بچہ سخت بیمار تھا. ماں باپ سے بچے کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی. باپ اپنی استطاعت کے مطابق تمام طبیبوں اور حکیموں کا دروازہ کھٹکھٹا چکا تھا مگر بچے کو کہیں سے افاقہ نہیں ہو رہا تھا. ایسے میں کسی عزیز نے والد کو ایک بزرگ کا پتہ بتایا، والد جھجھکا کہ جہاں سارے طبیب اور حکیم ناکام ہو چکے، وہاں ایک گڈری پوش کیا کر سکتا ہے. مگر بیٹے کی تکلیف سے بے چین ہوا تو بلاارادہ اس بزرگ کی خانقاہ کی طرف جا نکلا، جب اپنے آپ کو خانقاہ کے دروازے پر پایا تو چونکا، پلٹنا چاہا مگر بیٹے کی تکلیف یاد آئی تو قدم خود بخود بزرگ کی خدمت میں لے گئے. حجرہ میں بزرگ اپنے معمول کی عبادت میں مصروف تھے. خادم خاص کے توسط سے اذن باریابی پایا تو عرض مدعا کیا. بزرگ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور کہا جاؤ میاں اپنے گھر جاؤ اور اللہ تعالی کے حضور سجدہ کرو، وہی شفا دینے والا ہے. بچے کے والد کو کچھ خاص تعداد میں نوافل ادا کرنے کی تلقین کر کے رخصت کر دیا. ادھر وہ شخص گھر کی طرف روانہ ہوا ادھر روشن ضمیر بزرگ نے نیت باندھی اور گڑگڑا کر دعا مانگنی شروع کی، خداوند قادر مطلق نے اپنے ولی اور عاجز بندے کی التجا نہ ٹھکرائی اور بچے کو شفا مل گئی. بچے کا والد خوش اور نہال واپس آیا. جب شکریہ ادا کرنا چاہا تو فرمایا ہم نے کچھ نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی نے تمہاری دعا قبول کر لی، خادم خاص جو واقف حال اور واقعہ کا عینی شاہد تھا، نے عرض کی، یاحضرت! اگر اس شخص کے سامنے دعا فرما دیتے تو کیا حرج تھا؟ صاحب ثروت شخص تھا کچھ لنگر کے لیے ہی دے جاتا. یہ سننا تھا کہ بزرگ کا چہرہ غصے سے متغیر ہو گیا، کہا سن اے نادان! اگر اس شخص کے سامنے گریہ و زاری کرتا اور بچے کو شفا مل جاتی تو اس شخص کا یقین اللہ تعالی کے بجائے مجھ پر پختہ ہو جاتا جبکہ ہمارا مقصد و منشا لوگوں کا رخ اللہ تعالی کی طرف موڑنا ہے نہ کہ اپنی طرف.. اللہ اللہ.
یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ شہنشاہ ہند، امام ارباب طریقت، پیشوائے اصحاب حقیقت اور ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کے بانی حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی حسن سنجری تھے. آپ کہ ہندوستان کے تمام ولیوں کے امام قرار پائے، قصبہ سنجر میں پیدا ہوئے، اور خراسان میں پرورش پائی. سلسلہ نسب حسینی تھا. خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن احمدحسن بن طاہر حسن بن عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب. روحانی سلسلہ بھی سولہ واسطوں سے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب تک پہنچتا ہے. جب والد بزرگوار خواجہ غیاث الدین نے وفات پائی توآپ کی عمر پندرہ سال تھی. کل سرمایہ ایک باغ تھاجو آپ کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھا. ایک مجذوب فقیر، نام کہ جس کا ابراہیم تھا، نے فقر کی راہ دکھائی تو اپنی کل متاع راہ خدا میں تقسیم کر کے طلب حق میں عازم سفر ہوئے. مدت تک سمرقند اور بخارا میں رہ کر قرآن پاک حفظ کیا اور دیگر علوم ظاہری کی تعلیم حاصل کی مگر گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا. بغداد میں مسجد جنید بغدادی میں خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں پہنچے تو گوہر مقصود ہاتھ آیا. چنانچہ انیس الرواح میں خود لکھتے ہیں.
