کسی دانا کا قول ہے :
تکلیف کے احساس پر بھی شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ تکلیف کا احساس ہی زخم ٹھیک کرنے کی جستجو پیدا کرتا ہے ۔۔
کتنی خوبصورت بات ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق دیوانے پن کی بیماری کو دس بارہ سال پہلے تشخیص کیا جا سکتا ہے۔ اس مرض میں انسان کی سیکھنے اور رسپانس دینے کی صلاحیت بہت آ ہستہ ہو جاتی ہے.
مریضوں کی بڑی تعداد کی آ نکھوں کا باقاعدہ معائنہ کرنے سے اور ٹیسٹ کرنے سے ڈاکٹرز نے پیشگی ڈیمینشیا کی بیماری کا پتہ لگانے کا تجربہ حاصل کیا ۔
جن لوگوں نے آ نکھوں کی بیماریوں کے ٹیسٹ کروائے ہیں ان میں ایک ٹیسٹ گلاکوما کی تشخیص کے لئے ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو ایک مشین کے اندر جھانکنا ہوتا ہے۔ فیلڈ آ ف وژن میں کہیں بھی ایک سپارک یا روشنی کا کوندا سا جھلملاتا ہے۔
اس کوندے کی سمت کے بٹن کو پریس کرنا ہوتا ہے۔ یہ کوندے بہت جلدی جلدی نظر آ تے ہیں اس لئے دماغ حاضر رکھ کر جلدی جلدی رسپانس دینا ہوتا ہے۔ اس سے ڈاکٹرز کو پتہ چلتا ہے کہ بصری میدان میں کس جگہ گیپ ہے اور کس جگہ پر روشنی نظر نہیں آ رہی۔
کچھ اسی قسم کے ٹیسٹ کی مدد سے ڈاکٹرز نے ریسرچ کی کہ ڈیمینشیا کے مریض کا رسپانس بہت سلو ہو جاتا ہے اور وہ نظر آ نے والی روشنی پر بر وقت رسپانس نہیں دے پاتے۔
سوچیں اگر دس بارہ سال پہلے آ نیوالی بیماری کی تشخیص ہو جائے تو اس کا سد باب کرنے کے لئے کتنا وقت میسر ہے۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔۔
ہمارے پاس ان گنت مثالیں ہیں جن کی مدد سے واضح کیا جا سکتا ہے کہ آ ج کی چھوٹی سی تکلیف کا بروقت نوٹس لے لیا جائے تو کل کی بڑی تکلیف سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
دانش مند کے ایک جملے میں پوری کتاب کا مفہوم پوشیدہ ہوتا ہے۔
بے آ رامی ہی ترغیب دیتی ہے کہ آ رام کے لئے کوشش کی جائے۔
تکلیف ہی احساس بیدار کرتی ہے کہ اسے دور کیا جائے۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیٹ کئے گئے الارم ہیں ۔۔چاہیں تو الارم کی آ واز پر متوجہ ہو جائیں چاہیں تو سنوز بٹن دبا دبا کر توجہ ملتوی کرتے جائیں اور چاہیں تو الارم بند کر کے دوبارہ خواب غفلت کے مزے لوٹنے لگیں۔
اسی لئے کہا گیا ہے کہ
عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
تبصرہ لکھیے