(سات اکتوبر کے بعد وقتا فوقتا لکھی گئی مختلف تحاریر اور دو اہل علم (شیخ احمد سید اور ڈاکٹر مطلق الجاسر ) کے ترجمہ شدہ بیانات کو ترتیب دے کر ایک مضمون کی صورت میں ڈھالی گئی تحریر )
شیخ احمد سید سات اکتوبر سے پہلے امت مسلمہ کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
"ایک وہ گروہ جو علم و عمل سے مزین امت مسلمہ کا درد لیے ان کے حالات کی مکمل خبر گیری رکھتا تھا جبکہ دوسرا وہ گروہ جو غفلت کی نیند سو رہا تھا جسے علم ہی نہیں تھا کہ امت میں کیا ہورہا ہے ، غزہ نے انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کیا تو وہ اپنے بھائیوں کے دفاع کی خاطرسڑکوں پر نکل آئے، بھرپور مظاہرے کیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے غم و غصہ نکالا ۔ ان کی چاہت تھی کہ حالات یکدم ٹھیک ہو جائیں ، لیکن جب نتیجہ ان کی توقع کے برعکس نکلا تو مایوس ہو کر بیٹھ گئے ۔ اس دوران جو طرز عمل مطلوب تھا دین کی طرف پلٹنا ، اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنا ، یکسر بھلا دیا گیا بلکہ انہی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امت کی اس بے بسی کو 7 اکتوبر کے واقعات سے جوڑتے ہیں کیونکہ ان کی نیند اتنی گہری اور غفلت زدہ تھی کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ پہلے سے اس امت میں کیا کیا ظلم و جبر کی داستانیں رقم ہورہی تھیں اور امت پر مجموعی طور پر سکوت طاری تھا کیونکہ امت مسلم کو دو چیزیں مضبوط کرتی ہیں سیاسی قوت اور علماء ۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ماضی میں اگر ایک طبقہ انحطاط کا شکار ہوتا تھا تو دوسرا کھڑا رہتا تھا اور ہماری شان و شوکت قائم تھی (جبکہ آج کی صورتحال سب کے سامنے ہے)۔
ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ فی الوقت من حیث القوم ہم اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد کرنے سے عاجز اور قاصر ہیں اور یہ عجز امت مسلم کی تاریخ میں آتا رہا ہے کبھی ہمارا امتحان لینے اور کبھی گناہوں کے سبب حتی کہ نبی کریم ﷺ اور ان کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی ان حالات سے گزرے ہیں کہ جب نبی رحمت علیہ الصلاۃ والسلام پر اوجھڑی لا کر ڈال دی گئی تھی ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تپتی ریت اور کوئلوں پر لٹایا جاتا تھا ( اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کی تاریخ دیکھیں تو سرکش کفار کے آگے ان کی بے بسی قرآنی آیات سے واضح ہے) ہاں لیکن جب امت اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹے ، ایک جماعت تیار ہو تو اللہ مالک الملک کی مدد و نصرت ضرور آتی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا وعدہ ہے (اور کئی واقعات اس پر شاہد ہیں )۔"اس سنت کو ڈاکٹر مطلق الجاسر یوں بیان کرتے ہیں:" اگر ہم غزوہ احد میں نازل ہوئی جہادی آیات پر غور کریں تو بڑا عجیب معاملہ سامنے آتا ہے ۔اللہ رب العزت نے آیاتِ جہاد کے عین وسط میں فرمایا :"اے ایمان والو سود مت کھاؤ" (سورہ آل عمران آیت 130)۔