”بغداد میں خواجہ عثمان ہارونی کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی، عرض مدعا کیا تو پہلے نماز دوگانہ پڑھنے کا حکم ہوا، تعمیل کی تو سورۃ بقرہ اور پھر 21 مرتبہ کلمہ سبحان اللہ پڑھنے کا حکم دیا. بعد میں خود کھڑے ہو کر منہ آسمان کی طرف کیا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا. بعد از رسومات بیعت سلسلہ آٹھ پہر کا مجاہدہ کروایا، پھر کہا اوپر دیکھو، دیکھا تو پوچھا کیا دیکھا، عرض کیا عرش عظیم تک سب دکھائی دیا. پھر زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا دیکھو، پھر پوچھا، کیا دیکھا تو عرض کیا حجاب عظمت تک سب دیکھا، پھر اپنی دو انگلیوں کے بیچ میں دیکھنے کا حکم دیا اور پوچھا کیا دیکھا، عرض کیا اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوقات کا نظارہ کیا تو شیخ نے فرمایا جا تیرا کام سنور گیا. پھر صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اپنے پاس رہنے کی اجازت دی.“
صاحب مراتہ اسرار کے مطابق ڈھائی سال اور انیس الرواح کے مطابق بیس سال تک مرشد کی خدمت میں رہ کر تربیت حاصل کی اور خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے.
مرشد سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد مرشد کی اجازت سے آپ حسب دستور صوفیاء سیر جہاں کو نکل پڑے اور جگہ جگہ رشد و ہدایت کے چراغ روشن کرتے آخرکار وارد ہندوستان ہوئے. تبریز، منہہ، خرقان، استر آباد، ہرات، سبزوار میں آپ کے روشن کیے ہوئے، روحانیت کے چراغ آج بھی بھٹکے ہوؤں کے لیے مشعل راہ ہیں. سبزوار میں محمد یادگار نامی حاکم اپنی سخت مزاجی، کجی طبع اور بد عقیدگی کے لیے مشہور تھا، انتہائی فاسق و فاجر شخص تھا. آپ نے لوگوں کے منع کرنے کے باوجود اسی کے باغ میں اقامت اختیار کی اور اس کو راہ راست پر لائے. نتیجتا وہی محمد یادگار جو خلق خدا کے لیے باعث آزار تھا، اپنی تمام عادات بد سے تائب ہوا اور بیعت ہو کر اپنا تمام مال و متاع راہ خدا میں تقسیم کر کے عارف باللہ اور صاحب ارشاد ہو گیا. آج بھی محمد یادگار کا مزار مرجع خلائق ہے. سبزوار سے آپ بلخ تشریف لے گئے، بلخ سے غزنی اور وہاں سے لاہور تشریف لائے. لاہور پہنچ کر حضرت علی ہجویری کے مزار مبارک سے فیض یاب ہوئے. اس وقت حضرت شیخ حسین زنجانی حیات تھے. ان سے آپ کے گہرے تعلقات کے کافی شواہد موجود ہیں. لاہور سے عازم دلی ہوئے. دلی اس وقت رائے پتھورا چوہان کا پایہ تخت تھا. یہاں کے لوگ مسلمانوں کی شکل دیکھنا بھی گناہ سمجھتے تھے. صاحب مراتہ اسرار نے سیر العارفین کے حوالے سے لکھا ہے کہ خواجہ بزرگ نے دلی میں جہاں قیام فرمایا، وہاں اب شیخ رشید مکی کی قبر ہے. دلی میں آپ کے مرید پانچ وقت اذان دیتے اور نماز باجماعت ادا کرتے. کفار آخر یہ سب کیسے برداشت کرتے لہذا آپ کو نقصان پہنچانا چاہا لیکن جب بھی کوئی عملی قدم اٹھانا چاہتے تو خود کو بے بس پاتے. جب بھی کسی نے ضرر پہنچانا چاہا تو قدرت خداوندی سے جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا. دلی میں آپ کے قیام کے دوران ایک ہندو نے خنجر کے ذریعے آپ کی جان لینا چاہی مگر جیسے ہی سامنے آیا تو آپ کے جلال کے سامنے بےبس ہو گیا، آخر تائب ہوا اور مشرب بہ اسلام ہوا.
آپ مجمع سے گھبراتے تھے اور جہاں بھی آپ کی شہرت ہونے لگتی وہاں سے اذن خداوندی سے کوچ کر جاتے. اسی لیے دلی سے کوچ کر کے اجمیر تشریف لے گئے. رائے پتھورا چوہان اکثر اجمیر آیا کرتا تھا. ایک ہندو جوگی اجپال سنگھ نے رائے پتھورا چوہان کی شہ پر خواجہ بزرگ کی راہ میں مزاحم ہونا چاہا مگر کمالات و جمالات ولی اللہ دیکھ کر تائب ہوا اور ایمان لایا. یہ دیکھ کر رائے چوہان نے آپ کو براہ راست نقصان پہنچانا چاہا. سیر اولیا میں لکھا ہے کہ رائے پتھورا خواجہ کے ایک مرید کے درپے آزار تھا، اس نے آپ سے مدد کی التجا کی، آپ نے رائے پتھورا کو پیغام بھیجاکہ اسے مت ستاؤ مگر رائے پتھورا باز نہ آیا اور خواجہ کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے. جب آپ کو علم ہوا تو فرمایا.
”پتھورا را زندہ گرفتہ بدست لشکر اسلام دادم“.
