ہوم << کیا عمران خان کی سیاسی حکمت عملی درست ہے؟ احسن سرفراز

کیا عمران خان کی سیاسی حکمت عملی درست ہے؟ احسن سرفراز

کیا آٹھ دس شہروں سے اپنے کم و بیش پندرہ بیس ہزار فین کسی ایک شہر میں جمع کر کے اداروں اور مخالفین کو گالیاں دینے سے خان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی منزل قریب آ رہی ہے؟ ظاہر ہے خان کی تقاریر سے اس کا جو ٹارگٹ سامنے آتا ہے وہ واضح ہے کہ ادارے مثلاً فوج, عدلیہ, الیکشن کمیشن وغیرہ موجودہ حکومت کو شر اور خان کو خیر مان کر نیوٹریلٹی چھوڑ دیں اور 2018 کی طرح نا صرف اس کی پشت پر پوری قوت سے دوبارہ کھڑے ہوں بلکہ موجودہ حکومت کو فوری چلتا کروا کر اسے دو تہائی اکثریت یا کم از کم سادہ اکثریت سے واپس لا کر سنگھاسن پر بٹھایا جائے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا خان دن بدن اپنے ہدف کی طرف کامیابی سے بڑھ رہا ہے یا الٹا بلیک میلنگ کی یہ حکمت عملی خان کو اقتدار ہی سے دور نہیں کر رہی بلکہ خود اسے اور اس کی پارٹی کو ایک اندھے کنویں میں دھکیلنے کا باعث بننے والی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کا مطلب عمران خان ہے اور عمران خان کے چاہنے والے اس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور اس کے ہر حرف کو اپنا ایمان مان کر اپناتے ہیں۔ خان کی چاہت اس کے چاہنے والوں کے لیے ایک زبردست عصبیت بن چکی ہے اور ان کے لیے خان کا ہر حامی محب وطن و ایمان دار جب کہ ہر مخالف بے ایمان و غدار ہے۔ جب سے خان کو حکومت سے ہٹایا گیا ہے خود خان اور اس کے چاہنے والوں کے لیے یہ حقیقت کسی ڈراؤنے خواب اور سخت صدمے سے کم نہیں۔ لیکن میری نظر میں خان کی سیاسی حکمت عملی خود اس کے چاہنے والوں کے لیے ایک سراب بن چکی ہے, وہ اپنی دھن میں مگن یہ سمجھ رہے ہیں کہ شائد منزل ان کے قریب آ رہی ہے لیکن درحقیقت منزل کہیں دور جا چکی ہے۔

خان کا بیرونی سازش والا بیانیہ اتنا بودا اور ڈیمجنگ ہے کہ اس بیانیے کی بنیاد پر اس نے ہر اس ادارے یا فرد کو غدار قرار دیا ہے جو کسی نہ کسی طرح خان کی اقتدار سے محرومی کا باعث بنا, چنانچہ چاہتے نہ چاہتے خان کے بیانیے کی زد جس پر بھی پڑی وہ اب کبھی خان کو دوبارہ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ چاہے معاملہ خارجہ امور کا ہو تو خان کے بیانیے سے متاثر ممالک اور داخلی محاذ پر فوج, عدلیہ و الیکشن کمیشن وغیرہ میں خان کی حمایت اب پہلے سے کہیں زیادہ متاثر ہو چکی ہے۔

خان کو دن بدن سیاسی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کا زبردست خود پسندی و نرگسیت سے بھرپور جھگڑالو چہرہ ہی اس کی پہچان بن چکا ہے۔ سب سے پہلے اس کی بدترین گورننس, معیشت کی تباہی اور خارجہ پالیسی میں متلون مزاجی کی وجہ سے اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کھونا پڑی, وہ خان کی حمایت سے دست بردار ہو گئے, خان کے اتحادی بدک گئے, پارٹی کے اندر سے ارکان اسمبلی کی معقول تعداد بغاوت کر گئی اور نتیجتاً اسے عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر خان نے ڈپٹی سپیکر کے ذریعے غیر آئنی چال چلنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے اس چال کو نہ صرف خان کے منہ پر دے مارا بلکہ اسے باقاعدہ دن اور وقت بتا کر عدم اعتماد پر ووٹنگ کا پابند بنا دیا۔ خان نے عدم اعتماد والے دن گند ڈالنا چاہا تو عدالتیں رات کو کھل گئیں اور محض قیدیوں کی ایک گاڑی نے خان کی ساری اکڑ نکال دی اور اس کے اسپیکر کو معاملات اپوزیشن کے ہاتھ میں دے کر بھاگنا پڑا۔ یوں خان کا اقتدار ختم ہو گیا اور اس کے بدترین مخالف اسے نکال کر سنگھاسن پر براجمان ہو گئے۔