غور کیجیے جہاد کی آیات کےساتھ ہی گناہ سے باز رہنے کی تنبیہہ کی گئی ہے ، دوسرے الفاظ میں واضح کردیا گیا ہے کہ وہن، ضعف اور ہزیمت کا سبب شریعتِ الہی کی پامالی ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ روایت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :"جب تم بیع عینہ (سود کی ایک قسم) کرنے لگو گے اور گائے بیلوں کی دموں کو تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاؤ گے(یعنی صرف مال کمانے کی دھن تم پر سوار ہوگی) اور جہاد ترک کردو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اُس سے تم اس وقت تک چھٹکارا حاصل نہیں کر سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہ پلٹ آؤ۔" (سنن ابو داؤد)
آج یہ ذلت و رسوائی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی کیسے تباہی مچا رہے ہیں ، انہوں نے اہل فلسطین کو ایک مختصر سی جگہ پر محصور کر رکھا ہے ،دن رات ہم اپنے بھائیوں کے چھیتھڑے اڑتے دیکھتے ہیں حتی کہ ان تک رسد پہنچانے کے لیے بھی ہم دشمن کی اجازت کے منتظر ہیں جبکہ مغربی کافر حکومتیں دن رات ان کی حمایت میں کھڑی ہیں ،دھڑلے کے ساتھ انہیں صبح شام اسلحہ سپلائی کیا جارہا ہے ہیں بلکہ یہ لوگ کھلے عام فلسطینیوں کے قتل عام میں صیہونیوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اور ہمارے حصے میں صرف زبانی مذمت ہے۔ جو ذلت و رسوائی ہم پر مسلط ہے اس کا علاج اور اسباب نبی کریم ﷺ بتلاچکے ہیں کہ جب تک ہم اپنے دین کی طرف نہیں پلٹیں گے ہم اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتے اور یہ فرمانِ الہی سے واضح ہے :" اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ بھی تمہاری مدد کرے گا ۔"(سورہ محمد) "
دونوں اہل علم رب تعالیٰ کی نصرت حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ بتلاتے ہیں کہ " رجوع الی اللہ کیا جائے ، یہ خیال دل سے نکال دیں کہ ابابیل یا آسمان سے شعلے اگلتی آگ نازل ہوگی جو ظالموں کو بھسم کردے گی ،نہیں ! بلکہ اسی امت سے صالح افراد تیار ہوں گے جن کے ذریعے رب تعالیٰ مظلوموں کی مدد فرمائے گا ۔ اگرچہ فی الوقت ہم فلسطین جا کر اپنے بھائیوں کا دفاع نہیں کرسکتے ، ان کی مدد ونصرت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ سرحدوں کی رکاوٹوں سمیت کئی مشکلات ہیں جو حقیقت کا سامنا کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں لیکن انفرادی طور پر بہت سے امور اب بھی ہمارے ہاتھوں میں ہیں ، صالح افراد کی جماعتیں تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان معاملات میں سستی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
ان میں سب سے اہم کام دعا ہے ۔
مظلومین کے لیے دعا کیجئے ، اسے ہلکا مت جانیے ، یہ کم از کم ان کا حق ہے اور ہمارے لیےبآسانی ممکن ہے ۔ چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے قبولیت کے اوقات میں ان کے لیے دعا کیجئے۔غزوہ بدر میں اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح اور مدد کا پکا اور سچا وعدہ کیا تھا کہ اس کے وعدوں سے بڑھ کر کس کا کہا سچ ہے ، لیکن اس کے باوجود جب وقتِ قتال قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کر دعا میں مشغول ہوگئے اور رب ذوالجلال والاکرام کو اس شدت اور تڑپ سے پکارا کہ آپ کی چادر مبارک کاندھوں سے گرگئی ، یہ دیکھ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام ، فداہ ابی و امی ، کو تسلی دی کہ اے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام دعا کی اس شدت کو بس کردیجئے ، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو ضرور پورا فرمائے گا ، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو ایسے پورا فرمایا کہ اُس وقت کو رہتی دنیا تک کے لئے سامان نصیحت بنادیا کہ دعا کس قدر ضروری اور اہم ہے " اور جب تم اپنے رب سے مدد طلب کررہے تھے تو اس نے تمہاری پکار کا جواب دیا "۔
