ہوم << اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے - حافظ یوسف سراج

اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے - حافظ یوسف سراج

اگر واقعی آپ کو فلسطین سے محبت ہے تو اس تحریر کو پڑھ لینا بھی آپ کے لیے ضروری ہے۔

اللہ مجھے فرصت اور توفیق دے کہ میں فلسطین کے حوالے سے کچھ ضروری باتیں آپ سے کر سکوں، ہماری قوم کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ ابھی تک قیام پاکستان سے پہلے کی ذہنیت میں جی رہی ہے،دعوی اس کا دنیا کے مقابل اسلامی نظام کی پیشکش کا ہے، نظریہ اس کا دنیا سے جیت جانے کا ہے لیکن خیال اس کا آج بھی یہ ہے کہ جنگ روایتی طریقوں سے میدان میں اتر کر لڑی جاتی ہے۔ جب تک ہم اپنے زمانے میں آ نہیں جاتے، جب تک ہم اپنے عصر سے ہم آہنگ نہیں ہو جاتے، اللہ نہ کرے ،ہمیں آنسو ہی بہانے پڑیں گے۔

اچھا تھوڑی سی بات کھولتے ہیں، کیا آپ کو پتہ ہےکہ ہماری اسی عیدالفطر کے روز امریکہ نے یمن میں جو مسلمان قتل کئے، جن کی ویڈیو ٹرمپ نے اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کی، وہ کیسے قتل ہوئے؟ کیا آپ نے وہ خبر دیکھ لی ہے جس میں مائیکروسافٹ کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب کے دوران اسی کمپنی میں کام کرنے والی ایک مسلمان خاتون چلانے لگی کہ تمھاری کمپنی ہمارے بچوں کے قتل میں شریک ہے؟

کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھی؟چلیے میں وضاحت کر دیتا ہوں، امریکہ نے یمنی مسلمان اسی تکنیک سے شہید کئے، جس تکنیک سے اسرائیل فلسطینیوں کو خون میں نہلا رہا ہے، اسی تکنیک میں مائیکروسافٹ کی اسرائیل کےلیے معاونت کے حوالے سے وہ مسلم خاتون احتجاج کر رہی تھی، جسے مائیکروسافٹ کمپنی میں کام کرنے کی وجہ سے لگتا تھا کہ وہ خود بھی فلسطینیوں کے قتل میں براہ راست معاونت کر رہی ہے اور اسے ٹھیک لگتا تھا۔

یہ تکنیک ہے اسلحے میں اے آئی کا استعمال!
جی ہاں اب مغربی دنیا نے اپنے گائیڈڈ اسلحہ میں اے آئی کا استعمال شروع کر دیا ہے، یا کہہ لیجیے زیادہ مؤثر اور وسیع استعمال شروع کر دیا ہے،چنانچہ اب اسے میدان میں اپنے فوجی اور جاسوس نہیں اتارنے پڑتے، اسے ریکی نہیں کرنی پڑتی،اسے جنگ لڑنے کےلیے میدان میں کسی کے سامنے نہیں آنا پڑتا، بلکہ اس سب کی جگہ وہ کمپیوٹر ،موبائل یا ڈیوائس کی محض ایک کلک سے اے آئی گائیڈڈ ڈرون یا میزائل بھیجتے ہیں جو پرندوں کی طرح اڑتے ہوئے جہاں بھی انسانوں کی حرکت دیکھتے ہیں،تباہ کر دیتے ہیں۔

تو اس کا مطلب ہے کہ اگر ہمیں فلسطینی یا کل کلاں کو دوسرے ملکوں کے باشندے بچانے ہیں تو اس کےلیے دنیا کے مقابل قرآن کی آیت واعدولہم من استطعتم من قوہ کی جدید شکل یہ ہے کہ جس کے پاس اے آئی کا کنٹرول ہے، میدان جنگ میں اسی کا پلڑا بھاری ہے، اب آپ جائزہ لے لیجیے کہ قرآن آپ کے پاس ہے، یہ حکم آپ کے پاس ہے مگر اس پر آپ کا عمل کتنا ہے؟

اے آئی میں یا تو مغرب نے بلکہ امریکا نے میدان مارا یا پھر چائنہ نے کمال کر دکھایا ہے، اب آپ کو اگر فلسطینیوں سے محبت ہے تو غور کر لیجیے کہ دنیا کے اس جدید جنگی میدان میں مسلمان کہاں کھڑے ہیں؟ کھڑے ہیں یا بیٹھے ہیں؟ موجود بھی ہیں یا موجود ہی نہیں ہیں؟ اس میں ہمارے حکمرانوں کی توجہ کتنی ہے؟
اس میں ہمارے تاجروں کی انویسٹمنٹ کتنی ہے؟
اس میں ہمارے سٹوڈنٹس کی تعلیم کتنی ہے؟
دنیا کے مقابل اے آئی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

افسوس تو یہ ہے کہ غلبہ اسلام اور اشاعت اسلام کےلیے ہمارا نیکی کا جذبہ آج بھی مسجد اور مدرسے کی بلڈنگ کی تعمیر سے آگے نہیں بڑھا،ہم آج بھی غزہ میں کھانا ،ادویات اور بلڈنگ میٹیریل بھیجنے سے زیادہ کی سوچ نہیں رکھتے، جبکہ دنیا وہاں پہنچ چکی ہے کہ اسے آپ کو ڈھونڈنے اور مارنے کےلیے سامنے آنا ہی نہیں پڑتا۔ آپ نے کبھی توجہ نہیں دی کہ آج کی جنگ معیشت اور مہارت کی جنگ ہے، یہ جنگ اے آئی پلس اسلحے کی جنگ ہے۔

