اور عاجز ہی رہے۔ کسی عربی شاعر کے مصداق جس نے اپنے ممدوح کی مدح اور دیگر ذی مرتبت ہم عصروں پر فوقیت و برتری بیان کرتے ہوئے کہا تھا:فاِنک شمسُُ والملوکَ کَواکِبُ یعنی آپ کے ہم عصر تو ستاروں کی مانند ہیں،مگر آپ تو مثلِ آفتاب ہیں۔یعنی یہ سب ستارے آپ کے وجود،روشنی اور کارکردگی کے سامنے بے نور و بے نشان ہوجاتے ہیں۔ رانا اصغر مرحوم کا نام اور کردار بھی چوتھائی صدی تک کچھ یوں ہی تھا کالجز کی دنیا اور اس کے آسمانِ سیاست و خدمت و قیادت پر مقابلہ،موازنہ اور مسابقہ سے کہیں بلند ۔
رانا صاحب راجپوت تھے، تو قیادت و سیادت ان کے خمیر میں موجود ہونا فطری امر تھا،جس کا انہوں نے خوب عملی اظہار کیا۔اور اپنی شیریں سخنی۔بلند نگاہی، دلداری،غم خواری اور سخت کوشی ،مضبوط اعصاب اور حکمت و تدبیر ،تحمل و بردباری ،حلم و دانش جیسے اوصافِ قائدانہ سے دوستوں اور کارکنوں اور اساتذہ کو باہم مربوط و متحد اور فعال و متحرک رکھا۔ شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ صادق آباد سے اٹک تک کے کم وبیش آٹھ نو سو کالجز تک پھیلے ہوئے دائرۂ عشاق میں کوئی ناراض ہوا ہو،یا عدم التفات کا شاکی رہا ہو یا کارواں سے ٹوٹا ہو ،یا حرم سے بدگماں ہوا ہو۔ رانا صاحب کی شخصیت کے اعجاز اور سحر نے قافلے کو جوڑے اور جانب منزل رواں دواں رکھا ۔ سچی بات ہے کہ میں ذاتی حد تک رانا صاحب کے منظر سے ہٹنے کے بعد اس سیاسی منظر سے نہ صرف ہٹتا گیا،بلکہ کسی حد تک بیزار بھی ہوگیا،نہ ہی میرے لیے اس عمل میں کوئی کشش رہی،نہ قائدین کے گرد قائم نئے دائرے میں شمولیت کی خواہش ہوئی اور نہ ہی قائدین محترم نے کارواں کے شرکاء کی طرف کبھی پلٹ کر بھی دیکھا اور نہ ہی ان کی ضرورت محسوس کی۔اسی کا نتیجہ ہوا کہ انھیں پے درپے ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
رانا اصغر علی مرحوم صاحب قائد تو تھے ہی ،مگر بالیقین مردِ خلیق تھے،اسی لیے ہردل عزیز بھی۔ وہ دلوں کو فتح کرنے اور مسخر کرنے کے ہُنر اور طبعی صلاحیت سے متصف تھے۔وہ جس شہر یا کالج میں جاتے، اساتذہ دیوانہ وار پہنچتے۔حلقۂ یاراں بھی جمتا اور ہجومِ عاشقاں بھی سجتا۔سیاسی بحثیں بھی ہوتیں،راز و نیاز بھی ہوتے،بے تکلفی اور محبت کے مناظر بھی دکھائی دیتے، چٹکلے بھی پھوٹتے،تذکرۂ یاراں بھی ہوتا،سیاسی حکمتِ عملی بھی طے ہوتی،مشاورت بھی جاری رہتی،مستقبل کے نقشے بھی بنتے،مختلف امور پر ڈیوٹیاں بھی لگتیں، ضمناً اکل و شرب کا اہتمام بھی ہوتا۔بالعموم رات گئے تک یہ مجلسِ دوستاں جاری رہتی اور صبح نئے سفر اور منزل کی جانب روانگی کا مرحلہ آتا۔ ایک طویل عرصہ تک نہ تو رانا صاحب کے پاس سفر کے لیے کوئی گاڑی تھی،اور نہ احباب ذی وقار اتنے متمول تھے کہ وسیلہ سفر فراہم کرتے. تنظیم اساتذہ یا تحریک اساتذہ کے پاس بھی اتنی مالی فراوانی نہیں تھی کہ انھیں گاڑی فراہم کی جاتی۔۔سو ان کے زیادہ تر سفر بسوں اور ویگنوں میں ہی طے ہوئے۔ اس مشقت و صعوبتِ سفر بلکہ اسفارِ بعیدہ و جاریہ نے ان کی ہمت کو متأثر کیا،نہ جدوجہد کو کمزور بنایا ،نہ عزم واستقلال کو توڑا اور نہ ہی جبین کو کسی کلفت و اذیت کی شکن سے آلودہ کیا۔