یہ روایت جہاں حق و باطل کے سجے معرکوں میں دعا کی اہمیت کو بیان کرنے والی عظیم ترین روایات میں سے ایک ہے ، وہیں بندگی کے مقامات کو عمدگی کے ساتھ واضح کرتی ہے ، اسی طرح اس حدیث میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے اور بھی بہت سی نصیحتیں ہیں (اس میں ان مسلمانوں کے شبہے کا بھی مکمل جواب ہے جو پوچھتے ہیں کہ صرف دعا کا کیا فائدہ ؟ )۔دعا کو لازم پکڑیے ، ( جا کر یا مال و دولت بھیج کر مدد نہیں کرسکتے تو دعا تو کیجئے ) اسے معمولی مت جانیے ، ان سب لوگوں کے لئے دعا کیجئے جو اس امت کے لئے اس کی (نظریاتی اور جغرافیائی ) سرحدوں پر اہل باطل کے مدمقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔"
سوشل میڈیا پر ان کی آواز بنیں ۔
یاد رکھیے یہ جنگ سوشل میڈیا کی جنگ بھی ہے ، بجائے ادھر ادھر وقت ضائع ہو اپنے وقت کا بہتر استعمال کیجیے۔ اہل فلسطین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو فالو کرنا ممکن ہو تو کیجیے ورنہ گاہے بگاہے ان کی وال وزٹ کیجیے، (فیس بک اور انسٹاگرام کی پالیسی کی وجہ سے وہاں کھل کر بولنا ممکن نہیں ، کوشش کیجئے کہ ٹویٹر کا استعمال کریں کیونکہ وہاں فوری فوری واقعات معلوم ہوتے ہیں اور فلسطینی اکاؤنٹس بھی وہیں سب زیادہ فعال ہیں)۔ کمنٹس میں ان کا حوصلہ بڑھائیے ، ان کی مخالفت کرنے والے اکاوئنٹس کو بھرپور جواب دیجیے، انہیں رپورٹ کروائیے ۔خاموش نہ بیٹھیں ، یہ بے بسی کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے چھوڑ دیجیے ، ہمارے ہاتھ میں جو ہے وہ تو کریں ، اسلام اور اہل اسلام کے دشمنوں کا جس فورم پر ممکن ہو بھرپور جواب دیجیے شاید یہی عذر ہمیں ظالموں کی صف میں کھڑا ہونے سے بچا سکے اور ہم کل اللہ رب العزت کے دربار میں کہہ سکیں جو اختیار میں تھا وہ ہم نے کیا۔
کفار کی معیشت اور ثقافت کا بائیکاٹ کیجیے ۔
صرف مصنوعات کا مقاطعہ کرکے سمجھنا کہ یہ کافی ہے ، نادانی ہے ۔ایک طرف مظاہرے کرنا ، سوشل میڈیا پر غم و غصہ ظاہر کرنا ، صیہونیت اور اس کے مددگاروں کو کو لعن طعن کرنا اور دوسری طرف ان کی ثقافت کو دل و جان سے اپنائے رکھنا درست طرز عمل نہیں ہے ۔کتنے ہی نوجوان ہیں جو وقت گزاری اور تفریح کے لیے ہالی وڈ فلم اور گیم انڈسٹری میں وقت گزارتے ہیں ، ان کے بدکردار لوگوں کی پیروی کرنے اور شعار اپنانے کو قابل فخر سمجھتے ہیں ، دن میں اپنے بھائیوں کے لیے غمزدہ ہوتے ہیں اور رات رب العالمین کی نافرمانی میں بسر کرتے ہیں ۔رب العالمین کے سامنے یہ دو رنگی نہیں چل سکتی ، یہ وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو کفار کی معیشت او رثقافت پر ضرب لگانے کا شعور دیں ۔اگر اب بھی ان کا بائیکاٹ نہیں کیا جاتا تو پھر ہم کس قیامت کی گھڑی کے منتظر ہیں ؟
اہل فلسطین سے ایمان سیکھ کر اپنا محاسبہ کیجیے۔
