"میرے راستوں میں اجالا رہا"
شائستہ صادق کا پہلا سفرنامہ ہے۔
شائستہ صادق سے میرا تعارف ان کی بڑی بہن فوزیہ قریشی کی وجہ سے ہوا تب مجھے معلوم نہ تھا کہ شائستہ لکھتی بھی ہیں۔ بلکہ شاید شائستہ کو خود بھی یہ اندازہ بہت دیر سے ہوا کہ وہ اچھا خاصا لکھ سکتی ہیں۔ اور پھر جب اس نے لکھنا شروع کیا تو قلم بھی رواں ہوتا چلا گیا اور وہ لکھتی چلی گئیں۔
یوں تو شائستہ ایک گھریلو خاتون ہیں لیکن ادب سے بےپناہ محبت اور لگاؤ رکھتی ہیں یہی لگاؤ یہی محبت انہیں تکیہ تارڑ تک لے گیا اور پھر اسی محبت نے اس سے یہ سفر بھی کروائے اور سفرنامہ بھی لکھوایا۔
وہ ایک سیدھی سادی سی ادب دوست خاتون ہیں جو دنیا کی چالاکی اور عیاری سے کوسوں دور ہے۔ اپنے والدین کی خدمت کے بعد شائستہ نے اپنا تمام وقت ادبی کتب کے مطالعے میں لگایا اور یہیں سے ان کا ادبی دوستوں سے رابطہ اور ادبی محافل میں آنا جانا بھی شروع ہوا۔
مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے پڑھ پڑھ کر شائستہ کے من میں بھی اپنے وطن کی سیر کی خواہش جاگی، لیکن ہمارے معاشرے کی اکثر خواتین کی طرح ان کےلیے کسی لمبے سفر پر نکلنا قریب قریب مشکل تھا. ایک تو معاشی مشکل، اوپر سے کسی بھی ٹورسٹ گروپ کے ساتھ کسی ایسی لڑکی کا اکیلے لمبے سفر پہ جانا ، جو پہلے کبھی باہر نہ گئی ہو بہت مشکل تھا، مگر وہ کہتے ہیں ناں لگن سچی ہو اور اللہ کی ذات پر بھروسہ ہو تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔ تو اسی طرح شائستہ کی لگن دیکھ کر قدرت جب اس پہ مہربان ہوئی تو اسے عبدہ جیسے ٹورسٹ کیساتھ سندھ ،بلوچستان ،کے پی کے اور مری کی سیاحت کا موقع میسر آ گیا۔
شائستہ لکھتی ہیں: ''یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا جس میں میں نے رحیم یار خان ،بھونگ مسجد، گڈو بیراج ، پتن منارہ ،عمر کوٹ قلعہ ،صحرائے تھر کے بہت سے علاقے، گوادر اور بلوچستان کے ان علاقوں کی طرف قدم بڑھائے جہاں تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہوئی ہے."
اس سفر میں شائستہ کو جس طرح کی حالات پیش آئے جو دیکھا اسے نہایت سادگی کے ساتھ اس نے رقم کر ڈالا۔ اس کی تحریر میں ایک بےساختگی اور روانی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی باتوں ،مقامات ،واقعات کو پوری جزئیات کے ساتھ لکھتی ہیں۔ اپنے مشاہدات ،مشکلات کو من و عن بیان کرنے کے انداز میں جہاں معصومیت ہے وہیں اپنائیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس نے ان اسفار میں وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی لوک کہانیوں کا ذکر بارہا کیا اور جگہ جگہ تاریخی حوالہ جات شامل کیے۔
یاسر پبلی کیشنز کی طرف سے شائع کردہ یہ سفرنامہ ایک سو بہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ بیک کور پر مستنصر حسین تارڑ کی طرف سے شائستہ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار موجود ہے اور اندرونی صفحات میں نیلم احمد بشیر ،محمود ظفر ہاشمی،تسنیم کوثر سمیت سات ادب دوست لکھاریوں نے اس سفرنامے سے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں، جو یقیناً صاحب کتاب کیلئے ایک اعزاز ہے۔ میں شائستہ کو اس کتاب کی اشاعت پہ بہت بہت مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
تبصرہ لکھیے