اقتدار سے نکلنے کے بعد خان کے دنیا بھر میں پھیلے لاکھوں فینز روتے پیٹتے سڑکوں پر نکل آئے تو اس کے مخالف زیادہ یک سوئی سے صف بندی میں جت گئے اور وزارتیں بانٹنے کا مشکل مرحلہ چند دن میں نپٹا ڈالا, خان نے پنجاب میں گند ڈالنا چاہا تو صوبے کی عدالت نے خان کے سارے شیطانی منصوبے ناکام بنا ڈالے۔ اب خان کا نام زد وزیر اعلیٰ اور گورنر دونوں عزت سادات گنوا چکے ہیں۔ خان نے سپریم کورٹ پر تنقید کی تو الٹا سپریم کورٹ سے یہ کہہ کر اسے شٹ اپ کال دی گئی کہ "کوئی چند ہزار بندے اکھٹے کر کے عدالتوں پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔" نتیجتاً خان اب رات کو عدالتیں کھلنے کا ذکر جلسوں میں چھوڑ چکا ہے۔ خان نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی تو انھوں نے خان کی ویڈیوز منگوا کر توہین عدالت کی دھمکی دی تو نیازی صاحب وہاں بھی ہتھیار ڈال کر بھاگ گئے اور اب الیکشن کمیشن کا ذکر بھی جلسوں میں چھوڑ چکے ہیں۔ خان نے پھر پینترا بدل کر براہ راست آرمی چیف کو میر جعفر وغیرہ قرار دے کر نشانہ بنایا تو ادارے کی ایک پریس کانفرنس اور چند سابقہ فوجیوں کے غم و غصہ سے بھرے ویڈیو پیغامات کی تاب نہ لا کر خان اب اپنے میر جعفر والے سٹانس سے بھی یوٹرن لے چکا ہے۔

اب میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے حکومت میں موجود اہم ذمہ داران کو لندن بلایا ہے تو میرے خیال میں وہاں خان کے جلد الیکشن کروانے کے مطالبے کے مکمل کریا کرم کی پلاننگ کی جائے گی۔ جوں جوں خان کا شور بڑھے گا, اس کے مخالفین مزید متحد ہوں گے اور ان پر کارکردگی دکھانے اور الیکشن دیر سے کروانے کا دباؤ بڑھے گا۔ جہاں تک خان کی طرف سے ورثے میں ملی تباہ حال ملکی معیشت کی بات ہے تو میری نظر میں واقعی ایک سنجیدہ مسلہ ہے, لیکن یہاں بھی خان کا دباؤ شائد مخالفین کے لیے رحمت ثابت ہو اور تمام وہ قوتیں جو خان کی متلون مزاجی و غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی وجہ سے ناراض ہیں وہ اس حکومت کو خراب معیشت کی وجہ سے ناکام ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان کو معاشی رعائتیں دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا خان کو مزید دندنانے کی اجازت کسی سیاسی مصلحت کے تحت دی جاتی رہے گی یا پھر اس کی مسلسل آئین شکنی, غیر ذمہ دارانہ بیانات, فرح گوگی کے کارناموں, فارن فنڈنگ کیس وغیرہ کا وبال اسے اور اس کی پارٹی کو وقت سے کہیں پہلے تاریخ کے کوڑا دان کا حصہ بنا ڈالے گا۔ میری نظر میں خان کا سادہ اکثریت لے کر جیتنا تو درکنار خود اور اپنی پارٹی کو پابندیاں لگوائے بغیر الیکشن تک پہنچانا بھی ایک معجزہ ہی ہو گا۔ باقی اگر خان کے ساتھ بہت رعائت کر کے الیکشن جلد بھی کروا دئیے جائیں تو خان کی اپنے بل بوتے پر سیاسی اوقات اپنے وسیع فین کلب کے باوجود ساٹھ سے اسی سیٹوں کے درمیان ہی ہے۔