کوشش کیجیے فلسطین سے موصول ہونے والے تکلیف دہ مناظر کی بجائے ان تصاویر اور ویڈیوز کو پھیلائیے جن میں ہمارے سیکھنے کے لیے سبق ہو ۔جو ظلم وہاں ہو رہا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، بار بار انہی چیزوں کو دیکھنا بہت اذیت ناک ہے ، خصوصا انہیں دیکھتے ہوئے بعض کمزور ایمان والے اللہ تعالیٰ سے مایوسی بھرا شکوہ کر بیٹھتے ہیں ،لہذا مظالم کی عکس بندی شیئر کرنے کی بجائے ان کے ایمان، صبر ، عقیدہ کی مضبوطی اور بہادری شیئر کیجیے اور ساتھ اپنے بارے میں بتلائیے کہ آپ نے ان سے کیا سیکھا ہے یا سیکھ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنے ایمان اور صبر کی وجہ سے مشہور ہونے والے ناموں کو نظر انداز کرنے کی بجائے انہیں انٹرنیٹ پر تلاش کیا کریں ، سوچا کریں کہ ان کے ایمان اور صبر کے پیچھے کیا وجوہات ہیں ۔ مجاہد تیسیر کے آخری وقت(سجدہ میں وفات ) کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ، ہم سب نے دیکھی لیکن اس خوبصورت موت کے پیچھے کہانی کیا تھی ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں جستجو ہوئی ؟صحافی وائل دحدوح اپنا آدھے سے زیادہ خاندان کھونے کے باوجود جس بہادری کے ساتھ تقدیر پر راضی ہیں، کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟اہل فلسطین بے سرو سامانی کی حالت میں خیموں میں رہائش پذیر ہیں لیکن وہاں بھی قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے سلسلے شروع کیے ہوئے ہیں ، وہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں لیکن آخر کیوں ان کے دکھ ، پریشانیاں اور غم ہماری طرح نہیں ہیں ؟چھوٹے چھوٹے فلسطینی زخمی بچے دربدر اور تنہا ہیں لیکن جرات اور بہادری ایسی کہ انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دے ، ان معصوموں کی بہادری کا کیا سبب ہے ؟ جان ہتھیلی پر رکھ کر دوبدو مقابلہ کرنے والے مجاہدین کیا ان کے بیوی بچےاور گھر بار نہیں ہیں ؟ کیوں اور کس طرح محدود وسائل کے ساتھ بلا خوف و خطر وہ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ؟خواتین بے گھر ہیں ، مرد سر پر نہیں لیکن ایسی حوصلہ مند بلکہ مضبوط چٹانیں کہ دشمن نے ہر وار کرلیا مگر انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں پایا ، آخر اس صنف نازک میں یہ بہادری کیسے پیدا ہوئی؟
سوچیں اور وجہ تلاش کریں، صرف داد دے کر اپنی محدود سی زندگی میں گم نہ ہوجائیں ۔ ہمیں ایسے لگتا ہے نا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی، ہم کس طرح ان جیسے ہوسکتے ہیں ،مگر یہ تو ہمارے وقت کے لوگ ہیں لیکن کیونکر ہم سے جدا ہیں، سیکھیں کہ آخر ان کے اور ہمارے ایمان میں کیا فرق ہے ، سیکھیں جیسے غیر مسلم انہیں دیکھ کر اپنا آپ بدل رہے ہیں جبکہ ہم ان کی نسبت زیادہ حق دار ہیں کہ وجہ جانیں تاکہ ہماری بے مقصد زندگی کو ایک رخ ملے ۔ شیخ احمد اسی چیز کو بیان کرتے ہیں کہ " جب سیدنا خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کی شکایت لگاتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی ) نے کیا جواب دیا تھا بھلا ؟ تم سے پہلے لوگوں کو تمہارے سے زیادہ مشکلات پیش آئی تھیں ، انہیں لوہے کی کنگھیوں تک سے چھیلا گیا تھا ، آروں سے چیرا کیا اور وہ ثابت قدم رہے ، تم تو فتح کے لئے بڑی جلد بازی کررہے ہو ۔
سوچیے ذرا !