رانا صاحب تقریر کے بھی بادشاہ تھے۔ جو بھی ان کی منظم و مرتب اور مدلل و متنوع اسالیب و انداز ہائے بیاں پر مبنی تقریر سن لیتا،ان کا والا و شیدا ہوجاتا۔میری خوش نصیبی کہ میں ان کی تقریر اور شخصیت دونوں ہی کا فریفتہ اور شیدا تھا اور اب تک ہوں۔ مجھے گرچہ اپنی کم مائیگی اور بے نام و نشان شخصیت کے باعث ان کی قُربتِ خاص تو حاصل نہ ہوسکی ،مگر التفات دل دوستاں سے بھی محرومی نہیں رہی ۔ان کی لذت تقریر اور اتباع قیادت کا شرف ہی مجھے ہمیشہ سرشار رکھنے کو کافی ہے۔ اور باوجود بعدِ و محرومیٔ رفاقت کے میں بھی ان کے" مفتوحین" میں سے ایک ہوں۔ وہ جب بھی ملے،جہاں بھی ملے ،اپنائیت اور محبت،مسکراہٹ اور دلفریب رچاؤ سے ہی پیش آئے ، ان کی اس دلنوازی نے مجھے ان کے ساتھ جوڑے رکھا۔ ان کے ساتھ یوں تو میرا رابطہ عرصہ ہوا ختم ہی ہوگیا،بالخصوص ان کی ریٹائرمنٹ اور عملی سیاست کے اختتام کے بعد سے۔تاہم ایک بار انھوں نے مجھے فون پر شرفِ یم کلامی بخشا اور اپنی کتاب جو ان کی عملی جدوجہد کی مفصل داستان ہے ،کی ترسیل کے لیے ڈاک کا پتا پوچھا اور کتاب بھیج کر ناچیز کی عزت افزائی کی ۔
دل کی تسخیر اور محبت کے اس ربط و ضبط کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کی وفات کی خبر سن کر میرا دل ایسا مچلا کہ سفر پر طبیعت کی عدم آمادگی اور روزے کی حالت کے باوجود ان کے جنازے میں شرکت کے لیے سرگودھا کا سفر باعثِ سعادت قرار پایا کہ یہ ان کا حق اور مجھ ناچیز کا فرض تھا۔ شاید ایک مرد ِ حق و صاحبِ کردار کے لیے الوداعی دعائے مغفرت میں شرکت مجھ عاجز و خطاکار کے لیے بھی نافع بن جائے ۔ سرگودھا یونیورسٹی کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں پنجاب بھر سے ان کے ہزاروں مداح،رفقائے کار اساتذہ اور طلبہ سوگوار اور غمزدہ انہیں الوداع کہنے موجود تھے جو ان کے ساتھ ان کی محبت وعقیدت کا مظہر تھا ۔
رانا صاحب مرحوم متعدد شخصی اوصاف سے بھی متصف تھے ۔۔دیانت امانت،شجاعت، صداقت ۔حلم و تحمل ان اوصاف میں بہت نمایاں تھے . دراصل وہ ایک مخلص تحریکی خاندان کے چشم و چراغ تھے،اور جمعیت کے پروردہ تھے اور تحریک کا سائبان مستقل ان کا راہبر و راہنما تھا،مضبوط نظریاتی تشخص ان کی شخصیت سازی میں بہت مؤثر رہا۔ وہ سید مودودی رح کے جاں نثار سپاہی اور ان کی فکر کے والہانہ عاشق و پیروکار تھے. رانا صاحب مرحوم کی تمام شخصی صفات مسلمہ ہیں، مگر میرے لیے قابل توجہ سب سے بڑھ کر ان کی شخصیت کا یہ پہلو تھا کہ وہ اللہ کا ایک نیک ، عاجز اور اس کی مخلوق کا خدمت گزار بندہ تھا۔ گویا گفتار میں،کردار میں اللہ کی بُرھان۔ زمانے نے ان کا جلال بھی دیکھا اور جمال بھی،مگر تنہائیاں ان کے عجز و انکسار اور دعا و استغفار کے معمولات کی گواہ بنیں ۔ان کی آنکھوں کی نمی تو میں نے بچشم خود دیکھی۔ انہوں نے تحریک، تنظیم،کمیونٹی ،مقصد و منزل کو زندگی کا بے حساب وقت دیا۔ پنجاب بھر کے طول و عرض میں دشوارگزار ،بے شمار سفر کیے۔ اپنے اخراجاتِ سفر کا بیشتر حصہ خود برداشت کیا ۔ جسم و جان،مال ،وقت،صلاحیتوں اور مشقتوں کی کون سی قربانی تھی جو ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز ہوکر انہوں نے پچیس سال تک نہ دی ہو ۔ حیرت ناک بات یہ کہ کبھی اس کا تذکرہ کیا،نہ احسان جتلایا،نہ کچھ معاوضہ طلب کیا۔ گویا یہ ان کی حیاتِ مستعار کا مفوّضہ کردار تھا،جس کی ادائیگی کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہو،اور جسے بہر صورت انہیں ادا کرنا ہی تھا۔ تنظیم اساتذہ ہو یا تحریک اساتذہ ،اس کی مجالس احتساب ہوں یا قیادت کے سامنے حاضری و جواب طلبی ۔رانا اصغر مرحوم نے ہمیشہ ایک مخلص کارکن کی طرح سمع و اطاعت کا ہی رویہ اختیار کیا۔جب قائد تھے تو اسٹیج کی زینت بنتے ،جب قیادت سے سبک دوش ہوئے تو سامنے دریوں اور عام کرسیوں پر بیٹھنے میں کبھی عار محسوس کیا،نہ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔۔ حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور رزم حق و باطل میں فولادی مؤمن۔