آپ اس میں اپنا کنٹری بیوشن دیکھ لیجیے اور اس آئینے میں خود اپنی آنکھوں سے اپنا مستقبل دیکھ لیجئے۔ میرا خیال ہے، کچھ بات میں کہہ سکا ہوں،باقی آپ بھی کم سمجھ دار نہیں۔ سوچیے اور فیصلے کیجیے۔کچھ بڑے فیصلے ،کچھ نئے میدانوں میں انویسٹ کرنے کے فیصلے۔

یاد رکھیے، مغرب پاگل نہیں کہ جب آپ ایک اور نئی فلک شگاف بلڈنگ کیلئے اربوں لٹا رہے ہوتے ہیں تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے نئے میدانوں میں اربوں ڈالر پھونک رہا ہوتا ہے، وہ مستقبل کی تیاری کر رہا ہے، آپ ابھی حال میں بھی نہیں پہنچ سکے۔ آگے آپ نے کیا کرنا ہے؟ کیسے جینا ہے؟ یہ فیصلہ بھی خود آپ ہی کو کرنا ہے۔

اس تحریر کے آخر میں صرف دو احادیث کا اضافہ کر لیجیے۔
ایک وہ حدیث جس میں عربوں کے بلڈنگز بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔
اور دوسری وہ حدیث جس میں مسلمان کو سوائے عمارت بنانے کے ہر خرچ کرنے میں اجر کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔
پھر دیکھیے کہ آپ کس کام میں لگے ہیں اور دنیا کس قیامت کی چال چل رہی ہے۔

Comments

Avatar photo

حافظ یوسف سراج

حافظ یوسف سراج پیغام ٹی وی میں بطور اینکر اور ڈیجیٹل میڈیا ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دینی اور سماجی موضوعات پر قومی اخبارات میں کالم لکھے، اخبار مرحوم یا نیم جاں ہوگئے تو یہ کام اب سوشل میڈیا پر ہوجاتا ہے۔ صورت حال کے نام سے تازہ ترین سماجی و دینی موضوعات پر وی لاگز نشر ہوتے رہتے ہیں۔

Click here to post a comment

  • یو سف سراج صاحب کی اس تحریر میں مندرجہ ذیل خرابیاں ہیں؛
    1. حماس جس نے اب تک ہزاروں صیہونی فوجیوں کو واصل جہنم کیا ہے، انہوں نے گھریلو ٹوٹکے استعمال کرکے بنائے بموں اور سستے ہتھیاروں سے کیا ہے، کیا انہیں بھی اے آئی والے ہتھیاروں کے انتظار میں بیٹھ جانا چاہیے تھا؟؟؟
    2. جب تک اسلامی ملکوں کے لیڈران اپنے لوگوں سے مخلص نہیں ہونگے، میں اور آپ ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ کر بھی کیا حاصل کر لیں گے؟ میں اور آپ کو ان کی پڑھائی کیلئے اور اس میں تجربات کیلئے حکومت کی سر پرستی والے اداروں آرمی وغیرہ میں جاکر کرنی پڑے گی، پھر جب یہ ہتھیار تیار ہو جائے تو کیا اس کے بنانے والوں ، سائینس دانوں، انجینیئرز سے پوچھا جاتا ہے کہ اب اس ہتھیار کے ساتھ کیا کرنا ہے؟؟ نہیں!!! یہ ہتھیار اسی کٹھ پتلی لیڈران کے حکم کی تعمیل کے بغیر استعمال ہی نہیں ہونگی!!!
    3. آپ اور میں ساری زندگی خلوصِ دل سے اپنی تمام تر صلاحیتیں دے کر جو ہتھیار بنائیں گے، امریکہ کی اجازت کے بغیر اس کا رخ بھی اسرائیل کی طرف نہیں کیا جائے گا!!!
    4. مسلم حکمرانوں کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جہاد نہ کرنے کی وجوہات میں "ٹیکنالوجی کی کمی" بلکل بھی نہیں ہے!!!
    5. نواز شریف ، عمران نیازی ، mbs، سی سی، شاہ عبداللہ کو اگر آپ وہی ٹیکنالوجی لاکر دے دیں جو اسرائیل کے پاس ہے تو کیا لگتا ہے، اگلے دن وہ اسرائیل پر چڑھائی کر دیں گے؟؟؟؟
    6. حماس کے نہتے مجاھدین نے اسرائیل کا ٹیکنالوجی والا غرور خاک میں ملا دیا ہے، اسی طرح مسلمانوں میں جو ان کے ٹیکنالوجی کا رعب و دبدہ تھا اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کی تھی، کہ ان کے آئیرن ڈوم کے ہیبت دلوں سے نکل جائے۔ لیکن لگتا ہے ہم حقیقت دیکھ نہیں سکتے۔
    7. جہاد جزبے اور شوق شہادت سے لڑی جاتی ہے، اسرائیل کی فوج کو المشہور "ڈائیپر آرمی" کہا جاتا ہے، ان سے لڑنے کیلئے 50 ملکوں کے پاس اگر حماس جتنی ہمت اور حوصلہ ہو تو یہی کافی ہے۔
    8. باقی ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں بھی ترقی ضروری ہے، اس سے انکاری نہیں لیکن یہ وقت نہیں ہے ان باتوں کا، ابھی موقع ہے جو کچھ ہاتھ میں ہے اس ے استعمال کرنے کا (اور الحمدللہ پاکستان کے پاس بہت کچھ ہاتھ میں ہے اگر وہ واقعی میں انہیں استعمال کرنا چاہے).