کس کو کہا جارہا ہے تم تو فتح کے لئے بڑی جلدی کررہے ہو؟ جنہوں نے صبر کی داستانیں قائم کیں ، اپنے مال اور جان کی قربانیاں دیں ، جو اس وقت نبی مکرم علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لائے اور استقامت دکھائی جب کفر سر چڑھ کر بول رہا تھا ، غربت کی عجب حالت تھی ۔ مسلمانوں میں کون ہے جو سیدنا خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناواقف ہو ؟ وہ صبر کا ایک استعارہ تھے ۔لیکن اس سب کے باوجود انہیں کہا جارہا ہے کہ تم جلد بازی کررہے ہو۔
رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ۔
اب ذرا ان لوگوں کو دیکھیے جنہوں نے دین اسلام کے لئے مال قربان کیا ، ماریں کھائیں ، طعنے سنے اور نہ شہادتیں ہوئیں بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک کانٹا بھی نہیں چبھا ، آسائشوں، آسانیوں اور نعمتوں میں رہتے ہیں لیکن اس ساری خیر کے باوجود جب کوئی ایک آدھ تکلیف آجاتی ہے تو فورا پکار اٹھتے ہیں ۔ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کب ملے گی ؟ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کیوں نہیں کررہا ؟ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں نہیں سن رہا ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ "
(اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف اور یہ لوگ کہاں ہیں ، شاید کہ ہمارے اندر بدلاؤ آسکے )
علم حاصل کرکے عمل کیجیے ۔
اس سب کے ساتھ ساتھ اپنے علم کو مضبوط کریں ، اپنے آپ سے سوال کریں کہ آخر کیا چیز انہیں اتنا مضبوط کیے ہوئے ہے کہ دشمنوں کے ہتھیار ،کھلے آسمان تلے برستی بارشوں میں ، فاقوں اور دوا کی ناپیدی کے باوجود کیا وجہ ہے وہ شکوہ نہیں کررہے جبکہ ہمیں تھوڑی سی تکلیف پہنچے تو ہمارے احوال کیا ہوتے ہیں ، ہم سبھی واقف ہیں الا من رحم ربی۔لہذا علم لازمی سیکھیں اور صرف علم ہی نہیں عمل میں بھی مضبوطی لائیے۔ کیونکہ ایک تو اسلام اور اہل اسلام کا دفاع بغیر علم کے ممکن ہی نہیں اور علم ہو عمل نہ ہو تو تائید باری تعالیٰ نازل نہیں ہوتی پھر اس سے بھی بڑھ کر اللہ رب العزت کی وہ معرفت ہمیں بھی حاصل ہو جو ان کے بچے بچے کے پاس ہے، جس کی بنا پر وہ ہر طوفان سے لڑ رہے ہیں اور قدموں میں لغزش نہیں ہے ، لہذا علم و عمل دونوں میں رسوخ حاصل کریں تاکہ بہترین مسلمان بن سکیں ۔اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیے اور اپنے علم و عمل کو مضبوط کریں ۔
شیخ احمد نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"اگر ہمیں امت کو زوال سے نکالنا ہے تو دین کی بنیاد کی طرف پلٹنا ہوگا ، علمِ دین حاصل کرکے اسے آگے نسلوں میں منتقل کرنا ہوگا کیونکہ امت کو اس پستی کی حالت سے سے وہ شخص نہیں نکال سکتا جو دنیا میں مگن ہو بلکہ امت اپنی عزت و شان کی طرف اس قوم کے ذریعے پلٹے گی جو علم و عمل سے مزین اور امت کا درد رکھتی ہوگی ، اس کے احوال سے واقف ہوگی ۔" لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نہیں صرف رونا دھونا ہی حل ہے، سوشل میڈیا پر جذباتی اور دکھ و درد سے بھرے مناظر شیئر کرکے ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہوگئے ہیں اور عمل سے کوسوں دور ہیں تو ان کے لیے شیخ کی نصیحت سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ" جو امت مسلمہ کے حالات پر آہ و بکا کرنا چاہتا ہے ، اسے چاہیے کہ گھر بیٹھے اور اس قدر آنسو بہائے کہ ہر طرف جل تھل ہو جائے ، لیکن یاد رکھیں! یہ دنیا کمزور لوگوں کی خبر گیری کرتی ہے نہ رونے والوں کے ساتھ روتی ہے ، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہمت کریں ، بطور مسلمان اپنی قدر پہچانیں اور فالتو چیزوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے آپ کو مثبت کاموں میں کھپا دیں تاکہ آنے والا کل اسلام اور مسلمانوں کا ہو۔ میری بات لکھ لیجیے یہ بے بسی کا وقت ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ جلد فتح میں بدل جائے گا ۔ لیکن جو اپنی بنیاد کی طرف نہیں پلٹتا وہ اس امت کا خائن ہے کیونکہ انسان کو ان باتوں پر عذر دیا جاسکتا ہے جن کی وہ استطاعت نہیں رکھتا لیکن جن افعال پر استطاعت ہے (علم حاصل کرنا ، عمل کرنا ، پھیلانا ، صالح امت تیار کرنا ) اس پر عذر نہیں ہے ، جو عذر تلاشے ، اپنی زندگی میں مگن رہے وہ اس امت کا مجرم ہے اور خائن ہے۔ "
اسی طرح ڈاکٹر مطلق الجاسر کی ایک نصیحت میں ہمارے غوروفکر اور اپنے محاسبے کے لیے بہت کچھ ہے ۔
"جو مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیف پر غمزدہ ہوتا ہے لیکن ( امت کے اس درد کو محسوس کرنے کے) ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی شریعت کو پامال کرتا رہتا ہے ، تو جان لیں ، یہ ( اصل )خیانت ہے ۔ کیونکہ آج ہم جس ذلت و رسوائی میں زندگی گزار رہے ہیں ، اقوام ہم پر حملہ آور ہیں ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرنے ، اس کی توحید اور شریعت سے روگردانی کے سبب ہے ۔اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم باری تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اپنی قدر ومنزلت اس کے ہاں بڑھانے کے لیے بقدر استطاعت اچھے اعمال کریں ، پھر اپنی قوم کو ذلت و پستی سے نکالنے کے لیے جو ممکن ہو کر گزریں ( کہ نصرتِ الہی ایسے ہی آیا کرتی ہے) ۔"
آخر میں شیخ احمد سید کے کلمات جو ہر ہر قتل و غارت گری کے واقعے پر زخمی دلوں کو ڈھارس بندھاتے اور ایمان کی مضبوطی عطا کرتے ہیں ۔
" جو کٹی پھٹی لاشیں اور قتل و غارت گری ہم دیکھ رہے ہیں اس حوالے سے میں آپ کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں ہم پہلے نہیں ہیں جنہیں یہ مصائب پیش آرہے ہیں ، ہمارے سے پہلے کئی انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے نیک صالح ساتھی یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہوتے رہے ہیں ، تو جن کی شر انگیزی سے انبیاء کرام علیہم السلام محفوظ نہیں رہے ان سے بچے، خواتین اور معصوم شہری کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟
ایسے مواقع پر اپنے سے پہلے ان مسلمانوں کو یاد کیا کریں جنہوں نے اس طرح کے مظالم کا سامنا کیا تھا۔اصحاب الاخدود جنہیں زندہ جلادیا گیا لیکن ان کے ایمان اور ثابت قدمی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت کی خوشخبری سنائی اور ان پر مظالم ڈھانے والوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ۔ پھر یاد کیجیے بئر معونہ کے وہ ستر داعی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہیں دھوکے سے شہید کیا گیا۔ غزوہ احد جس میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور مثلہ ہوا اور سیدنا صہیب سمیت ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادت ہوئی ۔آج کے بہتے خون اور کٹی پھٹی لاشوں کو دیکھیں تو محبوب النبی علیہ الصلاۃ والسلام سیدنا حمزہ کو یاد کیا کریں۔
کیا ہی بھاری دن تھا !