ہم نے رائے پتھورا کو زندہ گرفتار کر کے لشکر اسلام کے حوالے کیا.
ایسا ہی ہوا، رائے پتھورا اللہ کے حکم سے سلطان فخرالدین سام عرف شہاب الدین غوری کے لشکر کے ہاتھوں زندہ گرفتار ہوا اور بعد میں قتل ہوا. اس دن سے اسلام نے ہندوستان میں قدم جمانے شروع کیے، اس کے بعد دلی کے تخت پر کوئی ہندو قدم نہ جما سکا. دلی کے نواح سے قبائل جوق در جوق آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے گئے اور اسلام ہندوستان میں جڑ پکڑتا گیا.
حضرت خواجہ معین الدین چشتی قران پاک میں اس فرمان الہی کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے، پر کامل یقین رکھتے تھے اور کسی کو براہ راست اسلام کی دعوت نہیں دیتے تھے، جو شخص صدق دل اور خلوص نیت سے اسلام کی سچائی سے متاثر ہوتا اسے قبول کر لیتے. مسلم غیر مسلم، اپنے پرائے، سب آپ کی صحبت میں حاضر رہتے اور حسب توفیق خداوندی فیض یاب ہوتے. آج بھی آپ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر مذہب و ملت کے لوگ حاضری دیتے ہیں اور جھولیاں بھرتے ہیں. مراتہ اسرار کے مطابق خواجہ بزرگ کے بعد طبقا بعد طبقا آپ کے خلفا ہر دور میں آپ کی مسند ارشاد پر متمکن ہو کر ہندوستان بھر میں معنوی طور پر تصرف کرتے ہیں اور ولایت صوری و معنوی کا عزل و نصب آپ کے تصرف میں دیا جاتا ہے. آپ کے خلفا کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر خواجہ قطب اسلام حضرت بختیار کاکی اور حمیدالدین ناگوری نے پورے ہندوستان میں آپ کے پیغام کو عام کیا. خواجہ قطب اسلام حضرت بختیار کاکی نے آپ کے ملفوظات کو دلیل العارفین میں قلمبند کیا ہے. ان میں سے چند فرمودات کو نقل کیا جاتا ہے.
1. جس نے کچھ پایا، خدمت سے پایا.
2. نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کرتا ہے.
3. جب آدمی رات کو باطہارت سوتا ہے تو حکم ہوتا ہے کہ فرشتے اس کے ہمراہ رہیں، وہ صبح تک اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ تعالی اس بندے کو بخش دے کیونکہ یہ باطہارت سوتا ہے.
4. انسان کے ہر بال کے نیچے جنابت ہے، پس لازم ہے کہ جس جس بال کے نیچے جنابت ہے وہاں پانی پہنچایا جائے، اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو روز قیامت وہی بال اس انسان سے جھگڑے گا.
5. جس کی نماز نہیں اس کا ایمان نہیں.
6. قبرستان میں عمدا کھانا پینا گناہ کبیرہ ہے، جو عمدا کھائے گا وہ ملعون اور منافق ہے کیونکہ گورستان جائے عبرت ہے نہ کہ حرص و ہوا کی جگہ.
7. جو شخص آخرت اور دوزخ کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ فرمانبردار رہے، کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک اطاعت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، جب پوچھا گیا کہ کون سی اطاعت تو ارشاد ہوا، عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی اور بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی کام نہیں.
8. جو شخص قران پاک کو دیکھتا ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کی بینائی زیادہ ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھ کبھی نہیں دکھتی اور نہ خشک ہوتی ہے.
9. جو بیماری کسی علاج سے ٹھیک نہ ہو وہ صبح کی نماز کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان اکتالیس دفعہ سورۃ فاتحہ بسم اللہ کے ساتھ پڑھ کر دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے. مزید فرمایا سورۃ فاتحہ ہر مرض کی دوا ہے.
خواجہ معین الدین کی اولاد کے بارے میں دو روایات ہیں. اکبر نامہ اور تاریخ قتال نامہ جہانگیری کے مطابق آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی مگر دوسری روایت جو مختلف حوالوں سے تصدیق شدہ ہے، کے مطابق آپ کی دو ازواج تھیں بی بی امتہ اللہ جن سے ایک لڑکی حافظہ جمال پیدا ہوئیں. دوسری بی بی عصمت جن سے شیخ فخرالدین اور شیخ حسام الدین پیدا ہوئے. آپ کی نسل شیخ حسام الدین سے چلی. آپ کا وصال چھ رجب 627 ہجری کو سلطان شمس الدین التمش کے دور میں ہوا. وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک ستانوے برس تھی. آپ کا مزار اجمیر شریف ہندوستان میں آج بھی مرجع خاص و عام ہے.
تبصرہ لکھیے