رانا صاحب اپنی گفتگو،اور تقاریر میں جہاں شعر و ادب کا بکثرت استعمال کرتے ،وہیں قرآنی ایات و احادیث اور افکارِ سید کو بھی بیان کرتے۔جو ان کی تربیت،مطالعہ اور تحریکی فکر و نصب العین سے گہری وابستگی کا مظہر تھا۔یوں بھی وہ علوم اسلامیہ کے معلم اور خوشہ چین تھے۔مگر ان کی گفتگو میں معنویت اور مقصدیت اور ارتباط و استحکام ان کی بیدار مغزی اور مقصد حیات اور منزل کے پختہ اور واضح شعور نے پیدا کیے۔ رانا صاحب کی تقاریر کا ایک اور منفرد پہلو یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ کامیابیوں کی نوید ہی سنائی،مایوسی کی باتیں نہیں کیں،مقاصد کے حصول میں رکاوٹوں اور الجھنوں کا ذکر تو کیا،تاکہ اصل صورتحال بھی سامنے رہے،تاہم مایوسیوں اور ناکامیوں کو قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ ناکامی کی صورت میں بھی امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور نہ ہی قافلے کو مایوسیوں میں دھکیلا۔ کیا ہی شاندار،باہمت وحوصلہ اور پرعزم قائد تھا۔۔!
یہ بات بھی ان کے کردار کا روشن پہلو ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح کبھی بڑے افسروں حکمرانوں اور اختیار والوں سے اپنی ذات کے لیے کوئی رعایت یا مفاد نہیں حاصل کیا۔کردار کی اسی مضبوطی نے انہیں میدانِ عمل میں سینہ ٹھوک کر کھڑا رکھا اور بکنے،جھکنے اور کمزور پڑنے سے بچائے رکھا۔
وہ چاہتے تو کم از کم سرگودھا کی بجائے لاہور ہی ٹرانسفر کروا لیتے اور وہاں رہتے ہوئے سفر کی کلفتوں سے ممکنہ حد تک بچ کر سیکرٹریٹ اور ایوان ہائے اقتدار سے کمیونٹی کے مفادات کی جدوجہد کو مزید ثمربار بناتے. رانا صاحب گفتار کے بھی غازی تھے اور کردار کے بھی ۔مگر تحریر و تصنیف ان کا میدان نہ تھا،مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جدوجہد کی داستان کو کتاب کی شکل دی اور مجھ ناچیز کو بھی اس کا مستحق سمجھا۔
بلاشبہ رانا صاحب کے پائے کا کوئی لیڈر کم از کم مجھے تو نہیں ملا ۔کاش قومی سطح پر ان کی پذیرائی ہو سکے، جس کا امکان تو ہرگز نہیں ۔البتہ ان کا اصل اعزاز و افتخار وہ محبت ،احترام و مقام ہے جو ان کے احباب اور شیداؤں اور عاشقوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا اور انہیں ان کے فراق میں تڑپاتا رہے گا۔ کسی نے خوب کہا۔
انما المرء حدیث لمن بعدہ
فکن حدیثا حسنا لمن وعیٰ
انسان تو اپنے بعد محض ایک یاد اور تذکرے کا عنوان ہی بن کر رہ جاتا ہے۔لہذا کچھ ایسا اچھا،بے مثال اور منفرد کرجاؤ کہ لوگ تمہیں تمہارے اعمالِ حسنہ،کردار اور مآثرِ کرام کے حوالے سے یاد کریں اور دلوں میں سجائے رکھیں۔ رانا اصغر مرحوم یقیناً ایسا ہی قابل تقلید کردار ہیں جو نسلوں تک یاد رکھے جائیں گے۔۔
اللہ ان کی مرقد کو منور و معطر کرے،وسیع اور گل و گلزار بنائے۔اور ان کے درجات بلند کرتے ہوئے ان کی بشری لغزشوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر کرے اور اپنے نیک بندوں کی معیت عطا کرے۔
آمین برحمتک یا أرحم الراحمین۔
تبصرہ لکھیے