لیکن انہی تکلیف دہ لمحات میں اللہ رب العزت کا فرمان مبارک نازل ہوا ، "اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو ، تم ہی غالب آؤ گے "۔
غالب آنے کا سبب کیا ہے ؟ درست عقیدہ ، ایمان ، ثابت قدمی ، اللہ تعالیٰ سے حسن ظن ، اور راہِ حق پر گامزن ہونا۔
تو جو شخص صبر کرتا اور دین پر ثابت قدمی اختیار کرتا ہے اللہ مالک الملک اس کی مدد ضرور فرماتا ہے ۔یاد کیجیے جب سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے مشرکین کی ان ایذا رسانیوں کا تذکرہ کیا جو اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھیں تو انہوں نے اپنے صحابی کو گزشتہ مسلمانوں کا حال بتلایا کہ جن کے جسم لوہے کی کھنگیوں سے اس طرح چیر دیے گئے تھے کہ گوشت اور ہڈیاں الگ ہوگئی تھیں ، آرے کو سر کے درمیان رکھ کر جسم کو دو ٹکڑوں میں بدل دیا گیا تھا لیکن اس ظلم کے باوجود وہ دین پر ثابت قدم رہے۔جو قتل و غارت کی شدت آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔
" یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ (مصیبت کے موقع پر سچے) ایمان والوں کو ظاہر کردے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمادے ،اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور یہ اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نمایاں کردے اور کافروں کو مٹادے۔" (سورہ آل عمران)
یہ ایک وقت ہے جو گزر جائے گا، ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا اور میں اللہ رب العزت کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ دور جلد گزر جائے گا اور اسلام اپنی شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ ابھرے گا ،لیکن اس عزت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں دین کو ترجیح دینا ہوگی، اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا ہوگا اور باطل کا مقابلہ اور اس کا رد کرنا ہوگا ، پھر انجام آخر کار مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی نوید سنائے گا۔ اس دوران جو لوگ کفار کے مدمقابل کھڑے رہیں گے وہ اصحاب الاخدود کے قصے میں موجود راہب اور لڑکے کی مثل ہیں کہ جب لوگوں کا راستہ روکنے والا جانور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پتھر مارے جانے پر قتل ہوگیا اور لڑکے نے راہب کو خبر دی تو راہب نے بھلا اسے کیا کہا تھا ؟
بیٹا تم مجھ سے افضل ہو ، تیار رہو ، اب تم پر آزمائش آئے گی ۔
جی ہاں !دوبارہ پڑھیے ۔
تم مجھے سے افضل ہو ، تم پر آزمائش آئے گی ۔
یہ نہیں کہا کہ تم مجھ سے افضل ہو ، بس اب تمہارے اوپر خیر ہی خیر برسے گی ، ایک نام ہوگا ، شہرت ہوگی ، لوگ جھک جھک کر سلام کریں گے۔نہیں! بلکہ آزمائش آئے گی ۔یہ نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو دین اسلام کی نصرت کرنا چاہتے ہیں ، چاہے وہ کسی بھی صنف اور طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی بھی طریقے سے اسلام اور اہل اسلام کی مدد کرنا چاہتے ہیں ، انہیں تیار رہنا چاہیے کہ جب ہم دین اسلام پر عمل کریں گے ، دعوت دیں گے ، باطل کا رد کریں گے ، اس کے مدمقابل ڈٹ جائیں گے اور استقامت اختیار کریں گے ، تو لوگ ہمیں پھولوں کے ہار پہنائیں گے نہ سر آنکھوں پر بٹھائیں گے ، بلکہ آزمائش آئے گی ، مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا تاکہ کھرے اور کھوٹے کو الگ کیا جاسکے ، نتیجتاً اہل حق و استقامت کے ذریعے اسلام کی مدد و نصرت ہوگی اور مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ وقت جلد آئے گا ، جس طرح بشار الاسد اور ا س کے خاندان کی پکڑ اللہ قہار نے وہاں سے کی جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں تھا اور ظلم کا ایک تاریک اور طویل باب اپنے اختتام کو پہنچا اسی طرح وہ رب فلسطینیوں کی مدد اور نصرت اپنے مومن اور سچے بندوں کے ذریعے جلد اور ضرور کرے گا ۔اب اس میں ہمارا کتنا اور کیا حصہ ہے ، دوسروں پر انگلی اٹھانے اور سوال کرنے کی بجائے ہم اپنے آپ کے جواب دہ ہیں ۔"
تبصرہ لکھیے